بلوچستان کے معدنی وسائل و مسائل اور کہانی ریکوڈک کی
ڈاکٹر غلام سرور


ڈاکٹر غلام سرور ۱۹۴۵ء میں میرٹھ ، یوپی ، ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد غلام رسول جیولوجیکل سروے آف انڈیا میں ملازم تھے۔ پاکستان بننے کے بعدمیں، انھوں نے ۱۹۴۹ء کے لگ بھگ جیولوجیکل سروے آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی جو اسی وقت قائم ہوا تھا۔ کوئٹہ میں، ڈاکٹر سرور نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ مائیکل سکول اور گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے حاصل کی اور پھرکراچی یونیورسٹی سے MSc.جیولوجی کی ڈگری فرسٹ کلا س اور سکینڈ پوزیشن میں حاصل کی ۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ اور بلوچستان یونیورسٹی میں چار سال تک پڑھانے کے بعد ۱۹۷۴ء میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے امریکہ چلے گئے۔
امریکہ میں انھوں نے یونیورسٹی آف سن سناٹی، اوہائیو سے ۱۹۷۷ء میں MS اور ۱۹۸۱ء میں Ph.D کی ڈگری جیولوجی میں حاصل کی اور ۲۰۰۹ء تک کئی بڑی آئل کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد پرنسپل جیولوجسٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آج کل وہ ہیوسٹن ، ٹکساس میں بہ طور کنسلٹنگ جیولوجسٹ کام کر رہے ہیں۔ ان کے دوسرے مشاغل میں پڑھنا لکھنا ، شاعری ، آرٹ، جم سٹونز (Gemology) ، کارٹون بنانا اور جہاں گردی شامل ہیں۔
تدریس کے علاوہ پاکستان کے لیے ڈاکٹر سرور کی خدمات ’’ پاکستان جیوڈائنامکس پراجیکٹ ‘‘ Pakistan Geodynamics Project) (کے بانی ، کارکن اور کنٹری بیوٹر کی حیثیت سے مسلّم ہیں اور پاکستان کے پہاڑوں کی ساخت ، لس بیلہ کی کروڑوں برس پرانی پیچیدہ سمندری آتشی چٹانوں (Ophiolites) پر ان کا Ph.D کا کام یورپ وامریکہ اور پاکستان میں چھپ چکا ہے اور جنوبی پاکستان کی شکست وریخت سے کراچی کے زلزلوں کے تعلق پر ان کا ابھی کام جاری ہے، جس پر وہ کراچی یونیورسٹی اور GSPمیں لیکچرز بھی دے چکے ہیں۔
پاکستان جیو ڈائنامکس پراجیکٹ ڈاکٹر سرور نے ۱۹۷۶ء میں سن سناٹی یونیورسٹی سے پروفیسر کینر ڈی یانگ (Kees De Jong) کی سرپرستی میں اور پاکستان میں GSP کی اعانت سے شروع کیا تھا۔ اس کا خرچہ امریکن سائنس فاؤنڈیشن (NSF) کی گرانٹس نے ادا کیا تھا اور یہ ایک بڑا انٹرنیشنل پراجیکٹ تھا۔ اس میں امریکہ ، یورپ ، روس، آسٹریلیا اور پاکستان سے کوئی ۲۸ ماہرین نے حصہ لیا تھا۔ جیسے GSP سے ابوالفرح صاحب ، اسرار صاحب، غضنفر صاحب، سبحانی صاحب، کاظمی صاحب اورپشاور یونیورسٹی سے بزرگ پروفیسر ڈاکٹر طاہر خیلی صاحب اور کئی حضرات۔ اس پراجیکٹ کے تحت GSP نے ۱۹۷۹ء میں سارے کارکنوں کا کام اپنی شہرۂ آفاق کتاب
" "Geodynamics of Pakistan
میں شائع کیا۔
اس کتاب میں شامل ریسرچ پیپرز نے سارے پاکستان کے پہاڑوں کی نوعیت، ساخت، زلزلوں سے تعلق اور معدنی دولت وغیرہ کی بڑی تصویر کو جدید پلیٹ ٹکٹانکس (Plate Tectonics) تھیوری کے اصولوں کے تحت اس طرح اجاگر کیا کہ یہ کام آج بھی معتبر سمجھاجاتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستانی ارضیات پر جہاں بھی بات ہوتی ہے، وہ اس کتاب کے حوالوں سے جدا نہیں ہوتی۔ آج بتیس برس گزرنے کے بعد بھی یہ کام پاکستان کی ارضیاتی تحقیقات میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سرور بارگاہ الٰہی میں اس کام کے ہوجانے پر انتہائی شکر گزار ہیں اور یہ بجا طور پر یہ فخر کی بات بھی ہے۔
انتساب :
بلوچستان کی ارضیات پر مندرجہ ذیل مضمون کو ’’ جیو ڈائنامکس آف پاکستان ‘‘ کتاب کے ایڈیٹروں جناب ابوالفرح مرحوم اور کینر ڈی یانگ مرحوم کی یادوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈی یانگ میرے استاد بھی تھے۔
شکریہ :
میں مقتدرہ کے چیئرمین ڈاکٹر انوار احمد کا مشکور ہوں کہ جنھوں نے مجھے اس مضمون کو لکھنے پر آمادہ کیا۔
یہ بات تو ہم عرصے سے سنتے چلے آرہے تھے کہ بلوچستان میں چاغی کے علاقے میں تانبا ہے کافی سارا ،اور کچھ مولی بڈنم (Molybdenum) اور سونا بھی ہے تھوڑی مقدار میں ، مگر جب یہ خبر آئی کہ مغربی چاغی کے ایک گاؤں ریکوڈک کے پاس تانبے اور سونے کے ایسے ذخائر ملے ہیں کہ جن کے تخمینے سات افلاک سے بھی پرے جاتے ہیں تو ہمارے کان کھڑے ہوئے اور پھر ایک دم انیسویں صدی کے نامور امریکی طنزومزاح نگار مارک ٹوئین کی یاد آئی ، جنھوں نے کسی سونے کی کان کی تعریف کچھ اس طرح کی تھی کہ ’’ سنو میں بتاتا ہوں تم کو کہ سونے کی کان کسے کہتے ہیں ، یہ دراصل زمین میں کھودے گئے اس گڑھے کو کہتے ہیں جس کے چاروں طرف جُھوٹوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا ہو۔ ‘‘
خیر یہ تو تھی مذاق کی بات اور اس سے ہمارا مقصد کسی قسم کے ماہرین کی، جو ریکوڈک کے آس پاس گئے ہوں ، توہین ہرگز نہیں ۔ یہ مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے کہ ریکوڈک کی حقیقت در اصل ہے کیا اور پاکستان کے معدنی و سائل ، ارضیات ودیگر مسائل کوسمجھنا کس قدر اہم ہے۔ یہاں ہم صرف بلوچستان کی حد تک پہلے معدنی وسائل کا ایک سرسری جائزہ لیں گے اور پھر مسائل وغیرہ کی بات کر کے، ریکوڈک کا اور تفصیل سے جائزہ لیں گے۔
شروعات :
