افسانہ، تصویرکہانی
فرخ ندیم


کونے ۔۔۔ میں ص ۔ صص ۔صدیوں سے پڑا ہوں۔۔۔ صص صدیاں کیا ہوتی ہیں۔۔۔ مم معلوم نہیں۔ نہ ختم ہونے والا لمبا وقت ہوتا ہے۔نبوجی نے بتایا تھا۔۔۔نبوجی بھی اسی مم۔مم مرگھٹ میں تھا۔ اس کو
گگ گگ گاڑی لے گئی۔۔۔ وہ مرگیا۔۔۔ ہرمرنے والے کو ایک گاڑی لے جاتی ہے۔ مرنے کے بعد ہی کیوں ؟۔۔۔پہلے بھی لے جا سکتی ہے۔کہاں لے کے جاتی ہے گاڑی۔۔۔مم۔مم۔معلوم نہیں۔
مم میرانام اُم، اُم بگوا ہے۔نبوجی نے بتایا تھا ۔تمہیں مجھ سے ۔۔۔ ہائے ماں۔۔۔ میرا بایاں ہاتھ۔۔۔ تمہیں مجھ سے بُو نہیں آتی۔۔۔؟ میراپنجر سا سوکھے کیکر جیسا ننگا جسم ۔۔۔ میری کڑکڑاتی ہڈیاں۔۔۔میرا کھردرا کالامم۔مم ماس اور یہ سُوجی ہوئی ناف۔۔۔ تمہیں ان سب چیزوں سے دلچسپی ہے۔ ان سب کو اُٹھاؤاور اپنے ملک لے جاؤ۔۔۔تمہارے بچے تف۔ تف۔ تف۔ تفریح کریں گے۔ بے شک تم ٹکٹ لگا دینا۔۔۔ عجیب و غریب جسم پہ ٹکٹ ہی لگتی ہے۔ ۔۔!! نبوجی نے بتایا تھا۔ تمہارے کک کک کک کیمرے کی روشنی میری آنکھوں میں چبھتی ہے۔۔۔ میرے پیچھے ایک۔گگ۔گگ۔ گدھ ہے۔۔۔ شاید ابھی نہیں ۔تم اس کی تصویر کیوں نہیں لیتے۔۔۔ ؟وہ ہماری موت بن کر منڈلاتا ہے ہمارے گرد۔۔۔ عجیب ہے پرغریب نہیں۔۔۔ہاں میں۔۔۔ اُم اُم اُم اُم بگُوا نام ہے میرا۔۔۔ نبوجی نے بتایا تھا ۔ باپ کا نام گالن گاچو ۔۔۔تم ڈرے نہیں اس کے نام سے۔۔۔ ؟؟؟وہی کھینگر۳۰۲۔۔۔ دیواروں پہ جگہ جگہ اس کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔۔۔ تڑ تڑتڑتڑ،،،دھڑدھڑدھڑدھڑ،،،ہرطرف آگ اور خون ملادھواں تھا۔ ۔۔اورگالن گا چُوکو جلدی تھی۔۔۔ جنت میں جانے کی۔۔۔معاف کرنا مجھے میرا سس۔سس۔سانس ٹوٹتا ہے۔۔۔اوربری طرح ٹوٹتا ہے۔۔۔پہلے ہم سب ٹھیک تھے ۔۔۔نبُوجی نے بتایاتھا۔۔۔باقی رنگ برنگے آج کہاں ہیں۔۔۔وہ دیکھنے نہیں آئے۔۔۔؟؟مجھے۔۔ اب اس جمائیاں لیتے گگ گدھ سے ڈرنہیں لگتا۔۔۔گالن گاچُو کک کک کک کمپنی بہادرکو مائی باپ کہتا تھا۔۔۔نبوجی نے بتایاتھا۔۔۔توبہ توبہ توبہ۔۔۔بڑا خطرناک تھاگالن گاچو۔ میری ماں بھی ادھرہی تھی۔ یہ تمہار اجوتا کتنا صاف ہے۔۔۔ مجھ سے بو آتی ہوگی تمہیں۔۔۔!!!۔ وہ اس کیکرکی طرح سوکھ جائے گی، ماں جانتی تھی۔۔۔اس کو بھی گاڑی لے گئی۔۔۔جب وہ سوکھنا شروع ہوئی تومیں نے پہلی دفعہ اس کو دھاڑیں مارتے ہوئے دیکھا۔۔۔وہ جانتی تھی ۔۔۔ بہت کچھ جانتی تھی۔۔۔قسم ہے ماں کی۔۔۔ ماں منتیں کرتی رہی گالن گاچو کی۔۔۔سب لوگ پہاڑوں پہ چڑھ گئے ہیں۔یاشہرہی چلو۔۔۔ کہیں بھی ۔۔۔جہاں ہم زندہ رہ سکیں لیکن ہربار گالن گا چو قتل کے نن نن نن نشے میں دددد۔دھت جنت کے ورد کرتا ہوا بستی سے نکل جاتا۔۔۔
