ایک اور دریا

نیلم احمد بشیر

سکینہ کے کانوں میں کسی کی باتیں کرنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ آنکھیں موندے موندے اس نے حیرت سے سوچا، ’’میں مر چکی ہوں تو یہ آوازیں کیسے سنائی دے رہی ہیں۔ کیا انسان مرنے کے بعد بھی سن سکتا ہے۔ کیا پتہ یہ فرشتوں کی آوازیں ہوں۔ شاید میں جنت میں پہنچ چکی ہوں یا ممکن ہے دوزخ میں‘‘ وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ یکدم کسی نے اس کی پسلیوں میں ٹہوکا دے کر ہلا دیا۔ سکینہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
’’اوئے اے تے زِندہ اے ‘‘، ایک مردانہ آواز نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا اور یہ سوچ کر دل میں یکدم ایک خنجر سا کھب گیا کہ وہ ابھی تک زندہ تھی، مری نہیں۔ اُف اﷲ! تو کیا میں دوبارہ اس ظالم دنیا میں واپس آ چکی ہوں۔ یا اﷲ! تُو نے مجھے مرنے کیوں نہیں دیا؟ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بے ہوش ہو جانے سے پہلے کا منظر اس کی آنکھوں کے آگے فلم کی ر ِیل کی طرح چلنے لگا۔ وہ ارادے کے مطابق قدم بڑھانا چاہ رہی تھی مگر پاؤں من من کے ہو کر زمین میں گڑ کے رہ گئے تھے۔ بالکل سامنے بہنے والا نیلا نیلا، چوڑا، اچھلتا کودتا نیلم دریا منہ زور ہو رہا تھا۔ جب اس کی بپھری ہوئی موجیں بار بار پتھروں سے سر پٹختیں اور پھر آگے جا کر سفید جھاگ میں تبدیل ہو کر سکون سے بہنے لگ جاتیں تو منظر مزید خوبصورت ہو جاتا۔
’’کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے؟ جو کرنے آئی ہے کر‘‘۔ دریا غصے سے دھاڑا۔
سکینہ سہم گئی اور پل بھر کو اس سے آنکھیں پھیر کر کھڑی ہو گئی۔ مگر اب اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا؟ اسے دریا سے ہم آغوش ہونا ہی تھا کہ پیچھے جانے کو اب کیا بچا تھا۔ واپسی کی سب راہیں مسدود ہو چکی تھیں۔ ساس، نند اور اس کے اپنے شوہر سرور نے اسے بانجھ ہونے کے طعنے دے دے کر اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ اور پھر تنگ آ کر اس نے دریا کی طرف ہمدردی سے ہاتھ بڑھایا تھا۔ اسے امید تھی کہ وہ اسے مایوس نہیں کرے گا۔ آخر یہ اس کا اپنا دریا تھا، اس کے بچپن کا دوست ، اس کا بیلی، جس کے کنارے کھیل کود کر ہی تو اس نے جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھنا سیکھا تھا۔ مگر دوست نے تو اس کے ساتھ غیروں والا سلوک کر کے اسے دھتکار دیا تھا۔
’’اوئے اوئے چلو اٹھاؤ، اس کو ‘‘، اسی آواز نے کسی کو حکم دیا تو چند ہاتھوں نے اس کے جسم کو اٹھا کر الٹنا شروع کر دیا۔
’’یہ زنانی دریا میں بھلا کیا کر رہی تھی؟‘‘
’’شاید گر گئی ہو؟‘‘
’’لگتی اس پار کی ہے، ہماری طرف کی نہیں‘‘۔
وہ مختلف آوازیں سُن رہی تھی مگر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے اور اب اس کاکیا ہو گا؟ کچھ ہی دیر میں اس پر غنودگی چھا گئی۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا وہ ہسپتال میں ہے۔ ہسپتال والوں نے اس کے پیٹ سے پانی نکالا۔ اسے ہوش میں لائے تو اسے معلوم ہوا کہ اب وہ سرحد پار کے ملک میں ہے، جہاں اس کا اپنا کوئی نہیں تھا۔ وہ کسی کو جانتی تک نہیں تھی۔ اگلے دن اسے بڑے بڑے فوجی افسروں کے سامنے پیش کیا گیا، جنھوں نے اس پر تابڑ توڑ سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
’’ہاں بی بی بول، تو کون سے اور سرحد کے اس پار کیا کر رہی ہے؟ تجھے کس نے بھیجا ہے؟‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتی جی۔ میں نے تو دریا میں چھلانگ لگائی تھی۔ مجھے نہیں پتہ میں یہاں کیسے پہنچ گئی ہوں‘‘۔ وہ گھگھیانے لگی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آس پاس کھڑے ہونے والے باوردی سپاہی اس کے ساتھ کسی قسم کا لحاظ کرنے والے نہیں تھے۔ وہ تو محض اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے تھے۔
