محمد احمد سبز واری
اردو کے نفاذ کو بھول جائیے

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
گزشتہ ۶۵ برس میں ملک میں کافی آئینی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ بعض بنیادی مسائل نظر انداز کر دیے گئے اور بعض کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی میں پاکستان کی قومی زبان اردو کے نفاذ کا مسئلہ ہے جو چوبیس سال سے اٹکا ہوا ہے اور اب تنہا اس کے نفاذ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
قیام پاکستان کی خوشیاں ماند ہوتے ہی مشرقی پاکستان میں اردو کی قومی زبان بننے کے چرچے شروع ہوگئے تھے اور اس کے خلاف سر گوشیاں ہونے لگیں غالبا اس کے ذمہ دار مغربی پاکستان کے وہ بیورکریٹ تھے جو مشرقی پاکستان میں متعین اردو کی برتری کا چرچا کرتے رہتے تھے اور وہاں کی غیر مسلم آبادی کو بھڑکاتے رہتے تھے ،سیاسی چنگاریوں کو شعلے بن کر بھڑکتا تھا سو وہ بھڑک کر رہے۔
بنگال تو جدید اردو نثر کی جنم بھومی تھا ۔ اردو اور بنگال میں کلکتہ اور مرشد آباد کے روابط بہت پرانے تھے ۔ ۱۷۸۱ میں انگریز وں نے یہاں مسلمانوں کے لیے''کلکتہ مدرسہ'' قائم کیا جس میں عربی ،فارسی اور اردو کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ۱۸۰۰ء میں سرنگا پیٹم کی فتح کی سال گرہ ''پرفورٹ ولیم کالج ''کی بنیاد رکھی گئی جس نے پس پردہ ایک'' متنازعہ زبان ''کو جنم دینے کے باوجود و''جدید اردو نثر ''کے دبستان کی بنیاد رکھی۔ کلکتہ میں اردو کا پریس قائم ہوا۔۱۸۵۶ء میں واجد علی شاہ والی اور دمہ کو لاؤ لشکر کے ساتھ میٹا برج میں نظر بند کیا گیا ۔ کلکتہ میں اردو کے مشاعرے بھی ہوتے تھے ۔ ان میں مرزا غالب نے بھی شرکت کی ۔برہان قاطع اور قاطع برہان کا قبضہ یہیں شروع ہوا۔ جس میں بنگال کے خواجہ حیدر شائق اور سید غلام مصطفے نے غالب کی ہم نوائی اور پاس داری کی (۱)
محمڈن ایجو کیشنل کانگریس جو بعد میں آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کہلاتی جس کے مقاصد قدیم علوم کی تحقیقات اور اردو کے مشہور مصنفین کی سوانح تیار کرنا تھا ۔ اس کا ۱۸۹۹ء میں تیرہواں اجلاس تاریخ اسلام اور اسپرٹ آف اسلام کے مصنف جسٹس سید امیر علی کی صدارت میں کلکتہ میں ہوا ۔ بیسواں اجلاس ڈھاکہ میں جسٹس سید شرف الدین کی صدارت میں ۱۹۳۰ء، پچاسواں اجلاس ۱۹۳۹ ء میں پھر کلکتہ میں سر حیدر نواز جنگ کی صدارت میں ہوا۔ (۲) ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کی بنیاد نواباں ڈھاکہ اور مرشد آبا د کے تعاون سے کلکتہ میں رکھی گئی مولانا ابو الکلام آزاد کا مشہور ہفتہ وار اخبار الہلال یہیں سے شائع ہوتا رہا۔ ڈھاکہ اور سلہٹ میں انجمن ترقی ہند کی شاخیں قائم ہوئیں۔ ۱۹۴۳ ء میں ویناج پور میں شمالی بنگال اردو کانفرنس ہوئی ۔بابائے اردو نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ عام طور پر بنگالی اردو کو ''شبی جی کی زبان'' کہتے تھے، جہاں کوئی اردو کا پرزہ نظر آتا اس کو چوم کر کسی شگاف میں ٹھونس دیتے تھے۔اس پس منظر میں اردو کے خلاف بنگالیوں کے جذبات کا شدت سے بھڑکنا قابل غور ہے ۔ ۲۲ فروری ۱۹۴۸ء کو خواجہ ناظم الدین نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اردو کو قومی زبان تسلیم کر لینے کی تلقین کی۔ شیخ مجیب جو ا ب تک پکے مسلم لیگی تھے انھوں نے مطالبہ کیا کہ اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے کیونکہ ملک میں بنگالی بولنے والے اکثریت میں ہیں۔ ۱۱ مارچ کو شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا ۔(۳)
