ڈاکٹر تنظیم فردوس سے گفتگو
ملاقات : سحر صدیقی، تجمل شاہ


س : کیا پوسٹ گریجویشن کی سطح پر اردو کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے یا کمی؟
ج : گریجویشن کی سطح پر اردو کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں اپنے تجزیہ اور مشاہدہ کی بنا پر میں کہہ سکتی ہوں کہ گزشتہ دس برسوں میں اس کمی کی شرح زیادہ تو نہیں ہے لیکن بہرحال یہ تعداد نیچے کی طرف آئی ہے اور اس کی وجوہات سب کے علم میں ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں ایک مثبت اور حوصلہ افزاء پیش رفت یہ ضرور ہوئی ہے کہ جب سے پی ایچ ڈی کی سطح پر کورس ورک کا نفاذ ہوا ہے، تب سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔ چنانچہ اب کورس ورک کے ذریعے زیادہ طلباء آنا چاہتے ہیں۔
س : عام طور پر ہمارے یہاں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ ایسے مضمون میں تعلیم حاصل کی جائے جس کا مقصد روزگار سے ہو۔ آپ کے خیال میں اردو زبان کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کس حد تک اس میں کامیاب رہتے ہیں۔
ج : اسکولوں میں اردو (کا مضمون) لازمی ہونے کی وجہ سے فارغ التحصیل طلباء سکولوں میں تدریس کی طرف اپنا رجحان پیدا کرتے ہیں۔ تربیت حاصل کر کے اور تربیت حاصل کیے بغیر بھی ان طلباء کو سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں ملازمت مل جاتی ہے۔ اس طرح کالجوں میں اردو (کا مضمون) لازمی ہے۔اس کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے منسلک جو ڈگری پروگرامز ہیں ان میں بھی اردو لازمی ہے۔ اس کے باعث اردو کے اساتذہ کی اچھی خاصی ضرورت ہے اور ان تمام سطحوں پر اردو کے فارغ التحصیل طلباء کی کھپت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے قومی نشریاتی اداروں اور میڈیا میں ان فارغ التحصیل طلباء کے لیے گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے عام طور پر اخبارات اور رسائل میں ان طلباء کی گنجائش ہوا کرتی تھی یا پھر بعض اسامیوں پر ایم اے اردو کو ترجیح دی جاتی تھی۔ اب الیکٹرانک میڈیا میں ایڈیٹنگ و رپورٹنگ کے شعبوں میں اردو کے فارغ التحصیل طلباء کے لیے گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔
س : آپ کا تدریس کے حوالے سے وسیع تجربہ ہے اور آپ طلباء کے احساسات سے بھی خوب واقف ہیں۔ آپ کے خیال میں ایک استاد اپنے طلباء کو اپنے مضمون کی طرف اور خاص طورپر اردو کا استاد اپنے طلباء کو اردو کے مضمون کی طرف کیسے راغب کر سکتا ہے۔
ج : یہ بڑا اہم سوال ہے۔ یہ بات اصولی طور پر ہر مضمون کے استاد کی طرح اردو کے مضمون کے استاد سے بھی وابستگی کا تقاضا کرتی ہے۔ طلباء کے لیے اپنے استاد کی اپنے مضمون کے ساتھ وابستگی انتہا کی پر کشش ہوتی ہے اور طالب علم سب سے زیادہ اسی بات سے متاثر ہوتے ہیں۔ دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، طلباء کا رجحان زبانوں کی تدریس کی طرف ویسے ہی کم ہوتا جا رہاہے ۔ اردو زبان کے حوالے سے بھی یہ بات مشاہدہ کی جاتی ہے۔ جو طلباء اپنی دلچسپی یا کسی دوسرے سبب سے اردو کے مضمون کی طرف آ جاتے ہیں تو ایسے میں اساتذہ کا رویہ اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ زبان محض تجارت یا حصول معاش کا ذریعہ نہیں ہوتی۔ اس کی بجائے یہ سماجی تعلقات اور خیالات کی ترسیل کے لیے اور مختلف رویوں کی تفہیم اور ترقی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر استاد کا رویہ غیر سنجیدہ ہو جائے یا وہ تدریس کی ذمہ داری کو محض ملازمت تصور کرتا ہو تو اس کا وہ اثر نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ اگر استاد کا رویہ تدریسی عمل کے ساتھ ایسا ہو جیسے یہ اس کی ذات اور شخصیت کا حصہ ہے اور یہ اس کو ایسے ہی پر کشش اور جاذب بناسکے جیسے اس کو اپنی شخصیت ہوتی ہے تو یقینی طور پر اس کے خوشگوار اثرات ہوں گے اور جہاں تک اردوکے اساتذہ کا تعلق ہے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ ایسے اساتذہ نا پید ہیں کیونکہ ایسے اساتذہ کے طفیل ہی طلباء کو راہنمائی میسر آتی ہے۔ ایک طالب علم کو اپنے استاد اور اس کے پڑھائے ہوئے مضمون کے حصار میں ہمیشہ رہنا چاہیے۔ یہی ایک استاد کا کمال ہونا چاہیے ۔
س : آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی کادور ہے جس پر انگریزی زبان کا ’’قبضہ ‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اردو زبان، سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان کہلائی جا سکتی ہے؟
ج : تدریس کی سطح پر اردو زبان، سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ اصل بات رویہ کی ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ اس (اردو) زبان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جا سکتی ہے تو پھر زبان خود بخود تیار ہوتی رہتی ہے۔ زبان کو جو چیلنج بھی درپیش ہوتاہے وہ اس سے نبرد آزما ہوتی ہے ۔ آج کئی موضوعات ایسے ہیں جو آج سے بیس برس پہلے ہماری زندگی کا حصہ نہیں تھے، لیکن زبان ان موضوعات کے بارے میں ہمیں گفتگو کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اگر زبان علمی گفتگو میں اس کا احاطہ کر لیتی ہے تو یہ یقینی طو رپرتدریسی معاملات میں بھی ان موضوعات کا احاطہ کرے گی اور لوگ اس کے لیے تیار ہوں گے۔انگریزی زبان کے بڑی زبان ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی دوسری زبان بڑی زبان نہیں ہو سکتی یا کوئی دوسری زبان انگریزی کے ساتھ ساتھ پرورش نہیں پا سکتی۔
س : کچھ عرصہ پہلے اردو زبان اپنے روایتی انداز میں دکھائی دیتی تھی اور اب اس میں دیگر علاقائی اور مقامی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہو گئے ہیں اور میڈیا نے بھی اس سلسلہ میں کافی کردار ادا کیا ہے۔ آپ کے خیال میں کس زبان کو معیاری تصور کیا جائے؟
ج : یہ بات تو ناممکن ہے کہ کسی زبان پر دوسری زبانوں کا اثرو نفوذ نہ ہو۔ ہرزبان اپنی پرورش اور فروغ کے دوران اپنے اردگرد کی دیگر زبانوں کا اثر قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔یہ بات اردوزبان پر بھی صادق آتی ہے اور اردو زبان روایتی معنوں میں خالص تو کبھی بھی نہیں رہی۔ اردو کی پرورش کا عمل ہندوستان میں ہوا۔ اس کی بنیادی ساخت اسی زمین کی زبانوں سے تیار ہوئی۔ ان زبانوں کا بلا شبہ اردو پر اثر ہوا۔ ان زبانوں کے قواعد نے اردو کو آگے بڑھنے میں مدد دی۔ انگریزی زبان کا بھی اس پر اثر ہوا اور اب ہم پاکستان کے تناظر میں اگر یہ خوف یا تأثر قبول کریں کہ پاکستان کی زبانوں کا اردو زبان پر اثر ہو گا تو یہ مثبت بات نہیں ہو گی۔ دوسری طرف زبان کے حوالے سے جو بنیادی تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں ان کو بھی جاری رہنا چاہیے۔ یہ سوچنا یا اس حوالے سے خوف زدہ ہونا کہ کسی تبدیلی سے اردو کے ارتقاء کا سفر رک جائے گا، میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔
س : کیا مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جانا چاہیے؟
ج : یہ ایک اہم بحث ہے اور ہمارے یہاں اس بارے طویل عرصے سے گفتگو ہو رہی ہے لیکن ہم اب تک کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔مادری زبان کی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے بعد اگر پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو یقینی طور پر مختلف خطوں اور علاقوں میں مختلف زبانیں موجود ہیں اور اسی سبب ہمارے یہاں یہ بحث جاری ہے۔ فنی تعلیم اور خاص طور پر کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں ہمارے یہاں گزشتہ چند برسوں میں کئی تجربات ہوئے۔ اس دوران یہ معلوم ہوا کہ اپنی زبان یا اردو زبان میں کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنے والوں کوانگریزی زبان میں کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی رہی اور ان کی تعداد بھی زیادہ رہی۔ میرا حًیال ہے کہ اب گفتگو اور مباحث سے آگے بڑھ کر ہمیں نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔ اب اطلاق اور حاصلات تک پہنچنے کا وقت ہے۔
س : آزادی کے بعد ہمارے یہاں تحقیق کی جو صورت حال ہے، کیا آپ اس سے مطأن ہیں؟
