میرے ہم سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقصود زاہدی
فارغ بخاری


کچھ دوست اتنے پیار ے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق کچھ لکھنا چاہو تو سوائے قصیدے کے اور کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ گہری دوستی ،انتہائی قربت ،شب وروز کی بے تکلف صحبتوں ،ذہنی رشتوں اور نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود برسوں کی ہم سفری میں بھی ان کی کوئی ایسی چوری ہم پکڑ نہیں سکتے جس پر جی کھول کر قہقہہ لگانے کا موقع میسر آئے۔ کوئی ایسی گمراہی نظر نہیں آتی جو ان کے لئے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ ڈاکٹر مقصود زاہدی ایک ایسی ہی بے داغ دل آویز شخصیت ہے، ہماری دوستی اس عمر کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی جوبلی منانے کا ہنگام آپہنچا ہے۔ لیکن اسے ہماری کوتاہی کہیے یا اس کی وضع احتیاط کہ ابھی تک اس کی خوبیوں ،نیکیوں اور رعنائیوں تک ہی ہماری رسائی ہو پائی ہے،اس طویل و عریض عرصہ مصاحبت میں ایسا کوئی گوشہ معصیت ہم نہیں کھوج سکے، جس کا نشہ ہمیں لغزش پا کی منزل تک پہنچاتا ۔۔۔
بقول نظیری ؂
ہمہ عمر با تو قدح زویم و نہ رفت رنج خمارِ ما
چہ قیامتی کہ نمی رسمی ، ز کنارِ ما بہ کنارِ ما
وہ کوئی ایسا گہرا آدمی بھی نہیں جس کے اندر تہہ خانوں میں اپنے معاشقوں اور آوارگیوں کو پالنے کے لچھن ہوں اور ان تہہ خانوں کے چور دروازوں تک رسائی جو شیر لانے سے کم نہ ہو۔۔۔ وہ تو پیٹ کا اتنا ہلکا ہے کہ پہلی ملاقات ہی میں آپ کو اپنے دوستوں،ملاقاتیوں ،یہاں تک کہ اپنے مریضوں کو بوالعجبیاں تک سنا ڈالے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کے بعض ممنوعہ ابواب کے علاوہ اور کوئی بات بھی کسی سے نہیں چھپاتا ۔ بلکہ یو ں کہنا چاہیے کہ اپنی افتاد طبع کے باعث چھپا ہی نہیں سکتا۔ پھر اسے اپنی پارسائی و پاک بازی کا بھی کوئی گھمنڈ نہیں رہا۔ وہ ایک شریف اور مہذب آدمی ضرور ہے۔ لیکن ایسا گیا گزرا بھی نہیں ۔نہ خشک ملا ہے، نہ بے رنگ سوشلسٹ ، نہ صراط المستقیم کی پیمائش کرنے والا مسلمان ، نہ اخلاق کا مبلغ، نہ جمالیاتی حس سے کورا فلسفی ، نہ جہالت کا دوست، نہ عقل کا دشمن ، اس نے منہ زور جوانی کا طوفانی دور بھی گزارا ہے۔ شکل و صورت بھی لاکھوں میں ایک ہے،ہم نے اسے ڈھلتی عمر میں دیکھا اور سچ پوچھئے تو ایک ادیب شاعر یا نظریاتی انسان کے طور پر نہیں(کہ اس وقت تک ہم پراس کے جوہر نہیں کھلے تھے ) بلکہ اپنے خوب رودوستوں میں اضافے کے طور پر اسے قبول کیا۔ سرخی سپیدی تو نظر بدور اس ساٹھے پاٹھے دور میں بھی اس کے حسین و جمیل چہرے پرٹھاٹھیں مارتی محسوس ہوتی ہے، جوانی میں نہ جانے کیا قیامت ہو گا۔ ظاہر ہے ایسے اعلی نسل کے جوان رعنا کے لیے دلی و میرٹھ میں دل و جاں نچھاور کرنے والی دوشیزاؤں کی کیا کمی ہوگی۔ آخر وہاں کی لڑکیاں اتنی بدذوق تو نہ ہو ں گی کہ اس شہزادہ گلفام کو دیکھ کر ان کی راتوں کی نیند حرام نہ ہوئی ہو، اور ان بھرے پرے شہروں میں کسی ایک آدھ کے خدنگ ناز نے تو اسے بھی گھائل کیا ہوگا۔ اس کی شرمیلی فطرت اور نجابت کے پیش نظر چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ وہ جراتِ راندانہ کا کبھی مرد میدان نہ تھا ، لیکن باغ حسن کے کسی پختہ پھل کا خود بخود اس کی جھولی میں جھول جانے کا امکان تو ہو سکتا ہے ،لیکن وہ منہ سے کچھ پھوٹے ہی نہ تو محض مفروضات سے کیسے کام چل سکتا ہے۔ وہ سیاست میں ملوث ہونے سے انکاری نہیں، ادب و فن کے جرم کا اقرار کرنے میں بخل نہیں کرتا۔ لیکن مملکت حسن کی تسخیر کے ذکر پر صاف طرح دے جاتا ہے۔ بہر حال یہ اس کا نجی معاملہ ہے جس میں دور تک جانے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔
زاہدی کی زندگی کا صرف یہی ایک ناقابل فہم اسرار نہیں۔ اپنی سیاسی فتوحات کو بھی وہ غنچہ نو شگفتہ کی طرح دور ہی سے دکھاتا رہا ہے اور غیر قانونی بچے کی طرح دنیا کی نظروں سے چھپاتا رہا ہے۔ حالانکہ اس میدان میں اس کی خدمات اتنی وقیع ہیں کہ اگر انہیں سامنے لایا جائے تو کتنے ہی بڑے بڑے سیاسی سورما اس کے آگے بونے نظر آئیں گے۔ وہ قیام پاکستان کے بعد لٹ لٹا کر یہاں پہنچا ۔ اس وقت وہ سب کچھ ہار کر قلندر بن چکا تھا، لیکن ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن فکر و نظر کی روشنی تھی، علم کی دولت تھی، اس نے راولپنڈی میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا ، ٹیوشنیں پڑھائیں ، کتابوں کی دکان ، ،تھنکر ز کارنر ، کے نام سے کھولی۔ آخر برماشیل میں معقول ملازمت مل گئی اور کچھ عرصہ بعد وہ تبدیل ہو کر پشاور آگیا ، اس وقت اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک گول مٹول پیارا سا بچہ بھی جنم لے چکا تھا ۔ پشاور آتے ہی اس نے یہاں کے اہل قلم سے فرداً فرداً مل کر اپنا تعارف کرایا ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے نظر یاتی رشتوں نے سارے فاصلے سمیٹ کر ہمیں قریب تر کر دیاتھا۔ دفتری اوقات کے بعد اس کا زیادہ وقت میرے ساتھ ہی گزرتا۔ ان دنوں ابھی اس کے حالات اچھے نہیں تھے لیکن میں نے اسے کبھی حالات کا رونا روتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا ۔
زاہدی کے آنے سے پشاور کی ادبی فضا چمک اٹھی۔ تنقیدی نشستوں میں ہماہمی پیداہو گئی اور لکھنے والوں میں ایک تخلیقی لہر سی دوڑ گئی ۔ ان دنوں پاکستان ایئر فورس کے تین جوان قلم کار نذیر کاوش ،ثاقب اور پرویز بھی ملازمت کے سلسلے میں یہاں مقیم تھے۔ پرویز اور ثاقب شاعر تھے۔ کاوش افسانے لکھتا تھا۔ لکھنے کی لگن ان تینوں میں بڑی اٹھان پر تھی اور تنقیدی شعور بھی اچھا خاصا حاصل تھا ان کی وجہ سے اور کچھ دوسرے مہاجر شعرا کی کوششوں سے تقریبا دو برس تک یہاں صدر میں بڑے ہنگامہ خیز تنقیدی جلسے ہوتے رہے۔۔۔
