عالمی ادب سے ترجمہ

رڈیارڈ کپلنگ: ترجمہ: نیئر عباس زیدی

اس بات کو بہت بہتر طریقے سے سمجھ لینا چاہیے کہ روسی ایک ہنس مکھ شخص ہوتا ہے جب تک کہ وہ خود کو، مناسب طریقے سے، (اخلاقی) حدود کا پابند رکھے۔ ایک مشرقی کی حیثیت سے تو وہ زندہ دل ہے لیکن جب وہ اس بات پر زور دے کہ اُسے مغربی لوگوں کے ہاتھوں ایک مشرقی کی حیثیت سے برتا جائے ،بجائے اس کے کہ مشرقی لوگوں میں اسے ایک مغربی کی حیثیت سے برتا جائے تو ایسی صورت میں وہ نسلی طور پر بے قاعدہ اور انوکھی شخصیت بن جاتا ہے اور اسے قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کوئی بھی میزبان یہ نہیں جان پاتا کہ اگلے ہی لمحے اس کی شخصیت کا کون سا روپ سامنے آئے۔ ڈرکووچ(Dirkovtch)ایک روسی تھا۔ روسیوں میں سے ایک روسی- جو زار (Czar) حکمرانوں کی، کاسک(Cossack)رجمنٹ میں ایک افسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے کراور ایک روسی اخبار میں نامہ نگار کی حیثیت سے ،ایک ایسے نام سے ،کام کر کے، روزی کماتا تھا جو اکثر تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ وہ خوبرو شخصیت کا حامل نوجوان مشرقی شخص تھا جو دنیا کے انجان اور نامعلوم مقامات کی سیر کرنے کا شوقین تھا، اس مقصد کے لیے اب وہ خاص طور پر ہندوستان پہنچا تھا، اور کوئی شخص بھی یہ نہیں جان سکتا تھا، کہ وہ ہندوستان کس راستے سے پہنچا۔ آیا وہ بلخ، بدخشاں، چترال، بلوچستان کے راستے یہاں پہنچایا نیپال کے راستے یا کسی اور راستے سے۔ ہندوستانی حکومت نے، بڑے خوشگوار موڈ میں، احکامات جاری کئے کہ اس کے ساتھ شاندار برتاؤ کیا جائے اور اسے ہر وہ چیز دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ لہٰذا وہ گندی انگریزی اور بدتر فرانسیسی بولتا ہوا ایک شہر سے دوسرے شہر چلتا رہا، حتیٰ کہ وہ پشاور شہر میں ملکۂ برطانیہ کے وائٹ ہوسارز[1] (White Hussars) سے آن ملا، پشاور شہر اس تنگ پہاڑی راستے کے دہانے پر واقع ہے جسے لوگ درۂ خیبر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ یقینی طور پر ایک آفیسر تھا اور اس نے روسیوں کی طرز پر ہی سج دھج اختیار کی تھی۔ جس میں چھوٹے چھوٹے تمغے بھی شامل تھے، وہ بہتر طریقے سے بات چیت بھی کر سکتا تھا اور (اگرچہ اسے اپنی ان خصوصیات سے کچھ لینا دینا نہیں تھا) اسے ایک مایوس کن قسم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی بلیک ٹائرون (Black Tyrone) نے انفرادی اور اجتماعی طور پر وہسکی اور شہد کے ساتھ ، برانڈی سے، اور ہر طرح کے جذبات کے ملے جلے تاثر کے ساتھ یہ چیزیں اس کے سامنے پیش کیں اور اسے پینے پر بھی مجبور کیا اور جب یہ لوگ (بلیک ٹائرون)، جو نسلاً آئر ستانی ہیں، اس غیر ملکی کے ہوش اڑانے میں ناکام رہے، تو وہ غیر ملکی یقینی طور پر ایک اعلیٰ اور غیر معمولی شخص ہی ہوسکتاہے۔
وائٹ ہوسارز اپنی شراب کا برانڈ چننے میں اتنے ہی ہوشیار اور مستعد تھے جتنے دشمن پر حملے کرنے کے لئے شخص اور ان لوگوں کے پاس ، شاندار قسم کی برانڈی سمیت، جو کچھ بھی تھا اسے انہوں ڈرکووچ کے سامنے رکھ دیا، اور وہ ، بلیک ٹائرون کی نسبت، ان کی ہمراہی میں زیادہ لطف اندوز ہوا۔
لیکن وہ بذات خود اس سارے عرصے میں کامل یورپی ہی رہا۔ وائٹ ہو سارز، اس کے لئے ''دیرینہ دوست''، شاندار فوجی ساتھی'' اور''نہ جدا ہونے والے بھائی'' کی حیثیت میں تھے۔ وہ اپنے سرسے اس وقت بوجھ اترا ہوا محسوس کرے گا جب ایک تابناک مستقبل کے لئے، وہ لمحہ آجائے جب برطانیہ اور روس کے دل اور ان کی سرحدیں مل جائیں اور ''سیولائزیشن ایشیاء'' (Civilization Asia) جیسے عظیم مشن کا آغاز ہو۔ یہ بات غیر تسلی بخش تھی کیونکہ ایشیا مغرب کے طور طریقوں کے تحت تہذیب یافتہ نہیں ہوگا، ایشیا بہت بڑا ہے اور بہت قدیم ہے جیسے آپ کبھی بھی کسی ایسی خاتون کی اصلاح نہیں کر سکتے جس کے بہت سے چاہنے والے ہوں اور ایشیا تو اپنی عشق بازی میں تسکین ناپذیر رہا ہے۔ نہ تو وہاں اتوار سکول کا سلسلہ چل سکتا ہے، نہ لوگوں کو محفوظ اور پر سکون طریقے سے ووٹ ڈالنا سکھایا جا سکتا ہے۔
ڈرکووچ اس حقیقت سے اتنی اچھی طرح واقف تھا جتنا کوئی اور نہیں تھا لیکن اس کے لئے یہ بات موزوں ترین تھی کہ نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے ہی گفتگو کرے اور خود کو ایک ملنسار اور خوش اخلاق شخص کی حیثیت سے پیش کرے۔ وہ ایک عاجز شخص کی طرح اپنا کام کرتا چلا گیا، اس نے کاسک ]۱[ (Cossacks) کے بارے میں بہت ہی کم معلومات فراہم کیں۔ اس نے وسطی ایشیا میں سطحی سا کام کیا اور ''اپنی مدد آپ ''کے تحت کی جانے والی ایسے لڑائی دیکھی جیسی اس کے ساتھیوں میں روا نہیں تھی۔ وہ بڑے ہی محتاط طریقے سے ، اپنی برتری سے روگردانی نہ کرنے کے مشن پر گامزن تھا، اور اس سلسلے میں بھی محتاط تر تھا کہ وہ ملکہ عالیہ کے وائٹ ہوسارز کی وضع قطع، ڈرل، وردی اور ان کی ترتیب و تنظیم کی تعریف کرے اور حقیقی طور پر وہ ایک ایسی رجمنٹ تھی جس کی تعریف کی جائے۔
