یاد رفتگان، ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد میں
ڈاکٹر انور سدید
 
اردو زبان و ادب کے ممتاز ادیب، نامور شاعر، تازہ فکر انشائیہ نگار اور عہد سازرسالہ اوراق کے مدیر ڈاکٹر وزیر آغا ۷؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کو ۸؍ستمبر۲۰۱۰ء کو ان کے آبائی گاؤں وزیر کوٹ میں لحد میں اتارا گیا تو پوری اردو دنیا نے گریہ کیا کہ ادب کا ایک آفتاب’’شام کی منڈیر‘‘ سے جھانکتے جھانکتے عدم کی بے کراں رات میں اتر گیا ہے۔ جب ان کی وفات پر اخبارات ورسائل میں خبریں، اداریے اور مضامین شائع ہوئے تو یہ حقیقت تسلیم کی گئی کہ ڈاکٹر وزیرآغا وجودی طور پر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں لیکن وہ فنا نہیں ہوئے۔
نظریاتی کتابوں کے علاوہ اپنی شاعری کے ایک درجن سے زائد مجموعوں اور انشائیوں کی تین کتابوں ’’خیال پارے‘‘؛ ’’دوسرا کنارہ‘‘ اور ’’سمندر اگر میرے اندر کَرے‘‘ میں زندہ ہیں۔ اہلِ تحقیق و تنقید نئے موضوعات پر کام کرتے وقت جب’’اوراق‘‘ کی ورق گردانی کریں گے تو انھیں وزیر آغا یاد آئیں گے جنھوں نے اس رسالے کے اداریوں میں بہت سی نئی معلومات فراہم کی تھیں اورنئے عالمی موضوعات سے متعارف کرایا تھا۔ یہ اداریے جناب ڈاکٹر اقبال افاقی نے کتابی صورت میں شائع کر دیے ہیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا ۱۸؍ مئی ۱۹۲۲ء کو سرگودھا کے ایک نواحی گاؤں وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد آغا وسعت علی خان لاہور میں گھوڑوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے دادا اور پردادا بھی گھوڑوں کے سوداگر تھے لیکن بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس خاندان کے مالی حالات خراب ہوگئے۔ اس دوران سرگودھا کا ویران کڑانہ بار رقبہ انگریز حکمرانوں نے گھوڑی پال شرائط کے تحت تقسیم کر دیا۔ وزیر آغا کے والد کو گھوڑے پالنے کے لیے اراضی دی گئی۔ اس خطے میں ممتاز شاعر فیض احمد فیض کے والد کو بھی اراضی الاٹ ہوئی تھی لیکن اس کا ذکر کم کم ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار کو گھوڑوں کی ضرورت نہ رہی تو آغا وسعت علی خان کو ساڑھے سات سو ایکڑ کا ایک سٹڈ قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ تجربہ کامیاب نہ ہوا اور وزیر آغا کی ابتدائی زندگی عسرت میں گزری۔ انھوں نے لالیاں اور سرگودھا کے ٹاٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کی لیکن ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ان کے والد انھیں فوج میں بھرتی کرانا چاہتے تھے لیکن انگریز حکومت کی ملازمت سے انھیں نفرت تھی۔ اس دور میں ان کے والدویدانت اور تصوف کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ والد کی تعلیم نے انھیں ادب کی طرف راغب کر دیا۔ ادب میں ان کی رہنمائی ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد نے کی۔ پہلے ان کے مضامین اور کتابیں شائع کیں اور پھر ’’ادبی دنیا‘‘ کا شریک مدیر بنا لیا۔ مولانا کی وفات کے بعد وزیر آغا نے اپنا رسالہ ’’اوراق‘‘ جاری کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا اور نئے لکھنے والوں کی پذیرائی کرتا رہا۔ آج اردو ادب میں جو روشنی نظر آتی ہے اس میں ’’اوراق‘‘ اور وزیر آغا کی ادبی رہنمائی کا حصہ کثیر ہے۔ خود مجھے اعتراف ہے کہ میں نے انجینئرنگ کی پیشہ ورانہ زندگی اختیار کی تو ادب کے فریضے سے غافل ہو گیا لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی میں وزیر آغا سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ادب میں تنقید، انشائیہ اور شاعری میں میری رہنمائی کی۔ ’’اوراق‘‘ کی ادارت میں کچھ عرصے کے لیے معاون بنایا۔ روزانہ صحافت میں آ جانے کی وجہ سے میں نے ’’اوراق ‘‘ کی معاونت سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن وزیر آغا کا فیض جاری رہا اور میں نے ان سے ان کی زندگی کے آخری ایام تک استفادہ کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا تھوڑا سا عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۷ ستمبر ۲۰۱۰ء کو جب لاہو رمیں انتقال کر گئے تو بیشتر نوجوان ادیبوں نے اعتراف کیا کہ وہ وزیر آغا کی رہنمائی سے بام شہرت تک پہنچے تھے۔ چنانچہ گزشتہ سال کے دوران آغا صاحب کا تذکرہ اردو کے تمام اہم ادبی رسائل میں ہوتا رہا اور ان کی برسی پر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے یہ ایک سال ان کی معیت میں گزارا ہے۔ حق تعالیٰ اس غنی مزاج، استغنا پسند ادیب کے درجات بلند کرے۔

