پروفیسر ڈاکٹر عطش دُرّانی(تمغۂ امتیاز)

قومی زبان کے لیے لسانی سروے اور پالیسی

 

اُردو اور پاکستانی/ مادری زبانوں کی تاریخ میں ۳ مارچ ۲۰۱۴ء وہ یاد گا ر دن تھاجب قومی ا سمبلی میں پاکستانی/ مادری زبانوں کی حیثیت اور مقام کے موضوع پر ما رو ی میمن کے پیش کردہ بل ۲۵ فرو ری ۲۰۱۴ء ہی کے بہانے سے سہی مجلس قائمہ میں لسانی پالیسی اورلسانی ترقی کی بات کچھ آگے بڑھی۔یہ بل اُردومخالفت ہی میںلایا گیا ہوگا۔ مگر۔ع
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
مجلس قائمہ کے مقطع میںگرہ کشائی یہ ہوئی کہ قومی زبان کے حوالے سے پاکستانی/ مادری زبانوںکی حیثیت اور مقام کا تعین کیا جائے۔قومی ضروریات کا لسانی سروے کیا جائے اوراس کی بنیادپر سرکاری لسانی پالیسی وضع ہو۔اس کام کے لیے قومی زبان کمیشن قائم کیا جائے۔ پھر کوئی ادارہ پورے اختیار اور وسائل کے ساتھ وجود میں آنا چاہیے جو لسانی تحقیق و ترقی کے لیے مطلوبہ کام انجام دے سکے۔ یہ بل اور مجلس قائمہ کی سفارشات لا ڈویژن کو بھیج دی گئیں۔ اب آگے جوہو سوہو۔
اس سے پہلے بھی نواب یوسف تالپور کا ایک بل پیش ہو اتھاکہ آئین کی دفعہ ۲۵۱ میں ترمیم کی جائے۔ ایک کی بجائے آٹھ قومی زبانیں تسلیم کی جائیں یعنی اُردو کے ساتھ بلوچی، پنجابی، پشتو، شنا/بلتی، سندھی اور سرائیکی۔ صوبائی اسمبلیوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ان ''قومی زبانوں'' کے ساتھ صوبائی زبانوں کی تدریس، ترقی اور استعمال کے لیے اقدامات کر سکیں۔ اب ا سے پھرسے ما رو ی میمن کے پیش کردہ بل ۲۰۱۴ء کے نا م سے لایا گیا۔مگرایک واضح بصیرت کے ساتھ کہ پہلے لسانی کمیشن قائم کر لیا جائے۔
مادری زبان ہر پاکستانی کا بنیادی لسانی حق ہے۔ مگرجیساکہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ قومی زبان اس زبان کو کہیں گے جو اس کے اصل (Native) بولنے والوں کے علاوہ قوم کے دوسری زبانیں بولنے والوںکے استعمال میںہو۔ان میںمفروضہ مضمرات یہ ہیںکہ ہر زبان بولنے والا دوسری زبانیں نہیں سمجھتا۔ چونکہ وہ صرف ایک زبان بولتا ہے یعنی کثیر لسانی نہیں اور اسے اپنی مادری زبان کے علاوہ نہ تو کوئی اور زبان آتی ہے اور نہ اسے سکھائی جا سکتی ہے، اس لیے اس کی مادری زبان کو قومی زبان ٹھہرا کر صرف اسی کے لیے سرکاری اعلانات کی ترسیل کا اہتمام کیا جائے۔
اس میں ایک اور بات یہ بھی مضمر ہے کہ جسے وہ قومی زبان بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے، دوسرے اسے جبراً تسلیم کریں اور سیکھیں کیونکہ اس کی یہ زبان از خود اپنی فطرت میں اس کے علاوہ دوسری زبانیں بولنے والوں تک ابھی رسائی نہیں پا سکی۔ چنانچہ ان دونوں مضمرات ہی سے ان زبانوں کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کی نفی ہوتی ہے۔ اُردو اور اس کے ساتھ ساتھ پنجابی کے لیے یہ دونوں مضمرات تسلیم نہیں ہو سکتے۔ ہر دو زبانیں اپنے بولنے والوں کے علاوہ از خود اور فطری طور پر دوسری زبانیں بولنے والے بھی سمجھتے اور بولتے ہیں۔