جب سر جون ڈرگن (Sir John Durgan) کی بیوہ لیڈی ڈرگن وائٹ ہوسارز کے سٹیشن آئی اور کچھ دیر بعد اس میس (mess)میں موجود تمام لوگوں سے اس کا تعارف کروایا گیا تو اس نے بڑی بے باکی سے اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا کہ وہ تمام لوگ اتنے اچھے ہیں کہ اگر اس کا بس چلے تو وہ ان تمام سے شادی کر لے، جن میں کچھ ایسے کرنل اور میجر بھی شامل ہیں جو پہلے سے شادی شدہ ہیں، اور وہ کسی ایک ہوسار پر اکتفا نہ کرے۔ بعد ازاں اس خاتون نے رائفل رجمنٹ کے ایک جوان سے شادی کر لی اور فطرتاً تضاد سے بھر پور خاتون ثابت ہوئی؛ وائٹ ہو سارز نے چاہا کہ وہ شادی کی تقریب میں پہنچ جائے، اپنے بازوؤں پر پیٹیاں باندھ کر احتجاج کریں، لیکن انہیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا، اور وہ جب اس شادی کی تقریب میں قطار میں کھڑے شریک تھے تو ان کے مزاجوں میں ناگواری کا عنصر شامل تھا۔ اس خاتون نے ان سب سے بے وفائی کی تھی۔ سینئیر کیپٹن بیسیٹ ہولمر (Besset Holmer)سے لے کر جونیئر سب الٹرن ملڈ ریڈ(Mildred)تک، جواس (خاتون کو) چار ہزار سالانہ اور ایک اعزاز تک، پیش کر سکتے تھے۔
جو لوگ وائٹ ہوسارز کو اہمیت نہ دیتے اور کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے، وہ چند ہزار یہودی نژاد افراد تھے جو سرحد کے اس پار رہتے تھے اور جنہیں ''پٹھان'' کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ سرکاری سطح پر رجمنٹ سے ملاقات کی ، تقریباً پچیس منٹ تک انٹرویو کا سلسلہ چلا، جو بہت سی پیچیدگیوں سے پُر تھا، اس کے بعد وہ (مزید) تعصب و عصبیت کا نمونہ بن گئے، اور یہ کہ وہ وائٹ ہوسارز کو شیطانی چیلہ یا ایسے افراد کی اولاد قرار دیتے تھے کہ ان سے اس مہذب معاشرے میں ملنا ناممکن تھا۔ تا ہم وہ اس بات سے مبرّا وبالا نہیں تھے کہ پیسے اکٹھے کرنے کے عمل سے روگرانی اختیار کریں۔ اس رجمنٹ (White Hussars)کے پاس ایسی کاربینز (Carbines) تھیں جو ایک ہزار گز کے فاصلے سے دشمن کے کیمپ میں گولی داخل کر سکتی تھیں، اور وہ بڑی رائفل کے مقابلے میں، اٹھانے میں بھی ہلکی تھیں۔ لہٰذا اس سرحد پر بسنے والے افراد میں یہ خاص کار بینز مقبول ہوئیں اور ان کی طلب میں اضافہ ہوا، ان کی فراہمی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی کی جاتی تھی اور ایک کاربین کی فراہمی کی قیمت اس کے وزن کے مساوی چاندی کے سکے حاصل کی جاتی۔ ساڑھے سات پونڈ وزن کے مساوی (سکے والے) روپے یا سولہ پاؤنڈ سٹرلنگ کے مساوی روپے۔ ان کار بینز کو رات کے وقت ایسے چور چوری کرتے جو سنتریوں کے قریب سے سانپ کی طرح رینگ کر نکل جاتے تھے، یہ کاربینز اسلحہ ایسے خانوں سے چوری ہو جاتیں جنہیں تالا لگایا جاتا، اور موسم گرما میں جب بیرکوں کے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھول دی جاتیں تو یہ کاربینز، اپنی ہی نال سے نکلنے والے دھوئیں کی طرح، غائب ہو جاتیں، سرحد پر بسنے والے افراد اپنی قبائلی یا خاندانی دشمنی اور ہنگامی صورت سے نمٹنے کے لیے اس کاربین کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ شمالی ہند کی طویل اور سرد راتوں میں ان کی چوری میں اور بھی شدت ہوتی ۔ پہاڑی علاقے میں اُن دنوں قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ان (کار بینز) کی قیمت میں بھی۔ اس رجمنٹ کے محافظوں کو پہلے دُگنا اور پھر تین گنا کر دیا گیا۔ اس ٹروپ کا کوئی فرد اسلحہ کے گم ہو جانے کی کوئی خاص پروا نہیں کرتا تھا۔ سگار اس کا ازالہ کر دیتی تھی ۔ لیکن اسے اپنی نیند کے کم ہو جانے کا رنج ضرور ہوتا۔ اس رجمنٹ کو چوریوں کا بڑا قلق تھا۔ ایک مربتہ ایک چور پکڑا گیا، اس کے جسم پر رجمنٹ کے جوانوں نے غصے کے عملی اظہار کے نشانات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس واقعے نے اسلحے کی چوری کو وقتی طور پر روک دیا تھا، اور محافظین کی تعداد میں کمی کر دی گئی تھی، رجمنٹ نے اپنی توجہ پولو پر مرکوز کر دی تھی، اس کے نتائج غیر متوقع تھے؛ اس نے پولو کے ایک نامور اور خوفناک ٹیم لشکر لائٹ ہارس (Lushkar Light Horse) کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست دی، اگرچہ اس کھیل کے دوران ثانی الذکر ٹیم کو پوائنٹس کی برتری بھی رہی اور اس ٹیم کا ایک مقامی آفیسر ، جو سبک سیر انداز میں کھیل رہا تھا، کھیل کے میدان میں بھڑک اٹھا۔