’’تجھے کچھ نہیں پتہ؟ اور بی بی تو جانتی نہیں کہ تو اس وقت ہندوستانی علاقے میں ہے۔ سچ سچ بتا دے ورنہ‘‘ ایک حوالدار نے اسے سختی سے جھنجھوڑا۔ سکینہ نے خوف سے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ اپنی کہانی سنائی، بتایا کہ گھر میں اس کی کوئی عزت نہ تھی، سو اس نے سوچا شاید زندگی سے فرار میں ہی قرار مل جائے۔ اس نے دریا کی اک موج بن جانے کی خواہش میں بس سوچے سمجھے بغیر چھلانگ لگا دی اور بس۔
مگر کوئی اس کی کہانی پر یقین کرتا نظر نہ آ رہا تھا۔
’’مجھے معاف کر دیں جی، میں واپس چلی جاتی ہوں۔ مجھے پتہ نہیں تھا۔ مجھے میرے گاؤں بھیج دیں‘‘۔
’’سر یہ تو مجھے کوئی پاکستانی جاسوس لگتی ہے‘‘۔ ایک نے اس کے سراپا پر نظر ڈالی۔
’’جاسوس!‘‘ سکینہ کو جھرجھری سی آ گئی۔
’’نہ جی نہ، میں تو سکینہ ہوں جی۔ مظفر آباد کے پرلی طرف کے چھوٹے سے گاؤں کی رہنے والی۔ میں کوئی جسوس وسوس نہیں ہوں جی‘‘۔ سکینہ نے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’کس نے بھیجا ہے تجھے؟ کسی ایجنسی نے یا کسی آتنک وادی گروپ نے؟‘‘
’’چلو چلو فی الحال اسے حوالات میں بند کردو…… مقدمہ چلے گا تو عدالت فیصلہ کرے گی کہ اس غیر قانونی طو رپر داخل ہونے والی جسوسنی کا کیا ہوگا‘‘۔
سکینہ نے واسطے دیے، خدا رسول کا نام لیا تو سپاہی کھی کھی ہنسنے لگے۔ ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’لے بھئی غلام محمد، تیری قوم ہے، تو ہی سمجھا اسے کہ زیادہ ڈرامے نہ کرے اور چپ کر کے بیٹھی رہے‘‘۔
غلام محمد کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ اٹھا اور سکینہ کے ارد گرد گھوم پھر کے چکر لگانے لگا۔ ’’سوہنی تے بڑی ہے‘‘۔ غلام محمد نے اپنے ڈنڈے سے اس کی ٹھوڑی اونچی کی اور اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔
’’غلطی ہو گئی سرکار، مجھے واپس بھیج دیں۔ وہاں میرا گھر والا میرا انتظار کر رہا ہوگا جی‘‘۔
حوالدار شیکھر نے رجسٹر بند کر دیا اور روتی کرلاتی سکینہ کو حوالات میں بند کرنے کاحکم دے کر اٹھ کھڑا ہوا۔
سرسبز جنگل کے بیچوں بیچ بہنے والا دریا دو دیسوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا۔ اس کے شفاف پانی میں نہ جانے کتنے نمکین موتی ایسے بھی ملے ہوئے تھے جو دریا کنارے رہنے والوں نے اسے ہمدرد جان کے دوسرے پار رہنے والے سجنوں کی یاد میں بہائے تھے۔ اب سکینہ بھی اپنے گھر والوں ہم وطنوں کی یاد میں دن رات روتی تھی، مگر دریا اس سے دور تھا اور حوالات کی کال کوٹھری اندھی، گونگی اور بہری۔ سکینہ دن رات یہی التجا کرتی کہ اسے اس کے گاؤں واپس جانے کی اجازت دے دی جائے مگر ان لوگوں کی بھی اپنی تکنیکی مجبوریاں تھیں۔ یہ تو سیدھا سادا دراندازی کا کیس تھا، وہ کیا کرتے۔ بارڈر پار کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اگر اس طرف سے کوئی کتا بھی غلطی سے بھٹک کر اس طرف آ نکلتا تو کئی دن تک اس کی نگرانی کی جاتی۔ چھان بین ہوتی کہ کہیں کُتے کے ذریعے دشمن کوئی جدید حساس خفیہ آلہ نہ استعمال کر رہا ہو۔
دوسری طرف والے بھی تقریباً ایسا ہی کرتے تھے۔ اس پار سے کوئی بھولا بھٹکا کتا بھی آ جاتا تو اسے جہنمی کہہ کر اپنے کلیجے ٹھنڈے کر لیتے تھے۔ صرف پرندوں پر ہی دشمن کے ایجنٹ ہونے کا شک نہ کیا جاتا تھا۔ چڑیاں، کوے ، تتلیاں آزادانہ سرحد کے اس طرف والے درختوں، پودوں سے اڑ کر اس طرف جا بیٹھتیں اور کسی کو بھی ان پہ اعتراض نہ ہوتا۔ نہ کوئی چڑیا لکشمی تھی اور نہ کوئی سعیدہ، نہ ہی وہ ہندو تھی اور نہ مسلمان، وہ تو بس چڑیا تھی اور خوش قسمت تھی کہ ویزے کے بغیر سرحد کے دونوں طرف پھدکتی پھرتی تھی۔
سکینہ حوالات کی کھڑکی سے چڑیوں کو بارڈر پار اُڑ کر جاتے دیکھتی تو حسرت سے اس کے دل میں دراڑیں پڑ جاتیں۔ اسے دریا پر غصہ آتا کہ اس نے اسے کیوں زندہ چھوڑ دیا تھا۔ وہ کیوں بچ گئی تھی۔ اب اس کی زندگی کی کسی کو کیا ضرورت تھی۔ دریا تو اس کا دکھ جانتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اس کادامن خالی تھا، گود ویران تھی، تو وہ اب جی کے کیا کرتی۔ دریا نے اسے اپنے اندر پناہ دینے کے بجائے باہر تھوک دیا تھا۔ کیسا وقت آن پڑا تھا اس پر کہ دریا بھی دوست نہ رہا تھا۔