میرے باپ کو جن۔ جن۔ جنت چاہئے تھی۔ہرحال میں جنت ۔ میری ماں کہتی رہی کہ کاش اس کا نام جنت ہوتا۔مگر اسے جنت میں داخل ہونے کی جلدی تھی۔گالن گاچو کو۔ پہلے ہی جنت سدھارچکے تھے، اس کے کافی دوست۔ سو اسے بھی جلدی تھی۔ ایسی جنت سے ڈرلگتا تھا،نبوُجی کو۔ دنیا بہت بڑی ہے، وہ کہتاتھا۔ ختم ہی نہیں ہوتی ، کک کائنات۔ گالن گاچوکی طرح جنت نہیں جانا۔ گالن گا چوکی جنت ۔ بہت اندھیری اوردہشت ناک ہے۔ گالن گاچو کی طرح۔ گالن گاچو میراباپ ہے۔نبوُجی نے بتایا تھا۔۔۔ میری ماں کاباپ جج۔ جوا ہار گیا اور میری ماں اپنا آپ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں ۔۔۔!!!ان دنوں نبُوجی زور سے ہنس سکتا تھا۔۔۔ان دنوں بھی تم آئے تھے فوٹو بنانے۔۔۔ان تصویروں سے کیا کرتے ہو تم؟
پھر کچھ ایسا ہوا کہ ایسے لوگ بھی اس علاقے میں دیکھے جانے لگے جو ۔۔۔نبوجی نے بتایا تھا۔۔۔میری سانسیں۔۔۔میرا نچلا دھڑ تم دیکھ سکتے ہو ؟؟تم نے لال کالی عینک لگا رکھی ہے۔ یہ میرے دانت ۔گررہے ہیں میرے بال بھی۔گر رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے ہر چیز گر رہی ہے۔ایسا کیوں ہے؟؟ہر چیز کے گرنے کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ نبوجی نے بتایا تھا۔ امن کے نام پر جہازوں کی رسیوں سے گرتے، جویہاں کے باسی نہیں۔شش۔ شکروں جیسے جہاز اُڑتے ۔۔۔ مجھے ان کے نام بھی نہیں آتے۔۔۔ ۔ بڑے مشکل اورعجیب سے نام تھے ۔۔۔ لوگ عجیب وغریب نہیں تھے۔ عجیب تو ہم ہیں کیونکہ گریب ہیں۔نبوجی نے بتایا تھا۔ ان جہازوں سے صص صص صاحب لوگ اُترتے اور گلی محلوں میں پھیلتے چلے جاتے۔جیسے جسم پہ کاکڑا ۔لل۔لل۔لاکڑا پھیلتا ہے۔۔۔تم کتنے آزاد ہو ۔۔۔اپنے جسم سے مکھیاں اڑا سکتے ہو۔ ۔۔ گالن گاچو کا جسم کالا پتھر تھا۔اس گدھ کی طرح آ زاد۔ شاید انہی میں سے ، با ہر سے آنے والوں میں سے کسی نے۔۔۔کسی نے گالن گاچو کو جنت کی ٹکٹ دی۔ اس ٹکٹ کی برکت سے گالن گاچو کے منہ پر کرختگی صرف دو مہینوں میں ایسے پک گئی جیسے بھٹے میں ساڑاینٹ پکتی ہے۔ اس کی کامیابیوں کی وجہ سے اس کے ساتھی اُسے کھیں۔کھیں۔ کھینگر ۳۰۲ کہتے۔ جب ۳۰۲ قت ۔قت۔ قتل ہوگئے تو کھینگرچھپنے لگا۔ کبھی اس گھر کبھی کہیں ۔خبّو قبیلے کے ۳۰۲ گھروں میں مم ماتم ہونے لگا ۔ کوئی یتیمی کا رونا رونے لگا تو کوئی بیوگی کا۔ اُدھر خبّو قبیلے کے لوگوں نے بھی چچ۔چچ۔ چن چن کرگگ۔گگ گاچولوگوں کومارنا شروع کردیا۔ ہم لوگ گاچو ہیں۔نبوجی نے بتایا تھا۔ نبوجی گاچو تھانہ خبّو۔ وہ صرف نبوجی تھا۔نبوجی نے بتایا تھا۔ گالن گاچو کی تصویریں جگہ جگہ چپکائی گئیں۔ میری ماں تو پہلے ہی گالن گاچو کے لئے مرچکی تھی۔ کیونکہ اسے ایسی جنت نہیں چاہئے تھی۔ جس میں کھینگر ہی کھینگر ہوں مگر اسے ملال تھا کہ ایسے جج۔جج جوڑے آسمان پرکیوں بنتے ہیں۔جب وہ ب۔ب۔ب۔ بکم لالہ کے کھیتوں میں کام کرکے لوٹتی تو گگ۔گگ۔گگ گالن گاچُو کی جگہ جگہ چسپاں تصویروں کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتی ۔ایک تصویر ابھی بھی تم دیکھ سکتے ہو ، ذرا پیچھے مڑو اور دیکھو۔۔۔اور کتنی دیر تک وہ سہمی سہمی کچھ سوچتی رہتی۔شاید میرے بارے میں۔نبوجی نے بتایا تھا۔
اس دن ک کھ۔کھینگرنے بہت مارا تھا، ماں کو۔ جنت سے لیٹ ہورہا تھا۔ پیسے چاہئے تھے۔ بھونکتے کتوں کے پیچھے بھاگتی پولیس سے بچتا وہ کبھی کبھار ہی گھرلوٹتا۔ مارپیٹ کے بعد ماں کو اپنی جنت کے قصے سناتا۔ اس دن ماں نے میری دوائیوں کا اصرار کیا۔ اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے مگر پھربھی ، وہ روئی ۔۔پپ پپ پپ پیلی زرد آنکھوں سے پانی کے قطرے نکلے اور خشک جھریوں سے ہوتے ہوئے ٹھوڑی پہ پھیلنے لگے ۔کھڑا ہونا بھی مشکل تھا ، اس سے۔ لگتا ہے تم مجھے سن نہیں رہے۔ کوئی مجھے سن رہا ہے۔۔؟؟ کوئی بھی تو نہیں۔ گاچو نے کھینگری زبان کھولی اور کچھ بولتا ہوا بھاگ گیا۔ جب مجھ سے ملنے آیا نبوجی تو اس نے بتایا کہ اس کا مم ۔مم مطلب یہ تھا کہ جنت کی خاطر سب کچھ قربان ۔میں اسی طرح لیٹا تھا۔اُس دن ۔۔۔جیسے تم دیکھ رہے ہو اس دن اپنے گھر میں لکڑی کے ایک تختے پہ تھا اورآج میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں اس کیکر کے نیچے۔۔۔ تم اس کو مر گھٹ بھی کہ سکتے ہو۔۔۔تم کچھ بھی کہ سکتے ہو۔۔۔یہ گدھ جو مسلسل تاک میں ہے ۔مری سانسوں کی ۔۔۔ اونچے درخت پہ بیٹھ کر ہمیں دیکھتا رہتاہے ۔ننگی گردن لیے۔ جیسے وہ کوئی مالک ہو۔یا گا چو ہو۔ مالک اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔ نبوجی نے بتایا تھا۔
گالن گاچو پکڑاگیا۔نبوجی نے بتایا تھا ۔اس دن نبوجی کو بخا رتھا۔وہ بہت تپ رہاتھا۔اُس نے بتایا تھا کہ وہ گیاتھا کسی سفید چمڑی والے کے پاس۔ اس نے دوائی دی ہے۔ گالن گاچو کو پولیس جنت بھیجنے والی تھی۔ میری ماں نے خبرسنی تو۔۔۔تت ۔ تسلا اس کے ہاتھ سے گرگیا۔ کئی دنوں بعد ملا تھا ۔ دلیاکھانے کو۔ محلے کے لوگوں نے بہت سمجھایا ۔ماں کو ۔کہ مت جا۔مگر اس نے جلدی سے اپنی کمزور کمرسے کس کے مجھے باندھا اورکک۔کک۔کک۔ کڑکڑاتی دھوپ میں ننگے پاؤں کھینگر ۳۰۲ سے آخری ملاقات کے لئے چل پڑی۔میری سانس۔۔۔توبہ۔۔۔ڈوب رہی ہے۔ میری سانس۔