پروفیسرڈاکٹر انوار احمد
ادبی تحقیق کے لیے معیاری زبان


          ملک کے ہر بڑے کتاب خانے میں ایک سے زیادہ الماریاں یا شیلف اردو کے نامور محققین کے مقالات سے مزین ہیں، جن کو دیکھ کر تحقیق، تنقید اور ادبیات کا ہر کوئی طالب علم یا استاد احترام اور عقیدت کے جذبات سے سرشار ہو جاتا ہے، مگر وہ عام طور پر ان سے استفادے کی سکت ، استعداد یا فراغت نہیں رکھتا۔ اس کے اسباب میں جہاں سماجی ترجیحات کا بدلنا ہے وہاں یہ بات بھی ہے کہ ان کے موضوعات ہماری فکری اور ذہنی زندگی سے خارج نہیں ہوئے تو بہت فاصلے پر ضرور چلے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جا سکتا کہ ان بزرگوں اور عالموں نے عام طورپر پیرایۂ اظہار بھی ایسا اختیار کیا کہ ایسی کتابوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
اب ماجرا یہ ہے کہ ادبی تحقیق کے ہر دور میں قاری محدود اور مخصوص رہے ہیں۔ کسی معاشرے میں تحقیق کے نتائج براہ راست ایک مخصوص گروہ تک تو پہنچتے ہی ہیں مگر بالواسطہ طور پر فکری مباحث اور انتقاد یا تبصرے کے ذریعے علم وادب کے عام شائقین تک بھی پہنچتے ہیں اور یوں ادبی تحقیق کے لیے ریاضت کرنے والوں کے احترام کی حقیقی بنیاد فراہم ہوتی ہے، جس پر کسی معاشرے کے اجتماعی افتخار کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ اسی مقام پر ایک اور بات بھی ہو جانی چاہیے کہ ہر دور میں اہلِ علم میں وہ لوگ بھی شمار کیے گئے ہیں جن کی ساری تگ و دو عالم دکھائی دینے ، خود کو عالمِ بے دل منوانے اور اس کے عوض دربار سرکار کی خوشنودی پانے کی خاطر رہی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایسا پیرایۂ اظہار اختیار کیا، جس کا مقصود اپنے مخاطب کو مرعوب کرنا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی تحقیق کی زبان کے معیارات سے کھیلتے رہے جنہوں نے تفکر، استدلال اور تجزیے کی کمی کو زورِ بیان یعنی آرائش و رعایت ِ لفظی، مبالغہ یا استہزا سے پورا کر کے وقتی طور پر اپنے چند مداح پیدا کیے۔ مگر یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں علم کی مسند پر ایک دو وہ بھی رہے جنہوں نے اپنے علم کو گھمنڈ میں تبدیل نہیں کیا، ادراک اور شعور نے ان میں تشنج کی کیفیت پیدا نہیں کی۔ اس لیے جو کچھ وہ جانتے تھے، اسے اپنے مخاطب تک پہنچانے کے لیے انہوں نے بڑی سہولت اور آسانی سے ایسا انداز بیان اختیار کیا جو اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ جن پر علمی نکات روشن ہوتے ہیں ، وہ ان کی ترسیل اور ابلاغ کا پیچیدہ راستہ اختیار نہیں کرتا۔
ڈاکٹر گیان چند جین اردو کے انہی گنے چنے چند محققین میں سے ہیں، جن کا دوستانہ پیرایۂ اظہار ان کی کتابوں اور مقالوں کو قابل خواندگی بنا دیتا ہے۔ ان کی کتاب ’’تحقیق کا فن‘‘ (مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، ۱۹۹۴ئ) کے نویں باب کا عنوان ہی زبان وبیان ہے، جو ۳۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح آر۔ ڈی ، آلٹک اور جے ۔جے فینسٹر میکر کی کتاب ’’The Art of Literary Research ‘‘ (ڈبلیو ، ڈبلیو، نارٹن اینڈ کمپنی نیویارک۔ لندن طبع چہارم ۱۹۹۳ئ) کے ساتویں باب (۲۹ صفحات) The Philosophy of Composition میں تحقیق کی زبان کے حوالے سے ایسی باتیں ہیں، جن میں اضافے کا دعویٰ میں نہیں کر سکتا۔ ان دونوں کتابوں کے مطالعے سے اور اردو کے چند نامور محققین کے مقالات کی جستہ جستہ خواندگی کے بعد جو باتیں حاصل ہوئی ہیں ، ذیل میں ان کا ایک خلاصہ بیان کر دیتا ہوں:
