حسنین جمال
منثوراتِ دھلی کا ایک گم گشتہ باب :خواجہ شفیع دھلوی

اے وہ شخص جو دہلی کے حالات اور دوسرے شہروں پر اس کی رفعت اور شرف کے متعلق استفسار کرتا ہے، بیشک تمام شہر باندیاں ہیں اور دلی ان کی ملکہ ہے۔ بیشک دلی کی مثال ایک موتی کی سی ہے، باقی شہر نرے سیپ ہیں۔ (اقتباس ۔دہلی ۶ کیا ہے، فیروز دہلوی)۔
ہندوستان میں تہذیبی شہر اور بھی ہیں۔ لکھنؤ، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ، مگر سبھی کسی نہ کسی طرح دلی کی تہذیب سے متاثر رہے ہیں، اور یہاں کے ہنر مندوں نے ہی وہاں بھی علوم و فنون کی داغ بیل ڈالی۔
دلّی - وہ دیار کہ جہاں کا ہر نثر نگار صاحب اسلوب، با محاورہ رواں دواں نثر لکھنے والا تھا، وہ نگر کہ جس کی آبادی سات بربادیوں کی مرہون منت ہے، جہاں ہر بار لٹنے کے بعد کچھ ماتم دار ، کچھ غمخوار آئے، نظم و نثر میں کیا کیا شاہکار نہ تخلیق ہوئے، لیکن یہ سب وہ تھے، جو وہاں کے تھے۔ از کجا آید ایں آواز دوست، ہم تو واں کے نکالے ہوئے بھی نہیں پھر کس برتے پر بات کریں، تو صاحبو، جان لو، دلّی ایک شہر، ایک نگر، ایک دیار، ایک علاقہ نہیں، ایک احساس ہے، ایک کیفیت ہے جو ہر اس ذی نفس پر طاری ہو سکتی ہے جو اپنے شاندار ماضی پر فخر کرتا ہے اور اس سے کسی صورت ناتا نہیں توڑنا چاہتا، بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ بھائی جس کا ایسا شاندار ماضی ہو، جس کی تہذیب ایسی ہو کہ بزرگ بچوں کو کھانے کے آداب میں یہ تک بتلائیں کہ اگر کسی گھر موت کا کھانا کھانا تو بیٹے، بس دو چار نوالے سے زیادہ مت لینا، اور دستر خوان بڑھنے تک بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔۔۔۔۔ یہاں ایک طویل اقتباس فیروز دہلوی صاحب کا، جو کہ ضروری ہے، ملاحظہ کیجئے، سلسلہ کلام اس اقتباس کے بعد بحال کرتے ہیں۔
"کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا ''بیٹا چھوٹا نوالہ بنائو، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن/ شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھائو، آخر تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا''۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ''لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو''۔ "دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مْردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا)۔ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھائو۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آجائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں" ۔
جی، تو عرض یہ تھی کہ جہاں دستر خوان چننے سے بڑھنے تک بچوں کو ایک ایک بات، ادب آداب سمجھے جائیں، جہاں کی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہو کہ اس پر جتنا فخر کریں کم ہو، وہاں اگر نئی تانتی برگر کھائے اور کولا مشروبات پئے اور نہ اپنا ماضی جانے نہ ہی جاننا چاہے تو بس اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے؛
صاحب قرآن و بے ذوق طلب،
العجب، ثم العجب، ثم العجب !!! !!!
