ٹکسالی اردو
فائزہ فرمان


ٹکسالی ہندی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹکسال کا داروغہ کے ہیں اور اگر ٹکسال کو بہ طور صفت دیکھا جائے تو وہ ہر چیز جس پر ٹکسال کی ضرب لگی ہو، ٹکسالی کہلاتی ہے۔ اسی طرح ٹکسالی کے لیے کھرا، درست، آزمودہ، رائج اور مانی ہوئی چیز جیسے الفاظ بھی لیے جا سکتے ہیں۔ ٹکسالی آدمی، ٹکسالی بات ، ٹکسالی روپیہ کے ساتھ ٹکسالی زبان اردو ادب میں مستعمل ہیں۔ ٹکسالی بولی یا زبان سے مراد ایسی زبان جو با محاورہ ہواور جسے اہل زبان استعمال کرتے ہوں۔ فصیح اور مستند زبان بھی ٹکسالی کہلاتی ہے یا وہ زبان جو مانی ہوئی ہو اور فصحا و اہل زبان کی تسلیم شدہ زبان ہو، ٹکسالی کہلاتی ہے۔ اس سے مراد رائج الوقت زبان بھی لی جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقائی منازل طے کرتی رہی ہو۔ ٹکسالی زبان کو (Current Language)بھی کہا جاتا ہے ۔ ٹکسالی زبان سے مراد وہ ٹھیٹھ زبان یا بولی جو کسی خطے، ملک یا سر زمین میں مروج ہو۔ مثلاً ٹھیٹھ پنجابی ، ٹھیٹھ اردو، ٹھیٹھ بنگالی یا ٹھیٹھ انگریزی کو بھی ٹکسالی زبان کہا جائے گا۔ عرب میں بدوؤں کی زبان جو موقع محل اور محاوروں کے لحاظ سے ایک معیاری زبان تھی، ٹکسالی زبان کہا جائے گا۔
دہلی اور لکھنؤ کی اردو کسی دور میں ٹکسالی اردو سمجھی جاتی تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس کی حیثیت قدرے ختم ہو گئی۔
شاعرانہ خیالات، خاص طور پر نیچرل شاعری کے فرائض ٹکسالی زبان میں ادا کرنے کے لیے شاید اتنے کافی نہ ہوں جس کا اظہار مولانا الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں کیا ہے۔ مکتوبات عبدالحق میں اس صوبے کی زبان ٹکسالی کہلانے کی حقدار ہے جو ایک مقام متعین کر لیتی ہے۔ حیات جاوید میں ٹکسالی کو پکا، مستند اور اصلی زبان کہا گیا ہے۔ صحیفہ الہام میں ٹکسالی زبان کے بارے میں یوں لکھا ہے۔
یہ داغِ دل ہیں پرکھ جائیں آکے ٹکسالی
چلن ہو چکا دو عالم میں، دام ایسا ہو
ٹکسالی اردو کی پہچان کا سیدھا سادہ گُر یہ ہے کہ عربی اور سنسکرت کے لغت دیکھے بغیر کام چل جائے۔ جہاں تک دلی کی اردو کا تعلق ہے تو یہ وہی زبان ہے جو سات سو برس سے یہاں رائج تھی۔ اس طرح برج بھاشا کی کہاوتیں،دو ہے، بھجن ، گیت، مکرنیاں، پہیلیاں اور محاورات اس زبان کا روپ ہیں۔ اگر اسے ٹکسالی زبان میں مان لیا جائے تو کسوٹی پر کھر ا اور کھوٹا پرکھنا بہت آسان ہے۔
مرزا طپش ، شمس البیان میں اپنی زبان کو روز مرہ اور فصحا اسے اردوئے معلیٰ کہتے ہیں اور اس زبان کو ایک ہی شعر کے ایک مصرعہ میں ہندی زبان اور دوسرے میں اردو لکھا ہے۔ اس طرح اسے ٹکسالی زبان کا شعر کہا جائے گا۔