ایک دفعہ مشہور ادبی ماہنامہ’’ساقی‘‘ کے مدیر و مالک شاہد احمد دہلوی مرحوم ایک ریڈیو پروگرام کے سلسلے میں پشاور وارد ہوئے ، زاہدی اور ان کے نہایت گہرے اور دیرینہ مراسم تھے۔ اس نے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور مجھے بھی بلایا ۔ پہلی دفعہ زاہدی کا ٹھکانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ یہ ایک شکستہ حال مکان تھا جس میں بجلی تک نہیں تھی۔ گھر کا سامان دو چار پائیوں اور چند ایک ٹوٹے پھوٹے برتنوں پر مشتمل تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ،ہم نے ایک بوریے پر بیٹھ کر لالٹین کی مدھم روشنی میں کھانا کھایا۔ لیکن اس کی خود اعتمادی نے بڑا متاثر کیا۔ زاہدی نے نہ تو کوئی معذرت کی۔ نہ شرمندگی محسوس کی، بلکہ اس کی تلافی کچھ اس طرح اپنی سدا بہار مسکراہٹ ، جادو اثر گفتگو اور لطیفوں اور چٹکلوں سے کی کہ کسی اور طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہ دیا۔ سارے وقت بچوں کی طرح اس کے فلک شگاف قہقہے گونجتے رہے۔
میرے معاشی حالات جو کبھی اچھے نہیں رہے، ان دنوں بھی دگر گوں تھے۔ لیکن زاہدی کی حالت دیکھ کر اپنے مصائب بھول گیا اور وہاں سے جا کر کئی دنوں تک اس آہنی انسان کے عزم اور حوصلے کی داد دیتا رہا۔ مجھے زندگی کے متعلق اس کے اس رویے سے ایک نئی روشنی ملی۔ بعد میں اسی جگہ ہم نے لالٹین کے ٹمٹماتے اجالے میں اپنی زندگی کے بعض نہایت اہم فیصلے کیے۔ دلوں کے چراغ جلا کر بجلی کی کمی کو پورا کیا۔ علم و آگہی کی ضیا سے ذہنوں کو منور کیا۔ اپنی فکری الجھنوں کو سلجھا کر ذاتی اور کائناتی رشتوں کو استوار کیا۔ سماجی شعور اور عصری بصیرت حاصل کی۔ غم ذات کی حد بندیاں توڑ کر انسانی سوچ کے ہمہ گیر فلسفے کو اپنایا، اس وقت کہیں جا کر مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ ۔۔۔۔زاہدی ان افلاس زدہ حالات میں فلگ شگاف قہقہے لگانے کی ہمت کیسے کرتا ہے، اپنے ذاتی دکھوں کو اہمیت کیوں نہیں دیتا ،اور حالات کی ستم ظریفی نے جو پہاڑ اس پر توڑے ہیں، ان کی شکوہ گزاری کو قابل اعتبار کیوں نہیں سمجھتا ؟
شاہد احمد مرحوم سے دہلی میں میری ملاقات ہو چکی تھی لیکن اس وقت میری کوئی ادبی حیثیت نہیں تھی اس لیے غالبا وہ مجھے بھول چکے تھے اور میں نے بھی انہیں یاد دلانا مناسب نہ سمجھا ۔ ویسے وہ میرے نام سے آشنا تھے بڑی محبت سے ملے ، اور زاہدی بھائی کے طفیل پہلی دفعہ انہیں قریب سے دیکھنے اور ان سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا۔ بعدمیں ان سے خط و کتابت بھی رہی اور کراچی و لاہور میں متعدد بار طویل صحبتیں بھی میسر آئیں ۔ شاہد صاحب اپنی بعض کمزوریوں کے باوجو د بڑے نفیس اور منجھے ہوئے انسان تھے۔ انہوں نے اپنے ادبی پرچے ’’ساقی‘‘ کے ذریعے ایک عرصے تک زبان و ادب کی جو خدمت کی وہ ہماری ادبی تاریخ کا ایک وقیع باب ہے۔ ایک صاحب اسلوب ادیب ، ایک قابل قدر مترجم اور ایک مشہور ماہر موسیقی کے طور پر ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وفات سے کچھ پہلے جوش ملیح آبادی نے ان کے نانا مولوی نذیر احمد ( جو اردو کے مشہور ناول نگار تھے) کی املا و انشا کی چند غلطیوں کی اپنے کسی مضمون میں نشاندہی کی۔ جس پر شاہد مرحوم ایسے بگڑے کہ ’ساقی‘ کا جوش کے خلاف نمبر نکالنے کا اعلان کر دیا۔میں نے انہیں ایک تفصیلی خط میں اس حرکت سے روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے لکھا کہ وہ اس سلسلے میں اب اتنا آگے جا چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ چنانچہ جوش کے خلاف انہوں نے ’ساقی‘ کا ایک ضخیم جو ش نمبر چھاپ دیا اگرچہ ا س سے جوش کا کچھ نہ بگڑا ،لیکن مرحوم نے اپنی ضد پوری کر کے چھوڑی ۔
