محمد ساجد
بھٹکی روح سے ادھوری ملاقات

یہ خزاں کا ایک اُداس دن تھا۔ پت جھڑ کی رُت زوروں پر تھی۔ کہر کی سفید چادر نے سورج کی کرنوں کو چھپا رکھا تھا۔ سرد ہوا نے لوگوں کو تیز چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ چونکہ میں ادیبوں کا قدر شناس ٹھہرا۔ ایسے میں، مَیں خراب موسم کی بات بھی نہیں مانتا۔ بلکہ ادبی لوگوں سے ملنا کارِ ثواب سمجھتا ہوں۔ اس لیے شدید دھند میں بھی اپنے جنون کے ہاتھوں مجبور ہو کر دمِ سحر ہی گھر سے نکل پڑا تھا۔
آخر کار سحر کفر خُدا خُدا کر کے ٹوٹ ہی گیا۔ مجھے ادیبہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنا تھا۔ اس لیے ان کی انتظار گاہ میں بیٹھا دیا گیا۔ ایک خدمت گار بڑے مؤدب طریقے سے چائے لے کر آیا۔
میں نے چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑا تو مجھے محسوس ہوا جیسے اُس نے بھی اپنے مزاج کو یکسر تبدیل کر لیا ہے۔ واقعی یہ موسم کا اثر تھا۔ جس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کمرے میں چاروں اور سناٹا تھا۔ میں سوچوں کے سرپٹ گھوڑے پر بیٹھا، صحرا کے چولستان کی طرف گامزن تھا۔ آج میں اس ادیبہ سے ملاقات کا شائق تھا۔ جس کی پنجابی اور اردو تصانیف کو پڑھ کر میں انسانیت کے کرب سے آشنا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ انتظار کا کرب سب سے بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ جب سے یہ دنیا معرضِ وجود میں آئی ہے۔ یہاں ہر کسی کو کسی نہ کسی کا انتظار ہی تو ہے۔
میں نے ماحول میں ہلکی ہلکی سرسراہٹ محسوس کی اور باریک جالی نما چلمن سے دوسری طرف دیکھا۔ میں دیر تک اُوور کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے مبہوت کھڑا رہا۔ بوڑھی خاتون۔ عمر ساٹھ اوپر پانچ کے لگ بھگ۔ سانولی رنگت، بال چاندی کی سے سفید اور چمک دار، پیشانی پر ازلی حوادث کی لہریں، آنکھیں پتھرائی ہوئیں، لبوں پر ہمیشہ کی خاموشی، حرکت پُتلی والی گڑیا کی سی سلوموشن۔۔۔ میرے منہ سے فقط یہ جملہ نکلا۔''بھٹکی ہوئی روح''
اپنی قیام گاہ سے نکلی تو پکوان خانہ کی طرف گئی وہاں سے واپس دالان میں ، پھر ذاتی کتب خانہ کی اور چلی گئی اور پھر اپنی آرام گاہ کی جانب۔۔۔ یہ قدرت کا ری سائیکل تھا۔ کہ اپنی ہی ذات کے گرد گھومنے کا سفر شاید انسان جب سب سے کٹ جاتا ہے تو اپنے ہی محور میں زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لیتا ہے۔ کوئی ایسا گوشہ تراش لیتا ہے جس میں بیٹھ کر عافیت محسوس کرتا ہے۔ جہاں بسرام کرنے میں شانتی ملتی ہے۔ میرا یہ احساس، حقیقت میں بدل گیا۔ کہ فکشن کے سر چشمے تو انسان کے اندر بہتے ہیں۔ ادب کا شاہکار، تو ادیب کی تنہائیوں میں کی گئی گفت گو کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اپنے آپ سے خود کلامی کا مرکب ہوتا ہے۔ یہ ادیبہ تو افسانے تھوڑے لکھتی ہے یہ تو کورے کاغذوں کے پلندوں پر کالی روشنائی سے سیاہ الفاظ کی بھر مار کرتی ہے۔ اپنی سیاہ تقدیر کی بات لکھتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس سیاھی میں دوسروں کو اپنا دکھ بھی نظر آتا ہے۔ ذات کا المیہ، دوسروں کا المیہ بن جاتا ہے۔ انفرادی کرب، اجتماعی کرب بن جاتا ہے۔ جو ادیبوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔وہ تو اندھوں کے شہر میں آئینہ لے کر گھومتی ہے۔ مگر صد افسوس ان ناقدین پر جو اس ''میلہ گھومنی'' کو نہیں پوچھتے۔ تھک ہار کر اپنے ہی محور میں واپس پلٹ جاتی ہے۔ اپنی ہی عُزلت گاہ میں بسرام کرتی ہے۔ پھر ٹوٹے ہوئے خوابوں کو جوڑتی ہے۔ اور الفاظ کا تاج محل تعمیر کرتی ہے۔ جس کے نیچے شکستہ جھونپڑی میں بوڑھا شخص غربت کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ فاقوں سے جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ ''پارو'' کی بات کرتی ہے ۔ جو ہند کی دھرتی پر مظلوم عورت کا استعارہ ہے۔ وہ ہندو یا مسلمان کی نہیں بلکہ انسانیت کی بات کرتی ہے۔
