انٹرویو:  سید سردار احمد پیرزادہ
محقق، دانشور اور شاعر
مختار علی خان پرتو ؔروہیلہ کے ساتھ چند باتیں


اصل نام مختار علی خان ہے۔ روھیل کھنڈ (یوپی بھارت) کے مشہورشہر بریلی میں ایک پٹھان زمیندار گھرانے میںاگست ۱۹۳۳میں پیدا ہوئے۔ نسبی تعلق حافظ رحمت خان والئی روھیل کھنڈ سے ہونے کے سبب اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ روہیلہ بھی لکھتے تھے ۔ چنانچہ ادبی نام پرتو روہیلہ ٹھہرا۔ بزرگوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سو ۱۹۵۰میں سارے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔ مستقر بنوں صوبہ پختوانخوا تھا ۔ اسلامیہ کالج پشاور، لاء کالج پشاور اور پشاور یونیورسٹی سے بی اے آنرزایم اے ایل ایل بی کیا ۔ مقابلے کے امتحان میں منتخب ہو کر ۱۹۵۷میں پاکستان ٹیکسیشن سروس میں شامل ہوئے جہاں سے ۱۹۹۳میں بحیثیت ممبر سنٹرل بورڈ آف ریونیو (حال ایف بی آر ) ریٹائر ہوئے۔ چند سال وزیراعظم معائنہ کمیشن (حال نینشنل اکائونٹبیلٹی بیورو) میں بھی رہے ۔
ملازمت کے دوران ہی ان کی شاعری کے کئی مجموعے بڑی آن بان سے چھپے اور نہایت مقبول ہوئے۔ غزل ، دوہا، نظم ہر صنف میں انھوں نے ایک انوکھا رنگ دکھایا۔ چنانچہ ان کی کتابوں میں پشتوٹپے اور نوائے شب کو اعزازات سے نوازا گیا ۔پھر ان کی شاعری پر ۱۹۹۳میں انھیں پرائڈ آف پرفارمنس ملا۔ اردو نثر میں ان کا ایک سفر نامہ امریکہ بھی ہے جو ان کی ہرتصنیف کی طرح سفر ناموں میں منفرد ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے غالب کے فارسی مکتوبات کی طرف توجہ دی اور پچھلے چودہ پندرہ سالوں میں غالب کے سارے فارسی مکتوبات کو انتہائی دلکش اردو میں ترجمہ کر کے وہ عظیم کام انجام دیا جو پچھلے ۱۲۵سال سے کسی مرد میدان کا منتظر تھا۔ ا س کے علاوہ غالب کے مشکل اشعار کی ایک شرح اور غالب پر چند مقالے بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔ ان کی ادبی خدمات پر انہیں ۲۰۰۸میں ستارہ امتیاز بھی عطا کیا جا چکا ہے ۔ اور اب تقریباً چودہ سال کی غیر حاضری کے بعد پرتو روہیلہ ایک بار پھر شاعروں کی ردیف میں شامل ہیں اور روح عصر کو اپنے تیزوتند طرز اظہار میں پیش کر رہے ہیں۔
س:        میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ آج آپ کا انٹرویو کر رہا ہوں۔ تو سب سے پہلے تو مختار علی خان اور پھر پرتوؔروہیلہ کے متعلق کچھ بات ہو جائے کہ آپ کا تخلص مروّجہ روش سے خاصہ مختلف معلوم ہوتا ہے۔
ج:         جہاں تک مختار علی خان کا تعلق ہے اس کے بارے میں صرف اس قدر ہی کہہ سکتا ہوں کہ اس پر میرا کوئی اختیار نہیں تھا۔ یہ میرا نام ہے اور کلیتاً میرے والدین کی پسند۔ البتہ پرتوؔ روہیلہ میرا ادبی نام ہے۔ اس میں میری مرضی اور پسند کا دخل ہے۔ شبیر حسن خان نے تخلص جوشؔ رکھا لیکن باوجود اس کے کہ آفریدی تھے ملیح آباد کی نسبت کو ترجیح دی۔ میں نے تخلص پرتوؔ رکھا لیکن اپنے اجداد کے قبیلے کو ترجیح دی اور پرتوؔ کے ساتھ روہیلہ لکھنا پسند کیا اور میرے مزاج کا یہ میلان لڑکپن ہی میں ظاہر ہو گیا تھا کہ میں اپنے نام کے ساتھ روہیلہ بھی لکھا کرتا تھا چنانچہ میرے انٹر میڈیٹ کے سرٹیفیکیٹ میں میرا نام مختار علی خان روہیلہ لکھا ہوا ہے۔