۲۱ مارچ ۱۹۴۸ ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہونے والے جلسے میں قائد اعظم نے زبان کو موضوع بنایا اور تفصیل سے بتایا ''کہ اس صوبے کے لوگوں کوحق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی ۔ لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی ، صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں'' تین دن بعد ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیمِ اسناد میں ان خیالات کا اعادہ کیا ۔ مجھے اس تقریر کا ریکارڈ مل گیا ہے۔ اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں۔:
قائد اعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا '' میں سربراہ مملکت کے بجائے ایک ایسے دوست کی حیثیت سے اُن سے مخاطب ہوں جن کو میں ہمیشہ عزیز رکھتا ہوں'' شکریے اور مصروفیت کے چند جملوں کے ساتھ ان مشکلات کا ذکر جو نئی مملکت کو درپیش ہیں اور نئی ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور دشمنوں سے ہوشیار رہنے کے مشورے کے بعد آپ نے کہا :
''مجھے مملکت پاکستان کی سرکاری زبان پر اپنے خیالات کا اعادہ کرنے کا موقع دیجئے۔ صوبے کے لوگ جو زبان پسند کریں وہ اس صوبے کی دفتری زبان کے لیے اختیار کر سکتے ہیں ۔ یہ مسئلہ مکمل طور پر اس صوبے کے افراد کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا جس کا اظہار وہ پوری آزادی اور جذبات سے بالا تر ہو کر مناسب وقت پر اپنے تسلیم شدہ نمائندگان کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ البتہ لنگوا فرنکا صرف ایک ہو گی اور یہ وہ زبان ہو گی جو مملکت کے مختلف صوبوں میں باہمی افہام و تفیہم کا ذریعہ ہواور یہ زبان اردو ہو گی یہ وہ زبان ہے جس کو اس برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پروان چڑھایا اور جو زبان پاکستان کے گوشے گوشے میں سمجھی جاتی ہے۔ مزید براں یہ دوسری صوبائی زبانوں کے مقابلے میں اسلامی ثقافت اور مسلم روایات سے مزین ہے۔ یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ انڈین یونین میں اردو کو نکال دیا گیا ہے ۔ اور اردو کا رسم الخط سرکاری طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ان تمام واقعات سے وہ لوگ پوری طرح واقف ہیں جو زبان کے تنازع کا استحصال کر کے بدامنی پھیلا کر مملکت کے مسلمانوں کے درمیان انتشار پیداکرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ غیربنگالی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہنگامے کا کوئی جواز نہیں ، لیکن صورت حال کو تسلیم کرنا ان کے مقاصد کے مطابق نہیں۔ تنازع کے استحصا ل سے ان کا واحد مقصد مملکت کے مسلمانوں کے درمیان نا چاقی پیدا کرنا ہے ۔ چنانچہ انھوں نے غیر بنگالی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھڑکانے کی کوششوں کو پوشیدہ نہیں رکھا۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جو بیان تمہارے وزیر اعظم نے کراچی سے واپسی پر زبان کی وضاحت پر دیا اس کے بعد سورش کی کوئی گنجائش نہیں۔ جہاں تک اس صوبے کے عوام کے اس حق کا تعلق ہے کہ اگر وہ اس صوبے کے افراد کی خواہش کے مطابق بنگالی کو صوبے کی زبان بنانے کے خواہش مند ہیں تو اس کو تسلیم کیا جاچکا ہے مگر اب انھوں نے اپنی حکمت عملی بدل لی۔ اب انہوں نے مطالبہ شروع کر دیا کہ بنگالی کو مملکت پاکستان کے مرکز کی زبان ہونا چاہیے ۔ چونکہ وہ اسلامی مملکت پاکستان کی اردو کی سرکاری حیثیت کے استحقاق کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اب انھوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ اردو اور بنگالی دونوں پاکستان کی سرکاری زبانیں ہونا چاہیں، اس سلسلے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے ۔ اگر مملکت میں شامل ہونے والے علاقوں کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے تو میری رائے میں وہ زبان صرف اردو ہو سکتی ہے۔ میں نے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے تا کہ میں تمہیں داؤ پیچ سے آگاہ کر دوں جو دشمنان پاکستان اختیار کر رہے اور چند موقع پرست سیاست دان جو اس مملکت میں ابتری پھیلانا یا حکومت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ (۴)
قائد اعظم کی اس تقریر کے دو دن بعد ۲۷/۲۶ مارچ کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام مولوی عبدالحق کی صدارت میں اردو کانفرنس ہوئی جس کا افتتاح سر شیخ عبدالقادر نے کیا اور پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر نے تعارفی تقریر کی ۔(۵) اور مولوی صاحب نے اپنے خطبے میں جو اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان کوئی اور ہو جائے گی کی سختی سے ان الفاظ میں تردید کی کہ ''مولوی صاحب کا یہ اندیشہ بے بنیادہے کہ اردو کے بجائے کوئی اور قومی زبان بنادی جائے، میں کہتا ہوں یہ نہیں ہو سکتا نہ کسی کی مجال کہ اردو کے سوا کسی اور زبان کو پاکستان کی قومی اور سرکاری بنا سکے اس معاملے میں کسی قسم کا شک و شبہ دل میں نہیں لانا چاہیے'' ۔ مولوی صاحب دور اندیش بزرگ تھے آج ان کا اندیشہ درست ہوتا نظر آرہا ہے ۔ دوسری طرف اردو کی ترقی اور توسیع کا کام بھی جاری رہا ۔ انجمن تر قی اردو دہلی سے کراچی منتقل ہوگئی '۱۹۴۹ء میں اردو کالج قائم ہوا ' ۱۹۵۱ء میں کراچی میں کل پاکستان اردو کانفرنس ہوئی ' اسی سال راقم کی ادارت میں انجمن کا ماہ نامہ جریدہ معاشیات جاری ہوا' انجمن نے فرہنگ اصطلاحات بنکاری ' اور مولوی صاحب کاتحریرکردہ کتابچہ پاکستان کی قومی اوردوسرکاری زبان کا المیہ شائع کیا۔ پنجاب میں ڈاکٹر سید عبداﷲ اپنے رفقاکے ساتھ اردو کی خدمت میں مصروف رہے ۔ ان مساعی کے باوجودبقول جسٹس (ر) حاذق الخیری ۱۹۵۴میں بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ ۱۹۵۶ کے پہلے دستور ۲۱۴اور ۱۹۶۲کے آئین کی دفعہ ۲۱۵ کے تحت بنگلہ پاکستان کی قومی زبان رہی ۔ ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا ۔ ۱۹۶۲ کا آئین نا کارہ ہو چکا تھا ۔ اس لیے ایک نیا آئین بنا، زبان کے متعلق اس کی دفعہ یہ ہے قومی زبان۔ ۲۱۵ (۱) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں ۔
(۲) شق (ر) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی جب تک اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
(۳) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیرکوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات کی تجویز کر سکے گی (۶)
