آفتاب حسن
مقتدرہ… مقاصد اور منصوبے


ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم کا انتقال مقتدرہ قومی زبان کے لیے اس لحاظ سے ایک سانحہ ہے کہ وہ محض رسمی صدر نشین نہ تھے بلکہ گزشتہ آٹھ نو سال سے وہ قومی زبان کی تحریک کے رہنما تھے۔ اس ادارے کے نقشے میں انہوں نے قومی اور دفتری زبان کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق اپنے افکار و تجربات سے رنگ بھرے تھے اور اس کے امتیازات کو نمایاں کیا تھا۔مقتدرہ کے پیش نظر تمام کاموں، علمی منصوبوں اور ان کے لیے لائحہ عمل بنانے میں ان کا دست رہنما ہمیشہ کار فرما رہا تھا۔ ان کی علمی، تاریخی ، سیاسی اور قومی شخصیت نے اس ادارے کو سرکاری سطح سے بلند کر دیا تھا۔ اس لیے مقتدرہ کے کارکنان جس طرح ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں وہ محرومی اور غم کے احساس سے مختلف ہے جو ان کی وفات پر ملک کے گوشوں اور مختلف طبقوں میں پیدا ہوا۔
جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ ہم اپنے اس خیال کا پھر اعادہ کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے قومی زبان کی حیثیت سے اُردو کی ترقی اور قومی زندگی کے تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں اس کے عمل و نفاذ کا ایک عظیم الشان نصب العین ہے اور اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے کئی دشوار گزار مرحلے ہیں اور مقتدرہ، اس کے کارکنان یا کوئی بھی ایک ادارہ اور جماعت ان مشکل مرحلوں سے گزر کر کامیابی اور کامرانی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اُسے قومی سطح پر تمام طبقوں، جماعتوں اور افراد کا تعاون حاصل نہ ہو۔ خاص طور پر ابلاغ عامہ کا تعاون حاصل ہونا بہت ضروری ہے۔
قومی زبان کی ترویج اور نفاذ کامسئلہ
اس مسئلے پر جب بھی کوئی نظر ڈالے گا تو اس کے دو پہلونمایاں طور پر اس کے سامنے آئیں گے۔
ایک پہلو یہ ہے کہ قومی زبان کے نفاذ اور رواج کی راہ کی وہ تمام رکاوٹیں دور کر دی جائیں خواہ وہ واقعی ہوں یا غیر واقعی۔ تاکہ وہ حضرات جو یا تو ہر سطح پر قوم کے تشخص میں قومی زبان کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں یا کسی شخصی یا گروہی مفاد کی بنا ء پر اس کے نفاذ کے مخالف ہیں، خاموش ہو جائیں اور ان کے لیے فرارکی تمام راہیں بند ہو جائیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک کے عوام او ر قوم کے تمام طبقات میں قومی زبان کی اہمیت کا شعور اور ایک ایسی تحریک پیدا کر دی جائے کہ حکمران جماعت کا کوئی بڑے سے بڑا افسر اور کوئی طبقہ خواہ وہ کتنا ہی مؤثر اور فعال ہو، اس کے لیے قومی زبان کے استعمال و اختیار کے سوا کوئی چارہ کار اور راہ فرار باقی نہ رہے۔
قومی زبان کے نفاذ کے مسئلے کے یہ دو پہلو ہیں یا دو محاذ ہیں جن کی ضرورتیں اور تقاضے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اس لیے کوئی ایک جماعت یا کوئی واحد ادارہ دونوں محاذوں میں بیک وقت جنگ نہیں لڑ سکتا۔ اس کے لیے ایک پالیسی کے وضع کرنے اور طریقہ کار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ اسی صورت میں لڑی جا سکتی ہے کہ تقسیم کار کے اصول کے مطابق کام تقسیم کر لیے جائیں ، قوتوں اور صلاحیتوں کو دومحاذوں پر حالات و وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق بانٹ دیا جائے اور ایک دوسرے کا معاون اور دست و بازو بن کر اس جنگ کے لڑنے اور جیتنے کی کوشش کی جائے۔