میری پسلیوں کے اندر پیٹ کے اوپر نیچے ہونے سے ۔۔۔تم جان اور گن سکتے ہو میری سانس۔وہ بھی تیز تیز سانس لے رہی تھی اس دن ۔ وہ تیز تیز ڈگ بھرنا چاہتی تھی۔ مگر کچھ میرے بوجھ اورگالن گاچو کی خبر نے اس کی رفتار کو کم کردیا۔ میں نے اِدھر اُدھر بہت کچھ دیکھا، لوگ دیکھے، لوگوں کے چچ چہرے دیکھے۔ چہروں پہ وہ دیکھی ۔جس کو وحشت کہتے ہیں۔ نبوجی نے بتایا تھا۔ جگہ جگہ جلی ہوئی۔سڑی ہوئی گاڑیاں تھیں۔ میری ماں ڈراکرتی۔ مٹی گارے سے بنے ہوئے گھرکی بھی دیکھ بھال ایسے کرتی ۔۔۔۔جیسے کوئی سوکھی ہوئی بھوکی بیا کیاکرتی تھی۔یہ سوکھا گھر ماں کی جنت تھا۔ جنت صاف ستھری جگہ کو کہتے ہیں۔ نبوجی نے بتایا تھا۔لیکن میری ماں مایوس ہی رہتی کیونکہ یہ جگہ گالن گاچو کو پسندنہیں تھی۔ جب وہ گالیاں بکتا توماں کولگتا جیسے اس کی جنت میں کتے پیشاب کرگئے ہیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ پوچے پرولے میں مصروف ہوجاتی۔ آنسو بہاتی ۔ آج وہ اس ر شتہ دارسے ررررر رشتہ داری نبھانے جارہی تھی۔ وہ ۳۰۲ افرادکا قاتل تھا۔ اتنے لوگوں کو مم ۔مم موت کے گھاٹ اُتارناآسان نہیں مگر جنت کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ خبّو اور گا چو قبیلوں کی جنگ میں کتنے بے گناہ انسان مارے گئے!!! کسی کو کوئی احساس نہیں۔ اس لئے تو فف فف فوج نے تخت سنبھال لیا۔ رنگ برنگے لوگ شکرے جیسے جہازوں سے اُترنے لگے۔ کوئی کسی بہانے اور کوئی کسی بہانے ۔ ان میں سے کئی لوگ گالن گاچو کی تصویریں لینے کے لئے کچھے پہنے اپنی گاڑیوں کے ذریعے کش کاچو جارہے تھے۔ تم کُش کاچو جانتے ہو۔ تم وہاں بھی گئے تھے۔ پہلے کبھی ۔بعد میں بھی ۔ نبوجی نے بتایا تھا۔
سورج بجھی ریت پہ۔۔تم نے وہ کا لی کالی ریت تو دیکھی ہوگی۔۔۔جھ۔۔جھ۔۔جھ۔جھُلسی ہوئی ریت ۔بہت گر م ریت تھی وہ ۔جس پہ ماں چلی اور کتنی دیر چلتی رہی۔ تمہاری ماں کبھی ایسے چلی۔۔۔؟؟؟نہیں ۔اچھا ۔ پھر۔ پھر ایک ویران سڑک آئی ۔ما ں کے قدموں کی آوازصاف سنائی دے رہی تھی مجھے۔ جیسے جنت کی ہوتی ہے۔ اتنی صاف۔اسکی ساری انگلیاں زخمی تھیں۔ یا ورم تھے ان پہ۔ جو اس نے سر پہ کپڑا باندھا ہوا تھا نا!!!۔اس نے اسی کو توڑ توڑ کے پٹیاں کی ہوئی تھیں۔ انگلیوں کی۔ کئی باراُس نے مجھے پانی پلانا چاہا۔لیکن پانی کی ایک بوند نہ ملی۔ اس کے آگے حبوقبیلے کے گاؤں تھے۔ جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت میں لوگ چپلیں گھساتے ک ۔ک کش کاچو کی طرف بڑھ رہے تھے۔سب کے سب حیران تھے کہ ایک آدمی اتنا سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔ جن جنگ اور لل لڑائی مردوں کا کھیل ہے۔ بیچارے بچوں اور عورتوں کا کیا قصور؟ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ انتقام ان اندھا ہوتا ہے۔نبوجی نے بتایا تھا۔ یہ عمر نہیں دیکھتا بس موت دیکھتا ہے دشمن کی۔نبوجی نے بتایا تھا۔ گالن گاچو کی ذاتی دشمنی توکسی سے نہیں تھی ۔ اسے کمپنی بہادرکی صحبت نے سب کچھ سکھا دیا تھا اور ایک مہربان رہنمانے تو جنت کا ٹکٹ بھی دے دیا۔ چلتے چلتے ماں کبھی کبھی مجھے بلانا شروع کردیتی ۔ اس ڈر سے کہ کہیں میں گزر ہی نہ گیا ہوں۔ دیواروں اوردرختوں پہ جگہ جگہ کھینگر ۳۰۲ کی تصاویر اس کی توجہ ہٹا دیتیں اور وہ ہائے ہائے کرتی آگے بڑھ جاتی ۔ اس کے کمزور جسم سے بندھا میرا وجود مجھے خود بوجھ سا محسوس ہورہا تھا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ہم کون ہیں۔۔۔کیوں ہیں اورکہاں جارہے ہیں۔ لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے کہ قتل و غارت گری کے ماحول میں یہ عورت بچہ اُٹھائے کدھربھاگ رہی ہے۔ بندوقوں والے پاس سے گزرے بھی تھے۔ کبھی حبو اور کبھی گاچو ۔ ان سب کا ایک ہی مقصد تھا۔ جنت ۔ جگہ جگہ کھڑے لوگ فائرنگ اور شور شرابے سے ان کا سواگت کرتے۔ ان کے جانے کے بعد وہی ماں کے قدموں کی آواز ہی رہ جاتی پھر میری آنکھ لگ گئی۔
جب آنکھ کھلی تو منظر بہت بری طرح بدل چکا تھا۔ ہر طرف فف۔فف۔ فوج اورپپ۔پپ۔پولیس تھی۔ جو عوام کو کنٹرول کرنے میں مصروف تھی۔ ماں کراہتے ہوئے پنڈال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایک بڑاسامیدان تھاجس کے درمیان گالن گاچو رسیوں سے جکڑا ایک ٹیلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔اس کے اردگرد کچھ و ردیوں والے دائرے میں کھڑے گھوم رہے تھے۔ قاضی نے حضرات کہا اور مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پنڈال میں ماں نے قدم رکھا ۔ہزاروں آنکھیں پھٹی پھٹی نظروں سے ماں کی طرف دیکھنے لگیں۔ مگر ماں کی نظریں گالن گاچو پر جمی ہوئی تھیں۔لوگ ایک دوسرے سے اوپر اُٹھ اُٹھ کر دیکھنے لگے کہ آخرماجرا کیا ہے۔ یہ عورت کون ہے اور ہزاروں مردوں کے درمیان سے راستہ بناتی خاموشی سے کک کدھر جا رہی ہے۔جواربابِ اختیار تھے نبوجی نے بتایا تھا کہ وہ اربابِ اختیارتھے۔ وہ سمجھ چکے تھے۔ اُنہوں نے عوام کو خاموش رہنے کی تاکید کی۔ ماں آگے بڑھی اور آگے ۔ اب اس کے سامنے ایک شخص تھا۔ کھینگر ۳۰۲۔ ماں نے اس کی آنکھوں سے بندھی پٹی نیچے کی ۔ سبھی نے ماں کے کندھوں کے پیچھے سے اُٹھ کر دیکھا۔ پھر ایک دم کچھ ایسا ہوا کہ سارا ہجوم کھڑا ہوگیا ۔ یہ گالن گاچو کے سخت گال پرپڑنے ولا ماں کا تھپڑتھا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ کہ ایسا کیوں ہوا۔ نہ ہی کسی نے آگے بڑھ کے پوچھا۔ ۔۔بس۔۔۔ سب لوگ بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔
اس کے بعد ماں واپس مڑی اورلوگوں کی گردنیں بھی مڑیں۔ لوگ اونچی اونچی آوازوں میں کچھ بول رہے تھے ۔ جونہی ماں پنڈال سے باہر نکل کر واپسی کے راستے پہ مڑی تو تڑتڑتڑ کی آواز آئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے ماں کو گولی ماردی ہو۔ وہ اس طرح اندرسے ہل گئی تھی۔ مگر وہ آگے کی طرف چلتی رہی۔ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا ۔ گالن گاچو اوندھے منہ گراہواتھا۔ وہ اپنی جنت پہنچ چکاتھا۔ اسے بہت جلدی تھی ۔نبوجی نے بتایا تھا۔ ماں نے ایک دفعہ بھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ اب وہ جلدازجلد اپنے گھر پہنچنا چاہتی تھی۔ جیسے وہ گاچوسے پیچھا چھڑارہی ہو۔ہم دونوں بھوک سے نڈھال ہورہے تھے۔ ماں بیماربھی تھی وہ سوکھ رہی تھی۔ جیسے درخت سوکھتے ہیں۔ پاس سے رنگ برنگے لوگوں کے قافلے گزررہے تھے۔ موٹے کالے شیشوں والی عینکوں۔۔۔جیسے تمہاری ہے۔۔۔کے پیچھے آنکھوں کا مجھے پتا بھی نہ چلا کہ وہ ہمیں دیکھ رہی ہیں یا نہیں۔ لیکن موٹی توندوں والے لوگ بھی تھے۔ ۔۔وہاں۔۔۔کھڑے ہوئے۔۔۔ کاسے لیے ۔۔۔ وہ ان کاسوں میں سکے ڈال رہے تھے۔ ماں جیسے میرے جیسے نبوجی جیسے کتنے لوگ تھے ۔ جنہوں نے کئی دنوں سے کچھ بھی نہ کھایاتھا۔ یہ ہمارے لئے نہیں آئے تھے۔ نبوجی نے بتایا تھا ۔ قحط زدہ زمین پہ ایک گھونٹ پانی کا نہیں تھا جو ہم پیتے ۔ ماں کو ایک سوکھا کیکر نظر آیا گرتی پڑتی وہ مجھے وہاں لے گئی۔سارے راستے میں نے ایک دفعہ بھی پیشاب نہ کیا ۔ ماں نے ادھر ادھر دیکھا۔ میرے حلق سے خررخررخررخرر کی آوازآنے لگی۔ ماں نے فوراََ اپنے بالوں کو دوچاربل دیے اور میرے حلق کو اپنے پسینے سے تر کیا۔کتنی دیر ہم دونوں جھلسا دینے والی گرمی میں ٹوٹی ہوئی سڑک کی طرف دیکھتے رہے۔ بہت سارے لوگ وہ تھے جو گالن گاچو کو دیکھنے گئے تھے۔ اب وہ پہچان رہے تھے۔ ۔ ان میں سے کچھ اندھا دھند گولیاں چلا رہے تھے۔ نعرے لگاتے جارہے تھے۔ شاید انہوں نے پیٹ بھر کر کھاناکھایا تھا۔ پتہ نہیں وہ ہمیں دیکھ کر کیا سوچتے تھے۔ جگہ جگہ مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے۔ جن کے گرد گدھ کھڑے تھے۔ کانٹے دار جھاڑیاں ہوا سے اُڑتی راستوں پہ پھیل رہی تھیں۔ اور ماں ان سے اپنے پھٹے ہوئے پاؤں بچاتی گاؤں در گاؤں واپس چل رہی تھی۔ہاتھوں میں برچھیاں اور بندوقیں لیے۔۔ ۔جوان اور بوڑھے۔۔۔ اپنے گھروں کی دیواروں کے سامنے کھڑے وہ تو نفرتوں کو تاؤ دے رہے تھے۔ نبوجی نے بتایا تھا۔ پھر بھی کچھ نہیں سوچتے تھے۔ ان لوگوں کے لیے یہ دنیا ایک نن نرک ہے۔ یہ سب جج جنت کے متلاشی تھے۔ نبوجی نے بتایا تھا۔تن ڈھانپنے کو کپڑا پورا نہ تھا پر برچھیاں اور بندوقیں چمک رہی تھیں ۔
