تجمل شاہ
مقتدرہ سے ادارہ فروغ قومی زبان تک
چونتیس برس کا سفر


کسی بھی قوم کی ترقی کا راز، اس کی بہتر تعلیمی شرح میں ہے اور بہتر تعلیمی شرح کا حصول اس کی اپنی مادری اور قومی زبان ہی میں ممکن ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آپ پر یہ راز کھلے گا کہ بہتر تعلیمی شرح اور اپنی مادری قومی زبان میں تعلیم کے حصول نے نہ صرف اس قوم و ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ وہاں امن و امان اور بہتر معاشرتی اور معاشی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس قوم کی پستی اور غلامانہ ذہنیت بارے کیا کہا جائے جہاں اپنی مادری قومی زبان میں تعلیم تو کجا اظہا رخیال میں بھی شرم اور توہین محسوس کی جائے۔ اس ساری صورت حال کے ذمہ دار بحیثیت قوم ہم سب ہیں مگر اہل علم و دانش پر ایسے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بارے رائے عامہ کو ہموار کریں۔
دانش ور، استاد، محقق اور ادیب ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی نے ۱۹۷۹ء میں صدر مملکت کی درخواست پر اردو کے نفاذ اور ترویج کے لیے ایک ادارے کے قیام کا اصولی فیصلہ کیا۔ اس ادارے کا نام ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ تجویز ہوا۔ اکتوبر میں اس ادارے کی چونتیسویں سالگرہ کے حوالے سے یہ تحریر قارئین ، اہل علم و دانش اور اہل فکر کی یاد داشت کے لیے پیش خدمت ہے۔
مقتدرہ قومی زبان، اب ادارہ فروغ قومی زبان کا قیام اکتوبر ۱۹۷۹ء میں آئین پاکستان کی دفعہ ۲۵۱(۱) کے مقاصد کی بجا آوری کے لیے عمل میں لایا گیا تاکہ قومی زبا ن ’’اُردو‘‘ کی بحیثیت سرکاری زبان اس کے باقاعدہ نفاذ کے لیے حکومت کو طریق کار اور سفارشات پیش کی جا سکیں۔ ابتدا میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے کراچی میں اپنے گھر کو دفتر کے طور پراستعمال کیا، جس کا انھوں نے کرایہ وصول نہیں کیا۔ بعد ازاں ۱۹۸۳ء میں یہ ادارہ دارالخلافہ اسلام آبا دمنتقل ہو گیا۔ ادارے کے مقاصد میں اس بات کو بھی شامل کیا گیا تھا کہ مختلف علمی اور تعلیمی اداروں کے مابین طباعت و اشاعت، ترجمہ کار و تربیت اور دیگر شعبہ جات کے پروگراموں کو آگے بڑھایا جائے۔ اشتراک و تعاون کو بھی فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں کئی تعلیمی و علمی ادارے، جن میں کابینہ ڈویژن، سیکریٹریٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، وزارت تعلیم، وزارت ترقیٔ خواتین، وزارت اطلاعات و نشریات، اے جی پی آر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ادارہ تحقیقات اسلامی ، پاکستان قومی کونسل برائے آرٹس، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، اکادمی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فائونڈیشن، قومی ادارہ برائے تاریخ و ثقافت، ادارہ ثقافت پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی، پشتو اکادمی، اردوسائنس بورڈ، مختلف شہروں کی میٹروپولیٹن و میونسپل کارپوریشنیں، نیشنل ڈیٹا بیس آرگنائزیشن (نادرا)،کمپیوٹر سوسائٹی پاکستان، فاسٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر متعلقہ کاروباری اداروں سے اشتراک و تعاون کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے اور ادارے کے قیام کے مقاصد اور کارکردگی کے حوالے سے پیش رفت ہوئی۔
