شریف کنجاہی

ریختہ اور دکنی

مخلوط لوگوں کی آبادی والے علاقوں میں کسی ایک لسانی گروہ کے الفاظ کا کسی دوسرے گروہ کا حصہ بن جانا ناممکن نہیں تھا۔ اس لیے کتنے ہی ایسے الفاظ ہماری زبان کا حصہ بن چکے ہیں اور بعض بلاوٹی اور لکھاوٹی تبدیلیوں کے ساتھ۔ اردو زبان کے حوالے سے ریختہ اور دکنی بھی دو ایسے ہی الفاظ ہیں۔ کراچی سے چھپنے والے مفصل کئی جلدی اردو لغت میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے ''حضرت امیر خسرو کے زمانے میں اردو کو ہندی کہتے تھے اور ہندی کے بعد اسی زبان کو ریختہ کہا گیا ہے (ص۹۷۳) مزید لکھا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ کہی جاتی ہے کہ مختلف زبانوں سے اسے ریختہ کیا گیاہے''۔ یوں ریختہ کو فارسی زبان کا لفظ تسلیم کیا گیا ہے۔ قائمؔ کا یہ شعر بھی مرقوم ہے:
زبان ریختہ کہتے ہیں جس کو
سو یہ تو اہل دہلی کی زبان ہے
قائمؔ کا زمانہ ۱۷۹۵ء بتایا گیا ہے اور یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ ریختہ ایسی نظم ہوتی ہے جس میں ہندی فارسی کے الفاظ یا فقرے متحد ہوتے ہیں یہاں غالبؔ کا یہ شعر توجہ طلب ہے:
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
یعنی میرؔ اور غالبؔ ریختہ کے شاعر تھے لیکن کیسے؟ کہ ان کے اشعار میں برتی گئی زبان کو مختلف زبانوں کے الفاظ سے ریختہ نہیں کیا گیا تھا اور پورے دیوان غالبؔ میں کوئی ترکی لفظ نہیں ملتا۔ ہاں فارسی اور عربی الفاظ کی پیوند کاری ملتی ہے اور جہاں
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
کو بھی ریختہ کہا جا سکتا ہے۔ وہاں اس شعر کو بھی ریختہ ہی کا شعر کہاجائے گا:
شمار سجہ مرغوب بہت مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف برون صد دل پسند آیا
اور اسی عہد میں شاہ عبدالقادر صاحب نے اپنے قرآنی ترجمہ کے دیباچہ میں جو ۱۲۰۵ ہجری میں شائع ہوا تھا یوں کہاتھا کہ ''اس زبان میں ریختہ نہیں بولی بلکہ ہندی متعارف بولی ہے تاکہ عوام کو بے تکلف دریافت ہو''یعنی شاہ صاحب کے نزدیک ریختہ ہندی متعارف سے مختلف تھی۔ شاہ صاحب سے قدرے بعد مولوی خرم علی صاحب نے ۱۲۳۸ ہجری میں نصیحت المسلمین تالیف کی تو لکھا کہ بندہ خرم علی کے دل میں آیا کہ شرک کی برائی قرآن شریف سے ثابت کیجئے اور ہر آیت کا ترجمہ ہندی زبان میں صاف صاف بیان کریئے۔
یوں قیاس ادھر جاتا ہے کہ مغلیہ حکومت اور اس کے درباریوں کی محدود سی اقلیت انیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک یہاں کی اکثریت کی زبان کو بدل نہیں سکتی تھی جو ہندی تھی اور اس اکثریت ہی کو سمجھانے کے لیے دونوں بزرگوں نے ہندی ہی سے کام لیا تھا ریختہ سے نہیں لیا تھا کہ سمجھانا ان کے نزدیک ایک دینی فریضہ تھا جب کہ دربار اور متوسلین دربار کے سامنے ایسا کوئی فریضہ نہیں تھا اور شمالی ہند کے درباری شعراء نے ہندی یعنی اکثریت کی زبان کو فارسی آمیز کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی کو ریختہ کہا گیا ہو گا۔