س:        جوشؔ صاحب نے اپنا تخلص جوشؔ رکھا تو حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری سو فیصدی ان کے تخلص کی تشریح ہے۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کا تخلص آپ کی شاعری سے کس حد تک ہم آہنگ ہے؟
ج:         یہ سوال آپ کا مجھے پسند آیا اور پسند اس وجہ سے آیا کہ اس سے بیشتر کہ آپ میری شاعری کی نفسیاتی تحلیل کریں کم از کم میری ذات کی ڈیوڑھی میں تو داخل ہو جائیں۔ میں سمجھتا ہوں تخلص ہر شاعر کی ذات کی ڈیوڑھی ہوتا ہے۔ اندر کا مکان دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیوڑھی کا دروازہ کھلے۔ فطری طور پر لفظ پرتوؔ یا سایہ یا اس کے دوسرے ہم معنی الفاظ کا میری نفسیات سے کوئی گہرا تعلق تھا کہ ابتدائے شاعری سے میری شاعری میں پرتو اور سایے کے لا تعداد ہیولے نظر آتے ہیں۔ ہر سایہ مجھے ٹھہرا لیتا ہے اور اپنا نقش چھوڑے بغیر نہیں جانے دیتا۔ اگرچہ مجھے احساس ہے کہ یہ انٹرویو ان تفاصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں:
بیتے سمے کی ٹہنی پکڑے جھول رہے ہیں گہرے سایے
پورب پچّھم کا دے کاٹے من کا پنچھی بیٹھ نہ پائے
کس کے پائوں کی چاپ بَسی ہے رات کے گہرے سایوں میں
جلتے دیے کی لَو میں رچے ہیں کس کی سَجل  آنکھوں کے اشارے
……
سایوں کی اپنی آوازیں
اور سمے کی اپنی پہچل
……
عنوانِ محبت پہ ہوئی ختم کہانی
پلکوں کا ابھی سایہ بھی گہرا نہ ہوا تھا
یہ ساری مثالیں میں نے آپ کو اپنی ابتدائی شاعری سے دی ہیں۔
س:        لیکن آپ نے تو اپنا نام بھی اپنی شاعری میں بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے؟
ج:         جی ہاں میں نے اپنا نام شاعری میں استعمال کیا لیکن طنز کے طور پر اس جبر کے خلاف جو مجھ پر روا رکھا گیا۔
ہستی کی مجبوری پوچھے گی جب نام
اس کو کیا بتلائو گے مختار علی خاں
مجھ کو مجبور بنا کر یہ ستم اور کیا
نام رکھا مرا مختار خدایا چہ کنم
س:        آپ نے اپنی شاعری میں تقریباً اردو کی ہر صنف سخن میں اظہار کیا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اب بھی موزوں صنف کی تلاش میں سرگرداں ہوں؟
ج:         پیرزادہ صاحب آپ کا تأثر درست نہیں۔ میں نے رباعی نہیں کہی، مثنوی نہیں لکھی، ہائیکو نہیں لکھی البتہ میں نے غزل، نظم (پابند و آزاد دونوں) اور دو ہے میں شاعری کی ہے۔ آپ سے بڑھ کر کہ خود صاحب قلم ہیں اور کون جان سکتا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کے جذبات و خیالات میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے۔ زندگی کے نئے تجربات، نئے موضوعات ہی سے آپ کو دو چار نہیں کرتے آپ سے اظہار کے نئے سانچوں اور نئے معیارات کے بھی متقاضی ہوتے ہیں۔ ہر تجربہ اپنا پیکر اظہار خود لے کر سامنے آتا ہے۔ سو کوئی خیال غزل کے شعر میں صورت پذیر ہو جاتا ہے، کوئی دو ہے کی شکل اختیار کرتا ہے اور کوئی موضوع آپ سے اپنی سیرابی کے لیے جب زیادہ وسعت کا طلب گار ہوتا ہے تو آپ اس کو نظم میں بیان کرتے ہیں۔ ہر تخلیق کار اپنے اظہار کے لیے بہترین پیکر کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس امر کا فیصلہ کہ اس کو کس موضوع کے لیے کون سا پیکر منتخب کرنا ہے، اس کا اپنا وجدان ہی کرتا اور کر سکتا ہے۔ شاعری کی حد تک میں نے جس صنف میں بھی جو کچھ کہا ہے میرے وجدان نے مجھے اسی طرح موزوں بتایا۔ چنانچہ میں نے ایک خاص وقت تک غزل، نظم ، دوہاتینوں اصناف میں بڑی بھرپور شاعری کی۔
چنانچہ میرا پہلا مجموعہ شاعری ’’پر تو شب‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو اس میں صرف غزلیں ہی غزلیں تھیں۔ اور مناسب ہو گا کہ آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ان غزلیات میں تقریباً آدھی کے قریب ہندی آہنگ کی غزلیں تھیں۔ یہ وہ آہنگ تھا جو میں نے ابتدائی شاعری میں اختیار کیا تھا اور اس وقت اس رنگ میں غزلیں کہنے والا میں پہلا شاعر تھا۔ اس وقت کی غزلوں کے دو شعر آپ کو سناتا ہوں۔
سانس کی ایسی نرم چھری سے کٹتی ہے یہ جیون ڈوری
جینے والے کتنے بھولے پھرتے ہیں چھاتی کو ابھارے
……
چار گھڑی کا جیون اپنا اس نگری میں یوں ہے جیسے
گہری نیند سے چونکے بالک کروٹ بدلے اور سو جائے
لیکن بقول جمیل جالبی ’’پرتوؔروہیلہ کے طبعی تلون اور ان کے لا ابالی پن نے بغیر کسی وجہ اور احساس کے یہ میدان دوسرے لوگوں کے لیے چھوڑ دیا اور نو واردان ادب نہ صرف اسے لے اڑے بلکہ اس رنگ کے موجد و مخترع بن بیٹھے‘‘ لیکن رفتہ رفتہ میرے مزاج میں تبدیلی آتی گئی اور روح عصر کا اظہار حاوی ہوتا گیا اور پھر اس قسم کے شعر لکھے:
سازشوں کی تند موجیں تھیں مرا ہلکا بدن
بارہا ڈوبا بھنور میں بارہا ابھرا بدن
سخت جانی تھی مری یا میں تنِ بے روح تھا
جی رہا ہوں آج بھی گو کٹ گیا آدھا بدن
س:        پرتوؔ صاحب آپ نے نظمیں بھی تو کہی ہیں بلکہ بعض نظمیں تو آپ کی بہت مشہور ہوئیں ؟
ج:         جی ہاں ایک دور ایسا آیا کہ میں نے صرف نظمیں کہیں اور وہ خاصی مشہور بھی ہوئیں اوراق نے کئی نظموں کو سال کی بہترین نظموں میں شامل کیا۔ ’’آواز ‘‘ کے نام سے میرا ایک نظموں کا مجموعہ سنگ میل پبلی کیشنز سے شائع بھی ہوا۔ لیکن میں چونکہ خود بوجوہ متحرک ادبی دنیا میں چنداں شامل نہیں رہا اس لیے میری نظم کابھی چنداں چرچا نہیں ہوا۔ البتہ ان ساری نظموں میں دو چار نظمیں کافی مشہور ہوئیں۔
س:        کوئی ایک نظم؟
ج:         ’’کارزار‘‘ میری ایک مشہور نظم ہے وہ آپ کوسنائے دیتا ہوں۔
نحیف چڑیا نزار چڑیا
حسیں چڑیا جمیل چڑیا
کسی شکاری کا گھائو کھا کرنہ جانے کب سے سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مری نہیں تھی
زمیں سے اس کو اٹھا کے میں نے قریب ہی اک درخت کی شاخ پر بٹھایا
کہیں سے چلو میں پانی لا کر اسے پلایا
وہ سانس دینے کا اک طریقہ کبھی جو بچپن میں جو میں نے سیکھا تھا آزمایا
تو چند لمحوں میں اس نحیف و نزار چڑیا نے سر اٹھایا