حوالات کے تنگ و تاریک بوسیدہ کمرے میں قید گوری چٹی صحت مند جوان پاکستانی عورت چراغ کی طرح جھلملاتی تھی۔ مدتوں گھروں سے دور رہنے والے سپاہی عورت کے وجود کی خوشبو اپنے اتنے قریب پا کر خواہ مخواہ بات بے بات اونچا اونچا بولنے اور ہنسنے لگ گئے تھے۔ کبھی کبھار ان کا اسے گھورنے کے بعد کوئی ذو معنی جملہ سکینہ کے کان میں پڑتا تو وہ دل ہی دل میں ڈر جاتی۔ رال ٹپکاتے،بدصورت تھوتھنیوں والے کتوں سے اسے ہمیشہ ہی خوف آتا تھا، مگر اب کیا کرتی۔ کتے بہانے بہانے سے اس کی کال کوٹھری کے قریب آ کر بھونکنے اور چکر لگانے لگتے تھے۔
ایک روز کچھ عجیب ہوا۔ سکینہ سوتے سوتے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کوئی کمرے میں اس کے علاوہ بھی موجود تھا۔ ’’غلام محمد!تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ سکینہ نے آدمی کو رات کے بعد اپنے کمرے میں کسی وجود کو پا کر اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کی۔
’’تسلی رکھ سکینہ بی بی !اور میں تو تیرا ہمدرد ہوں۔ تیرا اپنا ہوں۔ ان سالوں کی بری نظر سے تجھے اب تک میں نے ہی بچا کر رکھا ہوا ہے۔ جھلیے تجھے کیا پتہ؟‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔ اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
’’اچھا!‘‘ سکینہ نے فوراً ہی یقین کر لیا۔ ’’شکریہ، بھائی غلام محمد! تو تو میرا اپنا ہی ہے نا…… بھائی میں یہاں سے کب چھوٹوں گی۔ مجھے چپکے سے سرحد پار کروا دو نا…… مجھے بڑا ڈر لگتا ہے‘‘۔ سکینہ دل کی بات فوراً زبان پہ لے آئی۔    
’’او ڈرنے کی کیا بات ہے، سکینہ!میرے ہوتے ہوئے تو بس فکر نہ کر……‘‘
’’اچھا بھائی! تیری مہربانی‘‘۔ سکینہ نے چادر اپنے اوپر اور کس کے لے لی اور تشکر بھری نظروں سے اپنے ہمدرد کو دیکھنے لگی۔
’’اچھا ایک بات سن ذرا…… ادر کو آنا میرے پاس‘‘۔ غلام محمد نے اپنے دونوں بازو کھول دیے۔
سکینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہاں غلام محمد نہیں بلکہ ایک بد صورت تھوتھنی والا کتا ہانپتا ہوا رال ٹپکا رہاتھا اور ہمدرد دوست کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔سکینہ جھجھک کے پیچھے ہٹی اور چیخنے کی کوشش کی، مگر غلام محمد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کر دیا۔ کتے کے مضبوط طاقتور بپھرے ہوئے وجود کے آگے اس کی اپنی ہستی بے معنی ہو گئی۔ کتے نے اپنے شکار کوبھنبھوڑا، جھنجھوڑا اور پھر ریزہ ریزہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔
باہر جنگل سرجھکائے چپ چاپ کھڑا تھا۔ دریا اپنی لہروں کو تھپک تھپک کر سلا رہا تھا۔ ستارے اپنی خمار آلود آنکھوں کو کبھی کھولتے اور کبھی جھپکتے تھے۔ سب مصروف تھے۔ کسی کے پاس فرصت نہ تھی کہ وہ سکینہ کی مدد کو آئے اور اسے کسی حملہ آور سے بچائے۔
اس واقعے کے بعد سکینہ بالکل خاموش ہو گئی۔ اس سے کوئی بات کرتا تو سفید پھیکی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگتی یا یونہی بیٹھی ناخنوں سے فرش کریدتی رہتی۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس پر در اندازی کا بہت بڑا مقدمہ بن چکا ہے۔ اب جلد چھٹکارا ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ اسے اب بڑے شہر کے کسی بڑے جیل خانہ میں بھجوا دیا گیا تھا، جہاں اسے اپنے مقدمے کے فیصلے تک ٹھہرنا تھا۔
جیل کے زنانہ حصے میں ہر دم اپنی ہی سوچوں میں گم چپ چپ رہنے والی پاکستانی عورت ہندوستانی قیدی عورتوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی جا رہی تھی۔ وہ یہاں کیوں او ر کیسے پہنچی تھی۔ ان سے کچھ مختلف بھی دِکھتی تھی۔ کبھی کبھی وہ فرش کو ناخنوں سے کریدتی اور کبھی نماز پڑھ کر زور شور سے دعائیں مانگتی نظر آتی تو عورتیں ایک دوسرے سے کھسر پھسر کرنے لگ جاتیں۔ انھیں کبھی کبھار اس پر ترس بھی آتا کیونکہ اس کی کوئی ملاقات کبھی نہ آتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہو کر اس کے قریب جانے لگیں اور اس کی اسیری کے بارے میں اسے سوال جواب کرنے لگیں۔