ہندوپاک کی تقسیم کے بعد ۴۸۔۱۹۴۷ء میں ہی جیولوجیکل سروے آف پاکستان (GSP) کا دفتر کوئٹہ میں قائم کردیا گیا تھا اور اس محکمے کو سارے پاکستان کے ارضیاتی سروے اور معدنی وسائل کو ڈھونڈنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس کے پہلے سربراہ جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک ا نتہائی قابل ماہر ارضیات ڈاکٹر ہنری کروک شینک تھے، جنھوں نے تقسیم کے بعد پاکستان آکرGSPکی بنیاد رکھنے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، بجائے اس کے کہ وہ ریٹائرمنٹ لے کر اسی وقت ڈبلن ، آئر لینڈ واپس چلے جاتے ، جہاں کے وہ رہنے والے تھے ۔
ڈاکٹر کروک شینک کی تجربہ کار آنکھوں نے پاکستان میں جی ایس پی کے قیام کے لیے کوئٹہ کا انتخاب اسی بنا پر کیا تھا کہ بلوچستان میں معدنی دولت ملنے کے آثار نمایاں تھے اور کچھ دھاتوں کے بارے میں معلوم بھی تھا۔ جیسے مسلم باغ کا کرومائٹ (Chromite) ۔مسلم باغ کو اس زمانے میں ہندوباغ کہا جاتا تھا۔ جی ایس پی نے چاغی کا سروے بھی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں شروع کیا اور سیندک کے مقام پر تانبے کے ذخائر کا پتہ چلا لیا۔ اس طرح ڈاکٹر کروک شینک نے مسلم باغ کے کرومائٹ سے لے کر چاغی کے سیندک والے تانبے اور لس بیلہ کے مینگنیز (Manganese) کے آثار پر خود کام کیا اور اپنے ماتحت جیولوجسٹوں سے بھی کروایا۔ مگر وہ اب بوڑھے ہوچکے تھے اور ۱۹۵۵ء میں واقعی ریٹائرمنٹ لے کر ڈبلن، آئر لینڈ واپس چلے گئے ۔ جہاں چند برسوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹر کروک شینک کی سربراہی میں جی ایس پی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکا تھا اور جب سے اب تک یہ بہت سے کام کرچکا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ملکی حالات دگرگوں ہوجانے کی وجہ سے اس ادارے کی کارکردگی پربھی منفی اثرات پڑے۔ اور بہت سے قومی اداروں کی طرح ، یعنی جب سارے دریا میں طغیانی آجائے تو کوئی کشتی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔
تو آئیے، ان ابتدائی کلمات کے بعد ہم بلوچستان کے معدنی وسائل کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کچھ مسائل اور ان کے حل کی بات بھی کریں گے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ جی ایس پی نے بلوچستان اور سارے پاکستان کے معدنی وسائل کی تلاش میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور بلوچستان کے تقریباً تمام دھاتی اور غیر دھاتی منرلز (Minerals) کی تلاش، نقشہ بندی اور تحقیقات کا کریڈٹ جی ایس پی کو جاتا ہے۔ کم سے کم ابتدائی طور پر ۔ صوبائی محکموں ، جیسے بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (بی ڈی اے) کا بھی کردار ہے مگر ثانوی طور پر ۔
بلوچستان کے منرلز (Minerals) اور سجاوٹی پتھر (Decorative Stones) : ان کی تعداد کہنے کو تو بہت ہے مگر مقدار اور تجارتی اہمیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف مندرجہ منرلز ہی قابل ذکر ہیں جو کان کنی کے لائق ہیں ۔
دھاتی منرلز :
ایلومینیم (Aluminum) : اس کے بڑے ذخائر ہیں زیارت اور قلات کے علاقوں میں۔ قسم کے لحاظ سے یہ باکسائٹ (Bauxite) اور لیٹرائٹ (Laterite) کہلاتے ہیں۔
کرومائٹ (Chromite) :مسلم باغ اور خضدار ، لس بیلہ کے علاقے میں ملتا ہے مگر ذخائر محدود ہیں ۔ مسلم باغ میں اس کی چھوٹے پیمانے پر کام کنی بھی ہوتی رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً۔
تانبا (Copper) : چاغی میں سیندک اور ریکوڈک جیسے مقامات پر اس کے بڑے ذخائر ہیں جن کے تخمینے پانچ بلین ٹن سے بڑھ کر یا کہیں بڑھ کر بتائے جاتے ہیں۔ یہ غیر ملکی کمپنیوں کے بڑے پراجیکٹ ہیں جن پر ہم آگے چل کر مزید باتیں کریں گے۔
سیسہ اور جست (Lead and Zinc) :خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں ان کے کم وبیش ۶۰ ملین ٹن سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی کیرتھر بیلٹ کے علاقے دودّر میں بھی کوئی دس ملین ٹن کا ذخیرہ ملا ہے ۔
لوہا (Iron) : چاغی میں آتش فشانی چٹانوں میں ملا جلا لوہا بھی کوئی ا یک سو ملین ٹن کے لگ بھگ ہے اور زیادہ بھی ہوسکتاہے۔
سونا : چاغی میں سیندک اور ریکوڈک کے مقام پر مناسب مقدار میں ہے۔ چاغی میں چاندی ، مولی بڈنم (Molybdenum) ، یورینیم اور ٹنگسٹن (Tungsten) بھی کچھ مقدار میں ہے۔
پلاٹینم (Platinum) : مسلم باغ ، ژوب ، خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں موجود ہے۔ تفصیل سے کام نہیں ہوا ہے اس پر ۔
ٹائی ٹینیم اور ذِرکن (Titanium & Zircon): یہ مکران کی ریت میں پائے گئے ہیں۔ مکران اور سیاہان کے علاقے میں اینٹی منی (Antimony) اور سونا چاندی بھی کچھ ملا تھا۔
غیر دھاتی منرلز :
ایلم (Alum) : یہ مغربی چاغی میں کو ہ سلطان آتشِ فشاں پہاڑ سے نکلتا ہے اور رنگسازی اور چمڑے کی صنعت میں کام آتا ہے۔
ایس بسٹاس (Asbistos): ژوب سے نکلتا ہے۔
بیرائٹ (Barite) : کو ہ سلطان ، چاغی ، لس بیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے میں کام آتا ہے۔
فلورائیٹ (Fluorite) : قلات میں دِلبند[دال بندین؟] اور آس پاس کے علاقوں میں اچھے ذخائر ہیں ۔ اس کی ابتدائی تحقیقات میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال محسن اور راقم الحروف کا بھی کام ہے جو ۱۹۷۴ء میں جی ایس پی نے ہی چھاپا تھا۔ ہم دونوں نے لس بیلہ کے بیرائٹ پر بھی ۸۰۔۱۹۷۹ء کے لگ بھگ کام کیا تھا۔ یہ بھی چھپ چکا ہے۔
