اس ماہ کی منتخب تین کتابیں
اوراقِ جوش
از : ڈاکٹر ہلال نقوی
زیر اہتمام :اظہار سنز ، لاہور۔ ۲۰۱۰ء


اسلام آباد شہر کے نام پر بے آواز ثقافتی قبرستان کے مقابلے میں وہ گورستان بولتا سنائی دیتاہے،جہاں جوش ملیح آبادی کو اپنی دانست میں دفن کیا گیا تھا،ابھی ۲۲ فروری کو ان کی برسی مقتدرہ قومی زبان میں منائی گئی۔
ممکن ہے جوش ملیح آبادی کے بعض مداح ان کی قدرتِ کلام،مشاقی اور زبان دانی کے قائل ہوں،بعض ان کے جستہ جستہ خیال افروزفقروں کے سبب انھیں کلچرل ہیرو خیال کرتے ہوں[مولانا مودودی کے لئے ان کا وہ فقرہ یاد کیجئے اندر ہی اندر سنگ سار کیا جا رہا ہے]، بعض ان کی ناز برداری کو ایک پیمانہ خیال کر کے حاکمان و والیانِ ریاست یا محبوبانِ جہان کے ظرف کو جانچنے کا معیار بناتے ہوں[ان کے خلاف شائع ہونے والا ’ساقی‘ کا جوش نمبر آپ نے دیکھا ہوگا،جو ہم ایسے ملامتیوں کی ان سے شیفتگی کو بڑھا دیتا ہے]۔ کچھ ان کے طنطنے ، بانکپن اور آزاد خیالی کو لائقِ تحسین خیال کرتے ہوں لیکن آج ہمارا معاشرہ اپنے نظریہ ساز اشرافیہ کے سبب جن تاریخی، تہذیبی اور فکری تضادات سے گزر کر ایک کم کامیاب یا نحیف کوشش کر رہا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کا ایک مہذب ، روشن خیال اور انسان دوست نقش ابھار سکے۔ ایسے میں ہمیں صوفی شاعر اور وہ ملامتی عاشق یاد آرہے ہیں جو پاکستان کاحقیقی تہذیبی سرمایہ تھے اور ہیں۔پاکستان کی نامور مورخ عائشہ جلال نے آکسفورڈ پریس اور برٹش کونسل کے تحت کراچی کے کتاب میلے میں کیا معنی خیز بات اپنے نانا سعادت حسن منٹو کے بارے میں کہی ہے کہ شراب تو سعادت حسن منٹو امرتسر اور ممبئی میں بھی پیتے تھے مگر پاکستان کی ایک مخصوص معاشرتی کیفیت نے انھیں’ شرابی بنایا ،گویا انہیں اسی حوالے سے شہرت دی یعنی ہمارا معاشرہ معصوموں کو احساسِ جرم دینے میں لاثانی ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ ادیبوں، شاعروں اور تخلیق کاروں کا وہ گروہ جو رندی و سرمستی کو اپنی فکری اساس کا سرچشمہ خیال کرتا ہے وہ کس طرح جوش ایسے ملامتی عاشقوں کو اپنا تہذیبی سرمایہ خیال نہیں کرسکتا؟،جب کبھی ہمارے اہلِ عقیدہ کی سمجھ میں ابن العربی کے اس لطیف نکتے کے مفہوم تک رسائی ہو گی کہ ’جنت کے پھل،دوزخ کی آنچ سے پکتے ہیں‘تب ہی شایداپنی تہذیب و ثقافت میں ملامتی عاشقوں اور تخلیق کاروں کے مرکزی کردار کی اہمیت سمجھ میں آسکے گی۔
جوش ملیح آبادی نے ’یادوں کی بارات‘ میں خود کشائی کے باب میں لکھا تھا :
’’
میری زندگی کے چار بنیادی میلانات ہیں، شعر گوئی، عشق بازی، علم طلبی اور انسان دوستی‘‘ (ص ۱۳ )
مگر حقیقت میں ان کی ذات کا ایک اور پہلو بھی بہت اہم ہے اور وہ ہے شہ خرچی، سو جہاں انھوں نے الفاظ کی
شہ خرچی سے اردو زبان کی ثروت مندی اور بلاغت کی صلاحیت سے اپنے مداحوں کو مبہوت و مرعوب کیا ہے ، وہاں ان کے مزاج شناس فراق گورکھپوری نے کہا تھا کاش ان کا کلام پرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ اتنا ہی خاموش بھی ہوتا، بلند ہونے کے ساتھ اتنا ہی گہرا ہوتا‘‘ (فراق ۔شاعر اور شخص، ترتیب و انتخاب شمیم حنفی ، لاہور ۱۹۸۳ء ، ص ۲۱۰ )
جوش کی شاعری کے بارے میں بیشتر احباب باتیں کرتے ہیں،مگر میَں ان کی زور دار اور دل فریب نثر کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں،جوش کی نثر کا سب سے دلآویز مرقع تو ’یادوں کی برات‘ ہے ، جو۱۹۷۰ء میں شائع ہوئی مگر مقالات زریں (اقوال زریں) کے نام سے اترپردیش اردو اکادمی۔ لکھنؤ نے ۱۹۲۰ء میں ان کی نثر کا نقش اول شائع کیا۔ پھر اگلے ہی برس ایک اور کتاب ’اوراقِ سحر ‘ (حکیمانہ اقوال) اسی ادارے نے شائع کی، جس میں ان کی محبوب صبح کے حوالے سے نظم و نثر کا انتخاب ہے، پھر جذباتِ فطرت کے نام سے اس برس اسی ادارے کی جانب سے کتاب شائع ہوئی جس پر یہ ذیلی عنوان درج ہے’ فطرت سے متعلق مختلف اقوال ماہنامہ ’کلیم‘ میں شائع ہونے والے مضامین’اشارات ‘ کے نام سے ۱۹۴۲ء میں نگار بک ایجنسی دہلی نے شائع کی۔ ’یادوں کی برات‘ کے بعد ان کی نثر کے جو نمونے ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۳ء تک شائع ہوئے ان میں ڈاکٹر خلیق انجم کی تین مرتبہ کتابیں اور پھر، صفدر حسین، سحر انصاری اور ہلال نقوی کی بھی مرتبہ کتب شامل ہیں، جن میں ان کے مکتوبات اور مضامین ہیں۔ ان کے علاوہ ضیاء الحق دور کے آغاز کے ساتھ ہی ’آواز خرانہ ‘کے لیے ریکارڈ ہونے اور بعد از وفات نشر کرنے کے وعدے کے ساتھ ہونے والے انٹرویو کی صالحانہ اشاعت، جس کی بدولت وہ معتوب ہوئے، مگر آمریت اور ریاکاری کی اس رات میں ان کے اس انٹرویو کے تخلیقی فقرے منٹو کے افسانوں اور فیض کی نظموں کی طرح بار بار دمکتے رہے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اپنی کتاب ’جوش ملیح آبادی ایک مطالعہ‘ میں لکھا ہے کہ کراچی میں لطف اﷲ خان کے صوتی آرکائیوز میں جوش اور راغب مراد آبادی کے تقریباً ۳۵ گھنٹے کے دورانیے پر محیط وہ ٹیپس بھی موجود ہیں جو آنے والی نسلوں کو جوش کے افکار بزبانِ جوش کے عیشِ سماعت سے بہرہ ور کرتے رہیں گے ‘ (ص ۱۴۲) اور یہ بھی لکھا کہ اگر یہ محفوظ شدہ گفتگو کتابی صورت میں آجائے تو شاید شب پرستوں کا ایک قافلہ اسلام آباد کے اس قبرستان کی طرف کوچ شروع کر دے، جہاں جوش مدفون ہیں۔ (ص ۱۴۲ )
جوش کا ایک دلچسپ مضمون ہفت روزہ ’لیل و نہار‘ میں ۷ تا ۱۳۔ دسمبر ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا’ایلیکشن‘ جسے اب ’جوش شناسی‘ میں ڈاکٹر ہلال نقوی نے دوبارہ شائع کیا ہے،پہلے اس میں سے چند جملے دیکھئے :
دونوں گروہوں نے سونے کے چوہے دان بنوائے ہیں، فدائیان اسلام نے اپنے چوہے دان کے آنکڑے میں حیاتِ فردا کی شیرمال آویزاں کر دی ہے اور خدامِ انام نے اپنے چوہے دان میں حیاتِ امروز کی روٹی کا ٹکڑا لٹکا دیا ہے اور یہ دونوں چوہوں کی کھٹکا کے انتظار میں ڈھکی لگائے بیٹھے ہیں‘۔ (ص ۸۵، ۸۶ )
اور آخر میں قوم سے اپیل کی ہے کہ ووٹ دیتے وقت ۱۸ باتوں کو ملحوظ رکھیں، ان میں ایک تو یہ کہ اس کی معاش کس چیز پر مبنی ہے؟ اور اہم ترین یہ کہ اس نے جوانی میں کبھی دل لگایا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اعلیٰ قسم کی اورپختہ لیکن سستی شراب کشید کرنے کے واسطے بھٹیاں قائم اور ایسے افراد کے نام اجازت نامے جاری کرے،جو صحتِ جسمانی،سلامتی عقل اور شرافتِ نفس کی بناء پر بادہ خواری کی اہلیت رکھتے ہیں‘۔ (ص ۸۹ )
بیس برس پہلے ایک کتاب ’جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرتب کی تھی،جسے ۲۰۱۰ء میں ’اوراق جوش‘ کے نام سے مرتب نے کچھ اضافوں کے ساتھ اظہار سنز ، لاہورسے شائع کرایاہے۔ مرتب نے جوش کے منتشر اوراق کی شیرازہ بندی میں حائل مشکلات کے بارے میں لکھا ہے :
۔۔۔ گھر کے گملے میں چنبیلی کے پودے کو پانی دینے سے لے کر موت کی خزاں رسیدگی پر اظہارِ تاسف تک ان کے اطوار ، گفتار اور کردار کے کتنے ہی چلتے پھرتے منظراب بھی آنکھوں کے کیمرے میں محفوظ ہیں۔ ۔۔۔دوسرے میں نے اس بارے میں جوش صاحب کی ’ بے خبریاں ‘ خود بھی دیکھی تھیں۔ گنبد والے مکان کے پہلے فلور سے اترتے ہوئے زینے کے نیچے گریج نما حصے میں ایک پھٹی ہوئی بوسیدہ اٹیچی میں ان کے قیمتی ادبی نوادرات تباہی کی نذر ہورہے تھے‘۔
جوش کی اس کتاب اور دیگر تحریروں میں سے چند اقتباسات دیکھئے :
جب شاعر الفاظ کو ان کے معروف لغوی معنی سے علیحدہ کر کے استعمال کرتا اور انھیں جدید معنی کا خلعت پہناتا ہے تو لغات و،لغات نویس دونوں کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے کہ آخر یہ ہوا کیا ‘۔
۔۔۔’اگر اس مزرعِ آخرت میں ایک دانا وبینا کا شتکار کی حیثیت سے زندہ رہنے کی تمنا کو اب تک حرام قرار نہیں دے دیا گیا ہے تو کان کھول کر وقت کی اس سب سے بڑی بات کو سننا اور سن کر گرہ میں باندھ لینا چاہیے کہ اس کارخانہ عالم کا مستقبل سیاست پر نہیں۔ فلسفہ وادب اور سائنس پر مبنی ہے‘۔
جب تک شادی نہ ہو ، معشوقہ ، محمل نشیں لیلیٰ ہوتی ہے اور شاد ی کے بعد وہ انگنائی میں بندھی ہوئی گائے میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے‘۔
آپ اکاڈمی کا مقصد دریافت کرنا چاہتے ہیں ، سو ، بندہ پر ور اس کا مقصد ، انقباضِ جہل وانشراحِ علم کے سوا ، اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر ، فلموں، ڈراموں ، رسالوں ، کتب خانوں، درسگاہوں ، مقالوں ، جلسوں ، تصنیفوں ، تالیفوں اور ترجموں سے کام لیا جاسکتا ہے۔
چالاک صوفیوں اور مجذوب شاعروں نے ، قوالوں کی ’’ آہے وا‘‘ اور مشاعروں کی سبحان اللہ کی وساطت سے ، عشق وجنوں کو ابھار ، اور عقل وشعور کو بھینچ کر بالعموم ایشیاء اور بالخصوص ہندوستان وپاکستان کو ،جذبات کی افیون پلا پلا کر ، انٹا غفیل کر رکھا ہے ، اس غوطے سے لوگوں کو جگانا اور حکمت ومنطق کی راہ پر چلانا ، ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے۔