ابھی میں اپنی سیہ ہستی کی ننّھّی نیکی پہ آفریں تھی نہ کہہ سکا تھا
کہ میں نے چڑیا کو جست بھرتے ہوا میں دیکھا
ہوا سے چڑیا جو واپس آئی
تو اس کی ننھی سی چونچ میں اک حسین تتلی دبی ہوئی تھی
حسین تتلی، جمیل تتلی
نحیف تتلی، نزار تتلی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مری نہیں تھی
س:        پر توؔ صاحب دوہوں کی نسبت سے آپ کی بہت شہرت ہے۔ سنا ہے کہ آپ کا دوہوں کا مجموعہ’’رین اجیارا‘‘ دو سال کے اندر تین مرتبہ طبع ہوا۔ پھر ای ایم آئی نے اس کے کیسٹ بھی بنائے جو اپنی جدت و جاذبیت دونوں کے لیے بہت مشہور ہوئے۔ کیا آپ بتا سکیں گے کہ آپ نے دوہے کو کیا دیا؟
ج:         پیرزادہ صاحب ، آپ نے بڑا متنازع موضوع چھیڑ دیا۔ چونکہ اس موضوع کی اپنی وسعت اتنی ہے کہ یہ انٹرویو اس کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے میں اس کے متنازع حصوں سے صرف نظر کر کے صرف اتنا کہوں گا کہ جی ہاں یہ درست ہے کہ ’’رین اجیارا‘‘ کے دوتو نہیں البتہ شاید تین سال میں تین ایڈیشن چھپے۔ یہ بھی درست ہے کہ ای ایم آئی نے کراچی سے اس کے کیسٹ رلیز کیے اور واقعی وہ کیسٹ اپنی موسیقی اور شاعری کے باعث کافی مقبول  بھی ہوئے۔ اب میں آپ کے سوال کے دوسرے حصے پر آتا ہوں کہ میں نے دوہے کو کیا دیا۔ تو اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ’’رین اجیارا ‘‘دوہوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ اس سے پہلے خالصتاً دوہے کا کوئی مجموعہ نہیں تھا۔ یہ بات ہمارے ادبی نقاد نے شاید عمداً بھلا دی۔ پھر میں نے دوہے کی شاعری کو تفنّن طبع کے آنگن سے نکال کر سنجیدگی اور وقار کی شہ نشین پر بٹھا دیا اور اس طرح نہ صرف یہ کہ دوہے کے نظری افق کو توسیع دی بلکہ دوہے کی شاعری کو عمق بھی دیا اور اس طرح فکری و جمالیاتی شاعری کو ایسی تشبیہیں اور استعارے دیے جو ہندی، اردو اور فارسی شاعری میں کہیں موجود نہ تھے۔ آخر کوئی بات تو تھی ان دوہوں میں کہ انبالہ (ہندوستان) سے اس کا چوتھا اور پھر انبالے ہی سے اس کا ایک ہندی ایڈیشن بھی چھپا جو اس کا پانچواں ایڈیشن تھااردو ایڈیشن کے دیباچے میں مشہور محقق و استاد پروفیسر مظفر حسین برنی نے جو اس وقت ہریانہ کے گورنر تھے اس رائے کا اظہا ر کیا’’پاکستان کے ایک ہونہار شاعر جناب مختار علی خان پرتوؔ روہیلہ بھی دوہے لکھ رہے ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام ’’رین اجیارا‘‘ میں ہندی شاعری کی وہ ساری رعنائی اور دل فریبی موجود ہے جو فراقؔ گورکھپوری کی شاعری کی بھی خصوصیت رہی ہے ۔ فراقؔ کی رباعیوں میں احساس جمال پوری طرح بیدار نظر آتا ہے اور لطافت و نزاکت کے پردوں سے چھن چھن کر آتی جمالیاتی احساس کی یہ آگ دل کے تاروں کو چھیڑ کر رگ جان بنا دیتی ہے۔ رین اجیارا کے شاعر نے دوہوں کی صورت میں ’’گیان دھیان‘‘ کے علاوہ ’’روپ رنگ’‘ اور ’’انگنائی‘‘ کو بھی موضوع سخن بنایا ہے۔ پرتوؔ روہیلہ کے اکثر دوہے مشہور شاعر Keatsکی شاعری کی یاد دلاتے ہیں‘‘۔
س:        پچھلے آٹھ دس سال سے آپ کی غالبؔ شناسی کے بڑے چرچے ہوئے ہیں ، اس بارے میں کچھ کہنا پسند فرمائیں گے۔