اس روز جیل میں درگادیوی کی پوجا کا بہت زیادہ پرشاد آیا تھا۔ ایک تھالی سکینہ کو بھی ملی تھی، جسے اس نے کلمہ پڑھ کر کھا لیا تھا کیونکہ اس میں موتی چور کے لڈو تھے جو اسے ہمیشہ اچھے لگتے تھے۔ لیکن کھاتے ہی اس کی طبیعت کچھ عجیب سی ہو گئی اور وہ باقی عورتوں کو کھاتے پیتے، مسکراتے دیکھتے، حسب معمول اپنے پیر کے ناخن سے فرش کریدنے لگی۔ یکا یک اسے لگا زمین سے ایک ہری ہری کونپل پھوٹ رہی ہے۔ بجلی کے کوندے کی طرح ایک خیال اس کے ذہن میں لپکا تو گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اوہ خدایا‘‘ اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ یہ کونپل کہیں اور سے نہیں ، اس کی اپنی کوکھ سے پھوٹ رہی تھی۔ کیا ایسا ہو سکتا تھا؟ لیکن وہ تو بانجھ تھی۔ تو کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ بانجھ نہیں تھی او ریونہی سسرال کے طعنے کھاتی رہی تھی۔ اس احساس نے اسے خوشی سے اتنا نہال کر دیا کہ وہ یہ بھی بھول گئی کہ اس کا ماں بننا کن حالات کے تحت ممکن ہوا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے قدرت کا انعام سمجھے یا سزا؟ ’’لیکن میں نے تو کبھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا، سوائے خود کشی کی کوشش کے، اور وہ بھی پوری تو نہیں ہوئی تو سزا کس بات کی؟ یہ نئی نرم، سبز، پھوٹتی کونپل سورج کی پہلی کرن کی طرح اس کے وجود میں اجالا بھر رہی تھی۔ سکینہ کو ایک دم ڈر سا لگنے لگا۔ اب کیا ہوگا؟اسی شش و پنج میں چند ہفتے اور گزر گئے۔ اس کی طبیعت بگڑنے لگی۔ ساتھی قیدی عورتوں نے اپنے اپنے اندازے لگا کر اس سے معلومات حاصل کرنا چاہیں، مگر سکینہ خاموش رہی۔ ایک دو نے اسے طنزیہ انداز میں چھیڑا اور ایک دو نے بدھائی بھی دی۔ سکینہ چپ رہی۔
جیل کے سب سے بزرگ قیدی عورت مدھومیا کو خبر ملی تو وہ سکینہ کے پاس چلی آئی اور اس سے پیار سے پوچھنے لگی کہ ماجرا کیاہے؟ مدھو میا نے سکینہ کی رام کہانی سن کر باقی سب کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور وہ سب اپنے اپنے کوارٹروں میں چلی گئیں۔ مدھومیا کی بزرگی کی عزت کی وجہ سے اس کے آگے کوئی بھی زیادہ بک بک نہیں کرتی تھی۔
’’پیٹ سے ہے ری پاکستانی؟‘‘ ایک عورت نے پاس آ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے پوچھا۔ اسے زیادہ تر عورتیں ’’پاکستان‘‘ کہہ کر بلاتی تھیں۔
سکینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چند اور بھی اس کے اردگرد جمع ہو گئیں اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
’’ارے تو کیا ہوا۔ پیٹ میں بچہ ہے اور بھولی بنتی ہے‘‘۔ ایک نے کڑوا تیز جملہ بولا تو باقی سب قہقہہ مار کر ہنسنے لگیں۔
’’چلو دفع ہو جاؤ تم سب یہاں سے!‘‘ مدھومیا نے سب کو ڈانٹ کے بھگا دیا اور سکینہ کو پچکارنے لگی۔’’تو فکر نہ کر بیٹا۔ یہ سالی حرامزادیاں تو یونہی بکواس کرتی رہتی ہیں۔ برسوں سے اس جیل میں پڑی سڑ رہی ہیں نا تو بس یونہی دل جلانے کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ تُو برا نہ ماننا، ان کا‘‘۔
’’میں خوش بھی ہوں اور پریشان بھی میا‘‘۔ سکینہ نے میا کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’تُو اگر چاہے تو…… اس کی خلاصی بھی کروائی جا سکتی ہے‘‘۔ مدھومیا نے کان پاس لا کر سرگوشی کی۔ ’’اس جیل میں سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔
’’نہیں، میا!مجھے خلاصی نہیں چاہیے۔ یہ بچہ میرے بے قصور ہونے کا ثبوت ہے۔ میری آئندہ زندگی کے ساتھ کا رشتہ ہے…… اس کے سہارے میں باقی جیون کاٹ لوں گی‘‘۔ سکینہ نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دھیمے انداز میں جواب دیا۔
’’مگربٹیا!یہ بلاد کارکا بچہ ہے…… آخر تُو دنیا والوں کو کیا جواب دے گی‘‘۔ میّا نے اسے حقیقت کااحساس دلانے کی کوشش کی۔
’’میّا یہ بچہ صرف میرا ہے، کسی اور کا نہیں۔ میں ہی اس کی ماں اور میں ہی اس کا باپ ہوں۔ حرام حلال کا مجھے نہیں پتہ۔ بس یہ میرا بچہ ہے او رکسی کا اس پر کوئی حق نہیں‘‘۔ سکینہ مضبوط لہجے میں بولتی چلی گئی۔ اسے احساس ہوا کہ زندگی میں پہلی بار وہ کسی انسان کسی رشتہ کے بارے میں اتنے اعتماد سے بات کر رہی تھی۔ اس سے پہلے تو اس کی زندگی اور اس کے معاملات کے فیصلے دوسرے ہی کرتے چلے آئے تھے۔ وہ تو بس خاموش تماشائی بن کرہی جیتی رہی تھی۔
