معین الدین (بنگلہ دیش)
چند دکنی نثر نگار

ہر زبان میں نثر نگار زیادہ ہوتے ہیں اور صاحب طرز ادیب کم۔ اس لیے کہ طرز ادا کا تعلق بیان سے نہیں بلکہ حسن بیان سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات پیرایہ بیان کو خیال اور مواد سے علیحدہ ایک ایسی معروضی حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے جس کا تعلق صناعی اور زیبائش سے ہو اور جدید تحقیق و تجربے کی رو سے یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ اردو کی پیدائش تیرھویں صدی عیسوی کے لگ بھگ دو آبۂ کنگ و جمن کے علاقے میں ہوئی۔ اس سر زمین میں یہ زبان ابھی پختہ بھی نہیں ہونے پائی تھی اور فارسی کے درباری زبان ہونے کی وجہ سے یہ زبان زیادہ ترقی بھی نہ کرنے پائی تھی کہ مسلمانوں نے جنوب کا رخ کیا اور اولاً علاء الدین خلجی اور اس کے وزیر ملک کافور کے دکن پر مسلسل فوج کشی  کی وجہ سے یہ زبان حیدآباد دکن پہنچی۔ پھر محمد تغلق ۱۳۲۶ء  یا ۲۷ء میں اپنا دارالسلطنت دہلی سے دولت آباد منتقل کر دیا جس کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ اہل علم و فضل بھی دہلی چھوڑ کر دکن آ گئے۔ ہر چند کہ بعد میں بادشاہ پھر دہلی واپس آ گئے، مگر اہل علم و فضل کے ایک بڑے طبقے نے یہیں یعنی دکن ہی میں بودوباش اختیار کر لی۔
حیدر آبا ددکن کی کوئی ایک مقامی زبان نہ تھی، اس لیے اس نومولود زبان کو کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور پھر اسے شاہی سرپرستی بھی حاصل ہو گئی چنانچہ یہ زبان پھلنے پھولنے لگی اور دکنی یا ہندی کے نام سے موسوم ہوئی۔ سب سے پہلے بہمنی دور میں صوفیائے کرام نے اس عوامی زبان میں لکھنے لکھانے کی ابتدا کی، یعنی دکن میں باقاعدہ اردو نثر کی ابتدا کا سہرا ان صوفیاء کے سر ہے جنھوں نے اپنے موضوع تصورات و عقائد کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اسے استعمال کیا، ان مضامین کے مخاطب عوام تھے اور انھوں نے ابلاغ و ترسیل کے ایک ایسے وسیلے کو اپنایا تھا جو اسلوب کی سحر آفرینی سے زیادہ بیان کی افادیت، ادبی ثقافت سے زیادہ وضاحت اور عشقیہ کیفیت سے زیادہ باطنی واردات کی ترجمانی کے لیے موزوں تھا۔ ان کی تصانیف کا بنیادی مقاصد تو مذہبی تعلیمات اور متصوفانہ مسائل کی توضیح و تشریح تھا اور اخلاق آموزی اور بس۔ بیجا پور میں نثر کی روایت پہلے قائم ہوئی برہان الدین جانم۔      امین الدین اعلیٰ، میران یعقوب، عابد شاہ، خدا نما اور مخدوم حسین وغیرہ کے رسالے مذہبی تبلیغ و اشاعت کی غرض سے لکھے گئے تھے۔ شمس العشاق اور میرا جی سے جو نثری رسالے منسوب کیے جاتے ہیں، ان میں ’’جل ترنگ‘‘ اور ’’گل باس‘‘ وغیرہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ شمس العشاق ہی کی تصنیف ہے اور برہان الدین جانم کی ’’جکمنہ الحقائق، دبستان بیجا پور کی ایک ایسی تصنیف ہے جس کے مصنف کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ یہ ہماری قدیم ترین نثر کا ایک مستند نمونہ ہے اور یہ رسالہ اس دور کے دوسر ے رسالوں کی نسبت ضخیم ہے۔
صوفیائے دکن میں امین الدین اعلیٰ کی شخصیت ایک امتیازی شان کی حامل نثر آتی ہے۔ شاہ امین اور ان کے مریدوں نے جن کی تعداد تقریباً ہزار تک پہنچتی ہے، نظم و نثر کی ترقی میں نمایان حصہ لیا ہے۔  ایک ایسی زبان جو ’’کھربھاکا‘‘ کہلاتی تھی نہ صرف رشد و ہدایت کا مؤثر ذریعہ بن گئی بلکہ درویشوں اور صوفیوں نے اسے ترویج کا ایک اہم وسیلہ بھی بنا دیا جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس زبان میں فکر و فن کے اظہار کی اچھی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ امین الدین اعلیٰ نے نثر میں بہت سے رسالے سپرد قلم کیے ، جن میں ’’گنج مخفی‘‘، رسالہ ’’وجودیہ‘‘، گفتار شاہ امین‘‘، ’’ارشادات‘‘، ’’ظاہر و باطن‘‘، ’’عشق نامہ‘‘، ’’ شرح کلمہ طیب‘‘ اور ’’کلمہ الاسرار‘‘ وغیرہ ہیں۔ انھوں نے اپنی تعلیمات کا نچوڑپیش کیا ہے۔ ان سب رسالوں میں قدامت کے باوجود کہیں اشکال پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک ایسے دور میں جبکہ زبان بھی عالم طفولیت میں تھی اور اپنے تشکیلی دور سے گزر رہی تھی، اتنی اصلاحات وضع کرنا اور انھیں عوام کے لیے قابل فہم بنا کر پیش کرنا آسان کام نہیں تھا۔
رسالہ ’’وجودیہ‘‘ میں شاہ امینؔ نے اپنے مخصوص تصوف یعنی پانچ عناصر پچیس گن سے بحث کی ہے۔ ان کے اکثر بیانات میں استعارے کا لطف پیدا ہو گیا ہے۔ رسالہ ’’گفتار شاہ امین‘‘ میں ذات باری اور نور محمدی سے متعلق تحشویحات موجود ہیں اور رسالہ ’’ارشادات‘‘ اور رسالہ ’’ظاہر و باطن‘‘ کی عبارتیں روانی اور دلچسپی سے خالی نہیں۔ شاہ امینؔ کا رسالہ ’’حکمت الاسرار‘‘ ان کے دوسرے رسالے سے بہتر ہے اور اس میں متصوفانہ اصلاحات کی بہتات سے پانچ عنصر پچیس گن کے نظریہ کی تکرار ہے۔
برہان الدین جانم کی زبان پر دیسی الفاظ کا غلبہ تھا لیکن شاہ امینؔ کی تحریریں عربی اور فارسی کی اثر پذیری سے غماز ہیں لیکن اس دور کے مصنفین میں مُلّا وجہی کا نام سر فہرست ہے اور ان کا اسلوب وطرز تحریر ہم عصر مصنفین سے خاصی مختلف ہے۔ ویسے اس دور کے تمام دکنی ادیبوں کا موضوع مذہب، تصوف اور اخلاق سے متعلق ہے۔ مُلّا وجہی کی’’ مثنوی قطب مشتری‘‘ اور نثری کتاب ’’سب رس‘‘ اپنی طرز کے بہترین نمونے ہیں۔ چونکہ ہر دور میں ادب کی ہم عصرانہ خصوصیت بھی ہوتی ہے جو مواد اور ہیئت و اسلوب دونوں میں اپنی جھلک دکھائی رہتی ہے، جس طرح انگریزی دانشور شیکسپیئر ؔاور مارلوؔ دونوں ہم عصر شعراء تھے لیکن ان کے طرز ادا میں خاصہ اخلاف تھا۔
اردو کی ادبی کتاب یعنی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مُلّا وجہی کی زندگی کا آخری حصہ ایک دوسرے شاعر غواصیؔ سے مسابقت میں گزرا۔ غواصیؔ  مُلّا وجہی کا نو عمر معاصر تھا لیکن دیکھتے دیکھتے اس نے بادشاہ قطب شاہ کے دربار میں اپنی ساکھ قائم کر لی تھی۔ ملک الشعراء کے خطاب سے سرفراز ہو کر وہ وجہی کے لیے ایک چیلنج بن گیا تھا۔ ایک عرصہ تک گوشہ نشینی میں زندگی گزارنے کے بعد بادشاہ عبداللہ قطب شاہ کے عہد میں وجہیؔ لائین دھنک قطب مشتری کا ادبی وقار متاثر ہوا تھا اور زمانی اعتبار سے ’’قطب مشتری‘‘ کی اولیت مسلمہ سہی لیکن فنی محاسن اور زبان و بیان کی خوبیوں کے لحاظ سے وہ ’’سیف الملوک اور بدیع الجمال‘‘ کی ہم پایہ مثنوی نہیں تھی۔ یعنی وجہیؔ کے حریف غواصیؔ سے مثنوی کا میدان جیت لیا تھا۔ جبکہ داماندگی شوق نے نثر میں پناہ ڈھونڈ کر وجہیؔ کے لیے تمام حسن کے اظہار اور ادبی شخصیت منوانے کے سامان فراہم کر دیئے تھے لہٰذا عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر اپنی کتاب ’’سب رس‘‘ لکھی جو اپنی طرز کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کتاب میں وجہی نے ایک پامال مضمون کو اچھوتے انداز میں پیش کر کے اپنی انفرادیت اور عظمت کا سکہ بٹھا ٹیا۔ وجہیؔ کا روئے سخن ادبی معرکوں کے مدمقابل غواصیؔ کی طرف ہوتا ہے۔ جس سے اس کی چشمک رہا کرتی تھی۔
