معروضات


مقتدرہ قومی زبان سے NLPDتک
آپ اوپر تحریرکیے گئے دو رنگی عنوان کو پڑ کریقیناً سوچ میں پڑھ گئے ہوں گے۔ جی ہاں! قومی زبان اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے ۱۹۷۹ء میں جو ادارہ بنایا گیاتھا اس کا نام مقتدرہ قومی زبان رکھا گیا جس کو انگریزی میں National Language Authorityکہاگیا۔ مقتدرہ کے اغراض و مقاصد واضح تھے کہ ملک میں نفاذ اردو کے لیے مواد خواندگی کی تیاری کا کام ۔مقتدرہ نے گزشتہ ۳۳ برس میں اپنے ذمے کا اچھا خاصا کام کیا، جن میں فروغ اردو کے لیے کتابوں کی اشاعت، اصطلاحات کے تراجم، لغات کی تیاری، اخبار اردو کی مسلسل اشاعت اور جدید دنیا کے چیلنج یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہیں۔ان بہت سے کاموں کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کو ہر وقت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بعض اوقات کچھ ایسے نقاد بھی راستے میں ملے جو مقتدرہ کے وجود سے ہی اختلاف کرتے تھے۔ بہرحال میں نہ مانوں، کچھ کچھ مانوں یا بالکل مانوں جیسے مختلف رد عمل کے بیچ مقتدرہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔اپنے قیام سے لے کر اب تک مقتدرہ کا وجود ایک آئینی قرار داد کے ذریعے قائم تھا، جس کے تحت اس کی حیثیت خود مختار ادارے کی تھی۔ مقتدر ہ کے سربراہ صدر نشین کہلاتے تھے جو اپنے سکالروں اور ہیئت حاکمہ(Governing Body)کے مشوروں اور مدد سے اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔ان صدرنشینوں میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر جمیل جالبی ، افتخار عارف، پروفیسر فتح محمد ملک اور ڈاکٹر انوار احمد شامل تھے۔ اب حکومتی سطح پر ایک پالیسی ترتیب دی گئی ہے اور مقتدرہ قومی زبان کی خود مختار ادارے والی حیثیت ختم کر کے اسے حکومت پاکستان کی وزارت قومی ورثہ و یکجہتی کا اٹیچ ڈیپارٹمنٹ بنا دیا گیاہے۔ مقتدرہ کا نام تبدیل کر کے (National Language Promotion Department)NLPD رکھا گیا۔فی الحال اس نام کا اردو ترجمہ نہیں ہوا، اس لیے یہاں اسے من و عن لکھا جا رہا ہے۔ NLPD کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوں گے جبکہ ادارے میں دوسری اہم پوزیشن ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی ہو گی۔ہیئت حاکمہ کی جگہ مشاورتی بورڈ ہو گا۔ ان تبدیلیوں کے علمی اور فکری سطح پر اثرات کیا ہوں گے اس کے بارے میں فیصلہ وقت کرے گا تاہم ادارے کے وجود کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت ختم ہوگئی ہے اور اب NLPDایک باقاعدہ سرکاری ادارہ ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر سرکاری ادارے فائلوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور مشن کی تکمیل کی بجائے روایتی وقت گزاری کے کام کرتے رہتے ہیں لیکن قومی زبان کی ترقی کے لیے وقت گزاری والا مزاج، ’’مزاج بخیر‘‘ نہیں ہو گا۔

سید سردار احمد پیرزادہ