حضت وہ تو نکل گئے
سید رفیق حسین


میرا اور مسعود کا یہ خیال یہ تھا کہ امتحان کے بعد ہم دونوں دو تین دن اور ٹھہریں گے اور اچھی طرح سے لکھنؤ کی سیر کریں گے۔ لیکن امتحان ختم ہونے سے پہلے ہی پیسے ختم ہو گئے ۔ جس دن آخری پرچہ کر کے ہم ہوٹل میں واپس آئے تو واپسی کے ٹکٹوں کے علاوہ تین چار روپے اور باقی تھے۔ ناچار یہ قرار پایا کہ سامان درست کر کے سب تیار کر لیا جائے اور ایک تیز سواری پر بیٹھ کر یہاں کا امام باڑہ ،گھنٹہ گھر اور چوک کو ایک نگاہ دیکھ کر ہی آنا چاہیے۔ پھر آٹھ بجے رات کی گاڑی سے کوچ بول دیا جائے۔ جلدی جلدی سامان درست کر کے ہم دونوں امین آباد ہوٹل سے نیچے اترے ۔ پارک کی نکڑ پریکوں اور تانگوں کا ہجوم تھا۔ اُدھر چلے ۔ مسعود سر تھے کہ گھنٹوں کے حساب سے تانگہ ٹھیرا لو۔ میں نے ان کو مطلع کیا کہ وہ بے دال کے بودم ہیں۔ اس میں زیادہ خرچ ہو جائے گا،اس لیے یکے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اب یکوں کی تلاش شروع ہوئی۔ مسعود صاحب نے ایک یکے کی طرف اشارہ کیا۔ اس میں مضبوط اور تندرست جانور جتا ہوا تھا۔ میں نے ان سے انگریزی میں کہا کہ تم میں شئے لطیف کی کمی ہے ورنہ تیز یکہ نہ ڈھونڈتے۔ اول تو یہ کرایہ زیادہ مانگے گا۔دوسرے آندھی پانی کی طرح گئے اور آندھی پانی کی طرح آئے، اس طرح کہیں سیر ہوتی ہے۔ آخر ایک یکہ مطلب کا مجھے نظر آہی گیا۔ مٹیار چھوٹا سا ٹٹو ،مونڈی نیچے کیے تین ٹانگوں پر حالت مراقبہ میں تھا۔ چھوٹے سے یکے میں ٹھیٹ لکھنوی یکے والے ،پٹھے ،اس پر چار انچ کی دو پلی ٹوپی ،چوڑی دار پائجامہ ،انگر کھا پہنے ،پیر سیکڑے ،گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے ،غین بیٹھے تھے۔ میں نے مسعود کی طرف غرور کے طور سے ہنستے ہوے کہا ؛ دیکھو وہ ہے یکہ جس پر ہم چلیں گے‘‘۔
مسعود بولے ؛ ‘‘ مالک اور گھوڑا دونوں افیونی۔‘‘ مجھے بہت برا معلوم ہوا لیکن پھر بھی میں نے تمکنت سے ان کو سمجھا دیا‘‘میاں ابھی صاحبزادے ہو ،ناسمجھ ہو،۔ افیمچی نہیں ہیں، یادرفتگاں میں غرق ہیں۔ اجڑے ہوے دربار اودھ کی نشانیاں ہیں۔ تم ان کی قدرو منزلت کیا جانو۔‘‘ یہ کہہ کر میں یکے کی طرف بڑھا۔ اب سوچا کہ آواز دوں ۔ جگاؤں توکن لفظوں سے کہ تہذیب سے خالی نہ ہوں ،محاورے کے خلاف نہ ہوں ۔کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ایک ترکیب ذہن میں آئی ۔ ڈرتے ڈرتے سوتی ہوئی متبرک ٹھوڑی پر انگلی چھوائی تو یکے والے صاحب اس زور سے اچھل پڑے کہ میں بھی اچھل پڑا ۔ یکہ بھی ہل گیا۔ ٹٹو کو بھی کچھ ہوش آگیا۔ دم کی چوری کو ایک دفعہ دائیں اور ایک دفعہ بائیں طرف ہلا کر پھر غوطے میں پڑ گیا۔ یکے والے صاحب نے مجھے غور سے دیکھا اور پھر لاحول اس پیاری قرأت سے ادا کی کہ اس میں چار عدد نون غنے شامل کر دیے۔ میں نے داد دی، ’’سبحان اللہ!آپ تو اچھے خاصے قاری ہیں۔ مگر اس وقت کی قرأت بے موقع ہے، میں تو انسان ہوں۔ ‘‘ بڑے میاں بہت بگڑے ،’’ واں حضت واں ! یہ بھیں کوئی انسانیت ہیں کہ اچھیں خاصیں بیٹھے بٹھائیں مرد آدمی کو چوکاں دیاں اور پھر اب فرماتے ہیں کہ لا حول نہ پڑھیں۔ ہم تو دو روپیوں کا آسراں لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ بڑے آئیں آکے چوکادیاں۔‘‘میں نے کہا، ’’ارے بھائی اسی واسطے تو چونکا دیا کہ کچھ مزدوری بھی کرو گے کہ سوتے ہی رہو گے؟ اچھا بتاؤ ،کتنے گھنٹہ ہو گا۔ ‘‘ بڑے میاں نے سنبھل کر فرمایا،’’ میاں گھنٹے کاں حساب تو فیشن والے تانگوں سے کیجیے ۔ آپ کو چلنا کہاں ہے یہ تو فرمائیں ۔ ’’ میں نے بتایا کہ ’’ہم لوگ پردیسی ہیں شہر کی سیر کرنا چاہتے ہیں ۔ چوک سے ہوتے ہوئے حسین آباد اور آصف الدولہ کا امام باڑہ دیکھتے ہوئے واپس آ جائیں گے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ چار کوس کا چکر ہے ،لیکن پردیسی ہونے کی وجہ سے ایک ہی روپیہ لے لیا جائے گا۔ میں خوش ہو گیا ،لیکن مسعود کا منھ کلکتہ سلیپر کی طرح کھنچا ہی رہا۔ خیر ہم دونوں بیٹھ گئے ۔ میں نے یکے والے صاحب کا نام پوچھا ۔ معلوم ہوا کہ نبن صاحب ۔ میں نے کہا،’’ تو پھر اب چلیے ۔’’ جواب ملا، ’’ جیں تو چلتاں ہوں، آپ لوگ تیار رہیں۔ ‘‘ میں نے کہا،’’ بسم اللہ ۔ نبن صاحب نے پینترا بدل کرفٹ بھر کی لکڑی میں بالشت بھر کا بندھا ہوا تاگا گھوڑی کے کولھوں پر چٹ سے لگایا۔ ’’ ٹنخ ٹنخ ،چل ں چل ں ‘‘ کا حکم گھوڑی کو دیا۔ اس نے چھ دفعہ سر کو اوپر نیچے کیا جیسے کوئی بڑھیا او کھلی میں موسل چلاتی ہو، اور بس ۔ میں نے کہا،’’ جانور تو چلتا ہی نہیں ۔ ‘‘ فرمایا، ’’ چلتیں ہی چلتیں چلے گا۔ منھ کا نوانلا تو نہیں ہے۔ ‘‘
جب آخر گھوڑی چل ہی پڑی تو میں نے پھر نبن صاحب سے گفتگو شروع کی۔ سب ہی طرح سے انھیں چھیڑا،مگر اللہ کے بندے نے ہاں اورنہیں کے دو جوابوں میں ٹال وال دیا۔ کچھ باتیں نہ کیں، خاموش ہی رہے۔ چلتے چلتے ایک اجڑے سے بازار میں جا رہے تھے کہ نبن صاحب بولے : (اب نبن صاحب کی گفتگو بغیر نون غنوں کے لکھی جائے گی تاکہ پڑھنے میں آسانی ہو۔ ہاں شائقین اگر چاہیں تو خود متواتر غنے نون ملاتے جائیں۔ )
نبن صاحب :میاں صاحب زادے، اب دیکھیے میں تو آپ کو لیے ہی چلتا ہوں۔ مزدوری تو میری ہو ہی جائے گی ۔ اگر آپ لو گ مناسب سمجھیں تو مجھے چار آنے دے دیں۔
مسعود : واہ جی واہ ،ابھی سے؟ اور بڈھن ، کرو گے کیا ؟
نبن صاحب : حضور ،ذری کے ذری آپ یہیں توقف کریں ۔ بندہ دو چھینٹے لگا کر ابھی آتا ہے۔ طبیعت سست ہو رہی ہے۔ چونچالی آ جائے گی ۔ پھر دیکھیے ،حضور کو کیسی سیر کراتا ہوں۔
مسعود تو نہیں نہیں کرتے ہی رہے، مگر مجھے ترس آیا، پیسے میری ہی جیب میں تھے،نکال کر دے دیے۔ بڑے میاں بولے ،’’ واللہ !شرافت اسے کہتے ہیں۔ اے میاں صاحب سلامت رہیے۔‘‘ یہ کہہ، یکے کو ایک گلی کے پاس چھوڑ، چل دیے۔ آدھ گھنٹہ ہم دونوں نے انتظار کیا۔اس کے بعد آپ آئے۔ اور اب جو آئے تو نہایت شگفتہ ۔ خو ب باتیں کرنا شروع کردیں۔
نبن صاحب:میاں کیا پوچھتے ہیں لکھنؤ کو ۔اب کیا۔ اجڑ گیا۔ نہ وہ زمانہ ہے نہ وہ باتیں ہیں۔ اسی قیصر باغ میں کیا کیا جشن ہوتے تھے ۔ کیسے مہ وشوں کے مجمعے رہتے تھے۔ کیا کیا محفلیں ہوتی تھیں۔ اب کیا ہے۔ ان آنکھوں سے وہ زمانہ بھی دیکھا اور میاں یہ بھی دیکھ رہے ہیں۔
مسعود : بڑے میاں ، آپ بھی نوابوں میں سے ہیں؟
نبن صاحب : اجی سرکار،کوئی نوابوں ہی پر تھوڑے موقوف ہے۔ ہم نے سب کچھ دیکھ ڈالا۔ ہمارے نوابوں سے بڑھ کر وقت ہو گئے اور گزر گئے ۔ جدھر سے ہم نکل جاتے تھے لوگوں کی نظریں اٹھتی تھیں۔ اب کیا رہا ہے۔ سانسوں کاشمار ہے ۔ زندگی کے دن پورے کرتے ہیں ۔ سب چل دیے،ہم رہ گئے ۔ نواب مسعود قدر اور پہلکی قدر ہمارے لنگوٹیا یارتھے۔آج چھ سات برس کا عرصہ ہوا وہ بھی چل دیے۔
مسعود: ارے واہ رے بڈھے ! میں تو زندہ بیٹھا ہوں۔ مجھے مارے ڈالتا ہے !
