اثیر عبدالقادر شاہوانی
عالمی بلوچی کانفرنس ۲۰۱۱ء
بلوچستان کا ایک عظیم اور اعلیٰ علمی ،ثقافتی اور ادبی ادارہ بلوچی اکیڈمی نصف صدی سے بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور ثقافت کی ترقی وترویج کے لیے باحسن خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران بلوچی اکیڈمی کے زیر اہتمام سلور جوبلی، متعدد سیمینار،ادبی تقریبات، مذاکرے،تعزیتی ریفرنس وغیرہ منعقد ہوتے رہے ہیں ۔ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں اکیڈمی کی پچاس سالہ سالگرہ کی مناسبت سے مختلف تقریبات منعقدہوئیں۔ چنانچہ ۳۱جولائی اور یکم اگست۲۰۱۱ء کو ’’بلوچی زبان وادب جدید دور کے تناظر میں ‘‘ کے زیر عنوان ایک دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں بلوچی زبان وادب پر تحقیق کرنے والے ۵۰کے قریب بین الاقوامی ماہرین لسانیات کو دعوت دی گئی۔ کانفرنس میں شرکت کرنے اور مقالہ پڑھنے کے لیے امریکہ سے ڈاکٹر نیک محمد بُزدارڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس کیل فورنیااسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ؛ آرمینیا سے ڈاکٹر ابودائیہ جیحان ریسرچ اسسٹنٹ ایرانین اسٹڈی؛ اردن سے پروفیسر ڈاکٹر سعد ابودیہ چیئرمین پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ؛ اٹلی سے ڈاکٹر صابر بدل خان لیکچرر یونیورسٹی آف پنولی اٹلی؛ مقتدرہ قومی زبان کے صدرنشین ڈاکٹر انواراحمد؛ پروفیسر واحد بُزدار نیشنل انسٹی ٹیوٹ پاکستان سٹڈیز اسلام آباد؛ ڈاکٹر گل حسن قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور ضیاء الرحمن علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد؛ کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر نواز علی شوق، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پروفیسر رحیم بخش مہر تشریف لائے۔
پہلادن
افتتاحی اجلاس
اس کانفرنس کا افتتاح صوبائی وزیر کھیل وثقافت میر شہنواز مری نے کیا۔ وزیر موصوف نے اپنے خطاب میں بلوچی زبان وادب اور ثقافت پرروشنی ڈالی اورکہا کہ بلوچی اکیڈمی سے میر ی روحانی وابستگی ہے کیونکہ میرے والد محترم جسٹس خدابخش مری کی کوششیں اور کاوشیں اس کی بنیادوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے بلوچی اکیڈمی کے لیے۵لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ کانفرنس کے اختتامیہ خطاب میں میر اسد اللہ بلوچ نے اکیڈمی کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ بلوچ اپنی سرزمین سے روحانی طورپر جڑے ہوئے ہیں۔ بلوچی زبان کے فروغ کے حوالے سے عالمی کانفرنس کے دوررس نتائج برآمدہوں گے۔
اس دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس کے پانچ اجلاس ہوئے۔ پہلے دن کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیاگیا۔ چیئرمین بلوچی اکیڈمی عبدالواحد بندیگ نے استقبالیہ خطاب پیش کیا۔ ڈاکٹر عبدالرزاق صابر نے کانفرنس کے اغراض ومقاصد بتائے۔ ڈاکٹر نیک محمد بُزدار نے’’بلوچستان، غربت اور پسماندگی‘‘ کے زیرعنوان اورپروفیسر ڈاکٹر بویاجیان نے اپنا مقالہ پڑھا۔ منیر احمد جان، وائس چیئرمین ،بلوچی اکیڈمی نے مندوبین کا شکریہ اداکیا۔
پہلا اجلاس
پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر صابر بدل خان نے کی۔ پہلے اجلاس میں ’’بلوچی زبان کی لسانی خصوصیات‘‘ پر ڈاکٹر وائے بوئے جان، ڈاکٹر صابر بدل خان نے ڈاکٹرکارینہ جہانی کا مقالہ پڑھا۔ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد ، ڈاکٹر کہور خان اور حامد علی بلوچ نے بھی اپنے مقالے پڑھے۔ سائرہ عطأ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
