لفظ بہ لفظ یوسفی

انٹرویو پینل: اسامہ طالب ، طیبہ ممتاز، محمد اویس ، شبانہ تحریم ،
عائشہ سکندر ، آمنہ شفیق ، سدرہ چشتی ، محمد فہد

مشتاق احمد یوسفی کے نام سے کون واقف نہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ یہ مزاح کا عہد یوسفی ہے ‘‘ حال ہی میں جیو ٹی وی کے زیر نگرانی الحمرا آرٹ کونسل میں ’’ بزم یوسفی ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں حاضرین ’’ بزبان یوسفی ‘‘ انہی کے اقتباسات سے خوب مخطوظ ہوئے ۔ کیمکول کی ٹیم نے اس نادر موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یوسفی صاحب کے ساتھ خاصی تگ ودو سے گفتگو کو اہتمام کیا۔ (یوسفی صاحب کو انٹرویو کے نام سے عجیب سی چڑ ہے اور وہ کسی طرح بھی رضا مند نہیں ہوتے اسی لیے ہم نے ’’ بات چیت ‘‘ پر اصرار جاری رکھا اور تب کہیں جا کر نیم رضا مندی حاصل کی اور انتہائی ناخوشگوار موڈ میں ۔۔۔ یہ ہم سب کا یوسفی صاحب کے بارے میں پہلا تاثر تھا۔۔۔یقیناً اچھا نہیں تھا ) چنانچہ ’’ آواری ہوٹل ‘‘ کے پر تعیش اور خوبصورت ماحول میں ہونے والی یہ گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے امید ہے ہماری اس کاوش کو کھلے دل سے سراہا جائے گا۔ (نہ بھی سراہیں تو بھی خیر ہے)
تو قارئین آئیے آپ کو آواری لیے چلتے ہیں۔ خوبصورت راہداریوں ، محل نما ہال ، لفٹ میں بجتے میوزک اور ایڈیٹر ان چیف اسامہ بھائی کے مخصوص مزاح کے درمیان چلتے ہوئے آپ کمرہ نمبر۳۵۹ پر دستک دیتے ہیں ۔بلا تاخیر دروازہ کھلنے پر آپ ایک کمزور ، نفیس اور چست شخص سے ملتے ہیں جو ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ آپ کا استقبال کرتے ہوئے بہت محبت سے آپ کے لیے جگہ بناتے ہیں۔ تعارف کرانے پر وہ میڈیکل کالج کے طلباء کا ادب سے لگاؤ دیکھ کر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں رسمی وغیر رسمی گفتگو کا سلسلہ چلتا ہے۔ (یقیناًاب ہم سب کا تاثر خوشگوار ہوچکا تھا)
کیمکول: سر آجکل مزاح بہت کم لوگ لکھ رہے ہیں اور ان میں بھی معیاری لکھنے والے کم ہیں۔ آپ کے خیال میں مزاح کیسا ہونا چاہیے؟
بھئی میں مزاح کو بھی سنجیدہ ہی سمجھتا ہوں ۔ شگفتہ انداز میں جو بھی بات کہی جائے اس کے پیچھے Thought Content ضرور ہونا چاہیے ۔ اگر کوئی سوچ موجود نہیں تو یہ صرف، ہنسی مذاق ہی ہے۔ آپ جب بھی مزاح پڑھیں تو غور کریں کہ یہ کچھ دے بھی رہا ہے یا نہیں۔ اس میں کوئی Wisdom بھی ہے یا نہیں ۔