اس دفعہ میں قومی زبان کے ساتھ صوبائی زبانوں کے تحفظ کا پورا اہتمام کیا گیا ہے مقتدرہ قومی زبان نے دفتری اصطلاحات ،اہم فارمات کے تراجم کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی یعنی اردو کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان بنانے اور اردو ڈیٹا بیس کی تیاری میں بڑی پیش رفت حاصل کر لی ہے۔ چوبیس سال گذر جانے کے باوجود اردو کے نفاذ کا کوئی ذکر نہیں بلکہ اب تو صورت حال خاصی تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف اس درمیان میں اردو رپر حملے بھی ہوتے صدر ایوب خان کے دور میں اردو کو وسعت دینے کی خاطر اس کے موجودہ رسم الخط کو رومن حروف میں تبدیل کر نے کا چرچارہا جس کو محبانِ اردو نے پروان نہ چڑھنے دیا ۔ ترقی پسند حلقوں میں بنگالی کو قومی زبان تسلیم نہ کرنے پر قائد اعظم اور اردو کی بے جا حمایت پر مولوی عبدالحق تک کو نشانہ ملامت بنایا گیا۔ (۷)
زبان کے نفاذ میں صوبے وفاق سے سبقت لے گئے۔ ۱۹۶۲ ء میں گورنر غوث برنجو نے پہلا قدم اٹھایا اور ۶ مئی ۱۹۶۲ کو اردو کو صوبہ بلوچستان کی دفتری زبان بنانے کا اعلان کیا ۔ چند روز بعد ارباب سکندر خان خلیل نے صوبہ سرحد میں اور پنجاب کے وزیر اعلی ملک معراج محمد خان نے پنجاب کی دفتری زبان اردو کو قرار دے دیا (۸)
۱۹۸۳ میں اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی ہدایت پر ایک سرکلر جاری ہوا جس میں سرکاری دفتروں میں ملکی معاملات میں اردو کو استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی، راقم کو علم ہے کہ بعض دفتروں میں اس پر عمل بھی شروع ہوا۔ اسی زمانے میں صدر نے افسران کے تربیتی ادارے نیپا لاہور کا دورہ کیا ۔ وہاں انھوں نے انگریزی کی بجائے اردو کو تربیتی اغراض کے لیے استعمال کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس کے بعد وہ نیپا کراچی آنے والے تھے چنانچہ وہاں کے ڈائریکٹر نے انگریزی کی انتظامی اصطلاحات کے ترجمے کا کام راقم کے سپرد کیا۔ چندر وز کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیکرٹری جو نیپا بورڈ کے صدر ہی تھے، کراچی تشریف لائے اور اس پروگرام کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ''صدر کا ہر قول عمل کے لیے نہیں ہوتا کچھ باتیں عوام کو خوش کرنے کے لیے بھی کہی جاتی ہیں۔ (۸)اردو کے نفاذ کی سطح پر خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ دفعتاً قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والے بائیس ارکان کا تیار کردہ ایک آئینی بل کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا گیا جس میں درخواست کی گئی کہ آئین کی دفعہ ۲۵۱ میں تبدیلی کی جائے اور مجوزہ ترمیم کو آئین کا حصہ بنایا جائے ۔ ترمیم یہ ہے
(۱) بلوچی ، پنجابی ، شنا/بلتی ، سندھی، سرائیکی اور اردو پاکستان کی قومی زبانیں ہیں۔
(۲) انگریزی اس وقت تک دفتری زبان رہے گی جب تک متبادل قرار پاسکیں ۔
(۳) کوئی بھی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبانوں کے ساتھ صوبائی زبان کی تدریس ، فروغ اور استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔چونکہ حکومت (۳۴۲ ارکان اسمبلی )کی جانب سے مسودہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اس لیے حسب ضابطہ اسے ایوان کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا جو کسی وقت بھی غور کے بعد حتمی شکل میں ایوان میں منظوری (بحث و مباحثے ) کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے (۱۰)
یہ ترمیم پنڈورا بکس کھولنے کے مترادف ہو گی ۔ اتنی اتھل پتھل ہو گی کہ سنبھالے نہ سنبھلے گی۔'' ارددو کے مستقبل کو خطرے کی گھنٹی'' کے عنوان سے راقم کا ایک مختصر کالم ۲۹ مئی ۲۰۱۲ء کے اخبار جنگ کراچی میں شائع ہوا۔ یہ کالم اخبار کے دوسرے ایڈیشنوں میں بھی شائع ہوتا ہے ۔ جنگ ۱۵ /۱۶ لاکھ افراد کی نظروں سے گذرتا ہے کسی نے کالم تو کیا مراسلہ لکھنے کا بھی تکلف نہیں کیا۔ کیاسارے پاکستانی آٹھ قومی زبانوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں؟
حکیم شہید محمد سعید نے ۱۹۹۴ء میں شام ہمدرد کو شوری ہمدرد میں تبدیل کر دیا ۔ان کی صاحبزادی سعدیہ راشد اس تھنکرز فورم کو بڑی باقاعدگی سے چلا رہی ہیں۔ اس کے ارکان میں د انش ور، وائس چانسلرز ، پروفیسر ریٹائرڈ مینجر ، فوجی بیورو کریٹ شامل ہیں ، کراچی ، لاہور، راولپنڈی / اسلام آباد اور پشاور اس کے مراکز ہیں ۔ وقت کی مناسبت سے ایک موضوع منتخب کر کے تمام اراکین کو مطلع کر دیا جاتا ہے ۔ موضوع سے متعلق دانشور کو کلیدی تقریر کے لیے نام زد کیا جاتا ہے پھر عام بحث ہوتی ہے ہر جلسے کے اختصاری نوٹ حکومت کے متعلقہ محکمے کو اور جملہ اراکین کوفراہم کیے جاتے ہیں۔
۱۰ مئی ۲۰۱۲ ء کے جلسوں کا موضوع ''ملک کی تعمیرو ترقی میں قومی زبان کی اہمیت'' تھا۔ اردو کے ایک قومی ادارے کی سابق چیئرمین معروف شاعرہ اور ادیبہ اجلاس کراچی کی کلیدی مقرر تھیں۔ موصوفہ نے بات یہاں سے شروع کی '' اس پردو رائے نہیں ہو سکتی کہ اردو آئینی اعتبار سے ہماری قومی زبان ہے ۔ لیکن مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے اس امر سے ہم سب واقف ہیں کہ ہماری قومی زبان اردو سرزمین پاکستان کے کسی بھی خطے کے لوگوں کی مادری زبان نہیں ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی زبان ہے جو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور کہیں کم اور کہیں زیادہ بولی ، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ سندھ میں مادری زبان اردو بولنے والے شہری کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ سندھ ایک بڑا صوبہ ہے، یہاں سندھی لکھی پڑھی اور بولی جاتی ہے ۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ زبان ہے آزادی سے قبل نسخ رسم الخط میں سندھی زبان میں مسلمانوں کے متعدد اخبارات نکلتے تھے ۔سندھ کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی جدو جہد سندھی اخبارات ، کتب اور پمفلٹو ں کے ذریعہ کی تھی ۔ پشتو افغانستان کی قومی زبان رہی ہے۔ جبکہ دوسری قومی زبان دری یا فارسی ہے۔ صوبہ سرحد اور افغانستان میں، مشترکہ زبان ہونے کی وجہ سے پشتو ترقی یافتہ زبان تھی ۔ لیکن صوبہ سرحد میں سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اردو زبان قابل قبول رہی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اردو برطانوی دور کے آغاز ہی سے بہت مقبول تھی۔ برطانوی دور میں اسے پنجاب کے اسکولوں میں باقاعدگی سے رائج کیاگیا۔ اردو تمام پڑھے لکھے لوگوں کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ خواہ وہ ہندو ہوں ، سکھ ہوں یا مسلمان ، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اردو کے نفاذ میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں رہی (اردو کے دو اخبار ملاپ اور پرتاب ہندوؤں کے تھے) …… سندھ میں گو سرکاری دفاتر کی زبان سندھی تھی لیکن محکمہ پولیس چونکہ مرکزی شعبہ تھا اس لیے کراچی کے تھانوں میں رپورٹ اسی طرح لکھی جاتی رہی جس طرح اتر پردیش کے تھانوں میں آج تک لکھی جا رہی ہے مثلا عقب سے نقب لگا کر چور فرار ہو گیا