(یہاں سخن فہم حضرات صاحب قرآن کی جگہ صاحِبکیجئے گا، کسی تہذیب کے ایسے منظر نگار کہیں آپ کو ملے جو یہاں با افراط موجود تھے؟؟؟ تو صاحبان ذی علم!!! قدر نہ شناسی کا شکار ہوئے اور ہیں آج تک، وہ سب کے سب!!! آپ کو ان کے شہ پارے تو شاید مل جائیں، ان کے حالات زندگی بہت مشکل ہے کہ آپ جان سکیں۔بات کیجئے ظہیر دہلوی کی، میر باقر علی کی، ناصر نذیر فراق دہلوی کی، آغا حیدر حسن دہلوی کی، خواجہ محمد شفیع دہلوی کی، ظفر تاباں کی، منشی فیض الدین کی، سید احمد دہلوی، بشیر الدین احمد، مُلا واحدی، الغرض کیا کیا نام گنوائیں، وہ تو شکرِ خدا کہ شاہد احمد صاحب دہلوی ساقی سے وہ کام کر گئے کہ آج کچھ نہ کچھ ہم ان سب کو جانتے ہیں۔ بعد کی پیڑھی میں شاہد احمد دہلوی، اخلاق احمد دہلوی، اشرف صبوحی ایسے بزرگوں نے اپنے اسلاف کی یادوں کو سینے سے لگایا، ان کے اسلوب کی یادیں تازہ کیں بلکہ اگر ہم کہیں کہ شاہد صاحب دہلوی اور اشرف صبوحی صاحب کی نثر اپنے پیش روئوں سے بھی شگفتہ تھی تو مبالغہ نہ ہو گا. آج اسلم فرّخی اور انتظار حسین صاحب، خدا ان کی عمر دراز کرے اس ورثے کے امین ہیں باقی رہے نام اللہ کا!!!
دلّی کے بارے میں جتنا کام آج تک ہوا، اسے مرتب کیا جائے تو ایک لمبی فہرست بنے گی، بہرحال، چند اہم نام درج ذیل ہیں؛
داستان غدر - سید ظہیر الدین دہلوی،آثار الصنادید - سید احمد خان ،رسوم دہلی - سید احمد دہلوی ،بزم آخر - منشی فیض الدین
یہ دلّی ہے - سید یوسف بخاری دہلوی ،یادگار دہلی - سید احمد دہلوی ،فریاد دہلی - نظامی بدایونی (جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد کہی گئی شاعری)،دہلی - محمود علی خاں جامعی ،میرے زمانے کی دلّی - ملا واحدی،دلّی جو ایک شہر تھا - ملا واحدی ،دلّی کی بپتا- شاہد احمد دہلوی،دلّی کی آوازیں - خواجہ محمد شفیع دہلوی ،دلّی کا سنبھالا - خواجہ محمد شفیع دہلوی ،لال قلعہ کی ایک جھلک - خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی ،عالم میں انتخاب، دلّی - مہیشور دیال ،سیر دہلی - خواجہ حسن نظامی ،واقعات دارالحکومت دہلی - بشیر الدین احمد دہلوی ،سوانح دہلی - شہزاد مرزا احمد اختر گورگانی ، قلعہ معلی کی جھلکیاں - عرش تیموری،دہلی کا آخری دیدار - سید وزیر حسن دہلوی ،چراغ دہلی - مرزا حیرت دہلوی ،دلّی کی آخری بہار - علامہ رشید الخیری،دلّی کی آثار قدیمہ - ڈاکٹر خلیق انجم ،سرگزشت دہلی - خواجہ محمّد شجاع،واقعات اظفری - مرزا ظہیر الدین اظفری ،مرحوم دلّی کی ایک جھلک - شمیم احمد ،دہلی اور اس کے اطراف - مولانا حکیم سید عبدالحئی،جلوئہ آفاق - سید آفاق حسین آفاق دہلوی (شاعری + تاریخ دہلی)،مرقع دہلی - نواب درگاہ قلی خان ،دلّی تھا جس کا نام - انتظار حسین ۔
(اس فہرست میں خاکوں یا دیگر موضوعات کی کتب نہیں ہیں)
درج بالا فہرست میں ایک کتاب "دلّی کا سنبھالا از خواجہ محمد شفیع دہلوی" ہے، آپ بتایئے کتنوں نے اسے آج تک پڑھا ہے یا نام سنا ہے، یہ المیہ ہے کہ اس فہرست میں چند اور بالعموم تمام دہلوی نثر نگاروں کی کتب آج ناپید ہیں۔ اردو اکادمی دھلی قابلِ ستائش کام اس ضمن میں سر انجام دے رہی ہے، لیکن اس کتاب سے انہوں نے بھی نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر صرفِ نظر کیا۔ اس کتاب کے پیش لفظ کے لیے خواجہ صاحب کے بارے کھوج شرو ع کی تو برادران، بقول داغ مرحوم،