’’میں اسے پالوں گی۔ اپنے ساتھ رکھوں گی۔ اسے مجھ سے کوئی چھین نہ سکے گا۔ اﷲ نے مجھے میری تنہائیوں کاسہارادے دیا ہے۔ یہ میرے اپنے جسم کا ٹکڑا ہے…… میں اسے کیسے ختم کر دوں؟‘‘
سکینہ کی بات چند ہی روز میں ساری جیل میں پھیل گئی۔ جیل کے اعلیٰ حکام کو بھی علم ہو چکا تھا کہ پاکستانی قیدی کی کہانی میں مزید الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔ا س کے مجرم غلام کے بارے میں اسے کچھ علم نہ تھا کہ اس کی پکڑ ہوئی یااسے چھوڑ دیا گیا۔ اس پر کیس ہوا یااس کا کیس دبا دیا گیا؟ اس کو تو سچی بات ہے پروا بھی نہیں تھی کہ اس خنزیر کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک خوشی سی اس کے لہو میں گردش کرتی رہتی تھی کہ آخر کار وہ ایک بے معنی، بے مقصد زندگی کے بجائے کار آمد ندگی گزارنے جا رہی ہے۔ وہ زندگی جو کسی کے کام آئے گی۔ اس کو مل کو سنیچ کر وہ ایک تناور درخت کی صورت میں دیکھے گی۔ ’ماں‘ کا میٹھا بول سنے گی۔ کتنا اچھا لگے گا اسے یہ سب کچھ۔ اب وہ ہر چٹان سے ٹکر لینے کی طاقت خود میں محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے لگتا تھا وہ پہلے والی بزدل، کمزور سکینہ بلکہ کوئی نئی عورت تھی۔ ولولوں او رارادوں سے بھرپور ، ہر طرح سے مکمل۔
جیل کی ملازم خواتین اب اس سے کچھ نرمی برتنے لگی تھیں۔ اس کی صحت کاخیال رکھا جانے لگا تھا اور اس سے زیادہ مشقت کے کام بھی نہ کروائے جاتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی دل جلی یہ کہہ کر طنز بھی کر جاتی تھی کہ ’’مسلی کے پیٹ سے مُسلے کاہی بیج ہے تو پھر پریشانی کیسی؟ اپنا ہی خون ہے تو مسئلہ کیاہے؟ کم از کم کسی ہندو پرش کو تو اس پاپ کا ملزم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
سکینہ کے مقدمے کا فیصلہ التوا میں پڑتا چلا جا رہاتھا۔ نو چاند ڈھلتے دیکھتے دیکھتے سکینہ کے جسم میں کتنی نئی تبدیلیاں آچکی تھیں اور بالآخر وہ مبارک دن بھی آ ہی گیا جس روز سکینہ کی سبزکونپل پھول بن کر اس کے دامن میں مہکنے کے لیے چلی آئی۔ سکینہ نے اس پھول کا نام مُبین رکھا۔ کیونکہ مبین اس کی ماں کا نام تھا اور ماں سکینہ کو بہت یاد آتی تھی۔ پتہ نہیں ماں کس حال میں تھی؟ کتنے دور ہو گئے تھے پیار بھرے رشتے اس سے، مگر اب یہ جو نیا رشتہ اس کی زندگی میں آ گیا تھا، اسے سب سے توانا، سب سے خوبصورت اور اہم محسوس ہونے لگا تھا۔
’’یہ میری ماں،بہن ، سہیلی، بیٹی سبھی کچھ ہے…… میری پیاری مبین‘‘۔ سکینہ اپنی ننھی بٹیا کو چوم چوم کر نڈھال کر دیتی تو جیل کی ساتھی عورتیں اس کی دیوانگی پر ہنسنے لگ جاتیں۔
’’اسے لے کر جائے گی تو گھر والوں سے کیا کہے گی؟‘‘ کبھی کبھار کوئی اسے حقیقت کی دنیا میں گھسیٹ لاتی تو سکینہ پل بھر کو ساکت ہو جاتی۔
’’میرا سرور بہت اچھا ہے۔ بڑا پیار ہے اسے مجھ سے۔ بس میں اس کی گود میں بچے کو ڈال کر کہوں گی۔ یہ ہمارا بچہ ہے۔ ہم دونوں کا۔ شاید وہ…… شاید اس کا دل نرم ہو جائے!‘‘
’’لو پیار کرتا تھا تو تُو اسے چھوڑ کر دریا میں کیوں کو دی تھی؟‘‘ کسی نے فقرہ چست کیا تو دوسری بھی ہنسنے لگیں۔ سکینہ خاموش ہو گئی اور سوچنے لگی، واقعی کہتی تو یہ ٹھیک ہیں۔ پتہ نہیں وہ سچ مچ مجھ سے پیار کرتا بھی تھا یا بس…… میرا وہم تھا۔
دن گزرتے گئے۔ سکینہ کاکیس لمبا اور پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اب تو مُبین پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی اور ساری جیل والیاں اس سے پیار کرنے لگی تھیں۔ کوئی اس کی ماسی تھی تو کوئی بُوا، کوئی نانی تو کوئی دادی بن چکی تھی۔ بیٹی کا خوبصورت ساتھ پا کر سکینہ کو جیل بھی گھر کی طرح لگنے لگی تھی، مگر کبھی کبھار نہ جانے کہاں سے اُڑ کر کوئی چڑیا یا کوّا جیل کی منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرنے لگتا تو سکینہ کے دل میں ہُوک سی اٹھتی۔
’’کیا خبر یہ میرے دیس سے آیا ہو؟ کوئی سندیسہ لایا ہو…… کیا خبر مجھے کوئی سرحد پار یاد کرتا ہو اور میرا انتظار کرتا ہو۔
