کرنل (ر)مسعود اختر شیخ
میرے استاد، میرے مہربان۔۔۔فیض احمد فیض
فیض صاحب سے میری پہلی ملاقات۱۹۴۹ء میں لاہور میں ہوئی جہاں میں بی۔اے۔(آنرز) کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں صحافت کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے چھ ماہ کا کورس کر رہا تھا۔ اس کورس میں بیس کے قریب طلباء تھے، جن میں میرے بچپن کے نہایت عزیز دوست جمیل ملک بھی شامل تھے، جنھوں نے بعدازاں صحافت کے بجائے اردو شاعری میں شہرت حاصل کی۔ میں نے فیض صاحب کا نام تو سنا ہوا تھا لیکن انھیں قریب سے کبھی دیکھا نہ تھا۔ ایک روز یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے ڈائریکٹر قیوم ملک صاحب فیض صاحب کے ہمراہ ہماری کلاس میں داخل ہوئے اور ہمیںیہ خوشخبری سنائی کہ فیض صاحب جو ان دنوں انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر تھے ہمیں انگریزی اخبارات کے ایڈیٹوریل لکھنے پر ہفتے میں تین روز لیکچر دیا کریں گے۔ہمارے کورس کی خوش قسمتی تھی کہ ہمیں اردو صحافت پر اخبار " مغربی پاکستان" کے ایڈیٹر اور نامور صحافی مرتضیٰ احمد میکش لیکچر دیا کرتے تھے اور انگریزی صحافت کے بارے میں انگریزی کے مشہور اخبار ’سول اینڈملٹری گزٹ' کے نائب ایڈیٹر مسٹر لؤئیس مفید باتیں بتایا کرتے تھے۔ اب فیض صاحب کی آمد ساری کلاس کے لیے خاص طور پر ان طلباء کے لیے نہایت باعثِ مسرت تھی جو صحافت کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی ہاتھ پاؤں مارا کرتے تھے۔ اس گروہ میں " تمنا" کے تخلص کے ساتھ میں بھی شامل تھا، اگرچہ میں جلد ہی اس مشغلے سے دست بردار ہو کر پاکستان آرمی میں’’ لفٹین" بھرتی ہو گیا۔
فیض صاحب کی شاگردی مجھے چند ہفتے ہی نصیب ہوئی۔ میرے ان سے ذاتی تعلقات استاد شاگرد کی سطح سے آگے نہ بڑھنے پائے۔ البتہ میں ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔ وہ زیادہ وقت سنجیدہ رہتے مگر کبھی کبھی ایک آدھ لطیفہ سنا کر کلاس کو ہنسنے کا موقع ضرور دے دیا کرتے تھے۔ البتہ انھیں میں نے کبھی بھی اپنے لطیفوں پر ہنستے نہیں دیکھا تھا۔
جب میں ایک فوجی افسر کی حیثیت سے مری میں متعین تھا تو ایک روز گیریزن کے تمام افسروں کو سٹیشن ہیڈکوارٹر میں اکٹھا کرکے ہمارے ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل رضا نے بتایا کہ کچھ فوجی افسر حکومت وقت کے خلاف سازش کے منصوبے بنا رہے تھے لیکن پیشتر اس کے کہ وہ اپنے تختہ حکومت الٹنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے، انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان فوجی افسروں کے ساتھ سویلین بھی ملوث تھے جن میں فیض صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ مجھے یہ خبر سنتے ہی احساس ہوا کہ فیض صاحب جیسا مرنجاں مرنج شخص حکومت کا تختہ الٹنا تو ایک طرف کبھی کسی معمولی سی سازش میں بھی حصہ نہیں لے سکتا۔ اس لیے انہیں اس سازش میں ملوث کرنے کے ضرور کوئی خفیہ عوامل ہوں گے۔ مبینہ سازشیوں پر مقدمہ چلا۔ جنرل اکبر کو سازش کا لیڈر ہونے کی پاداش میں قید کی سزا دے دی گئی۔ بعض دوسرے افسر بھی سازش میں ملوث ہونے کی سزا جیل میں بھگتتے رہے۔ سزا پانے والوں میں فیض صاحب کا نام سن کر ہر حساس پاکستانی کی طرح مجھے بھی سخت صدمہ ہوا۔ البتہ جب میں نے مشہور کمیونسٹ ورکر میجر اسحق کا نام سزا پانے والوں کی فہرست میں دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ اگرچہ اب انگریز ہمارے حکمران نہیں تھے مگر یہ سب کچھ انہیں کی شرارت تھی، کیونکہ اس زمانے میں کمیونسٹ پارٹی پر پاکستان میں کوئی پابندی عائد نہ تھی جس کی وجہ سے کمیونزم کے نام سے بھی خوفزدہ ہو جانے والے انگریز بے چین رہتے تھے۔ پابندی عائد کروانے کا یہ سب سے آسان ذریعہ تھا۔ فیض صاحب کی شاعری میں عوام سے ہمدردی کے جذبات کا اظہار ان کی گردن میں پھندا ڈالنے کا باعث بنا۔
چند سال بعد کسی قانونی جواز کے باعث اس مبینہ سازش کے مقدمے میں قید کاٹنے والے تمام افرادکو رہا کر دیا گیا۔ فیض صاحب بھی ایک دفعہ پھر آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے۔
کئی سال بعد جب میں ۱۹۷۸ء میں ترکی میں چار سال قیام کے بعد پاکستان لوٹا تو راولپنڈی میں میرے پرانے دوست ڈاکٹر ایوب مرزا کے گھر پرایک بار پھر فیض صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔ ایوب مرزا نے فیض صاحب کے بارے میں " ہم کہ ٹھہرے اجنبی" نام کی ایک کتاب تحریر کی تھی۔ اس سلسلے میں فیض صاحب اکثر پنڈی آتے اورایوب مرزا کے ہاں ہی قیام کیا کرتے تھے۔ ان کی آمد پر ڈاکٹر ایوب مرزا مجھے فون پر اطلاع دیتے اور یوں میں بھی فیض صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوتا، ان کے شعر انہی کی زبان سے سننا اور ان کے ادبی نوعیت کے لطائف سے بھی لطف اٹھاتا۔ یوں ہماری ملاقاتیں باہمی تعلقات میں کچھ بے تکلفی کی طرف بڑھتی گئیں۔
اسی دوران میں، میں نے چند سال پیشتر ترکی کے نامور ادیب عزیز نہ سن کی بہت سی کہانیاں ترکی زبان سے اردو میں ترجمہ کرکے ان میں سے سترہ کہانیوں پرمشتمل ایک کتاب کامسودہ تیار کیا تھا۔ میں نے یہ مسودہ ڈاکٹر ایوب مرزا کو دکھا کر ان کی رائے پوچھی کہ آیا اس کتاب کی اشاعت پاکستانی ادبی حلقوں میں مقبول ہو گی یا نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے خود تو مجوزہ کتاب کی ہر کہانی کی خوب تعریف کی مگر مجھے مشورہ دیا کہ اس سلسلے میں فیض صاحب کی رائے لی جائے۔ چنانچہ میری پہلی کتاب " تماشہِ ء اہلِ کرم" کا مسودہ فیض صاحب کودکھایا گیا۔ عزیز نہ سن کا نام پڑھتے ہی فیض صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ عزیز نہ سن کو جانتے ہیں۔ افریقہ/ ایشیا ادیبوں کی ایسوسی ایشن کے اجلاس میں ان سے ملتے رہتے ہیں۔ اگرچہ زبان کامسئلہ دونوں کو آپس میں کھل کرگفتگو کرنے کی راہ میں حائل ہوتا ہے پھربھی وہ ایک دوسرے کے دوست بن چکے ہیں۔ فیض صاحب اگلے ہی روز اس ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیروبی جا رہے تھے۔ کہنے لگے میں آپ کی کتاب کا مسودہ ساتھ لے جاتاہوں۔ سفر میں اور نیروبی میں قیام کے دوران یہ کہانیاں پڑھ کر واپسی پر میں آپ کو اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں،اپنی رائے سے آگاہ کروں گا۔