آٹھ دس دفعہ کی کوشش کے بعد ماں اُٹھی۔ اس کے چلنے کی آواز مجھے بہت اچھی لگی۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ ہماری شہرت جگہ جگہ پھیل چکی تھی۔ اسی لئے بہت سی سوالیہ نگاہیں ماں کا طواف کر رہی تھیں۔ ایک کوس ، دوکوس، تین کوس ، ایک گاؤں، دوگاؤں، تین گاؤں، گاؤں در گاؤں، کئی میل ہم ایسے ہی چلے ۔لوگ ہمیں دیکھتے رہے۔ ’’آخر کیوں‘‘ یہ کسی نے نہ پوچھا۔ نہ کسی نے دودانے ہی کھلائے۔ کون کھلائے گا۔ لٹیرے مالک بن چکے ہیں ۔ جو دینے والے تھے وہ تو سوکھے ہوئے کیکروں کے نیچے کب سے سوکھ رہے ہیں ۔ زندہ ہیں نہ مردہ۔ باقی سب لینے والے ہیں۔مم مال ،جج جان،جینے کا حق اورخخَ ۔خخ خون ۔ نبوجی نے بتایا تھا۔ شام سمے ہم گھر پہنچے ۔ بستی کے باہرنبوجی تاپ سے آگ ہورہا تھا۔ کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سوکھی شاخ تھی۔ ہمارے بارے میں وہ بہت فکرمندتھا۔ آج بھی پانچ لوگ سوکھ کے مر گئے۔نبوجی نے بتایا تھا۔ سب کو گاڑی لے گئی۔میرا نچلا دھڑ سُن ہو چکا ہے۔ جب نبوجی مرا تو اسکا سارا دھڑ سُن ہو چکا تھا۔ میں رو رہا ہوں ۔۔۔؟؟ کئی دن ہم اکٹھے یہاں مرتے رہے۔ اور ایک دن گاڑی نبوجی کو بھی لے گئی۔ اس سے پہلے ماں کو لے گئی۔ مجھے بھی لے جائے گی ۔وبا ایسی پھوٹی۔۔۔یہ وبا تمہاری طرف بھی پھوٹی ہے؟؟ نہیں ۔۔۔؟؟؟تم کبھی بھوکے سوئے ہو؟ہم سب۔۔۔ہاں ہم سب۔۔۔ انسان ہیں ۔نبوجی نے بتایا تھا۔ اسی سوکھے کیکر کے نیچے ہم نے اکٹھے سوکھی ہوئی زندگی کا تجربہ کیا۔ ہمیں حفاظتی ٹیکے لگائے گئے اور سوکھنے کا عمل اورتیز ہوتا گیااوراب یہ حالت ہے۔۔۔جوتم دیکھ رہے ہو۔۔۔۔
میری تصویریں مت بناؤ۔ کئی بدرنگے پہلے بھی آئے۔ گالن گاچو کی بیوی کی تصویریں بنائیں اور چلے گئے۔ پیچھے رہ گئی نفرت اور بد بختی۔ کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ میری تصویریں بھی مت بناؤ۔ میری بات سنو۔ میرے لب ہل نہیں رہے کیا۔کئی دنوں سے میں نے ک۔ک۔ک۔کروٹ نہیں لی۔ مجھے زمین کھا رہی ہے۔ میں نے بھی کئی بار مٹی کھائی اورکچھ کھانے کو۔۔۔ اس کو مرگھٹ کہتے ہیں۔ نبوجی نے بتایا تھا۔ یہ جو گدھ میرے اردگرد منڈلا رہاہے۔ یہ روزمجھے دیکھنے آتا ہے۔ گالن گاچو بھی ایسا ہی نظر آتا تھا۔ یہ نبوجی کو بھی دیکھنے آتا تھا۔ نبوجی نے اس کا نام کمپنی بہادررکھا تھا۔۔۔مجھے دیکھو میں ہنس رہا ہوں کہ ، نہیں۔۔ ۔کسی کو کچھ پتا نہ چلا ۔۔۔ بب بب بیماری ہماری ہڈیوں میں اُترتی چلی گئی۔ میں یہیں بڑاہواہوں ،ماں کے ساتھ ۔ تم نے وہ تصویرتو دیکھی ہوگی۔ سوکھی ہوئی چھاتیوں سے۔۔۔ چمٹا ہوا ایک لل لاغر بچہ ۔۔۔ننگی پیٹھ والا۔۔۔بس یہ ہے میرا بچپن اور میری کہانی۔۔میرا پیٹ دیکھو۔۔۔جس سے میں نے جنم لیا تم نے وہ کوکھ نہیں دیکھی۔۔۔کیا تم نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔؟؟؟ وہ ۔۔۔ ہو سکے تو دیکھو ۔ ان پہاڑوں کے پیچھے سے ایک گدھ اُڑا ہے۔ وہ اِدھر ہی آرہا ہے۔ یہی ہے وہ اس نے ماں کے بازوؤں پر پنجے گاڑ کر اس کی آنکھیں نکال لیں۔ یہ دیکھو ۔۔۔یہ میری طرف بڑھ رہا ہے۔ ہاں یہی تھا۔ میں نے ۔۔۔میں نے۔۔۔میں نے۔۔۔ پہچان لیا ہے۔ یہ یہیںآ رہا ہے۔ ۔۔۔ اس کی ہنسی بہت خخ خطرناک ہوتی ہے۔نبوجی نے بتایا تھا۔ اس نے نبوجی کو نن نن نوچ ہی ڈالا ۔ اسے کہو مت پھینکے ۔میرے منہ پہ سس سس سگریٹ کا دھواں ۔۔ اچھا۔۔۔ تمہاری عینک۔۔۔ اس نے تمہاری عینک لگالی ہے۔ ۔۔ اس کی چونچ میں تیز نوکیلے دانت ہیں۔ یہ دیکھو بے شرم کہیں کا کتے کی طرح پیشاب کررہا ہے۔ تم نے اخباروں میں تو پڑھا ہوگا۔ ۔۔چھوڑو۔۔۔ کیا فائدہ بتانے کا ۔۔بتاؤ کچھ ہے؟؟۔ اس نے اخباروں کے اخبار کھا لیے۔ ڈکار مارکر قے کردیتا ہے۔ یہیں نبوجی لیٹا ہوتا ہے۔ اس بد رنگے گدھ نے ۔۔۔ اپنے موبائل کے کیمرے سے اس کی فلمیں بنائیں۔ اس کے کمزوربدن کو جھنجھوڑتااور تصویریں بناتا۔ چونچ اس کے منہ میں داخل کرکے زبان تلاش کرتا۔ یہ نہیں ہوسکتا ۔ نبوجی نے بتایا تھا۔ وہ اپنی زبان عطیہ کرچکا تھا۔ یہ نبوجی کی چھاتی پہ بیٹھ کے اس زور سے چیختا کہ لوگ مرنا بھول جاتے اور آخر ایک دن اس نے تنگ آکر اس کا صفایا کردیا۔ ۔۔ اس دن کے بعد۔۔۔نبوجی نے ۔۔۔کچھ نہ بتایا ۔ رہے سہے ۔۔۔یاتم کہہ سکتے ہو کہ باقی ماندہ ۔۔۔میری سانسیں ۔۔۔ ؟؟؟اُف۔۔۔ نبوجی کوگاڑی لے گئی۔ ۔۔تم سن رہے ہونا۔۔۔تڑتڑتڑ۔۔۔ دھڑ۔۔۔دھڑ۔۔۔دھڑ۔۔۔ ہر چیز ۔۔۔ کھیت۔۔۔ بستی۔ماں ۔۔۔ سوکھے درخت۔۔۔ غائب ۔۔۔ تصویر۔۔۔ تھپڑ۔۔۔ گدھ۔۔۔ زبان۔۔۔ سوکا۔۔۔گالن گاچو۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کھینگر تین سودو پاگل تھا۔کھوتا۔۔۔ بیوقوف۔۔۔ تڑتڑتڑ۔۔۔ دھڑدھڑدھڑ یہی کرتا تھا وہ۔ ۔۔۔ روایت کے حکم سے۔۔۔ تکمیل ہوتی ۔۔۔ گدھ کے ہاتھوں ۔۔۔ پیچھے اس امام دے۔ منہ طرف ۔۔۔ کمپنی بہادر۔۔۔ میری سانسیں ۔۔۔ ۔ گاڑی ۔۔۔ میرے کان میں ۔۔۔ نن نن نن ۔۔نبو۔۔نبو۔