ضیاء محی الدین
بخاری صاحب


گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کا سالانہ کرکٹ میچ دنگل بھی تھا اور جشن بھی، لوگ اسی شوق سے ہر سال یونیورسٹی کے کرکٹ کے میدان میں آتے جیسے کسی عرس میں جا رہے ہوں۔ اصل میں یہ مقابلہ دو ٹیموں کا نہ تھا، یہ مقابلہ تھا لاہور کے دروازوں کے اندر رہنے والے باسیوں کا ان سے جو دروازوں کے باہر رہتے تھے، بعض اس کو کفر اور اسلام کی جنگ سمجھتے اور بعض دنگل کا اکھاڑہ۔ اسلامیہ کالج میں غریب ماں باپ کے بچے پڑھتے تھے۔ بیشتر مسلمان لڑکے حساب میں کمزور ہونے کی وجہ سے دسویں جماعت میں اتنے نمبر نہ لے پاتے کہ وہ گورنمنٹ کالج کے داخلے کی شرطیں پوری کر سکیں سو مجبوری کی وجہ سے والدین انھیں اسلامیہ کالج میں داخل کرا دیتے، کالج چھوڑنے کے بعد ان لڑکوں کو اچھی نوکریوں کی کم امید رہتی تھی پڑھنے لکھنے میں تو وہ اپنا لوہا نہ منوا سکتے مگر کرکٹ کے میدان میں ان کی تمام رہی سہی حسرتیں پوری ہو جاتی تھیں۔ کرکٹ میں ان کی برتری مسلّم تھی۔
اس صدی میں تقسیم کے وقت تک یہ مقابلہ لاہور کی سماجی زندگی کا ایک اہم حصہ تھا، اہل حرفہ جو اندرون شہر رہتے بڑی تعداد میں اسے دیکھنے آتے، کچھ محض نعرے لگانے کے لیے آتے لیکن ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو طرح طرح کی آوازے کستے ، ایک آدھ بار جب گورنمنٹ کالج کی جیت ہوئی تو بھی ان کے فقروں کی کاٹ میں کمی نہ آئی، رام پرکاش گورنمنٹ کالج کا بلّا نواز جب پہلے پنجوں اور پھر ایڑیوں پر پیچھے کی طرف جھک کر گیند بائونڈری کی طرف مارتا تو اس کا پورا جسم گھوم گھوم جاتا اسی لیے اسے ''لوٹو'' کا عرف دے دیا گیا تھا (بعد میں لوگ اسے اسی نام سے پکارتے تھے) رام پرکاش سینکڑہ نہیں دو دو سینکڑے بناتا تھا، جیسے ہی اس نے چوکا لگایا کسی دل جلے نے آوازہ کسا ''اوئے لاٹو تیری بہن دی بھنبھیری…''
یہ مقابلہ عوام اور خواص کا تھا، پوری طرح اسے ہندو مسلم ٹکرائو نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ گورنمنٹ کالج سے کھیلنے والے کئی مسلمان تھے لیکن بھاٹی اور موچی اور مستی دروازے کے باسی انھیں ٹوڈی بچہ سمجھتے تھے۔
اسلامیہ کالج میں پڑھنے والے شلوار اور پاجامے میں کالج چلے جاتے۔ گورنمنٹ کالج کے طالب علم دھجیلے، سچل کوٹ پتلون ٹائی میں کسے کسائے ہوتے۔ ان کے چہرے بھی چکنے اور ملائم تھے، اسلامیہ کالج والے اپنے چہروں کے کھردرے پن کو مردانگی اور مسلمانیت کی عظمت کی علامت سمجھتے تھے۔
میچ دیکھنے والوں میں ایک دستہ امرد پرستوں کا بھی ہوتا جنھیں امیر خسرو سے تو شاید زیادہ واقفیت نہ تھی لیکن جن کا طریق یہ تھا کہ
ہندو بچہ یبین کے عجب حسن دھرینچھ
اور اس طریقت کی پیروی وہ یوں کرتے تھے کہ چونکہ ہندو بچہ سرتا پا شکر ہے اس لیے اس کو ''ننگا کنمش چوینیمش سرتاپا'' اگر ہریش شنگو کسی گیند کو ہٹ مارنے میں ناکامیاب رہا یا کوئی گیند اس کے سر کے اوپر سے گزر گئی تو فوراً اس کی سلامتی کی دعائیں مانگی جاتیں اور اگر دشوار پر شاد نے کسی گیند کو ڈر کے کھیلا تو اسے چمکار پچکار کر ترغیب دی جاتی کہ کھیل چھوڑ کر ان کی بغل میں آن بیٹھے تو کرکٹ کی گیند تو کیا وہ روئی کا پھویا بھی اس تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
شامت گورنمنٹ کالج والوں کی اس وقت آتی جب وہ فیلڈ کرنے کے لیے نکلتے۔ میدان کے ان حصوںمیں جہاں جہان ''انجمن حمایت اسلام'' بیٹھتی جن بیچاروں کو گیند روکنے کے لیے بائونڈری لائن کے پاس کھڑا کیا جاتا وہ پسینہ پونچھنے کے لیے جانے کتنے رومال جیب میں رکھتے ہوں گے۔ اس لیے کہ ''گفتم زلب لعل تو یک بوسہ بگیرم'' کی فرمائشیں مختلف لہجون اور بولیوں میں کی جاتیں۔ اگر کبھی جھنجھلاہٹ میں آ کر یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے فیلڈ کرنے والے نے تماشائیوں کی طرف دیکھ کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو پھر ''ارے رام ترک کائیں کرے چھے'' کی ایسی توضیح کی جاتی اور پنجابی میں ایسی ایسی ''جگہیں'' لی جاتیں کہ فیلڈر کی سمجھ میں نہ آتا کہ پہلے دن سے اس نے وکٹ کیپری کی مشق کیوں نہ کی۔ جہاندیدہ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسے ایسا 'عبدالہوت' ہندوستان کے کسی میلے میں کم ہی نظر آتے تھے۔