یہ افسوسناک کوتاہی ہے کہ ریختہ کے استاد یعنی غالبؔ سے کسی نے نہ پوچھا کہ جس دیوان کو آپ نے ''مجموعہ اردو'' بھی کہا ہے اسے ریختہ کیوں کہا گیا ہے؟ اس سلسلہ میں میر تقی میرؔ یعنی ریختہ کے استاد کا شعر بھی دعوت فکر دیتا ہے:
خوگر نہیں ہم یونہی کچھ ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
اور ہم میر صاحب کو کسی دکنی معشوق کا عاشق تسلیم نہ کریں تو بھی یہ ضرور معلوم پڑتا ہے کہ میر کے نزدیک دکنی زبان کو ریختہ کہاجاتا تھا جس میں مختلف زبانوں نے معروف معنوں میں اپنا عمل دخل نہیں دکھایا تھا اور جو قدرے پنجابی کے زیادہ قریب تھا۔ اسی طرح متقدمین ریختہ، دکنی اور گوجری کو بھی ایک ہی زبان کہتے تھے اور شمال و جنوب میں کسی نے بھی لفظ ریختہ اختراع کرنے کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور اسے فارسی لفظ جان کر تفہیمی قیاسات بن گئے تھے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر میں نے اسے غیر فارسی لفظ خیال کرنے کی جسارت کی ہے جو بہت سے کم مستعمل الفاظ کی طرح میر صاحب نے عوام میں سے سن لیا ہو گا اور نادرہ کاری کے شوق میں اسے برت لیا ہو گا۔ سنانے والے نے اسے خالص مقامی لہجہ ہی میں کہا ہو گا اور''خ'' کی جگہ ''ک'' کے ساتھ۔ لیکن میر صاحب نے ک کو خ کے ساتھ بدل کر اسے فارسی بنا لیا ہوگا کہ ریختہ میں موجود خائی آواز مقامی نہیں تھی۔ یہاں میر حسن میر کا یہ فقرہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''ریختہ اول از زبان دکن رواج یافت'' (پنجاب میں اردو۔ص ۳۷)
لیکن دکن سے کیا مراد تھا؟ اس کا جواب مجھے ۱۹۱۳ء میں شائع ہونے والی ایک مفصل ڈکشنری (نیو اسٹینڈرڈ انگلش ڈکشنری) کی پہلی جلد میں ہی یوں ملا تھاThe part of Indian south nerbeda river یعنی دکن سے نربداپار کا علاقہ مراد تھا اور ریختہ کا اصل روپ ریکتہ (رکتہ) ہو گا۔ اکبری عہد کی لغات مدارالافاضل جلد دوم میں رک کا مفہوم بحوالہ فرہنگ انندراج باران نرم ریزہ بھی دیا گیا ہے یعنی یہ آبی حوالے والا لفظ ہے ۔ اسی طرح رکاب سے بھی پیالہ مراد ہے اور اسی سے رکابی اردو پنجابی میں بولا جانے والا لفظ ہے لیکن عربی میں اس سے ساقی بھی مراد ہے اور رکام سے بادل مراد ہے تو رکنی سے شیراز یعنی ایران کا ایک چشمہ بھی مراد ہے جب کہ رِکوہ سے چمڑے کا ڈول بھی مراد ہے۔ اسی طرح رکیب سے آب خالص مراد ہے تو رکیہ سے کنواں مراد ہے یعنی رک سے لے کر رکتہ (ریکتہ) تک میں آبی حوالہ پایا جاتا ہے اور اس بات کو پلے باندھ کر جب میں نے پاکستان پار کی شمالی زبانوں کو ٹٹولا تو چیکوسلواکیہ اور اس میں ریکا Rekaکو دریا کا متبادل پایا جس نے میرے خیال میں ریختہ کا روپ اختیار کر لیا ہوگا اور ریکتہ سے ابتدا میں دریا پار یعنی نربداپار کی بولی ہی مراد ہو گی یا دریا کنارے کی بولی۔ کہ دریاکنارے کی بولی عموماً مخلوطی سی بولی کا روپ لے جاتی ہے کیوں کہ پتن لوگوں کی میل جول کی جگہ ہوا کرتے ہیں۔