ج اگر آپ کا اشارہ اردو زبان و ادب کی طرف ہے تو میرا خیال ہے کہ صورت حال مایوس کن نہیں ہے لیکن اگر ہم فروعی معاملات میں الجھے رہیں گے اور وقت ضائع کر دیں گے تو ہماری آگے بڑھنے کی رفتار یقینی طور پر سست رہے گی۔ نئے موضوعات کے حوالے سے زبان و ادب کو مربوط کر کے کام کو آگے بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ ایک طویل عرصے تک تحقیق کو الگ الگ حصوں میں تقسیم رکھا گیا، کہیں جامعات کی سطح پر اور کہیں انفرادی سطح پر لیکن اجتماعی تحقیقی منہاج قائم نہیں ہوا تھا۔ اب گزشتہ دس برسوں کے دوران یہ ہوا کہ جامعات ایک دوسرے کے قریب ہوئی ہیں اور بعض ادارے ان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔
س : مقتدرہ قومی زبان کی کارکردگی اور اس کے جریدے’’اخبار اردو‘‘ کی کوششوں سے آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ مقتدرہ اپنے کام کو مزید اثر انگیز انداز میں کس طرح آگے بڑھا سکتی ہے؟
ج : مقتدرہ قومی زبان کے اغراض و مقاصدکا ترجمان ’’اخبار اردو‘‘ ہے۔ان مقاصد سے ہم آہنگ نقطۂ نظر اور تصورات کا فروغ ’’اخبار اردو‘‘ کا مطمأ نظر رہا ہے۔اب بدلتے ہوئے سائنسی اور تکنیکی رجحانات کے ساتھ زبانوں کی ساخت اور اس کے اثرات اور سماجی تبدیلیوں کے اثرات کے ساتھ یعنی سماجی تغیرات کی عکاسی بھی ہونی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ زبان اور ادب پر یہ تبدیلیاں کس طرح کا اثر مرتب کر رہی ہیں۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ مقتدرہ قومی زبان ان اثرات اور تغیرات کے تناظر میں کیا اہداف مقرر کرتی ہے اور ’’اخبار اردو ‘‘ ان اہداف کے حصول کے لیے کیا کردار ادا کرتا ہے۔
مقتدرہ کی نئی مطبوعات
مزید خامہ بگوشیاں(ادبی کالم )
مرتبین: ڈاکٹر انور سدید، خواجہ عبدالرحمن طارق
یہ کتاب مقتدرہ قومی زبان نے بسلسلہ اشتراک و تعاون شائع کی ہے۔ مشفق خواجہ ’’خامہ بگوش‘‘ کے قلمی نام سے کالم لکھتے رہے۔ اب تک ان کالموں کے کئی مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں ۔ تاہم زیر نظر کتاب کالم اب تک کسی مجموعے کا حصہ نہیں بنے تھے۔ مشفق خواجہ اُردو کے شاید واحد مزاح نگار ہیں، جنہوں نے ادب، ادیب اور معاشرے کی ناہمواریوں کو طنز و مزاح کے ایک مستقل موضوع کی حیثیت دی ہے۔ وہ ادیب کو معاشرے کا ایک حساس ترین فرد تصور کرتے ہیں۔ معاشرے میں جہاں کہیں بھی دُکھ ہو ادیب کی آنکھ بھر آتی ہے اور وہ غزل، نظم، افسانہ وغیرہ لکھنے پر بے تاب ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات عملی زندگی میں صورت حال اس کے برعکس بھی ہوتی ہے۔ مشفق خواجہ کے زیادہ تر کالم اسی تضاد کو سامنے لاتے ہیں۔
حمایت علی شاعر کی ادبی خدمات
از: ڈاکٹر رعنا اقبال
یہ کتاب مقتدرہ قومی زبان نے بسلسلہ اشتراک و تعاون شائع کی ہے ۔ پیشِ نظر کتاب دراصل ڈاکٹر رعنا اقبال کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جسے مناسب ترمیم کے بعد شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کے عنوان سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا موضوع حمایت علی شاعر کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کے فن کا ناقدانہ جائزہ ہے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے :
۱ ) حمایت علی شاعر کا عہد
۲ ) حمایت علی شاعر بحیثیت شاعر
۳ ) شاعر کی نثر نگاری
۴ ) تخلیقی و عملی کام
۵ ) فلم، ٹی وی ، اسٹیج اور ریڈیو
۶ ) حمایت علی شاعر کے تراجم، انٹرویوز اور خطوط
۷ ) حمایت علی شاعر اور معاصرین
۸ ) اُردو شعر وادب میں شاعر کا مقام
پروفیسر حمایت علی شاعر اُردو کے ایک اہم اور قابلِ ذکر شاعر ہیں لیکن ان کی زندگی بڑی ہمہ جہت ہے اور اسی طرح ان کے فن کے پہلو بھی متنوع ہیں۔ وہ نثر نگار بھی ہیں، محقق بھی، اداکار بھی رہے اور صدا کار بھی ، اسی طرح ان کی ادبی شخصیت بڑی پہلو دار، بہت متنوع اور ادب کے طالب علم کے لیے بڑی توجہ طلب بن جاتی ہے۔ آپ بحیثیت اُستاد سندھ یونی ورسٹی سے منسلک رہے۔ عمر کی ایک منزل میں آپ نے فلمی گیت اور کہانیاں بھی لکھیں، لیکن آپ کا بنیادی حوالہ شاعری ہی ہے۔ آپ اُردو میں ایک نئی صنف ’’ثلاثی‘‘ کے موجد بھی ہیں اور ایک بحر میں منظوم خود نوشت لکھنے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔
****