میں: چپ رہو جی ،بد تمیزی مت کرو۔ جی نبن صاحب ،تو آپ کا وقت بگڑ گیا؟ پہلے آپ رئیس ہو ں گے۔
نبن صاحب: اے صاحب،رئیس کیا چیز ہیں۔ دولت ہماری غلام تھی غلام ۔ ہم روپے پیسے کی فکر نہ کرتے تھے ۔ جوانی کی امنگیں تھیں۔ اس وقت کا خیال نہ تھا۔ خدا طرح طرح سے دیتا تھا اور ہم لٹاتے تھے۔ ایک ہی جلسے میں رات بھر میں سو اشرفیاں اللہ رکھی پرسے نچھاور کر دیں۔ عیش باغ میں ساون کا میلہ ۔ ہائے ہائے ، نہ پوچھیے ۔ ہم دولھا بنے پھرتے تھے۔ لوگ اس کے متمنی ہوتے تھے کہ ہم ان سے بات کریں۔
اے مصحفی میں روؤں کیا اگلی صحبتوں کو
بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئے ہیں
پھر اللہ نے دیا اور پھر مٹا دیا۔ اور پھر دیا اور پھر مٹا دیا۔ اے صاحب ،ایک دفعہ آخری موقع پھر ہاتھ آیا۔ مگر نصیبوں کی خرابی سے کچھ نہ رہا۔ لیکن میاں ، اب کی دفعہ میرا قصور نہ تھا۔ جو کچھ کیا اغن صاحب نے کیا۔ مٹا دیا اغن صاحب نے ۔ اب وہ بھی روتے ہیں اور ہم بھی ہاتھ ملتے ہیں۔ میاں صاحبزادے ،مقدر کی خرابی اسے کہتے ہیں ۔ ذری سی چوک میں آدمی مارا جاتا ہے۔ کیا جو کچھ تو اغن صاحب نے ہی کیا۔ (ماتھے پر ہاتھ مار کر ) افسوس، کاش مجھے معلوم ہوتا! میں کیا جانتا تھا۔ مگر صاحب ،چوک مجھ سے بھی ہو گئی۔
مسعود: ارے بھائی کچھ بتاؤ تو سہی کہ کیا ہوا تھا۔
نبن صاحب: جی بتاتا ہوں:لیکن وہ میاں ایک چونی اور دے دیجیے ۔ میری آدھی مزدوری تو دیکھیے اللہ آپ کا بھلاکرے ہو ہی گئی ہے اور تکلیف نہ ہو تو ذری دیر بیٹھے رہیے۔ میں ابھی ابھی آیا۔
یہ کہہ، چونی اورلے ، بڑے میاں پھر یکے سے اتر کر ایک گلی میں چلے گئے ۔ آدھ گھنٹے بعد پھر تشریف لائے ۔ گھوڑی کو بمشکل تمام جب رفتن مصدر کے گےئر میں ڈال دیا تو پھر ہم دونوں نے اصرار کیا کہ ہاں صاحب وہ اغن صاحب نے کیا ستم ڈھایا تھا ہم کو بھی تو معلوم ہو۔
نبن صاحب۔ اے حضت ،نہ پوچھیے،ستم ہی ڈھادیا،کہیں کا بھی نہ رکھا۔ ورنہ آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔ صاحب ،قصہ یہ ہے کہ خدا مغفرت کرے استاد فدن صاحب مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے، اور میں بھی انھیں اسی نظر سے دیکھتا تھا۔ خدا غریق رحمت کرے، بڑے خوبیوں کے آدمی تھے،مگر ذرا سنکی تھے۔ جس بات کی دھن ہو گئی تو ہو گئی۔ ایک دفعہ جو مچھلی کے شکار کی دھن لگی تو اب طرح طرح کی ڈوریں بندھ گئیں۔ بیسیوں چارے اور جلاب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تیار کر لیے۔انگل انگل بھر کی مچھلیوں سے لے کر دو دو گز کی مچھلیاں پکڑ ڈالیں۔ کیمیا کا شوق ہوا تو سیکڑوں طرح کی جڑی بوٹیاں ڈھونڈ لائے۔ غرضیکہ یہی رہتا تھا۔ کبھی رمالی ہے ، کبھی جادو،کبھی عملیات ہیں۔ انھیں باتوں کی وجہ سے ہم لوگ انھیں استاد کہتے تھے۔ یکہ و تنہا رہتے تھے ،یہیں آپ کے حسین آباد میں۔ دو کوٹھڑیاں ، ایک دلان تھا۔ اس میں پڑے رہتے تھے۔ عجیب صفتوں کے آدمی تھے سرکار۔ ایک دن دوپہر کو ،برسات کازمانہ تھا،میں ٹہلتا ہوا ان کے پاس چلا گیا۔ خاموش بیٹھے تھے۔ میں بھی جا کر پاس بیٹھ گیا۔ میں نے کہا ،’’ کہیے فدن صاحب،آج کل کیا سنک ہے ؟‘‘ ذرا تنک مزاج بھی تھے ،بگڑ کر بولے ،’’ سنک ہے سنک ۔۔۔تم سنک ہی سمجھتے ہو؟ سنو تم نے کبھی کشفِ نفس کا عمل بھی سنا ہے ؟ کبھی عملِ تقلیدِ خیال بھی سنا ہے؟ عملِ پرواز بھی سنا ہے ؟’’میں نے کہا، ’’نہیں حضت،میں نے تو ان میں سے کسی کا نام بھی نہیں سنا۔‘‘بولے، پھر کیا بک رہے ہو؟’’ میں نے کہا،’’ قبلہ کچھ تو بتائیے کہ یہ کیا ہوتے ہیں۔ ‘‘ ایک قلمی نسخہ پاس رکھا تھا۔ اس پر ہاتھ رکھ کر بولے ،’’ یہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ دو لفظوں میں تم کو بتا دوں ؟ میاں دن چاہییں دن۔ ہفتوں لگ جائیں گے۔ ‘‘ میں نے کہا،’’اچھا یہ بتائیے کہ ان عملیات سے کیا کیا فائدے پہنچتے ہیں۔‘‘ بولے ،’’ فائدے بڑے عجیب عجیب ہیں۔ مثلا ایک فائدہ یہی ہے کہ انسان اس عمل سے اڑ سکتا ہے۔ تمام خیالات فاسق کو علیحدہ کر کے دل اور دماغ کو رجوع کرنے سے اول تو انسان کا رفتہ رفتہ وزن کم ہوتا ہے اور پھر جس میں جیسی مقدرت اور قدرت ہو ،کافی مشق کے بعد اڑنے بھی لگتا ہے۔ وزن تو میں اپنا زائل کر لیتا ہوں۔ ہاں اڑنے میں ابھی دیر ہے۔ صبح کو ایک انگل کے قریب زمین سے اونچا ہوا تھا۔ ‘‘
میاں ،آپ یقین کیجیے کہ مجھے ہنسی آ گئی۔ استاد فدن صاحب کو میرا ہنسنا بہت ناگوار ہوا۔ کہنے لگے،’’ اچھا لے دیکھ !‘‘ یہ کہہ کر میرے سامنے بالکل سیدھے ساکت کھڑے ہو گئے ۔ کوئی دس منٹ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ وہ تو خود بخود زمین سے اونچے ہونے لگے ۔ میں نے جلدی سے چھت کو دیکھا مگر وہاں رسی نہ کچھ۔ کوئی ایک بالشت اٹھ گئے ہوں گے کہ دھم سے نیچے آگئے۔ مجھے سخت حیرت ۔ بڑا پریشان ۔ میں نے کہا،’’ استاد یہ نہیں۔ اب کی پھر اٹھو تو جانیں ۔ ‘‘استاد تاؤ میں پھر سیدھے کھڑے ہوگئے ۔ کوئی دس منٹ کے بعد میاں ،یقین جانیے،ان کے پیر تو زمین سے اونچے ہونے لگے۔قریب ڈیڑھ بالشت کے اونچے ہو کر کوئی ایک سیکنڈو ہیں رکے رہے اور پھر دھم سے آئے ۔ لیجیے میاں ، چوک تو آگیا۔ گول دروازہ یہی ہے۔ اس کے اندر چوک ہے آپ لوگ جا کر سیر کر آئیں اور میاں اللہ سلامت رکھے ،ایک چونی اور دے دیجیے تو میں دو چھینٹے لگا لو ں۔
نبن صاحب چھینٹے لگانے چل دیے، اور ہم دونوں اس گندے تنگ بازار میں پچاس ساٹھ قدم جا کر واپس آگئے اور پھر یکے میں بیٹھ گئے۔ آدھے گھنٹے بعد جو نبن آئے تو مسعود نے کہا، ’’ بس اب واپس ۔ آپ ہم کو امین آباد ہی پہنچا دیں۔ سیر تو چکی ۔ چھ بج رہے ہیں ، آٹھ بجے کی گاڑی سے ہم کو جانا ہے ۔ ‘‘ چناچہ یکہ پھر واپس ہو لیا اور نبن صاحب نے داستان شروع کردی۔
نبن صاحب : جی حضورتو میں کیا کہہ رہا تھا؟ بھول گیا۔
میں: ایک بالشت زمین سے اونچے ہو کر دھم سے پھر زمین پر آگئے ۔
نبن صاحب : جی جی ۔ حضور دیکھیں بندے کو کس قدر حیرت اور پریشانی ہوئی ہو گی۔ واللہ ! میں تو سکتے کی سی حالت میں رہ گیا۔ آنکھیں ملیں۔ لاحول پڑھی۔ اپنے ہاتھ میں چٹکی لے کر دیکھی کہ کہیں سو تو نہیں رہاہوں۔ دماغ پریشان ہو گیا تھا۔ میں نے کہا،’’ استاد، ذرا تسلی کرو۔ میں اپنے ہوش حواس درست کر لوں ذرانگالی نکالو،چراغ جلاؤ۔ ‘‘ استاد فدن صاحب اٹھے۔ سامان درست کیا ۔ دو ایک دم لگا کر میں نے ان سے بھی اصرار کیا کہ بھائی صاحب ،آپ بھی د م لگا لیں۔ خدا مغفرت کرے استاد بڑے خوبیوں کے آدمی تھے۔ دوستوں یاروں کی خاطر سامان دلچسپی رکھتے تھے۔ خود زیادہ شوق نہ تھا۔ دوستوں کے اصرار پر ان کی دل شکنی بھی نہ کرتے تھے، شریک ہو جاتے تھے۔ جب زمانہ بھی اور تھا۔ ہر چیز سستی تھی۔ خدا کی مار اس زمانے پر ! سرکار ، دو ہی چھینٹے لیتے ہیں اور چونی کٹھیا سی نکل جاتی ہے ۔ بندہ پرور ، ایک وہ وقت تھے۔ ڈبل کے چار چسکے ،اور چائے کی پیالی گھاتے ہیں۔ اے قبلہ،یہیں گول دروازے میں ننھی بلاقن کی دکان پر ملتے تھے۔