شرف اس نے ہندی زباں کو دیا
دیا نظمِ اردو کو یہ مرتبا !
اردو زبان کے سنوارنے اور اس کے احیاء و ترقی میں بہادر شاہ ظفر کے کارناموں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ گویا ٹکسالی اردو میں ظفر کی خدمات دو طرح سے مستند ہیں :
۱۔ ظفر ایک قادر الکلام شاعر اور ماہر لسانیات تھا۔
۲۔ ظفر کی ذات شعر وادب کا سر چشمہ تھی اور بڑے نامور شعرا اور ادباء اس کے دربار سے منسلک تھے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر اردو زبان کی ترقی کا زبردست خواہاں تھا۔ اسی طرح سودا، میر، غالب، داغ نے شاعری اور نذیر احمد، حالی، سرسید، شبلی اور آزاد نے ٹکسالی اردو کو ایک معیاری زبان کادرجہ عطا کیا۔ ان سے بڑھ کر بہادر شاہ ظفر کی مساعی اس لیے بھی یادرکھنے کے قابل ہیں کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ مملکت شعر و ادب میں رائج الوقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ روز مرہ کے استعمال اور سلاست زبان میں کوئی ہم عصر شاعر اس کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی زبان سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہی سند اردو کے ٹکسالی ہونے میں ممدو معاون ہے۔
ہے نقدِ سخن رائج، عالم میں ظفر اپنا
منھ کھول دیے ہم نے مدت سے خزانوں کے
بہادر شاہ ظفر کے علاوہ سودا اور نظیر نے بھی مختلف زبانوں کے الفاظ اپنے کلام میں استعمال کیے ہیں لیکن بہادر شاہ ظفر کے کلام میں بھاکا، پنجابی، پوربی اور پشتون زبان کے الفاظ زیادہ استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح ہندی محاورات کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے جبکہ ہندی کے مفرد اور مرکب مصادر بھی استعمال ہوئے ہیں۔
’’
چنگا‘‘ پنجابی زبان کا لفظ ہے مگر اردو میں اسے ’’بھلا چنگا‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح یہ لفظ ٹکسالی اردو میں شمار ہو گا۔ ٹکسالی اردو میں اکثر سابقے اور لاحقے حرف ربط کے اخراج سے بنتے ہیں۔ اسی طرح پُر از فریب کے لیے پر فریب، پراز دغا کے لیے پر دغا، پراز جفا کے لیے پُر جفا جیسے الفاظ کا استعمال رواج سے زیادہ ہے۔ سابقوں میں با، بے ، پا، خود، خوش کے الفاظ سے زیادہ لفظ بنائے گئے ہیں۔ بہادر شاہ کے ہاں ٹکسالی اردو کے سابقے مثلاً ’’ہم‘‘ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً ہم پرواز، ہم نشین، ہم قفس اور ہم مشرب کا استعمال بہتر انداز سے کیا گیا ہے۔
غالب کے ہاں لفظ ’’ہم‘‘ سے جو سابقے بنائے گئے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم رازہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو، اچھا!مرے آگے

