ورد
قاری جی


کچہری سے واپسی پر میں گھر سے باہر آکر رکاہی تھا کہ خالہ زینب اپنے گھر سے نکل کر تیزی سے میری طرف بڑھی۔ وہ ہمارے سامنے والے گھر میں ہی رہتی تھی۔ منہ سرخلاف معمول روایتی انداز میں چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔زردی مائل چہرے پر ہونٹوں کی خشکی نمایاں تھی ۔ خالہ زینب سارے علاقے کی خالہ تھی جوانی میں ہی بیوہ ہو چکی تھی اور دو بچیوں کی اولاد مرنے والا اسے دے گیا ۔ ایک چھوٹا سا گھر غالباََ چار مرلے کا ہو گا اور وہی دو بیٹیاں اس کا کل اثاثہ تھا۔ تمام عمر محلے کے بچوں کو قرآن پڑھاتے اور خواتین کو مصیبت کے وقت وظیفہ یا ورد بتات گزر گئی ۔ محلہ کے خوشی اور غمی خالہ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ۔ لہذا محلہ کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو خالہ زینب کی شرافت ملنساری سے واقف نہ ہو ۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے اس کے سامنے کی گلی آہستہ آستہ بازار کی شکل اختیار کر گئی تھی ۔ جس میں خالہ کا مکان بھی تھا ۔ بچوں کے والدین سے ملنے والا ہدیہ جو کبھی طے شدہ نہ تھا اور تھوڑی بہت سلائی کڑھائی اس کی آمدنی کا ذریعہ تھے ۔ میں نے بھی قرآن انہی سے پڑھا تھا۔ لہذا دوسرے لوگوں کی طرح میرا بھی خالہ سے احترام کا رشتہ قائم تھا۔ خالہ کی عمر اگرچہ پچاس سے زیادہ نہ تھی مگر وقت کی ٹھوکروں نے اس کے سر کے بال جلد سفید کر دیے۔
خالہ زینب میرے پاس آکربغیر سلام دعا منہ میں جاری ورد کو بہم ملا کر بولی جسے میں سمجھ نہ سکا چونکہ وہ سخت گھبراہٹ میں تھی لہذا میں نے کہا خالہ گھر کے اندر آکر بیٹھو ۔ پھر تسلی سے بات کرتے ہیں۔ لیکن وہ جلدی میں تھی کہنے لگی تم وکیل ہو میرے ساتھ تھانے چلو اتنا کہہ کر ’’یا اللہ مدد فرما ‘‘کہا اور پھر ورد میں مشغول ہو گئی ۔ مجھے کچھ اندازہ تھا حاجی عبدالطلیف خالہ کا مکان خرید کر پلازہ بنانا چاہتا ہے چونکہ حاجی کا مکان خالہ کے ساتھ ہی تھا جو پہلے مارکیٹ کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اندر ہی اندر دکانیں کھلتی جارہی تھیں خالہ کسی طرح بھی مکان بیچنے پر راضی نہ ہور ہی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھی جس مکان مے ں وہ بیاہ کر آئی ہے وہ اسے کیوں بیچ دے اس کے ساتھ اس کی دو جوان بیٹیاں بھی تھیں جنہیں وہ جگہ جگہ خوار نہیں کرنا چاہتی تھی میں سمجھا شاید اس نے حاجی کے خلاف کوئی درخواست دے رکھی ہے مگر خالہ کی بات باریک سی چیخ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے میں زیادہ سمجھ نہ پایا خیر جب میں نے اسے حوصلہ دیا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں کوئی فکر نہ کرو تو اس نے لمبی سانس کھینچتے ہوئے خود کو سنبھالا اور بولی بیٹا پولیس گھر آئی تھی۔ زندگی بھر کی شرافت لٹ گئی پولیس والا کہہ گیا ہے کہ فوراََ تھانے آؤ تمہارے خلاف چوری کا الزام ہے یہ کہتے ہوئے اس کے آنسو ٹھوڑی پر آکر رک گئے تھانہ گھر کے قریب ہی واقع تھا بطور وکیل میری ادھر اُدھر کافی جان پہچان تھی ۔میں نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا اور چل کر دیکھتے ہیں معاملہ ٹھیک ہو جائے گا ۔ خالہ کے ہونٹوں نے ہمیشہ کی طرح ورد شروع کر دیا پھر خود کو اور مجھے پھونک ماری اور ہم تھانے کی طرف چل پڑے رستے میں میں نے دو تین دفعہ مڑ کر دیکھا اس کے آنسو بہہ رہے تھے ۔
میں حاجی کے تمام معاملات سے کسی نہ کسی طرح واقف تھا وہ مجھ سے زیادہ کچہری میں آتا جاتا اور کئی گماشتوں کا سرپرست تھا ۔ پلاٹوں پر قبضے سے لے کر فرقہ ورانہ لڑائی میں پیش پیش ہوتا ۔کہیں کوئی جرم ہوتا تو حاجی کا نام بلواسطہ یا بلا واسطہ ضرورلیا جاتا تین چار حج کیے تھے ۔ محلے میں اس کی عزت اس کے شر کی بدولت کافی تھی ۔ ہر وقت پانچ چھ مذہبی افراد ساتھ رکھتا شرفاء کی طرح حلیہ او ر ہاتھ میں تسبیح ہوتی اور تسبیح کے دانے گالیاں دینے کے دورا ن بھی گرائے جاتا ۔
بہر حال چند منٹوں میں ہم تھانے کے گیٹ پر جا پہنچے ۔ خالہ کی کپکپاہٹ میں اضافہ ہو چکا تھا اور قریباََ وہ کانپ رہی تھی۔تھانے میں قدم ایسے رکھا جیسے لحد میں میت اتاری جاتی ہے ہم سیدھا متعلقہ علاقہ کے تھانیدار کے کمرہ میں جا پہنچے ۔ میں نے اپنی ٹائی گلے سے ڈھیلی کرتے ہوئے تھانیدار کو سلام کیا جو حاجی کے ساتھ بیٹھا پہلے ہی چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس نے ناگواری سے سلام کا جواب تو دے دیا لیکن ہمیں بیٹھنے کے لیے نہ کہا ۔ بلا آخر میں نے خود ہی کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا اور خالہ زینب کے لیے پاس ہی پڑے بینچ کو آگے کر دیا جس پر وہ بیٹھ گئی۔ وہ کرسیوں پر بیٹھے زیر لب مسکراتے ہوئے ہم پر نظریں ڈال رہے تھے ۔تھانیدار نے نشے کو نہ ظاہر کرنے کی کوشش میں الفاظ کو زور دے کر بولنا شروع کیا ۔اس کے منہ کی باس مجھے محسوس ہو رہی تھی لیکن میں خاموشی سے اس کے چپ ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔پھر وہ میری طرف مخاطب ہو کر بولا جناب آجکل چوروں اور ڈاکوؤں سے کیسے رشتہ داریاں نکل آئی ہیں۔ آپ تو مجھے شریف خاندان کے ایک نامور وکیل لگتے تھے جو مجرموں کا ساتھ نہیں دیتا تھا ۔میں دیکھ رہا تھا کہ تھانیدار کی اس بکواس کے ساتھ حاجی دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا ۔ میں نے چونکہ اس سے پہلے حاجی سے الجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ میں اس کی خباثت سے پوری طرح واقف تھا اس لیے آج بھی اس سے دو بدو نہیں ہونا چاہ رہا تھا لیکن مجھے اس وقت اس کے تمسخرانہ ہنسی سے شدید غصہ آگیا اور میں نے کہا ،تھانیدار صاحب اصل میں یہ حاجی ہمارے محلے کا سب سے بڑا شیطان ہے ۔ میں ڈاکوؤں کاساتھ نہیں دیتا بلکہ ساتھ تو آپ ان جیسے خبیثوں کا دے رہے ہو جو بیچاری ایک مظلوم بیو ہ کا مکان ہتھیانہ چاہتا ہے ۔ میری اس بات سے تھانیدار کو مزید طیش آگیا کیونکہ میرے اس سے کوئی زیادہ تعلقات نہیں تھے ۔اس کی وجہ بھی اس تھانے دار کے تمام کرتوت میرے سامنے تھے میں اسے کئی بار کچہری میں مختلف بد نام چیمبرز پرآتے جاتے دیکھتا تھا۔ ایک دو بار رشو ت ستانی کے مقدمے میں بھی وہ جناب حوالات یاترا کر چکا تھا ۔ اس نے مجھے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا روئے سخن ڈائر یکٹ خالہ زینب کی طرف کر دیا سگریٹ سلگا کر لمبا کش کھینچا اور سرخ آنکھوں کو پوری طرح کھولتے ہوئے خالہ زینب سے بولا، اوئے بی بی تجھے شرم نہیں آتی چوری کرتے ہوئے ۔ سنا ہے خصم کے مرنے کے بعد تو نے بہت کرتوت کیے ہیں عمر تو دیکھ اپنی ۔ اپنی جوانی میں پتہ نہیں کیا کرتی ہو گی۔ میں تیرے کریکٹر سے خو ب واقف ہوں ۔تونے پورامحلہ گندا کیا ہوا ہے اب چوری بھی شروع کر دی ہے ۔ حاجی صاحب کی چوری کا مال سیدھی طرح واپس کر دے ورنہ دو ہاتھ دیے تو سب باہر آ جائے گا۔ کسی چیز کی ضرورت تھی تو حاجی سے مانگ لیتی اس سے بڑھ کر ان کی کیا شرافت ہو گی کہ میں تیری بیٹیاں اٹھاکر تھانے لانے لگا تو حاجی صاحب نے مجھے روک دیاکہ نہیں ہمسائے کی عزت سانجھی ہوتی ہے اور تو ہے کہ ہمسائے ہی کا مال چوری کرنے میں عار نہ سمجھی۔ میں وہ حال کروں گا کہ مکان بیچنا تو ایک طرف منہ چھپا کر شہر چھوڑ دو گی ۔ میں تھانیدار کے ان جملوں سے ہکا بکا رہ گیا اور کہا کہ جناب کیسی چوری اور کس نے کی۔ نہ کوئی ثبوت نہ گواہ ۔میرے اندر کا وکیل جاگ اٹھا اور مجھے تمام بنیاد ی حقوق کی شقیں یاد آنے لگیں۔ تھانیدار بولا او وکیل صاحب، وکالت کچہری تھانے میں نہ دکھاؤ۔ اس بی بی نے حاجی کے گھر سے قیمتی زیو ر چوری کیا ہے میں خودموقع ملاحظہ کر کے آیا ہوں چوری کرتے ہوئے حاجی کے بچوں نے اسے خود دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ثبوت ہیں۔ آپ فکر نہ کرو سب عدالت میں پیش کر دیں گے اور اس کے ساتھ ہی قہقہ لگایا ۔ حاجی کی تسبیح کے دانے تیزی سے گرنے لگے اور بایاں ہاتھ داڑھی میں پھرنے لگا ۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ ایف آئی آر درج کرو ہم کورٹ میں دیکھ لیتے ہیں۔ میں نے اس کے بعد حاجی کو مخاطب کیا اور کہا کہ ہم آپ کو حلف دینے کو تیار ہیں کہ خالہ ایسا کام کرنا تو درکنار وہ سوچ بھی نہیں سکتیں ۔ حاجی نے بڑے توہین آمیز لہجے میں کہا کہ جناب وکیلوں کا کام تو جھوٹی گواہیاں دینا ہے، میں آپ سے حلف نہیں لے سکتا۔ ہاں میں قرآن اٹھا سکتا ہوں کہ اس نے میری چوری کی ہے۔ میں نے خالہ کی طرف دیکھا کہ کیاخیال ہے کیا ہم حاجی سے حلف لے لیں؟ خالہ ابھی چپ ہی تھی کہ ایک صاحب جو حاجی کے ساتھ بیٹھا تھا جلدی سے اٹھا ایس ایچ او کی الماری سے قرآن نکال لایا ۔اور چوم کر میز پر رکھ دیا میں ذہنی طور پر مطمئن تھا کہ حاجی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا لیکن حاجی اچانک بولا میں قرآن پر ہاتھ رکھتا ہوں اتنا کہہ کر ہاتھ قرآن کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ خالہ بول اٹھی، یہ جھوٹا قرآن اٹھا رہا ہے میں اس کو نہیں مانتی نہ مجھے اس پر یقین ہے یہ سب جھوٹ اور کفر ہے ۔ حاجی ایک دم چونک کر اور چلا چلا کر سر پیٹنے لگا کہ تم نے قرآن کو جھوٹا کہا۔ اس سچی کتاب کو نہیں مانتی ۔ خدا کا قہر، تم نے قرآن کی توہین کی ہے ۔ اس کی مرتد ہو ۔حاجی کی اس چال بازی سے پورے کمرے کا ماحول ایک دم تبدیل ہوگیا ۔ میں اور خالہ زینب حیران رہ گئے کہ یہ کتنا بڑا بہتان باندھ رہا ہے کیونکہ اس نے تو حاجی کو جھوٹا کہا تھا ۔اس ہنگامے میں سب لوگ کھڑے ہو گئے اور قرآن پر مر مٹنے کے لیے مجھ پر اور خالہ پر ٹوٹ پڑے ۔ تھانیدار نے بھی بیلٹ اتار لی ،سالی ۳۷۹تک توبرداشت تھا295Cپر بھی اتر آئی ہو ۔ آخر ہم نے بھی خدا کو جان دینی ہے میں بھی مسلمان ہوں قرآن کی توہین برادشت نہیں کر سکتا ۔ اتنا کہ کر بیلٹ خالہ کے دے ماری جو سیدھی سر میں جاکر لگی۔ میں بھی چند گھونسے اور مکے کھا کر دیوار سے لگ چکا تھا ۔ ہر طرف گستاخ قرآن کی آوازیں بلند ہو رہیں تھیں ۔ مرتد کو مارو کی چیخ و پکار کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ میں دیوار کے ساتھ چپک کر سہما ہوا خواب کی طرح یہ سب دیکھ رہا تھا۔ ایک ہی شور، کتیا حرام زادی ہمارے قرآن کو نہیں مانتی ۔ میرے سر کا خون میری آنکھوں پر گر رہا تھا ۔میں نے آنکھیں صاف کر تے ہوئے دیکھا خالہ بے حس زمین پر گری تھی۔ سب بے جان کو مار رہے تھے ۔ حاجی نے تھانیدار کی پستول پکڑ کر اُسے زور سے خالہ کے سر پردے مارا ۔ سر ایک خون کے لوتھڑے میں تبدیل ہو رہا تھا ۔ سب ثواب لینے میں سبقت حاصل کررہے تھے۔ خون خالہ کی ٹھوڑی پر آکر رک چکاتھا۔ لاش کی تذلیل بھی ان کے ہاں باعث ثواب دکھائی دیتی تھی۔ میرے قدم میرے وزن اٹھانے سے قاصر تھے میں زمین پر بیٹھا خالہ کی کھلی آنکھیں دیکھ رہا تھا مجھے اب بھی اس کے ہونٹ کسی ورد کے لیے ہلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ اسی لمحے میں نے محسوس کیا کہ میرا اور خالہ کی لاش کا رشتہ قاتل ومقتول تبدیل ہو چکا تھا۔