۱۔          تحقیق کی زبان کو واضح، غیر مبہم اور براہِ راست ہونا چاہیے۔
۲۔         نامانوس یا نیم مانوس اصطلاحات کی فرہنگ یا توضیح مقالے یا کتاب میں شامل ہونی چاہیے۔
۳۔         محففات کو استعمال کرنا ناگزیر ہو تو اس کی فہرست ابتداء میں دے دی جائے، اس کے لیے معروف طریقِ کار ہی کی پیروی کی جائے نہ کہ اپنی ایسی اختراعی صلاحیت کا اظہار کیا جائے، جونجی یا شخصی ہو۔
۴۔         عبارت کو طویل اقتباسات ، جملہ ہائے معترضہ اور حوالوں کے انبارسے بچانا چاہیے۔
۵۔         بہت ضروری ہو تو اپنے لیے ضمیرِ متکلم کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے وگرنہ ہم یا راقم السطور کی تکرار تحقیقی مقالے میں سوانحی رنگ پیدا کردیتی ہے۔
۶۔         تنقیدی اور تجزیاتی انداز ہونا چاہیے ، خطابت کو استدلال کی جگہ نہیں لینی چاہیے۔
۷۔         حتی الامکان اپنی فضیلت کو منوانے، اس میدان کے کسی اور متخصص کی تضحیک کرنے یا چونکانے کے آرزو مند الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
۸۔         تعمیم اور رسمی توصیف کے مظہر ، مبتذل ہو جانے والے کلمات کے استعمال سے پرہیز کرنی چاہیے۔
۹۔         عبارت میں غیر ضروری بھرتی اور مقالے کو ایک خاص حجم تک پہنچانے کی مصنوعی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے، آلٹک تو کہتا ہے جو آپ کو کہنا ہے کہیں اور جب کہہ چکیں تو پھر والسلام۔
‘‘Say what you have to say and when you have said it, quit)’’ P;225 (
۱۰۔        مقالے کو خواندنی ہونا چاہیے ، پڑھنے والے کو اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے، یا اس کے ذخیرۂ الفاظ یا استعداد علمی کو سفاکی کے ساتھ نہیں آزمانا چاہیے۔
قاضی عبد الودود نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ’’بعض موضوعات ایسے ہیں کہ ان پر آزادی سے کچھ لکھنا ضرر رساں ہو سکتا ہے، اگر اس کے لیے آمادہ نہیں تو ایسے موضوع پر قلم اٹھانا نامناسب ہے۔ کسی محقق کے لیے یہ نہایت نازیبا بات کہ اسے خود راست گفتاری سے باز رکھے‘‘۔ (اصول تحقیق، قاضی عبد الودود، تحقیقی و تنقیدی جائزے، مرتبہ پروفیسر نذیر احمد ، دہلی، ۱۹۹۱ئ، ص :۱۷۳)
قاضی عبد الودود نے اپنے اسی مضمون میں تحقیق کی زبان کے حوالے سے بھی یہ لکھا ہے ’’محقق کو خطابت سے احتراز واجب ہے اور استعارہ تشبیہہ کا استعمال صرف توضیح کے لیے کرنا چاہیے، آرائش گفتار کی غرض سے نہیں۔ اسماء کے ساتھ صفات اسی وقت لانا چاہئیں جب کوئی صفت لکھنے والے کی اصل رائے کو ظاہر کرتی ہو۔ تناقض و تضاد اور ضعفِ استدلال سے بچنا چاہیے اور مبالغے کو محقق کے لیے سمِ قاتل سمجھنا چاہیے۔ محقق کا مطمح نظریہ ہونا چاہیے کہ کم سے کم الفاظ میں پڑھنے والے پر مافی الضمیر ظاہر کر دے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۷۴)