کیمکول : ’’ آب گم ‘‘ میں جو نکاح کا واقعہ ہے اور جو سسر صاحب کا بیان ہے کیا وہ آپ کے اپنے نکاح کا ہے ؟
نہیں وہ میرا نہیں ہے۔ ویسے اس وقت مجھے مکمل طور پر یاد نہیں آرہا۔
کیمکول : مرزا عبدالودود بیگ جو آپ کی تحریروں کا ایک کردار ہیں کیا وہ واقعی موجود ہیں؟ اور کیا آپ کے دوست یا کلاس فیلو تھے ؟
مرزا عبدالودود ایک کردار ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ سو فی صد موجود ہیں لیکن ۲۵۔ ۲۰ فی صد تک درست ہیں۔ میرے ایک دوست توتھے وہ لیکن ہم جماعت نہیں تھے۔
کیمکول : سر اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے؟
بیٹا میں راجستھان میں ایک جگہ ہے ’’ جے پور ‘‘ وہاں پیدا ہوا وہیں تعلیم حاصل کی۔ ہماری زبان ’’مارواڑی ‘‘ تھی۔ اُردو تو ہم نے کتابوں سے سیکھی یا پھر بیوی سے۔ وہ ’’ اہل زبان‘‘ تھی میں نہیں چنانچہ’’ ہم زبان ‘‘ بننا پڑا۔
کیمکول: آپ کی بیگم تعلیم یافتہ تھیں؟ کیا وہ بھی کچھ لکھتی رہی ہیں ؟
جی ہاں وہ ایم۔ اے فلاسفی میں میری ہم جماعت تھیں۔
کیمکول : سر آپ کی لَو میرج تھی یا ارینجڈ ؟
ارینجڈ نہیں تھی ! (اس خوبصورت جواب پر سب بہت ہنسے )
کیمکول: آپ کیسے طلب علم تھے ؟
میں نے میٹرک میں راجپوتانہ صوبے اور سینٹرل انڈیامیں ٹاپ کیا پھر بی ۔اے میں آگرہ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔
کیمکول : سرآپ پاکستان کب آئے ؟
ہندوستان میں ، میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ پاکستان ۱۹۵۰ء میں آیا اور آج تک کبھی واپس نہیں گیا۔ میرا سارا خاندا ن اب بھی وہیں ہے۔ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں کہ جنم بھومی سے محبت واپس کیوں نہیں لے جاتی لیکن میرا دل نہیں چاہتا وہاں جانے کو ۔
کیمکول : دل کیوں نہیں چاہتا؟
بیٹا جو کچھ بھی ملا ہمیں پاکستان سے ملا۔ پاکستان سے بہتر کوئی جگہ نہیں ویسے بھی جس چیز کو آپ چھوڑ چکے اس کی طرف رخ کرنے کا کیا فائدہ ؟
کیمکول : سر آپ ۱۹۴۷ء میں پاکستان آئے نہیں بعد میں آئے ، اس کی کیا وجہ تھی ؟
انھوں نے بتایا کہ وہاں ڈپٹی کمشنر تھے اور اچھی طرح سے سیٹل بھی ۔ میں واپس نہ آتا لیکن ہوا یوں کہ ۱۹۴۹ء تک وہاں کے دفاتر میں سرکاری زبان اُردو ہی تھی تاہم ۱۵ جون ۱۹۴۹ء کو متفقہ فیصلے کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ اب سرکاری زبان’’ہندی ‘‘ ہوگی۔ اس کے بعدمیں نے واپسی کا فیصلہ کرلیا اور ۱۹۵۰ء میں ہم لوٹ آئے۔
کیمکول: دیکھا جائے تو آج کے دور میں زبان سے ایسی محبت کرنے والے بہت کم ہیں ؟
عقلمندوں کی تعداد ہمیشہ کم ہوتی ہے !
