افتخار عارف
سائنسی علوم و فنون


سائنسی علوم و فنون کو ابلاغ کی سطح پر نہیں ادبی سطح پر بھی پیش ہونا چاہیے۔
مقتدرہ قومی زبان کے بنیادی مقاصد میں لغات اور دیگر ایسا مطالعاتی مواد تیار کرنا ، تراجم کرنا اولیت رکھتا ہے جس سے زندگی کے ہر شعبے میں قومی زبان کے نفاذ کی راہیں استوار ہوں۔ اس مقصد کے لیے مقتدرہ کے دارالترجمہ کا شعبۂ لغات واصطلاحات کا م کر رہا ہے۔
لغات کے حوالے سے مقتدرہ کی خدمات بے حد وقیع ہیں۔ مختلف عمومی، سائنسی و تکنیکی اصطلاحات کی لغات سمیت اب تک کوئی ۸۰ کے قریب لغات شائع ہو چکی ہیں۔ قومی انگریزی اردو لغت، اردو تھیسارس، فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ، سائنسی و تکنیکی اصطلاحات، تعلیمی اصطلاحات، اصطلاحات فنیات اور اصطلاحات موسمیات وغیرہ کی یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ جامع اورعمومی لغات کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی مقتدرہ کے پیش نظر رہا کہ اردو کی بطور علمی زبان ترقی کے لیے اس کے تکنیکی اسلوبیات پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی اور اصطلاحات اور تصورات کو بھی اردو کا جامہ پہنانا ہوگا۔ یہ امر بھی ہمیشہ پیش نظر رہا کہ اگر کسی بات کو ، کسی تصور کو، کسی بیان کو اردو میں کہنا ہو تو کیونکر کہیں گے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس نے اتنے بڑے سائنسی لغت کا بیڑا اٹھانے میں بنیاد کا کام کیا ہے۔
ہر زبان اسلوبیاتی حوالے سے تین چار سطحیں رکھتی ہے۔ پہلی سطح عام بول چال کی ہوتی ہے جس میں ہزار پندرہ سو سادہ سے الفاظ سے کام چل جاتا ہے۔ دوسری سطح ادبی ہوتی ہے۔ جس میں پندرہ ، بیس ہزار الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک معلوماتی، صحافتی اور تشریحی ضرورتوں کی سطح ہوتی ہے۔ جس میں پچاس ساٹھ ہزار الفاظ تک سے گزارا ہو جاتا ہے مگر علمی سطح پر کروڑوں تصورات کے بیان کے لیے کروڑوں الفاظ اور علامتوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر شاید ابھی بڑی سے بڑی ڈکشنری بھی ساڑے تین چار لاکھ الفاظ سے آگے نہیں بڑھی۔ اب تو جدید سائنس میں بڑی تعداد میں فارمولے تک اعداد اور علامتوں کے سہارے چل رہے ہیں گویا عدد نے لفظ پر بھی برتری حاصل کر لی ہے۔ سائنسی تصورات کی بڑی سے بڑی ڈکشنری یہی کوئی سوا لاکھ اصطلاحات پر مشتمل ہے۔
پچھلی چار صدیوں سے اردو میں بھی وضع اصطلاحات کا غلغلہ بلند ہے۔ چھ سات سو تو لغات چھپ چکی ہوں گی۔ کوئی تین لاکھ کے قریب اصطلاحیں بھی وضع ہو چکی ہوں گی۔ دہلی کالج، جامعہ عثمانیہ، جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور اردو سائنس بورڈ جیسے اداروں نے اس سلسلے میں بڑا کام کیا ہے مگر کیا کیا جائے کہ ۱۹۷۰ء کے بعد سے سائنس ایک بار اتنی تیزی سے ابھری ہے اور علم اتنی شدت سے پھیلا ہے کہ اب لغت اور اصطلاح اس کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہی۔ چند قدموں کا فاصلہ تو بہت سی اہم یورپی زبانوں میں بھی ہے۔ پھر ہمیں کو یہ طعنہ کیوں ہے کہ علم تو آگے بڑھتا جا رہا ہے آپ جتنی بھی اصطلاح سازی کر لیجیے ہمیشہ پیچھے رہیں گے۔ ہم جس بات کی طرف آنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اردو بول چال کی سطح بھی درست ہے۔ ادبی سطح پر بھی اردو بڑی حد تک عالمی سطح کا مقابلہ کر رہی ہے۔مگر عالمی سطح پر آکر بڑے سے بڑے لوگ بھی ہمیشہ یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اصطلاحوں کا کیا ہے، بات پہنچنی چاہیے، ابلاغ ہونا چاہیے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کس سطح پر۔ عام بول چال کا تو یہ مسئلہ نہیں۔ سائنسی علوم وفنون کو ابلاغ کی سطح ہی پر نہیں ، ادبی سطح پر بھی پیش ہونا چاہیے۔ انگریزی کی طرح اردو میں بھی کوئی بڑا سائنسی ادیب پیدا ہونا چاہیے۔ معلومات اور تشریح کی سطح پر بھی اردو زبان کو سائنس کے لیے استعمال کرنا چاہیے لیکن جب ریاضی کے دو اہل علم آپس میں اردو میں بات کرنا چاہیں تو وہ کس تکنیکی لہجے کو اپنائیں، کس خصوصی زبان کو اختیار کریں، کس اسلوب اور نہج پر گفتگو کریں؟ اس کے لیے بھی سوچا جانا چاہیے۔ ہمارا بنیادی سوال یہی ہے۔
جس سائنسی و تکنیکی لغت پر آج اس محفل میں گفتگو ہو رہی ہے یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ اس سے ایک ایسا سائنسی و تکنیکی اسلوب وضع کیا جا سکے جس میں سائنسدان اردو میں بات چیت کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے اصطلاح سازی بھی ثانوی سطح پر لازمی ہے اور اصطلاح سازی کے لیے کوئی طریقہ کار، اصول، فلسفہ یا نظام بھی درکار ہوگا۔ چنانچہ ہم نے میک گراہل(MCGRAW HILL ) کی ڈکشنری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (طبع چہارم) کو بنیاد بناتے ہوئے دو سو سے زا ئد سائنسی علوم اور ساڑھے تین سو سے زائد عنوانات کی سوا لاکھ کے قریب اصطلاحات اور ان کے تصورات کو اردو میں پیش کرنے کا ڈول ڈالا ہے۔ اس کی تیاری کے لیے بنیادی فلسفہ یہ کارفرما ہے کہ اردو میں خالص ترجمے سے بچا جائے لیکن قریب المفہوم ترجمہ کسی اصطلاحی نظام کے تحت درج کیا جائے مثلاً حیاتیات میں ساٹھ فیصد کے قریب مشترک لاطینی اصطلاحی ناموں کے ترجمے ملتے ہیں۔ باقی کو بھی کسی نہ کسی صورت سے ترجمہ کی صورت میں پیش کیا جائے۔ کیمیاوی نام اور فارمولے بعینہٖ رکھے جائیں۔ مزید براں لاطینی ناموں اور مشکل اصطلاحوں کو اردو رسم الخط میں بعینہٖ بھی لکھا جائے اور اگر اصطلاح کے مختلف علوم میں مختلف معانی ہیں تو ان کے لیے مختلف اصطلاح وضع کرنے کی کوشش کی جائے۔ پھر بیان متن میں جو نامانوس الفاظ استعمال ہوئے ہوں، ان کا اشاریہ بھی بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مترجمین، نظر ثانی کنندگان اور مشیروں کی ایک مجلس تشکیل کی گئی ہے۔
(ادارے سے شائع ہونے والی کتاب ’’سائنسی و تکینکی لغت‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا)
٭٭٭٭