فہمیدہ ریاض
تحریک پاکستان کا نشان
اردو لغت بورڈ کراچی


انجمن ترقئ اردو کی بنیاد اُس دور میں پڑی جب یہ واضح ہوگیا تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں گے اور برصغیر آزادہوجائے گا۔ عوام کے ذہن میں یہ سوال کروٹیں لے رہا تھا کہ اس نئے آزاد ہندوستان میں مختلف تہذیبی اور مذہبی اکائیوں کی کیا حیثیت ہوگی اور ان کا کیا مستقبل ہوگا۔
یہی زمانہ تھا جب اُردو کا سوال جوش وخروش سے اٹھایا گیا ۔ یوں تو اُردوپورے برصغیر پاک و ہند کی ہی زبان تھی کہیں باہر سے نہیں آئی تھی ، لیکن نہ صرف اس میں بہت بڑی تعداد میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہوچکے تھے، ساتھ ہی اس کا رسم الخط فارسی تھا جو عربی کی ہی ایک شکل ہے جس میں قرآن شریف نازل ہوا۔
یہی وجہ تھی کہ اُردو کو مسلمانوں کے وجود کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ اس طرح دہلی (جو صدیوں سے برصغیر کا پاےۂ تخت تھا) اور متعدد علاقوں میں اُردو برصغیر میں مسلمانوں کی موجودگی ، ان کی متعدد سلطنتوں ، مسلمانوں کے رہن سہن اور رسم ورواج کی علامت بن چکی تھی ۔ بلاشک وشبہ یہ ایک مخلوط تاریخ کی روایت تھی لیکن برصغیر کی مجموعی مذہبی اکثریت یعنی ہندوؤں میں ایسے کٹرمتعصبوں کی کمی نہ تھی جو اس مخلوط روایت کو بھلا دینا اور مٹا ڈالنا چاہتے تھے۔ ان کا پرجوش نعرہ تھا کہ ہندوستان کی زبان صرف ہندی ہوگی جو سنسکرت رسم الخط میں لکھی جائے گی۔ یہ زبان باقاعدہ گھڑی جارہی تھی ۔ زبان سے عربی ، فارسی کے بلکہ ہندوستان کے عام فہم الفاظ بھی نکالے جارہے تھے اور ان کی جگہ نامانوس ، ثقیل سنسکرت کے الفاظ ٹھونسے جارہے تھے اور انھیں لکھنے اور بولنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔
ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں مسلمانوں کے لیے اُردو کا تحفظ مسلمانوں کی تاریخ ، تہذیب ، تمدن اور قومی بقاء کا مسئلہ بن گیا تھا۔ ان حالات میں مولوی عبدالحق اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے مل کر ’’ انجمن ترقی اردو‘‘ کی بنیاد ڈالی۔
مولوی عبدالحق کا خواب تھا کہ اُردو کی ایسی جامع لغت تیار کی جائے جیسی برطانیہ میں آکسفورڈوسیع تر انگریزی ڈکشنری بنائی گئی ہے ۔ اپنے طور پر انھوں نے دوسرے وسیع علمی اور ادبی کاموں کے ساتھ اس لغت کی بھی تیاریاں شروع کردی تھیں۔
مولوی عبدالحق نے ۱۹۳۶ء میں ناگپور میں گاندھی جی کی صدارت میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی جس میں زبانوں کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انھیں اکثریت کا رجحان اُردو کے خلاف محسوس ہوا۔ ۱۹۳۸ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دہلی منتقل کردیا گیا ، مولوی عبدالحق نے بہار ، اُتّر پردیش ، سندھ ، کشمیر ،گوالیار ، مدراس ، آندھراپردیش ، شمالی ارکاٹ ، جنوبی ارکاٹ ، تامل ناڈو اور ٹراونکور کا دورہ کیا اور تقریروں کے ذریعے لوگوں کو اُردو کی امداد کے لیے آمادہ کیا۔ اس طرح مولوی عبدالحق نے ہندوستان میں انجمن ترقی اُردو کی شاخوں کا جال بچھا دیا۔
وقت گزرتا رہا ۔ تحریک پاکستان جاری رہی اور اُردو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تحریک پاکستان سے پوری طرح منسلک ہوگئی ۔
بالآخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان وجود میں آگیا۔ ۱۹۴۷ء میں د ہلی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور انجمن ترقی اُردو کا دفتر نذر آتش کردیا گیا۔ بہت سی کتابیں ،قلمی نسخے ، اُردو لغت کا مسودہ ، رجسٹر اور فائلیں ضائع ہوگئیں۔ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں بھارت کے اس وقت کے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے مولوی عبدالحق سے کہا : ’’ تم یہاں کام نہیں کرسکتے ، ۔۔۔ یہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ تم پاکستان چلے جاؤ۔ ‘‘