ہمیں اپنی دوستیوں کی وسعت پر بڑا فخر ہے، لیکن زاہدی کے تعلقات کا طول و عرض دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ پورے برصغیر ہندو پاک میں شاید ہی کوئی ایسی قابل ذکر ادبی سیاسی ، مذہبی اور علمی شخصیت اسی ہو گی ، جس سے اس کی اچھی خاصی راہ و رسم نہ ہو، سید مطلبی فرید آبادی سے قائداعظم تک ،علامہ اقبال سے احمد ندیم قاسمی تک، علامہ عبدالسلام ، نیازی سے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تک، اور مولوی عبدالحق سے دادا امیر حیدر تک سینکڑوں ہزاروں بڑی شخصیتوں کو اس نے اتنے قریب سے دیکھا ہے اور وہ ان کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے کہ اگر اس نے یاداشتوں کا یہ خزینہ محفوظ نہ کیا تو وطن عزیز کی ادبی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا نہایت قیمتی حصہ ضائع ہو جائے گا، کیونکہ ان عظیم حضرات کے متعلق موجودہ دوستوں میں سے کسی کو بھی صحت کے ساتھ ان تفصیلات کا علم نہیں جن کا عینی شاہد زاہدی ہے۔
پشاور میں اس کے دوستوں کا حلقہ یہاں کے تمام بڑے چھوٹے شعرا ادبا پر محیط تھا۔ سیاسی رہمناؤں میں کاکا صنوبر حسین ، کا کا خوش حال خان ، افضل بنگش ، محمد حسین عطا اور ماسٹر شیر علی مرحوم سے اس کا گہرا رابطہ رہا۔ یہ معروف شخصیتیں ہیں اور میں ان پر کام بھی کر رہا ہوں ، اس لیے یہاں میں صرف ان تین دوستوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو زاہدی کے گم نام دوستوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان دوستوں میں ایک خدا بخش نامی نوجوان تھا جو درزی کا کام کرتا تھا، تعلیم واجبی سی تھی لیکن ذہنی سطح بلند اور روشن تھی جسے مزید جلا دینے میں زاہدی کا بڑا حصہ ہے۔ وہ تلاش معاش میں مہینوں غائب رہتا ، پھر اچانک نمودار ہو جاتا ۔ جب بھی ملنے آتا اس کے جوش و خروش میں کوئی کمی محسوس نہ ہوتی ۔ اسے ہم پرولتاری کہتے تھے اور وہ واقعی صحیح معنوں میں پرولتاری تھا۔ بالکل قلندر قسم کا انسان۔
نہ اچھا پہننے کی فکر، نہ کھانے پینے کا ہوش ہمہ وقت عوام غم میں مبتلا ۔ اب برسوں سے اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ نہ جانے کہاں ہے، کس حال میں ہے؟ زاہدی جب بھی ملتا ہے ، پرولتاری کاضرور پوچھتا ہے۔
اسی طرح ایک تاریخ کا پروفیسر تھا۔ نہایت قدآور، پڑھالکھا ، باشعور ،صحت مند ۔۔۔سنہری مونچھیں جن سے اس کے سرخ و سپید چہرے کا سہاگ قائم تھا۔ ہنس مکھ ایسا کہ اس کی ہنسی کسی لطیفے کی محتاج نہ تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر محفل کو زعفران زار بنا دیتا کیونکہ ہمیں بھی ہونقوں کی طرح اس کی ہنسی پر قہقہے لنڈھانے پڑتے۔ چائے کو شراب کی طرح سپ کرتا۔ سیدھا سادا نیک دل انسان ۔ دوسروں کی باتیں ایسی توجہ سے سنتا جیسے کوئی مجرم عدالت میں اپنی فرد جر م سن رہا ہو۔ نہایت کم گو مگر سیاسی معاملات پر جب بھی زبان کھولتا ، ایسی جچی تلی رائے دیتا جس سے اختلاف کی کم ہی گنجائش ہوتی۔ وہ ہمیں اپنے کوارٹر میں ہمیشہ چور دروازے سے لے جاتا ، مبادا شریف لوگوں سے رسم و راہ کے جرم میں دھرنہ لیا جائے ۔ جب تک زاہدی پشاور میں رہا، اس بھلے آدمی سے لمبی صحبتیں رہیں۔ بعدمیں کبھی کبھار سرِ راہ ملاقات ہو جاتی۔ اس کے خلوص و محبت کے پھول اسی طرح مہکتے رہے۔
زاہدی کادوست نتھو دھوبی پشاور میں قیام کے دوران اس کے کپڑے دھوتا رہا ۔زاہدی پشاور آ کر اس سے ملنا کبھی نہ بھولتا ۔ایک دفعہ مجھے بھی اس کے ہمراہ اس محنت کش دوست سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ زاہدی کو اپنے جھونپڑے میں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جیسے قوس وقزح کے سارے رنگ ناچنے لگے ۔ خوشی کے مارے اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ اس کا بس چلتا تو اپنی ساری کائنات لا کر زاہدی کے قدموں پر نچھاور کردیتا ۔ ہم رخصت ہو کر روانہ ہوئے ۔ میں نے دور جا کر مڑ کے دیکھا وہ اسی انہماک سے ٹکٹکی باندھے ہمیں دیکھ رہا تھا ۔ زاہدی نے کہا ۔ فار غ دیکھا یہ غریب لوگ کتنے مخلص ہوتے ہیں ‘ یہ دوستی کا سودا ناپ تول کر نہیں کرتے ان کے دلوں میں ازلی و ابدی محبت کے چراغوں کی روشنی اب تک محفوظ ہے ۔
اب اس کے سکہ بند شاعر دوستوں کا ایک عبر تناک واقعہ سُن لیجے ۔ ایک دفعہ زاہدی اپنے بیٹے انور کے ساتھ ملتان سے لاہور جا رہا تھا ۔ اسٹیشن پر پہنچے گاڑی چلنے ہی والی تھی ‘ ایک ڈبے میں سوار ہوتے ہوئے دو نہایت معتبر شاعر دوستوں پر نظر پڑی (اس نے نام نہیں بتائے ) جو اگلے ڈبے کی طرف لپک رہے تھے ۔ یہ بڑے اشتیاق سے بّچے کی انگلی پکڑ ے ‘سامان سنبھالے اس خیال سے ان کی طرف چلے کہ راستے میں گپ چلے گی ‘ سفر خوب کٹے گا ۔ اُنہوں نے دیکھا اور بڑی سردمہری سے چلّا کر کہا ۔
’’
یہاں جگہ نہیں ہے اسی ڈبے میں بیٹھ جاؤ ‘ لاہور میں ملاقات ہو گی ۔ ‘‘ اور یہ اپنا سامنہ لے کر لوٹ آئے ۔ زاہدی کو اس کا بڑا صدمہ تھا ’’بچہ کیا سوچتا ہوگا کہ اس کے ابا کے یہ کیسے دوست تھے ۔ ‘‘ اس کے باوجود اس کا ظرف دیکھیے کہ اب تک ان سے دوستی پال رہا ہے ۔
زاہدی شروع ہی سے ادب کا ایک ذہین قلم کا ر تھا۔ اس نے ایک ایسے پُرآشوب دور میں آنکھ کھولی جب برصغیر میں جنگ آزادی کی تحریک اپنے پورے عروج پر تھی اور انگریز سامراج کی غلامی سے گلوخلاصی کے لیے ہرنو جوان دار ورسن کی آزمائش سے گزرنے کو بے تاب تھا ۔ پھر تلاشِ روزگار کے لیے اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ۔ وہ شہر شہر قریہ قریہ سر گرداں پھرتا رہا ۔ اس آوارہ گردی میں اسے محنت وسرمایہ کی کش مکش کا نہایت تلخ تجربہ ہوا‘ طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواریوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ بلکہ اس زہر کو اپنے رگ وپے میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا ۔ پھر تقسیم ملک کے ساتھ ہی مذہبی اور نسلی فسادات کے الاؤسے گزر کروہ پاکستان پہنچا ۔ آگ اور خون کے اس سیلاب میں اُس نے ہزاروں لاکھوں بے گناہوں کو مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ہنستے بستے شہروں کی تباہی اور پُر امن گھرانوں کی بربادی کے مناظر نے اس کے احساس کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ۔