آپ نے مزید کہا کہ '' اردو کا نفاذ محض حکومتوں کی کوتاہی نہیں بلکہ اسے عوامی رد عمل کے متناظر میں بھی سمجھنا چاہیے…… جس طرح اردو تحریک پاکستان کا ایک اہم حصہ تھی،س اسی طرح بنگالی زبان سقوط بنگال کاا ہم حصہ بلکہ اس کی بنیاد بن گئی ۔ پاکستان کی واحد قومی زبان اردو ہو گی کے اعلان نے بنگالیوں میں خفگی کی بنیاد رکھی۔ سندھ کے سندھی بولنے والے عوام کے یہ پر جوش خواہش رہی کہ سندھی زبان کو سندھ میں سرکاری اور ذریعہ تعلیم کی زبان بنایا جائے ۰۰۰۰ کتنا دلچسپ تضاد ہے کہ سندھ اور بنگال نے قیام پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا او ر یہی دو پاکستانی علاقے ایسے رہے ہیں جہاں صرف اردو کو بہ حیثیت سر کاری زبان نافذ کرنے کی کوششوں کی شدید مخالفت کی گئی ۔ ''
آخر میں موصوفہ نے کہا ''آئیے اس تلخ حقیقت کو دوا کے کڑوے گھونٹ کی طرح پی لیں کہ نہ اردو، نہ سندھی اور نہ پاکستان کی کسی دوسری زبان میں درسی کتب موجود ہیں جن کے بل بوتے پر ہم اعلی تعلیم کا ذریعہ انگریزی کو نہ بنانے پر مصر ہوں،کیا ان زبانوں میں ایم بی بی ایس جو میڈیکل کی ابتدائی ڈگری ہے اس کے لیے کتابیں موجود ہیں ؟ قومی زبان کے اعلی تعلیمی اداروں میں اردو کے نفاذ کے مطالبے پر وہ محاورہ یادآتا ہے سوت نہ کپاس جلا ہے سے لٹھم لٹھا ۔ میری ناقص رائے میں اگر ہمارا مقصود قوم کی ترقی ہے تو ہمیں فی الوقت انگریزی سے قطعی غرض نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہمیں اپنی دیگر قومی زبانوں کی ترقی اور ترویج کے وسیع پیمانے پر تراجم کا پورے جوش و خروش سے اہتمام کرنا چاہیے ۔ پاکستان کو بھی بغداد کے بیت الحکمت کی طرح ایک عظیم دارلترجمے کی ضرورت ہے۔ ''
دوران خطاب موصوفہ نے سوال کیا کہ '' کیا سندھی پاکستانی قوم کا جزو لائینفک نہیں ہیں؟ اس صورت میں سندھیوں سے مکمل مشاورت اور مستعد شرکت کے بغیر ہم قومی زبان اور اس کے نفاذ کا کیوں کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ نیز ایک سے زیادہ قومی زبانیں بنانے سے قوم مضبوط ہو گی۔ لیکن کون سی زبان قومی زبان ہونا چاہیے اس کا تعین ہم اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک سندھی ہمارے ساتھ نہ ہوں۔ ان کی مشاورت کے بغیر ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ بہ صورت دیگر خود کو ان کے مقابلے میں کھڑا کرنا ہوگا اور اس صورت میں ہم کبھی بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے (۱۱)
