ڈاکٹر جمیل جالبی
قومی زبان: یک جہتی ، نفاذ اور مسائل

 


فکر و عمل کی سطح پر ’’یک جہتی‘‘ ہماری قومی ضرورت ہے۔ ضرورت اس لیے ہے کہ ہم لِسانی، نسلی اور علاقائی تعصبات سے بلند ہو کر زندگی کے ’’بڑے مقاصد‘‘ حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر سکیں۔ایک قوم کی حیثیت سے ہم میں وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جن سے ترقی اور آگے بڑھنے کی منزل سر ہوتی ہے لیکن ’’یک جہتی‘‘ نہ ہونے کے سبب ہم آزادی کے بعد سے اب تک انتشار کا شکار ہیں۔ ہم نے علاقائی زاویۂ نظر سے تو مسائل پر غور کیا ہے لیکن اس بنیادی سوال پر غور نہیں کیا کہ یہ ملک جسے ہم نے طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعدحاصل کیا تھا، کیوں اب تک یک جہتی کے رشتے میں پیوست ہو کر ، ترقی کی راہ پر نہیں چل سکا ہے۔ آخر اب تک ہم سیاسی ،معاشرتی و تہذیبی اداروں کو مستحکم و مضبوط بنانے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، آخر ہم اب تک ایسا ’’نظام‘‘ کیوں وضع نہیں کر سکے جو عدل و انصاف پر قائم ہو، جس میں عوام و خواص سب برابر کے شریک ہوں، جہاں قانون کی حاکمیت سب کے لیے یکساں ہو، جہاں اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقع سب کو میسر ہوں، جہاں ایک مختصر سا طبقہ ساری آبادی اور عوام کا استحصال نہ کر رہا ہو، جہاں قدرت کی دی ہوئی نعمتوں سے سب یکساں طور پر مستفیض ہو رہے ہوں، جہاں نا انصافیاں ظلم و جبر کو پروان نہ چڑھا رہی ہوں ، جہاں یکساں تعلیم کے مواقع سب کو میسر ہوں، جہاں نظام تعلیم قومی تقاضوں کے مطابق وضع کیا گیا ہو۔ یہ وہ صورت ِحال ہے جس سے ہم مسلسل نبرد آزما ہیں اور ہر روز جب صبح کا نیا سورج طلوع ہوتا ہے ہم انتشار کے گرداب میں اور زیادہ پھنس جاتے ہیں اور عوام احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم ’’قومی سوچ‘‘ کے ساتھ قوم کے بڑے اور بنیادی مسائل پر غور کریں اور استقلال و خلوصِ دل کے ساتھ ایسے فیصلے کریں جن سے پاکستانی قوم کو ترقی کے راستے پر آگے بڑھانے کا راستہ مل سکے۔ ان بڑے فیصلوں میں ایک فیصلہ سیاسی نظام کا ہے ، دوسرا بڑا فیصلہ یکساں نظام تعلیم کا ہے، تیسرا بڑا فیصلہ ان اقدار کا ہے جن پر ہمیں اپنی ’’فکر ‘‘ اور ’’نظام ‘‘ کی بنیاد رکھنی ہے، چوتھا بڑا فیصلہ معاشی انصاف کا ہے ، ایسا انصاف جس میں معاشرے کا ہر طبقہ پوری طرح شریک ہو، پانچواں مسئلہ قومی زبان کا ہے جس کے بارے میں ہم ہر روز نئے نئے شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان سب مسائل کو عدل و انصاف کی بنیاد پر حل نہ کر کے ہم نے فرد اور معاشرے کے لیے اذیت ناک مسائل پیدا کیے ہیں۔ مشہور فرانسیسی مستشرق گار ساں دتاسی نے لکھا ہے کہ:
’’قوموں میں کوئی چیز اس قدر اختلاف پیدا نہیں کرتی جتنا یہ کہ ان کی زبانیں مختلف ہوں اور کوئی چیز اتنا اتحاد و یگانگت پیدا نہیں کرتی جتنی کہ ایک مشترک زبان ۔ یہ حقیقت اس قدر عیاں ہے کہ اس کے لیے کسی مثال کی ضرورت نہیں‘‘
اگر گار ساں دتاسی کی اس بات کو ہم پاکستان کے تعلق سے دیکھیں تو اس کی معنویت ہمارے سامنے واضح ہو جائے گی۔ ہمیں یاد ہوگا کہ جب ہم نے اپنے ملک کی دو قومی زبانیں بنالیں تو چند ہی سال میں دو خود مختار ملک وجود میں آگئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اس بات سے ہمیں سبق لینا چاہیے تھا جو شاید ہم نے نہیں لیا۔ ہماری قومی زبان ہمارے وفاق کی علامت ہے، ہماری قومی شناخت ہے، قومی سطح پر ہماری ضرورت ہے، اس کے بغیر یا انگریزی کے ذریعے ہم عوام تک نہیں پہنچ سکتے لیکن انگریزی زبان کی خیالی افادیت نے ہمیں اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ ہم اسی کو اپنے لیے راہِ نجات سمجھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے آج تک تھکا دینے والے مسائل اور انتشار کا شکار ہیں۔ انگریزی زبان پڑھنا، سیکھنا اور اس پر عبور حاصل کرنا ایک بات ہے اور اُسے زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانا ایک بالکل مختلف بات ہے۔
انگریزی پڑھنے اور سیکھنے کی کوئی ذی جوش انسان مخالفت نہیں کرتا لیکن جس طرح ہم انگریزی کو اوڑھے ہوئے ہیں، جس طرح ہم آج تک اس کے چنگل میں گرفتار ہیں اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اب تک نکلا ہے اور جس نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کمزور اور دونیم کر دیا ہے اور ہم نہ اِدھر کے رہے ہیں اور نہ اُدھر کے اور ایک تیسرے درجے کی بے مقصد و بے منزل قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکی فلسفی پروفیسر نور تھروپ نے ایشیا کی ایسی ہی قوموں کا مطالعہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
’’مغربی دنیا سے طرزِ زندگی (جس میں کلچر، نظامِ فکر اور زبان سب شامل ہیں) درآمد کرنے کا مسئلہ ایک خطرے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس سے خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ایشیا والے خود اپنے کلچر سے منقطع ہو گئے ہیں۔ نہ تو وہ وہ رہے ہیں جو اصل میں وہ تھے اور نہ مغرب کی سا ئنسی ، فلسفیانہ ، مذہبی اور تہذیبی بنیادوں پر مضبوطی سے اپنے قدم جما سکے جو مغرب کے آلات، اشیاء اور خیالات کو پورے طور پر سمجھنے اور برتنے کے لیے ضروری تھا۔ وہ مشرق و مغرب کے درمیان معلق ہو کر رہ گئے ہیں اور ہر اعتبار سے سطحی ہو گئے ہیں۔ اتنے سطحی کہ وہ پھر بھی نہیں رہے‘‘
اسی صورت حال سے ہم دوچار ہیں۔ آپ ایک فرد کی حیثیت سے یہ سوال خود سے پوچھیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ ۴۳ سال سے ہمارے ہاں کوئی غزالیؔ، کوئی شاہ ولی اللہ ، کوئی سرسید، کو ئی قائد اعظم، کوئی اقبالؔ، کوئی حالیؔ کیوں پیدا نہیں ہوا۔ تعلیم کی شرح ہمارے ہاں کیوں نہیں بڑھی، ہم بڑے سائنس دان، مفکّر، مُدبّر، منتظم، قانون دان، دانشور کیوں پیدا نہیں کر سکے اور خود اس کا جواب تلاش کیجیے تاکہ اسی تلاش سے وہ سوچ پیدا ہو سکے جس سے قومیں بیدا ر ہو کر ہفت خواں سر کرتی ہیں اور خود کو دریافت کرکے اپنی منزل متعین کرتی ہیں۔ جب تک ہم خود کو دریافت نہیں کریں گے ، جب تک ہم دو سو سال کی غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کریں گے، جب تک ہم خود اپنی ذات پر اعتماد کرنا نہیں سیکھیں گے، جب تک اپنی ذات سے بلند نہیں ہونا سیکھیں گے، جب تک علاقوں کو پورے ملک اور فرد کومعاشرے کا حصہ نہیں سمجھیں گے، جب تک ہم قومی سوچ کو پروان نہیں چڑھائیں گے ، جب تک عدل و انصاف کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر نہیں کریں گے، جب تک عوام کو اقتدار و اختیار میں پوری طرح شامل نہیں کریں گے ، جب تک سب کے لیے مواقع اور یکساں معاشی و سماجی انصاف فراہم نہیں کریں گے، جب تک اپنے قول و فعل کے تضاد کو دور نہیں کریں گے ہم ایک دوسرے سے اسی طرح دست و گریباں رہیں گے اور ہماری بیداری، ہمارے شعور، ہماری حقیقی ترقی اور قومی یک جہتی کی منزل دُور سے دُور تر ہوتی چلی جائے گی۔ دریا خشک اور ریت کے ٹیلے بڑھتے جائیں گے۔ ہمیں آزاد ہوئے اب نصف صدی ہونے کو آر ہی ہے۔ آخر ہم بحیثیت قوم ان مسائل کو کب تک ٹالتے رہیں گے؟ یہی وہ سوال ہے جو آج تاریخِ وقت ہم سے پوچھ رہی ہے۔

٭٭٭٭