پاکستان آکر اسے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی کمینگیوں سے دو چار ہونا پڑا ۔ یہ خوافناک واقعات ایک ہوش مند انسان کو پاگل بنانے کے لیے کچھ کم نہ تھے ۔ لیکن اس کی سوچ ایک ترقی پسند دانشور کی سوچ تھی ۔ انسانی شرف پر غیر متزلزل یقین اور اس انقلاب میں کشت وخون کے اقتصادی‘ معاشی اور طبقاتی اسباب کے شعور نے اسے زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیا اور وہ محنت وہمت جو اس کی گھٹی میں پڑی تھی اس کے لیے ایک نئی زندگی کے آغاز کا سہارا بنی۔
زاہدی ایک عرصے تک افسانہ نگار ‘ انشائیہ نگار اور نقاد کے طور پر ادبی حلقوں سے متعارف رہا ۔ پھر اچانک اُس نے ربا عیات وقطعات لکھ کر لوگوں کو چونکا دیا ‘ پھراس کی نظمیں اور غزلیں چھپنے لگیں۔میں اسکی ادبی‘سیاسی سماجی بصیرت اور غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ہمیشہ قائل رہا لیکن مجھے اس کی شعرگوئی کے متعلق کبھی حسن ظن نہیں تھا۔ جب پہلی دفعہ اس کی رباعیات میری نظر سے گزریں تو سب سے زیادہ اچنبھامجھے ہوا اور میں نے اسے لکھا ۔ ’’شاعری کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کرو ‘ نثر تمہارا میدان ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو‘ اسی میں تمہارا بھلا ہے ۔‘‘میرے اس فقرے نے جیسے اس پر تازیانے کاکام کیااور وہ زیادہ زور وشور اور پوری لگن سے لکھتا رہا ۔اور آخررباعیات وقطعات میں اس نے اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لیا ۔ اس کی ربا عیاں اور قطعے ملک کے تمام بلند پایہ ادبی پر چوں میں چھپنے لگے اور ان اصناف میں اصلی اختر انصاری کے بعد اس کا نام آنے لگا۔
پھر ماہنامہ کتاب میں اس کے چند ادبی خاکے سامنے آئے تو دوستوں کی خیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ خاکے نہ صرف بھر پور اور معلومات افزاتھے ‘ بلکہ ایک منفرد اسلوب کے حامل بھی تھے ۔زبان کی چاشنی کے علاوہ ان خاکوں میں زاہدی کا غیر معمولی سیاسی وسماجی شعور رچا بسا تھا۔ یہ خاکے دیکھ کر مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا کہ میں اس سے بارہا ان عظیم شخصیتوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور میں نے اس موضوع پر لکھنے کے لیے اسے اکسانے کی کوشش بھی کی تھی ۔ لیکن وہ پبلشروں کی بے اعتنائی اور ادبی جرائد کے مدیروں کی سرد مہری سے اتنا بددل ہو چکا تھا کہ مزید کچھ لکھنے کی سکت نہ پاتا تھا ۔ اب اس کی بارہ خاکوں پر مشتمل کتاب ’’یادوں کے سائے ‘‘ شائع ہو چکی ہے اور اس کا دوسرا حصہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔ زاہدی ادب کا چھپارستم اس کا فن قسطوں میں طلوع ہو رہا ہے ۔ افسانے ‘ انشائیے ‘ تنقید‘ خاکے ‘ قطعات رباعیات ‘ نظمیں ‘ غزلیں ‘ ان اصناف کا ذکر تو ہوچکا ۔ نہ جانے اور کیا کیا شہ پارے یہ ہنر مند اپنے بطن میں لیے بیٹھا ہے ‘ اس محبوب عشوہ طراز کی طرح جس کے متعلق غالب نے کہا تھا
بھرم کھل جائے ظالم‘ تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُرپیچ وخم کا پیچ و خم نکلے
یوں یہ تمام خاکے بڑے منفرداور فکر انگیز ہیں۔ لیکن ان مین ڈاکٹر عابد حسین ‘ مولانا حسرت موہانی اور علامہ عبدالسلام نیازی کے تشخص میں تو اس کے قلم کی معجز نمائی اپنے عروج پر نظر آتی ہے ۔ خصوصا علامہ عبدالسلام نیازی کا خاکہ تو زاہدی کا ایسا شاہکار ہے جو ہمیشہ یاد رہے گا ۔ اس میں اس نے کچھ ایسے زاویوں سے رنگ ابھارے ہیں اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ایسی مہارت سے روشنی ڈالی ہے کہ ان کی علمی، ادبی اور مذہبی شخصیت اپنی پوری عظمت اور جلال و جمال کے ساتھ نکھر کر سامنے آئی ہے۔ ظاہر ہے جس ہستی کی بار گاہ میں جوش ملیح آبادی ، خواجہ حسن نظامی ، نیاز فتح پوری جیسے لسان اور منہ پھٹ انسان گونگے ہو کر رہ جائیں ، وہ خود کتنی دیو قامت علمی شخصیت ہو گی۔ یہ خاکہ پڑھ کر میں اس اولوالعزم شخصیت سے مسحور ہو کر رہ گیا اور ان کے نیاز حاصل کرنے کی خواہش ایسی شدت سے ابھری کہ اگر ان کا انتقال نہ ہو چکا ہوتا اور وہ کوہ قاف میں بھی ہوتے تو بھی میں انہیں ایک نظر دیکھنے کے لیے اڑ کر وہاں پہنچ جاتا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ زاہدی دیکھنے میں کوئی انگریزی فوجی افسر لگتا ہے۔ رنگ اور نقوش بھی ویسے ہی ہیں۔ لباس بھی عموما ان سے ملتا جلتا پہنتا ہے۔ دائیں ہاتھ میں کالے رنگ کا چھوٹا سا رول ہوتا ہے (جو پرانے فوجیوں کا طرہ امتیاز تھا(جسے گھماتے رہنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس سے اس کے ذہنی اضطراب اور مستعدی کی بھی نشان دہی ہوتی ہے اور اب تو یہ رول اس کی شخصیت کا ایسا لازمہ بن چکا ہے کہ اس کے بغیر وہ نامکمل محسوس ہوتا ہے ۔ میں نے اس حرکت پہ ٹوکا ، لیکن اس کا کہنا ہے کہ یہ ڈنڈادافع آفات ہے جس کی بدولت راشی افسر اور کتے اس سے بدکتے ہیں اور اس طرح وہ ان کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔
چھوٹا کنبہ ،خوش حال گھرانے کا نسخہ استعمال کرنے کی شاید اس نے خود تو کوئی کوشش نہیں کہ کہ ہماری طرح اسے بھی اس وقت یہ شعور نہیں تھا ۔ غالبا خوش بختی سے خود بخود ہی اسے یہ سعادت حاصل ہوگئی ۔ صرف دو بچے ہیں۔ا نور اور طلعت ۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ، کمبی نیشن بھی لا جواب اور ذہانت و فطانت میں بھی دونوں بے مثال ۔ اب انور ماشاء اللہ ڈاکٹر بن چکا ہے اور ساتھ ہی جدید شاعر بھی ہے۔ ماہ طلعت نے ایم اے کیا ہے ، وہ نئی نسل کی شاعرہ ہے۔ لیکن بچے تو بوڑھے ہو کر بھی والدین کے لیے بچے ہی رہتے ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی جو سیاست میں اتنے بہادر ہیں کہ بڑی بڑی آزمائشوں اور خطرات کو خاطر میں نہیں لائے۔ لیکن بچوں کے معاملے اور خصوصا انور بیٹے کے سلسلے میں اس قدر کمزور واقع ہوئے ہیں کہ ذرا آنکھوں سے اوجھل ہوتو غش آنے لگتے ہیں۔
