معین الدین

اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر


ادبی تاریخ کی یہ بڑی تابناک حقیقت ہے کہ اردو زبان و ادب کو سب سے پہلے باقاعدہ طور پر عروج و ارتقا دکن میں حاصل ہوا۔ دراصل مرکز کی کمزوری کے ساتھ دکن میں مختلف آزاد سلطنتیں قیام پذیر ہو گئیں جن میں بہمنی سلطنت بہت اہم ہے۔ یہ سلطنت آگے چل کر پانچ خود مختار ریاستوں میں بٹ گئی ارو پھر تین ریاستوں کی شکل میں بدل گئیں ۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی حکومت اور گول کنڈہ کی قطب شاہی سلطنت خاص طور پر اہم ہیں۔ سردست ہماری بحث کا موضوع بھی صرف قطب شاہی حکمران سے ہے جو ادب دوست اور علم پرور تھے۔ چنانچہ ان کے دور میں اردوو زبان و ادب اپنی ترقی کی ابتدائی منزل طے کرتے دکھائی دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے اہل علم و فضل اور شعراء و ادباء دکن پہنچے۔ ان کے علاوہ دیگر صوفیاء اور مثائخ نے تبلیغ وہدایت کے لیے مقامی زبان کو اپنایا۔
اگر بادشاہ علوم و فنون سے دلچسپی رکھتے ہوں تو اہل ہنر کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور ان کے کمال کی قدر کرتے ہیں۔ اس قدر دانی سے صاحب کمال کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ دل جمعی سے تخلیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ لہذا گول کندہ کے پہلے چار بادشاہ یعنی سلطان قلی ،جمشید قلی ، سبحان قلی ، اور ابراہیم قلی اپنی سلطنت کے استحکام میں مصروف رہے۔ انھوں نے انتظام سلطنت کی طرف زیادہ توجہ کی لیکن یہ بادشاہ بھی صاحب ذوق تھے۔ ان میں جمشید قلی خود بھی فارسی کا اچھا شاعر تھا اورشاعروں اور ادیبوں کا قدر دان تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی ابراہیم گرچہ شاعر نہ تھا ،لیکن شاعری سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا ۔ ابراہیم کی کوششوں سے ہی گول کندہ میں علمی و ادبی فضا پیدا ہوئی اور عوام ار دو زبان میں دل چسپی لینے لگے۔ ان کا بیٹا محمد قلی قطب شاہ بھی اردو شاعری کا دلدادہ تھا جو اپنے باپ ابراہیم قلی کے بعد ۱۵۸۱ ء میں تخت پر بیٹھا ۔ یہ قطب شاہی خاندان کا پانچواں اور سب سے بڑا بادشاہ تھا اوراکبر اعظم اور شاہ عباس کا ہم عصر تھا ۔ اس کا دور حکومت اکتیس سال یعنی ۹۸۸ ھ سے ۱۰۲۰ ھ تک رہا۔ یعنی اردو کا پہلا دیوان شاعر ہے جو جمعہ کے دن پیدا ہوا اور پھر بعدمیں سن شعور پر بارہ سال کی عمر میں جمعہ کے دن ہی تخت نشیں ہوا۔ تخت نشینی کے موقع پر اس نے امراء اور وزراء کو دل کھول انعام و اکرام سے نوازا اور غریبوں ، فقیروں اور محتاجوں کو اتنا دیا کہ رعایا خوش حال ہو گئی محمد قلی قطب شاہ نے تخت نشینی کے گیارہ سال بعد ۱۵۹۰ ء میں حیدر آباد کی بنیاد رکھی اور اپنی محبوب بھاگ متی کے نام پر اس کا نام بھاگ نگر رکھا ۔ اس نے جب بھاگ متی کو حیدر محل کا خطاب دیا تو بھاگ نگر شہر کا نام بھی بدل کر حیدر آباد رکھ دیا ۔ اسے عمارتیں بنوانے کا بڑاشوق تھا ۔ چنانچہ جا بجا مسجد یں، شفاخانے اور مدرسے وغیرہ تعمیر کرائے اور متعدد عالی شان محلات بنوائے ۔ اسے اپنے آباد کیے ہوئے شہر سے خاص لگاؤ تھا ،لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرتا ہے :