ج:         یہ شاید ۱۹۹۵ء کی بات ہے۔ میں ریٹائر ہو چکا تھا اور وزیراعظم پاکستان معائنہ کمیشن میں بطور ممبر کام کر رہاتھا کہ یکدم کراچی سے مشفق خواجہ صاحب کا فون آیا۔ گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ آپ غالب کی فارسی شاعری کی تشریح کیجیے۔ میں یہ بات سن کر ہی ہکا بکا رہ گیا۔ بھلا غالبؔ کی فارسی کلام کی شرح اور مجھ سا ایک لا ابالی کم سواد شخص۔ میں نے بڑی تندی سے اس تجویز کو رد کر دیا لیکن دوسرے دن پھر خواجہ صاحب  ایک متبادل تجویز کے ساتھ آ موجود ہوئے۔ ’’آپ غالبؔ کے فارسی مکتوبات کا اردو ترجمہ کر دیجیے‘‘۔ میں نے غالبؔ کی فارسی شاعری تو پڑھی تھی اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھی تھی لیکن اس وقت تک غالب کی فارسی نثر پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے اس ضمن میں بھی عذر پیش کیا۔ بہت اصرار کے بعد یہ طے ہوا کہ میں ان کے مجوزہ فارسی مکتوبات کے مجموعے ’’نامہ ہائے فارسی غالب‘‘ کودیکھ کر فیصلہ کروں گا۔ اسلام آباد میں وہ کتاب بڑی مشکل سے مرکز تحقیقات ایران و پاکستان اسلام آباد سے دستیاب ہوئی۔ کتاب کی صورت شکل اور چھپائی انتہائی مایوس کن تھی۔ چار و ناچار جو ورق کھلا اور جو پیراگراف میں نے پڑھا ۔ اس نے مجھے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس نثر میں ایسا سرمدی آہنگ تھا کہ اس نے مجھے سرشار کر دیا اور میں نے حقیقتاً ایسا محسوس کیا کہ میں طلسمات کے کسی شیش محل  میں داخل ہو گیا ہوں۔ ممکن ہے آپ کو میری تعریف میں مبالغہ نظر آئے۔ تو لیجئے میں آپ کے اطمینان خاطر کے لیے وہ پیرا گراف پیش کیے دیتا ہوں۔ ملحوظ رہے کہ یہ اردو ترجمہ ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اصل فارسی متن میں توانائی کی کیا کیفیت ہو گی۔ یہ ان کے ایک مکتوب کا ایک پیرگراف ہے جو انھوں نے باندے سے اپنے دوست مولوی محمد علی خان صدر امین باندہ کو بنارس سے بھیجا تھا۔ غالب کلکتہ کے سفر میں محمد علی خان کے پاس تقریباً چھ ماہ باندے میں ٹھہرے تھے جہاں کافی عرصے تک ان کا علاج بھی ہوا۔ یہاں سے چل کر غالبؔ چلہ تارا ہوتے ہوئے الہ آباد اور الہ آباد سے بنارس پہنچے جہاں انھوں نے کچھ عرصہ قیام کیا اور اپنی زندگی کی لازوال تخلیق وہ مثنوی لکھی جو ’’چراغ دیر‘‘کے نام سے مشہور ہے اور حسن پرستی کا شاہکار تصور کی جاتی ہے۔ تو یہاں نسائی حسن برہنہ سے بے خود ہو کر دیکھیے غالب کیا کہتے ہیں:
’’اس تماشا گاہ کی دل فریبی کے وفور سے غم مسافرت دل سے محو ہو گیا اور اس بت خانے کے نشاط نالۂ ناقوس کی کثرت سے دل جھوم جھوم کر (مستانہ وار) نعرہ زن ہے۔ میرا ذوق (حسن) بادۂ تماشا سے ایسا بدمست ہوا کہ وارفتگی میں یاد وطن (کی شمع) بجھا دی اور اس جگہ کے نظارے کی کیفیت دل پر اس حد تک غالب ہو گئی کہ دہلی کے لیے سوائے طاق نسیاں کے (اور کوئی)جگہ نہ رہی…(اگر) یہ اہم مقدمہ پیش نہ ہوتا اور میرا دل شماتت ہمسایہ سے زخمی نہ ہوتا تو بے درنگ دین کو خیر باد کہتا، تسبیح توڑ ڈالتا، ماتھے پر قشقہ لگاتا، گلے میں زنّار ڈالتا اور اس ہیئت کے ساتھ گنگا کنارے بیٹھا رہتا تا وقیکہ (میرے جسم سے) آلائش گرد ہستی دھل نہ جاتی اور میں ایک قطرے کی صورت دریا میں ضم نہ ہو جاتا،اس کے بعد دوچار مکتوبات مزید پڑھنے کے بعد میں نے مشفق خواجہ صاحب کو فون کیا اور اپنی رضامندی کے ساتھ اپنی سپاس گزاری کا بھی اظہار کیا کہ ان کے طفیل میں غالبؔ کی فارسی نثر سے متعارف ہو گیا۔ چنانچہ میں نے اس کتاب پر کام شروع کر دیا۔ ہر چند کہ وہ کام انتہائی مشکل اور صبر آزما ثابت ہوا لیکن بالآخر ادارہ یادگار غالبؔ نے ۱۹۹۹ء میں وہ کتاب چھاپ دی اور پھر اس کتاب کی پذیرائی نے  تو حقیقت یہ ہے کہ مجھے ایسی طمانیت اور مسرت بہم پہنچائی جوخوش قسمت لوگوں کو ہی ملتی ہے۔ سب رس کے مشہور و معروف ایڈیٹرڈاکٹر مغنی تبسم صاحب مرحوم نے اس ترجمے کی طباعت پر اپنے مؤقررسالے کے ایک اداریے میں اس ترجمے کی بڑے شاندار الفاظ میں تعریف کی اور مجھ سے اس ترجمے کی قسط وار طباعت کی اجازت مانگی۔ بھلا سوچئے تو۔ میں حیران تھا یہ کیا ہو رہا ہے اور پھر انھوں نے اس پورے ترجمے کو قسط وار سب رس میں چھاپا اور پھر اگلے سال یہ بھی ہوا کہ شعرو حکمت میں تقریباً سوسے زیادہ صفحات کا ایک گوشہ میری شخصیت شاعری اور فارسی مکتوبات کے ترجمے پر چھپا۔پہلی کتاب کے ترجمے کی پذیرائی ایسی حوصلہ افزاء اور مسرت انگیز تھی اور اس نے مجھے ایسی زبردست توانائی بہم پہنچائی کہ میں نے غالبؔ کی فارسی مکتوبات کے سارے مجموعے جو تعداد میں پانچ ہیں یکے بعد دیگرے ترجمہ کر دیے اور بالآخرپورے نو(۹)سال بعد سنہ ۲۰۰۸ء میں کلیات مکتوبات فارسیٔ غالبؔ بڑی شان و شوکت کے ساتھ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد سے طبع پذیر ہو گئی۔ مستزاد یہ کہ اس کتاب کی لانچنگ انٹر نیشنل بک فیئر میں انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے نئی دہلی میں ۲۰۰۸ء میں ہوئی۔ یہ کام اتنا وقیع اور اہم تھا اور خدا کے فضل سے میڈیا نے بھی اس کو تشنگان ادب ہندوپاک تک اس سرعت سے پہنچایا کہ ۲۰۰۹ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی نے اس کو اور بھی زیادہ دیدہ زیب صورت میں شائع کر دیا۔ اس کتاب کی مزید پذیرائی اس طرح ہوئی کہ اکادمی ادبیات نے اس کو ترجمہ کی سال کی بہترین کتاب قرار دیا اور پھر حکومت پاکستان نے بھی مجھے ستارہ امتیاز سے نوازا۔کلیات مکتوبات کی طباعت پرجو اظہار رائے ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا ہے وہ میرے لیے ایک ابدی سرمایہ افتخار ہے۔ وہ کہتے ہیں پرتوؔ نے اس پہاڑ جیسے کام کو مکمل کر کے پانچ غفلت زدہ نسلوں کا قرض ادا کر دیا ہے۔ اگر غالب ، زندہ ہوتے تو اس ترجمے کو پڑھ کر پرتوؔ کو آفرین کہتے ہوئے اپنے پاس بٹھا لیتے کہ یہ وہ عظیم کارنامہ ہے کہ جس نے ادب عالیہ کے خزانے کا وہ دروازہ جو ایک سو چالیس سال سے مقفل تھا یکدم کھول دیا ہے اور ان کی مایہ ناز میراث کو ہر اردو دان کی دسترس میں پہنچا دیا ہے۔