رنج بھی ایسے اْٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے۔۔۔
آپ کو کہیں ان کے مفصل حالات نہیں ملتے اور ستم بالائے ستم اتنی کتب کے مصنف اور لائبریریوں میں بھی ڈھونڈیئے تو کوئی ایک کتاب نہیں ملتی۔ بمشکل تمام خواجہ صاحب کی چند مزید کتب مہیا کیں جن میں سے ایک کے لیے محترم ہارون عثمانی صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری سے تلاش کر کے پیش لفظ نقل کرنے دیا اور ایک غیر ملکی لائبریری سے درخواست کر کے چند عکسی نقول منگوائیں تو کچھ بات بنی ۔
خواجہ شفیع دہلوی کا ایک مختصر تعارف جو ان کے شایان شان نہیں، لیکن دستیاب کتب سے جو کچھ مل سکا، حاضرِخدمت ہے؛
ایثار، خلوص، محبت، مروت اور اخلاق کے پیکر، خواجہ محمد شفیع دہلوی ۱۹۰۹ء میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد خواجہ عبدالمجید دہلوی، ایک معروف ادبی شخصیت، سینٹ کالج دلّی میں شعبہ فارسی کے استاد، خطاب یافتہ نواب اور صاحب ِتصنیف تھے، 'رفتار زمانہ ' نامی ایک کتاب میں دلّی کی قدیم ٹکسالی زبان استعمال کرتے ہوئے تہذیب جدید کا بہت خوب نقشہ کھینچا ہے، یہ مضامین ریڈیائی تقریر کی صورت آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بھی پیش ہوئے۔
خواجہ شفیع دراز قد، دوہری جسامت، کشادہ پیشانی اور با رعب چہرے کے مالک تھے، پہلوانی اور شہسواری کاذوق رکھتے تھے۔ اردو اور انگریزی پر یکساں عبور تھا۔ مشاعروں کی نظامت میں ید ِطولیٰ حاصل تھا۔ اردو مجلس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے روح رواں وہ خود تھے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام بزم ِنثر و مشاعرہ منعقد ہوتی تھی جس میں اس دور کے مشہور نثر نگار اور شعرا آتے تھے۔ قطع نظر عمر کے، اس محفل میں پیر و جوان سب شرکت کر سکتے تھے، گویا صلائے عام تھی ۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی بھی کبھی کبھی محفل کو رونق بخشتے تھے۔ نثرمیں ٹکسالی زبان اور متقدمین کی شاعری پسند کرتے تھے۔ مشاعروں میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، ظریف دہلوی، شیدا گجراتی، گلزار دہلوی، جمیل الدین عالی صاحب اور دیگر ہم عصر شعرا پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ آزاد شاعری، ترقی پسند ادب اور ادیبوں کے بارے میںتحفظات رکھتے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے۔
خواجہ محمد شفیع صاحب دہلوی کی مشہور مگر کمیاب تصانیف درج ذیل ہیں؛
دلّی کا سنبھالا، ہم اور وہ، دلّی کی آوازیں، میونسپل الیکشن، مغلوں کا مد و جزر، روپ متی، سٹرائیک، گناہ، چند افسانے، میلاد شریف، ناکام، داغ ہائے قمر، آتش خاموش، عشق جہانگیر، سنگ سنگاتی، گاما اور شرح خواجہ میر درد ۔
اس عہد کے دیگر نثر نگاروں کی طرح ان کی تحریر میں بھی تقسیم سے پہلے اور بعد کے زمانے صاف نظر آتے ہیں اور جیسا کہ عمومی طور پر ہجرت کر کے آنے والے نثر نگار پاکستان میں مایوس اور دل گرفتہ پائے گئے، تو یہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا۔ ترقی پسند ادب اور سوشل ازم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھتے ہوئے ایک ناول "زیب" لکھا جو ماہنامہ "تذکرہ" میں ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ء تک بلِاقساط شایع ہوا لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ رسالہ بند ہو گیا اور باوجود تنگ دستی کے انھوں نے باِلآخر ۱۹۶۰ء میں مقصدیت کے تحت وہ ناول چھپوایا۔تقسیم سے پہلے کی تصانیف میں ایک طوطی ِشکر مقال چہکتا ہوا نظر آتا ہے لیکن تقسیم کے بعد وہ رنگ غالب نہیں رہتا۔