میرا شہر لوقاں سوں معمور کر
رکھیا جو توں دریا میں من یا سمیع
یعنی اے خدا: تو میر ے شہر کولوگوں سے اس طرح آباد رکھ جس طرح دریا میں بے شمار مچھلیاں ہوتی ہیں۔
محمد قلی قطب شاہ کے بارے میں ڈاکٹر محی الدین قادر ی زور لکھتے ہیں کہ ’’محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر حیدر آباد جیسے شہر کا تعمیر کار اور اہل بیت کرام کا بہت بڑا شیدائی ہونے کے ساتھ ساتھ دکن کے موجودہ تمدن اور تہذیب کا بانی تھا۔ اس نے اپنے ملک کو سماجی اورتمدنی نقطۂ نظر سے ایک بلند سطح پر پہنچانے کی کوششیں کیں ۔ ان میں مذہبی اور غیر مذہبی عیدوں کو رائج کرنے او ران کو خاص خاص سلیقے سے اور اہتمام کے ساتھ منانے کے انتظامات بھی شامل ہیں۔ اس نے اپنے عہد میں کسی کو سزا ئے موت نہیں دی۔ اس کے دستر خوان پر کسی دن ایک ہزار سے کم آدمی نہ ہوتے اور اس کے دربار اور داد محل کے دروازے بھی ہر وقت غریب و امیر سبھوں کے لیے کھلے رہتے تھے‘‘۔ اس طرح رام بابو سکسینہ اپنی کتاب’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پہلے یہ خیال عام تھا کہ شمس الدین ولی دکنی اردو کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعرہیں‘‘۔ لیکن اب یہ سہرا محمد قلی قطب شاہ کے سر ہے ۔ جبکہ شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد نے ’’ آب حیات ‘‘ میں ولی دکنی ہی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا ہے ‘‘۔ جدید ترین تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ولی دکنی سے بہت پہلے دکن میں شاعری کی روایت موجود تھی ۔ ولی سے تقریباً سو سال قبل وفات پانے والا قطب شاہی سلطنت کا پانچواں حکمران محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ شمالی ہند میں جس زمانے میں فارسی زبان کو درباری اور سرکاری سرپرستی حاصل تھی اور اردو کو محض بول چال کی زبان کا مرتبہ حاصل تھا ،دکن میں اس وقت اردو زبان کو نہ صرف سرپرستی حاصل تھی بلکہ ادبی سطح پر بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہو چکی تھی۔
قطب شاہ کے دور حکومت میں سلطنت کو ہر طرح کا فروغ ہوا۔ وہ خود ایک زبر دست شاعر تھا ۔ فارسی میں قطب شاہ اور اردو میں معافی تخلص کرتا تھا ۔ اس کے عہد میں عرب اور ایران سے باکمال استاد وغیر ہ بادشاہ کے دربا میں آتے رہتے تھے۔ اس کے دور میں مرثیے کو خصوصی رواج حاصل ہوا۔ عمدہ نویس بھی تھا۔ اس کا کلام دکھنی یعنی اردو ، تلنگی اور فارسی زبانوں میں موجود ہے ۔ اس نے پچاس ہزار سے زائد شعر کہے سادگی اور شیرینی اس کے کلام کا جوہر ہے۔ تصوف اور عاشقانہ رنگ میں اشعار کہتا تھا۔ مرقع نگاری اور مناظر فطرت کی بنیاد اسی نے رکھی جنھیں بعد میں مرزا رفیع سود ا اور سید ولی محمد نظیر اکبر آبادی نے تکمیل پہنچایا ۔ محمد قلی قطب شاہ پہلا شاعر ہے جس کا کلام مجموعی صورت میں اٹھارہ سو صفحات پر محفوظ ہے۔ اس کے کلام میں پختگی ،سادگی اور ادبی شان پائی جاتی ہے۔ وہ فارسی شعراء کا تتبع کرتا تھا لیکن کلام پر مقامی اثرات بہت زیادہ ہیں۔ اکثر ہندی خیالات اور ہندی الفاظ اس کے کلام میں ملتے ہیں، طرز بھی ہندی ہے ۔ گویا عشق مجازی ظاہر کرتے ہیں۔