ہر پاکستانی کا بنیادی لسانی حق تو تسلیم کرنا ہو گا مگر اپنی زبان تسلیم کرانے کا مطلب دوسری زبانوں کا انکار نہیںاور یہ کہ ہر زبان کو سرکاری (Official)حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ البتہ ہر زبان کاحرکت پذیری کا آئینی حق تسلیم ہونا چاہیے۔ کثیر لسانیت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے سرکاری اخراجات میں بھی اضافہ ہوتاہے کیونکہ ابلاغ ، ملامتی توثیق اور فروغِ تشخص اہم مفادات ہیں۔کثیر لسانیت اس ملک کے لیے مفید ہے جہاں قومی یک جہتی کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں لسانی نگہداشت کی پالیسی ہی بہترین حل ہے۔سماجی سیاسی مسئلے کے حل کے لیے لسانی معقولیت کاری (Language Rationalization)اور لسانی نگہداشت(Language Maintenance) کے دو ماڈل ہیں۔ یعنی اپنے مقامی علاقے میں مقامی زبان، صوبائی سطح پرصوبائی زبان،وفاقی سطح پراُردو اور عالمی سطح پر انگریزی وغیرہ۔ سماجی حرکت پذیری ، جمہوری تردد، مشترک تشخص اور کارکردگی لسانی معقولیت کاری کے چار بنیادی فوائد ہیں۔لسانی پالیسی کسی بھی طرح تعلیمی پالیسی کے ماتحت نہیں ہو سکتی۔اس لیے کہ تعلیم صوبائی مسئلہ ہے اور قومی زبان وفاقی مسئلہ ہے۔
سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قومی اور سرکاری/دفتری زبانیں مختلف ہو سکتی ہیں مثلاً کوئی قوم جس کے پاس کوئی ریاست نہ ہو ، محض کسی قومی زبان کی حامل ہو سکتی ہے یا کوئی ریاست جس کے پاس کئی قومی زبانیں ہوں، کوئی ایک یا دو دفتری زبانیں استعمال کر رہی ہوتی ہے۔ آئین کے ذریعے کوئی قوم اپنی قومی زبان کو دفتری زبان قرار دے سکتی ہے۔ البتہ یہ لازم ہے کہ قومی زبان حقیقی طور پر (de facto)روابط کی زبان (Lingua Franca)ضرور ہو اور تاریخی تلازم(Association) رکھتی ہو۔ قومی زبان سیاسی اور قانونی اندازِ بیان یا محضر(discourse)کی حامل ہو۔
قومی زبان کے عام طور پر چار معنی رائج ہیں:
۱۔مقامی زبان (Chthonolect)، مخصوص افراد کی مقامی زبان۔
۲۔علاقائی زبان (Choralect)، کسی جغرافیائی علاقے کی زبان۔
۳۔عمومی یا مشترک زبان (Clemolect)، ملک بھر میں بولی سمجھی جانے والی زبان۔
۴۔مرکزی/سیاسی زبان (Politolect)، سرکاری یاحیثیتی(status) علامت کی زبان یادفتری زبان''۔
قومی زبان کمیشن یہ فیصلہ کر ے گا کہ کو ن سی زبان قومی زبان ہو۔ کمیشن کا اب ایک بڑا کام یہ بھی ہوگا کہ وہ قومی لسانی پالیسی کا مسودہ تیار کرے جو پالیسی ساز ماہرین کی نگرانی میں ہو۔ اس کے لیے ملک گیر لسانی سروے کیا جائے کہ کس جگہ، کس میدان میں، کہاں تک کس زبان کی ضرورت ہے یا ہونی چاہیے۔ اس سائنٹیفک سروے میں انگریزی، اُردو اور تمام دوسری مذکورہ پاکستانی زبانوں کو بھی شامل کیا جائے بلکہ عربی، فارسی ،ہندی، چینی اور جاپانی بھی۔ یہ انتہائی تکنیکی، سائنسی اور تحقیقی کام ہے جوزبان کے شعبوں، پروفیسروں، ادیبوں اور شاعروںکے بس کا روگ نہیں۔ اس کے لیے تحقیقی اداروں سے مدد لی جائے۔اسی بنیادپرزبانوںکی ترقی کاکام انجام د یاجائے۔ ایساپہلی بارہورہاہے۔اس لیے مجلس قائمہ کے اس فیصلے کولسانی معقولیت کاری کی عمدہ مثال کہاجاسکتا ہے۔
٭٭٭٭