تقسیم سے پہلے شایع شدہ ان کی ایک کتاب سٹرائیک سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے؛
" ایک صاحب نے میری جانب اشارہ کر کے فرمایا، یہ بیچاریاں ازدواجی زندگی سے محروم ہیں، ایک تیر سا لگا، پر میں کچھ نہ بولی، وہ خموش ہونے والے تھے نہیں ، کہنے لگے، اکبر الٰہ ٰآبادی خوب کہہ گیا ہے، ایک نے پوچھا کیا، بولے، قصہ طلب شعر ہے، وہ ہوا یہ کہ بی گوہر کلکتہ والی پشاور جا رہی تھیں، جب الٰہ آباد کے سٹیشن پر پہنچیں تو اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ سامان اتروا لو اور خود پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئیں۔ وہ غریب پریشان کہ آخر ماجرا کیا ہے، لیکن تریا ہٹ اور پھر تریا بھی ۔۔۔۔۔بہرکیف حکم ِحاکم مرگ ِمفاجات، وہ اس خیرہ سر کی خود سری سے واقف تھا، تعمیل حکم کی۔ یہ بیگم ٹم ٹم میں سوار ہو، اکبر الٰہ آبادی کے گھر جا دھمکیں۔ سیکرٹری نے اطلاع کی کہ گوہر کلکتے والی ملنے آئی ہیں، بڑے میاں اپنے بڑھاپے پر نادم، بیٹھک میں تشریف لائے، یہ تڑاخ پراخ مقراض زبان بولی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے آج عمر بھر کی آرزو بر آئی۔ میں تو پشاور جا رہی تھی پر الٰہ آباد کا نام سنتے ہی دل نہ مانا کہ شرف قدمبوسی حاصل کیے بغیر چلی جاؤں، آپ جانیں عورت دل کی لونڈی ہوتی ہے، خدا کا شکر ہے آج جناب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ دن میری زندگی میں یادگار رہے گا۔ بڑے میاں نے بھی مناسب جواب دئیے۔ چلتے ہوئے کہنے لگی، ایک اور آرزو ہے، اگر خاطرِعاطر پر گراں نہ گزرے۔ پہلے تو حضرت گھبرائے، پھر ڈرتے ڈرتے دریافت کی، اس نے کہا اگر اپنی قلم سے کچھ رقم فرما دیں تو حرز ِجاں بنا کر رکھوں۔ جناب نے یہ شعر لکھ لفافہ میں بند کر، حوالے کر دیا۔
کون خوش بخت زمانہ میں ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
کان یہ سن رہے تھے، آنکھوں کے سامنے زندگی اپنے مناظر پیش کر رہی تھی اور میں اس تماشے میں غرق تھی۔ـ" اب آئیے تقسیم کے بعد کے ایک ناول "زیب" کا ایک اقتباس پیش نظر ہے ؛
یہ سرائے فانی قصرِ عیش نہیں، جس بے وقوف، کم عقل، خرد دشمن نے اسے پھولوں کا بستر جانا اس کی آغوش میں اس نے کانٹے چبھوئے، اس کی چادر تلے خنجر ہے تکیے میں بچھو۔ یہ ناگن ہے نہایت خوش رنگ، جو بھی اس سے کھیلا، مارا گیا۔
مکن بہ چشم ارادت نگاہ در دنیا
کہ پشت مار بہ نقش است و زہر او قتال (سعدی)
یہ اژدہام ِعام یہ ہجوم خلق خدا کیوں ہے۔ ہر ایک کے چہرے پر مردنی ہے، ہر ایک کی آنکھوں میں بھوت کھیل رہے ہیں، ہڈیوں کے پنجر میں سانس کا پنچھی بول رہا ہے، ان کی بھنویں خنجر ہیں تیور کٹار ___ کہیں بھوک انہیں مردم خوار نہ بنا دے، کہیں مصائب انہیں آدمیت شکار نہ کر دیں۔ ان کے ہاتھوں پر جلی قلم سے مصیبت لکھی ہے۔ ان کے ابرو خوں آشام ہیں۔ چھریاں تان رہے ہیں، ان کی سوکھی ہڈیوں پر فاقوں نے بان دھروے ہیں، ان کے کلیجے چھلنی ہیں، ان کے دل خوں چکاں____ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا دفتر ہے، بندہ پرور، یہ دفترِآباد کاری ہے !!!!