س:        تو گویا غالبؔ پر آپ نے جو کام کیا وہ صرف ترجمے ہی پر مبنی ہے؟
ج          نہیں ایسا نہیں۔ ترجمے کرنے میں اور ان کی طباعت تک مجھے بہت سے ایسے طویل وقفے ملے جن میں میں نے  ایک توغالب کے مشکل اردو اشعار کی شرح لکھی جو مشکلات غالب کے نام سے نقوش پریس لاہور سے ۲۰۰۲ء میں چھپی اور غالب کی شرحوں میں باوجوہ منفرد تصور کی جاتی ہے۔ دوسرے غالب پر کئی مقالات بھی لکھے جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔          غالب ؔکی زندگی کے تین اہم فیصلے
۲۔         غالبؔ کی انشا نگاری  و فارسی خطوط نویسی
۳۔         غالبؔ کے دینی اور مذہبی عقائد
۴۔         نیاز فتحپوری کی مشکلات غالبؔ
۵۔         والہ حیدرآباد اور شرح اشعار غالبؔ
۶۔         صوفیؔ غلام مصطفی تبسم کی غالبؔ کی فارسی کلام کی شرح
یہ سارے مقالات کتابی شکل میں ’’بارے غالبؔ کا کچھ بیاں ہوجائے‘‘ کے عنوان سے ادارہ یادگار غالبؔ کراچی سے تقریباً دو سال پہلے چھپ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ’’غالب اور غمگین‘‘ میری ایک دوسری کوشش ہے جس کو مقتدرہ قومی زبان نے ایک ڈیڑھ سال پہلے شائع کیا ہے۔ یہ غالبؔ اور حضرت غمگین کی باہمی خط و کتاب پر مبنی ایسی منفرد تالیف ہے جس سے غالبؔ کی زندگی میں خصوصاً دینی اعتقادات کا ایسا باب کھلتا ہے جو تاحال اہل ادب کی نظر سے اوجھل تھا۔ اس لحاظ سے بھی یہ کتاب انتہائی اہم اور وقیع ہے۔
یہاں تک پہنچ جانے کے بعد میرا جی چاہتا ہے کہ میں آپ کو یہ بھی بتا دوں سال رواں یعنی ۲۰۱۳ء میں میں نے غالب ؔ کے پراگندہ فارسی مکتوبات کو جمع کر کے اس سلسلہ کی آخری کتاب  بعنوان ’’غالبؔ کے غیر مدوّن فارسی مکتوبات‘‘ بھی طبع کر دی ہے۔ یہ غالبؔ کے ان فارسی مکتوبات کا اردو ترجمہ ہے جو ہندوپاک کے کونوں کھدروں میں پڑے تھے اور جن تک عام صاحب ذوق حضرات تو کجا غالبؔ شناسوں کی نظر بھی نہیں پہنچی تھی۔ اس کتاب کی طباعت کے بعد میں بفضل خدا بڑے اطمینان سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الوقت ادب کی معلوم دنیامیں غالبؔ کا کوئی ایسا فارسی مکتوب نہیں جس کا اردو ترجمہ نہ ہو گیا ہو اور وہ کتابی شکل میں موجود نہ ہو۔ گویا غالبؔ کے فارسی مکتوبات کی قلم رو تمام ہو چکی ہے۔
س:        پرتوؔ صاحب اس آخری کتاب کی طباعت کے بعد آپ کو عدم مصروفیت کے سبب خلا کا احساس نہیں ہوتا۔
ج:         نہیں پیرزادہ صاحب! ایسا نہیں ۔ فارسی کی مثل ہے۔  خانۂ خالی را دیو می گیرد۔ یہ ذہن کبھی فارغ نہیں ہوتا۔ غالبؔ کے فارسی مکتوبات کی آخری کتاب کی طباعت کے بعد مجھے یکدم محسوس ہو ا کہ میں نے شاید بارہ تیرہ سال سے کوئی شعر نہیں کہا۔ اس دوران ایسے کئی وقفے آئے جب شعر کہنے کو طبیعت چاہتی تھی لیکن شاعری کی دیوی روٹھی ہوئی تھی۔ اس کو مشکل سے منانا پڑا اور اب بفضل خدا میں پھر شاعروں کے قبیل میں شامل ہو گیا ہوں اور روح عصر نے مجھے دوگنی توانائی کے ساتھ سخن سرا کر دیاہے۔پیرزادہ صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ!
برقی پتا: akhbareurdu@gmail.com  
٭٭٭٭