لوگ اس کی تحریروں کو پڑھتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور چلاتے ہیں گستاخ، عورت ہو کر سچ بولتی ہے۔ خاندان کو بھر ے بازار میں رسوا کرتی ہے۔ اس کو کسی کی بھی عزت کا خیال نہیں۔ پٹھان کی بچی، پٹھان لوگوں کی عزت کو تار تار کرتی ہے۔ اس کو سچ بولنے کی سزاد ی جائے۔ اس سے رشتہ ناتا توڑ لیا جائے۔ میں اسی سوچ میں گُم سُم ادیبہ کی کہانیوں پر مغز ماری کر رہا تھا کہ خدمت گار نے زور سے کہا ،صاحب جی! ''میڈم ،کی طبیعت ناساز ہے۔ آپ پھر کبھی تشریف لائیے گا''۔ ان الفاظ نے کمرہ کی اداس فضا میں کچھ اور اضافہ کر دیا تھا۔ ویرانی بال کھول کر ماحول پر رقص کر رہی تھی۔
میں انتظار گاہ سے نکلنے کے لیے کھڑا ہی ہوا تھا کہ ایک ننھا سا فرشتہ صفت بچہ تصویر پکڑے بھاگا ہوا میری طرف آیا اور اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مجھ سے مخاطب ہُوا۔ انکل!۔۔۔ یہ میری۔۔۔ نانی اماں۔۔۔ فرخندہ۔۔۔لودھی۔۔۔ کی ۔۔۔ تصویر ہے اور جس طرح آیا تھا اسی طرح واپس چلا گیا۔
میری ملاقات تو آپا فرخندہ لودھی سے ہوچکی تھی۔ بھٹکی ہوئی روح نے ایسے ہی اپنی تصویر نہیں بھیجی تھی۔ کبھی کبھی خاموش بت، بھی انسانی دل کی آواز سُن لیتے ہیں۔ عقیدت شرطِ اول ہے۔ میں واپس پلٹتے ہوئے ، کہر کی چادر لپیٹے ، انجانے راستے پر سگریٹ سلگائے یہ شعر گنگناتے جا رہا تھا۔
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
خانۂِ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اُٹھتا ہے
(میر تقی میرؔ)
اخبار اردو کے نام
/جو''نامہ'' میرے نام آیا
''کشور ناہید '' ایسا نام جس کے سامنے اپنا نا م بہت چھوٹا محسوس ہوتاہے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ انھوں نے اپنے کالم(''شدید گرمی میں گرما گرم مباحثہ'' ۔ ۱۵جون ۲۰۱۲ء ، جنگ) میں میری کتاب ''اردو افسانے میں جلاوطنی کا اظہار'' کا تذکرہ کیا ہے تو بڑی خوشی محسوس ہوئی ، پھر کسی طور وہ کالم دستیاب کیا، اور پڑھا کہ کیا لکھا ہے تو دل کو تھوڑی تکلیف ہوئی۔ انکا گلہ نظم کے حوالے سے اپنی جگہ بجا ہے مگر میرا کام تو افسانے پر تھا۔ افسانے میں بھی صرف قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین شامل نہیں بہت سے دوسرے لوگ بھی ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے کی جلاوطنی جو جبری جلاوطنی تھی، افسانے میں اظہار پذیر کم ہوئی اور اگر میرا آخری باب غور سے پڑھ لیتیں تو انھیں آثار ضرور ملتے۔ رہی تقسیم کے وقت کی بات وہ اُسے صرف ہجرت کے دامن میں ڈالتی ہیں تو یہ اُن کی منشاء رہی مگر وہ صرف ہجرت نہیں تھی، یہ جلاوطنی اُن کی نہیں تھی مگر میرے والدین کی ضرور تھی۔ میرے والدین اپنے دکھ کے ساتھ اس دنیا سے سدھار گئے، میں اُن کے دکھ کے ساتھ زندہ ہوں۔ کشور ناہید صاحبہ کو صرف ۷۱ء کی جلاوطنی کا دکھ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اُن کی اپنی جلا وطنی ہے۔ میں کیا کروں کہ مجھے ۴۷ء کی جلاوطنی بھی محسوس ہوتی ہے اور ۷۱ء کی جلا وطنی پر بھی دل مسوستا ہے۔ سفر صرف دنیا کی جغرافیائی حدود میں ہی نہیں طے ہوتا، ایک سفر انسان اپنی ذات کے اندر بھی طے کرتا ہے اور ہر دو سفر انسان کو ''جلاوطنی'' سے ہمکنار کرتے ہیں۔ حوادث کی اس دنیا میں ، میں نے دونوں سفر طے کیے ہیں۔ اس لیے ''کشور ناہید'' صاحبہ کی جلاوطنی کو اور اُن کے گِلے کو سمجھ سکتی ہوں۔ کوشش کروں گی کہ اُن کی خواہش کے احترام میں نظم میں اس موضوع (جلاوطنی) پر کام کر سکوں۔
روبینہ الماس