اس رجمنٹ نے جیت کی خوشی میں کھانے کا اہتمام کیا، لشکر ٹیم وہاں پر آئی، جبکہ ڈرکووچ بھی، کاسک افسر کی گاؤن نما وردی زیب تن کئے، وہاں پہنچا، لشکر کے افسران اور جوانوں سے اس کا تعارف کروایا گیا، اس تعارف نے اُس کی آنکھیں کھول دیں۔ یہ لوگ ہو سارز کے مقابلے میں ہلکے پھلکے تھے، عام سے گھوڑوں پر سوار تھے اور پنجاب فرنیٹئر فورس کے دائیں سمت میں تعینات تھے۔ ان کی ملازمت کے کچھ بین اصول تھے جو ہمیشہ ان کے ذہنوں پر نقش رہتے۔
وائٹ ہو سارز کا بڑا، بیم کی چھت والا، میس روم ایسا تھا کہ جسے یاد رکھا جائے۔ بڑی اور لمبی میز پر تمام پلیٹیں نکال کر دکھ دی گئی تھیں۔ یہ وہی میزیں تھیں جن پر آج سے بہت عرصہ قبل ہونے والی ایک جھڑپ میں ہلاک ہونے والے پانچ افسران کی لاشیں رکھی گئی تھیں۔ داخلی دروازے کے سامنے روشنی ذرا کم تھی، موم بتی کے دھاتی سٹینڈ کے قریب موسم سرما کے گلاب رکھے گئے تھے، سانبر، نیل گائے، مارخود جیسے جانوروں کے سر بھی کمرے میں سجائے گئے تھے، اور انہی کے درمیان لڑائی میں ہلاک ہونے والے افسران کی تصویریں جو اپنے جونیئر افسران کو دیکھ رہی تھیں، اور اس میس کی شان، دو حنوط شدہ برفانی چیتے تھے اور اس کی قیمت بیسیٹ ہولمر (Besset Holmer) کی وہ چار ماہ کی چھٹیاں تھیں جو انہوں نے برطانیہ میں گزارنے کی بجائے تبت کے راستے میں (شکار کرتے ہوئے) گزاریں، جس کے دوران ، روزمرہ کی بنیاد پر، برفانی تودے گرنے، لینڈ سلائیڈ ہونے اور چٹانوں کے گرنے کی وجہ سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق رہا۔
وہ تمام ملازمین بے داغ قسم کے سفید ملسن (muslin)زیب تن کئے ہوئے تھے، ان کی پگڑیوں پر ان کی رجمنٹس کے نشانات تھے، وہ اپنے افسران کے پیچھے کھڑے انتظار کر رہے تھے جو وائٹ ہو سارز کی ہنری اور قرمزی وردیوں میں ملبوس تھے جبکہ لشکر لائٹ ہارس (Lashkar Light Horse)کریم اور چاندی کے رنگ کی وردیوں میں ۔ ڈرکووچ (Dirkovitch)کی ہلکے سبز رنگ کی وردی ہی اس جگہ پر سب سے منفرد نظر آرہی تھی لیکن اس کی بڑی سلیمانی آنکھ اسے دیگر لوگوں سے ممتاز کر رہی تھی۔ وہ لشکر ٹیم کے کپتان کے ساتھ ، بڑے پر جوش انداز میں، راہ و رسم بڑھانے میں مصروف تھا، جو (کپتان ) اس بات پر حیران تھا کہ ڈرکووچ کے ساتھ کے کتنے ایسے کاسک (افسران) ہیں جنہیں اس کے ملک سے تعلق رکھنے والے ساتھی ایک حملہ آور کے طور پر شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی شخص ان چیزوں کا برملا اظہار نہیں کر سکتا۔
گفتگو زور پکڑتی رہی جبکہ رجمنٹ کا بینڈ بھی اپنی دھنیں بجاتا رہا جو کہ ایک یاد گار قسم کی رسم ہے، تاوقتیکہ تمام لوگ ایک لمحے کے لئے چپ ہو گئے، پھر کھانے کی چٹیں(slips)ہٹائیں گئیں اور کھانے کے آغاز کے لئے باقاعدہ تعظیمی الفاظ کہے گئے اور ایک افسر نے کہا ، ''ملکۂ عالیہ کی سلامتی''! اور میز کے دوسرے سرے سے دوسرے آفیسر نے جواباً کہا، ''ملکۂ عالیہ کی عمر دراز!'' پھر بینڈ کی تیز جھنکار سنائی دی تمام افسران کھڑے ہوئے اور ملکہ برطانیہ کے نام کا جام صحت نوش کیا، اور یہ لوگ ، غلط طور پر، یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی میس کابل ملکہ برطانیہ ہی ادا کرتی ہیں۔
میس میں، ضیافت کے، آداب کبھی بھی فرسودہ نہیں ہوتے، اور کسی بھی سامع کو بولنے سے منع نہیں کرتے چاہے وہ زمینی سفر کر کے آیا ہو یا بحری۔ ڈرکووچ ان الفاظ کے ساتھ کھڑا ہوا، ''معزز برادران'' ،لیکن وہ صورت حال کو سمجھ نہ پایا۔ صرف ایک افسر ہی بتا سکتا ہے کہ ''ٹوسٹ'' (Toast)کے کیا معنی اور کیا مفہوم؛ اور ان میں سے اکثر نے بجائے سمجھنے کے اس سے لطف اٹھایا۔ رسماً کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک مقامی افسر داخل ہوا، جو لشکر ٹیم کے لئے کھیلا تھا۔ وہ تمام لوگوں کے ساتھ میس میں کھانا نہیں کھا سکا تھا، لیکن جب لوگ کھانے کے بعد میٹھا کھانے لگے تو وہ وہاں پہنچ گیا، اس کا قد چھ فٹ تھا، اس نے نیلے اور سلیٹی رنگ کی پگڑی اور پاؤں میں کالے رنگ کے لمبے بوٹ پہنے ہوئے تھے، جیسے ہی وہ وائٹ ہو سارز کے کرنل کو سلامی پیش کرنے کے لئے آگے بڑھا اور اپنی تلوار کے دستے کو سامنے کیا، کرنل خالی کرسی پر براجمان ہوا تو تمام لوگوں نے یک زبان ہو کر نعرے کے انداز میں کہا، ''رنگ ہو، ہیرا سنگھ!''(جس کا مطلب ہے''جاؤ اور جیتو'') ''جناب کیا میں نے (کھیلتے ہوئے) آپ کے گھٹنے کو چھوا؟''
''رسائی دار صاحب کھیل کے آخری دس منٹوں میں کس قوت نے آپ کو اتنی تیزی سے کھیلنے کرنے کی صلاحیت بخشی؟''
''شاباش رسائی دار صاحب!''
پھرکرنل کی آواز آئی، ''رسائی دار ہیرا سنگھ کی سلامتی!''