۱۷۔اکتوبر ۱۹۴۸ء کو انجمن کا دفتر سربمہر کردیا گیا۔ مولوی عبدالحق بمشکل بچے کھچے کاغذات اور کتابیں سمیٹ کر بتاریخ ۲۸ جنوری ۱۹۴۹ء کراچی آگئے۔ یہاں انھوں نے انجمن ترقی اُردوکی بنیاد رکھی اور لغت پر دوبارہ کام شروع کردیا۔
مولوی عبدالحق نے ۱۳ اپریل ۱۹۵۱ء کو کراچی میں اُردوکانفرنس منعقد کی جس کی صدارت سردارعبدالرب نشتر نے کی۔ پاکستان میں یہ علمی اور اَدبی کام بہت رک رک کر چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ۱۴ جون ۱۹۵۸ء کو وزارت تعلیم پاکستان نے ایک قرار داد کے ذریعے ’’ ترقی اُردو بورڈ ‘‘ قائم کیا۔ اسی ادارے کا نام اب ’’ اُردو لغت بورڈ ‘‘ ہے۔
اس کی لائبریری میں وہ قیمتی نادر ونایاب کتابیں اور قلمی نسخے موجود ہیں جو دہلی کی آتش زنی سے بچ سکے تھے اور جن کو عبدالحق ٹرنکوں میں بھر کر اپنے ساتھ لائے تھے۔
اُردو لغت بورڈ پاکستان کا قدیم اور نہایت معتبر ومنفرد ادارہ ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین عالم اور دانشور اس سے منسلک رہے ہیں۔ جناب جوش ملیح آبادی، بیگم شائستہ اکرام اللہ ، جناب ممتاز حسین (گورنر ، بینک دولت پاکستان ) ، پیر حسام الدین راشدی، جناب مجنوں گورکھ پوری ، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر عندلیب شادانی ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، شان الحق حقی جیے صاحبا ن علم اس کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔
تکمیل تاریخی لغت ۱۹۵۸ء ۔ ۲۰۱۰ء
اپریل ۲۰۱۰ء میں اس ادارے نے ۵۲ سال کی محنت اوردیدہ ریزی کے بعد تاریخی اصولوں پر تیار کی جانے والی اُردو کی لغت کا کام مکمل کرلیا۔ یہ ایک عظیم الشان علمی اور اَدبی کارنامہ ہے جس کی اردو میں دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ اس نوعیت کی لغات صرف انگریزی اور جرمن زبان میں ہیں۔
تاریخی اصول اور بیتی صدیوں سے لی ہوئی اسناد کے باعث یہ لغت ، برصغیر کے ایک ہزار سالہ تہذیبی اور تمدنی ارتقا کی بیش بہا دستاویز ہے جس میں اس تہذیب کے ایک ایک لفظ کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف آپ کے لیے بلکہ نئی نسلوں کے لیے ایک گرانقدر تحفہ ہے۔
موجودہ مصروفیات
لغت پر نظر ثانی ۔۔۔۔۔۔دنیا میں لغت شائع کرنے والے تمام ادارے تقریباً ہر تیس برس بعد لغات پر نظر ثانی کرتے ہیں کیونکہ زبان میں متعدد نئے الفاظ مستقل شامل ہوتے رہتے ہیں۔ تاریخی لغت کی پہلی جلد ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی تھی، تب سے اب تک زبان میں متعدد نئے الفاظ داخل ہوچکے ہیں۔ ایسی کتابیں بھی منظر عام پر آئی ہیں جن میں کئی دوسری قدیم تر اسناد موجود ہیں۔ ہر تالیف میں کچھ کمی بیشی بھی رہ جاتی ہے جسے اگلے نظر ثانی شدہ ایڈیشن میں دُرست کردیا جاتا ہے۔ یہ نہایت ضروری کام نظرثانی کے ذریعے ممکن ہیں، اس لیے اِدارہ اب اس کام کو سرانجام دینا شروع کرچکا ہے۔
ایک جلدی لغت ۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ ادارہ ایک جلد پر مشتمل اُردو لغت بنا رہا ہے جو لغت نویسی کے بالکل جدید خطوط پر تیار کی جارہی ہے۔
اُردو لغت بورڈ متعدد دوزبانی ڈکشنریاں بنانے کے لیے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس میں اُردو /فرانسیسی، اُردو /جرمن ، اُردو/ ترکی ، اُردو /چینی لغات شامل ہیں،جو تراجم کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ادارہ موجودہ لغت کو قدیم کتابوں اور علمی مسودوں کو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے منصوبے پربھی کام کر رہاہے۔ ایک لغت بچوں کے لیے بنانے کابھی منصوبہ ہے جس سے بچوں میں زبان اور اظہار کی قوت کواورلکھی ہوئی شے کو صحیح طور پر سمجھنے کی اہمیت کا احساس پیدا ہوگا۔ اس ادارے کا مستقبل شاندار ہے۔