ڈاکٹر سلیم اختر سے بات چیت

ڈاکٹر سلیم اختر کا شماراُن ادیبوں اور محققین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اردو ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ۷۸سالہ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی ۶۰، ۶۲ سالہ ادبی زندگی میں ۹۰ سے زائد کتابیں لکھیں۔ انہوں نے ۱۹۷۸ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی کتابیں تحقیق ، تنقید ، افسانے ، طنزو مزاح ، اقبالیات ، غالبیات، مذہب، سفر نامے، نفسیات، سوانح ، آپ بیتی اور نصاب سے متعلق ہیں۔۱۹۶۲ء میں ایچی سن کالج ملتان سے بطور لیکچرر اپنی زندگی کے آغاز سے بہ حیثیت پروفیسر ریٹائرمنٹ تک درس و تدریس سے تعلق نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ خرابیٔ صحت کے باعث ان دنوں خانہ نشین ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر پی ایچ ڈی، ایم فل اور ایم اے کے متعدد تحقیقی مقالات کے نگراں رہ چکے ہیں۔انھیں یہ بھی منفرد اعزاز حاصل ہے کہ بھارت میں رانچی یونی ورسٹی میں ، ایک محقق نے ان کے فن اور شخصیت پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں ۲۰۰۷ء میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی برائے ادب دیا گیا۔ ان سے گفتگو کا احوال ملاحظہ کیجیے۔
س: ترجمے یا تصنیف سے تنقید اور تحقیق کی طرف کیسے آئے؟
ج: میرے جیسے لوگوں کا ، جن کے مضامین فنونِ لطیفہ سے متعلق آرٹس ہوتے ہیں، کوئی واضح مستقبل نہیں ہوتا۔ جدھر چاہے، نکل جائیں۔ گریجویشن کے بعد میں ایم اے فلاسفی کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران بی اے کے بعد پشاور چلا گیا اور ایک اخبار میں ملازم ہوگیا۔ میرا کام رات کی شفٹ میں خبروں کا ترجمہ اور دن کو عورتوں اور بچوں کا صفحہ مرتب کرنا اور ٹینڈر نوٹسز کا ترجمہ کرنا ہوتا تھا۔ میں نے دوسال تک یہ کام کیا، لیکن پھر چھوڑ کر لاہور آگیا اور لائبریری سائنس کے کورس میں داخلہ لے لیا۔اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں ایم اے اردو کیا اور لیکچرر بن کر ملتان چلا گیا اور پھر زندگی کا وہ دور شروع ہوا جس سے سب لوگ واقف ہیں۔ ادب کو سنجیدگی سے پڑھنا شروع کیا اور افسانے اور تنقیدی مضامین لکھنے شروع کیے۔ تنقیدی اور تحقیقی مقالے لکھنے کا سلسلہ تھرڈایئر ہی سے شروع ہوگیاتھا۔ جب میرا ایک تحقیقی مقالہ ''ابن الوقت'' ناصر کاظمی نے اپنے جریدے ''ہمایوں'' میں شائع کیا۔لیکچرر بننے کے بعد زندگی کی صحیح سمت ملی۔ میں نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔تاہم تحقیق اور تنقید کی طرف زیادہ ''زور '' رہا۔
س: آپ نے تحقیق، تنقید، افسانے ، طنزو مزاح ، نصاب، سفر نامے اور دیگر اصناف میں ۹۰ سے زا ئد کتابیں لکھیں ، کیا یہ ۹۰ یا ۱۰۰ کتابوں کا ''ٹارگٹ'' تھا یا واقعی یہ کتابیں آپ کا سرمایہ ہیں؟
ج: ٹارگٹ تو ہرگز نہیں تھا اور ایک قلم کار کے لیے ہو بھی نہیں سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ میں ایک تیز رفتار قلم کار ہوں۔ گرمی اور حبس کے چار مہینے میری زندگی سے خارج ہیں۔ ان میں، میں کوئی کام نہیں کر سکتا، لیکن جب میں لکھوں تو پھر ایک مزدور کی طرح محنت کرتا ہوں۔ میرا یہ کا م موسمِ سرما میں ہوتا ہے، جب ۱۵، ۲۰ مقالے جمع ہو جاتے ہیں، تو ایک کتاب بن جاتی ہے۔میری تصانیف میں خود نوشت، سوانح عمریاں، تحقیق تنقید، افسانے، طنزومزاح اور دوسری اصناف شامل ہیں۔ افسانوں کے پانچ مجموعے چھپ چکے ہیں۔ایک ناولٹ ''ضبط کی دیوار'' بہت مشہور ہوا۔ اس کا ہندی ترجمہ بھی ہوا اور جامعۃ الازہر، قاہرہ کی ایک طالبہ ، جس نے مجھ پر تھیسز لکھا، اس ناولٹ کا عربی ترجمہ بھی کیا۔جہاں تک زورنویسی کا تعلق ہے، اگر یونی ورسٹی کا ایک پروفیسر یونی ورسٹی کی سیاست میں حصہ نہ لے، اکیڈیمز میں ٹیوشنز نہ پڑھائے ، تو وہ بہت علمی اور تحقیقی کام کر سکتا ہے، تو میں نے اپنی ساری توانائی لکھنے اور پڑھنے میں استعمال کی۔
