کالم سے انتخاب
انتظار حسین
محقق جو کالم نگار کی حیثیت سے نامور ہوا


مشفق خواجہ کیا باغ و بہار آدمی تھے۔ ویسے تو بہت خوش گفتار تھے۔ بس سمجھ لوکہ باتیں کرتے تھے تو منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ مگر انہی پھولوں میں جا بجا کانٹے بھی ہوتے تھے۔ اولاً تو وہ محقق تھے اور بڑے پائے کے محقق۔مگر پھر انہوں نے کالم نگاری میں بھی قدم رکھا۔ یہ تو گویا اجتماع ضدین تھا۔ علماء، فضلاء اور محققین کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ ان کی علمی ثقاہت کالم نگاری ایسی صنف کے ساتھ کہاں نباہ کر پاتی ہے۔ مگر یہ بھی کمال ہوا کہ اس محقق نے جب کالم نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو وہ جو ہم نے ان کی خوش گفتاری کا ذکر کیا اور خوش گفتاری میں گھلا ملا طنز و مزاح کا رنگ ، اس نے ان کالموں کو بہت رونق بخشی ۔ تو اب اس ستم ظریفی کو ملاحظہ کیجئے کہ ان کے گزر جانے کے بعد ان کے تحقیقی کاموں کا ذکر تو کم آتا ہے مگر وہ جو انہوں نے چلتے چلتے کالم لکھے تھے اس کی گونج ادبی حلقوں میں اب تک سنی جاتی ہے۔
واضح ہو کہ مشفق خواجہ نے سیاسی کالم تو شاید ہی کوئی لکھا ہو۔ ان کا شغف ادب سے تھا، علمی ادبی کتابوں سے شاعروں سے افسانہ نگاروں سے ۔ ان میں دوسرے اہل قلم کو بھی شامل کر لیجئے ۔شاعر اور ٹیڑھے میڑھے ادیب ہر پھر کر ان کا ہدف بنتے تھے۔ مگر کمال لکھتے تھے کہ زخم خوردگان ان کے تیرونشتر پر اف بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اف کریں تو بد مذاق کہلائیں ۔خوش مذاقی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اگر اچھا فقرہ ہے تو بیشک شریف آدمی اس سے گھائل ہو جائے مگر فقرے پر داد وا جب آتی ہے ۔ انہیں دنوں مقتدرہ قومی زبان نے ان کے کالموں کا ایک مجموعہ شائع کیا ہے ۔ اس سے پہلے ان کا ایسا ہی ایک مجموعہ ’’ خامہ بگوشیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ واضح ہو کہ وہ خامہ بگوش کے صحافتی نام سے یہ کالم لکھتے تھے۔ اب دوسرا مجموعہ’’ مزید خامہ بگوشیاں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔ پڑھتے جائیے اور مسکراتے جائیے۔
ایک کالم میں انہوں نے انجم رومانی کے ایک انٹرویو سے کچھ ان کے بیانات نقل کئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے ۔
’’
ظفر اقبال کا ذکر کرتے ہوئے انجم صاحب فرماتے ہیں’’ اس نے اپنے آپ کو ضائع کر لیا ہے۔‘‘ ہمیں اس رائے سے صد فی صد اتفاق ہے کیونکہ یہ رائے ظفر اقبال کے حق میں جاتی ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شاعر اپنی حرکات سے نیز اپنی شاعری سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ظفر اقبال نے شاعری کے ذریعے نازل ہونے والا عذاب اپنی جان پر لے لیا۔ وہ چاہتے تو دوسرے شاعروں کی طرح اپنے ساتھ اپنے قارئین کو بھی ضائع کر سکتے تھے۔ رہا اس کاغذ کا ضائع ہونا جس کو ظفر اقبال ضائع نہ کرتے تو ان کے حصے کا غذ بھی انیس ناگی ضائع کر دیتے ۔ ظفر اقبال کا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اپنی کتابیں شائع کر کے انیس ناگی کو مزید کاغذ ضائع کرنے سے باز رکھا۔ ‘‘
ایک کالم میں انہوں نے قتیل شفائی کا ایک بیان نقل کیا ہے جو یوں ہے’’ آپ مجھے تنقید نگاروں کی تحریروں میں کم کم پائیں گے۔ میں تنقید سے مطمئن نہیں اس لئے کہ اس میں میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔‘‘ اس پر مشفق خواجہ نے ٹکڑا لگایا ہے’’ عجیب بے اطمینانی کا دور ہے ۔ نقاد قتیل شفائی کی شاعری سے مطمئن نہیں۔ قتیل شفائی نقادوں سے مطمئن نہیں۔ اور پڑھنے والے دونوں سے غیر مطمئن ہیں۔ ‘‘