کیمکول: سر آپ کو اپنی تصنیفات میں کون سی سب سے زیادہ پسند ہے ؟
’’ آ ب گم ‘‘ ، ’’ چراغ تلے ‘‘ایام جاہلیت کی لکھی ہوئی ہے۔
کیمکول: آپ بہت عرصہ Banking جیسے خشک شعبے سے منسلک رہے ہیں اس کے ساتھ مزاح کو کیسے برقرار رکھا؟
میں سمجھتا ہوں کہ ادب ہو یا آرٹ دونوں میں ا یک تو کل وقتی مصنف ہوتا ہے اور دوسرا آؤٹ سائڈر ، Outsider ایک Casual شخص ہوتاہے جو کسی کل وقتی مصنف کی نسبت ایک فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ایک تازگی اور مقصد ساتھ لے کر چلتا ہے ۔اس کو آپ یوں سمجھیں کہ مجھ جیسے Outsider کے لیے ادب ’’ منکوحہ ‘‘ نہیں ’’ محبوبہ ‘‘ ہے!اس لیے جو تازگی اور شگفتگی آؤٹ سائڈر کے پاس ہوتی ہے وہ کل وقتی مصنف کے ہاں کم نظر آتی ہے۔
کیمکول: سر آپ کی طبیعت میں کوئی شرارتی پہلو تھا جو آپ کو مزاح کی طرف لایا یا خودمزاح ہی سبب بنا؟
بھئی شرارت کے لائق تو اچھی تندرستی ہوتی ہے۔ کھیل کود میں بہت پیچھے تھا۔ اس کا کچھ حال تو آپ نے’’ سرگزشت ‘‘ میں پڑھا ہوگا۔
چھٹی جماعت میں ایک دفعہ میں نے ریس میں حصہ لیا تو آنکھیں بند کر کے دوڑ لگانا شروع کردی کیونکہ کسی سے سن رکھا تھا کہ آنکھیں بند کر کے بہت تیز دوڑا جاسکتا ہے۔ اس وقت میری عینک کا نمبر چھ تھا اور اس نمبر پر عینک کے بغیر آپ تھوڑے سے فاصلے پر بھی چیز کو ٹھیک طرح نہیں دیکھ سکتے۔ اب ہم دوڑ رہے تھے ۔کچھ دور پہنچے تھے کہ تالیوں کا شور سنائی دیا۔ میں نے سمجھا کہ بہت اچھا دوڑنے پر تالیاں بج رہی ہیں آنکھیں کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا دوڑ تو کب کی ختم ہوچکی تھی !
( اس واقعہ سے سب بہت لطف اندوز ہوئے)
اسی طرح ایک دفعہ کبڈی میں حصہ لینے کا شوق ہوا، ہمارے ایک چچا تھے۔ انھوں نے کہا پہلے اکھاڑہ کھو دو ۔ ہم نے دوماہ اکھاڑہ کھودنے میں ہی لگا دئیے ۔کسی نے کہا بس کردو اب اورکشتی لڑو۔ ہمارا مقابلہ ۶ یا ۷ سال کے ایک لڑکے سے ہوا ۔میری عمر اس وقت ۱۲ سال تھی اس لڑکے نے ۲۰ سکینڈ میں مجھے زیر کردیا اور چت کر کے میرے سینے پر بیٹھ گیا ۔
کیمکول : سر کوئی ایسا واقعہ جو آپ کو یاد گار لگتاہو ؟
میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اچھی زندگی وہ ہے جو Eventless ہو۔ بالکل ہموار جس میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہو۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ میر ی زندگی کا غیر معمولی واقعہ کیا ہے تو میں کہتا ہوں ’’میری پیدائش !‘‘ اور الحمدللہ کہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں۔
کیمکول : آپ کے خاندان میں یا بزرگوں میں کسی کو ادب سے شغف تھا ؟
نہ بزرگوں میں نہ بچوں میں ۔
