غزلیات

غزل
 ہم سمجھتے ہیں کہ جو ہم نے ادا کاری کی
لوگ سمجھے ہیں چراغوں کی طرف داری کی

ہم نے بچھڑے ہوئے لوگوں پہ بہت گریہ کیا
ہم نے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی عزا داری کی

اب تو روتی ہوئی آنکھوں سے لہو پھوٹ پڑا
مفتیٔ عشق بڑی دیر میں حد جاری کی

روک لینا تو کجا ہم سے یہ پوچھا بھی نہیں
ہم نے کیوں شہر بدر ہونے کی تیاری کی

بانجھ دنیا میں کھلائے ہیں مؤدت کے گلاب
ہم نے تا عمر محبت کی شجر کاری کی

ہم سمجھتے تھے میاں عشق سہولت دے گا
اور کم بخت نے جینے میں بھی دشواری کی
 خواجہ جاوید اختر
 غزل
جب بھی دل کے ساتھ اکیلا ہوتا ہوں
گزرے وقت کو دھیان میں لا کر روتا ہوں

دھول بہت سی جم جاتی ہے خوابوں پر
اشک کی رم جھم سے ان کو دھوتا ہوں

تھک کر کبھی جو ڈھہ جاتا ہوں بستر پر
لوگ سمجھتے ہیں اب چین سے سوتا ہوں

اچھا وقت ہو یا پھر اچھا وقت نہ ہو
جب بھی میں کچھ پاتا ہوں ، کچھ کھوتاہوں

چن لیتا ہوں سارے موتی لمحوں کے
دل کے دھاگے میں ہر یاد پروتا ہوں
اشفاق عامر
غزل
صحرا کی تیز دھوپ میں کاریز لوگ ہیں
یہ خستگانِ عشق بڑے تیز لوگ ہیں

ماہ و نجوم کا ہے قبیلہ الگ کوئی
ہم سنتِ چراغ میں ضوریز لوگ ہیں
عبرت سرائے آب و ہوا میں بھی صاحبو
جو خاک ہو چکے ہیں وہ زرخیز لوگ ہیں

کچھ اہلِ عشق بھی ہیں طبیعت کے کشتنی
کچھ اہلِ حسن بھی بڑے خوں ریز لوگ ہیں

ہم تشنگانِ عشق کو وہ کیا سمجھ سکیں
جو لوگ اپنے آپ سے لبریز لوگ ہیں

تجھ کو ہمارا رقص بتاتا نہیں ہے کیا
ہم کشتگانِ ابروئے تبریز لوگ ہیں

خالد، عدیم و عالی و یوسف حسن، خزاں
ارمان کیسے ایسے دلآویز لوگ ہیں
علی ارمان
 غزل
اپنی مرضی سے کہاں اپنے قدم کھینچتے ہیں
ہم کو دنیا کی طرف رنج و الم کھینچتے ہیں

خود سے اکتائے ہوئے لوگوں کا اﷲ وارث
جانے کیا بات ہے جس کے لیے دم کھینچتے ہیں

تیرا غم آنکھ کی پتلی میں حفاظت سے رہے
بس یہی سوچ کے ہم گریے سے نم کھینچتے ہیں

کھینچتا رہتا ہے یہ ہجر ہمیں اپنی طرف
تھکنے لگتا ہے تو پھر ہجر کو ہم کھینچتے ہیں

نوکِ پاپوش پہ رکھی ہوئی دنیا سن لے
ہم نہیں جن کو ترے جاہ و حشم کھینچتے ہیں
مِیثم علی آغا
غزل
لہو دریا میں طوفاں تھا تو منظر دور تک بکھرے
اور اب ٹوٹے پڑے ہیں خواب کے گھر دور تک بکھرے

تجھے دل سے نکالا تو بہت سے قہقہوں کے ساتھ
کئی آنسو بھی نکلے اور برابر دور تک بکھرے

شکستہ پر کوئی ضدی پرندہ تھا کبھی دل میں
ترا پیاسا مگر امید کے پر دور تک بکھرے
کسی بے انت خواہش کے تسلسل میں گزشتہ شب
اندھیرے سے ملے ہم اور مل کر دور تک بکھرے

ضرورت یاد ہوتی ہے مگر رشتہ نہیں راضی
زمیں کب ختم کر پائے سمندر دور تک بکھرے
رفاقت راضی
غزل
ہاں تیری باتوں سے میرا دھیان تو بٹ جاتا ہے
دل نہیں لگتا مگر، کچھ وقت تو کٹ جاتا ہے