کوئی بھی ذی شعور پاکستانی سندھی زبان کی اہمیت اور اس کو سندھ میں سرکاری اور ذریعہ تعلیم بنانے سے انکار نہیں کر سکتا ۔ مگر جب سندھی کو قومی زبان بنانے کا سوال سامنے آتا ہے تو پنجابی کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جبکہ پنجابی بولنے اور سمجھنے والوں کی تعدار سندھی بولنے والوں سے دگنی ہے۔ نیز پنجابیوں کا یہ دعوی ہے کہ پنجابی اردو کی ماں ہے ۔ امیر خسرو سے قبل خواجہ مسعود سعد سلمان اور بابا فرید شکر گنج سے اس کی ابتدا ہوئی ۔ پنجاب سے اکثر پنجابی زبان کو ملک کی قومی زبان بنانے کی صدا بلند ہوتی ہے ۔ ۲۷ اپریل ۱۹۸۷ ء کا اجتماع اور ۲۰۰۴ ء کی عالمی پنجابی کانفرنس اس کی واضح مثالیں ہیں ۔ پھر خیبر پختون خواہ کیسے خاموش رہ سکتا ہے ۔ پشتو افغانستان کی ایک قومی زبان ہے اور سابقہ صوبہ سرحد اور فاٹا کے بہت سے علاقوں کی مادری زبان نیز اردو اور پشتو میں لا تعداد الفاظ اپنی اصلی شکل یا بدلی شکل میں موجود ہیں۔ جب چند یا اآٹھ زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بات ہو گی تو گجری یا گوجری کے دعوے کو نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو گا ۔
ہمدرد شوری کے باقی تین مرکزوں میں زبان کا موضوع زیر بحث رہا۔لاہور میں تو اردو کی ترویج بڑھانے کی متعدد سفارشات پیش کی گئیں ۔ آخر میں کہا گیا ''کسی بھی قوم کا تشخص اس کی قومی زبان ہوتی ہے،جب زبان نیست و نابود ہو جائے تو تمدن اور تہذیبی و جاہت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اگر ہم نے اپنی شناخت کھو دی جو اردو کے دم سے قائم ہے تو ایک قوم نہیں بلکہ مغلوب و معتوب ریوڑ کی شکل میں زندہ رہیں گے ۔ (۱۲)
شوری ہمدرد راولپنڈی /اسلام آباد میں کہا گیا کہ ''اردو زبان یک جہتی کا نشان ہے، اس کے خلاف سازش کو ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے، اردو کے بغیر پاکستان کی بقا ناممکن ہے ۔ جب ہماری ایک قومی زبان نہیں ہو گی تو ہم کس طرح متحد اور ایک رہ سکیں گے ۔ اردو کو اردو نہیں قومی زبان کہا جائے ''(۱۳)
شوری ہمدرد پشاور میں زبان کے موضوع پر بحث کا لب لباب یہ رہا ملک میں اٹھ قومی زبانوں کا چرچا ہو رہا ہے۔ یہ ملک و قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے ۔ ایک قومی زبان کے لحاظ سے ہم آہنگی اور یک جہتی کا تصور غالب آئے گا۔ اردو کو قومی زبان تسلیم کرانے کے لیے ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو بدلنا ہو گا ۔ نفاذ اردو کے لیے پولیٹکل ول (Will) اور مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہے۔ اردو ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ مگر علم کے حصول کے لیے ہمیں انگریزی کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ (۱۴)
تقریبا ہر اجلاس میں ا س بات پر زور دیا گیا کہ انگریزی بین الاقوامی سیاست، اقوام متحدہ او راس کے ذیلی اداروں سے رابطوں ، بین الاقوامی مالیات، تجارت ، بنکوں ، سائنس ،ٹیکنالوجی اور ربط و ضبط کی زبان ہے اس لیے اس کی اہمیت ، افادیت اور ضرورت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ (میرے خیال میں اس سے کسی کو بھی انکار نہیں )
میں نے شوری کے چاروں جلسوں کی کارروائی کی تفصیل نہیں لکھی ۔ کاش ہمدرد کا سکریٹ ان کی تفصیل کو کتابچے کی شکل میں شائع کر دے تا کہ بحث و مباحثے کی پوری تصویر واضح ہو جائے اور عوام کو مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے ۔