محمد قلی قطب شاہ کے عہد میں کبھی کبھی لڑائیاں اور بغاوتیں بھی ہو ئیں ۔ لیکن اس نے اپنی طبعی صلح پسندی کی وجہ سے انھیں بڑھنے نہ دیا اور جنگ کے مقابلے میں صلح اور امن کو ترجیح دی۔ اس نے کئی عیدوں اور تہواروں کو رائج کیا تاکہ اہل ملک کو سال بھر میں مختلف مواقع ایسے حاصل ہوں جن میں وہ دل کھول کر اپنے جذبات کا مل جل کر اظہار کر سکیں ۔اس کے اردو دیوان سے پتہ چلتاہے کہ اس نے سال بھر میں چودہ ایسی تقریبیں مقرر کر دی تھیں جو پوری سلطنت میں خاص اہتمام اور شوق سے منا ئی جاتی تھیں ۔ ان تہواروں میں شب برات ، عید نوروز ، بسنت ، سالگرہ بادشاہ اور مرگ یا آغاز برسات وغیرہ ایسی عیدیں ہیں جن میں سب لوگ برابر شریک ہوتے تھے ۔
بادشاہ کو پانی اور سبزہ کے علاوہ روشنی کا بھی بڑا شوق تھا ۔ وہ ہر اس موقع سے فائدہ اٹھاتا جس میں اسے جشن چراغاں سے لطف اندوز ی نصیب ہو سکتی تھی ۔ چنانچہ شب برات اور دیوالی میں دل کھول کر چراغوں ، آتش بازیوں اور شاہانہ رنگ رلیوں میں مشغول ہو جاتا تھا اور ان کے لیے ہر سال نظمیں لکھتا تھا۔ اس نے ملک میں بین المذہبی امن اور آشتی کی فضا پیدا کرنے کے لیے بڑی کامیاب کوششیں کیں ۔اکبر اعظم کے علاوہ شاید ہی کوئی بادشاہ ہندوستان میں ایسا گزرا ہو جس نے اپنی رعایا کے جملہ طبقوں کا دل موہ لینے میں محمد قلی سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہو۔ اس نے اپنے دادا کا لباس چھوڑ کر بالکل ہندوستانی لباس وضع قطع اور معاثرت اختیار کر لی تھیں۔ بسنت منانے کی تقریب کا اس بادشاہ نے دکن میں خاص اہتمام کیا اور اسے شان وشوکت سے جاری رکھا ۔ اس سلسلے میں اس کے چند اشعار سن لیجیے :
بسنت کھیلیں عشق کی آپیارا
تُمھیں ہیں چاند میں ہوں جو ستارا
بسنت کھیلیں ہمن ہور ساجنا یوں
کہ آسماں رنگ شفق پایا ہے سارا
بھیگی چولی میں بیٹھیں نِس نشانی
عجب سورج ہے کیوں کر نِس کون ٹھارا
بسنت کے ساتھ ساتھ مرگ لگنے یعنی بارش کا موسم شروع ہونے پر بھی جب موسم بدلتا ہے اور بارش شروع ہونے لگتی ہے تو زمین کے ذرہ ذرہ میں جان پڑ جاتی ہے اور دکن میں تو بارش کا موسم ہی اصل میں موسم بہار ہے ۔ اس وجہ سے محمد قلی نے بارش کی آمد کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس پر کئی نظمیں لکھی ہیں جن میں اس تہوار کی تفصیلات بڑی خوبی سے بیان کی ہیں۔
محمد قلی قطب شاہ کی بڑائی اور عقل مندی میں اس کی لڑائیوں اور فتوحات سے زیادہ اس کے دل و دماغ کی فطری صلاحیتوں کو بڑا دخل ہے ۔اس نے دکن کے سیاسی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہر وہ کا م کیا جو صرف ایک مدبر ہی کرسکتاتھا۔ اس کی خاطراس نے شاہ بیجا پور سے رشتہ ناتا جوڑ ا۔ احمد نگروالوں کی مد د کی اور مغلوں کے مقابلے میں پے در پے قطب شاہی فوجیں روانہ کیں ۔ اگرچہ اس نے ایرانیوں اور اجنبیوں کی قدر دانی بھی بہت کی لیکن اس کے دل کا ایک گوشہ دکن اور اہل دکن کی محبت سے ہمیشہ معمور رہتا تھا۔ وہ پہلا قطب شاہی حکمران ہے جس نے ڈاڑھی منڈوائی اور وہ اہل دکن کی طرح کاندھوں پر چادر اوڑھتا تھا اس نے ایرانی وضع کے گرم نیمچو اور شملوں کا عمامہ چھوڑ کر اپنے ملک کی آب و ہوا کے مطابق ہلکے پھلکے اور باریک کپڑوں کا لباس پہنتا تھا ۔