جپسم (Gypsum) : یہ اسپن تنگی، ہرنائی اور چم لانگ کی طرف ملتا ہے۔
چونے کا پتھر (Limestone) : بلوچستان میں بھرا پڑا ہے۔ ذخائر پانچ بلین ٹن کے اندازوں سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ سیمنٹ بنانے میں کام آتا ہے۔ دکی ، بارکھان ،کوئٹہ ، ہرنائی ، شاہرگ ، خضدار ، قلات اور لس بیلہ کے علاقوں میں بھرپور ملتا ہے۔
ڈولومائٹ (Dolomite) : قلات اور خضدار میں لائم سٹون کے ساتھ ملتا ہے۔
سجاوٹی پتھر: جیسے ماربل (Marble) ،آنکس (Onyx) ، سرپینٹین (Serpentine) ، گرینائٹ (Granite) ، ڈائیورائٹ (Diorite) گیبرو (Gabbro) ، بسالٹ (Basalt), رائیو لائٹ (Rhyolite) اور کوارٹزائٹ (Quartzite) بلوچستان میں چاغی، خضدار ، لس بیلہ کی طرف بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لس بیلہ کے سجاوٹی پتھروں میں سربینٹین ، پکچر مارل سٹون، ریفل (Reefal) ، لائم اسٹون ، ماربل اور کئی قسموں کا فریکچرڈ لائم اسٹون مقبول ہیں اور کراچی کی کاٹج انڈسٹری کو سپلائی ہوتے ہیں جہاں ان سے فرش کے اور دیواروں کے لیے ٹائلز اور آرائشی برتن وغیرہ بنا کر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
ابریسوِز (Abrasives) :یہ وہ سخت قسم کے منرلز ہوتے ہیں جن کی مدد سے دوسرے منرلز کو، جو نسبتاً نرم ہوتے ہیں ، کاٹا جاتا ہے اور پالش کیا جاتا ہے۔ مثلا گارنٹ (Garnet) ، پامس (Pumice) ،پارلائٹ (Parlite) اور بسالٹ (Basalt) وغیرہ۔ یہ سب چاغی کے علاقے میں دستیاب ہیں اور کچھ ژوب کی طرف۔
نمکیات (Salts) : اس مد میں ہم بوریکس (Borax) ، بوریٹس (Borates) اور سلفائڈ اور کاربونیٹس (Carbonates) کا نام لے سکتے ہیں، جو چاغی، لس بیلہ ، پنجگور اور مکران کی طرف ملتے ہیں جہاں نمک بھی ہوتا ہے۔
گندھک : چاغی میں اور کچھی ڈسٹرکٹ میں ملتی ہے۔
فرٹیلائزر ( Fertilizers): پوٹا شیم چاغی اور کچھی ڈسٹرکٹ میں، نائٹریٹ چاغی میں اور فاسفیٹ بولان پاس کے علاقے میں ملتا ہے۔ میگنیشیم خضدار ، قلات ، مسلم باغ اور ژوب کے علاقوں میں ہوتا ہے۔
رنگ سازی کی مد میں -- ذرد آکر (Ochre) زیارت، ڈسٹرکٹ میں ملتا ہے اور ٹالک (Talc) زیارت مسلم باغ کی طرف ۔
میگنی سائٹ (Magnesite) :ژوب ، مسلم باغ اور لس بیلہ کے علاقوں کی آتشی چٹانوں کے ساتھ ملتا ہے ، جن کے لاولے کے ساتھ مینگنیز (Manganese) بھی ملتا ہے۔
سیلسٹایٹ (Celestite) : یہ کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، بارکھان اور لورالائی کی طرف پایا جاتا ہے۔
جم سٹونز (Gemstones) : بلوچستان میں اتنے اچھے جم اسٹونز نہیں جیسے شمالی پاکستان میں ہیں۔ قابل ذکر پتھر یہ ہیں : گارنٹ (Garnet) وغیرہ ، سفید اور ہراکوارٹز (Quartz) جسے بلّور یا سنگ مردار بھی کہا گیا ہے۔ اقسام کے عقیق (Agates) ، فیروزہ (Turquoise) ،کری سوکولا (Chrysocolla) ، مالاکائٹ (Malachite) ، ذِرکن (Zircon) ، جیڈ (Jade) ،جاسپر (Jasper) ، لاپس لزولی (Lapis Lazuli) یعنی لاجورد وغیرہ ۔سٹ رین (Citrine) ، آئیڈوکریز (Idocrase) ،کرسوپریز (Chrysoprase) اور ایمی تھسٹ (Amethyst) وغیرہ بھی ملتے ہیں مگر کوالٹی اور مقدار کا انداز کم ہے۔
بلوچستان میں سلی کا سینڈ (Silica Sand) بھی ملتی ہے اور سرمہ (Stibnite= Antimony Sulphide) بھی چمن فالٹ کے ساتھ کچھ ملا تھا۔ مندرجہ بالا تمام منرلز پر کم وبیش ابھی مزید کام کی ضرورت ہے اور تازہ ترین ذخائر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جی ایس پی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں ہم بلوچستان کے کوئلے ، تیل اور گیس کے ذخائر کا ذکر کرتے چلیں ،جن پر تفصیلی گفتگو کسی دوسرے مضمون میں ہوگی۔ بلوچستان میں تیل کم اور روایتی (Conventional) گیس کے ذخائر زیادہ ہیں مگر ایسے آثار ہیں کہ غیر روایتی گیس (Unconventional Gas) کے ذخائر بھی بڑی مقدار میں مل سکتے ہیں۔ جیسے غازج شیل (Ghazij Shale) قدرتی گیس سے بھرا ہوسکتا ہے اور بہت سی شیل فارمیشنز ہیں ، بلوچستان میں اور بقیہ پاکستان میں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان سے گیس نکال کر ملکی توانائی کا مسئلہ حل نہ کرسکیں۔ بشرطیکہ ہم پوری تندہی اور ایمانداری سے اپنا فرض ادا کریں۔ تیل اور گیس کے سلسلے میں اگر کسی کو دلچسپی ہو تو ان باتوں کو اور آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف بھی ایک کنسلٹنگ جیولوجسٹ ہے۔ توانائی کے سلسلے میں بلوچستان کے کوئلے کا ذکر بھی واجب ہے، جو بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جی ایس پی کے مطابق ، کوئٹہ ، مچھ ، شاہرگ اور اسپن کاریز کے اطراف میں کوئی ۲۱۷ ملین ٹن کوئلہ موجود ہے اور پاکستان کا ۶۰ فی صد کوئلہ بلوچستان پیدا کرتا ہے ۔یہ کوئلہ زیادہ تر صوبے سے باہر اینٹوں کے بھٹوں میں جلایا جاتا ہے۔