احمد فراز سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی مادری زبان پشتو میں شاعری کیوں نہیں کی۔ انہو ں نے جواب دیا’’ وہاں اتنے بڑے شاعر تھے کہ میں گھبرا گیا۔ غنی صاحب ‘ حمزہ شنواری، اجمل خٹک۔ ‘‘
مشفق خواجہ اس پر ٹکڑا لگاتے ہیں’’بات بڑی معقول ہے۔ اردو میں فیض اور راشد سمیت کوئی ڈھنگ کا شاعر ہی نہیں تھا۔ احمد فراز نے اچھا کیا کہ اس خلا کو پر کر دیا۔‘‘ایک اور تبصرہ ملاحظہ فرمائیے ’’شوکت صدیقی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ رائٹرز گلڈ کا اصل مقصد ادیبوں کے پس ماندگان کی مالی مدد کرنا تھا۔ اس لیے تو اس زمانے میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ رائٹرز گلڈ ادیبوں کے لئے نہیں، ان کے پس ماندگان کی فلاح و بہبود کے لئے بنایا گیا ہے۔ رائٹرز گلڈ کی طرف سے ادیبوں کی تجہیز و تکفین کے لیے بھی معقول رقم دی جاتی تھی ۔ ایک مشہور شاعر نے ایک مرتبہ گلڈ کو درخواست دی کہ میرے انتقال کے بعد تجہیز و تکفین کے لیے جو رقم دی جائے گی وہ میری زندگی ہی میں ادا کر دی جائے تا کہ میں مرنے سے پہلے زندگی کے چند روز آرام سے بسر کر سکوں ۔‘‘ مشفق خواجہ نے ایک کالم میں شوکت صدیقی کا یہ بیان نقل کیا ہے’’ اپنے اعزاز میں تقریبات میں شریک ہونا اکیڈمی کے چےئرمین فخر زماں کا سب سے بڑا کام ہے اور ان کی تقاریر ٹیلی ویژن ‘ ریڈیو اور اخبار ات میں باقاعدگی سے آتی ہیں۔‘‘ ان کا اپنا تبصرہ ’’ صورت اچھی ہو تو اس قسم کے اشغال مستحسن ہوتے ہیں نہ کہ مذموم۔ آخر ٹی وی اور اخبارات میں اشتہار بھی تو ہوتے ہیں۔ ان پر تو کوئی معترض نہیں ہوتا۔‘‘ مشہور افسانہ نگار رام لال کے متلعق لکھتے ہیں، ’’انہوں نے بتایا ہے کہ ان کی ایک عزیزہ کا انتقال ہو گیا۔ تمام گھر والے ایک ایک کر کے سو گئے مگر رام لال لاش کے پاس بیٹھے اپنا ماسکو کا سفر نامہ لکھتے رہے۔ یہ سفر نامہ ہم نے پڑھا ہے۔ یہ ایسا سفر نامہ ہے جو صرف ایک نعش کے پاس بیٹھ کر ہی لکھا جا سکتا تھا۔‘‘ایک ادیب کے متعلق ، ’’ ہم نے ایک مرتبہ ایک مشہور ادیب کے بارے میں لکھ دیا تھا کہ ان کی کتابوں سے ہماری شرح ناخواندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ آج تک اس فقرے کو معاف نہیں کر سکے۔ حالانکہ ناراض ہمیں ہونا چاہیے تھا ۔ شرح خواندگی میں اضافے سے نقصان ہمارا ہوا تھا نہ کہ ان کا ۔ ‘‘
سلیم اختر نے لکھنے کے دوران اپنی کیفیت یوں بیان کی کہ شدید اعصابی قسم کا تناؤ ہوتاہے۔ بعض اوقات تناؤ کے باعث بازو شل ہوجاتے ہی۔ اس پر مشفق خواجہ نے یوں تبصرہ کیا’’ان تحریروں کو لکھتے وقت ڈاکٹر صاحب کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔ اندازہ بیان کیجئے کہ ان تحریروں کو پڑھتے وقت ہم پر کیا قیامت گزرتی ہو گی۔‘‘ اخباروں میں ایک ادبی صفحہ بھی ہوتا ہے۔اس کے انچارج ادیبوں کا طریقہ واردات کیا ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں’’ایک اخبار نے اپنے نائب کو ہدایت دے رکھی تھی کہ جب بھی کوئی ایسی خبر یا مضمون چھپنے کے لئے آئے جس میں ناموں کی فہرست ہوتو اس فہرست میں بلا تکلف ان کا نام شائع کر دیا جائے ۔ ایک مرتبہ ایک ایسے مضمون میں سال گزشتہ کے مرحومین کی فہرست دی ہوئی تھی۔ حسب معمول اس میں انچارج ادیب کا نام بھی شامل کر دیا گیا۔ اس فہرست میں اپنا نام دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ خوشی کی وجہ یہ تھی کہ اگلے ہفتے جب اس غلطی کی تصحیح کی جائے گی تو اس میں بھی موصوف کا نام شامل ہوگا۔ !!