میں بڑی بے تابی سے فیض صاحب کی نیروبی سے واپسی کاانتظار کرتا رہا۔ واپس آتے ہی انھوں نے مجھے مسودہ لوٹاتے ہوئے مسکرا کرکہا :
"
کرنل صاحب" کتاب تو نہایت عمدہ بنے گی مگراس کی اشاعت سے پہلے آپ اپنے لیے کسی دوسری ملازمت کا انتظام کر رکھیں کیونکہ ان کہانیوں کی نوعیت ایسی ہے کہ حکومت آپ کو فوجی ملازمت سے تو یقیناًفارغ کر دے گی" ۔
میں جانتا تھا کہ اپنی کہانیوں کے مزاح اور تیر کی طرح سینے میں چبھتی طنز کے باعث عزیز نہ سن سالہاسال جیل میں قیام کرچکے تھے۔ چنانچہ میں نے فیض صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کتاب کے مسودے کو اٹھاکر ایک طرف رکھ چھوڑا اورجب ۱۹۸۷ء میں فوج ے ریٹائر ہوا تو فیض صاحب کے پیش لفظ کے ہمراہ میری اس پہلی کتاب کو بھی پاکستان کی شائع شدہ کتابوں کی صفوں میں جگہ نصیب ہو گئی۔
فیض صاحب کو اب تک یقین ہو چکا تھاکہ میں ترکی زبان پر خاصا عبور حاصل کر چکا ہوں۔ چنانچہ ایک روز انہوں نے ترکی کے مشہور عوامی شاعر ناظم حکمت کی شاعری کا ذکر چھیڑا۔ کہنے لگے میں نے اس کی چند نظموں کااردو میں ترجمہ کیاہے مگرترکی زبان سے براہ راست نہیں، انگریزی ترجمے سے کیا ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے مجھے ناظم حکمت کی اردو میں ترجمہ شدہ تین نظمیں دیتے ہوئے کہا : " میری خواہش ہے کہ آپ ان نظموں کو ترکی زبان میں ڈھونڈنکالیں اور پھر میرے تراجم کااصل نظموں سے تقابلی جائزہ کرکے مجھے بتائیں کہ آیا میں اپنے ترجموں میں ناظم حکمت سے انصاف کر سکا ہوں یا نہیں"۔
میں نے یہ کام خوشی سے قبول کرلیا۔ خوش قسمتی سے مجھے یہ تینوں نظمیں اس ایک ہی کتاب میں مل گئیں جومیرے ذاتی کتب خانے میں موجود تھی۔ میں نے ان کا فیض صاحب کے تراجم سے موازنہ کیا توپتہ چلا کہ انگریز مترجم نے حتیٰ الوسع شاعر سے پورا پورا انصاف کرنے کی کوشش کی تھی مگر ترکی زبان کی بعض باریکیاں ایسی تھیں جو انگریزی زبان میں ترجمہ نہیں کی جاسکتی تھیں۔ لہٰذہ وہ فیض صاحب کے تراجم میں بھی ناپید تھیں، مثلاً فیض صاحب نے ایک مصرعے کا ترجمہ یو ں کیا تھا :
"
اس نے کہا آ جاؤ "
حالانکہ اس کا ترجمہ یوں ہوناچاہیے تھا :
"
اس نے کہا آ جاؤ ناں"۔ (اس میں محبوب سے لاڈ پیار اور منت کا اظہار ہوتا ہے) لفظ "ناں" کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا مشکل ہے۔ جب میں نے اس قسم کے سقم کی طرف فیض صاحب کی توجہ مبذول کرائی تو کہنے لگے :
"
شیخ صاحب ! میری بڑی خواہش ہے کہ کسی طرح میں براہ راست ترکی زبان سے ناظم حکمت کی نظموں کا اردو میں ترجمہ کرکے پاکستان میں شائع کروا سکوں۔ آپ کا ترکی زبان پر مکمل عبور ہے۔ کیا یہ ممکن ہو گاکہ ہم دونوں مل کر اس مہم کو سر کر لیں؟ آپ ترکی متن پڑھ کر ان کے معنی انگریزی ، اردو یا پنجابی میں مجھے بتاتے جائیں اور پھر میں اپنے وقت میں ان معنوں کواردو شعروں میں ڈھالتا رہوں۔ "