جب یہ نعرہ بازی ختم ہو گئی تو ہیرا سنگھ جواب دینے کے لئے کھڑا ہوا کیونکہ وہ شاہی خاندان کا ایک کیڈٹ تھا، بادشاہ کے بیٹے کا بیٹا تھا اور اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ ان مواقع کے لئے کون سی چیز مناسب ہے۔ لہٰذا وہ ایک گرج دار آواز میں بولا، ''کرنل صاحب اور اس رجمنٹ کے افسران! آپ نے مجھے بہت عزت و تکریم دی۔ میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا، ہم آپ لوگوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بہت دور سے آئے۔ ہمیں شکست ہوئی''۔ (اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں، رسائی دار صاحب، آپ اپنے ہی گراؤنڈ پر ہم سے کھیلے آپ کے گھوڑے ریلوے سے پاس شدہ اور مہر شدہ تھے، آپ کو اس سلسلے میں وضاحت کی ضرورت نہیں!) ''اگر کوئی پروگرام بن گیا تو ہم دوبارہ آجائیں گے''۔ (بالکل، بالکل شاباش!) ''تو پھرہم دوبارہ کھیلیں گے''۔(''آپ سے ملاقات باعث مسرت تھی'')تاوقتیکہ ہم اپنے گھوڑوں پر بیٹھ کر سر توڑ کوشش اور ہمت کریں اور کھیل کا شاندار سلسلہ جاری رکھیں۔'' اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر رکھا اور اس کی نظر ڈرکووچ پر پڑی جو اپنی کرسی پر بڑے آرام سے بیٹھا ہوا تھا۔
''لیکن اگر خداوند کی منظوری سے مقابلہ کسی اور کھیل میں ہواجو پولو (polo)نہیں ہے تو پھر، کرنل صاحب اور معزز افسران اس بات کو یقینی سمجھیں کہ ہم اس کھیل میں جان کی بازی لگا دیں گے''، اس کی نظر ایک مرتبہ پھر ڈرکووچ پر پڑتی ہے، ''اگرچہ ان کے پاس ہمارے ایک گھوڑے کے مقابلے میں پچاس گھوڑے ہیں''۔ ایک مرتبہ پھر ''رنگ ہو!'' کی گرج دار آواز گونجی اور وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ڈرکووچ، جس نے خود کو برانڈی- وہ خوفناک برانڈی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کی نذر کیا ہوا تھا، اس صورت حال کو سمجھ نہیں سکا، اور نہ ہی اس نے اُس ترجمے پر غور کیا جو اسے فراہم کیا گیا تھا۔ یہ بات طے شدہ تھی کہ اس شام میں سب سے اچھی تقریر ہیرا سنگھ کی تھی ، اور یہ شوروشغب شائد صبح کا ذب تک جاری رہتا اگر باہر گولی نہ چلتی جس کی وجہ سے تمام لوگوں کی توجہ، اپنی دائیں جانب واقع، بارڈرکی طرف چلی گئی، جسے وہ اس وقت غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔ پھرہر طرف ہنگامہ آرائی ہو گئی۔
ایڈ جوٹینٹ(Adjutant)اپنی کرسی پر بڑے آرام سے بیٹھا رہا اور بولا، ''ایک مرتبہ پھر کاربین کی چوری! یہ سب کچھ گارڈز کم کرنے کی وجہ سے ہوا، میرا خیال ہے کہ گارڈز نے اسے مار دیا ہے۔''
اس برآمدے کے فرش پر فوجوں کے پیروں کے نشانات تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی چیز کو گھسیٹ کریہاں لایا گیا ہو۔
کرنل نے سارجنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''یہ لوگ اس چور کو صبح ہونے تک جیل میں کیوں نہیں ڈال دیتے، دیکھو! کیا ان لوگوں نے اسے ما ردیا ہے؟''
ان کی میس (Mess)کا سارجنٹ فوراً دوڑا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا اور جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ دوٹروپر اور ایک نائک تھا، تمام لوگ پسینے میں شرابور تھے۔
نائک بولا، ''ہم نے ایک شخص کو کار بین (کاربینز) چوری کرتے ہوئے پکڑا ہے ، یہ شخص بیرک کی طرف رینگتا ہوا جا رہا تھا۔
چیتھڑوں میں ملبوس اس شخص کو تین افراد نے پکڑا ہوا تھا اور وہ کراہ رہا تھا۔ کسی افغان شخص کو اتنا پریشان حال نہیں دیکھا گیا جتنا وہ نظرآرہا تھا۔ اس کی پگڑی اُتری ہوئی تھی، پاؤں میں جوتے نہیں تھے، مٹی میں اٹا ہوا تھا، اور تشدد کی وجہ سے نیم مردہ حالت میں تھا۔ ہیرا سنگھ اس شخص کے کراہنے کی آواز پر غور کرنے لگا۔ ڈرکووچ نے برانڈی کا ایک اور گلاس پی لیا۔ کرنل نے پوچھا، ''سنتری کیا کہتے ہیں؟''
نائک نے جواب دیا، ''سر! یہ انگریزی بول سکتاہے''۔
''لہٰذا تم اسے میس میں لے آئے بجائے اس کے کہ تم اسے سارجنٹ کے حوالے کرتے، اگر یہ شخص کثیر اللسان ہے تو تمہارا اس سے کوئی مقصد نہیں ۔''
اس کے کراہنے کی آواز ایک مرتبہ پھر آئی۔ ہم میں سے ایک شخص اسے دیکھنے کے لئے کھڑا ہوا، اس شخص نے واپس چھلانگ لگا دی جیسے اسے گولی لگ گئی ہو۔
نائک نے کرنل سے کہا، ''سر! میرا خیال ہے کہ تمام لوگوں کو یہاں سے بھیج دینا ہی بہتر ہے ، کیونکہ وہ ایک مراعت یافتہ (ماتحت) افسر تھا۔ اس نے اپنے ہتھیار لگائے اور خود کو کرسی پر گرا لیا۔ اس بات کی وضاحت پیش کی گئی کہ جس ماتحت افسر نے اسے پکڑا تھا اس کے چھوٹے ہونے (اور وجود میں چھوٹے ہونے) کا خیال اس کے ذہن میں تھا کیونکہ وہ خود چھ فٹ چار انچ کا تھا۔ جب اس نائک نے دیکھا کہ اس گرفتار شدہ شخص کی نگرانی کے لئے ان کا افسر خود تیار ہو گیا ہے اور یہ کہ اس کرنل کی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہو گئی ہیں اور اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ تمام لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔ میس تقریباً خالی ہو چکا تھا، کاربین چور نے اپنا سر میز پر رکھا ہوا تھا اور بری طرح، یا سیت کی کیفیت میں ، بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
اتنے میں ہیرا سنگھ نے چھلانگ لگائی اور کرنل صاحب سے مخاطب ہوا،'' کرنل صاحب! یہ شخص افغان نہیں کیونکہ یہ 'ای' 'ای' ! کرکے رو رہا ہے، نہ ہی اس کا تعلق ہندوستان سے ہے کیونکہ وہ 'او'، 'او' !کر کے روتے ہیں، یہ شخص انگریزوں کی طرح رو رہا ہے جو 'آؤ، آؤ'! کر کے روتے ہیں''۔
لشکر ٹیم کے کپتان نے کہا،''تم نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا، ہیرا سنگھ!''؟
ہیرا سنگھ نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ''اس کی آواز غور سے سنیں''، اور اس چور کی طرف اشارہ کیا جو ایسے رو رہا تھا کہ جیسے یہ رونے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
چھوٹے نائک نے کہا، ''میں نے سُنا کہ وہ شخص (چور) کہہ رہا تھا'' مائی گاڈ'' (My God) کرنل نے اس خالی میس میں چور کو غور سے دیکھا۔
کسی مرد کو اس طرح روتے دیکھنا ایک عجیب منظر تھا۔ ایک خاتون تو جیسے مرضی روئے، چاہے وہ تالو سے زور لگا کر چیخے یا، ہونٹوں سے لیکن ایک مرد کو سینے (پردۂ شکم) کا زور لگا کررونا چاہیے اور یہ بات فضا کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔
کرنل نے کھانستے ہوئے کہا، ''ہمیں اسے ہسپتال داخل کرنا چاہیے کیونکہ اسے بُری طرح مارا گیا ہے''۔ ایڈجوٹینٹ اپنی کار بینز سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ یہ اسلحہ اس شخص کے لئے اس کی اولاد کی طرح ہے، وہ شخص (حفاظت کی خاطر) سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بڑے باغیانہ انداز سے چیخا، ''مجھے ایک افغان شخص کا چوری کرنا تو سمجھ آجاتا ہے مگر اس کا اِس طرح رونا سمجھ نہیں آتا۔ یہ بڑی ابتر صورت حال ہے''۔
شاید اب ڈرکووچ پر برانڈی کا اثر ہوا ہے کیونکہ وہ اپنی کرسی پر داز، چھت کی طرف دیکھے چلا جا رہا تھا۔ چھت پر ماسوائے ایک عکس کے اور کوئی چیز نہیں تھی او روہ عکس ایک سیاہ کفن کا سا محسوس ہوتا تھا۔ میس کی خاص قسم کی تعمیر کی وجہ سے یہ عکس خاص طور پراس وقت نظر آتاتھا جب موم بتیاں روشن ہوتی تھیں۔ یہ عکس وائٹ ہوسارز کے کھانے پینے کو کبھی بھی متاثر نہیں کرتا تھابلکہ وہ تو اس پر فخر محسوس کرتے تھے۔
کرنل بولا، ''اب یہ ساری رات اسی طرح روتا رہے گا یا ہم اسے لٹل ملڈرڈ(Little Mildred) ] ۱[کے مہمانوں کے ساتھ بٹھا دیں تا کہ یہ ذرا بہتر محسوس کرے؟''
کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے سر اٹھایا اور میس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے نکلا، ''اُف خدایا!'' اور میس میں بیٹھا ہر شخص اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد لشکر ٹیم کے کپتان نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ اس کے لئے وہ وکٹوریہ کراس (Victoria cross)کا حقدار ٹھہر سکتا تھا۔ بڑھتے ہوئے تجسس کے خلاف کی جانے والی جنگ میں غیر معمولی بہادری۔ اس نے اپنی ٹیم کی نگاہیں ایسے اٹھائیں جیسے کسی غیر معمولی لمحے پر میزبان خاتون تمام مہمان خواتین کی توجہ مبذول کروائی ہے، اورکرنل کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''یہ آپ کی محبت نہیں ہے سر!'' اور اس کے بعد تمام لوگوں کو برآمدے اور باغات کی طرف لے گیا۔ ان سب سے آخر میں جانے والا ہیرا سنگھ تھا۔ جس نے اس وقت ڈرکووچ کو دیکھا۔ لیکن ڈر کووچ اپنی برانڈی کی دنیا میں گم ہو چکا تھا۔ اس کے ہونٹ بغیر کچھ کہے ہل رہے تھے اور وہ چھت پر ابھرنے والے نقش کی طرف دیکھے چلا جا رہا تھا۔
ایڈ جواٹنٹ بیسیٹ ہولمر (Basset Holmer)نے کہا، ''ہر جگہ سفید ہی سفید نظرآرہا ہے۔''
''یہ شخص کیا تباہ کن قسم کا بھگوڑا ہے، اور میں حیران ہوں کہ یہ کہاں سے آیا ہے؟''
کرنل نے اس شخص کو ہاتھ سے پکڑا اور بڑے آرام سے بولا، ''تم کون ہو؟''
اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میس روم کو اچھی طرح دیکھا اور کرنل کے چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ لٹل ملڈرڈ جو مرد سے زیادہ عورت ہی دکھائی دیتا تھا اس نے بڑی گرجدارآواز میں کرنل کا سوال دہرایا۔وہ شخص پھر مسکرایا۔ میز کی دوسری جانب پڑی ہوئی کرسی پر سے ڈرکووچ ،بڑی آہستگی سے ، فرش پر پھسل گیا۔ اس دنیا میں حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جوہو سارز کی شیمپین میں ہوسارز ہی کی برانڈی میں، پانچ اور آٹھ کی اوسط سے ، گلاس مکس کر کے اتنی پی جائے کہ اسے اپنے گرنے اور نیچے پھسلنے کا ہوش نہ رہے۔ بینڈ نے وہی روایتی دُھن بجانی شروع کر دی جس پر وائٹ ہو سارز اپنی تشکیل کے دن سے ہی اپنی تمام تقریبات کا اختتام کرتے تھے۔ وہ کسی بھی صورت میں اس دھن سے اجتناب نہیں کر سکتے تھے،یہ ان کے سسٹم کا ایک حصہ تھا۔ اس شخص نے خود کو کرسی پر سیدھا کیا اور میز کو اپنی انگلیوں سے بجانا شروع کر دیا۔
کرنل بولا، ''مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ہمیں دیوانوں کو کیوں محظوظ کرنا ہے!''
''ایک گارڈ بلاؤ اور اسے حوالات میں بند کر دو، ہم اس معاملے کو صبح دیکھ لیں گے، اور ہاں، اسے شراب کا ایک گلاس دے دینا۔''
لٹل ملڈرڈ(Little Mildred)نے برانڈی کا ایک گلاس بھرا اور اسے دے دیا۔ اس نے وہ گلاس پیا اور پینے کے بعد اس (کے رونے) کی آواز اور بلند ہو گئی اور اس نے خود کو سیدھا بھی کر لیا، پھر اس نے اپنے لمبے ہاتھوں کو سامنے پڑے ہوئے پلیٹ کے ٹکڑے کی طرف بڑھایا اور اسے بڑے پیار سے ہاتھ لگایا وہ پلیٹ سپرنگ کی شکل کا، سات ٹکڑوں پر مشتمل ،موم بتی سیٹنڈ تھا، ایک بیچ میں اور تین تین دونوں طرف۔ اس نے سپرنگ کو ہاتھ لگایا، اسے دبایا اور بڑے کمزور سے انداز میں ہنس دیا پھر وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوا، دیوار پر لگی ہوئی تصویر کو غور سے دیکھنے لگا، پھر دوسری تصویر کو میس میں موجود تمام لوگ اسے خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ جب اس نے (میس کا) آتش دان دیکھا تو اس نے اپنا سر جھٹکا اور پریشان نظر آیا۔ پھر اس کی توجہ ایک تصویر کی طرف مبذول ہوگئی جس میں ایک گھڑ سوار ہو سار نے وردی پہنی ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے تصویر اور آتش دان کی طرف اشارہ کیا جبکہ اس کی آنکھوں میں مزید سوالات تھے۔
میڈرڈ نے کہا، ''یہ کیا ہے ۔ اوہ یہ کیا ہے؟'' اس کے بعد وہ اس (شخص) سے ایسے لہجے میں مخاطب ہوا جیسے ماں اپنے چھوٹے سے بچے سے ہوتی ہے،''یہ گھوڑا ہے، جی! گھوڑا۔''
اس کے بعد بڑی آہستگی سے جواب آنا شروع ہوا، ایک بھاری بھر کم، بے سودھ سی آواز میں ''جی ، میں نے دیکھا ہے، لیکن گھوڑا ہے کہاں؟''
آپ کو میس میں موجود لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہو رہی ہو گی جب اس اجنبی شخص کو ادھر ادھر گھومنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، اور وہاں گارڈ کو بلانے کی ضروت قطعاً محسوس نہیں کی گئی۔
وہ شخص ایک مرتبہ پھر بولا، ''ہمارا گھوڑا کہاں ہے؟''
وائٹ ہو سارز کے پاس گھوڑا نہیں تھا جبکہ اس کی تصویر میس کے باہر آویزاں تھی، وہ ڈرم بینڈ میں چلنے والا گھوڑا تھا جس نے ۳۷سال تک رجمنٹ کی خدمت کی تھی اور پھر عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے مر گیا۔ میس میں موجود تمام لوگ اس کے ساتھ تھے اور ان میں سے کئی اس تصویر کو اتارنے کے لئے آگے بڑھے۔ اس نے وہ تصویرلے کر آتش دان کے اوپر رکھ دی، اس کے کمزور ہاتھوں سے وہ تصویر نیچے گر گئی اور وہ شخص لڑکھڑاتا ہوا میز کے قریب ملڈرڈ کی کرسی پر جا گرا۔ تمام لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے، ''ڈرم بینڈ کے گھوڑے کی تصویر ۱۹۶۷ء کے بعد آتش دان کے اوپر نہیں لٹکائی گئی''…… ''اسے کیسے معلوم ؟'' ،''ملڈرڈ! اس سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کرو''، ''کرنل صاحب! اب آپ کیا کرنے والے ہیں؟'' ،''ذرا ٹھہر جائیں اور اس بیچارے کو حوصلے میں آنے دیں''،''بہر حال یہ ممکن نہیں یہ شخص پاگل ہے''۔