چیکوسلواکیہ میں رکتی (Rikati)سے کہنا مراد ہے۔ ریکی (Riki)کا بھی یہی مفہوم ہے اور وقت کے ساتھ ریختہ (ریکتہ) سے کہی گئی بات مراد ہو گیا ہو گا جسے ہم فارسی لفظ گفتہ کے قریب پاتے ہیں:
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ہو رشک فارسی
گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
اسی طرح ہمارا بہت معروف لفظ ''بہت'' بھی وہاں ہی سے آیا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ چیک میں بوہتی سے امیر مراد ہے یعنی فراوانی۔ پن یعنی قلم کو بھی وہاں پر (پرو) کہتے ہیں اور یہ مفہوم مجھے کسی اور یورپی زبان میں نہیں ملا۔ عجیب تر یہ کہ فعل کے آخر میں تا، تی، تے کا سلسلہ بھی اسی ملک کی طرف جاتا ہے کہ وہاں بھی ہم اسے فعل کاحصہ پاتے ہیں چنانچہ چیک میں زیتی (Zati)سے جینا مراد ہے۔ پیٹی (پیتی) سے پینا مراد ہے اور شاید پیٹ کو اسی لیے یہ نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جیتی (jiti)سے وہاں جانا مراد ہے اور چشتی سے پڑھنا مراد ہے جس سے ذہن خواجہ معین الدین چشتی کی طرف چلا جاتا ہے اور شاید ان کو یہ نام بھی عرفانی حوالہ سے دیا گیا ہوگا۔ اگرچہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کی جانب سے چھاپے جانے والے انسائیکلو پیڈیا میں ہے کہ سلسلہ چشتیہ کو ہرات کے قریب ایک گائوں چشت کے حوالے سے یہ نام دیا گیا تھا اور ممکن ہے کہ چشت میں آبی حوالہ بھی ہو کہ روسی تاتارستان میں دریا کنارے کی ایک بستی کا نام چشتو پول ہے اسی طرح چشتیاں ستلج کنارے کی ایک بستی کا نام ہے بلکہ چشتوتی لداخ کی ایک جگہ کا نام بھی ہے لیکن جس طرح کا نا یعنی سر کنڈا۔ اور کانا یعنی یک چشم کو لکھا ایک ہی طرح جاتا ہے اس طرح ممکن ہے چشت کی معنوی بدلاوٹ کے بلاوٹ کے ذریعے واضح کیا جانا ہو اور مقصود اس طول کلام سے یہ ہے کہ ریختہ بھی ممکن ہے ریکتہ (ریکتی) کے روپ میں ادھر ہی سے آیا ہوا لفظ ہو جو یہاں آ کر بے سمتا ہو گیا ہو اور اس کے شناختی کارڈ میں ہم نے اسے فارسی زادہ لکھ دیا ہو۔
دکن کی طرف لوٹیں تو جہاں فارسی لغتیں راہنمائی نہیں کرتیں وہاں ۱۹۳۵ء میں شائع شدہ ایک انسائیکلو پیڈیا میں جس کا نام پیئرز سائیکلو پیڈیا ہے Pears cyclopaedia۔ نربدا کے سلسلے میں یوں مرقوم ہے۔
River between the Deccan and Hindustan flowing from Russia to the Arabean Seaیعنی دریائے نربدا دکن اور ہندوستان کی حد فاصل بنتا ہے۔ اسی طرح خود دکن میں بھی آبی حوالہ پایا جاتا ہے جس کی گواہی ان الفاظ سے ملتی ہے۔ (۱) ڈھاکہ کو یہ نام دریائی حوالہ ہی سے دیا گیا تھا (۲) ڈکDuckیعنی بطخ کو یہ نام آبی حوالہ سے دیا گیا تھا بلکہ Deckکو بھی اور ڈاک Dockکو بھی اور میرے قیاس کے مطابق دکن کو آبی حوالہ سے یہ نام دیا گیا تھا اور اس خطہ کو دکشن سے کوئی تعلق نہیں تھا جس سے دائیں جانب مراد لی جاتی ہے کہ اس طرح جہلم اور اس سے اوپر کی جانب کے لیے دکن دائیں جانب کا خطہ نہیں بنتا اور خلجیوں کی فوجیں شمالی ہند میں سے ادھر نربداپار کر کے بڑھی تھیں اور گجرات کی ہمسائیگی والا یہ علاقہ ان کو پانی پارہ علاقہ ہی لگا تھا جہاں باہمی میل جول اور لفظوں کے تبادلہ نے دونوں کی زبانوں کو اسی قدر ایک دوسرے کے قریب بھی اور دور بھی رکھا ہواتھا جس قدر پنجابی کے مختلف لہجے ایک دوسرے کے قریب بھی ہیں اور دور بھی ہیں اور اسی لیے دہلی والوں کو گجراتی اور دکنی بلکہ گوجری بھی ایک ہی بولی کے روپ لگے۔ ورنہ جنوبیوں نے اپنے کسی لہجے کو یہ نام نہیں دیاتھا کہ وہ علاقہ معروف معنوں میں دراوڑی بولیوں کا علاقہ تھا۔
دریائے نربدا کے علاوہ جسے نرمدا کہا جاتا ہے اس خطہ کا استوائی علاقہ کے قریب ہونا بھی اسے آبی علاقہ ٹھہراتا چلا آیا ہے اور دریائوں نے اس میں جگہ جگہ وادیاں بنائی ہوئی ہیں اور ان دریائوں کو وہ بارشیں جنم دیتی ہیں جوتقریباً سارا سال برستی رہتی ہیں اور اس کے دکنی یعنی برساتی علاقہ ہونے کی تصدیق کرتی ہیں اور جسے ہم پنجابی میں ڈھوک یعنی بستی کہتے ہیں۔ اس سے کبھی پانی کنارے کی بستی بھی مراد ہو گا کہ آج بھی لاڑکانہ کے قریب دریا کنارے کی ایک بستی کانام ڈاکری ہے۔ اسی طرح یونان میں ایک آبی کنارے کی بستی کانام ڈھکوس(Dhokos)ہے۔ ناروے میں ایک دریا کا نام ڈوکاDokkaہے اور جس طرح غزنوی ایام میں ہند سے پنجاب مراد تھا لیکن بعد میں مفہوم کا پھیلائو بڑھ گیا۔ اسی طرح دکن بھی ہوا ہوگا۔ ورنہ لسانی پس منظر میں اس خطہ کو دراوڑ دیش کہنا چاہیے تھا اور وہ بھی بے محل نہ ہوتا کہ لفظ دراوڑ بھی آبی حوالہ رکھتا تھا کہ ڈار(Dor)فرانس کے ایک دریا کا بھی نام ہے تو ڈراواDrawaکروشیا کے ایک دریا ہی کا نہیں پولینڈ کے ایک دریا کا بھی نام ہے اور ڈراکل میں بھی کبھی یہی آبی حوالہ تھا بلکہ ڈرپوک میں بھی۔ اور یہ الفاظ دور شمال کی طرف سے ادھر آئے تھے بلکہ گولکنڈہ بھی بیرونی لفظ ہے کہ گول سے ترکی میں آبگاہ مراد ہے۔ حیدرآباد بھی اصل میں ایدر آباد ہو گا کہ ایدرEiderنام کا ایک دریا جرمنی میں ہے جب کہ حیدرآباد کشمیر میں بھی ایک آب کنار کی جگہ کانام ہے لیکن حیدر آباد جس دریا کے کنارے آباد ہے اسے موسیMusiبھی کہاجاتا ہے اور یہ نام اسے کسی مقامی زبان کے حوالے سے ہی دیا گیا تھا بلکہ (تحریری اور تلفظی اختلاف کی گنجائش کے ساتھ) اسے ہم بیرونی لفظوں میں ہی شمار کر سکتے ہیں کیونکہ استھونیا میں موسوMusuسے منہ مراد ہے اور منہ چومنا بھی اور منہ کو یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے پانی پیا جاتا تھا اور پینے والی شے کو موسو کہا گیا تھا۔ مسام کو ہم نے پسینے یعنی پانی کے حوالے سے ہی یہ نام دیا تھا اور انگریزی میں لفظ مسMissسے اگر کنواری عورت مراد تھا تو میری سوچ کے مطابق اس لیے کہ اس میں حیض جاری نہ ہونے کی طرف اشارہ جاتا تھا جسے شادی کے قابل ہو جانے کی علامت گنا جاتا تھا۔ یہی لفظ ہمیں آبی حوالے کے ساتھ ناروے کی بندرگاہ موس Mossمیں ملتا ہے۔ اسی طرح لفظ مدراس بھی دور شمال کی جانب سے آیا تھا کہ استھونیا میں اس سے جہازراں مراد ہے اور تھوڑی سی تلفظی تبدیلی کے ساتھ یعنی CxDکے ذریعے ہی یہ لفظ جرمنی، ڈچ، سویڈن اور روس میں ملتا ہے یعنی وہاں سے مسٹروس لکھا بولا جاتا ہے اور مٹرگشت سے قدیم ایام میں شاید آب کنارے کی سیر مراد تھا۔