اقوال واساطیر نے ہماری عقل کاگھلا گھونٹ رکھا ہے اور ہمارے دماغ کو ایک ایسے ڈھرے پر ڈال دیا ہے کہ ہم ، بے بنیاد ایقان کو اوڑھنا ، بچھونا بنا چکے اور عقاید کا دودھ پی پی کر ، تجسس و تحقیق کو ایک شیطانی عمل سمجھنے لگے ہیں ، خرافات کے جادوگھر سے ، انسان کا نکالنا سب سے بڑا شرف ومجد ہے۔
ان کی[پریم چند کی] ذات میں پریم کی بہت مٹھاس تھی ، ہم دونوں جب بھی ملتے ، ہمارے دل کی کلیاں کھل جایا کرتی تھیں ۔ ۔۔۔ دہلی میں رہتا تھا وہ ایک دن ، سرِ شام ، میرے پاس آئے اور بہت دیر بیٹھے رہے ، میں نے اس صحبت میں ان کی ’’ نیک چلنی ‘‘ پر بہت سی پھبتیاں بھی کسی تھیں اور وہ تابدیر ہنستے رہے اور بار بار میرے گلے سے لگ جاتے تھے‘۔ ۔۔۔
ایک روز میربارق صاحب ایک محفل میں ملے پوچھنے لگے میاں اب کس محلے میں قیام ہے۔ میں نے کہا ’’ لاٹوش روڈ پر ‘‘ ہے! میر صاحب نے چھاتی پیٹ کر کہا ’’ ارے تم اتنے خوش گو شاعر ہو کر ایک ایسی خبیث سڑک پررہتے ہو جس میں (ٹ ) اور (ڈ) کے حروفِ ثقیلہ پائے جاتے ہیں! میرے منہ سے تو اس نامراد سڑک کا نام تک نہیں نکل سکتا ۔ اگر خاں صاحب زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ ان حروفِ ثقیلہ میں کبھی قیام نہ فرماتے۔ میاں جب تک اس محلے میں رہو گے ہم کبھی ملنے نہیں آئیں گے‘۔ ۔۔۔’ میری شخصیت شبیر حسن خان اور جوش ؔ ملیح آبادی کے درمیان بٹی ہوئی ہے ، شبیر حسن خان حکمت کے پجاری ہیں ، لیکن جوش ملیح آباد ی افسانۂ وافسوں کا دلدادہ ہے‘۔ ۔۔۔’ شاعری عقل کا راستہ اختیار کرے گی تو پنپے گی ، ورنہ مرجائے گی ‘۔ ۔۔۔’ہمیں یہ عزم بھی کر لینا چاہیے کہ ہم اپنی زبان کی سکڑاہٹ اور اپنے افکار کی بھچاوٹ سے اب دیر تک صلح نہیں کریں گے اور اس سے اعلانِ جنگ کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔ یہ اعلان جنگ اس طرح ہوسکتا ہے کہ تعلیم کو عام کیا جائے ، نصاب ایسا مرتب کیا جائے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ دارالترجمہ ودارالتصنیف قائم کئے جائیں ، آکس فورڈ ڈکشنری کے معیار کی فرہنگ مدون کی جائے ،جدید الفاظ ، اسماء ومحاوارت ، مرکبات اور ضرب الامثال کی تشکیک کے واسطے ایک لسانی دارالضرب قائم کی جائے اور اخباروں ، رسالوں ، لیکچروں ، فلموں اور ریڈیو کی وساطت سے جدید الفاظ وافکار کو مستقل ومسلسل نشر کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نہایت وسیع پیمانے پر کتب خانے قائم کیے جائیں ، اقطاب علم وامامان ادب کو فکر معاش سے قطعی طور پر آزاد کر کے ، تخلیقی کارناموں کی فرحت بخشی جائے اور ان کی کتابوں کا معقول بندوبست کیا جائے۔ ۔۔۔ ہم محسوس کرسکیں کہ ہماری زبان کس قدر تنگ ومحدود ہے اور تو اور ہماری زبان میں تمام جانوروں ، تمام درختوں ، تمام پھولوں اور تمام جڑی بوٹیوں وغیرہ کے نام نہیں ہیں،جانداروں کے بچوں اور ان کی بولیوں کے بھی نام نہیں ہیں۔ علم الحقائق کا تو ذکر ہی کیا ، ہماری زبان میں علم الاسماء بھی شرم ناک حد تک محدود ہے‘۔ ۔۔۔ ’فانی کی زندگی کا آخری زمانہ اپنے دوستوں سے بدگماں رہنے کا ایک مستقل ومسلسل دور تھا ۔ ۔۔۔ ان کے کمرے میں جب کوئی مچھر داخل ہوتا ہے تو وہ سمجھتے تھے کہ میرے فلاں دوست نے اس مچھر کو میری طرف اس لیے روانہ کیا ہے کہ وہ مجھ کو کاٹ کر ملیریا میں گرفتار کردے۔ ۔۔۔ ہم جب فانیؔ کا کلام پڑھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنسوؤں کی ندی کے ساحل پر سنگِ موسیٰ کا ایک بڑا مندر ہے جس کے وسط میں غم کی دیوی کا بت رکھا ہوا ہے اور ایک سیاہ پوش برہمن ہے جو دھڑکتے ہوئے دل کی گھنٹی بجا بجا کر پوجا کر رہا ہے۔ ۔۔۔الفاظ کو کاغذ پر روشنائی کی لکیریں نہ سمجھو، وہ تو بے جان لکیریں ہیں ، نہ ہوا کی گرہیں ۔ الفاظ تو ذی حیات ہیں۔ انسانوں کی طرح روحِ ذی حیات
۔۔۔ مبصر: انوار احمد

بار کہانی۔۔۔ ایک تاثّر
از ڈاکٹر سعید بھُٹا
سانجھ پبلی کیشنز ، لاہور ۔ ۲۰۱۱ء