یہاں تک پڑھنے والوں کو یہ احساس ہوچلا ہوگا کہ بلوچستان میں طرح طرح کے منرلز پائے توجاتے ہیں مگر سوائے چند ایک کے جیسے تانبا اور لوہا، بڑی مقدار کے ذخائر کے ثبوت کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے بیرائٹ ، فلورائٹ ، سیسہ اور جست (Lead & Zinc) کے بڑے ممکنہ ذخائر موجود ہوسکتے ہیں مگر میری رائے میں ابھی اور تفصیلی نقشہ بندی اور تحقیقات کی ضرورت ہے۔ قلات سے لس بیلہ تک کی کیرتھر بلٹ میں جیوراسک (Jurassic) زمانے کی( کوئی ۲۰ کروڑ برس پرانی)کاربونیٹ چٹانوں میں جو فلورائٹ ، بیرائٹ ، لیڈ اور زنک کے ذخائر ملے ہیں وہ از قسم مسی سیپی وادی یعنی (Mississippi valley type) کہلاتے ہیں۔ ان کی جغرافیائی زوننگ (Zoning) کچھ یوں لگتی ہے کہ قلات کی طرف فلورائٹ ملتا ہے اور لس بیلہ کی طرف بیرائٹ ، لیڈ اور زنک۔ سوال یہ ہے کہ قلات سے شمال کی طرف کوئٹہ ، مسلم باغ اور ژوب کی اسی عمر اور قسم کی چٹانوں میں کیا ہے اور کتنی مقدار میں ہے اور اگر نہیں ہے تو کیا وجوہات ہیں۔ موجودہ ذخائر کے تازہ ترین نمبروں کے لیے GSP سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
کچھ مسائل کے بارے میں :
بلوچستان میں معدنی وسائل کی تحقیقات اور تلاش میں ہمیشہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایک تو علاقہ ہی بنجر ، بیابان ، پہاڑی ، صحرائی اور وسیع وعریض ہے جہاں سڑکوں کا کال تھا اور قبائلی سرداروں کی رضا مندی ودوستی کہیں حاصل تھی اور کہیں نہیں۔ پاکستان میں جی ایس پی کے قیام سے لے کر آج تک قبائلی مسائل اور سرکاری (فوجی) قبائلی جھگڑوں نے بہت نقصان کیا ہے، ملک وقوم کا ۔ معصوم جانوں کا زیاں ہوا ہے اور جیولوجسٹ بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔
راقم الحروف کی جیپ پر بھی لس بیلہ خضدار کے علاقے میں فائرنگ ہوئی تھی۔ یہ ۸۰۔ ۱۹۷۷ء کا زمانہ تھا جب اس علاقے میں فوجی کارروائی جاری تھی۔ سفلی سیاست اور فوجی مداخلتوں نے صوبائی اور ملکی حالات کو اس قابل نہ ہونے دیا کہ سکون سے کوئی تعمیری کام کیا جاسکتا۔ آج کے حالات گلوبل جیوپالی ٹکس کی وجہ سے بھی مزید ابتر ہیں۔ میرا اشارہ مغربی ممالک کی حالیہ افغانی مہم ، ایران کی حلقہ بندی اور پاکستان میں پرلے درجے کی ریشہ دوانیوں کی طرف ہے۔ یہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کو کاٹ کر ایک علیحدہ ریاست بنانے کی سازش ہے، جو کویت اور سعودی عرب کی طرح مغربی طاقتوں کی پٹھو ہوگی اور جہاں سے مزید وسائل مغرب کے ہاتھ آئیں۔ ایسے حالات میں بلوچستان میں فیلڈ میں کام کرنا اور زندہ رہنا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔ جب پولیس والے اور فرنٹےئر کور کے جوان دہشت گردی کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں تو بے چارہ غیر مسلح جیولوجسٹ کیسے بچ سکتا ہے اور ایسے حالات میں کیا کام ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر، امن وامان قائم کیے بغیر کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوسکتا۔
اس صدی میں ہم لوگ وسائل کی اس سردجنگ کا شکار بھی ہورہے ہیں جو آج کل دنیا بھر میں قدرتی وسائل کے حصول اور بھرپور کنٹرول کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس کے فریقین مشرق ومغرب کی بڑی طاقتیں ہیں۔ ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک کو تیل ، گیس اور کوئلے کے علاوہ صنعتی دھاتوں اور غیر دھاتوں کی ضرورت ہے۔ روس اور برازیل قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں مگر چین اور بھارت اپنی بڑی آبادیوں کی وجہ سے وسائل رکھنے کے باوجود ضرورت مند ہیں اور ایشیاء کے دوسرے ممالک میں ، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں وسائل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے اپنا اثرورسوخ اور سیاسی ومعاشی کنٹرول بڑھانے کی تگ ودو میں لگی رہتی ہیں۔ اس سرد جنگ میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک دونوں طرف کی کھینچا تانی کا شکار ہوتے ہیں۔ افریقہ ، افغانستان اور دنیائے عرب پر مغرب کی یلغار عرصے سے جاری ہے اور ہماری گوادر کی بندر گاہ کی تعمیر اور اندرون ایشیاء کو جاتی ، پھلتی پھولتی تجارتی سڑکوں کے خواب ، سبھی اس جیوپالی ٹکس کا شکار نظر آتے ہیں۔ اسی رنگ میں آپ ایران کے خلاف محاذ آرائی اور بلوچستان کو کاٹنے کی ڈھکی چھپی اور کھلی کوششوں کو بھی رنگ سکتے ہیں۔ بلوچستان کی علیحدہ ریاست پاکستان اور ایران کو موجودہ حالت میں ختم کر کے ہی قائم کی جاسکتی ہے اور اس طرح سے افغانی خزانوں اور بلوچستان کے وسائل کو سمندری راستے سے نکالا جاسکتا ہے۔ مرکزی ایشیاء اور اردگرد کے سارے ممالک کو ہر طرح سے حسب ضرورت الجھایا جاسکتاہے۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اہل مغرب نے عرب دنیا میں جو بندر بانٹ مچائی تھی اور نئی ریاستیں تشکیل دی تھیں، ان کا خمیازہ اس علاقے کے مسلمان پچھلے نوے برس سے بھگت رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان اور دوسری ایشیائی طاقتیں کیا بلوچستان میں ہونے والے کھیل کو روک سکتی ہیں، یا نہیں ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے اور صرف ہم ہی اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں ، کوئی دوسر ا نہیں۔ یہ مسئلہ سارے ایشیاء کا ہے مگر پہلے ہمارا ہے۔
تعلیم اور تکنیکی ٹریننگ :
اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں ارضیاتی اور ماحولیاتی تعلیم (Earth Sciences and Environmental Science) پرائمری درجہ سے شروع کی جائے اور مڈل سے ہائی اسکول پہنچتے ہوئے بچوں کو اپنے وسائل اور ماحولیات کا خوب اندازہ ہوجانا چاہیے۔آج کی دنیا میں، جب دنیا کی آبادی سات بلین سے آگے جا رہی ہے، یہ علم اور احساس پیدا ہونا بے حد ضروری ہے۔
اس کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ارضیاتی مائیننگ اور ماحولیاتی نصاب کا سٹینڈرڈ اور بلند کیا جائے۔ پاکستانی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں کے باہم روابط اور تبادلوں سے ہم اپنا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے دوران ہمیں اپنے طلبا کی ٹریننگ کا بندوبست متعلقہ انڈسٹری کے تعاون سے کروانا چاہیے۔ اپرنٹس شپ اور’کام پر ٹریننگ‘ کا کوئی بدل نہیں۔ امریکہ میں طلبا تعلیم کے دوران ٹریننگ کے لیے اپنی مرضی کی کمپنیوں میں (Internship)کے لیے جاتے ہیں اور چند ماہ زندگی کے حقیقی مسائل پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سی کمپنیاں بعد میں تعلیم پوری ہونے پر انھیں جاب آفر دے دیتی ہیں اور اس طرح روزگار کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
بلوچستان میں سیندک اور ریکوڈک جیسے پراجیکٹس سے قطع نظر پاکستانی مائننگ انڈسٹری چھوٹے پیمانے پر گڑھے ، سرنگیں، نالیاں اور کواریاں کھودنے پر مشتمل ہے (یہاں کوئلے کی کانوں کی بات ہم نہیں کر رہے ہیں) ۔ایسے کاموں میں ماہر فن افراد کا کال ہے اور مالی فنڈنگ اور ٹیکنالوجی کمیاب یا نایاب ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سیندک اور ریکوڈک جیسے پراجیکٹس کے ذریعے ہم لوگوں کو روزگار اور سرکار کو آمدنی فراہم کریں اور ساتھ ساتھ تکنیکی مہارت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی کروائیں، تاکہ آگے چل کر خود کفیل ہواجاسکے۔
فنونِ لطیفہ کے خلاف منفی تعصبات کا خاتمہ :
اس مد میں وہ تمام باتیں آتی ہیں جن کی وجہ سے رقص وموسیقی ، گائیکی ، ڈرامہ، آرٹ،پینٹنگ ، تھیٹر، فلم اور بت تراشی میں مسلمانوں نے عموماً اور جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے خصوصاً اپنے آپ کو بالکل مفلوج کر رکھا ہے۔ میں یہاں کسی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا کہوں گا کہ انہی چیزوں سے انسان کی زندگی میں رنگ ہے اور خوبصورتی اور خوشگواری آتی ہے۔ روایتی تنگ نظری اور مذہبی تعصبات کی وجہ سے ہم نے سنگتراشی کو گل کاری اورجالی کے کام تک ہی محدود رکھا جیسا کہ مغلیہ دور کی عظیم الشان عمارتوں کے کام سے ظاہر ہے۔ اس کے برعکس ہند، چین ، روس اور مغربی دنیا میں آرٹ اور سنگتراشی کے فنون کو عروج پر پہنچایا گیا ۔ اٹلی میں مائیکل انجیلو جیسے اساتذہ نے سنگتراشی میں انسانی جسم کو سنگ مر مر میں ڈھالنے میں حرف آخر کہا ۔ کہتے ہیں کہ جب اس نے حضرت داؤد ؑ کا سنگ مر مر کا مجسمہ مکمل کیا تھا تو وہ اپنے فن پر اس قدر نازاں تھا کہ اپنے تخلیق شدہ مجسمے کے گھٹنے پر ہولے سے ہتھوڑا رکھ کر اس نے کہا تھا کہ ’’ اب بول ‘‘ ۔یہ شاہکار اٹلی میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس کا حسن لازوال معلوم ہوتا ہے۔
بلوچستان کے خوبصورت پتھر جیسے چاغی کا آنکس (Onyx) ماربل اور لس بیلہ کی سبز اور لال سرپنٹین (Serpentine) جیسے شاندار پتھروں کو تراشنا پاکستان میں کسی کو نہیں آتا۔ کراچی میں جولوگ اس سے برتن ، ظروف اور اینڈے بینڈے جانور تراشتے ہیں وہ فن کاری نہیں جانتے ۔ یہی پتھر جب چین اور اٹلی جا کر تراشے جاتے ہیں تو انسان سبحان اللہ کہہ اٹھتا ہے۔ کاش اگر ہم خام پتھر باہر بھیجنے کے بجائے اسے دیدہ زیب برتنوں، مجسموں او رسجاوٹی اشیا میں تراش کر باہر کے ملکوں کو بھیجنے کے قابل ہوجائیں تو کس قدر منافع ہو۔ حال ہی میں کوئٹہ میں ایک پتھر تراشی سکھانے کا ادارہ قائم تو ہوا ہے مگر ہنوز دلی دور است، اور سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تو شکار پور بھی نہیں آیا ہے۔
اسی طرح اگر ہم اپنے جم اسٹونز (Gemstones) کو بھی تراش کر باہر بھیجیں تو خوب زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ یہ صنعت بھی پاکستان میں ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں کچھ ٹریننگ کے ادارے پیدا تو ہوئے ہیں مگر ایک عمر چاہیے اس دشت کی سیاحی کے لیے۔ پتھر کاٹنے ، تراشنے اور پالش کرنے کا فن سکھانے کے لیے ابھی تو ڈھنگ کے اساتذہ بھی ایک اچھی تعداد میں پیدا کرنے کا کام وقت طلب ہے۔ GSP اس ٹریننگ میں بھی کچھ کردار ادا کر رہا ہے۔ کوئٹہ میں اس صنعت کو ترقی دے کر ہم اپنے جم اسٹونز سے جیولری، مینوفیکچرنگ سنٹر اور ڈیزائنگ سنٹر بنا کر تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان کاموں سے پہلے تو ہمیں امن وامان کا مسئلہ حل کر کے مائننگ کو بھی جدید طرز پر لانا ہوگا۔ ایسے ضوابط کو لاگو کروانا چاہیے جن کی روسے کسی غیر کوالیفائڈ فرد کو ایکسپلوریشن اور مائننگ کی ٹریننگ لیے بغیر لائسنس نہ دئیے جائیں کیونکہ ایسے لوگ صحیح کام نہیں کرپائیں گے اور وسائل کا نقصان ہوگا۔ یہ سیفٹی (Safety) کے لیے بھی اچھی بات نہیں۔ ایسے لوگ ہی مزدوروں سے کچے گڑھے کھدواتے ہیں جن کی دیواریں گر جاتی ہیں اور ایسی سرنگیں لگواتے ہیں جو بیٹھ جاتی ہیں اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ ایکسپلوریشن اور مائننگ کے لائسنس اور پرمٹ کے حصول میں کرپشن اور رشوت بھی ایک لعنت ہے جو غلط کام کرواتی ہے۔