شاہ مذکور نے اردو کے علاوہ تلنگی میں بھی شعر کہے ہیں۔ اردو شاعری میں بھی وہ بلا تکلف تلنگی الفاظ برت لیتا ہے۔ اس کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی صحت اچھی نہ تھی۔ کثرت شراب نوشی سے وہ بیمار رہنے لگا۔ چنانچہ اس جلیل القدر اور وسیع النظر بادشاہ نے صرف سینتالیس سال کی عمر میں انتقال کیا اور وہ گول کنڈہ کے قریب اپنے بنائے گنبد میں دفن ہوا۔ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کے بارے میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے لکھا ہے : ’’محمد قلی قطب شاہ ارد و زبان و ادب کا محسن اعظم ہے ۔ اس نے ایسے وقت میں اردو زبان کی دستگیری کی جبکہ اس نے ادب کے میدان میں ایک چھوٹے بچے کی طٖرح چلنا ہی سیکھا تھا۔ اس نے نہ صر ف اردو شاعروں اور ادیبوں کی سرپرستی کی بلکہ خود بھی اس زبان کا ایسا شیدائی ہوا کہ اس میں پچاس ہزار شعر کہے۔ اس کے کلام میں وسعت اور ہمہ گیری سے یہ احساس ملتا ہے کہ انتظام سلطنت کے بعد اگر کسی چیز سے دل چسپی تھی تو وہ اردو سخن ہی تھا۔ اس کی بنائی ہوئی عمارتیں تو ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہوجانے والی اشیاء ہیں ،لیکن شاعر کی حثییت سے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گااور اردو والے اس محسن اعظم کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے ‘‘۔جس نے ابتدائی ایام میں اردو کی سرپرستی کی اور اسے اپنے جذبات و اظہار کا وسیلہ بنا کر اسے ایک نئی توانائی بخشی ۔
محمد قلی قطب شاہ نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزلیں خاص طور سے قابل توجہ ہیں۔ وہ فطری طور پر روحانی مزاج رکھتا تھا۔ اس کی زندگی کے حالات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی محبوبائیں تھیں جن کا ذکر اس نے بڑی صداقت سے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔ اس کے تغزل میں بھرپور غزلیں ملتی ہیں۔ ان میں سوزوگداز بھی ہے اور جذبات کی بے ساختگی بھی ملتی ہے ۔اس نے غزل کے موضوعات کا بھی اضافہ کیا اور اسے محض جاناں تک ہی محدود نہیں رکھا ۔جیسے
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اک پل جیا جائے نا
میں کیسے پیا جاج صبوری کروں
کہا جائے امّا کیا جائے نا
نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے
کیدھیں اُس سے ملی بیسیا جائے نا
قطب شہ دے مجھ دیوانے کو بند
دیوانے کو کچھ بند دیا جائے نا
اب دوسری غز ل کے کچھ اشعار سنیے :
پیا تجھ آشنا ہوں میں تو بیگانہ نہ کر مجھ کو
ٹلے نہ اک گھڑی تجھ بن تو نا بسر مجھ کو
جہاں توں واں میں پیارے مجھے کیا کام ہے کس سے
نہ بت خانہ کی پروا ہے نہ مسجد کی خبر مجھ کو
بہشت و دوزخ اعرف کچھ نہیں ہے میرے آگے
جدھر توں واں میری جنت نئیں واں سفر مجھ کو
تیری الفت کا میں سرمست ہوا متوال ہوں پیارے