کثیر لسانی معاشرت میں کسی ایک زبان کو کس طور اقتداری حیثیت حاصل ہوتی اور وہ اپنی اس حیثیت کو باور کرانے اور مستحکم کرنے کے مسلسل عمل میں کس طور دوسری زبانوں کو محکوم بناتی چلی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ محکوم زبانیں کس طور مقتدر زبان کے مقابلے میں اپنے تشخص ہی کی حفاظت میں اپنی ساری قوت صَرف کرنے لگتی ہیں___ پنجاب کی کثیر لسانی معاشرت اس امر کی ایک اہم مثال ہے۔ زبانوں کو طاقت کا ملنا اور غلامی کا شکار ہونا فطری نہیں ’تاریخی‘ عمل ہوتا ہے اور انسانی معاشروں کی تاریخ الوہی قوت کے ہاتھوں نہیں، انسانی طاقتوں اور ان کے مخصوص مفادات کے ذریعے تشکیل پاتی ہے۔ لہٰذا پنجاب میں اس خطے کی اپنی زبان پنجابی، اپنے تشخص کی حفاظت اور بقاکی جس جنگ میں مصروف ہے، وہ بعض تاریخی عوامل ( جو ناگزیر ہر گز نہیں تھے)کی پیدا کردہ ہے۔ ان تاریخی عوامل کا شعور ، جنگ کو محض جبلّی ردِعمل نہیں رہنے دیتا، اسے بامعنی بناتا ہے۔ یعنی مقتدر تاریخی قوتّوں کے اثرو نفوذ کو کم کرتا ہے اور ان کے مقابل محکوم ثقافت کی اصل اور طاقت کا انکشاف کرتا ہے۔ ’’بارکہانی ‘‘ پنجاب کی لسانی صورت حال کے گہرے تاریخی ادراک کا ’’ثمرِ شیریں ‘‘ ہے۔ یہ کتاب حملہ آوروں کے ہاتھوں پنجاب کو ملنے والے زخموں کا نوحہ ہے، نہ خود پنجابی حکم رانوں کی بے حسی و لاتعلقی پر احتجاج ہے، بلکہ روایتی ہا ہاکار سے کہیں آگے اور اس برتر عمل کی مثال ہے، جو شکوۂ ظلمتِ شب کے بجائے اپنے حصّے کا دیا جلانے میں یقین رکھتا ہے اور دیا بھی ایسا جو پنجاب کی ثقافتی تاریخ کے ان گوشوں کو روشن کر رہا ہے، جو ابھی تک اوجھل تھے اور جنھیں پنجابی ثقافت کا ’اندر کا آدمی‘ ہی روشن کر سکتا تھا۔
ڈاکٹر سعید بھُٹا، پنجابی ادبیات کے استاد، ممتاز دانش ور، نقاد اور محقق ہیں۔ وہ ان پنجابی دانش وروں سے قطعی مختلف ہیں، جو پنجابی کی عظمتِ رفتہ کے ولولہ انگیز نعرے بلند کرنے ہی کو، پنجابی کی سب سے بڑی خدمت قرارنہیں دیتے ہیں۔ سعید بھُٹا نے وسیع اور متنوع تاریخی مطالعے کے بعد پنجابی زبان، ثقافت اور ادبیات کی عظمتِ گم گشتہ کو دریافت کیا ہے۔ وہ دعوے سے زیادہ دلیل میں یقین رکھتے ہیں۔ تاریخی اورتقابلی مطالعہ تاریخ نے، سعید بھُٹا کے یہاں پنجابی ادبیات کی عظمتِ گم گشتہ کا ایک خاص تصور پیدا کیا ہے اور یہی تصور ’’کمال کہانی‘‘ اور ’’بارکہانی‘‘ کے وجود میں آنے کا محرک ہے۔ سعید بھُٹا تاریخ، ثقافت اور ادب کے ’اصلی و بنیادی سر چشمے‘ تک رسائی کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک کسی بھی قوم کی ثقافتی عظمت کے تمام مظاہر کا علم اسی ’اصلی و بنیادی سر چشمے‘ میں مضمر ہوتا ہے۔ ثقافت و ادبیات کے مؤرخین کا عمومی رجحان یہ رہا ہے کہ وہ تحریری متن کو اصلی و بنیادی سر چشمہ قرار دیتے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ثقافت و ادبیات کی تاریخ کا نہایت اہم حصّہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ تاریخ کے اس تحریر اساس تصور نے ، ثقافت اور ادبیات کی ادھوری اور بڑی حد تک مسخ شدہ تصویر پیش کی ہے۔ استعمار کاروں نے خصوصاََ تحریر اساس تصورِ تاریخ کی مدد سے پنجاب سمیت مختلف خطوں کی حقیقت کے بعید اساطیری تصویریں پیش کی ہیں۔ سعید بھُٹا تحریر اساس تصورِ تاریخ کو غلط نہیں ٹھہراتے، مگر اسے واحد اور اکمل تصورِ تاریخ تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ وہ لکھی ہوئی تاریخ کے ساتھ ساتھ نہ لکھی گئی اور نہ لکھی جا سکی تاریخ کو بھی یکساں اور بعض صورتوں میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ گویا ان کی نظر میں تاریخ کی موجودگی جس قدر اہم ہے، اس سے کہیں اہم اور معنی خیز تاریخ کا غیاب ہے۔ وہ ہمارے ہاں زبانی تاریخ کی اہمیت اور کارکردگی باور کرانے والوں میں نقیبِ اوّل کا درجہ رکھتے ہیں___بہ ہر کیف وہ زبانی تاریخ کو ثقافت و ادبیات کا ’اصلی و بنیادی سر چشمہ‘ ٹھہراتے ہیں اور اس تک رسائی کے کٹھن راستے پر چلتے ہیں۔ ’’بارکہانی‘‘ میں انھوں نے بار کے علاقے کی ان تاریخی اور ثقافتی کہانیوں کو جمع کیا ہے، جنھیں انھوں نے یہاں کے اصلی و قدیمی باشندوں کی زبانی سنا۔ان کے نزدیک زبانی تاریخ کی تدوین و ترتیب میں ایک تکون کارفرما ہوتی ہے: بیان کنندہ ، سامع اور محقق۔ ان تینوں کا مقامی ہونا ضروری ہے۔ وگرنہ تاریخ نہیں، ’’اساطیر‘‘ وجود میں آئے گی۔
’’