لٹل ملڈرڈ کرنل کی طرف جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کے کان میں جا کر کوئی بات کی۔ پھر تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا، ''تمام لوگوں سے التماس ہے کہ تشریف رکھیں!'' تمام لوگ کرسیوں پربراجمان ہو گئے۔ صرف ڈرکووچ کی سیٹ خالی تھی، جبکہ ملڈرڈ ہیرا سنگھ کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑی آنکھوں والے میس سارجنٹ نے خاموشی سے تمام گلاس بھر دیئے۔ کرنل ایک مرتبہ پھر کھڑا ہوا مگر اس کا ہاتھ لگنے کی وجہ سے اسکے گلاس میں موجود پرتگالی شراب میز پر گر گئی، پھر اس نے دیکھا کہ وہ شخص ملڈرڈ کی کرسی پر بیٹھ گیا،کرنل بولا، ''ملکۂ عالیہ کی سلامتی''۔ کچھ دیر کے لئے خاموشی ہوئی اور اس کے بعد وہ شخص کھڑا ہو گیا اور بغیر کسی جھجک کے بولا، ''ملکۂ عالیہ کا نام سلامت!'' اور اس کے بعد اپنی انگلیوں میں تھامے ہوئے گلاس کو پی گیا۔
کافی عرصہ قبل جب ملکہ ہندوستان ایک جوان خاتون تھیں اور اس دھرتی میں ان کیلئے منفی جذبات نہیں پائے جاتے تھے، اس دور میں کچھ میسز میں یہ رواج تھا کہ ٹوٹے ہو گلاس میں ملکہ کے لئے جام صحت پیا جاتا تھا، جو میس کے ٹھیکہ داروں کیلئے خوش کن چیز تھی۔ یہ رواج اب ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب توڑنے کے لیے، سوائے حکومت کے عہدکے، کوئی چیز باقی نہیں رہی اور وہ پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے۔
کرنل کا منہ کھلا رہ گیا اور پھر بولا، ''اب یہ بہتر ہو گیا ہے، یہ سارجنٹ تو نہیں ، یہ کس دنیا میں ہے''؟
سارے میس یہ لفظ گونج گیا اور وہاں اں موجود کوئی شخص بھی ایسا نہیں تھا جس کے لب پر سوال نہ ہو۔ یہ بات بھی حیران کن نظر نہ آئی کہ چیتھڑوں میں ملبوس وہ ''حملہ آور'' صرف مسکرا سکتا تھا اور اپنا سر ہلا سکتا تھا۔
میز کے نیچے سے ہنستا، مسکراتا اہوا ڈرکووچ بر آمد ہوا جو وہاں غنودگی میں پڑا ہوا تھا۔ وہ اس شخص کی ایک جانب سے نکلا، ڈرکووچ کو دیکھ کر وہ شخص چیخا اور چلایا۔ یہ ایک خوفناک منظر تھا جو اس جام صحت کا نتیجہ دکھائی دیتا تھا، جس کی وجہ سے تمام کے تمام بکھرے ہوئے حوا س بحال ہو گئے۔
ڈرکووچ نے خود کو باہر نکالنے کے لئے کسی کی مدد نہیں مانگی مگر لٹل ملڈرڈ فوراً اس کی مدد کے لئے وہاں پہنچا۔ یہ بات بہتر دکھائی نہیں دیتی تھی کہ ایک معزز شخص جو ملکۂ عالیہ کے جام صحت کا جواب دے وہ کاسک (Cossacks) کے چھوٹے افسران کے قدموں میں ہو۔
عجلت میں کیے ٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗ گئے اس عمل نے اس بیچارے شخص کی قمیض کو اس کی کمر تک پھاڑ ڈالا، اس کے جسم پر خشک سیاہ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ دنیا میں صرف ایک ہی ہتھیار ہے جو متواضی نشانات لگاتا ہے، نہ تو وہ بید ہے اور نہ ہی بلی۔ ڈرکووچ نے وہ نشانات دیکھے، اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اس کے چہرے کے تاثرات بھی تبدیل ہو گئے۔ اس نے کچھ الفاظ کہے جن کی آواز کچھ یوں تھی 'شتووی تا کیٹی'، اور اس شخص نے جواب میں کہا 'چیٹائر'۔ تمام لوگوں نے یک زبان ہو کر یہ کہا، ''یہ کیا ہے''؟
ڈرکووچ نے جواب دیا، ''اس کا نمبر، اس کا نمبر چار ہے، کیا آپ کو معلوم ہے۔
کرنل نے جواب دیا، ''ملکۂ عالیہ کے افسر کو اس نمبر سے کیا غرض؟'' ،اور میز کے گرد ایک ناخوشگوار فضا پھیل گئی۔
اس مشرقی شخص نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا، '' میں کیسے بتاؤں؟''
''یہ ایک ۔۔۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟- بھاگ نکلو- یہاں سے دوڑ جاؤ۔''
اس نے رات کی تاریکی کی طرف اشارہ کیا۔
لٹل ملڈر ڈ نے اس شخص کو کرسی پر بٹھایا اور کہا، ''اس سے بات کریں یہ آپ کو جواب دے گا، اور اس سے بڑی شائستگی سے بات کریں۔'' یہ بات بڑی نا مناسب سی ہے کہ ڈرکووچ برانڈی پیتا رہا اور تمام لوگوں نے اس پر روسی زبان کی بوچھاڑ کر دی اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو بڑے نحیف انداز میں اور خوف میں مبتلا ہو کر جوابات دے رہا تھا۔ لیکن جب سے ڈرکووچ اس سے گفتگو کرنے لگا کسی دوسرے شخص نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ تمام لوگوں کی سانسیں بھاری، ہو گئی تھیں، وہ آگے جھک کر دیکھ رہے تھے اور ان کی گفتگو محدود ہو چکی تھی۔ آنے والے وقت میں جب انہیں کوئی خاص مصروفیت نہیں ہو گی تو وائٹ ہو سارز سینٹ پینٹرز برگ جانا چاہیں گے تا کہ وہاں سے روسی زبان سیکھ سکیں۔
ڈرکووچ بولا، ''یہ کہہ رہا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ کتنا عرصہ ہوا، لیکن خاصا عرصہ پہلے ایک جنگ میں، میرا خیال میں کوئی حادثہ پیش آیا تھا، جب اس کے کہنے کے مطابق جنگ میں وہ اس سرکردہ اور منفرد رجمنٹ کارکن تھا''۔
لٹل ملڈرڈ بولا، ''رولز، رولز، ہولمر جاؤ اور رجمنٹ کے رولز (Rules)لے کر آؤ، پھر ایڈ جوٹنٹ ننگے پاؤں اڑدلی کے کمرے کی طرف دوڑا جہاں رجمنٹ کے ۔ رولز پڑے ہوئے تھے، وہ فوراً ہی واپس آگیا اور ڈرکووچ کے تکمیلی الفاظ سننے لگا، ''لہٰذا میرے دوستو! مجھے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک حادثہ پیش آیا جو قابل تلافی تھا مگر ایک ہی صورت میں، کہ وہ کرنل سے معذرت کر لیتا، جس کی اس نے بے عزتی کی تھی۔''
پھر چہ میگوئیوں کا ایک اور سلسلہ چل نکلا جسے کرنل نے دبا نے کی کوشش۔ اس وقت میس اس موڈ میں نہیں تھی کہ وہ روسی کرنلوں کی بے عزتی کا اندازہ لگا سکے۔
''اسے یاد نہیں آرہا لیکن میرے خیال میں کوئی حادثہ پیش آیا تھا، لہٰذا قیدیوں کے تبادلے میں وہ شامل نہیں تھا، لیکن اسے کسی اور جگہ بھیج دیا گیا تھا۔ آپ کیسے کہتے ہیں۔ کوئی ملک۔ لہٰذا وہ کہتا ہے کہ وہ یہاں آگیا ۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ یہاں کیسے پہنچا ۔ایہہ؟ یہ چیپانی (Chepany)میں تھا''۔ اس شخص نے وہ لفظ پکڑ لیا، سر ہلایا اور کانپتے ہوئے بولا۔ ''زیگانسک اور ارتکوٹسک ۔ مجھے نہیں معلوم یہ وہاں سے کیسے فرار ہوا۔یہ کہہ رہا ہے کہ یہ کافی عرصے تک جنگلوں میں رہا، لیکن کتنے عرصے تک، اس کے بارے میں یہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ یہ ایک حادثہ تھا جو اس لئے پیش آیا کہ اس نے کرنل سے معذرت نہیں کی تھی۔ آہ!''
