نگارشات از: صابر بدر جعفری
مبصر: حاذق الخیری


صابر بدرؔ جعفری نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے ''کتاب ہاتھ میں دی گئی، پڑھنے کی تاکید ہوئی لکھنے کا حکم ملا… ایسے موقعوں کے لیے کہا گیاہے … زہر دیں اس پہ یہ تاکید کہ پینا ہو گا…''
زہر پیا تو عقدہ یہ کھلا کہ صابر بدرؔ جعفری ہمہ جہت ادیب، افسانہ نگار، محقق، شاعر، مترجم غرض ہر فن میں یکتا ہیں۔ میں انھیں لاکھ سمجھاتا رہا کہ میں کوئی تبصرہ نگار نہیں ہوں کہ ان کی خدا داد ادبی صلاحیتوں کو پوری طرح پرکھ سکوں لیکن ان کی محبت تھی کہ جو کچھ پڑھا اس پر کچھ کہوں۔
جعفری صاحب محترم مشتاق احمد یوسفی کی طرح بینکاری سے ادب کے میدان میں اترے اور ادبی حلقوں میں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ انھوں نے مختلف موضوعات یکجا کیے ہیں۔ جن میں کئی تو ایسے ہیں کہ نہ صرف قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں بلکہ اپنی توانائی اور تنوع کے لحاظ سے قاری کو چونکا بھی دیتے ہیں۔ اپنے مضمون ''آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے'' میں انھوں نے 'غالب کے اڑیں گے پرزے' کے کہنے والوں کو بڑا مدلل اور بھرپور جواب دیا ہے ان کی مثال ایسی ہے جیسے بلندیاں سرکوبی کی مہم میں سر کے بل گر جانے والے لوگوں کی۔
نظیر اکبر آبادی کی ہمہ گیر شاعری پر ان کا مقالہ نئی تازگی لے کر آیا ہے۔ جعفری صاحب نے جہاں حسرتؔ کی ادبی اور سیاسی خدمات کا اعتراف کیا ہے، وہاں ان کی شخصیات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی سادگی کا تذکرہ کیا ہے کہ ''تھرڈ کلاس میں سفر کر کے فرسٹ کلاس کرایہ وصول نہ کرنا یقیناً عظمتِ کردار کی علامت ہے۔ مگر تھرڈ کلاس میں سفر کیا ہی کیوں جاتا تھا جب فرسٹ کلاس کا استحقاق تھا۔ یہ اپنی ذات کے حق میں ایذا پسندی نہیں تو اور کیا ہے یا پھر کفرانِ نعمت ''… پھر'' ڈھابے میں بیٹھ کر چند آنوں میں پیٹ بھرنے کا جواز کیا تھا جبکہ روزینہ کی جائز سہولت میسر تھی…''
البتہ عالی جی پر انھوں نے بڑی فراخدلی اور محبت سے لکھا ہے جو ایسا غلط بھی نہیں۔ ''عالی جی کی زندگی ایک ایسی رزم گاہ ہے جس میں چھوٹے بڑے معرکوں کا بازار گرم ہے۔ عشق و سرمستی کے معرکے، شعر و شاعری کے ہنگامے، افسروں سے پنجہ آزمائی، محفلوں میں شانِ دلربائی، دوستوں کی ناز برداری، انا کی گرم بازاری ، طرز تپاک اہل دنیا کے عطا کردہ جلاپے، حب الوطنی کے تقاضے، غرض مختلف النوع محرکات ، کبھی شیر و شکر کبھی دست و گریباں۔
ناشر: ادارہ انوار ادب ۳۷۱، بلاک سی۔۱، یونٹ نمبر ۸ لطیف آباد حیدرآباد
……O……