مسعود: (جھلا کر)جہنم میں گئی ننھی بلاقن ۔ تمھارے استاد کا کیا حشر ہوا؟
نبن صاحب: اے ہاں میاں ،دیکھیے بات میں بات کہاں سے کہاں چلی گئی ۔ تو قبلہ ،جب نشے پانی سے چونچال ہو لیے تو ہم نے پھر کہا،‘‘اچھا استاد ،اب سہی۔ ‘‘ استاد کو بھی مزہ آنے لگا تھا۔ بولے، ’’میں تو بھائی بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہوں۔ مشق پر موقوف ہے۔ دماغ کا کام ہے۔ جس قدر دھیان ادھر ہو اتنا ہی اچھا نتیجہ نکلتا ہے۔ سب دماغی طاقت کا کام ہے ۔ انسان کے ارادے پر منحصر ہے ۔ لو دیکھو ،اب کی دو فٹ تک اٹھنے کی کوشش کرتا ہوں۔’’ استاد فدن صاحب پھر جو سیدھے تانت سے کھڑے ہوئے تو اب کی توایک ہی منٹ کے بعد اٹھنے لگے ،اور اٹھتے اٹھتے چھت میں جا لگے۔سر دھنی میں چھو گیا۔ سرکار، اس زمانے کے مکانوں کی چھتیں بھی یونہی سی اونچی ہوتی تھیں۔ ایک منٹ تک فدن صاحب کا سر دھنیوں کے جالوں میں گھسا رہا۔ اس کے بعد ایک دفعہ دھم سے گر ہی تو پڑے۔ اب کی سنبھل نہ سکے، کہنیوں کے بل گرے ۔ میں نے لپک کر اٹھایا۔ سر کا جالا چھڑایا۔ کہا،’’ بھائی ،دم لے لو ،اطمینان سے کام کرو۔ واللہ !یہ تو بہت بڑی بات ہاتھ آگئی ہے۔ دیکھو خدا کو کیا منظور ہے۔ ‘‘ میں یہی کہہ رہا تھا کہ کوٹھڑی کا دروازہ چوں سے بولا ۔ دیکھتا ہوں کہ اغن صاحب سر ڈالے ہیں۔ بولے ،’’ استاد ،کیا ہو رہا ہے؟ میں آؤں؟‘‘ اتنا کہا اور ہنستے ہوئے آگئے ۔ اب کیا کر سکتے تھے۔ دراصل مجھ سے ہی غلطی ہو گئی۔ مجھے پہلے ہی سے کنڈی لگا لینی چاہیے تھی۔ میں نے اغن صاحب سے کہا ،’’ اچھا اب کنڈی لگائے آؤ۔ حضرت کو جب سب معلوم ہوا،بولے،’’تو بھائی،باندھو سوپ استاد کے شانوں پر ۔ ہم بھی دیکھیں کیسے اڑتے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا ،’’ پھر وہی سفلوں کی سی باتیں شروع کیں! واللہ اچھا نہ ہوگا۔ یہ موقع دل لگی کا ہے؟ صبر سے بیٹھو ،استاد دم لے لیں۔ ‘‘ اغن صاحب بولے ،‘‘ دم تو یارو،میں بھی لگاؤں گا۔ تم لوگ تو رچے ہوئے ہو۔ کوٹھڑی مہک رہی ہے۔ ‘‘خیرمیاں ،دو دو چھینٹے لے لیے۔ ہائے واللہ ! استاد کا بھی کیا دم تھا۔ پھر اصرار کرنے سے شریک ہو گئے۔ تو میاں استاد پھر کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا ،’’ ٹھیرو ،تسلی کر لو۔‘‘ جلدی سے ان کے پیروں کے نیچے ان کا لحاف تو شک لاکر بچھا دیا اور کہا،’’لیجیے استاد اب غم نہیں،چاہے سر کے بل بھی غوطے کیوں نہ ماریے۔‘‘استاد کو بھی اطمینان ہو گیا۔ پھر چھت میں سرلگا کر تین چار منٹ معلق رہے اور آگرے۔ میں نے کہا،’’ استاد، استادی تو جب ہے کہ آہستہ آہستہ نیچے آئیے۔ یہ بھی کیا کہ ڈھیلے کی طرح بھد سے نیچے آگرے ۔ اے جب دماغی قوت اور ارادے ہی پر موقوف ہے تو لگاؤ کد وکا زور۔ ‘‘استاد نے کہا ،’’ اچھا۔‘‘ پھر کھڑے ہو گئے۔ اب کی گرے تونہیں مگر ایسے بھی نیچے نہیں ہوئے جیسے کسی کی شرمائی ہوئی نظریں ۔ کٹی کنکیا کی طرح اتاتے پتاتے نیچے آگئے ۔ میں نے کہا،’’ خیر، بسم اللہ بری نہیں ہے۔ پھر کوشش کرو،یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ ‘‘حضور تین چار دفعہ کے بعد اب تو بالکل سہولت سے اترنے لگے ۔ اغن صاحب اور میں دونوں دم دلاسا دیتے رہے۔ لیکن صاحب اغن کی وہی نادانی کی باتیں۔ اب سرہیں استاد کے ۔ میں نے کہا ،‘‘ نہیں،اب زیادہ پریشان نہ کرو ۔ تھک گئے ہوں گے،آرام کرنے دو۔ چلو اب چلیں۔ ’’ میاں میں ان کو اپنے ہی ساتھ گھسیٹ لایا۔ راستے میں لگے اغن صاحب زمین آسمان ملانے ۔ کبھی کہیں،’’ استاد کو کلکتہ لے چلیں گے۔ ‘‘ کبھی کہیں،’’ ٹکٹ لگائیں گے، بڑے لاٹ کو تماشا دکھائیں گے۔ ‘‘ میں نے کہا،’’ ابھی رسانیت سے کام لو رسانیت سے ۔ روپیہ کمانے کے تو اب لاکھوں طریقے ہیں ۔روپیہ تو اب بہا بہا پھرے گا۔ لیکن پہلے استاد کی مشق پوری ہو جانے دو۔ ابھی تو کھڑے ہی اٹھتے ہیں۔ لیٹ کر اٹھنا آ جانا چاہیے اور سہولت سے اترنا چاہیے۔ بلکہ اور بھی اچھا یہ ہو کہ پینگ لیتے ہوئے نیچے آئیں اور پھر اٹھتے چلے جائیں۔ ایک ہاتھ پھیلا ہوا اور دوسرا سینے پر ،یہ معلوم ہو کہ خود تو سو رہے ہیں اور کوئی پینگ دے رہا ہے۔ لیکن دیکھو یاراغن ،یہ سب خاک میں مل جائے گا جو ابھی کسی کو بھی اس کی رتی بھر بھی خبر ہو گئی ۔ ابھی تو یہ سب راز ہی رہنا چاہیے۔ اور بھائی ،آمدنی میں بھی استاد کا حصہ اول رکھنا ہوگا۔ دیکھو تم جلدی نہ کرو ۔ سہولت سے کام لو! میں استاد کو راضی کر لوں گا ۔ روپے میں چھ آنے ان کے اور پانچ پانچ آنے ہم دونوں کے۔ ‘‘ اغن صاحب کی عقل میں بات ذرا دیر میں آتی ہے،مگر میاں میرے سمجھانے سے وہ سمجھ گئے۔ دوسرے دن استاد کو میں نے سب اونچ نیچ سمجھائی۔ ہائے کیا معقول آدمی تھے! میاں میری سب باتوں پر راضی ہو گئے۔ اب ہم دونوں نے پھر انہیں مشق کرانی شروع کر دی۔ اے حضت ،شام تک استادلیٹ کر بھی اٹھنے لگے،اور نہایت سہولت سے ۔ جیسے وہ لیٹے لیٹے آہستہ آہستہ زمین سے چھت تک جاتے تھے ویسے ہی آہستہ آہستہ پھر نیچے آجاتے تھے۔ شام تک چھت میں جالوں کا نام نہ رہا۔ جب اندھیرا ہو گیا تو میں نے کہا ،’’ لو دن بھر ہو گیا۔ آؤ ٹہل آؤ! بھائی تمھاری صحت بھی تو مقدم ہے۔ میوے والی گلی تک ہو آئیں۔ ‘‘میاں یہ سرا بھی ایک خاص اڈا تھا۔ ہا ہا ! سب مٹ گیا۔ ہاں میاں ہم تینوں چلے۔ مگر میں نے دیکھا کہ استاد کی چال میں کچھ فرق ہے۔ کچھ ایسے چل رہے تھے جیسے اجی یہ بچوں کے کھیلنے کے ربڑ کے پھکنے ہوتے ہیں نا۔ ان میں ہوا بھر کر اگر لڑھکایا جائے تو وہ اچھلتا اچھلتا لڑھکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے استاد چل رہے تھے۔ میں نے کہا،’’واہ استاد ،کیا بات ہے!اب جو صورت دیکھتا ہوں تو پریشان۔ میں نے کہا،’’کچھ بتاؤ تو!‘‘ بولے ،’’ نہ معلوم کیا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں روئی کا گالا ہو گیا ہوں۔‘‘میں نے ان کا ہاتھ ٹٹولا‘‘۔ اماں جاؤ بھی، نہ کہیں‘‘۔ استاد بولے۔’’یہ مطلب نہیں ہے۔ مجھے پکڑ کر اٹھاؤ تو۔‘‘ اغن نے دونوں ہاتھ ان کی کمر پر رکھ جو ذری یونہی سازور لگایا تو کندھوں سے اونچا اٹھا لیا۔ ہیں یہ کیا !میں دیکھوں حضت، ان کا تو وزن ہی غائب تھا۔ استاد بولے، ’’میں سمجھتا ہوں اگر اُچکوں تو حسین آباد کاامام باڑہ اچک جاؤں۔ ‘‘ میں نے کہا،’’ خدا کا واسطہ ایسا یہ نہ کرنا ۔ اول تو گناہ عظیم ،اور پھر تمام راز افشا ہو جائے گا۔ میں جادوگر کیسے بنوں گا۔ ‘‘خیر میاں،چوک قریب آگیا تھا ،آتے جاتے لوگوں کی نگاہیں پڑتیں، اس لیے ایک طرف سے میں دوسری طرف سے اغن صاحب ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان کو دبائے ہوئے لے کر چلے۔ وہاں پہنچ کر دو ایک چھینٹے استاد کو بھی لگوا دیے اور اسی طرح ان کو واپس لائے۔ اب میں نے ہزارا غن کو منع کیا مگر نہ مانے۔ استاد کو پھر کچھ دیر مشق کرائی۔ اب استاد لیٹے ہی اونچے ہوں،چھت کے ایک کونے سے پینگ لیتے ہوئے زمین تک آئیں،اور ویسے ہی اٹھتے ہوئے دوسرے کو نے میں چلے جائیں۔خیر میاں،استاد کو لٹاکر ہم لوگ چلے آئے۔ صبح کو مجھے جانے میں دیر ہو گئی۔ چھمی کے ہاتھ میں دنبل نکلا ہوا تھا،اس میں نشتر لگوانے انھیں شاہ مینا کے اسپتال لے گیا۔ جب یہاں سے فارغ ہوکر استا د کے مکان پر پہنچا تو اغن صاحب دورازے پر کھڑے ۔ منھ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے کہا،’’ خیر تو ہے ؟‘‘کہا،’’ غضب ہو گیا!‘‘ میں نے کہا،’’اماں کچھ تو کہو۔ ‘‘بولے ،’’ کچھ نہ پوچھو۔ ’’ اے بھائی بتاؤ تو سہی !اماں استاد کیسے ہیں؟‘‘ میاں یقین مانیے کہ اغن کے آنسو نکل پڑے ۔ بولے،’’اندر چل کر دیکھ لو۔ ‘‘ میرا دل دھک سے ہو گیا۔ اندر گیا۔ استاد اچھے خاصے چارپائی پر پیر لٹکائے بیٹھے تھے۔ ہاں صورت متفکر تھی ،اور ان کی گود میں سل رکھی تھی۔میاں میں اغن کی طرح تو ہوں نہیں۔ میں جا کر اطمینان سے ان کے پاس مونڈھے پر بیٹھ گیااور پوچھا،’’ کہیے استاد،کیا حال ہے؟‘‘ استاد کچھ دیر تو بولے نہیں،پھر کہا،’’بات یہ ہے کہ ارادے کی قوت ضرورت سے زیادہ صرف کر دی۔ میرا وزن گھٹتے گھٹتے بالکل ہی غائب ہو کر اب نفی کی طرح رجوع ہے۔ رات بھر پلنگ پر پیٹھ نہیں لگی۔ وہ تو کہو لحاف میرا بھاری ہے۔ ساری رات اسی سے چپکا رہا۔ صبح رفع حاجت کے واسطے اٹھا تو چھت میں جا لگا۔ جب یہ آئے اور انھوں نے پیر پکڑ کر کھینچے تو نیچے آیا۔ بچارے نے پیشاب پیخانہ کرایا،منھ دھلایا ۔ اب اس سل سے دبا بیٹھا ہوں۔‘‘ حضور یہ سب سن کرفکر تو مجھے بھی ہو گئی مگر میں اپنے کو تھامے رہا۔ کچھ غور و فکر کے بعد میں نے اغن کی طرف دیکھ کر کہا،’’ کیوں میاں ،ہو نہ صاحبزادے !تم استاد کو ہولا ہولا کر مار ہی ڈالتے ۔ اللہ نے خیر کر لی جو میں جلدی آگیا۔ ‘‘میں نے استاد کو دلاسا دیا،’’آپ پریشان نہ ہوں۔ ‘‘حضور،میں ان کے جوتے لے کر چوک گیا۔ ایک موچی کو دونی تھمائی اور موٹے موٹے سیسے کے سول چڑھوا کر لے آیا۔ جوتے استاد کو دیے۔ کہا،’’لو پہنو۔چلو پھرو۔پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہاں اب الٹی مشق کرنا پڑے گی۔ ‘‘ استاد جوتے پہن کر خوش تو ہو گئے لیکن ان کے دل پر جیسے وحشت سی چھا گئی۔ دماغ کا کام تھا۔ ارادے کی قوت لگانا تھی۔وہاں ان کی طبیعت اچاٹ۔ کمر میں رسی بندھی ہے، چھت میں چمٹے ہیں۔ ہم دونوں ان کو نیچے سے ڈھارس دے رہے ہیں۔ ’’ ہاں بھائی فدن صاحب، لگاؤ اپنے ارادے کا زور اور اترو نیچے!‘‘ وہ ایک دو انچ نیچے آتے ہیں اور پھر چھت میں جا چپکتے ہیں۔ آخر میں نے اغن کو اشارہ کیا کہ تم چپ رہو۔ استاد کو ڈوری پکڑ کر نیچے گھسیٹا ،کہا ،’’بیٹھو،جوتے پہن لو۔ دو ایک چھینٹے لے لو۔ گھبراتے کیوں ہو؟ کون سا غضب ہو گیا؟اماں پہلے اوپر کو زور لگاتے تھے،اب نیچے کو لگانا ہے۔ بات تو وہی ہے۔ قوت ارادہ ہاتھ سے نہ جانے دو۔ ‘‘ استاد نے کہا ،’’ مجھے نیند آرہی ہے ،سو ؤں گا۔ ‘‘میں نے کہا ،’’کیا حرج ہے۔‘‘ ان کے پلنگ کے نیچے بستر کو ستلیوں سے تان دیا اور استاد کو لٹا دیا۔ استاد اس کے نیچے چپک گئے ۔ اب میں نے پھر اغن صاحب کو سمجھایا کہ ’’دیکھو بھائی،استاد پریشان ہیں۔ ان کا دل بہلاؤ۔ تفریح کراؤ ۔ جلدی نہ کرو ۔ اب الٹی مشق کروانا ہے۔ ان کا دل و دماغ حاضر ہونے دو۔ ‘‘ سہ پہر کو استاد کو جگایا ،منھ ہاتھ دھلائے ۔ چار چھ چھینٹے ہم دونوں نے لگائے۔ استاد کو بھی دو تین چھینٹے لگوا دیے۔ پھر ان کو لے کر گول دروازے سے ہوتے ہوئے میوے والی سرائے گئے۔ پرانے دوست احباب کا مجمع تھا۔ بات چیت میں دل بہلا۔ استاد گو عادی نہ تھے، یہاں افیون نہایت اعلی قسم کی ہوتی تھی ،خوب گولیاں اڑائیں۔ شرابور ہوگئے ۔ ا ن کا غم غلط ہوتا دیکھ کر مجھے بھی خوشی ہوئی۔ اب ہم تینوں پھر چلے۔ اندھیرا ہو گیا تھا۔ دوسری تاریخ کا چاند تھا۔ ہلکی ہلکی چاندنی تھی۔ یہ ٹھیری کہ گومتی کے کنارے سیر کی جائے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لگی۔ استاد کی طبیعت تو سنکی ہی تھی،سنک آ گئی۔ ’’میں تو سوؤں گا۔ ۔‘‘ نشے کے ایسے زیادہ عادی بھی نہ تھے ،ان کا کہنا بھی بے جا نہ تھا۔ مگر وہاں ہم ان کو کہاں سلاتے ۔ ہزار سمجھایاگیا مگر نہ مانے۔ وہاں شاہی کے پرانے گرے پڑے خالی مکان تھے ۔ استاد ایک کو دیکھ کر بولے،’’میں یہاں سوؤں گا۔ ‘‘ نہ مانے۔ خیر،میں نے جیب سے رسی نکالی،استاد کی کمر میں باندھی۔ جوتے اتارے ۔ ان کو ڈیڑھ دو گز اونچا کر کے رسی اغن صاحب کو دی کہ پیر کے نیچے دبالیں۔ ہم دونوں اکڑوں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں استاد سو گئے ۔ میں نے اغن سے کہا،’’دیکھو،استاد کی ضد ہے۔ خیر یونہی سہی۔ لیکن پندرہ منٹ سے زیادہ نہ سونے دیں گے۔‘‘ میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ کس طرح کا شامیانہ ہونا چاہیے۔ کرسیاں بنچیں کیسی ہوں۔ ٹکٹ درجہ اول دس ہزار روپے کا ہو کہ زیادہ کا۔ اور ادھر اغن صاحب خود پینک میں آکر مجھ پر لڑھک پڑے۔ میں بھی چونک پڑا۔ بولے،’’اے ہے،رسی چھوٹ گئی۔‘‘ میں نے کہا ،’’واللہ تم بھی عجیب انسان ہو۔ فدن صاحب اگر جاگ پڑے اور برسوں کی پرانی چھت اور جالوں میں اپنے کو چمٹا ہوا پایا ،بہت بگڑیں گے۔ یہ کیا کیا!‘‘ میاں امین آباد آگیا۔
ہم دونوں چونک پڑے ۔ واقعی امین آباد آگیا تھا۔ ہوٹل سامنے تھا۔ مسعود نے گھڑی جو دیکھی بو کھلا گئے۔ ’’ یار پونے آٹھ ہو گئے۔ بڑے میاں یہاں سے اسٹیشن کا راستہ کتنی دیر کا ہے؟ ‘‘
’’
اے حضور،دس منٹ کا راستہ ہے،بات کرتے میں تو اسٹیشن آتا ہے۔ ‘‘
مسعود:اچھا تو ہم کو اسٹیشن تک اور چھوڑ دو۔ وہ سامنے ہوٹل میں سامان ہے ہم ابھی رکھ لیتے ہیں۔
’’
اے حضور مجھے کب انکار ۔ میں خدمت کے واسطے حاضر ہوں۔ پر میاں، برا نہ مانیے گا۔ یہاں تک کی مزدوری میں وہ چونی اور باقی ہے، وہ بھی دے دیجیے ۔ اللہ حضور کو سلامت رکھے۔ آپ اسباب رکھیں اورمیں ابھی آیا۔ ‘‘ مسعود صاحب بولے،’’دے دو بھائی۔‘‘دو سوٹ کیس دو بستر رکھنے کے بعد چھ چھ انچ جگہ ہم دونوں کو بھی مل گئی ۔ اس پر بیٹھ کر آدھ گھنٹہ انتظار کیا۔ اب پھر چل دیے۔ تھوڑی دیر صبر کے بعد مسعود نے کہا، ’’ہاں بڑے میاں صاحب ،پھر کیا ہوا؟ ‘‘ بڑے میاں پھر خاموشی کے ساتھ بولے ،’’پھر کیا ہوتا۔ ‘‘
مسعود:آخر
بڈھا:بس اب اپنے نصیبوں کو روتے ہیں۔
مسعود:ارے ظالم ! تو ہوا کیا؟
بڈھا:(بڑی سانس لے کر )ہوتا کیا ،اس کوٹھڑی میں چھت ہی نہ تھی۔ اندھیرے میں لٹکی ہوئی رسی ٹٹولی ،نہ ملی تو دیا سلائی جلائی۔ استاد فدن صاحب کہاں۔ اے حضت وہ تو نکل گئے۔
گیارہ بجے رات کو تیسرے درجے کے مسافر خانے میں سوٹ کیسوں پربستر رکھے دونوں اپنے اپنے اڈوں پر چڑھے ہوئے صبح کے انتظار میں بڑی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ آخر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے مسعود سے کہا،’’ یار اب تو صبح اسی طرح کرنی ہے۔ پھر سوچ کس بات کی ہے؟‘‘ مسعود پہلے تو خاموش رہے پھر میری طرف غور سے دیکھ کر بولے :
’’
کیوں جی،استاد فدن صاحب اب بھی چلے جا رہے ہوں گے ؟ نہ معلوم کہا ں تک چلے گئے ہوں گے۔ نہ معلوم کب تک چلے جائیں گے۔ ‘‘