اردو تحقیق میں ہر بزرگ کی ریاضت اور رتبے کے احترام کے باوجود میں یہ عرض کروں گا کہ مولانا امتیاز علی عرشی کے اسلوب کی پیروی سے جہاں تک ممکن ہو، ادبی تحقیق کے طالب علموں کو بچنا چاہیے۔ مجلسِ ترقی ادب لاہور نے ’’مقالاتِ عرشی‘‘ کے عنوان سے جو کتاب شائع کی ہے (۱۹۷۰ئ) اس میں سے دو مقالات ’’زرنوجی کا نظامِ تعلیم و تعلم‘‘ اور’’ مولانا آصفی اور ان کی شاعری‘‘کے بارے میں تبصرے کی جسارت کروں گا۔ اول الذکر مضمون کے تین اوراق کے بعد کہیں جا کر یہ پتا چلتا ہے کہ ’’زرنوجی‘‘ کسی عالم کا نام ہے جو تعلیم کے بارے میں ایک رسالے ’’تعلیم المتعلم‘‘(ترجمہ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۹ئ) کے مصنف ہیں۔ دوسرے محمد حسین آزاد کے انداز کو انہوں نے اس طرح سے اپنایا ہے۔
’’کوئی علم اور کسی طرح کی صنعت ہو، اس کی تاریخ ترقی میں سے اسلامی عہد کا حذف بامِ علم کی سیڑھی کا اہم زینہ توڑ دینا ہے‘‘ (ص۳۶۱)
دوسرے مضمون کا پیرایہ بھی یہی ہے ، البتہ اس میں نامانوس الفاظ اور کلمات اور رقت کی کثرت ہے۔ ’’کم مایہ اپنی دناعتِ طبع سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔ یہ اہلِ فضل کی جراحتِ دل پر نمک پاشی کا کام کرتا ہے ، ابتداً صبر کرتے ہیں لیکن تابہ کے۔ آخر کار ناقدر شناسی سفلہ پروری اور جوہر کشی کی شکایت کا آغاز ہوتاہے۔۔۔ یہ غرور نہیں خودداری ہے، حسد نہیں رشک ہے، وشتان مابینھما‘‘۔ (ص۴۹۸)
یہاں یہ تکلیف دہ احساس بھی ہوتا ہے کہ مولانا عرشی کی تنقیدی اور تجرباتی صلاحیت بھی قابلِ رشک نہیں، وہ مولانا آصفی کے سوانحی احوال کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’پہلی بیوی کے انتقال کے بعد مولانا نے عقدِ ثانی کیا تھا۔ ان کے بطن سے دو لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔۔۔ افسوس یہ ہے کہ ایک لڑکا بھی اس علامہ باپ کا خلف الصدق نہیں،سب کے سب معمولی خواندہ ہیں، مولانا کو اس کا بہت رنج تھا، ہر چند کوشش کی مگر فائدہ نہ ہوا، انتقال سے دو تین ماہ قبل ایک جوان عورت سے اور نکاح کیا تھا‘‘۔ (ص ۴۷۹)
مالک رام کے علمی رتبے سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا مگر وہ بھی اکثر مقامات پر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کے معنی کسی اچھی لغت کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتے۔ مکتبۂ جامعہ دہلی نے ’’تحقیقی مضامین ‘‘ کے عنوان سے ان کی جو کتاب (دسمبر ۱۹۸۴ئ) شائع کی ہے اس میں سے ایک مضمون ’’اقبال کی تاریخ ولادت‘‘ میں سے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’کمیٹی کے کام کی جو روداد ہم تک پہنچی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے اراکین میں سے ایک صاحب بہت مستعد اور طلیق اللسان محقق تھے‘‘ (ص:۱۹۷) ’’جب ہم حقائق کی دنیا میں آئیں گے اور حد بندی کرنا چاہیں گے کہ وہ فلاں دن پیدا ہوئے یا فلاں دن فوت ہوئے، تو اب لابد ہے کہ ہم خیالات اور جذبات سے بالاتر ہو کر حقیقت دریافت کریں اور بلا خوف لامتہ لائم اس کا اعلان کر دیں‘‘ (ص:۱۹۵،۱۹۶)