ہماری بھابی زاہدی کی سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ وہ غصہ ور تو نہیں لیکن پروردگار نے اس ضعیف جان پر رعب دبدبے کی اس قدر ارزانی کی ہے کہ زاہدی تو کیا اس کے تمام دوست بھابی کے سامنے بھیگی بلی نظر آتے ہیں۔ خصوصا مجھ سے تو ان کی ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ اس لیے کہ میں ذرا سرکش قسم کا بندہ ہوں۔ ہماری لڑائی بڑی نستعلیق قسم کی ہوتی ہے۔ بچے اور زاہدی ا س لڑائی کے خوب مزے لیتے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو مجھے بھی اندر ہی اندر یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ بھابی کہیں غصے میں آکر مرمت نہ کر ڈالیں ، لیکن ایسا نہیں ہے وہ بڑی مہربان بھابی ہیں ان کے غصے اور سرزنش میں شفقت ہوتی ہے جو چھپائے نہیں چھتی ۔
بھابی نہ صرف انور اور طلعت کو ابھی تک معصوم اور نادان سمجھتی ہیں ، بلکہ زاہدی کو بھی پالنے کے بچے کی طرح انگلی پکڑ کی چلانے پر مصر رہتی ہیں جو ان کے لاڈ دلار کی انتہا ہے ۔ اس وقت زاہدی بچا بڑا مظلوم لگتا ہے۔ وہ اپنی مخصوص شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بھابی کو ایسی رحم و طلب نظروں سے دیکھتا ہے ، گد گدی کا کام کرتی ہیں اور بھابی کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہیں۔
ویسے بھابی بڑے کردار کی خاتون ہیں۔ انہوں نے زاہدی کی سیاسی زندگی میں بڑے کڑے دن گزارے ہیں۔ وہ ددنوں ایک دوسرے کو والہانہ چاہتے ہیں اور شاید اسی لاڈ پیار نے ان کی عادتیں اس حد تک بگاڑدی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ذرا سی تکلیف دیکھ کر بدحواس ہو جاتے ہیں۔ تاہم غنیمت ہے کہ ان کی خوش طبعی زیادہ دیر تک ماحول کوناگوار بننے نہیں دیتی اور جلد ہی اجلی مسکراہٹیں فضا میں خوشبو کی طرح بکھر جاتی ہیں ، خصوصا ماہ طلعت کے قہقوں نے تو گھر کو خوشیوں کا گہوارہ بنا رکھا ہے۔ اسے جب ہنسی چھوٹتی ہے تو امی کی سرزنش اور ابو کی ڈانٹ ڈپٹ بھی اسے نہیں روک سکتی۔ جب کبھی وہ ہمارے ہاں آتے ہیں تو ان کے بچے اور ہمارے بچے مل کر رات گئے تک وہ طوفان اٹھاتے ہیں کہ ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا ، والے میر تقی میر کے شعر کا یہ دوسرا رخ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
زاہدی کی صحبت گزرے ہوئے دنوں کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندی کے جراثیم پہلے سے میرے اندر موجود تھے اور اپنے معاصرین سے میری سوچ خاصی مختلف تھی لیکن اس نے مجھے انسانی قدروں سے روشناس کرایا، قلم کے استعمال میں اپنی ذمے داری کا احساس دلایا، فنی سفر میں نئی روشنیوں کی راہ دکھائی اور میری سوچ کو وسعت دے کر بے کراں بنا دیا۔
دوستی کی تشخیص میں وہ بار ہا غچہ کھا چکا ہے پھر بھی وہ خوش نصیب ہے کہ ا س نے زندگی میں دو چار دس نہیں ڈھیروں ایسے دوست کمائے ہیں جن کی وفاداری کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