نجم آرا(عارفہ شمسہ کی چھوٹی آپا)

نقطہ نظر

جناب مدیر اعلیٰ صاحب ، السلام علیکم!
اخبار اردو کے ذریعے جو آپ اردو کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کے اس فروغ اردو کے جذبے کو برقرار رکھے۔ اگست کے شمارے میں محترمہ شبنم شکیل صاحبہ کی تحریر باعث خوشی اور باعث حیرت ہوئی کہ انھوں نے پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ کچھ گانے بھی ذہن میں آئے جو انھوں نے تحریر نہیں کیے۔ انھوں نے عارفہ شمسہ کی چھوٹی آپا سے اس کہانی کو تحریر کرنے کے لیے کہا ہے لہٰذا میں نے کوشش کی ہے کہ اس بارے میں کچھ لکھ دوں۔ سب سے پہلے تو میں عارفہ شمسہ کے لیے کہوں گی کہ نجانے کس طرح انھوں نے میری محبت میں روحی کے اس گانے کا ریفرنس دیا ہے جو میرے بھائی ریاض برنی صاحب نے ( ضیاء الدین برنی صاحب کے صاحبزادے ) نے بڑی مشکل سے کیسٹ پر لاکر دیا ہے۔ ورنہ میں نے روحی میں 6گانے گائے تھے اور( کوئی ایسے انھیں سمجھائے) ذکیہ دل محمد صاحب نے بہت اچھا گایا تھا ۔ مجھے میرے عزیز عقیل بھائی نے لاہور بلایا تھا جبکہ رشید عطرے صاحب کو میری عمر اور میری موسیقی سے ناواقفیت پر اعتراض تھا۔ بہرحال ان کو بہت محنت کرنا پڑی جس کا رزلٹ کچھ بہتر ہی نکلا۔ جو سننے والے ہی جانتے ہیں۔ ڈبلیو زید احمد صاحب کے متعلق تفصیل جان کر رنج ہوا۔ کاش روحی فلم کامیاب ہو جاتی۔ مجھے تو والد صاحب نے صرف اسی فلم کے لیے اجازت دی تھی۔ البتہ ریڈیو سے وابستگی ابا کے انتقال تک رہی اور سب سے زیادہ مقبول پروگرام سرگم تھا جو بنگلہ دیش میں بھی مقبول تھا اور اپنی نوعیت کا موسیقی سکھانے کا بہترین پروگرام تھا اور کچھ گھریلو گیت جو سلیم گیلانی صاحب نے ریکارڈ کروائے جس میں (مدت سے یہی ارمان کے بھیا میرا دولہا بنے گا، ہاتھ میں زرد رومال،ہریالی بنو ِ) کافی مشہور ہوا۔ آج کل لوگ قومی ترانے کے حوالے سے مجھے یاد کر رہے ہیں کیونکہ قومی ترانے میں میری آواز ہے۔ ریڈیو پر تمام بہترین موسیقاروں کے ساتھ کام کیا روحی میں رشید عطرے صاحب نے اس قابل بنایا کہ دوسرے موسیقار بھی گانا پسند کرنے لگے۔ ریکارڈنگ کے دوران سنتوش کمار (جو فلم کے ہیرو تھے) اور شمی صاحب (ہیروئن) برابر میرے ساتھ رہتے تھے۔ عقیل بھائی چونکہ احمد صاحب کے دست راست تھے لہٰذا گھر پر بھی اجتماع رہتا تھا۔ طفیل ہوشیار پوری صاحب جنھوں ے روحی کے تمام گانے تحریر کیے تھے بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ غرض یہ کہ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کی واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے شہرت اچھی نہیں تھی۔ لہٰذا لوگ بد دلی سے کام کر رہے تھے (ہمالیہ میں والد صاحب نے بھی ساتھ چھوڑ دیا) مجھے فلم دیکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ میں نے فلم نہیں دیکھی مگر میرے عزیز مظہر امام صاحب نے (جناب حسین امام صاحب کے فرزند) نے کہا کہ پاکستان کی بہترین فلم ہے۔ موسیقی کا شوق بڑھانے میں میرے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر بشیر مرحوم کا شوق پورا کرایا۔ اﷲ ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔
میں شبنم شکیل صاحبہ کی بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے یہ بے ربط کہانی لکھنے پر مجبور کر دیا۔ جہاں تک عارفہ شمسہ کا تعلق ہے تو انھوں نے میرے گانے کے لیے جو لکھا وہ بھی حیرت کی بات ہے چونکہ ان کی فیلڈ پڑھنا ،لکھنا،بولنا، سوشل ورک اور تمام ضروری اور غیر ضروری خاندان والوں سے محبت کرنا ہے۔ میری بہن بہت اچھی ہیں۔ ان کے بچے مجھے اماں کہتے ہیں۔ میری زندگی کا محور میری بڑی بہن عارفہ بشری ، چھوٹی عارفہ شمسہ اور بھتیجا رضوان الحق ہیں۔ اﷲ سب کو صحت اور اطمینان کے ساتھ زندگی عطا فرمائے۔ میری تحریر میں بے شمار غلطیاں ہوں گی۔ امید ہے کہ لوگ معاف کر دیں گے۔ آخر میں اخبار اردو اور شبنم شکیل صاحبہ کے لیے نیک تمناؤں کے ساتھ دعا گو ہوں (گر قبول افتند ہے عزوشرف)
نوٹ: ٹی وی پر ڈاکٹر عمر عادل صاحب نے میرا اور طفیل ہوشیار پوری صاحب کا نام نہیں لیا تھا (پروگرام نگارخانہ میں)
ستمبر کے شمارے میں عارفہ شمسہ نے جو بٹ صاحب کی خصوصیات بیان کی ہیں وہ تو بہرحال صحیح ہیں مگر میرے ساتھ جو ہوا وہ ایک ناقابل فراموش حادثہ ہی تھا۔ جب مسرور انور مرحوم کو فلم کی ریکارڈنگ کے لیے فوری طو رپر لاہور جانا پڑا۔ اس زمانے میں مسرور انورکمرشل سروس میں تمام اشتہارات کی نشریات کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ اچانک بٹ صاحب کو میرا خیال آ گیا اور انھوں نے مجھے بلا کر کہا کہ بھئی مولانا آپ فوراً (مالٹا گھی) کے لیے دھن بھی خود ہی بنا لیجیے گا کل دوپہر تک کا وقت ہے۔ مجھے اس وقت بٹ صاحب کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا مگر احترام لازم تھا۔ میں نے معذرت کی کہ میں نے کبھی نہ شاعری کی ہے اور نہ موسیقاری۔ وہ کہنے لگے بھئی بحث نہ کیجیے اور اپنی پسند کے آرٹسٹ بک کروا لیجیے۔ بہرحال میں نے اس دعا کے ساتھ ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی کہ مالٹا گھی والے اس اشتہار کو ناپسند کردیں مگر ایسا نہیں ہوا ا بلکہ اسکی پسندیدگی کی وجہ سے مجھ کو مزید ۳ اشتہارات کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ جن میں حیدری بناسپتی، ذوالفقار کا بیوٹی سوپ اور ڈائیمنڈ سگریٹ تھے۔ آرٹسٹوں میں خواتین ریحانہ رصی، ریحانہ یاسمین، رشیدہ بیگم اور شبانہ تھیں۔ مردوں میں آغا سرور، جاوید میر (موسیقار) اقبال علی ، احمد رشدی اور (اتفاق سے مسحود رانا بھی لاہور سے آئے ہوئے تھے) حصہ لیا اور خدا خدا کر کے مسرور انور کی آمد پر میری جان چھوٹ گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ بٹ صاحب اور مسرور کی ملی بھگت تھی وہ لاہور جاتے ہوئے بٹ صاحب کو میرا نام دے کر گئے تھے کہ میں یہ سب کر لوں گی۔ اﷲ تعالیٰ دونوں کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے (آمین)