کیمکول : قیام پاکستان سے قبل آپ کا خاندان بہت اچھے مسلم گھرانوں میں سے ایک تھا مثلاً آپ کے والد صاحب Legislative Council کے رکن تھے۔ آپ کے سسر جج تھے ۔ خاندان بہت پڑھالکھا تھا۔ مطلب ایک Well Settled مسلم فیملی تو آپ کا وہ دور کیسا گزرا ؟
جی ہاں میرے والد پولیٹیکل سیکرٹری تھے جو انگریز ریزیڈنٹ اور نواب کے درمیان ہوتا ہے۔ جب ہم پاکستان آئے تومیرا ارادہ سرکاری ملازمت کرنے کا تھا چنانچہ Banking میں آگئے۔ اس وقت ہم رات گیارہ بجے تک فارغ ہوتے اور د س بجے تک تمام بسیں بند چکی ہوتیں۔ چنانچہ واپسی کا سفر کئی کئی میل پیدل چل کر کرتے ۔سخت زمانہ گزرا لیکن اس وقت یہ سخت نہیں لگتا تھا اب لگتا ہے۔
کیمکول : پاکستان بننے سے پہلے مختلف تحریکیں چل رہی تھیں آپ بحیثیت نوجوان اورطالبعلم اپنے ہیروز میں کن سے متاثر تھے ؟
میں میٹرک سے لے کر ایم۔ اے تک اپنی کلاس میں واحد مسلمان تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان وہاں کس طرح handicapped تھے۔ میرے والد تو کٹر مسلم لیگی تھے جبکہ میرا حال وہی تھاجو Intellectuals کا ہوجاتاہے۔میں نے گاندھی جی کو بہت پڑھا تھا۔ ان سے بہت متاثر تھا۔ ایک پنڈت تھے ان کا ایک جملہ ان دنوں بہت مشہور ہوا۔ جب کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کب سے گوشت نہیں کھایا ؟ تو پنڈت صاحب نے جواب دیا :
"I have not tasted a fellow creature for the last forty years"
اس جملے سے میں بہت متاثر ہوا اور میں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ والدین نے بہت سمجھایا کہتے مسلمان Vegetarian ہو ہی نہیں سکتا ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ(ترجمہ) ’’ گوشت پاک ہے ‘‘ لیکن میں نے ہاتھ نہیں لگایا۔ ایک روز والدہ صاحبہ میرے پاس آئیں کہنے لگیں کہ ’’ تمہارے والد کہہ رہے تھے کہ انھیں خبرملی ہے کہ تم کسی ہندو لڑکی کے پھیر میں ہو! ‘‘
اوہ خدایا ! یہ بہتان ۔ ہم نے سوچا زبانی تردید پر تو کوئی یقین نہ کرے گا۔ کوئی عملی ثبوت دینا پڑے گا چنانچہ ہم نے اگلے ہی روز گوشت کھانا شروع کردیا ! (قہقہہ) حالانکہ جس لڑکی سے میری دوستی تھی وہ عیسائی تھی ! (قہقہہ ) لیکن مجھے والد صاحب کی غلط بیانی پر بہت غصہ آیا کہ نمازی ، پرہیزی ہوتے ہوئے بھی ایک غلط خبر پر یقین کر بیٹھے ۔میں اب بھی چھ سال سے Vegetarian ہی ہوں پر اب کوئی بہتان لگائے تو چھوڑوں !! (اس واقعے سے سب لوگ بہت لطف اندوز ہوئے اور خوب ہنسے )
کیمکول : سر آ پ کو کھانے سے ہی دلچسپی ہے یا کچھ بنا بھی
لیتے ہیں ؟
جی ہاں میں کھانا بنانا جانتا ہوں اور جب کبھی خانساماں کو چھٹی کی ضرورت ہو تو ناشتہ میں خود ہی بناتا ہوں۔ میں نے آج تک کسی سے جوتے پالش نہیں کروائے اور کبھی کسی دھوبی سے اپنی قمیض نہیں دھلوائی ہمیشہ خود دھوتا ہوں ، استری بھی خود کرتا ہوں ۔
سردھوبی پر اعتبار نہیں یا ویسے ہی ؟(یہ سوال اسامہ بھائی ہی کر سکتے تھے !)
نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اپنا کام میں خود ہی کرتاہوں۔
کیمکول : نئی جنریشن سے جو ادیب آرہے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ چند سال بعد ادب کو کہاں دیکھتے ہیں؟
آئیں گے ابھی اور لوگ آئیں گے۔ بابِ سخن کبھی بند نہیں ہوتا۔ جو لوگ کہتے ہیں سلسلہ رک گیا وہ یہ دیکھیں کہ مولانا جیسے دور بین ، جہاندیدہ شخص نے ایک دفعہ کہا تھا
شاعری مرچکی ، اب زندہ نہ ہوگی یارو
یاد کر کر کے اسے دل نہ جلانا تم اب
لیکن آپ دیکھیں کہ اسی کے بعد حسرت موہانی بھی آئے ، اقبال بھی آئے ، فیض بھی آئے۔ شاعری مری تو نہیں بلکہ اس میں اور نکھار آگیا تو بابِ سخن کبھی بند نہیں ہوتا بلکہ اس میں وقفے آتے رہتے ہیں اور یہ وقفے ایسے ہی ہیں جیسے ’’ خاندانی منصوبہ بندی ‘‘ میں آتے ہیں۔
کیمکول : سر آپ نے شاعری کو کیوں نہیں اپنایا؟
میں کبھی کبھی تک بندی کرلیتا تھا لیکن بہت زیادہ دلچسپی کبھی نہیں لی ۔
کیمکول : آپ کا کوئی شعر جو یاد ہو ؟
یونہی سا ہے مثلاً
بہت کھایا ہے گڑ منے نے بچپن میں
دل اب میٹھے سے کھٹا ہوگیا ہے
کیمکول : عہد موجود میں طنز ومزاح کے حوالے سے کوالٹی شاعری بہت کم ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
کوالٹی شاعری موجودہے مثلاً انور مسعود صاحب بہت بلند پایہ شاعر ہیں۔ ان کے علاوہ سیدضمیرجعفری،محمدجعفری وغیرہ گزرے ہیں۔
اصل میں شاعری مزاح کو برداشت نہیں کرسکتی۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ آپ دیکھیں کہ انگریزی میں Humorous Poetry نام کی کوئی چیزنہیں ، انگریزی میں مزاجیہ نظم ہو تو اسے Humorous verse کہتے ہیں، Poetry نہیں وہی کہ شاعری مزاح کو برداشت نہیں کرسکتی یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنی محبوبہ کا مذاق اڑا رہے ہیں تو پھر وہ نکاح پر توآمادہ نہیں ہوگی !
کیمکول : سر لاہور آپ کو کیسا لگتا ہے ؟
لاہور بہت اچھا ہے ۔ یہ واحدشہر ہے جس میں شہر کی شان،عظمت ، تہذیب اور رچاؤ موجودہے۔ اس شہرکا مزاج ہی اور ہے (جیسے لال) جسے لاہوریے نہیں سمجھ سکتے۔ قدیم شہر کی قدامت کا اندازہ یہیں ہوتا ہے باقی تو بس آبادیاں ہیں بڑھتی جاتی ہیں مثلاً کراچی دوکروڑ کی آبادی ہے لیکن آپ اسے شہر نہیں کہہ سکتے ۔
کیمکول : آج کے ادیبوںیا شاعروں میں آپ کی کسی سے دوستی ہے ؟
بھئی جن سے دوستی تھی وہ رخصت ہوگئے۔ میں روزانہ اخباروں میں فوت ہو جانیوالوں کے نام پڑھتا ہوں کہ کوئی جاننے والا ہو تو معلوم ہونا چاہے لیکن اب تو مرنے والوں میں بھی جان پہچان والا نہیں رہا بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ
پانی وضو کو لاؤ ، رخ شمع زرد ہے
مینا اٹھاؤ ، وقت اب آیا نماز کا
(اس پر سب نے نیک خواہشات کا اظہار کیا )
کیمکول : سر اپنی بیگم کے بارے میں کچھ بتائیے وہ کیسی تھیں؟
بحیثیت انسان وہ مجھ سے بہت بہتر اور برتر تھیں ، صابر بھی، کسی ادیب ، شاعریا آرٹسٹ کو برداشت کرنا عام بات نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے یا مشورہ مانگے تو میں کہوں گا کسی شاعر یا ادیب سے کبھی شادی نہ کریں۔ یہ لوگ دور سے دیکھنے میں بہت اچھے لگتے ہیں قریب جا کر برداشت نہیں ہوتے۔ وہ میں کہتاہوں کہ ادیب اور قاری کے درمیان کتاب بھر کافاصلہ ہونا چاہیے اور اگر پڑھنے والی خاتون ہے تو ادیب اور اس کے درمیان شوہر بھر کا فاصلہ ہونا چاہیے !