قصہ مختصر، ہمیں ہر شعبے کو اوپر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ارضیاتی اور مائننگ انجینئرنگ کی تعلیم کو سنوارنا ہوگا ۔ارضیاتی سروے ، تفصیلی نقشہ بندی (Detailed Mapping) ،جیوفزیکل اور جیو کیمیکل سروے (Geophysical & Geochemical Survey) جہاں جہاں بھی ضروری ہوں، کرنے ہوں گے اور اس قسم کا سارا مواد (Data) خواہشمند اور کوالیفائیڈ لوگوں کو فراہم کروانا ہوگا۔ اسی طرح بہتر مالی فنڈنگ اور بینکنگ کی سہولیات بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ ان کاموں کے لیے سالہا سال تک سنجیدہ کوششوں اور بے لوث محنت کی ضرورت ہے، جو ہم کو ہی کرنی ہوں گی۔ کوئی اور نہیں کرے گا ہمارے لیے ۔ کیا ہم تیار ہیں اس کے لیے۔
کہانی ریکوڈک کی اور اس سے سبق سیکھنے کی :
ریکوڈک کی کہانی کچھ اس طرح شر وع ہوتی ہے کہ جولائی ۱۹۹۳ء میں بلوچستان سرکار کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایک دیوزاد آسٹریلوی ایکسپلوریشن اور مائننگ کمپنی بی ایچ پی (BHP) نے چاغی کے علاقے میں کام شروع کیا تھا۔ ۲۰۰۰ء کے لگ بھگ دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک جائنٹ وینچر (Joint Venture) کے معاہدے کے تحتBHP کا حصہ۷۵ فیصد اور بلوچستان سرکار کا حصہ ۲۵ فی صد تھا۔ بعدازاں ، بوجوہ BHP اپنا حصہ ٹیتھین کاپر کمپنی (Tethyan Copper Company) کو دے کرنکل گئی، جو ایک کینیڈین دیوزاد کمپنی (Barrick Gold) اور ایک چلی کی کمپنی انٹافگاسٹا (Antafagasta) کا جائنٹ وینچر ہے۔ جس کو ہم TCC کہیں گے۔ TCC نے اپنی جیب سے ۴۰۶ ملین ڈالر لگا کر پندرہ بیس سال کی محنت کے بعد اپنی فیزیبلٹی رپورٹ بنائی جس کے مطابق ریکوڈک کے مقام پر ،جو مغربی چاغی میں واقع ہے، تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں جن کا تخمینہ یوں ہے کہ تانبا ۳ء۱۲ ملین ٹن اور سونا ۲۱ ملین اونس ہے۔ یہ بھی سنا گیا کہ ریکوڈک کے ایک دوسرے مقام پرH14-15 نام کے ڈیپازٹ میں ۱۸ ملین ٹن تانبا اور ۳۲ ملین اونس سونا اس کے علاوہ ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ TCC نے خیانت کی ہے اور اصل ذخائر اس مقدار سے بدر جہا بہتر ہیں، جو سرکار کو بتائے گئے ہیں جو عین ممکن ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ذخائر بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں اور ’مقصد ‘کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی ایک تخمینہ نہیں ہوتا ۔یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، اوردکھانے کے اور ہوتے ہیں، ویسے ہی مقدار کے اندازے (Reserves Calculation) بھی ہوتے ہیں۔ ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جس کے تحت کمپنی اپنی امیدیں لے کے ایک علاقے میں بغرض تلاش جاتی ہے ، ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو Investers کو دکھایا جاتا ہے، یا کسی اور کمپنی کے ساتھ ساجھے داری (Joint Venture) بنانے کے لیے ہوتا ہے ، ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو سرکار کو دکھایا جاتا ہے۔اور’’ اگر کچھ مل جائے‘‘ تو ایک تخمینہ وہ بھی ہوتا ہے جو اسٹاک مارکیٹ کو بتایا جاتا ہے ۔ ان تمام مقاصد میں’ کاروباری مصلحت‘ ہوتی ہے، خیانت کا ہونا ضروری نہیں ہے اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کمپنی نے غلط اندازے لگائے اور چھوڑ کر بھاگ گئی کہ یہاں کچھ نہیں ہے اور بعدازاں کسی اور کمپنی نے اسی جگہ سے قارُون کا خزانہ ڈھونڈ نکالا۔
یہاں یہ بات یادر کھنی چاہیے کہ آج بھی انسان اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود زمین کی تہوں میں پوشیدہ وسائل کے اندازے لگا تو سکتا ہے مگر ان کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔ کچھ اندازے بہتر ہوتے ہیں اور کچھ بدتر۔ راقم الحروف امریکہ میں دیوزاد تیل کمپنیوں کے ساتھ اپنے تیس سالہ تجربات کی بنا پر یہ باتیں لکھ سکتا ہے۔
؂ہوتا ہے شب روز تماشہ مِرے آگے
اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک کمپنی اپنے اندازوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کرتی ہے۔ اس لیے کہ اسے مزید معلومات ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے جیسے کام آگے بڑھتا ہے۔ TCC کی ویب سائٹ پر آپ دیکھیں تو ریکوڈک کے ذخائر یہ ہیں :۹ء۵ بلین ٹن اور (Ore) میں تانبا۴ء۰ فیصد اور سونا۲۲ء۰گرام فی ٹن ہے۔ جس سے سالانہ دو لاکھ ٹن تانبا اور ڈھائی لاکھ اونس سونا نکلے گا۔ یہ پراجیکٹ۵۶ سال چلے گا اور ۳ء۳ بلین ڈالروں کا خرچہ ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ تو اندازے اتنے منجمد بھی نہیں ہوتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ بہتری کی طرف یا بدتری کی طرف۔ ہاں، ایک بات یہ ہے کہ سرکار کو رائلٹی دینے کی بات جب آتی ہے تو اندازے بہت مختلف ہوسکتے ہیں، اصل سے۔ امریکہ میں بھی سرکار کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور قریباً دنیا کے ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو آئیے پھر ریکوڈک کی طرف ۔
TCC