 

بے چارے امن کو آشا سے ملنے دو ۔۔۔۔۔سب جھوٹ
امر جلیل
میں نے جب سنا کہ بیوپاریوں کا ایک خیر سگالی گروپ ہندوستان جارہا ہے، مجھے تب خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی بیوپاریوں کے خیرسگالی وفد میں شامل ہوجاؤں اور آشا کو دیکھ آؤں۔ یہ کوئی پہلا وفد نہیں تھا جو خیر سگالی دورے پر ہندوستان جارہا تھا۔ دانشوروں کے وفد بھی آئے دن ہندوستان جاتے رہتے ہیں، ادیبوں کے وفد بھی ہندوستان جاتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ صنعت کاروں کے وفد کے ساتھ ہندوستان جانے کی ٹھانی تھی۔ وفد میں شامل کرنے سے پہلے صنعت کاروں کی کاروباری کمیٹی نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا تھا۔ میں اللہ سائیں کا آدمی ہوں۔ میرا حلیہ دیکھ کر کمیٹی کے ممبر انگشت بدنداں ہوگئے یعنی انہوں نے دانتوں میں انگلیاں دے دیں۔ زیادہ محوحیرت ممبروں نے اپنی انگلیاں چبا کر لہولہان کرڈالیں۔ کمیٹی کے ایک ممبر نے پوچھا ’’کیا تم جانتے ہو، اس خیر سگالی وفد میں صنعت کار ہندوستان جارہے ہیں؟ ‘‘
’’
جی ہاں۔ میں جانتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’
میں صنعت کاروں کے وفد میں شامل ہو کر ہندوستان جاکر آشا سے ملنا چاہتاہوں، میرا نام امن ہے‘‘۔
دوسرے ممبر نے پوچھا ’’کیا کرتے ہو؟ ‘‘
میں نے کہا’’بیکار ہوں‘‘۔
’’
اس وفد میں صرف صنعت کار ہی شامل ہوسکتے ہیں‘‘۔ ممبر نے کہا’’بیکار نہیں‘‘۔
تب میں نے کہا تھا’’پاکستان کی سب سے بڑی صنعت بیکاری ہے۔ اس لحاظ سے میں ایک بہت بڑا صنعت کار ہوں‘‘۔
انہوں نے مجھے کمیٹی روم سے باہر نکال دیا تھا۔ اس طرح کی نوبت پہلی مرتبہ نہیں آئی تھی۔ ایک مرتبہ پہلے بھی میں کوچے سے بے آبرو ہوکر نکالا گیا تھا۔ تب دانشوروں کا ایک خیر سگالی وفد ہندوستان جارہا تھا۔ وفد کے منتظم اعلیٰ سے جب میں نے رجوع کیا تو انہوں نے غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’دانشوروں کے اجلاس میں تمہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
میں نے کہا ’’میں اجلاسوں میں نہیں جاتا‘‘۔
منتظم اعلیٰ نے کہا ’’تمہیں کسی کتاب کی صورت میں بھی نہیں دیکھا‘‘۔
مجھے خاموش پاکر منتظم اعلیٰ نے پوچھا’’کیا تم نے کسی کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے؟ کسی کتاب پہ تنقید کی ہے؟ ‘‘
میں نے جب نفی میں سر کو جنبش دی تب منتظم اعلیٰ نے مجھے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا’’تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ دانشوروں کے وفد میں تم شامل ہوسکتے ہو ! ارے تم تو گدھوں کے وفد میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہو!‘‘۔
آشا سے ملنے کا جنون میرے سر پر سوار تھا۔ انہی دنوں کسی نے مجھے بتایا کہ ادیبوں کا ایک خیر سگالی وفد ہندوستان جارہا ہے۔ تم کوشش کرکے دیکھ لو۔ شاید وہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ وفد کے سربراہ نے مجھ سے پوچھا’’تمہاری کتاب مارکیٹ میں بکتی ہے یا تم خود لوگوں میں بانٹتے پھرتے ہو؟ ‘‘
میں ہکّا بکّا رہ گیا۔ کتاب کا مارکیٹ میں بکنا یا لوگوں میں بانٹتے پھرنا تو دور کی بات تھی، میں نے تو سرے سے کبھی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں تھی۔ مجھے خاموش پاکر وفد کے سربراہ نے کہا’’کتاب کا بکنا معیوب فعل ہے۔ ہمارے وفد میں صرف ایسے ادیب شامل ہوسکتے ہیں جو اپنی کتاب خود شائع کرتے ہیں اور دوست احباب اور لوگوں میں بانٹتے پھرتے ہیں‘‘۔
وہاں سے نکل آنے کے بعد میں نے سوچا میں عام آدمیوں کے خیر سگالی وفد میں شامل ہوکر ہندوستان جاؤں گا اور آشا سے مل کر آؤں گا۔ بہت پاپڑ بیلنے اور بھاگ دوڑ کے بعد پتہ چلا کہ چونکہ عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اس لئے وہ خیر سگالی وفد لے کر ہندوستان نہیں جاسکتے۔
سنا ہے کہ عنقریب بیوپاریوں کا ایک خیرسگالی وفد ہندوستان جارہا ہے۔ سوچتا ہوں بیوپاریوں کے وفد میں شامل ہوجاؤں۔ مگر میرے پاس بیچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے پاس محبتیں ہیں، خواب ہیں، امیدیں ہیں اور یہ چیزیں بیچی نہیں جاسکتیں۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ راولپنڈی ، مورخہ ۲۴ اپریل ۲۰۱۲ء
اردو کے لیے اب فارسی اہم ہے یا سندھی ، بلوچی ، پشتو اور پنجابی
سید سردار احمد پیرزادہ
 ایک رائے کے مطابق اردو زبان کی پیدائش میں عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کا اہم حصہ ہے۔ اُن دنوں جب حملہ آور ہندوستان میں آتے تھے تو اُن کے لشکروں میں عربی، فارسی اور ترکی زبان بولنے والے سپاہی شامل ہوتے تھے۔ اُن کے میل جول نے ایک نئی زبان کو جنم دیا تاکہ مختلف نسلوں کے لوگوں کا آپس میں ابلاغ آسان ہو سکے۔ یہ عمل خود بخود فطری انداز سے چلتا رہا اور نئی زبان یعنی اردو کی شکل آہستہ آہستہ واضح ہوتی گئی۔ اردو زبان کو لشکریوں کی زبان بھی کہتے ہیں لیکن ان حملہ آور لشکروں کے سربراہ عموماََ فارسی بولتے تھے جس کے باعث لمبے عرصے تک ہندوستان کے حکمرانوں کی زبان فارسی ہی رہی۔ اسی لئے فارسی ایلیٹ کی زبان تصور کی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے حالات بدلے اور حکمران بھی بدل گئے۔ پھر انگریز کا دور آیا۔ اس حملہ آور نسل کے لشکریوں میں نہ تو عربی، فارسی، ترکی کے سپاہی شامل تھے اور نہ ہی ان لشکروں کے سربراہوں کا فارسی سے کوئی تعلق تھا۔ فتح کئے جانے والے ملک میں عام لوگوں کے ساتھ کام کاج چلانے کے لئے انگریزوں کو کسی نہ کسی زبان کی ضرورت فطری تقاضا تھی۔ چونکہ انگریزوں نے اقتدار ایسے افراد سے چھینا تھا جو فارسی بولتے تھے
لہٰذا فاتحین کی فطرت کے مطابق انگریز شکست خوردہ ہندوستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اُن کی زبان فارسی کو بھی شکست دینا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان میں سرکاری کام کاج چلانے کے لئے فارسی کو سرے سے ہی رد کر دیا لیکن دوسری طرف ہندوستان کے باشندوں کو اپنے نئے حکمرانوں کی زبان انگریزی نہیں آتی تھی۔ ہندوستان کی مقامی زبان سنسکرت جس کی آسان شکل ہندی ہے پورے ہندوستان میں نہ بولی جاتی تھی نہ سمجھی جاتی تھی اس لئے انگریزوں کو ہندی سے بھی زیادہ فائدے کی توقع نہ تھی۔ انگریزوں کی آمد تک اردو زبان اپنی شناخت قائم کر چکی تھی جو ہندوستان کی تقریباََ تمام بڑی زبانوں کے ساتھ تعلق داری رکھتی تھی۔ سادہ اور تمام علاقوں میں کسی حد تک سمجھی جانے والی زبان کے باعث انگریزوں نے اردو زبان کو اپنے استعمال میں رکھا اور کسی حد تک ترقی بھی دی۔ مثلاََ بلوچستان میں انگریزوں نے اردو زبان کو بہت سہارا دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی خان آف قلات کی پارلیمنٹ میں سرکاری زبان اردو تھی۔