س: آپ محقق اور تنقیدنگار ہیں، عا م خیال یہ ہے کہ بھارت اس میدان میں ہم سے آگے ہے؟
ج: میں بنیادی طور پر انیس و دبیر کے موازنے کا قائل نہیں ہوں۔ تحقیق والی بات آپ کی صحیح ہے، لیکن اس میں ہماری نالائقی نہیں ۔ ہمارے محقق ذہین اور قابل ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ محقق کے جتنے بنیادی مآخذ اور وسائل ہیں، جیسے مخطوطے، قلمی نسخے ، نایاب کتابیں، خاندانی ذخیرے، شاہی کتب خانے اور نوابوں کی لائبریریاں یہ سب کچھ بھارت میں ہے۔ اس لیے تحقیق کا کام وہاں زیادہ او ربہتر ہے، لیکن ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ تحقیق کا شوق ختم ہو رہا ہے۔ نئی نسل میں کچھ خاص محقق نظر نہیں آتے، لہٰذا اگلی نسلوں تک یہ سلسلہ چلتا نظر نہیں آ رہا۔ تنقید کا بھی یہی حال ہے، چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر کوئی قابلِ ذکر نقاد نظر نہیں آتا۔ ہمارے یہاں دہائیوں پرانے نوٹس سے کام چلایا جا رہا ہے۔ بھارت میں بھی کم وبیش تنقید کا یہی حال ہے، یعنی زیادہ تر کام خانہ پُری کا ہو رہا ہے۔
س: تاہم یونیورسٹیوں کی سطح پر پی ایچ ڈی مقالے تو دھڑا دھڑ لکھے جا رہے ہیں۔
ج: ان کا بھی برُا حال ہے ، میں صرف تجربے کی بات کرتا ہوں۔ہمارے ہاں تحقیق کا ایک گھسا پٹا فارمولا ''احوال و آثار'' جو کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے، مجال ہے جو محقق کبھی اس فارمولے سے ہٹا ہو۔ حالت یہ ہے کہ کسی شخصیت کے مرنے کے بعد ابھی اس کے قُل بھی نہیں ہوتے کہ ''ریسرچر'' تھیسز کے لیے Synophosis جمع کراد یتے ہیں۔ وہی لگے بندھے ابواب، کیوں کہ جو اساتذہ یہ کام کرواتے ہیں، ان کی تربیت بھی اسی فارمولے کے تحت ہوئی تھی۔اِدھر ہائر ایجوکیشن نے یہ کمال کر دیا کہ ایم اے کی وقعت ہی ختم کر دی۔ اب ایم فل اور پی ایچ ڈی ہی رہ گئے ہیں۔ لوگ ملازمت کے حصول اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ''نظریۂ ضرورت'' کے تحت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ایک طالب علم تین، تین تھیسز (ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی)لکھ رہا ہے ، جب کہ اس میں ایک تھیسز لکھنے کی اہلیت بھی نہیں ۔ جب مقصد خانہ پُری ہو، تو تحقیق کیا ہوگی؟ بھارت میں بھی یہی حال ہے، اکثر لوگ صرف نوکریوں کے لیے پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ادب زوال پذیر ہے؟
ج: دیکھیں ،جب کسی ملک کے تمام ادارے اور پوار معاشرہ زوال پذیر ہو، تو ادب پر بھی یقیناً اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب معاشرے میں کوئی ایسی تحریک یا Insentive نہیں ہے، جس سے قلم کاروں میں تحریک پیدا ہو۔ ماضی میں جتنے بڑے قلم کار آپ کو نظر آتے ہیں، ان میں سے بیش تر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ اس کے بعد،پاکستان میں ایسی کوئی تحریک نہیں آئی، نہ چھوٹی نہ بڑی، جوادیبوں کے سامنے ایک لائحہ عمل یا نقطۂ نظر رکھے۔ بحیثیت مجموعی ، ادب کے لیے ایک ڈائریکشن ،راستے اور سوچ کا فقدان ہے۔ لکھا تو اب بھی جا رہا ہے۔ لیکن اس دور جیسا نہیں، جو چند دہائیاں قبل ترقی پسند تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔
س: تو کیا موجودہ ادب ہمارے عہد کی عکاسی نہیں کرتا؟
ج: ایسا بھی نہیں، حالات کی عکاسی تو ہو رہی ہے۔ ذرا پیچھے جائیں ضیاء دور میں کتنی سختیاں تھیں۔ لیکن اہلِ قلم نے پھر بھی واقعۂ کربلا کے استعاروں، گرمی، تشنگی، نیزہ، خیمہ، یزیدیت جیسی علامتوں اور استعاروں سے کام لے کر صورتِ حال کو اُجاگر کیا۔ آج بھی ہمارے اہلِ قلم اپنے معاشرے اور مسائل کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔
س: ہمارے ہا ں اکثر تنقید نگار، اہل نہیں ، لیکن وہ بظاہر''بڑے'' ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟
ج: میرا تجربہ کہتا ہے کہ ایک تنقید نگار کو وسیع المطالعہ ہونا چاہیے، اسے عالمی ادبیات کے بارے میں علم ہو۔ اس کا اپنا نقطہ ہو (جیسا کہ میرا نفسیاتی نقطۂ نظر ہے) لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی سے اکثر نقاد اس پیمانے پر پورے نہیں اترتے۔ ایک خرابی وہ ہے، جو کتابوں کی تقریب رونمائی کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ ان تقاریب نے تنقید نگاری کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہاں مصنف یا شاعرکے بارے میں جو مقالات پڑھے جاتے ہیں، ان میں صرف تعریف اور توصیف ہوتی ہے۔ ایک مصنف فائیو اسٹار ہوٹل میں، ولیمے جتنا خرچہ کرے، تو پھر اس کی غلطیاں تو اس کے سامنے نہیں بتائی جا سکتیں ناں۔ وہ میزبان غیر مدلل مداحی چاہتا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ جو مقالہ یہاں پڑھا جاتا ہے، وہ تنقید کے نام پر کسی رسالے میں چھپ جاتا ہے۔
س: ہمارے یہاں بُک کلچر نام کی کوئی چیز نہیں، اس کی وجہ؟
ج: وجوہ بے شمار ہیں، اپنی بات کرتا ہوں۔ میرے والد صاحب ادیب نہیں تھے، لیکن گھر میں بے شمار رسائل آتے تھے۔ مجھے بچپن سے پڑھنے کا شوق ہوا۔ اب ایسا ماحول نہیں ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ کتابیں ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ تعداد میں چھپتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ادبی جرائد کا یک سر صفایا ہو گیا ہے۔ فنون، نقوش ، ادبِ لطیف، ادبی دنیا، ہمایوں، نیرنگ خیال اور اوراق جیسے رسالے اب کہاں نظر آتے ہیں۔ کراچی میں صہبا لکھنوی کا افکار بند ہوگیا۔ نقصان یہ ہوا کہ ادیبوں کے چھپنے کے لیے جگہ نہیں رہی۔ جہاں تک وجوہ کا تعلق ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ شروع ہی سے ہمارا مطالعے کا مزاج ہی ڈیولپ نہیں ہو سکا۔ ناخواندگی اپنی جگہ، مہنگائی کا بھی کردار ہے، لیکن جو لوگ افورڈ کرسکتے ہیں، ان کے بارے میں بھی کیا کہیں وہ پانچ ہزار روپے رات کے ایک کھانے پر تو لگا دیں گے، مگر پانچ سو روپے کی ایک کتاب نہیں خریدیں گے۔
س: بعض لوگ الیکٹرونک میڈیا کو مطالعے اور کتاب کا ولن قرار دیتے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟
ج: میں نہیں مانتا، جسے کتاب پڑھنی ہو، وہ وقت نکال ہی لیتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی تو الیکٹرانک میڈیا ہے، لیکن لوگ کتابوں کے رسیا ہیں۔ ایک اہم او ربنیادی وجہ، میرے خیال میں انگلش میڈیم اسکولز ہیں، جہاں سے ایک طبقہ نہایت تیزی سے پیدا ہوا ہے، جسے اردو سے کوئی دل چسپی نہیں۔یہ طبقہ معاشرے پر حاوی ہو رہا ہے۔ اس رجحان سے بھی اردو زبان اور اردو مطالعے کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ چند روز پہلے کا ذکر ہے ، میں نے کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے بیالیس کا لفظ ادا کیا ، میر ا پوتا پوچھنے لگا ''بابا یہ بیالیس کیا ہوتا ہے'' میں نے کہا ''فورٹی ٹو''تو پھر اس کی سمجھ میں آیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ انگلش میڈیم سکولوں کے سیلاب میں اب یہ ہر گھر کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔میری مخالفت کے باوجود میرے پوتوں نے انگلش میڈیم اسکولوں میں داخلہ لیا، کیوں کہ انہیں اپنا مستقبل اسی میں نظر آتا ہے۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ شاید ہماری اگلی نسل کو اردو بولنا بھی نہیں آئے گی اور یہ نئی نسل اردو کتابوں کے مطالعے سے تو یک سر بے بہرہ ہوگی۔
(بشکریہ: روز نامہ جنگ)
شکیل احمد خان کے افسانے کے عناصرِ ترکیبی
T افسانہ افکار و حوادِث، معاشرتی رویّوں اور انسانی نفسیات کا عکاس ہوتاہے۔ افسانہ نگار اپنے معاشرے اور اس کے کرداروں کو خوردبین سے جانچ کر صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتاہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی ہنستی اور روتی زندگی کو قریب سے دیکھ کر اُسے موضوعِ افسانہ نہ بنائے۔''خواب اور طرح کے'' شکیل احمد خان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ شکیل احمد خان معاصر افسانہ نگاروں میں نئی سوچ اور موضوعات کے ساتھ ابھرتے افسانہ نگار ہیں۔ متنوع موضوعات لیے ان کے افسانے گہرے مشاہدے اور ادراک کا نتیجہ ہیں۔خان صاحب پیشے کے لحاظ سے معلّم ہیں۔ تعلیم و تعلّم کے ساتھ ساتھ علمی وا دبی سرگرمیاں ان کی اہم مصروفیت ہے۔ پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں بالخصوص حیدر آباد اور کراچی کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے روح و رُواں ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری کا سفر اگرچہ زیادہ نہیں ہے تاہم اس صنف میں اپنا تشخص قائم کرچکے ہیں۔
شکیل احمد خان کے افسانوں کا بنیادی مقصد سماجی اصلاح ہے۔ وہ سلگتے مسائل اور معاشرے میں پل رہے ناسوروں کو موضوعِ افسانہ بناتے ہیں ۔زندگی کی خوب صورتیوں اور بد صورتیوں دونوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ قدروں کے زوال، فکری تضادات اور سماجی تبدیلیوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔اُن کے افسانے میں فکر و فن کی چنگاری قاری کو فکری سطح پر بیدار کرتی ہے۔ اپنی بات کو کم لفظوں میں کہنے کا ہنر، ندرتِ خیال اور تجسّس ان کے افسانے کا لازمہ ہیں۔ وہ عصری زندگی کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے کڑوی سچائیوں کو واضح طورپر بیان کرتے ہیں۔ ایک اچھے افسانے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں عصرِ حاضر کے مسائل کی نمائندگی ہو، کہانی پن ہو، عنوان کی موزونیت پائی جائے، ایک ہی بات یا جملے کی تکرار نہ ہو اور مفصل باتوں کو اختصار سے پیش کیاجائے۔ شکیل احمد خان کے افسانے میں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔اُن کے افسانے کا یہ اعجاز ہے کہ جب افسانہ ختم کرتے ہیں تو قاری کی سوچ کے کئی زاویے کھول جاتے ہیں۔
آدمی کی سیرت اس کے باطن کا پتہ دیتی ہے اور تحریر اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس 'قاعدے کلیے' کے مطابق شکیل احمد خان کی سوچ ، فکر، آدرش اور نصب العین ان کے افسانے سے عیاں ہے۔
میں امیدکرتا ہوں کہ جناب شکیل احمد خان اپنا فنّی اور تخلیقی سفر جاری و ساری رکھیں گے اور افسانے کی صنفِ لطیف کے نِت نئے نئے پہلوؤں اور زاویوں کو دریافت کرکے اسے استحکام عطا کرتے رہیں گے۔ (غازی علم الدین)