تقسیم کے بعد لاہور میں اس میچ کی اہمیت کم ہو گئی، سینتالیس میں پنجاب کا طبقہ الٹ گیا تو اس لیے یہ میچ ہی نہ ہوا، اڑتالیس میں ہوا۔ گوشور بہت تھا لیکن دل بجھے ہوئے تھے، اسلامیہ کالج والوں کے حمائیتوں میں اُپج لینے والے کم تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا آوازے کسنے والے صرف روایت کی خاطر اپنے لفنگ پن کا دکھاوا کر رہے تھے لیکن اس میں بے ساختگی نہ تھی۔ پھر اب ہندو مسلم کا سوال نہ تھا۔ گونمنٹ کالج میں ابھی نئے سرمایہ داروں کے بیٹوں نے قدم نہ رکھا تھا۔
پھر بھی ہجوم بہت تھا، میں چونکہ کرکٹ کھیلتا تھا جغادری کھلاڑیوں سے میری یاد اللہ تھی اس لیے میں ''پویلین'' کے اس حصے میں جا سکتا تھا جو کھلاڑیوں اور منتظمین کے لیے مخصوص تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے بہت زیادہ گرم جوشی سے مل رہے تھے جس کا ایسے موقعوں پر دستور ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مدتوں سے انھوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا… یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ گھوڑ دوڑ کا میلہ ہو یا نمائش کا بھرپور بے تکلفی صرف انہی لوگوں کے ساتھ برتی جاتی ہے جن سے اوپری اوپری شناسائی ہو۔
ابھی میچ شروع نہ ہوا تھا۔ صوفی تبسم جو فارسی اور دعوتوں کے علاوہ کرکٹ کے بھی گورو تھے، کسی ٹوٹکے کی تلاش میں ادھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ میں کئی لوگوں کو پہنچانتا تھا مگر میری ہمت نہ ہوئی کہ کسی کی گفتگو میں حائل ہوں۔ سو میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکتا رہا لیکن اس طو رسے جیسے مجھے کسی کی تلاش ہو، کچھ دیر بعد میں نے اپنے کو اس دروازے کے قریب پایا جہاں سے ''امپائر'' نکل کر میدان کی طرف جاتے ہیں، جب مجھے اس کا احساس ہوا تو یہ خیال بھی آیا کہ اگر کسی نے پوچھا تم یہاں کیا کر رہے ہو، تمہارا یہاں کیا کام؟ تو میں کیا جواب دوں گا۔
میں جلدی میں مڑا، دیکھا تو سامنے بخاری صاحب کھڑے ہیں، ان کے پیچھے جو چھوٹے چھوٹے گروہ اب تک بہت اونچا اونچا بول رہے تھے اب دھیمے لہجے میں گفتگو کر رہے تھے۔ بخاری صاحب پرنسپل تھے۔ خواہ وہ یونیورسٹی کا کھیل کا میدان ہی کیوں نہ ہو لیکن لوگ ان کی تعظیم اس لیے نہ کرتے تھے کہ وہ افسر ہیں، اس تعظیم میں عقیدت اور محبت دونوں کو دخل تھا۔
میں ٹھٹھک گیا، میں نے سلام کیا اور ادھر اُدھر دیکھا جیسے میں جسے ڈھونڈنے آیا تھا وہ نہیں ملا، وہاں سے چلنے لگا تو بخاری صاحب نے کہا۔
''سنو''
میں رک گیا بخاری صاحب کچھ فریب آگئے، آج وہ گائون نہیں پہنے تھے، فاختی رنگ کا سوٹ تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کوٹ کے کالر میں جھوٹ سا پھول بھی تھا، کہنے لگے۔
''یہ تم کیا اناپ شناپ لکھتے ہو؟''
سٹپٹاہٹ سے میرا نچلا ہونٹ کھینچ کر ٹھوڑی سے جا ملا جس سے میری گردن کی نسیں تن گئیں۔ میں کچھ کہہ نہ پایا۔
بخاری صاحب نے جیسے میری خفت کو بھانپ لیا، ایک دلکش مسکراہٹ ان کی آنکھوں سے نکل کر ان کے ہونٹوں پہ آ کر ٹھہر گئی، وہ آدھا قدم اور بڑھے اور کمال شفقت سے اپنے ہاتھ سے میرے کان کی لَو کو چھوا۔ اسے ہلکے سے گھماتے ہوئے بولے۔
''پڑھا کرو پڑھا کرو''
میں جب جانے لگا تو انگریزی میں بولے۔
اور لکھتے بھی رہا کرو۔