ان دونوں محاذوں کی ایک قدرتی تقسیم ہے اور وہ خود بخود عمل میں آچکی ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کے سامنے پہلے محاذ کی ذمہ داریاں ہیں۔اس کے قیام کے مقاصد کا تعلق بھی ان ہی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کا ہے۔
مسائل اور وسائل
یہ بات مقتدرہ کے مقاصد سے تعلق رکھتی ہے کہ قومی زبان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے تمام ضروری وسائل اختیار کیے جائیں اور زندگی کے تمام گوشوں میں تعلیمی، کاروباری ، دفتری زبان کی حیثیت سے اُردو کے نفاذ کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کر دیا جائے۔
ٹائپ کاری
اُردو کے عام رواج اور استعمال میں جو رکاوٹیں بیان کی جاتی ہیں ان میں ٹائپ رائٹر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ مقتدرہ کی کوشش سے ٹائپ رائٹر اور اردو ٹیلی پرنٹر کا کلیدی تختہ بھی منظور ہوگیا ہے اور اب یہ دونوں تیاری کے مراحل میں ہیں۔ آپ حضرات خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں مشینوںکے رواج سے قومی زبان کے عمل و نفاذ کی تحریک کتنی تیز ہو جائے گی اور قومی تعمیر، ترقی اور تشخص میں اس سے کتنی مدد ملے گی۔
تربیتی ادارے
مقتدرہ کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ٹائپ کاری کے تربیتی اداروں کے قیام کی ضرورت بھی پیش آئے گی لیکن اس سلسلے میں عملی اقدام اس وقت کیا جا سکے گا جب ٹائپ رائٹر بن کر آ جائے کا لیکن اردو میں مختصر نویسی کے ایک تربیت مرکز کے قیام کا فیصلہ مقتدرہ نے کر لیا ہے تاکہ زندگی کے مختلف گوشوں میں کام کو تیز رفتاری سے انجام دینے کے لیے مختصر نویسوں کی ضرورت پوری ہو سکے۔
اُردو ہندسے
قومی زبان کا ایک اہم مسئلہ قومی زبان کے ہندسوں کا استعمال ہے۔ حقیقتاً یہ کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن افسوس کہ بعض حضرات نے اسے پیدا کر دیا۔ یہ حضرات انگریزی ہندسوں کو عربی ہندسے بتا کر نصابی کتابوں اور ٹیلی ویژن میں استعمال کرتے ہیں ۔حالانکہ حقائق اس سے مختلف اور تاریخ کا فیصلہ ان کے دعوے کے خلاف ہے۔
بالفرض انگریزی ہندسے واقعی عربی ہندسے ہوں، تب بھی ہمیں اپنی قومی زبان کی تاریخ اور روایت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ہمارے لیے کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے کہ ہم اپنی قومی زبان میں ہندسوں کی تاریخ و روایت اور ان کی شکلوں کو چھوڑ کر غیروں کی زبان کو اختیار کریں۔ قومی زبان کی روایت کے خلاف ہونے کے علاوہ انگریزی ہندسوں کا استعمال خود ہمارے قومی وقار اور تشخص کے منافی ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا فیصلہ قومی زبان کی علمی تاریخ اور روایت کی روشنی میں ہوا ور قومی وقار و تشخص کے خلاف یہ تحریک ختم ہو جائے ہم اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
مختلف ادارے
مقتدرہ قومی زبان نے اپنی کوششوں کے جو ہدف بنائے ہیں یا مختلف میدان تجویز کیے ہیں ان میں ایسے اداروں سے بھی براہ راست رابطہ پیدا کرنا ہے جن کا تعلق راست عوام سے ہے اور اگر ان کے اربابِ اختیار توجہ کریں تو اُردو کے نفاذ کا عمل بہت جلد پورا ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں مقتدرہ کے سامنے انکم ٹیکس، کسٹم، ریلوے، ڈاک خانہ، اے جی پی آر، بینک، بیمہ کے اوردوسرے ادارے ہیں۔ ان اداروں میں جتنی جلد قومی زبان میں کام شروع کر دیا جائے عوام کے لیے سہولتیں پیدا ہو جائیں گی اور کاروبار زندگی زیادہ آسانی ، تیز رفتاری اور عمدگی کے ساتھ انجام پانے لگے گا۔