ماں کے کبھی کبھار بھول بھٹک کے آ جانے والے خطوں سے اسے یہ تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ اس کا ابا دنیا میں نہیں رہا تھا۔ مگر امّاں نے سرور اور باقی سسرال والوں کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کس حال میں ہیں اور اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس نے جب بھی پوچھا اماں ان کا ذکر ہی گول کر گئی۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اماں نے اس کی مُبین کے جنم کی خبر سُن کر بھی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ کبھی اس کے بارے میں پوچھا تک نہیں، یوں جیسے اس کا ذکر نہ کر کے اس کے وجود ہی سے انکار کر رہی ہو۔ سکینہ کا دل کڑھتا مگر پھر وہ سوچتی۔ اماں جب مُبین کا چاند سا مکھڑا دیکھے گی تو خود ہی اس پر فریفتہ ہو جائے گی۔ مگر نہ جانے وہ مبارک دن کب آئے گا، جب مُبین اور وہ اپنے پاک وطن کو لوٹ سکیں گی۔
’’سکینہ بی بی، یہ تمہارے دیس سے آئے ہیں، برنی صاحب ، تم سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ ایک روز جیلر نے اسے اپنے آفس بلوا بھیجا تواس نے دیکھا کرسی پر ایک اُدھیڑ عمر کا شفیق چہرے والا شخص بیٹھا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’سلام صاحب جی!‘‘ اس کا ہاتھ بے اختیار ماتھے تک چلا گیا۔
اس کے ساتھ کھڑی مُبین ایک اجنبی مرد کو دیکھ کر سکینہ کے پہلو میں گھسنے کی کوشش کرنے لگی۔
’’یہ ہے تمہاری بیٹی؟‘‘ برنی صاحب نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ دیا۔
’’جی صاحب جی!سلام کر مُبین اُن کو……‘‘ سکینہ نے مُبین سے کہا۔
’’دیکھو سکینہ میں تمہارے کیس پر کام کر رہا ہوں…… مجھے تم نے ہر بات صاف صاف بتانی ہے۔ کچھ بھی چھپانا نہیں‘‘۔
’’جی صاحب جی‘‘ سکینہ نے نظریں جھکا کر بے اختیار ناخن سے فرش کو کردینا شروع کر دیا۔ شاید آزادی کی کوئی کونپل بھی پھوٹنے والی ہو، اس کے دل میں خوش رنگ غنچے سے چٹخنے لگے۔
’’صاحب جی!میں کب گھر جاؤں گی۔ پانچ سال ہو گئے ہیں‘‘۔
’’دیکھو سکینہ!یہ انسانی حقوق کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں اخبار کا جرنلسٹ ہوں، ان کے ساتھ ہی کام کرتا ہوں۔ ہم لوگ تمھیں جلد سے جلد رہائی دلوانا چاہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ تمہاری اس بچی کا ہے۔ برنی صاحب کے ساتھی نے کہا‘‘۔
’’بڑے دن ہو گئے ہیں جی صاحب جی گھر گئے ہوئے‘‘۔ سکینہ کی آواز بھرانے لگی۔
’’پانچ سال‘‘ جیلر لیڈی نے برنی صاحب سے انگلش میں کہا۔ اور پھر آگے کی گفتگو انگلش میں ہی ہونے لگی۔ سکینہ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ گفتگو اس کی بیٹی مُبین کے بارے میں ہی ہو رہی تھی۔
’’تو میڈم جی مسئلہ کیا ہے؟‘‘ سکینہ نے بھولپن سے جیلر لیڈی سے سوال کیا۔ ’’’مُبین میری بیٹی ہے، میں نے اس کو جنا ہے، یہ میرے بدن کاحصہ ہے ، کوئی غیر تو نہیں‘‘۔
’’تجھے کتنی بار سمجھا چکی ہوں کہ تیری بچی ہندوستانی شہری ہے اور تو پاکستانی۔ یہ وہاں نہیں جا سکتی اور نہ غیر قانونی طو رپر رہ سکتی ہے۔ تجھے سمجھ کیوں نہیں آتی؟‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے میڈیم جی!میں ساری عمر اسی جیل میں گزار دوں گی۔ اگر مجھے اور مُبین کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی تو میں اپنی جان دے دوں گی‘‘۔ سکینہ نے جذباتی انداز میں مُبین کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اورآنسو بہانے لگی۔
اس رات دال روٹی کھاتے ہوئے سکینہ کو بار بار ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے حلق میں نوالہ پھنس رہاہو۔ کچھ نگلا ہی نہیں جا رہا تھا، مگر وہ پھر بھی زبردستی کھانا کھاتی رہی کیونکہ اس کی تقلید میں آ کر مُبین بھی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتی تو سکینہ کو گوارا نہ ہوتا۔

            برنی صاحب کو برسوں سے التواء میں پڑے ہوئے کیس کو حل کروانے میں از حد دلچسپی پیدا ہو چکی تھی، اس لیے وہ اور انسانی حقوق کی ہم خیال تنظیمیں اب اس کہانی کو کسی انجام تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں۔ حکومتیں اپنے اپنے سچ پر ڈٹی ہوئی تھیں۔ حقیقتوں کی سنگینی کے نیزے بھالے میدان جنگ میں اتارے جا رہے تھے اور برنی صاحب انسانیت کا ٹرمپ کارڈ استعمال کر کے سکینہ اور اس کی بیٹی کو بازی جِتوانا چاہتے تھے۔