نہیں ہوتا بجز اس کے کسی مئے کا اثر مجھ کو
نبیؐ صدقے قطب شاہ کو نےءں آدھار کی حاجت
کہ دونوں جگ منے آدھار ہے خیر البشرؐ مجھ کو
محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں بڑا تنوع اور رنگا رنگی ہے ۔ اس نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں ۔ اس کے دیوان میں نیچرل قدرتی شاعری کا بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ بادشاہ کو دکن کی سر زمین سے جو محبت تھی اور یہاں کے موسموں ،تہواروں اورمیلوں ٹھیلوں سے جو وابستگی تھی ۔اس کے زیر اثر اس نے سب موضوعات پر لکھا اور خوب لکھا ۔ چنانچہ اس کے دیوان میں موسم ، بارش، سرما، بسنت ، نوروز ،ہلال عید ،مختلف قسم کی ترکاری ،پھل ،پھول ،سالگرہ ، رسم جلوہ اور دیگر رسومات یعنی شادی بیاہ ،شب معراج ،عید رمضان ، بقر عید ، عید مولود نبیؐ اور چوگان بازی وغیرہ پر بھی نظمیں ملتی ہیں۔
قطب شاہ کی تشبیہات میں عجمی اور مقامی دونوں رنگ ملے جلے دکھائی دیتے ہیں ہر چند اِن میں اس کی جدت کا تیکھا پن بھی ہے مگر ان کی حسیاتی کیفیات انھیں فنی اعتبار سے بہت بلند ی پر لے جاتی ہیں۔پھر سب سے بڑی یہ دور از خیال نہیں ہوتیں بلکہ جدت کے باوجود مروجہ روایات کے تہذیبی پور تو اپنے اندر لیے ہوتی ہیں۔ قلی قطب کے چند مرثیے بھی دستیاب ہیں جن سے شہدائے کربلا کے ساتھ اس کی محبت و عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔
بادشاہ کے ہم عصر شعراء میں ملا وجہی سب سے مشہور شاعر ہے ۔وجہی نے ۱۴۰۰ء میں ایک مثنوی قطب مشتری کے نام سے لکھی ۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کوئی نورینہ اولاد نہیں تھی ۔ اس لیے وفات کے بعد اس کے بھائی محمد حسین کا بیٹا محمد قلی شاہ تخت نشین ہوا اور محمد قلی قطب شاہ کی اکلوتی بیٹی حیات بخشی بیگم کی شادی بھی محمد قلی سے ہوئی تھی ۔ اس طرح وہ بادشاہ کا داماد بھی تھا۔ وہ نغمہ اور عشقیہ شعرو شاعری سے پرہیز کرتا تھا۔ اس نے اردو اور فاسی دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ اس کے زہد و تقویٰ کی بڑی دھوم تھی اور عیش و عشرت سے بہت دور رہتا تھا ۔ اسے علم و فضل اور تاریخ سے گہرا لگاؤ تھا۔ اس کی شاعری پر تصوف ،مذہب اور فلسفہ کا اثر نمایاں ہے۔ وہ’’ ظل اللہ‘‘ تخلص کرتا تھا مگر اس کا دیوان نایاب ہے۔
سلطان محمد نے محمد قلی قطب شاہ کی وفات کے بعد اس کا دیوان خود مرتب کیا اور اس پر ایک طویل خطبہ بھی لکھا ۔ اب اس کے کلام کی واحد یاد گار وہ اشعارہیں جو اس نے محمد قلی کے دیوان میں بطور دیباچہ تحریر کیے ۔ سلطان محمد پندرہ برس حکومت کر کے فوت ہو گیا۔ اس کے عہد میں شاعروں سے زیادہ دانش وروں اور مؤرخوں کی قدر منزلت رہی اس کے بعد سلطان عبداللہ قطب شاہ ہوئے پھر ابوالحسن تانا شاہ قطب شاہی سلطنت کا آخری بادشاہ ہوا جس نے چودہ سال حکومت کی اور پھر بعد میں مغلوں کا قبضہ ہو گیا ۔