اسی قسم کی زبان کی چند مثالیں علمائے تحقیق کے علمی رتبے پر شک کیے بغیر پیش کی جاتی ہیں:
’’یہ تنجیم و تفاؤل و شگون پر ایک کتاب ہے‘‘۔ (مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ، جلد اول، مجلس ترقی ادب، لاہور۔ ص:۸۷)
’’اصل کتاب تو مجعول تھی‘‘(نقدِ غالب، قاضی عبد الودود، بحوالہ ڈاکٹر گیان چند جین، تحقیق کا فن، ص:۲۴۴)
یہ واضح رہے کہ استفصال کی کوشش نہیں کی گئی۔ (نوائے ادب، قاضی عبد الودود، اپریل ۱۹۵۳ئ، بحوالہ ڈاکٹر گیان چند جین، تحقیق کا فن، ص۲۴۴)
اس میں شک نہیں کہ تحقیق پورے وجود اور تمام زندگی کا تقاضا کرتی ہے، جامعات میں اس طرح کے ہمہ وقتی محققین کم یا ب ہوں گے ، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ جامعات میں ہونے والی تحقیق کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اسے معیاری بنانے کے حوالے سے علمائے تحقیق نہ صرف مشورے دیں بلکہ شعبوں کے طالب علموں اور اساتذہ کی عملی تربیت میں بھی مشفقانہ انداز میں شرکت کریں۔
٭٭٭٭

ڈاکٹر انوار احمد
سائنسی علوم کی اردو زبان میں تیاری
سائنسی علوم کے نصابی مواد کو عام فہم بنانے کے سلسلے میںقومی زبان میں اس کی تیاری نہایت اہمیت کی حامل ہے اور مقتدرہ قومی زبان ایک عرصہ سے اہم سائنسی علوم کے نصابی مواد کے تراجم قومی زبان میں پیش کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ادارہ کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب ’’جینیاتی انجینئرنگ‘‘ ایک تعارف اسی سلسلے کی ایک کاوش ہے جس میں جینیاتی انجینئرنگ کے اہم موضوع اور عملی میدان میں ان کے کردار سے متعلق مواد کو قومی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ کاوش اس مضمون میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے خوشگوار اضافہ ثابت ہو گی اور وہ پہلے سے کہیں بہتر انداز میں اس مضمون کی مختلف جہتوں کا مطالعہ کر سکیں گے۔
یہ کتاب ’’ڈیسمونڈ ایس ٹی نکول کی مشہور زمانہ درسی کتاب ہے۔ جینیاتی انجینئرنگ کا مضمون عصرِ حاضر میں بہت اہم موضوع کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ اس مضمون کے بنیادی اصول و ضوابط پر دسترس ہی اس کے تعارف میں نہایت اہم ہے۔ لہٰذا اس کتاب میں سب سے زیادہ زور جینیاتی ترمیم اور رد و بدل کے بنیادی اصولوں پر دیا گیا ہے۔ کتاب کے دیگر موضوعات میں جینومکس، پروٹین انجینئرنگ، کلو ننگ، جین تھراپی، جین یافتہ پودے اور جانور اور بائیو ٹیکنالوجی کے زندگی کے مختلف شعبوں میں اطلاق پر بحث کی گئی ہے۔
کتاب میں موجود ایسے الفاظ جن کے متبادل الفاظ اردو زبان میں موجود نہیں، انھیں اسی طرح تحریر کر دیا گیا ہے مثلاً ایم آر این اے یا ڈی این اے وغیرہ جبکہ دیگر اصطلاحات جن کے لیے متبادلات موجود ہیں اُن کا ترجمہ کر دیا گیا ہے جیسے کہ "restriction enzymes "کو ’’پابند کنندہ خامرے‘‘ کہا گیا ہے۔ تاہم سائنس کے اساتذہ، طالب علموں اور اہل علم کی مشاورت سے ایسے علمی تراجم کو اور زیادہ مفید اور ہمہ گیر بنایا جا سکتا ہے۔
(مقتدرہ کی کتاب ’’جینیاتی انجینئرنگ‘‘ کے پیش لفظ سے اقتباس)