سکینہ مُبین کو یہ یاد دلاتی رہتی کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کا دھرم یہ نہیں ہے جو جیل والیوں کا ہے۔ جب سے مُبین نے پاکستان واپس جانے، اپنے خاندان سے ملنے کی باتیں سُنی تھیں، اس کا ننھا سا دل مشتاق اور حیران حیران سا رہنے لگ گیا تھا۔ وہ سوچتی کتنا سندر ہو گا آخر میری ماں کا وہ دیس جس کی یاد میں وہ تڑپتی ہے اور واپس جانے کو بے قرار ہوتی ہے۔ اسے اچھا لگتا ہے، جب وہ سوچتی کہ ایک اور جہان اس کا منتظر ہے کہ وہ آئے اور آکے اس میں سما جائے۔ اس کاحصہ بن جائے۔
مُبین جیل میں ہی بڑی ہوئی تھی۔ وہ اپنے اردگرد ہونے والی پوجا پاٹ میں تلک لگوا کر باقاعدہ حصہ لیتی۔ بھجن گاتی تو سکینہ اسے نہ روکتی۔ ایک تو اس طرح مُبین اس ماحول کاحصہ بن کر خوش رہتی تھی، دوسرے یہ کہ جیل کی دیگر قیدی عورتیں بھی اسے اپنے بچے ہی کی طرح سمجھتی تھیں۔ اگر وہ اسے ان سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتی تو مُبین کا وہاں رہنا اتنا آسان نہ رہتا اور انھیں کئی قسم کی مشکلات اور تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا۔
سکینہ اپنے طور پر ، دل ہی دل میں گاؤں کے مولوی صاحب کے سکھائے ہوئے سبق کو یاد کرنے کی کوشش کرتی رہتی تاکہ وہ بھول نہ جائے کہ وہ کون تھی، کون ہے، کہاں سے آئی تھی اور کہاں واپس لوٹ کر جانا ہے۔
ایک روز نہ جانے کیسے ایک نئے رنگ کا چمکتا سورج طلوع ہوا۔ سکینہ کو وہ خبر مل گئی جس کا اس نے برسوں انتظار کیا تھا۔ حکومتوں کی مصلحتوں نے گھٹنے ٹیک دیے اور انسانیت جیت گئی۔ سکینہ کا تو خوشی سے برا حال تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا، جیل کے آنگن میں ڈھول بجے اور وہ دل کھول کر ناچے۔
مُبین اور سکینہ نے جب جیل چھوڑی تو سب ساتھی قیدی عورتیں رو رہی تھیں۔ کوئی خوشی سے اور کوئی ان سے بچھڑنے کے غم سے۔ کوئی ماتھا چوم رہی تھی، تو کوئی سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ کوئی اپنے پاس سے کوئی چیز نشانی کے طور پر دینے کے لیے نکال لائی تھی تو کوئی اپنا پتہ ہاتھ میں تھما کر خط لکھنے کا وعدہ لے رہی تھی۔ مُبین نے تو جب سے آنکھ کھولی تھی اس جیل کو ہی اپنا گھر سمجھا تھا۔ وہی عورتیں اس کی رشتہ دار تھیں، اس لیے وہ سب کو پیار کر کے وعدے کر رہی تھی کہ وہ ان سے ملنے ضرور آئے گی، انھیں کبھی نہیں بھلائے گی۔
برنی صاحب کے دفتر سے سکینہ کے شوہر کو رابطہ کر کے بتا دیا تھا کہ سکینہ چھوٹ کے واپس آ رہی ہے مگر سکینہ کے دل میں وسوسے اٹھ رہے تھے۔ کیا پتہ سرور بدل گیا ہو؟ مجھے لینے ہی نہ آئے۔ کیا پتہ؟
واہگہ بارڈر کراس کروا کے برنی صاحب نے کچھ دیر انتظار کیا۔ حسب توقع سکینہ کا شوہر اسے لینے نہیں آیا تھا۔
’’اماں پتا جی کہاں ہیں؟ ہم کس کے ساتھ گھر جائیں گے؟‘‘ مُبین کے معصوم سوالوں کا سکینہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ یکدم دور سے نظر آنے والا ایک شناسا چہرہ قریب آتا چلا گیا تو سکینہ کے منہ سے خوشی کی چیخ نکل گئی۔ اس کا ننھا بھائی اکرم اس سے دیوانہ وار لپٹ گیا تھا۔
’’او میرے کاکے…… میرے ویر…… تو کتنا بڑا ہو گیا ہے‘‘۔ سکینہ نے بار بار اس کا سر ماتھا چوما اور یقین نہ آنے والی کیفیت سے نکلنے کے لیے بار بار سر کو جھٹکا دینے لگی۔ یہ وہی چھوٹا بھائی تھا جسے اس نے گودوں کھلایا تھا۔ اس کا گُو مُوت صاف کیا تھا، ساتھ سلایا، کھلایا پلایا تھا۔ کاکا بھی آپا کو دیکھ کر بہت خوش نظر آ رہا تھا۔
’’سلام کر مُبین!یہ تیرے ماما جی ہیں!‘‘ سکینہ نے اپنے پیچھے چھپتی مُبین کو آگے لا کھڑا کیا۔
’’سلام ماما جی!‘‘ ننھے ہاتھ ماتھے تک چلے گئے۔ کاکایوں پیچھے ہٹا جیسے اسے بجلی کا کرنٹ چھو گیا ہو۔