الغرض اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر سلطان محمد قلی شاہ حید ر آباد ہی سے تعلق رکھتا ہے اور اس شہر کا بانی بھی ہے۔ گویا اردو شاعری کا آغاز حیدر آباد ہی سے ہوتا ہے کلیات قلی قطب شاہ جسے ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ۱۹۴۰ء میں کتب خانہ سالار جنگ سے دریافت کر کے مرتب اور شائع کروایا۔ یہ اردو نظم کی پہلی کتاب ہے جبکہ حیدر آباد کی پہلی نثر کی کتاب ملا وجہی کی ’’سب رس ‘‘ہے جو کلاسیکی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ حیدر آباد ہمارے ماضی اور حال کے درمیان ایک پل کی مانند ہے ۔یہ صرف تاریخی اور تہذیبی شہر ہی نہیں بلکہ موجودہ دور کی بہت سی صنعتیں بھی یہاں قائم ہیں۔یہ بڑا باغ و بہار اور پہلو دار شہر ہے ۔ اس نے کئی زمانے دیکھے ہیں کئی تہذیبیں دیکھیں، کئی حکومیتں اس کے سامنے بنیں اور زوال سے ہم کنار ہو گئیں ۔ مگر یہ آج بھی ویسا ہی ہنستا اور گنگناتا شہر ہے حیدر آباد اپنے دامن میں اپنی مخصوص تاریخ اور تہذیب سمیٹے ہوئے ہے ۔ اس کی تاریخ بڑی سر گرمیوں کی تاریخ ہے ۔ بہت ساری چیزیں یہاں کی تہذیب سے مخصوص ہیں جو کہیں اور نہیں ملتیں۔ حیدر آباد ،دکن کا ایک قدیم اور عظیم شہر اور تہذیب و اقدار کاسنگم اور ہندو مسلم تہذیب کی مشترکہ یادگارہے اور اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ یہیں سے متعلق ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی جس کا ذریعہ تعلیم اردوہے ہیں حیدر آباد میں واقع ہے جو میر محبوب علی مرحوم کے بیٹے میر عثمان علی کے نام پر ۱۹۲۰ ء میں وجود میں آئی۔
مآخذ
۱۔ تاریخ ادب اردو،از رام بابو سکینہ
۲۔ مختصر تاریخ ادب اردو ،از ڈاکٹر اعجاز حسین
۳۔ تاریخ زبان و ادب اردو،از: پروفیسر جمیل احمد انجم
۴۔ تاریخ نظم و نثر اردو،از: آغا محمد باقر
۵۔ سہ ماہی رسالہ نقوش لاہور،از: محمد طفیل
سندھ کے وزیراعلیٰ عید کی چھٹیوں کے دوران سیلاب کے پانیوں میں ڈوبی ہوئی بستیوں کا نظارہ کرنے کے بعد جب دنیا سے شکوہ شکایت کر چکے کہ کوئی سیلاب زدگان کی مدد کو نہیں آرہا، جب انھیں بوری بند لاشوں اور سر بریدہ انسانوں کی گنتی یاد نہیں رہی اور کراچی کے سر سے گزرنے والی موج خون نے جب ان کی طبیعت کو مکدر کر دیا تو انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے صوبے کے لوگوں کو عید ایک شاندار اور یادگار تحفہ یا جائے ۔
یہی سوچ کر انھوں نے اتوار کے دن اعلان کر دیا کہ سندھ کے خوش نصیب طلباء کے لیے ۲۰۱۳ء سے چینی زبان لازمی ہو گی۔ وہ اردو، سندھی، انگریزی زبانوں کی کتابیں سنبھالے ہوئے جب چھٹی جماعت میں پہنچیں گے تو انھیں اپنے مہربان قدردان دوست چین کی وہ زبان لازمی سیکھنی ہو گی جو ’’منڈیرین ‘‘ کہلاتی ہے۔ مشرقی ایشیاء میں سب سے زیادہ یہی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔چینی زبان کو سندھ کے طلبأ کے لیے لازمی قرار دینے کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ چین سے ہماری دوستی کوہ ہمالیہ سے بلند اور بحر ہند سے زیادہ گہری ہے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے ہم اس زبان کو فوراََ سیکھیں۔ چین سے ہمارے تجارتی روابط روز افزوں ہیں۔ وہ چند برسوں کے اندر دنیا کی عظیم اقتصادی اور سیاسی طاقت بننے والا ہے۔ اس عظیم زبان کو سیکھ کر ہماری نئی نسل کے لیے ایک شاندار مستقبل کے دروازے کھل جائیں گے،بیروزگاری کا خاتمہ ہو گا اور ملک معاشی اعتبار سے مستحکم بنیادوں پر قائم ہو گا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار فائدے ہیں جن سے بچوں اور ان کے ماں باپ کو وقتاََ فوقتاََ آگاہ کیا جاتا رہے گا۔اس فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک دلیل یہ بھی دی گئی کہ چین میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی اپنے عظیم ہمسائے کی زبان کو اپنے سینے سے لگا لیں اور اسے ہنگامی بنیادوں پر سندھ کے طول و عرض میں پھیلانے کے لیے اپنی سی پوری کوشش کریں۔
چین میں لکھائی کا آغاز اب سے تین ہزار برس پہلے ہوا تھا، جس کی نشانیاں ہمیں کھدائی میں برآمد ہونے والے گھونگوں اور ہڈیوں پر نظر آتی ہیں ۔ اب سے ڈھائی ہزار برس پہلے چینی زبان کے حروف تہجی متعین ہوئے اور تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اب تک وہی چلے آرہے ہیں۔ ان حروف تہجی کی تعداد لگ بھگ دس ہزار تک پہنچتی ہے۔اب کمپیوٹر کا زمانہ ہے اس لیے چینی زبان داں اسے نئے زمانے کے مزاج اور ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے میں مصروف ہیں۔کہا جا رہا کہ ان حروف کو کم کر کے ان کی تعداد تین چار ہزار تک لائی جائے گی۔
۱۹۹۸ء میں جب چینی ادیبوں کی تنظیم (CWA)کی دعوت پر بیجنگ، شنگھائی ،ژیان اور سوچو میں پندرہ دن گزارے تو یہی دیکھا کہ ہر چینی طالب علم انگریزی سیکھنے کے لیے دیوانہ ہو رہا تھا۔ اس دوران مترجمین کے ذریعے چینی ادیبوں سے گفت و شنید رہی۔ سڑکوں ،بازاروں میں کوئی اردو بولنے والا نظر نہ آیا ۔ یہ ضرور ہے کہ بیجنگ یونیورسٹی میں اردو سیکھنے والی چینی خواتین سے ملاقات ہوئی جن میں سے اکثر ڈاکٹر نظیر صدیقی مرحوم کی طالبات تھیں۔ لیکن یہ کہنا کہ چین میں اردو کا شہر ہ اور دور دورہ ہے اتنا ہی درست ہے جتنی یہ خبر کہ پشاور اور سارے پاکستان میں عید ایک ہی دن منائی گئی۔
دنیا میں آج سے نہیں ہزاروں برس سے ان لوگوں کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہوں ۔ ہفت زبان یعنی سات سات زبانیں جاننے والے نہایت محترم سمجھتے جاتے تھے اور آج بھی کئی زبانوں کے جاننے والوں کے علم و فضل کے سب ہی قاتل رہتے ہیں۔ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ماہرین تعلیم کے ساتھ مشورہ کیا جاتا تو کہیں بہتر ہوتا اور یہ نوبت نہ آتی کہ صرف ۲۴گھنٹوں بعد اس کے مطالعے کو ’’ لازمی‘‘ سے ’’اختیاری ‘‘ قرار دینے کا اعلان کرنا پڑتا ۔ حکومت سندھ کے اعلان کے بعد پنجاب کی حکومت نے بھی اسکولوں میں چینی زبان کو پڑھانے کا اعلان کیا لیکن اس نے ابتداء سے ہی اس کے مطالعے کو لازمی کے بجائے اختیاری قرار دیا۔ اس سے ہمارے لاکھوں بچوں کے لیے چینی زبان کا سیکھنا اختیاری ہو گیا۔ چینی زبان میں تاریخ کے نادر واقعات اور حکمت ودانائی کے بے بہا موتی ملتے ہیں۔ اگر یہی لعل و جواہر ہمارے حکمرانوں کو لازماََ سکھائے جائیں تو صرف سندھ او ر پنجاب کا ہی نہیں سارے ملک کا مقدر سنورسکتا ہے۔
)
بشکریہ روزنامہ ، ایکسپریس (