مُلّا وجہی نہ صرف اپنے کمال انشا پردازی پر ناز کرتا ہے بلکہ اپنی زبان کو بھی سرمایہ افتخار سمجھتا ہے اور اسے گوالیار کے چانداں کی زبان سے موسوم کرتا ہے۔ کتاب ’’سب رس‘‘ اردو کی پہلی داستان ہی نہیں بلکہ پہلی تمثیل بھی ہے۔ جس سے مصنف نے حسن و دل کے معاشقے کو علامتی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب ’’سب رس‘‘ میں عقل اور عشق دو طاقتور بادشاہوں کی جنگ اور باہمی کشمکش کی جو داستان بیان کی گئی ہے وہ دراصل انسانی فطرت کے دو بنیادی تقاضوں کی آویزش ہے اور انہی کی ہم آہنگی سے متوازن شخصیت صورت پذیر ہوتی ہے۔
دکن کے ایک اور نثر نگار میراں یعقوبؔ ہیں ان کی تصنیف ’’شماالاتقیاد‘‘ ایک ضخیم کتاب ہے جسے مذہبی احکام کی توضیح و تشریح کے لیے چار قسم کے اور نوے بیان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تصنیف بعض خصوصیات کی وجہ سے اس دور کی دوسری تصنیفات سے ممتاز نظر آتی ہے۔ میراں یعقوبؔ نے دور جدید کے مصنفین کی طرح حوالے کی ان کتابوں کی فہرست بھی دے دی ہے جن سے انھوں نے استفادہ کیاہے۔ ایک دوسرے لکھاری میراں جیؔ خدانما کا شمار ان قدیم نثر نگاروں میں ہوتاہے جن کی تصانیف نے اردو نثر کی راہ متعین کی اور اس کا معیار قائم کیا۔ خدانماؔ کی نثر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ مثالوں کے ذریعے سے اپنے مافی الضمیر کی وضاحت کرتے ہیں اور یہ مثالیں انھوں نے روزانہ زندگی سے اخذ کی ہیں۔
پھر ایک شاہ راجو قتالؔ کے مرید عابد شاہؔ قطب شاہی دور کے ایک صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے، وہ شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ انھوں نے تقریباً ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابوں کی مدد سے فقہ حنفی کے مسائل پر ’’کنزالمومنین‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی۔ ایک اور تصنیف’’گلزار السالکین‘‘ میں معرفت کی مختلف منازل کا مفصل ذکر موجود ہے۔ یہاں شہباز بلند پرواز خواجہ بندہ نواز کا ذکر اس لیے بے محل ہوتا ہے کہ آپ سے منسوب ’’معراج العاشقین‘‘ دراصل مخدوم شاہ حسینی کی تصنیف ہے ۔ ’’معراج العاشقین‘‘ خواجہ بندہ نواز کی تصنیف نہیں بلکہ گیارھویں صدی کے آخر اور بارھویں صدی کے آغاز کے ایک بزرگ مخدوم شاہ حسینی کی کاوش ہے جو پیراللہ مخدوم حسینی چشتیہ سلسلے کے ایک کثیر التصانیف بزرگ تھے۔
حیدرآباددکن میں اردو کی ترقی کا اصل دور پندرھویں صدی عیسوی کے اختتام سے شروع ہوتا ہے جب بہمنی سلطنت کے کھنڈر پر گول کنڈہ، بیجا پور، احمد نگر، برار اور بیدرمیں پانچ مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں ان سلطنتوں میں اردو براہ راست شاہی سرپرستی میں نشوونما پانے لگی۔ ان میں سے بیجا پور اور گول کنڈہ میں اردو ادب نے بڑی ترقی کی۔ گول کنڈہ کے قطب شاہی سلاطین اور بیجا پور کے عادل شاہی سلاطین خود بھی اہل علم تھے اور انھوں نے اپنے درباروں میں بڑے بڑے علماء و فضلاء کو جمع کر رکھا تھا۔ بیجا پور کے شعراء میں رستمی اور نصرتی نے اردو میں خاص کمال پیدا کیا۔ رستمی نے ’’خبر نامہ‘‘ جیسی طویل مثنوی لکھی اور نصرتی نے غزل و قصائد کے علاوہ ’’گلشن
میرا شہر لوگوں سے مامور کر رکھیو
جیوں دریا میں مچھلی جیسے
حیدرآباد دکن میں چار مینار کی یادگار تصویر قلی قطب شاہ نے اپنی  بیگم (بھاگ متی)جو بعد میں مسلمان ہو گئی تھی، کی یاد میں ۱۵۵۱ء میں تعمیر کیا

عشق‘‘، ’’علی نامہ‘‘ اور ’’تاریخ سکندری‘‘ وغیرہ لکھی۔ گول کنڈہ میں خود سلطان قلی قطب شاہ عظیم شاعر ہوا ہے۔ انھیں اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں تصوف اور عشق کے علاوہ مناظر قدرت اور سماجی زندگی کو بھی موضوع بنایا اور اردو شاعری کے موضوعات کو وسعت بخشی جبکہ قطب شاہی دور کے دوسرے ادیبوں میں مُلّا وجہی کا نام سر فہرست ہے۔ ان کی مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ اور نثری کتاب ’’سب رس‘‘ اپنی طرز کے بہترین نمونے ہیں۔ یہ دور زبان کی بعض خامیوں کے باوجود اردو ادب کی تاریخ کا ایک کلیدی دو رہے اور اسی دور میں پہلی مرتبہ اردو نے ادبی زبان کی حیثیت سے اپنے لیے جگہ بنائی اور اردو ادب کے چند بہترین نمونے وجود میں آئے اور اردو میں مرثیے بھی پہلی مرتبہ اس دور میں لکھے گئے۔
اردو کا اگلا دور دکن میں مغلیہ عہد سے شروع ہوتا ہے جب گیارھویںہجری میں یکے بعد دیگرے نظام شاہی ، عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں تو دکن کے صوبیدار اورنگ زیب عالمگیر نے اورنگ آباد کو اپنا صدر مقام قرار دیا۔ جس کی وجہ سے اورنگ آباد، دہلی کے امراء اور شعراء کا مرکز بن گیا اور گول کنڈہ اور بیجا پور کے باکمالوں نے اورنگ آباد کا رخ کیا۔ اس دور کے شعراء میں محمود بحریؔ اور عشرتی وغیرہ کے نام اہم ہیں اور ان کے بعد ولی دکنیؔ کا نام سر فہرست ہے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کا آغاز ولی دکنی کے بعد ہوا بلکہ ولی دکنیؔ کا دیوان دیکھ کر ہی شمالی ہند میں اردو زبان میں شاعری کرنے کی تحریک ہوئی اور اس طرح شمالی ہند کی پوری اردو شاعری اپنی پیدائش کے لیے ولی دکنیؔ کی مرہون منت ہے۔ اس کے بعد دکن میں اردو کا اہم دور سلطنت آصفیہ سے شروع ہوتا ہے کیونکہ دہلی میں مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی ساتھ دکن آصف جاہ اول کی قیادت میں خود مختار ہو گیا اور نواباں آصفیہ تقریباً ڈھائی سو سال تک دکن میں حکمرانی کرتے رہے۔ حکومت آصفیہ میں اردو زبان کو بڑی ترقی نصیب ہوئی اور سرکاری زبان فارسی سے اردوکر دی گئی تو سرکاری سر پرستی نے اردو کی ترقی و ترویج میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور اعلیٰ تحقیقی ادب کی تصنیف و تالیف کے لیے سر رشتہ تعلیم اور علوم و فنون کا محکمہ قائم کیا گیا جس سے سید علی بلگرامی اور شبلی نعمانی وغیرہ جیسی شخصیتیں وابستہ رہیں اور اس ادارے سے سلسلہ آصفیہ کے نام سے بہت ساری بیش بہا کتابیں نکلتی رہیں۔ زبان و ادب کی عظیم ترقی کے لیے بہت ساری انجمنیں قائم کی گئیں اوراس دور میں تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ اور تنقید کے سلسلے میں ڈاکٹر یوسف حسن خان اور سید عبدالقادر سروری وغیرہ ہوئے۔ افسانہ نگاری میں واجدہ تبسمؔ ، سلیمان ادیب اور شاد تمکنت وغیرہ نے جبکہ شاعری میں اقبال متینؔ، نصیرالدینؔ ہاشمی وغیرہ نے۔ خواتین میں آمنہؔ ، جیلانیؔ  بانو وغیرہ نے شہرت حاصل کی۔
گو ارد و شمالی ہند میں پیدا ہوئی مگر اس نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں جب زیست کا مسئلہ سب سے دشوار ہوتا ہے، جنوبی ہند میں پرورش پائی لہٰذا زبان و ادب کے ارتقاء میں دکن کا حصہ اہم ہی نہیں بلکہ کلیدی ہے۔

٭٭٭٭