مقابلے کے امتحانات
ہمارے ملک کے ذہن طبقے پر ایک اور عمل کا بہت خراب اثر پڑ رہا ہے  اور وہ ہیں مقابلے کے امتحان ، چونکہ یہ بات سب کو معلوم ہے مقابلے کا امتحان انگریزی میں ہوگا اس لیے شروع ہی سے نہ صرف طالبِ علم کی توجہ بلکہ اس کے بزرگوں اور سرپرستوں کی توجہ بھی قومی زبان کی تحصیل کے بجائے انگریزی میں نظر و عبور پر ہوتی ہے ۔ چونکہ ایسے طالب علم قومی زبان میں وہ نظر وبصیرت پیدا نہیں کر پاتے جو کام کو قومی زبان میں کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے اور آئندہ چل کر وہ خود قومی زبان کے نفاذ کی راہ میں ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
مقتدرہ قومی زبان نے جس چیز کو اپنی کوششوں کا بدف بنایا ہے وہ یہ ہے کہ مقابلے کے امتحان قومی زبان میں ہوں۔ اس کے پیش نظر اس عمل کے دومرحلے ہیں۔
پہلا مرحلہ یہ ہے کہ قومی زبان کو ذریعہ امتحان کی متبادل زبان کی حیثیت سے فوراً اختیار کر لیاجائے۔
دوسرے مرحلے میں انگریزی زبان کی جگہ صرف قومی زبان کو دے دی جائے۔
لیکن یہ مطالبہ ہمیں اسی طرح ان الفاظ میں نہیں کر دینا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے اور مختلف حیثیتوں سے اس کے اثرات کا جائزہ لے کر ایک نظام مرتب کر دیاجائے تاکہ جب ہم یہ مطالبہ کریں تو اس کے ہر پہلو کی خوبی اور خامی پر ہماری نظر ہو اور ہم ہر اعتراض اور نکتہ چینی کا جواب بھی دے سکیں۔ مقتدرہ قومی زبان نے اس مسئلے پر غور کرنے، اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ اور اپنی تجاویز کو پیش کرنے کے لیے اربابِ علم ونظر کی ایک مجلس ترتیب دے دی ہے۔
ذریعۂ تعلیم
ایک اہم مسئلہ ذریعۂ تعلیم کا ہے۔ اگرچہ قومی زبان کی اہمیت نے تعلیم و تدریس کی مختلف سطحوں پر اپنی اہمیت اور افادیت کو منوالیا ہے اور بعض مضامین کے اساتذہ کرام نے قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اختیار بھی کر لیا ہے لیکن فیصلے کے مطابق ابھی تک صرف پہلی جماعت میں ذریعہ ٔ تعلیم قومی زبان ہے۔
قومی زندگی کے اس مرحلے میں کہ قومی زبان کے فیصلے کو ایک مدت گزر چکی ہے، دفتری زبان کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے لیکن حکومت کے کاروبار کو چلانے کے لیے افراد کی تیاری کا کام جس رفتار سے ہو رہا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیجیے کہ ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے پرا ئمری درجات میں قومی زبان کے نفاذ کے لیے بھی ابھی چار سال کی مدت درکار ہے، حالانکہ نہ تو اب یہ مسئلہ زیر بحث ہے اور نہ اس کے لیے کسی طویل مدت تک انتظار کی ضرورت ہے۔ مقتدرہ کے خیال میں حکومت کا ایک جرأت مندانہ فیصلہ راستے کی تمام مشکلات کو دور کر دینے کے لیے کافی ہوگا۔ مقتدرہ چاہتا ہے کہ جہاں جہاں اردو ذریعہ تعلیم یا متبادل نہیں ہے وہاں انگریزی کی جگہ اردو کو فوراً نافذ کر دیا جائے۔
مقتدرہ قومی زبان جن محاذوں پر کام کر رہا ہے اور جو کام اس وقت اس کے پیش نظر ہیں یہ ان کی مختصر رُوداد ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ اربابِ صحافت اور اہل قلم مقتدرہ کے کاموں کو بہتر سے بہتر طور پر انجام دینے میں ہماری مدد فرمائیں گے اور قومی زبان کی ترویج و نفاذ اور ترقی کی تحریک کو بھی مختلف قومی سطحوں پر متعارف کرانے اور کامیاب بنانے میں مقتدرہ کے ساتھ تعاون فرمائیں گے۔٭٭٭
پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دینے کے بعد اس کی دفتری حیثیت کو متعین کرنا ضروری ہے۔ سرکاری زبان کے طور پر اب تک انگریزی رائج ہے۔ اس سے پہلے فارسی زبان کا دور دورہ تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد اور اسلام کی ترویج کے بعد سماجی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سرکاری اور درباری زبان کے طور پر فارسی زبان کا چلن تھا۔ عربی کی مسلمہ دینی حیثیت کی بنا پر اس کی برتری مذہبی امور میں قائم تھی، لیکن اس زمانے تک عالم اسلام کی تہذیبی زبان کے طور پر فارسی نے اپنا سکہ جما لیا تھا۔ برصغیر میں جس آبادی نے سیاسی اقتدار حاصل کیا تھا وہ ایران اور ماوراء النہر سے آئی تھی، ایسے ہی فارسی کو تہذیبی تفوق حاصل ہوا۔ اس برتری نے آئندہ کئی صدیوں تک فارسی کی حیثیت کو مستحکم کر دیا۔ سلطانی دور کے بعد مغلیہ عہد میں بھی یہی روش قائم رہی۔ برطانوی اقتدار کے بعد فارسی کی جگہ انگریزی نے لینی شروع کر دی۔ ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے بعد یہ اور بھی ناگزیر ہو گیا۔ اول مستشرقین اور انگریزی نوازوں کے درمیان کھینچ تان رہی اور لارڈ میکالے کے ساتھیوں کی کامیابی کے بعد تو انگریزی کو تعلیمی اور دفتری زبان کے طور پر کلی طو رپر اختیار کر لیا گیا۔ نچلی سطح پر اول اردو استعمال میں آئی ، لیکن اعلیٰ سطحوں پر انگریزی کا چلن رہا۔ بیسویں صدی میں انگریزی کی برتری پوری طرح قائم ہو گئی اور انتظامی امور میں بھی انگریزی ہی کام آئی۔
برطانوی دور میں ہمارا نظام تعلیم ابتداء میں مستشرقین اور انگریزی پرست گروہوں کی کش مکش کا شکار رہا۔ مستشرقین کی اولین مساعی میں مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کو نمایاں حیثیت حاصل تھی ، خاص طور پر اس میں اردو کو اہم مقام میسر تھا، چنانچہ ۱۸۴۹ء کے بعد حدود پنجاب کے ابتدائی مدارس میں اردو ہی کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کیا گیا۔ اعلیٰ سطحوں پر البتہ انگریزی کا غلبہ رہا۔ دفتری امور میں ابتداً اردو کو عدالتوں،  پولیس اور دیگر محکموں میں نچلی سطح پر استعمال میں لایا گیا، لیکن اوپر کے درجوں میں انگریزی ہی حاکموں کے کام آئی۔ مقامی باشندوں کو جب اعلیٰ مناصب پر فائز کیا جانے لگا تو اس وقت نظام تعلیم میں انگریزی کی اہمیت بڑھ چکی تھی، اس لیے ان کے لیے بھی حصول مناصب کی اہم شرط انگریزی زبان ہی قرار پائی۔ جب مستشرقین تعلیمی میدان میں شکست کھا گئے تو دفتری امور میں بھی انگریزی اعلیٰ و ادنیٰ دونوں درجوں میں اپنا قدم جمانے لگی۔ اس طرح اردو سمٹ سمٹا کر تعلیم کے ابتدائی درجوں تک محدود ہو گئی اور دفتری معاملات میں بھی اس نے انگریزی کے لیے بہت سے مدارج چھوڑ دیئے۔