اِس طرح سائے سے نہ اُلفت بڑھا من بالکا
سَر پہ جب سورج چمکتا ہے تو یہ ہٹ جاتا ہے

ہم سفر، احباب سارے اور یہ درد آشنا!!
یاد رکھ رشتوں کا یہ بادل گھنا چھٹ جاتا ہے

کون سُنتا ہے کسی نادیدہ بسمل کی پکار
کون اَن دیکھی چھری سے اس طرح کٹ جاتا ہے

اپنوں سے یہ یوں بے نیازی اور پھر اتنی طویل
سائیں ایسے پیار مرتا تو نہیں گھٹ جاتا ہے
ڈاکٹر صابرہ شاہین
غزل
ہر اک چراغ سے بڑھ کر جدا چراغ بنے
یہ کیا بعید کہ کل کو ہوا چراغ بنے

یہ جنگ فیصلہ کُن موڑ پر ہے، اس سے کہو
ہوا کی صف میں چلا جائے یا چراغ بنے

جو میرے ساتھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے
اب اس کے بعد بھلا کوئی کیا چراغ بنے

یہ نور بارِ امانت تھا سو میں ڈھوتا رہا
میں بُجھ گیا تو مرے نقشِ پا چراغ بنے

ہمیں عزیز ہے خوشبو بھی اور روشنی بھی
سو چاہتے ہیں کوئی پھول کا چراغ بنے

ہم اہل حلقہ ساغر ہیں سو ہمارے لیے
جنوں امام بنے، میکدہ چراغ بنے

انھیں قبول نہیں کر سکی شریعتِ نور
اندھیرے اپنے تئیں بارہا چراغ بنے

اس ایک عشق سے میں کیا بندھا کہ میرے لیے
کبھی مدینہ کبھی کربلا چراغ بنے
احمد فرہاد
غزل
فلک پر اس زمیں کے سب نظارے تیرتے دیکھے
نظر لوٹی تو پانی میں ستارے تیرتے دیکھے

کسی بھی تیرنے والے نے اک اُس کو نہیں دیکھا
مگر اک ڈوبنے والے نے سارے تیرتے دیکھے

تُو جن کی بات کرتا ہے کہ بن میں کٹ گئے پیاسے
وہ سر تو میں نے دریا کے کنارے تیرتے دیکھے

کنارے سے سمندر بھی ہمیں ساکن نظر آیا
بھنور میں جا کے دیکھا تو کنارے تیرتے دیکھا

خدا نے چاہا تو پانی میں رستے بن گئے ضیغم
خدا نے جب دکھایا تو کنارے تیرتے دیکھے
ضیغم عدیل کاظمی
غزل
اندھیرے آخر شب رام ہو گئے تو کیا
اجالے شہر میں پھر عام ہو گئے تو کیا

کہے گئے تھے جو مطلب نکالنے کے لیے
وہ لفظ صورت دشنام ہو گئے تو کیا

کبھی کہا نہ فرشتے ہیں آسمانوں کے
جو بھولپن میں برے کام ہو گئے تو کیا

ہمارے دست ہنر سے جو نیک نام ہوئے
ہمارے ساتھ ہی بدنام ہو گئے تو کیا

ہوئے طلوع جو لمحے ضیا سحر بن کر
وہ رفتہ رفتہ اگر شام ہو گئے تو کیا
آفتاب ضیا
غزل
کیسا یہ سودا سمایا، یوں لگی کس کی لگن
رنگ ، خوشبو، روشنی سے بھر گیا میرا بدن
صبحدم جیسے چلے صحراؤں میں ٹھنڈی ہوا
کس نے دیکھا ہوگا ایسا گفتگو کرنے کا فن

وقت کی بارش کے ہاتھوں رنگ سارے دُھل گئے
جیسے اُڑ جائے کرِم خوردہ کتابوں کا متن

آنکھ جھپکی تھی یونہی کہ سارے منظر کھو گئے
عمر بھر پہنے رہا میں پھر اندھیروں کا کفن

جانے کب سے ہوں سفر میں ، ختم ہوتا ہی نہیں
دل بہلتا ہی نہیں ہے، بستیاں ہوں یا ہو بن

اُس کے بالوں کی گھنی چھاؤں تصورؔ اب کہاں
اب بھلا کیسے اُتر پائے گی برسوں کی تھکن
تسلیم احمد تصورؔ
تلاشِ حیات
بہار آئی
تو نرم و نازک
حریم شبنم کی دلکشی سے
طلسم ٹوٹا
جہانِ فصل و گلاب و صورت
کی مائیگی کا
تلاش جادہ
نوائے ثروت
مری ہی مٹی کا بوجھ
کندھوں پہ آ پڑا ہے
حیات اندر حیات باہر
کسی کا رستہ
طلوع سے لے کر غروب تک کا
عجیب مبہم سے دائروں کا
کسی کا رستہ زمانے بھر کا
میں جانتا ہوں
کہ میرے لفظوں
کہ میری پوروں کے دائروں میں
تلاش جادہ لکھی ہوئی ہے
نوائے ثروت کوئی نہیں ہے
مگر یہ لازم بہت ہے مجھ پر
کہ اپنے ثانی خمیر سے ہی
نئے زمانوں کی ابتدا تک
حیات اور حیات سکوں
ڈاکٹر راشد نسیم