اردو اور دیگر مقامی بولیاں خطرے میں ہیں

مرتضی علی شاہ

ترجمہ: نبلی پیرزادہ

بھارت کے چوٹی کے نامہ نگار جاوید اختر اپنی نئی کتاب ''لاوا'' کی تعارفی تقریب کے لیے پچھلے دنوں اپنی شریک حیات ''شبانہ اعظمی'' کے ہمراہ لندن تشریف لائے۔ اس موقع پر زبان کے حوالے سے ''جیو'' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ تیزی سے گلوبل ویلیج کی شکل اختیا رکرتی ہوئی اس دنیا میں اردو اور دیگر روایتی زبانوں (Traditional Languages) کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جیسا کہ معاشرے کے خوشحال طبقات تعلیم کے حصول کے لیے اپنے بچوں کو انگریزی سکولوں میں بھیجتے ہیں جس سے مادری زبان سیکھنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مادری زبان کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار نہ کرنے کے باعث ، بچوں کا ناتا رفتہ رفتہ اپنی ثقافت سے ٹوٹ رہاہے۔
بھار ت سے آئے ہوئے اس معروف جوڑے نے بھارت اور پاکستان کے دو بڑے میڈیا ہاؤس،''جنگ گروپ'' اور ''ٹائمز آف انڈیا'' کی جانب سے شروع کی گئی ''امن کی آشا'' کی مہم کو سراہا تاہم شبانہ اعظمی کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے لوگوں کو قریب لانے کے لیے اس سے بہت زیادہ کرنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں میں بہت سی قدریں مشترک ہیں اور ان کے مسائل اور دکھ سکھ ملتے جلتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آرٹ، کلچر، میوزک، شاعری اور فلموں کی وساطت سے ہم لوگوں کے درمیان بہتر رابطہ پیدا کریں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ ثقافتی تبادلے بھی اچھی چیز ہیں تاہم ایک طویل المیعاداور پائیدار رشتہ استوار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل اور طالب علم ایک دوسرے کے ممالک میں جائیں اور اپنے ذاتی مشاہدہ سے ان مشترک چیزوں کا تجربہ کریں۔ جاوید اختر نے کہا کہ انگریزی زبان ہماری ذاتی ضرورت ہے تاہم یہ ہمارے بچوں کو اپنی ثقافت سے دور لے جا رہی ہے۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ اردو اور ہندی جڑواں بہنوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں چند شدت پسند عناصر گو ان زبانوں میں کسی ایک کے بارے انتہاپسندی کا رویہ رکھتے ہیں، تاہم وہ مذکورہ زبانوں کے قریبی تعلق سے ناواقف ہیں۔ اسی موقع پر بھارت کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ وہ بھارت کے مستقبل کے بارے پر امید ہیں کیونکہ وہاں ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد رکھی جا چکی ہے، ادارے مضبوط ہیں، خود مختار عدالتیں اور ایک خود مختار میڈیا موجود ہے۔
سابقہ ادا کارہ اور حالیہ دور کی سرگرم سماجی کارکن شبانہ اعظمی نے کہا کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جو بیک وقت کئی صدیوں میں جی رہا ہے۔ انھوں نے اس بارے شدت سے اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ایک مخصوص طبقہ دن بہ دن امارت اور ترقی کا سفر طے کر رہاہے جبکہ بھارت کے کروڑوں لوگوں کو اس خوشحالی کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، وہ مسلسل غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اور نئے بھارت میں ان کے لیے امید کی کوئی کرن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان تیزی سے ایک عالمی طاقت بننے کا سفر طے کر رہا ہے لیکن اسے بہت سے سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے جس میں خواتین کا استحصال، ذات پات کا نظام اور انتہائی درجے کی غربت سے نمٹنا خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔ شبانہ اعظمی نے کہا کہ ایک ایسے بنیادی نظام کی ضرورت ہے جس میں معاشرے کے تمام طبقوں کی بحالی کے لیے گنجائش موجود ہو اور جو غریبوں میں سے غریب ترین کے حالات میں بہتری لائے۔
جاوید اختر کا پہلا مجموعہ کلام ''ترکش'' ۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آ ًیا جس نے نظم کے ایک لکھاری کی حیثیت سے ان کی پہچان کو مستحکم کیا۔ لاوا کے نام سے ان کے دوسرے مجموعے میں غزل اور نظم دونوں موجود ہیں۔ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ لاوامیں موجود کلام اور نظمیں جاوید اختر کی مذکورہ صنف میں مہارت اور دیگر اصناف پر ان کی مکمل دسترس کے فطری میلان کو ظاہر کرتے ہیں۔ جاوید اختر نے غزل کی کلاسیکل شکل میں نئے دور کے شعور اور آگہی کو کچھ اس سمجھداری سے مدغم کیا ہے کہ وہ جدید بھی نظر آتی ہے اور غیر روایتی بھی۔ ''لاوا'' کے سرورق کے اندرونی اوراق پر درج ''بہت آسان ہے پہچان اس کی'' اور ''اگر دکھتا نہیں ہے تو دل نہیں ہے'' یا ''آج وہ بھی بچھڑ گیا ہم سے '' ،''چلیے یہ قصہ بھی تمام ہوا''، جیسے دوہوں سے نمایاں ہے۔