بجائے اس کے کہ وہ ڈرکووچ کی طرف سے کئے جانے والے اظہار تاسف کی ہاں میں ہاں ملاتے، یہ بات افسوس سے کہی جاتی ہے کہ وائٹ ہو سارز نے عیسائیت کے برخلاف احساسات اور جذبات کا اظہار کیا جسے ان کی مہمان نوازی کی روایات بھی نہیں سراہتیں۔ ہو لمر نے اپنی رجمنٹ کے رولز میز پر پھیلا دیئے اور تمام لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔
ہولمر نے کہا، ''دیکھو! چھپن(۵۶)، پچپن (۵۵)، چون(۵۴)،ہم یہاں ہیں، لیفٹیننٹ آسٹن لیماسن لاپتہ ہیں، یہ سیبا سٹوپول (Sebastopol)، کیا غضبناک قسم کی شرم کا مقام تھا۔ کرنلوں میں سے کسی ایک کی بے عزتی کی تھی، اور خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔ اس کی زندگی کے تیس سال ضائع ہو گئے''۔
میس کے لوگوں نے ہم آہنگ ہو کر کہا، ''لیکن اس نے کبھی معذرت نہیں کی، یعنی اس کا کہنا تھا کہ وہ اسے پہلے مطعون ہوتا دیکھنا چاہتا ہے''۔
کرنل نے کہا، ''بیچارہ! میرا خیال ہے کہ اس کوبعد میں موقع ہی نہیں ملا۔ یہ شخص یہاں کیسے پہنچا؟''
کرسی پر بیٹھے اس شخص نے کوئی جواب نہیں دیا۔
''کیا تم جانتے ہو کہ تم کون ہو؟''
وہ بڑی بے اعتنائی سے مسکرا دیا۔
''کیا تم جانتے ہو کہ تم لیماسن ہو۔ لیفٹیننٹ لیماسن جس کا تعلق وائٹ ہو سارز سے ہے؟''
ایک حیرت زدہ لہجے میں فوراً ہی جواب آیا، ''ہاں! یقیناً میں لیماسن ہوں''۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور وہ نیچے گر گیا اور گرتے ہوئے وہ ڈرکووچ کی حرکات و سکنات کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ سائیبریا سے آنے والا ایک جھونکا کچھ ابتدائی حقائق کو تو ذہن میں ملا سکتا ہے لیکن وہ خیالات کے تسلسل کا باعث نہیں ہو سکتا۔ وہ شخص بیان نہیں کر سکتا تھا کہ کسی پالتو کبوتر کی طرح، اس نے اپنی پرانی میس کا راستہ کیسے تلاش کیا۔ اس سارے عرصے میں اس نے کیا کچھ دیکھا اور برداشت کیا اسے کچھ بھی نہیں معلوم۔ وہ بڑی آہستگی سے خوفزدہ سے انداز میں، ڈرکووچ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا جیسے اس نے بڑے نرم ہاتھوں سے موم بتی سٹینڈکے سپرنگ کو چھوا تھا، ڈرم بینڈ کے گھوڑے کی تصویر اٹھائی تھی اور ملکۂ عالیہ کے لئے جام صحت نوش کرتے وقت نعرے کا جواب دیا تھا۔ اس نے باقی جو کچھ کہا وہ روسی زبان میں تھا جسے سمجھا نہیں جا سکا۔ اس کا سر اس کے سینے کی طرف جھک گیا، وہ کھیسانی سی ہنسی ہنسا، اور دبکنے کے سے انداز میں کچھ بولا۔
اداسی کے اس خاص لمحے میں، برانڈی میں موجود ''جن'' نے ڈرکووچ کو اکسایا کہ وہ تقریر کرے۔ وہ کھڑا ہوا، مؤدبانہ انداز میں میز کا کونا پکڑا، اس کی آنکھیں اوپل (عین الھر ) کی طرح چمک رہی تھیں، اور شروع ہوا:
''معزز سپاہی ساتھیو۔ حقیقی دوستو اور مہمان نوازو۔ یہ ایک حادثہ تھا جو قابل رحم تھا۔ انتہائی قابل رحم''۔ یہ کہہ کر اس نے میس کے تمام سامعین کی طرف دیکھا اور ذرا مسکرایا۔ ''لیکن آپ اس چھوٹی سی، معمولی چیز کے بارے میں سوچیں گے۔ بہت ہی چھوٹی، کیا ایسا نہیں؟ ایک زار(Czar)!، پوش(Posh)! میں اپنی انگلیاں بجاتا ہوں، اس کی خاطر اپنی انگلیاں بجاتا ہوں۔ کیامیں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ ستر۔ کتنے۔ ملین، لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے کچھ نہیں کیا۔ایک کام بھی نہیں ۔ پوش! نپولین اس کی ایک کڑی ہے''۔ اس نے میز پر اپنا ہاتھ مارا۔
''آپ تمام لوگوں نے سنا، یہاں بوڑھے لوگ بھی سُن رہے ہیں، ہم نے اس دنیا میں کچھ نہیں کیا۔ آج تک کچھ نہیں کیا۔ ہمارا سارے کا سارا کام ابھی ہونا ہے؛ اسے ہونا چاہیے، عمر رسیدہ لوگو!۔ ذرا آگے سے ہٹیں!'' اس نے اپنا ہاتھ تیزی سے ہلایا اور اس شخص کی طرف اشارہ کیا۔ ''آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس کی حالت اچھی نہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا، بہت ہی چھوٹا حادثہ ہے، جسے کوئی بھی یاد نہیں رکھتا۔ اس وقت یہ شخص یہاں پڑا ہے آپ بھی کبھی ایسے ہی پڑے ہوں گے، اے میرے بہادر، ساتھی سپاہیو۔ آپ بھی ایسے ہی پڑے ہوں گے۔ اور آپ واپس بھی نہیں آئیں گے۔ آپ سب لوگ بھی وہیں چلے جائیں گے جہاں یہ چلا گیا ہے یا''۔ پھر اس نے چھت پر نظر آنے والے بڑے سایۂ کفن کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ''ستر ملین۔ لوگ یہاں سے چلے گئے، عمر رسیدہ لوگو''، اور پھر گر کر سو گیا۔