کیمکول : آپ علی گڑھ یونیورسٹی سے پڑھے ہیں جو اس زمانے میں بہت اعلیٰ اقدار اور نظم وضبط کا پابند تھا۔ اس کے بارے میں کچھ بتائیے ؟
علی گڑھ میں ملک کے ہر صوبے سے طلباء پڑھنے کے لیے آتے تھے مثلاً کوئی آسام سے ، کوئی یو پی سے ، کوئی بنگال سے اس طرح مختلف لوگوں کا ایک گٹھ جوڑ تھا جس سے ماحول میں تنوع تھا تبھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو علی گڑھ کا تعلیم یافتہ نہ ہو بلکہ یہ اکبر بگٹی صاحب بھی وہیں پڑھتے تھے۔ آج کے دور میں بھی ایسا کوئی ادارہ ہونا چاہیے جہاں تمام صوبوں کے طلباء اکھٹے ہوسکیں۔
کیمکول : سر یہ تبدیلی کیوںآگئی کہ وہی لوگ جو پاکستان کے ساتھ شامل ہوئے اب وہی علیحدگی پسند تحریکیں چلا رہے ہیں؟
بہت سی وجوہات ہیں۔ اس میں انڈیا کا بہت ہاتھ ہے۔ اس نے بہت اکسایا کہ آپ ایک الگ قوم ہیں آپ کو Independent ہونا چاہیے۔
کیمکول : پاک انڈیا تعلقات کیسے ہونے چاہئیں؟
اچھے ہی ہونے چاہئیں لڑ جھگڑ کر تو زندہ نہیں رہ سکتے ۔
کیمکول : سر آپ نئی نسل کے لکھاریوں کو کیا پیغام دیں گے ؟
میں کہوں گا کہ خوب پڑھیں اور خوب سوچیں اور سب سے بڑھ کر آبزور یشن زندگی کی روٹین گھٹی گھٹی سے ہوتی ہے اس لیے آبزوریشن زندگی کے بغیر کوئی تازگی یا Originality نہیں آتی۔ مشاہدے کو اپنائیں۔
(اس کے ساتھ ہی یہ چھوٹی سے محفل برخاست ہوئی۔ ہم نے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا ’’ اپنا خیال رکھیے گا ‘‘ تو یوسفی صاحب نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ ’’ کوئی یہ نہیں کہتا ہم آپ کا خیال رکھیں گے ۔ سب یہی کہتے ہیں اپنا خیال رکھیے گا۔ بھئی انسان اپناخیال تو رکھتا ہی ہے !‘‘اس کے ساتھ ہی یہ چھوٹا سا قافلہ بہت ہی خوشگوار تاثرات لیے ’’ لوٹ کے بُدھو گھر کو آئے‘‘ کی مانند واپس اپنے تھان یعنی K.E لوٹ آیا !)
پسند نہ آنے یا کسی بھی زحمت یا کوتاہی کے لیے دلی معذرت !
****
شہدا کے نام
شہیدان وطن اپنے وطن کی جان ہوتے ہیں
وطن پر جان دیتے ہیں وطن کی شان ہوتے ہیں

وہ مائیں ناز کرتی ہیں جہاں میں اپنے بیٹوں پر
جو وقت آنے پہ اپنے دیس پر قربان ہوتے ہیں

دلوں میں جذبۂ شوق شہادت اُن کے ہوتا ہے
یہی وہ لوگ ہیں جو صاحب ایمان ہوتے ہیں

کسی کی آرزوؤں کا مہکتا گلستاں ہے یہ
کسی کے واسطے بخشش کا یہ ساماں ہوتے ہیں

بھلا نہیں سکتا کوئی بھی ان کے کارناموں کو
یہ ماؤں کے جگر گوشے وطن کی آن ہوتے ہیں

حقیقت آشنا بن کر یہ جیتے ہیں زمانے میں
محبت اور اخوت کا بھرا دیوان ہوتے ہیں

انہی کے دم سے قائم ہے وطن کی زندگی طالبؔ
حقیقت میں یہ ساری قوم کی پہچان ہوتے ہیں
طالب حسین ہاشمی