اس ادارے (مقتدرہ ) کے اغراض و مقاصد طے کیے گئے، جس کے تحت پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے اردو کو فروغ دینے کے ذرائع و وسائل پر غور اور اس سلسلے میں تمام ضروری انتظامات کرنا اور قومی زبان کے استعمال کو بہ تعجیل عمل میں لانے کے لیے وزیر اعظم کی خدمت میں سفارشات پیش کرنا شامل تھا۔ اس سلسلے میں متعدد اجلاسوں کی قراردادوں کے بعد مختلف ادوار میں حکومتوں کو سفارشات بھی پیش کی گئیں تاکہ اردو کو بحیثیت سرکاری زبان، نفاذ اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ ادارہ اپنی سفارشات اور ہیئت حاکمہ کی رودادیں کتابی صورت میں بھی شائع کر چکا ہے۔ نیزسرکاری، نیم سرکاری دفاتر، عدالتی اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے عملے کی دورنِ ملازمت تربیت کی غرض سے لغات اور دوسرے مواد خواندگی کی ترتیب و تدوین کے لیے انتظامات کر کے اردو کو پورے ملک میں دفتری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے عمل کو سہل بنانا بھی اس ادارے کے مقاصد میں شامل تھا، اس سلسلے میں ادارے نے درجن بھر کتابیں، جن میں دفتری اردو، سرکاری خط و کتابت، اردو ٹائپ کاری و زود نویسی، قانونی و عدالتی اردو کی اصطلاحات، مالیاتی و انتظامی تربیت وغیرہ شامل ہیں، شائع کر کے مفت تقسیم کی گئیںعلاوہ ازیں کئی اداروں کے اہل کاروں اور افسران کی اردو میں دفتری تربیت اور تعلیمی اداروں کے لیے نصاب کی تیاری کی گئی، دفتروں میں نفاذ اردو اور عملہ کی تربیت کے سلسلہ میں دفتری اردو کے جدید اسلوب کے ساتھ ساتھ پہلے قدیم اردو کے نفاذ اور اس کے نمونوں کے جائزے بھی ادارے نے تیار کرائے تاکہ ان اقدامات سے آئندہ کے لیے آسانی رہے۔
ادارے کے اغراض و مقاصد میں اردو کی تمام ترقیاتی مجالس کے کام میں ربط پیدا کرنا، وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمتوں کے کمیشنوں کے تعاون سے اردو کو مقابلے کے امتحانوں کی زبان کے طو رپر اختیار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا اور ایسی دیگر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا جو وزیراعظم قومی زبان کے فروغ سے متعلق ادارے کے سپرد کریں، شامل تھا۔
مقتدرہ اکتوبر ۲۰۱۲ء تک ایک خود مختار ادارہ تھا، صدر نشین اس کا انتظامی سربراہ اور ایک ہیئت حاکمہ (بورڈ آف گورنر) تھی جس کے ممبران میں سرکاری اور غیر سرکاری افراد شامل تھے۔  ادارے کے دو بڑے علمی و انتظامی حصے بنے، علمی حصے میں داراللغات، دارالترجمہ، دارالتصنیف، دارالاشاعت اور کتب خانہ شامل تھے۔ داراللغات اور دارالتصنیف کے تحت اب تک کئی نصابی و علمی کتابیں شائع ہو کر علمی و نصابی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں جن میں جدیداردو لغت، درسی اردو لغت، فرہنگ تلفظ، فرہنگ عامرہ، روسی اردو لغت، قرآن مجید کا عربی اردو لغت، قومی انگریزی اردو لغت، قانونی انگریزی اردو لغت، تحقیق کا فن، مغرب کے تنقیدی اصول، لائبریری سائنس، لسانیات پاکستان، سیاسیات، تعلقات عامہ، جدید طبیعی جغرافیہ، فزکس، بیالوجی، کیمسٹری(اردو ترجمے کے ساتھ) معاشرہ شناسی وغیرہ  قابل ذکر ہیںنیز پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے حوالے سے نو کتابیں جن میں مختصر تاریخ زبان و ادب۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، کشمیری، گلگت بلتستان، ہندکو، براہوئی، بلوچی وغیرہ شامل ہیں۔یہ کتابیں نصابی و علمی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں۔