میری یہ باتیں قیاسات کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایسے ہی ایک دو اور قیاسی امکانات بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ بروہی زبان میں رکrakسے جدا رکھنا مراد ہے اور یوں رک+رکتہ+ریختہ سے شاید وہ علاقہ اور پھر اس کی زبان مراد ہو جو شمالی خطہ سے جداتھا۔ اسی طرح رِکRikسے ریت یعنی ریگ مراد ہے۔ یوں ریکتا سے ابتداء میں شاید وہ تحریر مراد ہو اور وہ زبان جو ریت پر لکھی جاتی تھی۔ لفظ اور معنی کے اس پہلو کی طرف میرا خیال اس لیے جھکا ہے کہ میرے پاس ۱۹۴۶ء کی ایک مطبوعہ کتاب ہے The world's peoples and how they diveاس کے صفحہ ۴۲۲ پر ایک تصویر ہے Koran School in the Desart۔ جس سے خیال ادھر جاتا ہے کہ بہت ہی قدیم ایام میں انسان نے ریت ہی سے تختی کا یا کاغذ کا کام لیا ہو گا اور یوں ریختہ سے ابتدا میں ریت پر لکھی گئی چیز مراد ہو گی تو بعد میں اس سے ہر تحریر مراد لی جانے لگی ہو گی۔ جس طرح لفظ تحریر کا بنیادی مفہوم آزاد کرتاہے لیکن ہم اسے لکھاوٹ مراد لیتے ہیں عکس میں لکھنے کے جس طریقہ کی تصویر اتاری گئی ہے وہ صدیوں سے نسل درنسل چلتا آیا ہوگا۔ اور اس پس منظر میں معروف ترین انگریزی ڈکشنریوں سے اختلاف کرتے ہوئے میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوںکہ لفظ writeاور ریت ایک دوسرے کے شاید اسی لیے بہت قریب ہیں بلکہ readہی نہیںreedبھی ہے جس سے ابتدا میں انسان نے ریت پر لکھنے کی ابتدا کی ہوگی اور اس کو کاہی کہاجاتا تھا بلکہ کلک بھی کہتے تھے۔ کاہی (کاہوی) شاید اس لیے کہ اس سے کہی گئی بات لکھی جاتی تھی اور کلک اس لیے کہ سیاہی کے ساتھ لکھنے سے پہلے کھود کر لکھنے کا دستور تھا جس کے لیے نباتاتی آلہ تحریر کی جگہ کھودنے والا آلہ برتا جاتا تھا اور اسے کِل کہاجاتا تھا اور شاید اسی حوالہ سے لفظ Call بن گیا ہو گا تو عربی میں قال۔ ڈنمارکKaldeناروے میں Kalleیونانی میںKaloاور عبرانی میں ل+ر کی بدلاوٹ سے Karaاور لفظ قرآن اور قاری میں بھی یہی معنوی پسِ منظر پایا جاتاہے جب کہ کلمہ اور کلیم اور کلام بھی اس سے جڑ جاتے ہیں بلکہ کوئلہ کو بھی یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ قال اور callمیں مدد دینے والا تھا اگرچہ اس میں سیاہی یا جلنے جلانے کاحوالہ بھی پایا جاتا تھا۔
دراوڑی کی طرف آئیں تو وہاں کو لامی میں لفظ ریکوrekkuملتا ہے جس سے پتہ مراد ہے اور پنجابی میں ہم اسے پتر کہتے ہیں تو خط کو بھی پتر ہی کہا جاتا تھا یوں ریکا سے پتوں پر کی تحریر مراد ہوئی اور ایسی تحریر کا اس خطہ میں رواج تھا جیسا کہ ذیل کی سطروں سے عیاں ہے:
Edited for the first time from the original palm leaf and paper manuscripts, written in Malyalam and Devanagari characters with an Introduction and Critical Notes.