دوسرا اجلاس
ظہرانے کے بعد ۳بجے ’’بلوچ تاریخ وثقافت‘‘ کے زیر عنوان دوسرااجلاس شروع ہواجس کی صدارت نیک محمد بُزدار نے کی۔ سعد ابودایہ (اردن)، صابر بدل خان (اٹلی)،پروفیسر واحد بخش بزدار (اسلام آباد)، محمد پناہ بلوچ، پروفیسر نواز علی شوق (کراچی)، ڈاکٹر نیک محمد بزدار(امریکہ)نے بلوچ تاریخ اور ثقافت سے متعلق اپنے مقالے پڑھے۔ سہ پہر ۵بجے کانفرنس کے پہلے دن کی کارروائی ختم ہوئی ۔
دوسرا دن
تیسرا اجلاس
دوسرے دن یکم اگست۲۰۱۱ء کو کانفرنس کا تیسرا اجلاس منیر احمد بادینی کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ’’بلوچی ادب دور جدید میں(نثر) ‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر ڈاکٹر عبدا لصبور بلوچ، محمد بیگ بیگل(کراچی)، غلام نبی ساجد اور غنی پرواز (تربت) نے اپنے اپنے مقالے پڑھے۔
چوتھااجلاس
چائے کے وقفہ کے بعد ساڑھے بارہ بجے چوتھا اجلاس پروفیسر واحد بخش بزدار کی زیرصدارت ’’بلوچی ادب جدید دور میں (شاعری) ‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہوا۔ اس موضوع پر ڈاکٹر فضل خالق (تربت)، ڈاکٹر گل حسن (اسلام آباد)، رحیم بخش مہر (لاہور) ،ڈاکٹر عبدالرزاق صابر اورڈاکٹر ضیاء الرحمن بلوچ (اسلام آباد ) نے اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا۔
پانچواں اجلاس
کانفرنس کا پانچواں اجلاس ۳بجے شروع ہوا۔ اس آخری اجلاس کو گروپ وار گفتگو کے لیے مخصوص کیاگیا۔ اس مقصد کے لیے چارگروپ تشکیل دیے گئے۔اول:بلوچی زبان کی لسانی خصوصیات؛ دوم:بلوچی اِملا اور اس کے مسائل۔ سوم:بلوچ تاریخ وثقافت؛چہارم:بلوچی ادب(نثر وشاعری) شامل تھے۔ ان گروپوں کی سربراہی بالترتیب ڈاکٹر بدل خان، منیر احمد جان، اکرم دوست بلوچ ، اور منیر احمد بادینی نے کی ۔ کافی بحث ومباحثے کے بعد کمیٹیوں کے سربراہان نے مندرجہ ذیل سفارشات پیش کیں۔
(الف)بلوچی زبان کی لسانی خصوصیات
۱۔ بلوچی زبان جوکہ ایک قدیم زبان کی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہ زبان مناسب سرپرستی نہ ہونے کے سبب پسماندگی کا شکار ہے، ساتھ ساتھ دوسری عالمی ہمسایہ وترقی یافتہ زبانیں بھی اس پراپنے اثرات مرتب کررہی ہیں۔ بلوچی زبان کو تحفظ وترقی دینے میں مناسب اقدامات کیے جائیں۔
۲۔ زبانیں سیاسی ومعاشی اختیارات کے سبب ترقی کرتی وتقویت پاتی ہیں لہٰذا بلوچی زبان کی ترقی وترویج کے لیے بلوچوں کو معاشی وسیاسی اختیارات دیے جائیں۔
۳۔ بلوچی زبان اپنی پسماندگی کے باوجود گزشتہ تیس سال سے ترقی کے جس عمل سے گزر رہی ہے اور اس کے لیے جوجدوجہد ہورہی ہے، یہ عمل تیز ہونا چاہیے۔
۴۔ بلوچی زبان کی ترقی وترویج کے لیے بلوچی اکیڈمی اور دوسری ادبی تنظیموں کے مابین روابط مزید مستحکم ہونا چاہئیں۔
۵۔ بلوچوں کا پڑھا لکھا طبقہ اپنے روزمرہ کی بول چال میں بلوچی کے خالص الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرے اور دوسری زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرے۔
۶۔ بلوچ اسکالرومذہبی مفکرین اپنے اظہار، وعظ وتقاریر بلوچی زبان میں کریں۔
۷۔ بلوچی اور براہوئی چونکہ دونوں بلوچوں کی زبانیں ہیں، ان دونوں زبانوں کی ترقی وترویج کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
(ب)بلوچی املااور اس کے مسائل
۱۔ بلوچی املا میں بنیادی اصلاحات بے حد ضروری ہیں۔ لہٰذا اس لسانی مسئلے کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول ہونی چاہیے۔