تقسیم کے بعد جب خواجہ صاحب پاکستان آئے تو یہاں کے حالات سے بہت مایوس ہوئے، اپنی کتاب زیب کے دیباچے میں رقم کرتے ہیں کہ جس سرزمین کے لیے اپنا سب کچھ لٹا کر آئے، جب اس کا ہی ایسا حال دیکھا کہ ہر طرف افرا تفری اور نفسا نفسی کا عالم ہے تو دل گرفتہ ہو کر قلم تھاما اور حکایات خونچکاں لکھنی شروع کر دیں۔ کہتے ہیں " ربِ قدیر اس سر تا پا عصیاں سے اگر دریافت کرے گا کہ جب اہل دیں کی سلطنت تباہ کی جا رہی تھی تو کم بخت تو کیا کر رہا تھا، اس وقت یہ گناہ گار عصیاں شعار عرض کر سکے گا کہ میرے مولا تو نے قلم دی تھی تلوار نہیں، سو یہ کام میں لائی گئی".
اس سارے قضیے کو بیان کرنے کا مقصد ِواحد یہ تھا کہ ہم خواجہ صاحب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں، پاکستان آنے کے بعد بھی گاہے بگاہے انھوں نے نظم و نثر کی محافل منعقد کیں۱۹۹۲ئمیں بعمر۸۳ سال ان کا لاہور میں انتقال ہوا۔
زیر نظر کتاب، دلّی کا سنبھالا، دلّی کی تاریخ اور اہم کرداروں کا احاطہ کرتی ہے. ذوق کا یہ شعر غالباً اس نام کے پس منظر و غایت کو صحیح طور سے بیان کرنے کے لیے کافی ہے؛
بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تواچھا
اس کتاب کے چند مضامین آل انڈیا ریڈیو دہلی کے لیے لکھے گئے اور باقی جستہ جستہ خواجہ صاحب نے قلم بند کیے۔ مرزا چپاتی، مرزا کالے، مرزا چڑیا، مرزا قادر بخش بنوٹئے، استاد محمد بیگ، مرزا عاشور بیگ، میر ماہی، میر پنجہ کش، مرزا فجو بیگ شہسوار، میر کاظم علی شاہ داستان گو اور تفضل حسین خاں مصور سمیت ایسے کئی کردار ہیں جن میں سے چند کا شاہد احمد دہلوی صاحب اور اشرف صبوحی صاحب نے ہمیں تفصیلاً تعارف کروایا لیکن بہت دلچسپ نقوش خواجہ صاحب کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ بس کتاب کی اختتامی سطور کے ساتھ اس تحریر کو بھی ختم کرتے ہیں ؛
"دلّی ماتا نے ایک مصاحب کی طرف دیکھا اور کہا کل کی صورتیں نظر نہیں آتیں، وہ لوگ کہاں گئے، جواب ملا، تہ ِخاک. یہ سن جوگن جی اٹھ کھڑی ہوئیں، سب نے تعظیم دی، صاحب خانہ دروازہ تک چھوڑنے آئے۔
رات کے دو بجے ہیں، ہر سمت سکوت مرگ طاری ہے، چشم ِفلک سے شہاب ِثاقب آنسو بن بن کر ٹپک رہے ہیں۔ دلّی ماتا اپنی کٹی میں جا پڑیں، ساتھیوں نے بھی اپنے اپنے گھر راہ لی۔
رہے نام سائیں کا۔"
پس نوشت؛ زیرِنظرکتاب 'جید برقی پریس'دہلی سے 'مکتبہ جامعہ دہلی'نے اکتوبر ۹۳۸ء میں شائع کی جو کہ طبعِ دوم اور غالباً طبعِ آخر تھی۔
٭٭٭٭