لفظ جنوب براستہ ترکی ادھر آیا تھا کہ وہاں ''گونی'' سے جنوبی سمت مراد ہے اور گون سے دن۔ اور یہ وہی لفظ ہے جسے ہم دگرگوں کی صورت میں بھی جانتے ہیں اور گوناگوں کی صورت میں بھی اور ان میں دنوں کے بدل جانے کاحوالہ پایا جاتا ہے اور چونکہ دکنی خطہ میں سورج کی گرمی سارا سال شدید رہتی ہے اور وہ اعتدال لیل و نہار کاعلاقہ ہے اس لیے اس کو گونی guneyیعنی شمسی خطہ کہا گیا تھا لیکن ترکی لفظ کے تلفظ میں چونکہ ذم کا پہلو پیدا ہو جاتا تھا کہ گ بآسانی ک کی آواز سے بدل جاتا تھا اس لیے میرے خیال میں اسے ج سے بدل دیا گیا ہوگا اور یون جونی کو جنب کے حوالہ سے جنوب بنا لیا گیا ہو گا اور اس کو عربی زبان ہی کا لفظ جان لیا گیا ہو گا اور شاید اکبری ایام کے اواخر میں کہ اس دور کی لغات مدار الافاضل میں لفظ جنب بہ معنی پہلو تو موجود ہے لیکن جنوب کو با دوست چپ بتایا گیا ہے اور سمت دست راست نہیں بتایا گیا۔ یہ لغات ۱۰۰۱ سال ہجری قمری میں تالیف کی گئی تھی۔
گون سے دن مراد ہونا ہی یہ خیال کرنے کی گنجائش پیدا کرتاہے کہ لفظ juneاسی کا ہم اصل ہے اور جس جنوبی دراوڑی زبان کو گوندی کہا گیا تھا اسے سمتی حوالہ ہی سے یہ نام دیا گیا تھا اسی سمتی حوالہ ہی سے ایک بہت بڑے خشکی کے قطعہ کو گوندوانا Gondwanaکہا گیا تھا جس میں جنوبی امریکہ، افریقہ، انڈیا، آسٹریلیا بلکہ مقلب جنوبی کا علاقہ بھی شامل تھا اور یہ اربوں برس پہلے کی بات ہے اور پھر اس میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگی جسے Continental Driftکہا جاتا ہے۔
لیکن قیاسات نا مکمل رہ جائیں گے اگر یہاں رِگ وید کا ذکر نہ کیا جائے۔ اس آریائوں کی قدیم ترین تالیف کو رگ کیوں کہا گیا تھا؟ آج سے نصف صدی سے بھی پہلے میں نے اپنے ایک مضمون میں کچھ پنجابی شاعری کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا تھا کہ رگ وہی لفظ ہے جس کو آج راگ کہا جاتا ہے یعنی اس سے کلام موزوں مراد تھا ۔ یہ مضمون بھی ''جھاتیاں'' میں شامل ہے۔ دونوں میں موجود مماثلت کا ذکر کیے بغیر مجھ سے بہت پہلے دانایانِ فرنگ نے یہی بات کی تھی اور اس مجموعہ کو یہ نام دینے کاباعث یہی بتایا تھا کہ اس کے نغمات کو گا کر پڑھا جاتا تھا۔ اپنے دیباچہ میں گرفتھ نے ریشوں کو شاعری لکھا تھا۔ اسی طرح پنجابی کی ایک مفصل سی لغات مہاکوش میں مرقوم ہے کہ رچا سے رِگ وید کا منتر مراد ہے اور رچ سے حمد و ثنا مراد ہے یوں رِگ وید کو یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کہ اس میں ثنائیہ اشعار تھے۔ میرے اپنے خیال میں آگے چل کر مفہوم میں تبدیلی پیدا ہو گئی بلکہ لکھاوٹ میں بھی کہ ثنا میں بناوٹ کے لحاظ سے کوئی ستائشی پہلو نہیں ہے اور فارسی لغاتوں میں اسے عربی کا لفظ لکھنے کے باوجود اس کے کسی مشتق کا سراغ نہیںدیا۔ چنانچہ فرہنگ عمید مطبوعہ ایران میں ثنا کے بعد ثنائی درج ہے جس کا مفہوم کلمہ دو حرفی دیا گیا ہے۔ یہی صورت سبنگاس کی فارسی لغت کی ہے اور یہ لفظ بھی بنیادی طور پر سنا ہوگا جس سے قدرے بدلاوٹ کے ساتھ استھونیا میں لفظ مراد ہے اور اسے sona لکھا بولا جاتا ہے جبکہ فن لینڈی سوئنsuinسے بولا گیا مراد ہے اور لفظ suuسے مراد منہ ہے یعنی وہ لفظ جو منہ سے نکلا ہو اور ہماری زبان میں سننا کی اصل یہی ہے لیکن اس کی وضاحت فن بولی سے ہوتی ہے۔
میرے خیال میں یہی کچھ لفظ ریختہ پر بھی گزری ہو گی۔ وقت کے ساتھ رگ، ریگ، ریک، ریکتا، ریختہ بن گیا ہو گا لیکن اس میں شعری حوالہ تادیر رہا اور ریختہ سے کلام منظوم ہی مراد رہا تا آنکہ شاہ عبدالقادر کے ایام میں اس کا نثری حوالہ سے ذکر ملتا ہے لیکن جب غالب شیونرائن کو لکھتے ہیں کہ میرا اب ریختہ لکھنے کو جی چاہتاہے نہ مجھ سے کہا جائے، تو یہاں کلام منظوم ہی کی طرف اشارہ ملتا ہے یعنی ایک قیاس یہ بھی ہے کہ ریختہ کو رک ویدی حوالہ ہی سے یہ نام دیا گیا ہو گا جس کی طرف مفہوم کو لے جانا شاید عہد عالمگیر میں نامناسب سمجھا گیا کہ اہل قلم بیشتر وقت شناس رہے ہیں۔ چنانچہ مسلم دور اقتدار میں غیر مسلم شاعر بھی حمد و نعت سے اپنی شعری تصنیفات کو مزین کیا کرتے اور ضیائی دور میں فرشتوں کا گیت نصاب سے خارج کر دیا جاتا تھا بلکہ جہاں ارمغان حجاز میں حسین احمد مدنی کے حوالے والی رباعی درج ہے وہاں فٹ نوٹ میں وہ کشادہ قلب معذرت درج نہیں کی گئی جس کا اظہار علامہ نے مدنی صاحب کے وضاحتی بیان کے بعد کیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ کہ دکن ایک جغرافیائی خطہ کے طور پر معروف ہونے کے باوجود کسی ایک زبان کا خطہ نہیں تھا بلکہ دراوڑی قبیلے کی زبانوں کا گھر تھا۔ اس لیے دکنی اردو کی ترکیب نظرثانی کی محتاج ہے یا مزید وضاحت کی۔ اسی طرح ریختہ کو بھی فارسی زبان کا لفظ مان لینے کی جگہ اس کا سراغ کسی اور جانب تلاش کرنا چاہیے بلکہ یہ کام وسیع پیمانہ پر کرنے والا ہے جیسا کہ میں نے غزل کے سلسلہ میں پنجابی کے ایک معروف ماہنامہ سویرا انٹرنیشنل لاہور میں اظہار کیا تھا اور جس چیک زبان کی ریختہ کے حوالے سے میں نے بات کی ہے اسی خطہ کا ایک اور معروف لفظ بھی سامنے آ گیا ہے یعنی ویناvina۔ اس سے اون مراد ہے اور تھوڑے سے تصرف کے ساتھ وینولہ بنولیا وہی چیک لفظ تھا جس کے متعلق یونانیوں نے لکھا تھا کہ وہاں اون درختوں پر اگتی ہے۔ کاش اردو ڈکشنری بورڈ اسے بھی اپنے منصوبے میں شامل کرے۔
٭٭٭٭