رہیے اب ایسی جگہ چل کے جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
کلام غالب میں ٹکسالی اردو کے سابقے’’بے‘‘ اور ’’پا‘‘ بھی مستعمل ہیں مثلاً
بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایا نہ ہو، اور پاسباں کوئی نہ ہو

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ٹکسالی اردو کے لیے لفظ ’’زڑ‘‘ کو دیکھیں جو پشتو زبان کا لفظ ہے جبکہ ’’رٹ‘‘ ہندی زبان کا لفظ ہے مگر پشتو زبان کا لفظ زڑ، رٹ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے دیوانے کی زڑ وغیرہ۔ ٹکسالی اردو میں نئے نئے مصادر بنا کر زبان کو وسعت دی گئی ہے۔ فارسی ، عربی اور ہندی الفاظ سے مفرد اور مرکب مصادر بھی بنائے گئے ہیں۔ مثلاً لرزنا، تراشنا، بدلنا، قبولنا وغیرہ۔ مہندی باندھنا عیب نکالنے کے معنوں سے مستعمل رہا ہے۔ جبکہ ’’حنا باندھنا ‘‘ بھی استعمال میں رہا اور اب بھی قابل استعمال ہے مگر بہادر شاہ ظفر نے اسے ’’مہندی باندھنا‘‘ ہی نظم کیا ہے۔
بہادر شاہ ظفر کی ٹکسالی اردو میں الفاظ ایک معیاری اور مستند حیثیت سے پہنچانے جاتے ہیں اور صفت کے آخر میں ’’ی‘‘ بڑھا کر بہت سے اسم بنائے ہیں۔ مثلاً بے طاقت سے بے طاقتی ، شیریں سخن سے شیریں سخنی، کم بخت سے کم بختی ، بدگمان سے بدگمانی اور بعض اسماء کے آخرمیں ’’ی‘‘ بڑھانے سے ان گنت صفات بھی بنائی گئی ہیں۔ مثلاً قفس سے قفسی، آتش سے آتشی ، مناجات سے مناجاتی ، آفاق سے آفاقی ، خاک سے خاکی وغیرہ۔
غالب، مومن، ناسخ، آتش اور ذوق کے ہاں پر لطف تشبیہات کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ ظفر کے ہاں بھی تشبیہات کسی طرح سے کم نہیں۔ اکثر شعرا نے یار کی زلف کو سنبل ، ناگن اور زنجیر سے تشبیہ دی ہے لیکن بہادر شاہ ظفر کی ٹکسالی اردو میں نادرتشبیہات میں ندرت خیال کی عکاسی ایک نئے انداز سے ہوتی ہے۔
زلف یوں روے عرق آلود پر لہرائے ہے
صبح جوں ناگن ، گلوں پر چاٹنے اوس آئی ہے

دیکھے ہے خالِ رخِ یار کو یوں طائر دل
دانہ پر جیسے پڑے مرغ ہوا گیر کی آنکھ

ناسخ کے ہاں ٹکسالی اردو میں تشبیہات کا انداز ذرا مختلف انداز میں نظر آتا ہے۔
چشم ساقی سے نہ کیوں عشق ہو میرے دل کو
کون شیشہ ہے بھلا جس کو نہیں جام سے کام

سرمۂ تحریر، کب زیب چشم یار ہے
سرمہ کی ڈور سے باندھا آ ہوئے تا تار ہے
ٹکسالی اردو میں ظفر کے محاورات اور روز مرہ کی صفائی کی خوبی شروع سے آخر تک نظر آتی ہے۔ روزمرہ میں قواعد کی پابندی اگرچہ شرط نہیں مثلاً ’’بے ‘‘ اور ’’نا‘‘ حروف نفی ہیں۔ ’’وہ‘‘ اس پر بے حق خفا ہوا‘‘ قواعد کی رو سے درست ہے لیکن روزمرہ کی رو سے حق کی بجائے ’’ناحق‘‘ کہنا درست ہو گا۔ اسی طرح سے ’’بے ہمت‘‘ کی بجائے ’’نا ہمت‘‘ کہنا روزمرہ کے خلاف ہو گا۔ ٹکسالی اردو میں ’’آنکھوں میں رات کٹنا‘‘ کا انداز ملاحظہ ہو۔
ہے کہاں خواب کہ وہ خواب میں دیکھے تجھ کو
کٹے آنکھوں میں ہے حسرت کش دیدار کی رات
ٹکسالی اردو میں بہادر شاہ ظفر کے بیش بہا اضافے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں آبی، پوشاکی، اعضائی، رزم و شجاعت، عددی، نفسیاتی اور نباتاتی محاورے اس کثرت سے استعمال کیے ہیں کہ اب یہ محاورے اردو شعر و ادب میں مستند زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو خود ٹکسالی زبان ٹکسال سے باہر ہوتی۔

 زبان و ثقافت کی پاسداری
سمیرا امین
’’
نئی نسل کی اردو زبان میں دلچسپی‘‘ کے عنوان سے ہم نے گزشتہ شمارے میں کچھ طلبہ کے مضامین شامل اشاعت کیے تھے۔ اوکاڑہ سے یہ مضمون ایک طالبہ نے ہمیں ارسال کیا۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
کائنات میں پھیلی ہوئی حقیقتیں اس بات کی غماز ہیں کہ محنت ایک ایسا لازوال آلۂ کار ہے جس سے دنیا جہان کی تمام نعمتوں پر برتری حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا کوئی بھی ایسی کامیابی ہے جو بغیر ہاتھ پیر ہلائے ملی ہو؟ کیا دن رات بنا تغیر کے قیام پذیر ہوئے ہیں؟ دن بھی رات کو شکست دینے کے لیے گھڑی کی سوئیوں پر سوار ہو کر لمحہ بہ لمحہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتا ہے تب جا کر طویل انتظار سورج کی روشن کرنوں کی صورت اختتام پذیر ہوتا ہے۔
جب سے ہوش وخرد کے میدان میں قدم رکھا ہے تب سے یہ ہی سننے کو ملا ہے کہ ’’حرکت میں برکت ہے‘‘ لیکن سمجھ میں تب ہی آتا ہے جب عملی میدان میں قدم رکھا جائے۔ ہم آج تک جن خداداد نعمتوں سے روح و دل کی تسکین کا سامان کر رہے ہیں کیا وہ ہماری محنت و عمل کا نتیجہ ہیں؟ کیا ہم نے ان کو حاصل کرنے کے لیے فکر کے گھوڑے دوڑائے ہیں؟
یقیناً نہیں کیونکہ ہم حرکت پذیری کے معنی و مفہوم سے نابلد ہونے کے ساتھ ساتھ ہر چیز کو For granted لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ بالکل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی مانند جنھوں نے کاہلی و سستی کے رہتے من و سلویٰ کی خواہش ظاہر کی جبکہ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ یہی من و سلوٰی ان کے لیے آزمائش کا پیش خیمہ ہے۔ دورِ حاضر کا انسان شاید اللہ رب العزت کے اس فرمان کو بھول چکا ہے کہ
’’
انسان اشرف المخلوقات ہے ‘‘
جب چرند، پرند، حیوانات و جمادات تک حرکت پذیری و تغیر کے اصول پر کارفرما ہیں تو حضرت انسان نے اس لازوال و بے مثال اصول کو کیوں پسِ پشت ڈال رکھا ہے؟
اگر ہم اپنے آباؤ اجداد کے تابناک ماضی اور تاریخ کے اُن روشن اوراق پر نظر دوڑائیں جو ہماری موجودہ اور آنے والے نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ یہ ارضِ پاک ہمیں بیٹھے بٹھائے تھالی میں سجا کر نہیں مل گئی بلکہ یہ تو بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، ان کے باکردار اور باعمل ساتھیوں اور ان لاکھوں مسلمانوں کی جہدِ مسلسل، سعی پیہم، انتھک محنت اور لازوال قربانیوں کا ثمر ہے جنھوں نے قائد کی ایک آواز پر نہ صرف لبیک کہا بلکہ عملی طور اس کو پورا کرنے کے لیے جان و مال تک کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
میرا ایک ہی سوال کہ کیا ہم اس بے نظیر ارضِ پاک کی حفاظت کر پا رہے ہیں؟ کیا ہم نے اس کی ترقی کے لیے کچھ کیا ہے؟ کیا ہم نے اپنے حصے کا قرض اتارا ہے؟ کیا ہم نے اپنی زبان اور ثقافت کی پاسداری کی ہے؟ یا اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟ اس سلسلے میں پہلے نہیں سوچا تو اب سوچیے۔ خود کو، اپنے مذہب کو پہچانئے،جان لیجیے کہ کامیابی ان کے ماتھے پر مقدر کے ستاروں کی مانند جگمگاتی ہے جو محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھ کر دن رات اس پر کاربند رہتے ہیں۔
حتیٰ کہ ایک چھوٹی سی کامیابی بھی محنت شاقہ کی متقاضی ہے کجا کہ عظیم کامیابیاں لیکن وہ کہتے ہیں کہ :
’’
کل کرے سو آج ، آج کرے سوابھی ‘‘
چنانچہ آج اور ابھی سے اپنی سوچ کو مہمیز لگائیں اور محنت و حرکت پذیری کی جانب قدم بڑھائیں تو یقیناً دنیا کی کوئی ایسی کامیابی نہیں جو آپ کے قدم نہ چومے۔ جس طرح کسی بھی چیز کو دوام حاصل نہیں اسی طرح ناکامی بھی لوہے پہ لگی لکیر نہیں ہے یقیناً شب و روز کی انتھک محنت اس ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتی ہے کیونکہ :
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
****