بار کہانی‘‘ میں سعید بھُٹا بہ یک وقت مصنف، سامع اور محقق ہیں۔ ان کی یہ تینوں حیثیتیں غیر روایتی ہیں۔ یہ کہانیاں ان کی تخلیق نہیں، ان کی ان تھک تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ وہ بار کے علاقہ کے مستند راویوں یا کہانی کاروں تک پہنچے؛ ان کی زبانی کہی گئی کہانیوں کو ٹیپ پر محفوظ کیا اور بعد ازاں انھیں تحریری صورت دی۔ انھوں نے ان مشکلات اور جاں گسل مراحل کا ذکر کتاب میں نہیں کیا، جو کہانی کاروں کی تلاش، ان تک رسائی سے لے کر، ان کی کہی گئی کہانیوں کو تحریری متن میں ڈھالنے کے دوران پیش آئے۔ یہ بجائے خود ایک دل چسپ کتھا ہو گی۔ (امید ہے وہ کسی وقت یہ ضرور لکھیں گے )
’’
بار کہانی‘‘ ایک سے زائد متون کی بزم و رزم کا منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ یہ فکشن، تاریخ اور ثقافت کے متون کے ٹکراؤ اور امتزاج سے عبارت ہے۔ سعید بھُٹا ان کہانیوں کو تاریخی اور وسیبی یعنی ثقافتی کہانیاں قرار دیتے ہیں ،جن کا زمانہ سولھویں تا انیسویں صدی ہے۔ تاہم ساتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے بیانیے میں لسانی سطح پر بیسویں صدی بھی شامل ہو گئی ہے۔ ان کہانیوں کااصل سرچشمہ، بار کے ان داستان گوؤں کا تاریخی و ثقافتی تخیل ہے، جنھیں میراسی کہا گیا ہے۔ یہ ایک عجیب پیراڈاکس ہے کہ بار کے زمیندار انہ کلچر کے تاریخی و ثقافتی حافظے اور تخیل کا علم بردار وہ طبقہ ہے جو بار کی معاشرت میں حاشیے پر ہے۔ کیا یہ طبقہ ان کہانیوں کے ذریعے زمیندارانہ کلچر کے قلب اور مرکزتک رسائی میں کوشاں ہوتا ہے یا زمیندارانہ کلچر خود اپنے تاریخی و ثقافتی حافظے کو حاشیے پر رکھتا ہے یا پھر وہ اس حافظے کو ایک ایسی متاع خیال کرتا ہے، جس کی حفاظت کے لیے ایک پیشہ وارانہ مہارت درکار ہوتی ہے؟، میراسی بہ ہر حال ایک ماہر داستان گو ہے اور اس کا داستانی تخیل اس علاقے کی ان تاریخی و ثقافتی حدود کا پابند ہے جو زمیندارانہ معاشرت نے کھینچی ہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ ’’بار کہانی‘‘ پر قائم ہونے والے ڈسکورس میں یہ سوالات ضرور زیرِ بحث آئیں گے۔
’’
بار کہانی ‘‘ میں فکشن، تاریخ اور ثقافت سے پیدا ہونے والی بین المتونیت نے اسے خاص کتاب کا درجہ دیا ہے۔ تاریخ کے زاویے سے دیکھیں تو یہ کتاب، پنجاب کے بار کے علاقے کی ایک متوازی تاریخ نظر آتی ہے۔ اور اس متوازی تاریخ میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت بیش ا زپیش موجود ہے، مثلاََ سخی خان خواص میں۔ ثقافتی سیاق میں کتاب کا جائزہ لیں تو ان کہانیوں میں وہ تمام رسومیات اور اقدار جلوہ گر نظر آتی ہیں جن کے تانے بانے سے بار کی ثقافت وجود پذیر ہوئی ہے۔ اس ثقافت میں ’’راٹھ‘‘ ان اعلیٰ اقدار کی علامت ہے، جنھیں ایک زمیندارانہ ثقافت اپنی بہترین تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لا کر تخلیق کر سکتی ہے۔ ’’راٹھ‘‘ پنجابی معاشرے کا خوشحال اور با اثر شخص ضرور ہے، مگر جاگیردارنہیں۔ اس کی شناخت ’’اپنی عزت قائم رکھنے، دوسرے کی عزت کا احساس کرنے اور دروازے پر آنے والے مجرم کو معاف کر دینے‘‘ جیسی سرگانہ صفات سے متعین ہوتی ہے۔ وہ اپنی اصل میں ایک بہادر اور اخلاقی کردار ہے۔ وہ اپنی مذکورہ صفات سے معاشرے میں اقتداری حیثیت حاصل کرتا ہے، مگر اخلاقی کردار کی بندشیں اسے اپنی طاقت کو استحصال کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دیتیں۔شہادت خان لکھیرا، شاہ شہابل اور اسالت گلوتر میں ’’راٹھ ‘‘ مرکزی کردار ہے۔
سولھویں تا انیسویں صدی کی ان کہانیوں کی ایک خصوصیت تو ورطہء حیرت میں ڈالنے والی ہے۔ بیسویں صدی میں شروع ہونے والی تانیثیت کی تحریکوں میں مرکزی نکتہ یہ رہا ہے کہ اس صدی کے پیشتر عورتوں کو کبھی ’’انسانی خصوصیات‘‘ کا حامل نہیں سمجھا گیا۔’’ انسانی خصوصیات‘‘ کا تصور مردانہ خصوصیات کے طور پر کیا گیا ہے۔ بہادری، سخاوت، ذکاوت، معاملہ فہمی، ارادے کی آزادی اور اپنے بل پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت___ ان تمام خصوصیات کو مردانہ خصوصیات قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم ’’بارکہانی‘‘ میں شامل غلام محمد چیما اور بیوی بھؤ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس حیرت سے دوچار ہوتے ہیں کہ ان میں عورتوں کے کردار (جن کا تعلق سولھویں سترھویں صدی سے ہے ) ذکاوت، سخاوت، ارادے کی آزادی اور خود فیصلہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں۔ بیوی بھؤ، بلا شبہ ایک یادگار کردار ہے جو اپنی بے مثال سخاوت سے اپنے شوہر کے کردار کی قلبِ ماہیت کرتا ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ اس کردار میں کسی طرح کے’ رومانوی اساطیری‘ عناصر نہیں؛ یہ کردار تاریخی اور حقیقت پسندانہ صفات کا حامل ہے۔