نفس مضمون پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے ،میں صرف ایک نکتے پر توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ اگر معترضین کے اس اعتراض کود رست تسلیم کر لیا جائے کہ اردو اپنے موجودہ علمی ، ادبی اور اسلامی ذخیروں ، ترجموں دارالترجمہ،، جامعہ عثمانیہ اور خود جامعہ عثمانیہ ڈاکٹر حمید اﷲ کے قیام ، انجینئرنگ ، میڈیکل کی اردومیں تعلیم پانے والے سیکڑوں طلبا جیسے ڈاکٹر ذکی حسن (میڈیکل) ڈاکٹر رضی الدین صدیقی (سائنس) ، مقتدرہ قومی زبان اور وفاقی جامعہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے قیام ، بائیس جلدوں میں اردو لغت کی اشاعت کے باوجود اعلی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی تو شنا ، بلتی یا دیگر زبانوں کو اعلی تعلیم کا اہل ہونے میں کتنی صدیاں اور سرمایہ درکار ہو گا؟ اس کا صاف مقصد یہ ہے کہ اس طویل عرصے میں انگریزی کی موجودہ صورت کو بحال رکھا جائے اور غالبا یہی معترضین کی دلی آرزو ہے۔
حوالہ جات
(۱) کلیم سہرامی ،پروفیسر، مشرقی پاکستان میں اردو ، پاکستان میں اردو یونیورسٹی بک ایجنسی ، خیبر بازار پشاور ۱۹۶۵ء ص۷۲۔
(۲) شیروانی ، امان اﷲ خان آل انڈیا مسلم ایجو کیشن کے سو سال ، سلطان جہاں منزل ، علی گڑھ ۱۹۹۴ء صفحات ۵۵، ۶۷، ۸۶، ۱۹۳۷ء کے اڑتالیسویں اجلاس بمقام علی گڑھ میں مختلف شعبے بنائے گئے ، ترویج و ترقی اردو کے شعبے کا صدر مولوی عبدالحق کو بنایا ۔ اس اجلاس میں سید سیلمان ندوی نے تجویز پیش کی کہ اردو کا نام بدل کر ''ہندوستانی ''رکھ دیا جائے۔پروفیسر رشید احمد صدیقی نے تائید کی لیکن یہ تجویز مسترد کر دی گئی ۔ص۱۳۴
(۳) حامد میر کالم'' شیخ مجیب کی نامکمل یاداشتیں'' ، روز نامہ جنگ کراچی ۳۰ جولائی ۲۰۱۲ء
(۴) Student Role in Nation Building قائداعظم کی تقریر بہ زبان انگریزی ، تقسیم اسناد ڈہاکہ یونیورسٹی، ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ ء ریکارڈ ، ریڈیو پاکستان ڈہاکہ، ترجمہ راقم نے کیا۔
(۵) سہ ماہی اردو شمارہ، ۱ تا ۴ ،۲۰۰۹ء ص ۱۳۰
(۶) آئین پاکستان ۱۹۷۳ء (اردو) ص ۱۶۵
(۷) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ''ادب اور روشن خیالی''سبط حسن ، نوری نورانی ،کراچی
(۸) سید مبین اختر ،ڈاکٹر، پاکستان میں نفاذ اردو ، کراچی ص ۷
(۹) محمد احمد سبزواری ،روداد شوری ہمدرد ، اجلاس کراچی ص۹
(۱۰) افتتاحی مقالہ، شوری ہمدرد راولپنڈی /اسلام آباد ، ۸ مئی ۲۰۱۲ء
(۱۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو روداد شوری ہمدرد کراچی اجلاس ۱۰ مئی ۲۰۱۲ ء
(۱۲) شوری ہمدرد لاہور کا اجلاس ،خبر نامہ ہمدرد ،جون ۲۰۱۲ ء ص ۲۴
(۱۳) شوری ہمدرد راولپنڈی / اسلام آباد کا اجلاس، خبر نامہ ہمدر،د جون ۲۰۱۲ ء ص ۲۸
(۱۴) شوری ہمدرد پشاور کا اجلاس، خبر نامہ ہمدرد ،جولائی ۲۰۱۲ ء ص ۱۴
نوٹ:
قائداعظم نے ڈھاکہ میں زبان کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے انڈین یونین کا بھی حوالہ دیا تھا ۔ دکن ٹائمز کے مطابق ۱۸ فروری ۱۹۴۹ ء کو وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہر و نے اعلان کیا کہ ملک کی قومی زبان ''ہندوستانی '' ہو گی جو دیونا گری اور فارسی رسم الخط میں لکھی جائے گی ۔
اسی اخبار کے مطابق تین مہینے بعد ۱۹ مئی کو اعلان کیا کہ جامعہ عثمانیہ میں ذریعہ تعلیم 'ہندی' ہو گا جس کے لیے فارسی اور ناگری رسم الخطوط استعمال کیے جائیں گے ۔ جامعہ عثمانیہ میں ۱۹۲۳ء سے تعلیم کا آغاز ہوااور چند سالوں میں یہاں معاشیات سماجیات ، فلسفہ ، منطق ، ریاضی ، کیمیا ، طبعیات ، نباتات ، حیوانیات ، قانون ، میڈیکل ، انجینرنگ کی تعلیم اردو میں دی جانے لگی ۔ یہ سلسلہ ۱۹۴۹ء تک جاری رہا ا س کے بعد اردو صرف شعبہ اردو تک محدود ہو گئی ۔