سے ذخائر کے نمبر ملنے کے بعد بلوچستان سرکار کو یہ احساس ہوچلا کہ انھوں نے گھاٹے کا سودا کرلیا تھا اور ان کو ۲۵ فی صد سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھے۔نیز یہ کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔لہٰذا بھروسہ نہیں رہا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم میں بذاتِ خود اتنی علمی اور تکنیکی اہلیت ہو کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کی نقشہ بندی اور سمجھ کے بعد اس قابل ہوں کہ ذخائر کا خود اندازہ لگا سکیں اور جب بیرونی سرمایہ کاروں اور بڑی مائننگ کمپنیوں سے جائنٹ وینچر کی بات کریں تو اپنی زمین کی دولت کے اچھے اندازے کے ساتھ ۔علم سے جب اعتماد حاصل ہو تو دھوکہ کھانے کا امکان گھٹ جاتاہے۔د وسری بات یہ ہے کہ اگر ہم خود اتنے اہل نہ بھی ہوں تو آج کی دنیا میں ہر قسم کا مشیر اور ماہر (Consultant) دستیاب ہے جو کرائے پر کام کرتا ہے اور آپ کی پوری مدد کرسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے بھی کچھ جانکاری ضروری ہے۔ ہم جیسے جلا وطن بھی مٹی کی محبت میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر ہمیں وہی بلائے جو صحیح کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
بلوچستان سرکار کی بڑبراہٹ سن کر سیندک پر کام کرنے والی چینی کمپنیMCC نے ۲۰۱۰ء میں بلوچستان سرکار کو ایک آفر بھی دے دی ، جو ایک اخباری اطلاع کے مطابق یہ تھی کہ اگرMCC کوریکوڈک کا پراجیکٹ دے دیا جائے تو وہ سرکار کو نہ صرف ۲۵ فی صد آمدنی میں حصہ دے گی بلکہ ۵ فی صد رائلٹی بھی اداکرے گی۔ بلوچستان سرکارنے اسی دوران TCC کی مائننگ لیز نومبر ۲۰۱۱ء میں معطل کردی۔ اس حرکت پر TCC نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے انٹرنیشنل آربی ٹریشن (International Arbitration) کادروازہ کھٹکھٹایا اور درخواست دائر کردی ہے۔ اب یہ کھچڑی وہاں پک رہی ہے اور کوئی فیصلہ ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ادھر معاملہ یاروں نے پاکستان سپریم کورٹ تک بھی پہنچادیا اور کورٹ نے سرکار کی حمایت دکھائی۔ بلوچستان سرکار اور TCCکو یہ معاملہ آپس میں خود ہی طے کرلینا چاہیے ،TCCاپنے معاہدوں کی پابندی کر کے ریکوڈک کے پراجیکٹ کو آگے لے جانا چاہتی ہے اور مائننگ شروع کر کے بلوچستان اور پاکستان کو اکیسویں صدی کے جدید دور میں لانا چاہتی ہے،جو یقیناًہمارے لیے ایک انقلابی قدم ہوگا۔
دوسری طرف بلوچستان سرکار بزعمِ خود یہ کام شروع کر کے ایک ریفائنری بھی بنانے کا قصد کرتی نظر آتی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق سرکار نے ۱۲۰ بلین روپوں کی رقم بھی رکھی ہے اس کارخیر کے واسطے۔ رہی بات علمی اور تکنیکی مہارت اورمشینوں اور ٹیکنالوجی ،کی جو اتنے بڑے کاموں کے لیے چاہئیں۔ تو وہ کہاں۔۔۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔۔۔، مگر کچھ لوگ مطمئن نظر آتے ہیں جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مثلاً پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ۲۰۱۰ء میں پاکستان سپریم کورٹ میں کچھ ایسی بات کی کہ اگر پاکستان ریکوڈک کو خود مائن کرے اور تانبے اور سونے کو رفائن کرے تو وہ دوبلین ڈالر سالانہ کماسکتا ہے، اور اگر خود نہ کرے تو فقط۱۶۰ ملین ڈالر کی رائیلٹی ہی ملے گی۔ شاید وہ جانتے ہوں کہ پاکستان اتنا بڑا اور دقیق پراجیکٹ خود کرنے کا اہل ہے(اگر ایسا ہے تو ان کے منہ میں گھی شکر ) ۔
یہاں میرے لیے اپنے بزرگ اور محترم ماہر ارضیات ڈاکٹر صبیح الدین بلگرامی کا ذکر بھی لازم ہے، جو ایک کمپنی (Resources Development Corp.) کے ریٹائرڈ چےئرمین ہیں۔ انھوں نے بلوچستان میں مسلم باغ کے کرومائیٹ کی تحقیقات ، ریسرچ اور مائننگ میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ بلگرامی صاحب اپنے تجربات کی بناء پر یہ نصیحت دے چکے ہیں کہ ریکوڈک کے حوالے سے TCC کی رپورٹس کو چیک کرنے کے لیے انٹرنیشنل ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ ایسی مہارت پاکستان میں حاصل نہیں۔ اس کے بعد TCC سے ہی یا کسی اور سے یہ کام کروایا جائے اور قومی حقوق کی حفاظت کی ضمانت کے ساتھ۔ بیچ اس مسئلے کے ’ راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ سرکار کو اپنے معاہدوں کا پابند ہونا چاہیے ، ورنہ، ملک وقوم کی بدنامی ہوتی ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور چھوٹی بڑی ایکسپلوریشن اور مائننگ کمپنیوں کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ آپ سے کیے ہوئے معاہدوں کی کوئی وقعت نہیں اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجتاً دنیا کا سرمایہ کہیں اور چلا جائے گا ، پاکستان نہیں آئے گا۔ تو اے میری پیاری بلوچستان کی سرکار، TCC سے مذاکرات کر کے ہی کوئی حل ڈھونڈلے ۔ اس کمپنی نے اپنے ۲۰ برس اور۴۰۶ ملین ڈالر اِنوسٹ کیے ہیں۔ ریکوڈک اکیلا نہیں ہوگا۔۔۔ اور بھی ایسے بڑے ذخائر ہوں گے جن پر اپنے لیے بہتر شرائط منوانا اور لکھوانا ۔ ریکوڈک کو آگے جانے دو ، مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھول دو اور یہ سارا علم اور تکنیک سیکھو۔ ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کرو۔ ریکوڈک سے یہ سارے سبق سیکھو۔