شہناز خانم عابدی
آہ !منصورہ احمد
منصورہ احمد نے ’’ مونتاج ‘‘ فنون کے نقشِ ثانی کے طور پر جاری تو کردیا تھا لیکن اس کو جاری رکھنے میں بڑی دشواریاں حائل ہورہی تھیں۔ اس نے کاسہ بھی اٹھالیا اور ایسا کرنے میں اس نے اپنی خود داری کی قربانی بھی دے دی۔ میں جانتی ہوں کہ یہ سب کچھ اس نے کتنی نفسیاتی کشا کش کے ساتھ کیا۔ کلیجے پر سچ مچ پتھر رکھ کر کیا۔ وہ تھوڑی بہت کاروباری توبن سکتی تھی لیکن ڈاک کے نرخوں کی بے رحمانہ بڑھوتری کے آگے اس کی فراست کھڑی نہ ہوسکی۔ اسے جھکنا پڑا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس نے ’ مونتاج ‘ کے لیے بطورِ تحفہ سال بھر کا پیکج دینے کی اپیل کی تھی ، وہ بے حد مطمئن تھی لیکن اس اپیل سے کوئی کام چلاؤ‘ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کاسہ تو اس نے اٹھالیا لیکن جس سمندر کے آگے گئی اس نے شبنم کی ایک آدھ بوند ٹپکانے پر اکتفا کیا۔ اس نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے کاسے میں اتنا کچھ جمع کرلے گی کہ ’مونتاج ‘ کے اخراجات کے لیے ایک ٹرسٹ سا بن جائے۔ اس کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ میں تو اس ضمن میں کبھی پر امید نہ رہی تھی لیکن اس کو باز رکھنے کے لیے میرے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ اس نے ہمت کبھی نہیں ہاری۔ اسے یقین تھا کہ وہ ’ مونتاج ‘ کا بوجھ اٹھاکر اپنا سفر جاری رکھے گی۔ اس کی زندگی کا ایک ہی محور تھا ’مونتاج‘۔ وہ اپنی ذاتی زندگی کے خواب دیکھتی بھی ہوگی تو ہر کسی سے چھپ چھپا کر ۔۔۔
منصورہ ایک حساس دل کی مالک تھی ، وہ رشتوں پر یقین رکھتی تھی ۔ خون کے رشتے ،دوستی کے رشتے، محبت اور احترام کے رشتے، ادبی رشتے ، منہ بولے رشتے ، اس نے ہر رشتے کو دل وجان سے نبھانے کی کوشش کی۔ اگر چہ ان میں سے بعض رشتوں نے اسے شدید دکھ پہنچایا ہے۔ اس نے ’ طلوع‘ میں اثاثے کے تحت اپنے والد کے لیے اپنے گہرے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس نے اپنے والد کو ’’میرے لکھی بابل ‘‘ ، ’’ میرے من موہن باپ ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔
والد کے بعد وہ احمد ندیم قاسمیؔ کو اپنا منہ بولا باپ کہتی تھیں اور بابا کہہ کر پکارتی تھیں۔ ’’ طلوع‘‘ کے بعد کی شاعری میں بابا (احمدندیم قاسمی ) کے جانے کا المیہ ہی پیشِ منظر میں ہے۔ وہ مرحوم بابا کو یاد کر کے ملول سے ملول تراور تنہا سے تنہا ترہوتی جاتی ہے۔ بلکہ ان کو یاد کر کے بڑے دکھ سے یہ انکشاف یا اعتراف کرتی ہے کہ اس کے بابا نے اس کو جن اصولوں ، تمناؤں اور اقدار کی بھٹی میں تپا کر کندن بنایا تھا، وہ سب اپنے اعتبار اور وقار کا سونا گنوا کر کھوٹے سکوں کی مثال ہوچکے ہیں۔
ان کی شاعری میں کابل کی گل بی بی گل جاناں ہے جس کو جرگے نے سنگ زنی کی سز ا سنائی تھی اور پہلا پتھر جرگے کے سرپنج نے ہی مارا تھا۔ منصورہ کی منظومات میں تین نظمیں بے نظیر کے لیے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ دو شاعرات کا نہایت خلوص سے تذکرہ ملتا ہے۔ان میں ساتویں صدی قبل مسیح کی شاعرہ سافو ؔ اور ہندوستان کی سب سے بڑی اور مشہور ومقبول شاعرہ میرا ہے۔ ان شاعرات کے علاوہ ارون دھتی رئے بھی منصورہ کے کلام میں ایک مقام رکھتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ منصورہ عورتوں کے حقوق کی کس حد تک پاسدار اور علمبردار تھی۔