میں نے حامی بھر لی مگر مجھے اس بات کا احساس نہ ہوا کہ فیض صاحب کی رہائش تو لاہور میں ہے اور میرا قیام اسلام آباد میں ہے۔ ہم ہفتے میں زیادہ سے زیادہ دو روز باہم مل کر بیٹھ سکتے ہیں۔ یوں تو یہ مہم ایک سال میں بھی شاید سر نہ ہو سکے۔ بہرحال ۱۹۸۲ء میں فیض صاحب کے ساتھ میری تین نشستیں ہوئیں مگر ہر نشست میں فیض صاحب مجھ سے محض ناظم حکمت کے ذاتی حالاتِ زندگی کے بارے میں ہی گفتگو کرتے رہے۔ اصل موضوع پر عمل درآمد تو ایک طرف ، اسے چُھوا تک نہ گیا۔ اسی عرصے میں فیض صاحب کو بیماری نے آ لیا اور وہ کئی ماہ اسلام آباد نہ آ سکے۔
پھر ۱۹۸۴ء میں یہ المناک خبر آ گئی کہ فیض صاحب اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وہ ناظم حکمت کے شعروں کے ترجمہ کرنے کی دیرینہ خواہش اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ کاش کہ میں ان کی زندگی میں ان کی اس خواہش کے پورا کرنے میں مدد کر سکتا۔
فیض صاحب کی زندگی کے آخری دو سالوں میں مجھے چند بار ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں وہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ناظم حکمت کی اپنی اور ان کی شاعری کے بارے میں لکھی گئی چند کتابیں اس خیال سے لیتا آیاکہ شاید یہ فیض صاحب کو ناظم حکمت کی مزید نظمیں چننے میں مدد دیں۔ فیض صاحب کی وفات کے چند ماہ بعد میں نے وہ کتابیں کھنگالیں تو ناظم حکمت کی شاعری کا جادو مجھ پر بھی اثر کر گیا۔ میں نے ان کی دو چار نظموں کو منظوم اردو میں ڈھالنے کی کوشش توکی مگر بے سود۔ اس سے پہلے میں آذربائیجان کے مشہور شاعر حامد نطقی کی شاعری کی دوکتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے Melodies Reveries کے نام سے شائع کروا چکا تھا۔ سوچا کیوں نہ ناظم حکمت کا بھی منظوم انگریزی میں ترجمہ کر ڈالوں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے کوئی دو سال کے عرصے میں ناظم حکمت کی ایک سو ایک چیدہ چیدہ نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر ڈالا۔ یہ میری کتاب 101 Poems of Nazim Hikmet کے نام سے دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہو گئی۔ اب مجھے کم از کم یہ تسلی ضرور ہے کہ فیض صاحب کی وساطت سے نہ سہی ، میری وساطت سے ہی پاکستان کے انگریزی دان ادبی حلقوں کو ناظم حکمت کی عظیم شاعرانہ کاوشوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل گیا ہے۔ میں اپنی اس کامیابی کے لیے فیض صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ یہ انہی کی لگائی ہوئی لَو تھی جو عرصہ دراز تک میرے اندر ٹمٹماتی رہی اور بالآخر حقیقت بن کر میری کتاب کے اوراق پر پھیل گئی۔ اللہ تعالیٰ میرے مرحوم استاد اور کرم فرما کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین !