احمدندیم قاسمی
ڈاکٹر فرمان فتح پوری…بڑا نقاد، بڑاا نسان

پیش نظر مضمون کے علاوہ ڈاکٹر اسلم فرخی ، ادا جعفری ، ڈاکٹر شباہت علی اورڈاکٹر ہلال نقوی کے مضامین کے اقتباسات ہم نے امرائو طارق کی کتاب ''ڈاکٹر فرمان فتح پوری ( حیات و خدمات)سے مستعار لیے ہیں، یہ کتاب اپنے قیمتی مواد، تجزیاتی اور معلوماتی مقالات اور سوانح حیات کی بعض توضیحات کے حوالے سے ایک اہم عصری دستاویزی شہاد ت کی حیثیت رکھتی ہے، جسے ''فتح پور ایجوکیشنل سوسائٹی'' گلشن اقبال کراچی نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ۔
ایسا اتفاق کم ہی ہوا ہے کہ کوئی محقق اور نقاد دس نہ بیس بلکہ پوری چالیس کتابوں کا مصنف ہو اور ان میں سے ہر کتاب معیاری ہو۔ کوئی تصنیف ایسی نہ ہو جس کے بارے میں یہ شبہ تک بھی نہ گزرے کہ اسے روا روی میں لکھا گیا یا ضرورتاً لکھا گیا یا مصلحتہً لکھا گیا۔ ادیب کی ہر تحریر معیاری نہیں ہوتی۔ کہیں نہ کہیں اس سے کوئی نہ کوئی کمزوری سرزد ہو جاتی ہے مگر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی حیثیت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ان کی ہر تصنیف ان کمزوریوں سے مبّرا ہے۔ یوں کہیں کہ ان میں کمزور چیز لکھنے کی ''صلاحیت'' ہی نہیں ہے۔
میں نہ محقق ہوں اور نہ نقاد، محض شاعر اور افسانہ نگار ہوں مگر عمر بھر مطالعہ کیا ہے اور معیاری جرائد کی ادارت کی ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ موضوعات کا جتنا حیرت انگیز تنوع ڈاکٹر فرمان صاحب کے ہاں ہے ایسا اور کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ اس تنوع کا واحد سبب ان کی وسعت مطالعہ ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ فرمان صاحب شاعری اور افسانوں اور داستانوں اور تذکروں کے بارے میں اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب کے بارے میں اور غالب، انیس ، اقبال، نیاز، حسرت اور جوہر کے بارے میں اور پھر معاصر شعر وادب کے بارے میں اتنے پختہ اعتماد کے ساتھ لکھتے اور لکھتے چلے جاتے۔ ساتھ ہی اس تنوع کے باوجود ان کے مضامین نامانوس اصطلاحات وتراکیب سے بوجھل بھی نہیں ہوتے اور املا اور رسم الخط کے سے موضوعات پر بھی جب لکھتے ہیں تو ان کی تحریر میں اتنی سلاست اور روانی ہوتی ہے کہ قاری کو کسی ایک بھی مقام پر غرابت محسوس نہیں ہوتی۔ قدرت نے ڈاکٹر فرمان کو یہ جوہر نہایت افراط سے ودیعت کیا ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ بعض خاصے نامی گرامی نقادوں اور محققوں کی بعض تصانیف ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کے مطالعے سے افسوس ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ جیسے پوری کتاب ایک دن یا ایک رات میں بیٹھ کر لکھ لی گئی۔ فرمان صاحب کے ہاں اس طرح کی سہل نگاری کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ ان کا ایک ایک لفظ اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ اسے انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ سپرد قلم کیا گیا پھر ہمارے بیشتر نقاد حضرات اس مرض میں بھی مبتلا ہیں کہ جو کچھ ان سے کچھ پہلے کے معروف ناقدین نے لکھا اسے اپنے الفاظ میں دھرا دیں۔ اس سے پہلے کی تنقیدوں میں جن شعراء و ادبا کا ذکر آیا، انہی کا تذکرہ کریں اور انہی کے مطالعے کے نتائج کی تکرار کر دیں۔ یوں یہ تاثر عام ہے کہ ہمارے نقاد (الاماشاء اللہ ) ذاتی مطالعے سے اپنا ذاتی تاثر حاصل کرنے اور اپنی ذاتی رائے مرتب کرنے کے اہل نہیں رہے یا وہ ماضی کے نقادوں کے فیصلوں سے انحراف کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔ ان کے برعکس فرمان صاحب کی تنقیدوں اور تحقیقوں میں مفاہیم کی جو گہرائیاں ہیں وہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے ہاں جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ذاتی مطالعہ کے ثمرات ہیں اور انھوں نے شعر و ادب کو اپنی فنی کسوٹیوں پر کسا ہے۔
اردو لغت کے عظیم المرتبت منصوبے کو صحت اور توازن کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے کے سلسلے میں ڈاکٹر فرما ن فتح پوری کی محنت و کاوش ، تاریخ زبان اردو کا ایک سنہری باب ہے۔ اتنے بڑے منصوبے میں کہیں کوئی ذرا سی کمی رہ بھی گئی ہو تو یہ الگ بات ہے ورنہ لغت کی ہر جلد کو مرتب کرنے سے پہلے وہ اتنی بے حساب محنت کرنے کے عادی ہیں کہ ان کے معیار کارکردگی پر رشک آتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر میرے افسانوں یا میری شاعری میں کوئی ایسا لفظ وارد ہوتا ہے جو اس سے پہلے شاذ ہی استعمال ہوا ہو تو وہ براہ راست مجھی سے اس لفظ کا مفہوم معلوم کرتے ہیں اور پھر اس لفظ کی تاریخ کھنگال کر اسے زیب لغت بناتے ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت مبالغے کی حد تک دل آویز ہے۔ ان کے ہاں اتنا خلوص، اتنی محبت، اتنی اپنائیت ہے کہ ان سے جو بھی ملتا ہے انھیں اپنا سمجھنے لگتا ہے۔ انسان ان سے محبت کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ ان کے پیکر میں محبت کی تجسیم ہو گئی ہے۔ مگر انہی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مجال ہے جو وہ کسی بھی مرحلے پر حق بات کے اعلان سے گریز کریں۔ ان کی تحریروں اور تقریروں میں جرأت اور حوصلہ مندی کی اتنی افراط ہوتی ہے کہ بعض اوقات یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بڑے سے بڑا ادارہ بھی ان پر دبائو نہیں ڈال سکتا اور کوئی جابر سے جابر شخصیت بھی انھیں سچی بات کہنے سے نہیں روک سکتی۔ مجھے یاد ہے ، لاہور میں رسالہ ''نقوش'' کی کوئی تقریب تھی جس کی صدارت اس دور کے آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کر رہے تھے۔ ڈاکٹر فرما ن فتح پوری نے اس تقریب میں جو تقریر کی وہ ان کی حق پرستی کی ایک بلیغ مثال تھی اور وہ اس شخص کی صدارت میں سچ بول رہے تھے جس کی خوفناک گرفت پورے پاکستان پر تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ انھوں نے دوران تقریر میرا بھی ایک شعر پڑھا اور میرے نام کے حوالے کے ساتھ پڑھا۔ یہ شعر اقتدار کے حضور گستاخی کی ذیل میں بھی آ سکتا تھا مگر انھوں نے دبنگ لہجے میں یہ شعر پڑھا اور تالیوں کی مسلسل گونج میں واپس اپنی نشست پر آ بیٹھے۔
اسی طرح علامہ نیاز فتح پوری کی ایک برسی کے موقع پر انھوں نے ارباب حکومت کے حوالے سے ایک ایسی تقریر کر ڈالی تھی کہ کوئی بڑا انقلابی بھی شاید ہی وہ سب کچھ کہہ پاتا جو انھوں نے کہہ ڈالا تھا۔ ڈاکٹر فرمان صاحب کی اس جرأت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
میں آخر میں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی کا ذکر کروں گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے نقاد حضرات کی اکثریت شعر شناسی سے محروم ہے۔ وہ شاعری پڑھاتے ہیں مگر اول تو سیدھا شعر نہیں پڑھ سکتے اور اگر شعر وزن میں پڑھیں بھی تو اس شعر کی کیفیات انھیں اپنی گرفت میں نہیں لے سکتیں۔ متعدد احباب راوی ہیں کہ ایک صاحب یونیورسٹی میں مصحفی پرلیکچر دے رہے تھے۔ جب ان کا لیکچر ختم ہوا تو ایک طالب علم نے عرض کیا کہ سر ، آپ نے اتنے اہم شاعر کے بارے میں پینتالیس منٹ تک تقریر فرمائی مگر حیرت ہے کہ اس کا ایک شعر بھی نہیں پڑھا۔ اس پر استاد مکرم خفا ہو گئے اور بولے ''عجیب بدذوق لڑکے ہو'' میں نے تو اپنے لیکچر کے دوران مصحفی کے تیس چالیس شعر پڑھے ہیں! طالب علم بے چارہ بھی سچا تھا۔ استاد صاحب یہ تمام شعر کچھ ایسے نثری انداز میں پڑھ گئے تھے کہ کوئی بڑا شعر فہم بھی ان کی نثر اور شعر کے درمیا ن خط امتیاز کھینچنے سے قاصر رہتا۔ اتنی طویل تمہید میں نے محض یہ بتانے کے لیے باندھی ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ان ''شعر مار'' حضرات سے صد فی صد مختلف ہیں۔ قدرت نے انھیں شعر فہمی کی بہت سی دولت ودیعت کر رکھی ہے چنانچہ شاعروں اور ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ ان کے باطن کی عمیق ترین گہرائیوں سے جھانک آنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو اس دور کا ایک ایسا نابغہ قرار دوں گا جن کے ہاں علم و حکمت اور شعرو فن کی تمام خوبصورتیاں مجسم ہو گئی ہیں۔٭٭٭٭