’’
بار کہانی‘‘ کے بیانیہ عناصر کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ روایتی بیانیات (Narratology) کی روشنی میں ان کے امتیاز کو پوری طرح نہیں جانچا جا سکتا۔ ’’بار کہانی‘‘ کا کہانی کار، بیان کنندہ، سامع، نقطہء نظر، بیانیہ عمل، وصف نگاری___ اور ڈسکورس اور کہانی ، سب منفردقسم کے ہیں ،جنھیں پنجابی ثقافتی تخیل نے اپنے مخصوص تاریخی پس منظر میں تشکیل دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کہانیاں نہ تو داستانیں ہیں، نہ لیجنڈ، نہ ناویلا اور نہ افسانہ۔ یہ ایک الگ قسم کی کتھائیں ہیں جنھیں کسی دوسرے کلچر سے مستعار نہیں لیا گیا، انھیں کلچر نے خود اپنے بطن سے، اپنے کسی داخلی دباؤ کے تحت جنم دیا ہے۔ لہٰذا ان کی تفہیم کا حقیقی پیمانہ ابھی دریافت ہونا ہے۔ راقم کا مؤقف یہ نہیں کہ فکشن کی تنقید کے رائج پیمانے ان کہانیوں کے تنقیدی مطالعے کے لیے بے کار ہیں، اصرار اس بات پر ہے کہ انھیں ’’بار کہانی‘‘ کے لیے موزوں تنقیدی پیراڈائم کی دریافت میں مددگار بنایا جا سکتا ہے۔ سعید بھُٹا نے ’’کتھی، سنئیر تے وسیب‘‘ یعنی کہانی کار، سامع اور ثقافت کے عنوان سے ان کہانیوں کی تفہیم کی بنیاد رکھی ہے اور کئی خیال انگیز نکات ابھارے ہیں۔
راقم کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ’’کمال کہانی‘‘ اور ’’بار کہانی‘‘ کو جدید پنجابی ادبیات کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اور واقعہ سمجھا جائے گا۔
۔۔۔مبصر: ناصر عباس نیر

شوکت اللغات (اردو، سرائیکی )
از : شوکت مغل
سرائیکی ادبی بورڈ، ملتان۔ ۲۰۱۰ء
کچھ لوگوں کی کارگزاریوں کو میں ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اِن میں ایک نام پروفیسر شوکت مغل کا ہے۔ جیسے سرائیکی شاعری و ادب کا ذکر آتے ہی خواجہ فرید کا نام ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے ویسے ہی سرائیکی لسانیات و لغات کے ضمن میں پہلا نام پروفیسر شوکت مغل کا آتا ہے۔ اور یہ نام ایک شخص کا صرف نام نہیں ہے بلکہ پوری عمر ایک تسلسل کے ساتھ سرائیکی الفاظ اور اُن کی لسانی حیثیت کے حوالے سے کیے گئے شاندار کاموں کی ایک قطار کا مرادف ہے جن کا پہلا سِرا تو ملتا ہے لیکن دوسرا سِرا ایک طرح سے ابد کے سمندر میں اترتا دکھائی دیتا ہے۔ لفظوں کے شناور کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ جو سالک اپنی ذات پر محنت کرکے اُس کی سن گن اور معرفت پالیتا ہے وہ اپنے خالق کی مشیئتوں کا رمز آشنا بھی بننا شروع ہوجاتا ہے، اور خالق کی ذات لاریب زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہے۔ اِسی طرح جو عالمِ زبان کے لفظوں کی معرفت کا ایک خاص مقام پالیتا ہے اُس پر زبان کے وہ اَسرار منکشف ہونے لگتے ہیں کہ اُس کے ساتھ مدتوں سے رہنے بسنے والے اہلِ علم و ادب کے دلوں پر اُن کا گمان تک نہیں گزرتا۔ ایسے کسی انکشاف کی لہر میں اگر کوئی باخبر اور رسوخ فی العلم والا عالم اپنی مادری زبان کے بارے میں اناالحق کا منصوری نعرہ بھی لگادے تو اِس کا جواز بنتا ہے۔ پروفیسر شوکت مغل نے سرائیکی کے بارے میں اناالحق والا نعرہ لگایا ہے۔ لیکن چونکہ اُن کا نعرہ سر جارج ابراہام گریرسن کے لنگوئسٹک سروے آف انڈیا کی آٹھویں جلد کے پہلے حصے کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج پر بنیاد کرتا ہے اِس لیے وہ پوری بصیرت کے ساتھ ہر فورم اور سطح پر اپنے مطالعے کے نتائج پیش کرتے ہیں۔ اُن کے چھوٹے بڑے چالیس سے زیادہ کام اب تک سامنے آچکے ہیں اور اہلِ نظر سے داد پاچکے ہیں۔ اِس وقت مجھے اُن کے تازہ ترین کام یعنی شوکت اللغات کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔
شوکت اللغات اردو الفاظ و تراکیب اور محاورات کے سرائیکی متبادلات کا جامع لغت ہے۔ اِس لغت کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ اِس میں سرائیکی کی پانچ مخصوص آوازوں کا مقام باقاعدہ متعین کرکے اندراجات کیے گئے ہیں۔ یہ بات لسانیات کے شعبے میں عمومی علمی استعداد سے آگے کی چیز ہے جو جنابِ شوکت مغل جیسے زبان کے دھنیوں ہی کو روا ہے اور اُنھیں جچتی بھی ہے۔ سرائیکی کے سبھی لغت نگاروں نے اپنے زمانے کے چلن اور اپنی علمی استعداد کے مطابق اپنے لغت مرتب کیے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں کمپیوٹر کی آمد اور بین اللسانی روابط کی حرفی/ اِملائی، صوتی اور اشتقاقی تحقیقات نے جہاں بنے بنائے بہت سے تصورات کو توڑ پھوڑ دیا ہے وہاں ایک یہ رویہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایسی کسی بات کو صرف اِس لیے قبول نہیں کیا جاتا کہ یہ مشہور ہے اور لہٰذا مسلّم ہے۔ مطلق صداقت (Absolute Truth) ممکن ہی نہیں، اور زبان جیسی تیزی سے بدلنے والی چیز کے بارے میں تو یہ صداقت اِتنی واضح ہے کہ طہارتِ زبان (Language Purism) کے حامی سادہ لوح لوگ ہی نہیں بلکہ مشہور ادیب بھی اپنی زبان پر کسی دوسری زبان (فرض کیجیے کہ انگریزی) کے اثرات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اِن لوگوں کی گفتگو کا لفظیاتی تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اِن کی اپنی لفظیات اُسی زبان کے اثرات سے مملو ہے جس سے وہ خائف ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو زبان زندہ ہے وہ روزانہ کی بنیاد پر بدلتی ہے اور اپنے ماحول کی سبھی کارآمد اور کارگزار زبانوں سے اخذِ لغات کرتی رہتی ہے۔ جو زبان جتنی زیادہ زندہ ہے (یعنی استعمال میں ہے) اُس میں یہ تناسب اُتنا ہی زیادہ ہوگا۔ چھوٹی زبانیں چھوٹی قوموں کی طرح ہوتی ہیں اور بڑی زبانیں بڑی قوموں کی طرح، اور کوئی چھوٹی قوم بڑی قوم کے اثرات سے بچ نہیں سکتی۔ دوسری زبانوں سے لفظ ہی نہیں آتے بلکہ آوازیں بھی آتی ہیں۔ میں نے اچھے بھلے حجازی عربوں کو چ اور گ کی آوازیں بولتے سنا ہے۔ ہمارے علاقوں میں نونِ غنہ کی آواز عام ہے لیکن طہارتِ زبان کے شدت پسند رویے کو کیا کہیے کہ یہ آواز بحیثیتِ حرفِ تہجی لینے میں ہمارے ہاں شدید تحفظات رہے ہیں، اور ہیں۔ سرائیکی والے جب مشہور گلوکارہ لتا کا نام لیتے ہیں تو حساس کان اِس کے آخر میں اپنے آپ آجانے والی غنیت کو محسوس کیے اور نتیجتاً مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ چھوٹی زبانوں میں لفظوں کے ریلے کے ریلے داخل ہوتے ہیں یعنی طاقتور زبانیں کمزور زبانوں کو ریل پیل دیتی ہیں؛ آواز کا داخل ہونا ایک عام الورود واقعہ نہیں ہے کیونکہ اِس کا تعلق زبان کے بولنے والوں کے منہ کی ساخت سے ہوتا ہے نہ کہ ذخیرۂ الفاظ سے۔
شوکت اللغات میں اردو الفاظ و تراکیب کے متبادل لفظ ’’وضع‘‘ کرنے کی خاص کوشش نہیں کی گئی بلکہ سرائیکی زبان کے ماحول میں موجود مستعمل الفاظ و تراکیب ہی کو سامنے لایا گیا ہے۔ جنابِ شوکت مغل کی یہ ترتیب اُنھیں لغت نویسی کے اُس مقام پر براج دیتی ہے جسے اردو کے بڑے لغت نویس جنابِ شان الحق حقی نے لغت نویس کا اصل مقام بتایا ہے۔ لفظ گھڑنا لغت نویس کا کام یا مقام نہیں ہے بلکہ اُسے تو دیانت داری سے ماحول کے الفاظ کو لغویانا (Lexicalize) چاہیے۔ شوکت مغل صاحب نے یہی کیا ہے، اور بالکل درست کیا ہے۔ یہاں اُن کا لسانی شعور اور لغت نویسی کا جدید اور سائنسی شعور یکجا ہوتے نظر آتے ہیں۔
راقم ذاتی تجربے کی بنیاد پر جانتا ہے کہ لغت میں سے الفاظ کا نکال باہر کرنا زیادہ مشکل کام ہے بہ نسبت الفاظ کے داخل کرنے کے۔ اور یہ ایک مستقل ’’آرٹ‘‘ ہے کیونکہ نقطۂ نگاہ (Standpoint) سے ایک ذرا سی نگاہ چوک جانے سے سارا معاملہ چوپٹ ہوجاتا ہے اور نیا لغت اپنی وجہِ وجود کھو بیٹھتا ہے۔ اِس ’’ترک و اختیار‘‘ کے بارے میں پروفیسر عابد صدیق نے لکھا ہے کہ :
ایک کامل فنکار اپنے ’اختیار‘ سے زیادہ اپنے ’ترک‘ سے پہچانا جائے گا کیونکہ حقیقت میں تمام فن حشو و زوائد کے ہٹا دینے میں منحصر ہے۔ ایک موتی جڑنے والے کے آخری اصلاح کے تکمیلی عمل (جس میں وہ خاک کے غیر مرئی غبار کو صاف کرتا ہے) سے لے کر شروع کے اُس مرحلے تک جب کہ اُس کے ذہن میں اُس مکمل نقش کا الہام ہوا تھا، وہ صرف زوائد ہی کو دور کرتا ہے۔ مکمل نقش کا وہ الہام جو مائیکل اینجلو کے خیال کے مطابق پتھر کے ایک ناتراشیدہ بھاری ٹکڑے میں موجود ہوتا ہے۔