ادارے کے ترقیاتی منصوبوں میں ’’سائنسی تکنیکی اور جدید عمومی مواد خواندگی کی قومی زبان (اردو) میں تیاری‘‘ کے مقاصد میں عام قارئین ، طلبہ، محققین اور اہل علم و دانش کو گراں قدر موضوعات پر بصیرت کی فراہمی شامل تھا۔ اس سلسلے میں دو درجن سے زائد بین الاقوامی منتخب کردہ کتابوں کا اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیاجن میں اسلام اور مغربی ذرائع ابلاغ،برطانوی ہندکا مستقبل، نظریہ ٔ ارتقا، مکالمات افلاطون، جنگ ہی جنگ، اصل انواع، وقت کی مختصر تاریخ، ثقافت اور سامراج، دنیا سب کے لیے ، کائنات کی تاریخ، انحطاط و زوال سلطنت روما اور جینیاتی انجینئرنگ وغیرہ بھی شامل اشاعت ہیں۔
            ’’مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات‘‘(IT )کے شعبے کے تحت مشینی ترجمہ کے لیے سافٹ ویئر کی تیاری اور کمپیوٹر سے متعلق پروگراموں کو اردو میں ڈھالنے کے کام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت خط نستعلیق، کمپیوٹر گرائمر، بصری حرف شناسی (ویژیول) ، برقیاتی تدریس ، ای میل اورانٹرنیٹ وغیرہ پر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے گئے لیکن بعد میں منصوبہ مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا اور ’’ٹرانسلیشن مشین‘‘ جیسا منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
ادارے نے عظیم کتابوں کے منصوبے کے تحت بھی دو درجن سے زائد کتابیں شائع کیں جن میں جدید علمی و تعلیمی تقاضے، طبیعیات ، دو ثقافتیں، در ادراک، معاہدہ عمرانی،  جینیاتی علمیات،عوام کی بغاوت ، منہاج جدید، زوال مغرب، توریث آدم، کلیات قانون اوربوطیقا وغیرہ نمایاں ہیں۔ ابتدا میں دفتری استعمال اور قومی زبان سے متعلق عوامی شعور و آگہی کے لیے ڈیڑھ سو کے قریب کتابچے (پمفلٹ) شائع کر کے مفت تقسیم کیے گئے۔ دفاتر، عدالتوں، تعلیمی و دیگر اداروں میں ترویج اور عوام میں قومی زبان کا شعور اجاگر کرنے کے لیے چھ سو سے زائد کتب کی تصنیف و تالیف جن میں سو کے قریب لغات (عمومی و تکنیکی) اور درسی کتب شامل ہیں۔
دارالترجمہ کی طرف سے سرکاری قواعد اور متعدد رپورٹوں سمیت دفتری دستاویزات کے کم و بیش ایک لاکھ صفحات کا اب تک اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔جس میں مجلس زبان دفتری حکومت پنجاب کی ۳۵ ہزار سے زائد اصطلاحات پر نظر ثانی اور معیار بندی کی گئی، بعد ازاں یہ لغت دفتری اصطلاحات و محاورات کے نام سے شائع ہوئی۔ کابینہ ڈویژن کے متعدد منصوبوں جن میں ’’حیات غالب کے سترہ سال‘‘ اور ’’قائداعظم البم‘‘ میں مقتدرہ کا تعاون شامل ہے۔کئی اداروں کے علاوہ وزارت قانون و انصاف کے تعاون سے کئی قوانین کے مکمل تراجم بھی شائع کیے جبکہ حکومت پاکستان کی طرف سے ہر سال مختلف شخصیات کو ملنے والے سول اعزازات کا ترجمہ بھی ادارے کی طرف سے ہو کر جاتا ہے۔بعد ازاں شعبہ نفاذ اردو کا قیام بھی عمل میں آیا جس کے تحت نفاذ اردو اور اس کی تیاری کے سلسلے میں مختلف اداروں سے رابطے کیے گئے۔ادارے کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کی تیاری بھی اس شعبے کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ادارے کے اشتراک و تعاون منصوبے کے تحت بھی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوئیں۔
اردو کے نفاذ اور ترویج کے لیے املا و رموز و اوقاف کے مسائل، اردو بحیثیت دفتری زبان، دفتری مراسلت، اردو میں خلاصہ نویسی اور روداد نویسی، اردو میں انتظامی و مالیاتی امور، اردو ٹائپ کاری، اردو رسم الخط، فنی تدوین، ترجمہ، اصطلاحات، تحقیق، پاکستانی زبانیں اور سائنسی و تکنیکی اصطلاحات، قومی زبان عصری تقاضے، کمپیوٹر کے لیے اردو ضابطہ تختی، سو کتابیں سو مہمان جیسے کئی موضوعات پر سیمینار ، تقریبات اور تربیتی ورکشاپیں منعقد کی جا چکی ہیں جبکہ کئی منصوبوں پر کرائے گئے سیمینار جن میں زبان کا مسئلہ، سائنسی علامات، ترجیحات اور ہندسے، وفاقی دفاتر میں مختصر نویس، ٹائپ کار اور ٹائپ مشینیں، قومی زبان اور خواتین میں عادات مطالعہ، عوامی نمائندے اور قومی زبان، اسلام آباد اور راولپنڈی میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کے نجی ادارے شامل ہیں۔