اردو کی دفتری حیثیت پر غور کیا جائے تو اس میں دو قسم کے مسائل اہم رہے ہیں۔ اول اصطلاحات، زبان کا مجموعی سا نچا۔ ابتدائی برطانوی دور میں اردو زبان کے استعمال کے دورجحان نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اصطلاحات کے ضمن میں مغلیہ دور کے رائج الوقت نظام کی باقیات کے ساتھ اصطلاحات بھی وہی متداول رہیں جو فارسی کا سرمایہ خاص تھی یہ دفتری اصطلاحات فارسی اور عربی کا گہرا اثر لیے ہوئے ہیں اور ان کے دوش بدوش عربی فارسی الفاظ بھی اصطلاحی معنی اختیار کر چکے تھے۔ خود فارسی کی دفتری اصلاحات میں مقامی الفاظ کا حصہ قابل شناخت ہے لیکن مسلسل استعمال نے اصطلاحات کی غرابت کو ختم کر دیا تھا، قانونی اور دفتری اصطلاحات بول چال کی زبان کی سان پر چڑھ کر ہموار ہوگئی تھیں، اسی لیے ازالہ حیثیت عرفی ، حق شفع، انشائ، قبض الوصول، ہنڈی، واجب الادا، ڈاک چوکی ، چوکیدار، تھانہ، جیسے الفاظ آج بھی ہمارے لیے کسی اجنبیت کا احساس نہیں رکھتے اور برطانوی دور میں دفتری نظام کے ابتدائی درجوں میں جاری و ساری تھے لیکن انگریزی کی گرفت جیسے جیسے بڑھتی گئی انگریزی اصطلاحات بھی زیادہ ہوتی گئیں۔ آج اصطلاحات میں انگریزی الفاظ و تراکیب کی فراوانی بعض نئے نئے مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ اردو کو دفتری زبان کے طو رپر رائج کرنے میں دو قسم کے نقطۂ نظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایک خالص اردو کے حامیوں کا طبقہ ہے جو اصطلاحات میں انگریزی کی کسی قسم کی دخل اندازی کو بھی قومی غیرت کے لیے چیلنج سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک وضع اصطلاحات کے عمل میں بھی عربی اور فارسی کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور انگریزی کے بدیسی الفاظ کو خارج کر کے متبادل اور مروج انگریزی اصطلاحات کی جگہ عربی فارسی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ان کی رائے میں اصطلاحات تو مشکل ہوتی ہیں۔ اس لیے عربی فارسی کی ثقیل تراکیب جب اصطلاح کے طو ر پر آئیں گی تو اول ان کا مشکل اور اجنبی ہونا ضروری ہے۔ اصولی طو رپر یہ کچھ غلط بھی نہیں، لیکن اصطلاحات سازی کا عمل ایک سماجی عمل بھی ہے۔ اس لیے دوسرا گروہ اسے انتہا پسندانہ روش قرار دے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ مروج اصطلاح کو ردّ کر کے غیر مروج اصطلاح کی سفارش کے بارے میں دورائیں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ دوسرے طبقے کی رائے یہ ہے کہ عربی فارسی سے اگر اردو کے لیے استفادہ ممکن ہے تو انگریزی کے وہ الفاظ خارج کیوں کیے جائیں جو اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ اردو اپنے مزاج اور سانچے کے اعتبار سے دوسری زبانوں سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔
عربی فارسی کے ساتھ انگریزی کا اثر بھی اس پر ہوا۔ ان حالات میں قابل عمل صورت شاید یہی ہو گی کہ وہ قدیم عربی فارسی کی اصطلاحیں تو من و عن قبول کر لی جائیں جو برصغیر میں مدتوں سے رائج چلی آئی ہیں یا رائج رہ چکی ہیں (اس کے لیے مغلیہ نظام حکومت کا مطالعہ مفید ہو گا۔ نفائس الفنون کے علاوہ الخوارزمی اور تھانوی کی کتابیں بھی مفید ہو سکتی ہیں) ساتھ ہی ان انگریزی اصطلاحات کو بھی جو مروج ہیں اور جنہیں عام طو رپر بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ علیٰ حالہٖ رہنے دیا جائے۔ باقی رہانئی اصطلاحات وضع کرنے کا معاملہ۔ اس میں بھی متوازن راستہ قابل قبول ہو گا اور اس کے لیے اردو زبان کے مزاج کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ پاکستان حیدرآباد دکن نہیں، یہاں کی سماجی زندگی اپنے خط و خال کے لحاظ سے جنوب سے مختلف ہے۔ اس لیے اصطلاحات سازی میں عربی فارسی کا انتہا پسندانہ استعمال وہ نتائج پیدا نہ کر سکے گا جس کی ہمیں تلاش و جستجو یا توقع ہے۔ حیدرآباد دکن میں اردو دفتری زبان کے طور پر مدتوں رائج رہی۔ اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال اکثر اصحاب کو آتا ہے۔ استفادہ اچھی چیز ہے، لیکن اخذ و استفادہ میں زمانی عناصر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں ’’رجسٹرار‘‘ کی جگہ ’’مسجل‘‘ نہیں چلے گا۔ یہاں انگریزی کا اثر دکن کے مقابلے میں زیادہ گہرا رہا ہے۔ اسی طرح عربی اور فارسی کے فاصلے بھی یہاں پر جنوب کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ اس لیے وہ مشکل الفاظ و تراکیب تو زبانوں پر جلد چڑھ جائیں جن کا استعمال ابتدائی مراحل میں رہ چکا ہے لیکن ان تراکیب کی مغائرت کو معاشرتی زندگی دور نہ کر پائے گی جو مروجہ تراکیب و الفاظ کو ملک بدر کرنے کی مہم کا حصہ ہوں۔ افراد کو ملک بدر کرنا آسان ہے، الفاظ و تراکیب کو خارج کرنا مشکل ہے اس سے جو کش مکش جنم لیتی ہے اس کے نتائج و عواقب کا احساس پوری طرح ہمارے ’’خالص اردو‘‘ کے حامیوں کو نہیں ہے۔ اردو کو انگریزی اثرات سے پاک کرنے کا فعل اخلاقی اور حب الوطنی کے لحاظ سے مستحسن ہی سہی۔ لسانی لحاظ سے انتہا پسندانہ ہی قرار پائے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اصطلاحات میں اس ذہنیت سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لیے متوازن روش اختیار کرنا پڑے گی، جس میں ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔ بقول علامہ اقبالؒ سماجی زندگی میں نئے عناصر کا ادخال آہستہ روی اور میانہ روی ہی سے ممکن ہے۔ سماجی ڈھانچے پر یک لخت حد تک زیادہ بوجھ ڈال دیا جائے تو وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹوٹنے کا عمل سماجی لحاظ سے بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ایران میں فارسی شدہ (خالص فارسی) کی کوششیں ناکام رہیں کہ وہاں سماجی ڈھانچے پر بے انتہا زور ڈالا گیا۔ آخر یہ بھی کیا ضروری ہے کہ آپ ہر اصطلاح کا لفظی ترجمہ ہی کریں۔ فارسی میں کوٹ ’’کی جگہ‘‘ ’’کُت ‘‘ چلا ہے لیکن ’’پینٹ‘‘ نہیں چل سکی، وہاں تو پتلوں کو ’’شلوار‘‘ ہی کہا گیا ہے، حالانکہ یہ اعتراض بھی وارد ہو سکتا ہے کہ شلوار کے پائنچے اور پتلون کے پائنچے مختلف ہوتے ہیں، آپ پانئچے دیکھتے  رہیے دنیا اس دوران بہت آگے نکل جائے گی۔
دفتری زبان کا دوسرا اہم پہلو زبان کا مزاج ہے، اردو زبان اب تک زیادہ تر ادبی طور پر برتی گئی ہے۔ اس لیے اس کا عمومی مزاج ادبی ہے۔ اس میں شعر و شاعری کا زیادہ زور ہے۔ اس لیے یہ ادبی زبان اپنے لب و لہجے اور عام چلن کے اعتبار سے جذباتی اور شاعرانہ رہی ہے۔ دوسری زبانوں پر غور کیجیے تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ زبان کا رنگ و روغن اس کے محل استعمال سے متعین ہوتا ہے۔ ادبی زبا ن کاروباری زبان و علمی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ سماجی علوم میں استعمال ہونے والی انگریزی کا اسلوب ادبی انگریزی سے مختلف ہے۔ سائنسی علوم میں رائج انگریزی کا لب و لہجہ ادبی انگریزی سے مختلف ہے۔ اردو زبا ن کا ماضی ادبیات کا گہوارہ رہا ہے۔ شعروادب نے ہماری زبان کا اسلوب جذباتی اور شاعرانہ کر دیا ہے، یہ اردو نہ کاروبار میں چلے گی اور نہ سائنسی علوم میں، نہ معاشرتی معاملات میں، سائنسدان کی اردو کا لب و لہجہ ادبی اردو سے مختلف ہو گا۔ سماجی علوم پر لکھنے والے کی نثر، نقاد کی نثر سے الگ ہو گی۔ بینک کار کی اردو، ادیب کی اردو سے جداگانہ ہو جائے گی۔ دکاندار کا محاورہ اور روزمرہ بھی اس کی زبان کو ادبی سطح سے ممیز کر دے گا لیکن ہم اردو ادب کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہر جگہ وہی شاعرانہ پیرایۂ اظہار اختیار کرتے ہیں جس کی ضرورت ان میدانوں میں نہیں ہے۔ ہم سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کے عادی ہیں اور یہ مسئلہ تنہا زبان کے مختلف استعمالات ہی کا نہیں ہے۔ اجارہ داریوں کا بھی ہے جو شخص جس حلقے سے تعلق رکھتا ہے وہاں تو اس کی رائے چلے گی اردو کے سائنسی اسلوب کی وضع قطع تو سائنسدان ہی متعین کرے گا، کاروباری زبان کا لب و لہجہ کاروباری حلقے بتائیں گے، دفتری زبان کا مزاج اہل دفتر کاحصہ ہے۔ ادیب کو ہر پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔ دفتری زبان کا مزاج دفتری افراد کی صواب دید سے متعین ہو سکتا ہے اور اس بارے میں زبان کے ادبی سانچوں سے کام تو لیا جا سکتا ہے لیکن انھیں پورے کا پورا اختیار نہ دیا جا سکے گا۔ دفاتر میں اردو کو رائج کرنے کے لیے ہمراہیوں کی رضامندی ضروری ہے اور وہی اپنے دائرہ کار میں زبان کے دفتر استعمال کو مشخص و متعین کر سکتے ہیں۔ اب تک دفتری اردو کے ٹلتے رہنے کے کئی اسباب ہیں، جن میں ایک سبب تو یہی ہے کہ ( ادیبوں نے ہمیشہ من مانی کی ہے) خود دفتر والوں کو ہی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ نہ وضع اصطلاحات میں، نہ مراسلوں کے ترجمے میں، نہ لسانی تشکیلات کے نظام میں، دوسرے اعلیٰ سطحوں پر ہمارے اکثر افسر طبقہ امراء سے آتے رہے ہیں، نہ لسانی تشکیلات کے نظام میں،  دوسرے اعلیٰ سطحوں پر ہمارے اکثر افسر طبقہ امراء سے آتے رہے ہیں، جن کی تربیت قومی مدرسوں اور کالجوں میں نہیں ہوئی بلکہ انگریزی سکولوں اور کنونٹیس یا بیرون ملک دانش گاہوں میں ہوئی ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد یہ ہماری بد نصیبی رہی ہے کہ نظام تعلیم دو لخت رہا۔ ایک طرف تو دینی مدارس کا نظام ہے، جس کا جدید علوم اور جدید مسائل سے علاقہ نہیں، دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ جس کا اپنے ماضی سے کوئی رشتہ نہیں۔ یہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ لوگ جو دیسی مدارس کے تربیت یا فتہ ہیں اور دوسرے وہ جو خالص انگلش میڈیم سکولوں کے ساختہ و پرداختہ ہیں۔ ان میں پہلا طبق نچلے درجوں میں اور دوسرا اوپر کے درجوں پر فائز ہے۔ دفتری نظام میں صاحب اختیار وہ نئی نسل ہے جس کا ذہنی اور جسمانی رشتہ انگریزی کے ساتھ ہے۔ ایسے میں اپنی زبان کے بارے میں احساس کمتری ناگزیر ہے نیز ہر نئے تجربے میں ایک ہچکچاہٹ کا مرحلہ بھی آتا ہے اور پھر یہ احساس ہے کہ میرا ماتحت مجھ سے زیادہ اچھی اردو جانتا ہے، حالانکہ غیر زبان میں دسترس کا وہم ہی وہم ہوتا ہے۔ آپ چاہے کسی زبان میں کتنی مہارت پیدا کر لیجئے اہل زبان کی سی قدرت بہرحال ممکن نہیں۔ بہرحال اس نئی پود کو اعتماد میں لینا ضروری ہے کیونکہ اس پہیے کے بغیر اردو کی گاڑی دفاتر میں نہیں چل سکے گی۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ موجودہ حکومت نے اردو زبان کے لیے جو اتھارٹی قائم کی ہے اس میں دفتری امور کے ماہرین کو بھی ایک بڑی تعداد میں شریک کیا ہے۔ اس سے طبقاتی مغائرت کم ہو گی اور اردو کو دفتری زبان کے طو رپر رائج کرنے میں افہام و تفہیم کے مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو سکیں گے۔
٭٭٭٭