لٹل ملڈرڈ نے کہا، ''شاندار اور برمحل۔ خفا ہونے کا کیا فائدہ؟ چلیں اس بیچارے کو سکون سے لٹا دیں''۔
یقینی طور پر یہ سارا معاملہ وائٹ ہو سارز کے محبت بھرے ہاتھوں سے بڑی تیزی اور عجلت میں ہو گیا۔ وہ لیفٹیننٹ محض اس لئے واپس آیا تھا کہ تین دن بعد ہی واپس چلا جائے لیکن (تدفین کے لئے بجائی جانے والی) رثائی دُھن اور فوج کی پریڈ کے ساتھ، مگر اس سٹیشن کے تمام عملے نے ایک بات حیران ہو کر سُنی کہ رجمنٹ کے ایک نئے کمیشن حاصل کرنے والے افسر نے استعفیٰ پیش کر دیا۔
اور ہمیشہ خلیق رہنے والا، ماحول میں گھل مل جانے والا و شائستہ مزاج اختیار کرنے والا ڈرکووچ بھی رات والی ٹرین سے چلا گیا۔ لٹل ملڈرڈ اور ایک شخص نے اسے الوداع کہا، وہ ساری میس کا مہمان تھا، حتیٰ کہ وہ کرنل سے بے حد متاثر ہوا، اس کے لئے میس کی خاطر مدارت کی روایات میں بھی کوئی کسر نہیں دکھائی گئی۔
لٹل ملڈرڈ نے کہا، ''خداحافظ ڈر کووچ، سفر بخیر!''
اس روسی نے کہا، ''اؤ ریوئر''۔ (Au Revoir) ۔
''بے شک! مگر ہم یہ سمجھے کہ آپ اپنے گھر جا رہے ہیں؟''
''جی ہاں! ، لیکن میں واپس آؤں گا، میرے عزیز دوستو، کیا یہ راستہ بند ہے؟''
اس نے اسی سمت میں اشارہ کیا جہاں قطبی ستارہ درۂ خیبر پر چمک رہا تھا۔
''قسم سے میں بھول گیا تھا۔ یقیناً ایسا ہے۔ آپ سے ملاقات کر کے خوشی ہوئی۔جب آپ چاہیں یہاں آئیں۔ آپ کو جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ آپ نے لے لی ہیں؟ سگار، برف ، بہتر؟ ٹھیک ہے۔ اؤ ریوئر، ڈرکووچ''۔
وہاں کھڑے ہوئے دوسرے شخص نے ٹرین کی پچھلی لائنوں کو چھوتا ہوتا دیکھ کر کہا، ''!۔ قطعی ۔ طور پر!''
لٹل ملڈرڈ نے کوئی جواب نہیں دیا، قطبی ستارے کو دیکھا اور شملہ شہر سے کہی جانے والی ایک ہجو سے ایک شعر کنگنا ہوا چلا گیا، یہ شعر وائٹ ہوسارز کو بہت محظوظ کرتا تھا۔
حوالہ جات
۱۔ برطانیہ کے مسلح سوار دستے
۲۔ روس کے علاقے قزاقستان سے تعلق رکھنے والا، مراعت یافتہ فوجی طبقہ
۳۔ رجمنٹ کاایک چھوٹا (نان کمیشنڈ) آفیسر
٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

# رڈیارڈ کپلنگ
ترجمہ: نیّر عباس زیدی
وہ ایک شخص

فسانہ
%عالمی ادب سے ترجمہ
مختصر تعارف
رڈیارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) ۱۸۶۵ء میں، بمبئی، بھارت میں پیدا ہوئے اور انگلستان میں تعلیم حاصل کی۔ ایک اینگلو انڈین اخبار کے لئے کام کرنے کی بدولت انہیں خاص موضوعاتی کالم ''سولجر ٹیلز، انڈین ٹیلز؛ اینڈ ٹیلز آف اپوزٹ سیکس''۔۔۔۔۔(Soldier tales, Indian tales, and tales of opposite sex) کے لئے مواد ملتا رہا ، بعد ازاں انہوں نے الہ آباد کے ایک جرید ے کے لئے کام کیا ۔ جب وہ ۱۸۸۹ء میں لندن واپس گئے تو انگریزی مدیروں نے بڑی بے تابی کے ساتھ ان کے کام پر مقابلہ و مسابقت کی، اس کے بعد انہوں نے بہترین نظمیں اور افسانے سپرد قلم کئے، ذیل میں دیا گیا افسانہ بھی ان میں سے ایک ہے جو تجسس ، پیش گوئی اور دباؤ جیسے جذبات کا حسین امتزاج ہے۔ پھر وہ اپنی امریکی بیگم کے گھر برٹیل بورو، ورمونٹ (Vermont)چلے گئے۔ اسی جگہ اور سسیکس (Sussex)میں قیام کے دوران انہوں نے شاندار کام کا سلسلہ جاری رکھا جو انہیں ادب کے نوبل انعام (۱۹۰۷)کی منزل تک لے گیا۔ انہوں نے ۱۹۵۵ء میں وفات پائی۔ انہیں افسانے کی تکنیک میں لاثانی تصور کیا جاتا ہے۔
<مختصر تاریخ زبان وادب --- سندھی
مرتب: سید مظہر جمیل
صفحات: ۵۸۱ قیمت : ۲۸۰ روپے
>مختصر تاریخ زبان وادب --- پنجابی
مرتب: حمید اﷲ ہاشمی
صفحات: ۴۰۹ قیمت : ۲۱۰ روپے
:مختصر تاریخ زبان وادب --- پشتو
مرتب: حنیف خلیل
صفحات: ۳۹۳ قیمت : ۲۰۰ روپے
<مختصر تاریخ زبان وادب --- بلوچی
مرتب: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحات: ۳۸۵ قیمت : ۱۹۰روپے
=مختصر تاریخ زبان وادب --سرائیکی
مرتب: ڈاکٹر سجاد حیدر
صفحات:۵۳۵ قیمت : ۲۶۰ روپے
?مختصر تاریخ زبان وادب -- براہوئی
مرتب: افضل مراد
صفحات: ۲۴۴ قیمت : ۱۳۰ روپے
Nمختصر تاریخ زبان وادب - گلگت و بلتستان
مرتب: ڈاکٹر ممتاز منگلوری
صفحات: ۲۶۶ قیمت : ۱۴۰ روپے
<مختصر تاریخ زبان وادب --- ہندکو
مرتب: ڈاکٹر ممتاز منگلوری
صفحات: ۴۸۲ قیمت : ۲۵۰روپے
!مطبوعاتِ مقتدرہ