علاوہ ازیں کئی تکنیکی اور دیگر خدمات میں اردو ٹائپ مشینوں، کمپیوٹروں کے لیے کلیدی تختہ (کی بورڈ) کی تیاری ،اردو تار مشین کے لیے کلیدی تختہ کی تیاری، ای میل اور انٹرنیٹ پر اردو کے استعمال کے لیے اردو کوڈ پلیٹ (حروف کے اندرونی سیٹ) کی تیاری ، ٹائپ مشینوں، کمپوزروں اور کمپیوٹروں کی صنعتی تیاری کے لیے اردو رسم الخط اور گراف کاری پر تکنیکی معاونت اور مشاورت فراہم کی گئی اس کے علاوہ اخبارات اور ذرائع ابلاغ کی ایجنسیوں کو تکنیکی معاونت کی فراہمی بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں کمپیوٹروں ، ای میل اور انٹرنیٹ خدمات کے استعمال کے لیے اردو ضابطہ تختی (کوڈ پلیٹ) اور کلیدی تختہ بھی تیار کیا گیا۔
ادارے کا ترجمان ’’اخبار اردو‘‘ گزشتہ ۳۴ برسوں سے مسلسل شائع ہو رہا ہے جس کے ذریعے نئی اصطلاحات وضع کرنے ، اردو کمپیوٹر کے استعمال سے متعلق اور دیگرعلمی مقالے، پاکستانی زبانوں کے مابین لسانی اور ثقافتی روابط جیسے امور سے تعلق ترویج اوراردو کی پیش رفت بارے خبریں، مضامین اور تصویری سرگرمیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ قارئین کے اصرار پر گزشتہ برس سے اس میں ادبی سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ پوری دنیا میں اردو سے متعلق علمی و تعلیمی اداروں ، تحقیقی اداروں اور لاکھوں افراد تک ڈاک اور ویب گاہ کے ذریعے پہنچ کر پاکستانی زبان اور ثقافت کی شناخت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کے اب تک کئی خاص نمبر بھی شائع ہو چکے ہیں۔راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اخبار اردو کے خاص نمبروں جن میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، اس وقت ’’سرحد‘‘ (اباسین) بشمول شمالی علاقہ جات اور کشمیر کے خصوصی نمبروں کو ادارے کی طرف سے ’’پاکستان میں اردو‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں مرتب کر کے شائع کیا گیا جن کے مرتبین میںپروفیسر فتح محمد ملک اور سید سردار احمد پیرزادہ کے علاوہ میرا نام بھی شامل ہے۔ یہ کتابیں اردو کے مؤلد کے حوالے سے اہل علم و دانش میں بحث کا ذریعہ بنیں۔
ادارے کے اب تک چھ صدرنشین رہ چکے ہیں جن میں نامور دانشور، محقق، ادیب ، شاعر، استاد اور ماہر تعلیم  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، میجر (ر) آفتاب حسن (قائمقام)، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر جمیل جالبی، افتخار عارف، پروفیسر فتح محمد ملک اور ڈاکٹر انوار احمد شامل ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۲ء سے ادارے کی خود مختار حیثیت ختم کر کے اس وقت وزارت اطلاعات و نشریات وقومی ورثہ کے ماتحت کردیا گیاہے اور ادارے کا نام (مقتدرہ) سے ادارہ فروغ قومی زبان ہو گیا ، ادارے کا سربراہ اب ڈی جی کہلاتا ہے اور سیکریٹری ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہوں گے۔ اس وقت ادارے کے ڈی جی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی اسامی خالی ہونے کی وجہ سے متعلقہ وزارت کے جائنٹ سیکریٹری مشہود احمد مرزا کے پاس ڈائریکٹرجنرل اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی اضافی ذمہ داریاں ہیں اس سے قبل محمد بلال یہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔
٭٭٭٭