۲۔ موجودہ رسم الخط جو بلوچی میں مروج ہے بلوچی زبان کے لیے یہی رسم الخط موزوں ہے۔
۳۔ بلوچی املا کی اصلاحات کے لیے بنیادی لسانی مسائل سید ظہور شاہ ہاشمی کے ترتیب دیے ہوئے املا کے لیے مطابقت وہم آہنگی پیداکرنے کی کوشش کی جائے۔
۴۔ بلوچی املا کے مسائل کو زیر بحث لانے کے لیے بلوچی اکیڈمی ایک نمائندہ ادارہ ہے۔ اس لیے اس ادارے کو بااختیار بنایاجائے تاکہ بلوچی املاکی معیاریت کامتفقہ فیصلہ کیاجائے اور اس سلسلے میں بلوچی اکیڈمی کولینگوئج اتھارٹی کا درجہ حاصل ہو۔
۵۔ بلوچی اکیڈمی میں بولے جانے والے تمام لہجوں کے ماہرین پر مبنی ایک بااثر کمیٹی بنائے اور اس کمیٹی میں ماہرین لسانیات ، دانشور، ایڈیٹر اور ادباء شامل ہوں۔ اس سلسلے میں جامعہ بلوچستان میں شعبہ بلوچی اور دوسرے ادبی اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔
(ج)بلوچ تاریخ وثقافت
۱۔ بلوچ سماج میں ماہرین کو دانشوروں اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھنے کے لیے ہمہ وقت متحرک ہونا چاہیے۔
۲۔ بلوچ تاریخ وبلوچوں کی ثقافت پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق ہونی چاہیے۔
۳۔ عام لوگوں تک بلوچ تاریخ وثقافت کے بارے میں آگاہی دلانے کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔
۴۔ ۔بلوچستان کے قدیم تہذیبی ورثے خصوصاً مہر گڑھ کے مقام کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ نیز عالمی ثقافت مہرگڑھ کی شناخت کی تشہیر کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور مہرگڑھ کے مقام پر ایک میوزیم قائم کرنا چاہیے۔
۵۔ دوسری قومیتوں کی طرح بلوچوں کے لیے بھی ایک ثقافتی سمبولک آئٹم کو رواج دینا چاہیے۔
۶۔ بلوچوں کے قومی ہیروؤں کے کارناموں کو اجاگرکرنا چاہیے اور ان کے بارے میں کتابیں لکھنی چاہئیں اور ان کے کارناموں کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔
۷۔ ہرضلع میں ثقافتی مرکز قائم کرنے چاہئیں اوران مراکز میں ثقافتی اشیاء رکھنی چاہیے۔
۸۔ سماجی اجتماعات یاقومی مجالس میں یاشادی بیاہ کی تقاریب اور دیگر تہوار ’’ہال‘‘ کے بجائے گھروں میں منعقد کیے جائیں تاکہ ترک کی ہوئی روایات ایک دفعہ پھر بلوچ نفسیات کا حصہ بن جائیں۔
(د)ادب (نثر اور شاعری)
۱۔ بلوچی زبان کے لیے ایک معیاری لہجے کا انتخاب کرنا چاہیے اوربلوچی املا کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے کاوشیں کی جانی چاہئیں۔
۲۔ بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین کی سربراہی میں ایک بااختیار کمیٹی بنائی جائے جو بلوچی زبان کے مسائل ومشکلات پر بحث ومباحثہ اور فیصلہ کرے۔
۳۔ مادری زبانوں کو تعلیمی اداروں میں رائج کرنا چاہیے ۔
۴۔ تخلیق وپرفارمنگ آرٹ کے لیے کوئٹہ میں ایک ادارہ قائم کیا جائے۔
۵۔ ترجمے کے عمل کا بلوچی ادب میں رواج وروایت بڑھادینا چاہیے اور جنرل نالج ودیگر سائنسی علوم کی کتابیں بھی بلوچی میں ترجمہ کرنی چاہئیں۔
۶۔ صنفی برابری کے لیے بلوچی ادب میں خواتین لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
۷۔ تحقیق وتخلیق کی ترقی وترویج کے لیے سیمینار، کانفرنسوں اور ورکشاپ کا انعقاد کرنا چاہیے۔
۸۔ نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ان کے تخلیقی معیار کو بہتر کرنے کے لیے انھیں مواقع دینے چاہئیں۔
اختتامیہ
بلوچی عالمی کانفرنس کے اختتام پر کانفرنس کے مہمان خاص وزیرزراعت میر اسد اللہ بلوچ نے مقالہ پڑھنے والوں اور کانفرنس کی کامیابی کے لیے بہتر کارکردگی کرنے والوں میں شیلڈ تقسیم کیں۔