ا سی طرح کشمیر میں انگریزوں کا بہت آنا جانا تھا، وہاں بھی اردو بہت پروان چڑھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزوں کو اردو زبان سے محبت تھی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انگریز بہت ہی سمجھدار اور سائنٹفک حکمران تھے۔ اُن کے خیال میں اردو زبان کو ترقی دینے سے دو بڑے فائدے ملتے۔ ایک تو یہ کہ یہاں کے سابق حکمرانوں کی نشانی فارسی زبان سے چھٹکارا، دوسرا ہندوستان کی عام آبادی سے رابطے میں آسانی کیونکہ مقامی آبادی انگریزیبول چال سے ناواقف تھی۔ ہندوستان میں ایک نیا دور اُس وقت آیا جب انگریز چلے گئے اور ہندوستان اور پاکستان دو علیحدہ علیحدہ ملک بن گئے۔ انگریزوں کے تقریباََ ۱۰۰برس کے اقتدار میں انہیں اتنی کامیابی تو ضرور ہوئی کہ انہوں نے فارسی زبان کو دیس نکالا دے دیا۔ پاکستان بننے کے بعد اردو زبان کو قومی زبان بنانے کی بات کی گئی جس کے تین نتیجے سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ کچھ حصوں میں اِسے قبول ہی نہیں کیا گیا اور اندر ہی اندر مزاحمت پکنے لگی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ دوسرا یہ کہ اِسے کچھ حصوں میں قبول کر لیا گیا مگر اپنی اپنی مادری زبان کو نہیں چھوڑا گیا جن میں سندھ، سرحد اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔ تیسرا یہ کہ اِسے کچھ حصوں میں دل و جان سے قبول کیا گیا اور اپنا سب کچھ بھول کر اِسے اپنا لیا گیا جس میں پیش پیش پنجاب تھا یا کراچی اور حیدرآباد جیسے وہ شہر جہاں آباد ہونے والے اکثریتی لوگوں کی مادری زبان اردو تھی۔ پاکستان کے بعد اردو کے لئے سب سے زیادہ قربان ہو جانے والا علاقہ پنجاب ہی تھا جہاں کے مکینوں نے اپنی مادری زبان کو اپنی نئی نسل تک نہیں پہنچایا اور اب صورتحال یہ ہے کہ جب ۲ سندھی ملتے ہیں تو سندھی بولتے ہیں، ۲پٹھان ملتے ہیں تو پشتو بولتے ہیں، ۲ بلوچ ملتے ہیں تو بلوچی بولتے ہیں لیکن ۲پنجابی ملتے ہیں تو اردو بولتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں اردو کو اب تک قومی زبان کی حیثیت سے عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اردو زبان نے پاکستان میں اپنا دائرہ کار بڑھایا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اردو زبان کو پنجاب کے علاوہ بھی دوسرے صوبوں کے لوگوں نے دل و جان سے قبول کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ اردو زبان رابطے کی زبان کا کام دے رہی ہے بالکل ویسے ہی جیسے انگریزوں نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں لوگوں سے رابطے کے لئے اردو زبان کو استعمال کیا۔ اردو کا پاکستان میں رابطے کی زبان کی حیثیت سے آگے بڑھنا کسی فرد یا ادارے کا کمال نہیں بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ البتہ اس فطری عمل میں کچھ مشکلات ضرور پیدا کی جاتی ہیں جن میں سے ایک کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی سکالر کسی دوسری زبان کی تحریر کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عموماََ دیکھا گیا ہے کہ ترجمے کے لئے صرف فارسی الفاظ کو ہی تلاش کیا جاتا ہے اور اِس کی دلیل میں کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کی اساس فارسی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو زبان کی اساس عربی اور ترکی زبانیں بھی تھیں تو اُن میں سے ترجمے کے لئے الفاظ تلاش کیوں نہیں کئے جاتے؟ اس کا جواب بالکل سیدھا سیدھا یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اب ہمارے ہاں ترکی زبان کو بولنے اور سمجھنے کا رواج بالکل ختم ہو چکا ہے جبکہ عربی زبان سے بھی ہمارا تعلق صرف مذہبی کتابوں تک ہی رہ گیا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فارسی زبان بھی ہمارے ملک کے بہت ہی کم حصے میں سمجھی جاتی ہے تو پھر ترجمہ کرتے ہوئے فارسی کے الفاظ کا ہی چناؤ کیوں کیا جاتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں ہونے والا ترجمہ عام لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے اور تمسخر کا نشانہ بنتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں انگریزی زبان کے الفاظ زیادہ شامل ہو رہے ہیں کیونکہ انگریزی زبان پوری دنیا سمیت ہمارے ملک میں بھی سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہاں انگریزی کی حمایت اور فارسی کی مخالفت کرنا مقصود نہیں بلکہ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بات ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم قومی زبان کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے فرانسیسیوں، جاپانیوں اور چینیوں کی مثال دیتے تھے کہ انہوں نے انگریزی کو دفع کر کے اپنی زبانوں کو ترجیح دی لیکن اب سٹڈی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انگریزی زبان فرانسیسیوں اور جاپانیوں سمیت چینیوں کے لئے بھی بہت اہم ہوتی جا رہی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ یورپ یا امریکہ جانے والے چینی ورکر انگریزی زبان سیکھنے کے لئے ٹیوشن رکھتے ہیں اور ان کے ٹیوٹر زیادہ تر پاکستانی ہوتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ ڈیٹا ملاحظہ ہو کہ چینی اتنی بڑی تعداد میں انگریزی سیکھ رہے ہیں کہ مستقبل میں جس قوم میں سب سے زیادہ انگریزی بولنے والے لوگ ہوں گے وہ چینی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقلمند لوگوں نے اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ وقت کی زبان کو بھی اپنا لیا ہے۔ اب ہم اپنی صورتحال پر غور کریں تو ہم نے ابھی تک اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے فارسی کی ضد نہیں چھوڑی بیشک اسے عام لوگوں میں قبول ہی نہ کیا جا رہا ہو۔ اگر ہمارے ترجمہ کرنے والے فارسی زبان کی بجائے پاکستان کی اپنی زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، کشمیری، سرائیکی اور دیگر زبانوں سے الفاظ تلاش کریں تو وہ الفاظ ہمارے لئے جانے پہچانے بھی ہوں گے اور قابل قبول بھی لیکن اس کے لئے ہٹ دھرمی کو چھوڑنا ضروری ہے۔ فارسی کا عَلم بلند کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا تہذیبی اور ادبی ورثہ فارسی میں ہے مگر فارسی کے یہ علمبردار سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی وغیرہ کے ہزاروں برس پرانے قیمتی تہذیبی ورثے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فارسی حملہ آوروں کی زبان تھی، انہی کی تہذیب اور انہی کا ادب تھا۔ ہماری تہذیب اور ادب ہمارے اپنے علاقوں میں گم کر دیا گیا ہے جن میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، کشمیر اور سرائیکی وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ تہذیب اور کلچر ہمیشہ اُسی علاقے کا ہوتا ہے جس کی مٹی سے وہ افراد جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں نئی نسل کے اندر فارسی زبان میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر فارسی پڑھنے والے طلباء بہت کم میسر ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فارسی پاکستان کی نئی نسل کی زبان نہیں ہے۔ کیا ہم اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کریں گے؟ اگر اردو میں پاکستانی زبانوں کے الفاظ شامل ہونے لگیں تو اِس میں سب کے لئے اپنائیت کا احساس ہوگا۔ اب ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اردو کے لئے فارسی اہم ہے یا سندھی، بلوچی، پشتواور پنجابی وغیرہ؟ ورنہ فیصلہ وقت کو کرنا پڑے گا۔ (بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت )

رات کا کتب خانہ
ان دنوں روس میں ایک دلچسپ مہم جاری ہے جس کا عنوان ہے ’’رات کا کتب خانہ‘‘۔ اس مہم کے ضمن میں روس بھر میں کئی کتب خانوں نے رات کو کام کیا۔ اس موقع پر کتب خانوں میں کتابیں پڑھ کر سنائی گئیں، فلموں کی نمائش کی گئی، مختلف کنسرٹ پیش کیے گئے اور ادیبوں کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا۔ اس مہم میں حصہ لینے والے کتب خانے رات بھر کھلے رہے تاکہ دیر تک کام کرنے والے لوگوں کو بھی کتب خانہ جانے کا موقع ملے۔ کتب خانوں کے علاوہ روس بھر میں عجائب گھر، آرٹ گیلریاں، اشاعت گھر، ادبی انجمنیں اور کتابوں کی دکانیں بھی اس مہم میں شریک تھیں جہاں ادبی تصانیف اور تاریخی واقعات پر مبنی پروگرام اور دوسری قسم کی دلچسپ سرگرمیاں ہوئیں۔ رواں سال مہم کے شرکاء کی کل تعداد ساڑھے سات سوکے قریب تھی۔ ’’رات کا کتب خانہ‘‘ کے لیے مختلف قسم کے تفریحی پروگرام تیار کیے گئے تھے۔ ماسکو میں نیکر اسوو سے موسوم کتب خانے میں کی جانے والی سرگرمی کا نعرہ تھا ’’سوویت یونین کی بازگشت‘‘۔ اس موقع پر پرانی موٹر کاروں کی نمائش بھی منعقد کی گئی، تمام آنے والوں کو سوویت زمانے کے مشروبات پلائے گئے اور انعامی مقابلے کرائے گئے۔ شہر سینٹ پیٹرز برگ کے کتب خانوں میں برطانوی جاسوسی ناولوں، سینما اور مختلف پہیلیوں سے منسوب محفلیں منعقد ہوئیں جبکہ ماسکو سے جنوب کی طرف واقع شہر تولا میں ہونے والی سرگرمی کا موضوع ’’غلطیوں کے بغیر لکھنے کا فیشن‘‘ تھا۔ اس مہم کا آغاز سن دو ہزار گیارہ میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک میں قائم ایک گروپ کی تجویز پر کیا گیا تھا۔ مہم کا مقصد عوام کی توجہ ادب کی جانب مبذول کرانا اور بڑے شہروں کے باشندوں کو ان کے لیے مناسب وقت پر کتب خانے میں مدعو کرنا ہے۔ افسوس، گزشتہ عرصے سے نوجوانوں میں کتب خانوں کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ انھیں انٹرنیٹ کے ذریعے ضروری معلومات ڈھونڈنے کی عادت ہے۔ اسی لیے مہم کے موقع پر کتب خانوں کو غیر معمولی شکل میں پیش کیے جانے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ روس میں ’’رات کا عجائب گھر ‘‘ مہم پچھلے پانچ سال سے جاری ہے ۔اس موقع پر تمام خواہش مندوں کی رات کے وقت کوئی بھی عجائب گھر مفت دیکھنے کا موقع میسر ہے۔
****