ماضی میں ہمیں پاکستان سے بڑی تیل کمپنیوں کی رخصتی کی وجوہات کا سبق بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اگر وہ رہ جاتیں توآج ہمارے ہاں سے بھی اتنا تیل اور گیس نکل رہا ہوتا کہ ضرورت کو کافی ہوتا ۔یا ددہانی کے لیے یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ شیل (Shell) ، آکسی (Oxy) اور اموکو (Amoco) جیسی بڑی آئل کمپنیاں پاکستان سے انیس سو اسی اورنوے کی دہائی میں رخصت ہوگئی تھیں۔ وجوہات میں آپریٹنگ کنٹریکس کی شرائط ، سرکاری وسیاسی جوار بھاٹا ، غیر مستقل حالات اور قبائلی مشکلات وغیرہ شامل تھیں۔ حالات کی وجہ سے ہی میں خود ۲۰۰۹ء میں Conoco Phillips کو آمادہ نہ کرسکا کہ وہ پاکستان جائے۔ وہ دہشت گردی سے ڈر کے بنگلہ دیش چلے گئے ۔
پاکستان میں آج بھی کوئی ساٹھ ہزار بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے جبکہ ضرورت اس سے پندرہ بیس گنا زیادہ کی ہے۔ اسی طرح گیس بھی ضرورت سے بہت کم نکلتی ہے جبکہ مزید نکالی جاسکتی ہے۔ مگر بوجوہ ایسانہیں ہورہا۔ اپنے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ہم ایران اور ترکمانستان کی گیس پائپ لائن بچھا کر لانے کے چکروں اور جیوپالی ٹکس کا شکار ہورہے ہیں۔ اس اثناء میں ہماری صنعتوں کا دیوالیہ نکل رہا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہماری مائیں ،بہنیں اور بچے کھانا پکانے کے لیے گیس کو ترس رہے ہیں ۔ لوگ سردی سے مر رہے ہیں اور گیس غائب ہے اوربجلی بھی ۔ دل روتا ہے یہ سب دیکھ کر ، خدا کی پناہ !
ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بڑی انٹرنیشنل کمپنیوں کو پاکستان کے علاوہ اور بہت سے آپشنز ہیں جو انھیں بہتر نظر آتے ہیں۔ سیندک کے پراجیکٹ کو کئی کمپنیوں نے دیکھا ، جانچا اور بات نہیں بنی۔ کبھی یہ سنا کہ پانی نہیں ہے وہاں اور ذخائر بھی اتنے بڑے نہیں، وغیرہ۔ پھر ایک چینی کمپنی نے آخرکار ۲۰۰۳ء میں اس پر کام شروع کیا اور کر رہی ہے۔ ان کی اکنامک انا لسز مغربی کمپنیوں کی جیسی نہیں ہوتی جو سرمائے پر ایک خاص ’’ ریٹ آف رٹرن ‘‘ (Rate of Return) مانگتی ہیں اور زیادہ رسک اورس (Risk-averse) ہوتی ہیں ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ رسک نہیں لینا چاہتی تھیں۔
مگر افغانستان میں مغربی یلغار نے حالات کو بدل دیا آج کے دور میں سیٹیلائٹس کی مدد سے ریموٹ سنسنگ (Remote Sensing) کے آلات اور تکنیک استعمال کر کے انسان زمین پر فیلڈ ورک کیے بغیر قدرتی وسائل کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکن ارضیاتی ماہرین (جن کا تعلق USGS یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس جیولوجیکل سروے سے تھا) نے افغانستان سمیت بہت سے ممالک کا معدنی سروے ریموٹ سنسنگ سے ہی کر رکھا ہے اور افغانستان میں فوج کے ساتھ ساتھ جیولوجسٹ بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے جانا ہے کہ یہ سرزمین بہت سی دھاتوں، غیر دھاتوں اور نایاب منرلز جیسے لیتھیم (Lithium) کے بہت بڑے ذخائر رکھتی ہے۔ افغانستان کا قبائلی کلچر ایسے وسائل کو اپنے طور پر آج تک استعمال میں نہ لاسکا اور نہ بڑی دیر تک اس قابل ہوگا۔ اس کے علاوہ وہاں جم سٹونز (Gemstones) جیسے، روبی ، لاپس ، نورملین اور بہت کچھ ہے۔ اب مغربی کمپنیاں ان کا حصول چاہتی ہیں اور یہ کہانی بارڈر پار کرکے شمالی پاکستان ، پختون خواہ علاقوں اور چاغی میں آتی ہے۔ جہاں کہانی ابھی دل چسپ ہے اور بہت کچھ ملنے کے آثار ہیں۔ ریکوڈک لہٰذا اکیلی کہانی نہیں لگتی۔ ہمیں بھی ریموٹ سنسنگ پر بہت زور دینا چاہیے۔ جس سے نہ صرف منرلز بلکہ پانی ،جنگلات، آبادی، برفباری ، آب وہوا ، تیل ، گیس غرض کہ سارے مسائل اور وسائل پر بہتر گرفت حاصل ہوسکتی ہے ۔ تو میں تو یہ کہتا ہوں کہ نمی کو چھوڑ ، یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ، بس ذرا قلقل کو چھوڑ اور اٹھا پھاوڑا۔
آخر میں جو بات میں انتہائی زور دے کر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی صلاحیتوں کو ہی اجاگر کرنا ہوگا تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ آخر کو ہم نے ایٹمی ٹکنالوجی کو بہت حد تک خود ہی قابو کیا اور ایٹمی طاقت بن گئے ۔ جرمنی اور جاپان دوسری جنگ عظیم کی راکھ سے اٹھ کر کہاں سے کہاں پہنچے۔ چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی جذبے سے ہم کو بھی کام کرنا ہوگا ورنہ سامراجی طاقتیں اپنا ایجنڈاہم پر مسلط کرتی رہیں گی۔ ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے بزرگوں کی لیڈر شپ اور جذبہ ہم کو قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے بھی چاہیے۔ ہمیں ان کی تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی کوشش میں پوری مدد کرنی چاہیے۔ کاش ہم اپنا محاسبہ کر کے خود اپنی اصلاح کرلیں اور بے لوث کام کر کے ایک زندہ قوم بن جائیں۔ آج اگرہم نے یہ نہیں کیا تو کل بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تو آؤ اے میرے جوانو، دوستو اور بزرگو، اپنے کام میں لگ جائیں اور جو بھی ہمارا رول ہے اسے پوری تندہی سے ادا کریں۔ اگر ہر ایک اپنا فرض ادا کرے تو کیا بات ہے۔
؂ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
***