’’تُو اس گند کو بھی ساتھ لے آئی ہے؟‘‘ کاکاغصے سے دانت پیسنے لگا۔ ’’میں نے تو سمجھا تھا…… صاحب جی۔ یہ کیا؟ آپ نے تو خط میں یہ نہیں بتایا تھا کہ ہندوؤں کی بچی بھی ساتھ ہو گی‘‘۔ وہ برنی صاحب کی طرف شاکی نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’کاکے یہ ہندوؤں کی بچی نہیں ہے۔ یہ میری اولاد ہے، صرف میری۔ میرا خون ہے یہ، میں اسے کیسے پیچھے چھوڑ کر آ سکتی تھی؟‘‘ سکینہ نے کاکے کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ مگر کاکا ان دونوں ماں بیٹی سے منہ پھیرے کھڑا رہا، یوں جیسے وہ کوئی غلیظ، کریہہ چیزیں ہوں اور وہ انھیں دیکھنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو۔ برنی صاحب اسے ایک کونے میں لے گئے اور آدھ گھنٹے تک نہ جانے کیا سمجھاتے رہے کہ کاکا منہ بنا کر اپنی آپا کے پاس چلا آیا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کر دیا۔ واہگہ بارڈر پر آئی ہوئی خواتین کی این جی اوز کے نمائندوں نے ان دونوں ماں بیٹی کو آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈال دیے۔ پریس والوں نے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچیں اور رپورٹروں نے نوٹ بکیں سنبھال لیں۔ چند خواتین نے مُبین کو بسکٹوں، ٹافیوں اور دیگر تحائف کے ڈبے دیے تو اس کا چہرہ کِھل اٹھا، اسے اپنا نیا وطن پسند آ گیا تھا، جہاں قدم رکھتے ہی اس پر انی نوازشات کی برسات ہونے لگی تھی۔
مظفر آباد کی بس سے اُترتے ہی مُبین نے سوالات شروع کر دیے، ’’اماں گھر آ گیا!اماں ماما ہمیں کہاں لیے جا رہا ہے؟ ‘‘ سکینہ نے اس کو مختصر جواب دے کر خاموش کرنا چاہا مگر وہ بولتی ہی چلی جا رہی تھی۔ جیل کی چار دیواری سے باہر کی دنیا ایسی ہوتی ہے؟ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ سکینہ بھی برسوں بعد ملنے والی آزادی کی خوشی سے سرشار تیز تیز قدم اٹھاتے بھائی کے پیچھے چلتی جاری تھی مگر کاکا تو چپ ہی ہو گیا تھا۔ سوائے ہوں ہاں کے کسی بات کا جواب ہی نہیں دے رہا تھا۔
’’اماں میں تیری بیٹی ہوں نا؟‘‘ مُبین نے سوال کیا۔
’’ہاں میری بچی ، تُو میری جان ہے، میرے کلیجے کا ٹکڑا‘‘۔
’’مگر ماما تو کہہ رہاتھا میں ہندو کی بچی ہوں‘‘۔ مُبین نے ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ سکینہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اب وہ دریا کے قریب سے گزر رہے تھے۔ سرسبز وادی کی گود میں دریائے نیلم اسی شان و شوکت، اسی کروفر سے بہہ رہا تھا، جیسے پہلے بہتا تھا۔ یہ وہی ظالم ہے نا، جس کی گہرائیوں سے میں نے پناہ کے موتی تلاش کرنا چاہے تھے۔ مگر اس سفاک نے مجھے پناہ دینے کی بجائے کس بے رحمی سے دھتکار دیا تھا۔ سکینہ نے شکوہ بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ پھر اسے خیال آیا اگر دریا مجھ پر ظلم نہ کرتا تو مُبین کہاں سے آتی؟ میری مُبین ، میری بچی۔ اس فرحت بخش خیال کے آتے ہی سکینہ کے چہرے پہ ممتا کا نور پھیل گیا اور مُبین کے ہاتھ پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ سکینہ کی نظریں دوبارہ بہتے ہوئے دریا پر جاٹکیں۔ کنارے چلتے چلتے اسے ایسا لگا جیسے یہ وہ دریا نہیں تھا جس میں وہ کودی تھی۔ یہ دریا وہ والا ہو بھی نہیں سکتا تھا کہ ہر دریا کے پانی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بھنور نئے نئے گول دائروں میں قید ہوتے جاتے ہیں، لہریں نئے نئے انداز سے اُٹھلاتی ہیں اور کنارے چلنے والوں کے عکس لمحہ لمحہ مختلف ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب اگر وہ اس دریا میں قدم رکھتی تو نہ تو وہ پانی ہوتا ، اور نہ ہی وہ مانوس لمحہ جس میں اس نے پہلے پہل طوفانوں کی زور آوری کو آزمایا تھا۔
مُبین نے دریا کنارنے اُگی ہوئی پہلے پھولوں کی جھاڑی سے ایک پھول توڑ لیا اور اسے ہاتھ میں نچا نچا کر خوش ہونے لگی۔ اسے مسکراتے دیکھ کر کاکے کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ خشمگیں نگاہوں سے بچی کو دیکھ کر بولا: ’’جلدی کر کُڑئیے، گھر بھی اَپڑنا ہے‘‘۔ مُبین سہم کر ماں سے چپک گئی اور تیز تیز قدم اُٹھانے لگی۔
سکینہ نے ایک بار پھر دریا کو دیکھا۔ اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ اسے زندگی بھر ایک اور ہی دریا کاسامنا کرتے رہنا پڑے گا۔
٭٭٭