چنانچہ لفظوں کے بے حساب انبار میں سے شوکت اللغات کے لیے مناسب لفظ چھانٹنے اور اِس کے حجم اور صفحات کی تعداد کو قابو میں رکھنے کے لیے یہ ترتیب اختیار کی گئی ہے کہ وہ الفاظ عمومًا شامل نہیں کیے گئے جو اردو اور سرائیکی میں یکساں بولے اور لکھے جاتے ہیں۔ انگریزی کے دخیل الفاظ بھی جو عام مہیا لغات میں عام مل جاتے ہیں، روا نہیں کیے گئے۔ اگر ایک فعل لازم اور متعدی دونوں صورتوں میں موجود ہے تو صرف ایک شکل پر اکتفاء کی گئی ہے کیونکہ ہر دو زبانوں کا واجبی جاننے والا بھی اِن سے عام واقف ہوتا ہے۔ نیز الفاظ کے ذیلی اندراجات اور تصریفی صورتوں میں سے بھی صرف ضروری شکلوں کو لیا گیا ہے۔ بہت سی ایسی اردو کہاوتوں کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے جن کے علائم و مصادیق آج کی معاشرتی زندگی اور ثقافتی تمدن میں سے فرسودہ ہوکر غائب ہوچکے ہیں اور اب اِن کی حیثیت، ڈاکٹر مسعود حسین خاں کے الفاظ میں، سوائے ’’مردہ لاشوں‘‘ کے کچھ اور نہیں رہی۔ اِسی طرح عربی کے موٹے موٹے اور غیر چلن دار الفاظ بھی جو اردو کو ایک جناتی زبان بنادیتے ہیں اور جو ہمارے ہاں پڑھا لکھا ہونے کی ایک علامت رہے ہیں، اِس لغت میں شامل نہیں کیے گئے۔ پرانے لغات میں یہ الفاظ عام مل جاتے ہیں۔ المختصر جنابِ شوکت مغل نے لسانیات کے ایک ماہر اور زبان کی ثقافت کے ایک دانا اور جدید دور کی لسانی ضروریات کے گہرے آشنا عالم کی حیثیت سے الفاظ کے ترک و اختیار کا یہ کام نہایت ہوشمندی اور بیدار مغزی سے کیا ہے۔
ایک زبان کے ذخیرۂ الفاظ کو دوسری زبان میں بدلنا نہایت مشکل کام ہے۔ اور ایسا لغت جو آج کے دور کی ضروریات کے مطابق ہو اور طلبہ، مترجمین، صحافیوں اور ٹی وی چینلز پر بات کرنے والے دانشوروں وغیرہ کی ضروریات کو مخاطب کرتے ہوئے مرتب کیا گیا ہو، زبان کے عمومی اور نواحی مطالعے کا مطالبہ کرتا ہے نہ کہ کسی پرانے لغت ہی کو نئے سرے سے چھاپ دینے کا۔ شوکت اللغات کا صفحہ صفحہ سرائیکی کے ثقافتی و نواحی مطالعے کے شاندار اور جاندار نظائر پیش کرتا ہے اور اِس میں وقتیائے گئے (Out-of-date) اندراجات نہیں ملتے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شوکت اللغات اردو الفاظ کے متبادل سرائیکی الفاظ کا لغت ہے نہ کہ اردو الفاظ کے سرائیکی میں معنی کا لغت، چنانچہ یہ سرائیکی کا توضیحی لغت نہیں ہے۔ نیز اِس لغت میں نہایت ذمہ داری سے ہر اردو اندراج (سر لفظ : Headword) کا متبادل سرائیکی اندراج بھی ہم نوع قواعدی حیثیت والا لایا گیا ہے یعنی اسم کا متبادل اسم اور صفت کا متبادل صفت، علیٰ ہٰذا۔ اِس ترتیب کو اختیار کرنے سے بھی لغت کا حجم قابو رکھنے میں بڑی مدد ملی ہے اور زیادہ تر اندراجات یک سطری ہیں۔ یہ کام جس عرق ریزی کا محتاج ہے اُس کی داد صرف اہلِ فن ہی دے سکتے ہیں۔ عام آدمی بلکہ اچھے بھلے ادیب تک کو اِس کی کیا خبر کہ اردو کے ایک پروفیسر نے اپنی زندگی بھر کی محنت کا نچوڑ کس طرح اُس کی انگلیوں کے پوروں (Fingertips) پر مہیا کردیا ہے۔
شوکت اللغات کی صورت میں سامنے آنے والا یہ اردو۔سرائیکی لغت جنابِ شوکت مغل کے لسانی شعور کا زائیدہ ہے اور اِس میں موجود پچاس ہزار سے زائد اندراجات کی جمع آوری میں، اُن کے ابتدائیے ’’نہاں خانۂ دل سے‘‘ میں دی گئی معلومات کے مطابق، کوئی تیس برس کا عرصہ لگا ہے۔ اِس لغت کی ایک ممتاز خوبی وہ بنیاد ہے جس پر اِسے کھڑا کیا گیا ہے، یعنی علمی اردو لغت۔ اہلِ علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اب تک کے کارگزار یک جلدی لغات میں صرف علمی اردو لغت ہی ایسا ہے جس پر زبان اور ادب دونوں سلسلوں میں اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ شوکت اللغات کا سرائیکی میں وہی درجہ ہے جو اردو میں علمی اردو لغت کا ہے۔ اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ اور یہی وہ جرِ ثقیل ہے جو شوکت اللغات کا علمی مرتبہ و مقام طے کرتا ہے۔
جنابِ شوکت مغل کا یہ علمی تحفہ سرائیکی زبان و ادب کو دیر تک کام دیتا رہے گا اور بین اللسانی روابط کی مضبوطی میں کردار ادا کرتا رہے گا۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کا سب سے کارگزار حصہ اِس کام کی نمود میں کھپایا ہے اور وہ اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنھیں اپنی علمی محنت کو آنکھوں سے دیکھنا نصیب ہوجاتا ہے۔ اِس لغت کو دیکھنے سے جو فرحت اُنھیں ملتی ہوگی وہ کسی بھی رسمی و تقریباتی اعتراف سے نہیں مل سکتی۔ میں اُنھیں علمی اشرافیہ اور اطلاعیاتی ٹیکنالوجی کے لوگوں کی جانب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔ مبصر: ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان