کتاب میلہ
سفر نامہء حج قدم قدم سوئے حرم


شاہد راحیل خان
بیکن بکس، ملتان ۔ ۲۰۱۰ء
شاہد راحیل خان،اپنے پیشہ ورانہ منصب سے ہٹ کر تخلیقی مصنف کے طور پر اپنا ایک مقام بنا رہے ہیں،ان کا یہ سفر نامہ روز نامہ ’نوائے وقت‘ میں قسط وار شائع ہو چکا ہے۔ان کے اسلوب کی خاص بات وہ مٹھاس اور انکسار ہے،جو ملتانیوں سے مخصوص ہے،جس سے اجنبی کو حیرت ہوتی ہے ،جب وہ اپنے تنقیدی اظہار کو بلند آہنگ نہیں ہونے دیتے،ان کے اس سفر نامہ کے بعض حصے دیکھئے :
یہ تمام ہدایات گڈمڈ ہورہی تھی ۔ ہمارے گروپ کے دیگر ساتھی تو ’’ مطاف ‘‘ میں اترتے ہی ایک دوسرے سے جدا ہوچکے تھے۔ میں اور میری اہلیہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر سرشاری کی کیفیت میں حمد وثناء پڑھتے ہوئے انتہائی بھیڑ اور رش کے باوجود ’’ مقام ابراہیم ‘‘ کی طرف بڑھنے لگے۔ ۔۔۔۔۔۔بھیگی پلکیں ذرا سی اوپر ہوئیں تو نظر سیدھی خانہ کعبہ کے دروازے اور ’’ ملتزم ‘‘ پر پڑی اور کیفیت حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے اس شعر جیسی ہوگئی :
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
برقی کولر کے اردگرد لوگوں کا ہجوم بڑھتا چلا جارہا تھا ۔ فرش پر پانی گرنے کی وجہ سے خاصی پھسلن ہورہی تھی۔ ہم احتیاط سے چلتے ہوئے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے ۔ ۔۔۔یہاں قطار اندر قطار ہر طرف حجاموں کی دکانیں ہی دکانیں تھیں۔ ہر دکان کے باہر دوچار کارندے آوازیں لگانے اور حاجیوں کو گھیرنے کی ڈیوٹی پر مامور تھے اور خوب مقابلے کی فضا تھی ۔ ان دکانوں پر کام کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت سے تھا جو ان تینوں ممالک میں بولی جانی والی زبانوں میں بات کرتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر رہے تھے۔ اسے ان کارندوں کا تجربہ کہہ لیجیے کہ یہ بندے کی شکل وصورت دیکھ کر اس کے ملک اور زبان کا اندازہ لگا لیتے تھے اور اسی انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ ابھی میں ان مناظر کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے خالصتاً پاکستانی بلکہ ملتانی لہجے میں مجھے ایک دکان کی طرف چلنے کی آفر کی ۔ میں نے پیسے پوچھے تو اس نے مزید بے تکلف ہونے کے انداز میں جو اب دیا ۔۔۔’’ جو مرضی دے دینا۔‘‘ میں نے پھر اصرار کیا تو پانچ ریال (236/۱۱۰ روپے پاکستانی) کا جواب ملا اور میرے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی میرا ہاتھ پکڑ کر دکان کے اندر لے گیا۔ اندر ایک وقت میں کم از کم پندرہ سولہ افراد کرسیوں پر بیٹھے ’’ حلق‘‘ کروا رہے تھے ۔ یہاں پر بیٹھنا کیا بس لوگ بیٹھنے کا تکلف ہی کر رہے تھے کیونکہ حجام اس تیزی سے کام کر رہے تھے ۔۔۔ سر پر ہاتھ پھیرا تو یوں لگا کہ جیسے گناہوں کا بوجھ اتر گیا ہو‘۔
میدان عرفات کے ایک طرف ’’ جبلِ رحمت ‘‘ ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس کے اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ پہاڑی کے اوپر سفید رنگ کا ایک مینار بنا ہوا ہے جس کا رنگ سیاہ مارکر سے لکھے ہوئے ناموں اور مختلف قسم کے نشانات جو یہاں آنے والے حضرات لکھتے اور بناتے ہیں کی وجہ سے تقریباً سیاہ ہوچکا ہے۔ ۔۔۔ ہم نے یہاں دو رکعت نماز نفل ادا کر کے جوں ہی سلام پھیرا تو عربی لباس پہنے ہاتھ میں فوری تصویر بنانے والا کیمرہ لیے ہوئے ایک شخص نے ہمیں بازو سے پکڑ کر زبردستی ایک پتھر پر بٹھا دیا اور ہمارے سنبھلنے سے پہلے ہی مختلف پوز بنا کر کھٹا کھٹ ہماری تین عدد تصاویر اتار کر ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیں اور معاوضہ طلب کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ معاوضہ کتنا تھا ؟ ۔۔۔۔۔۔ ۳۰ ریال یعنی236/۶۶۰ روپے پاکستانی جو ہمیں ادا کرنا پڑا‘۔
۔۔۔ حرم پاک میں جمعہ نماز سے پہلے امام کعبہ کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کرتے۔ ہاں خطبے سے قبل عربی زبان میں مختصر سی گفتگو یا وعظ کرتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں جو عربی زبان سے عدم واقفیت کی بناء پر اکثریت کے سروں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔‘ ۔۔۔’ دراصل سعودی علماء کے نزدیک ان مقامات یعنی ’’ غار حرا ‘‘ اور ’’ غار ثور‘‘ پر جا کر دعا مانگنا درست نہیں ہے۔ مگر عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی عقیدت ومحبت کے اظہار کے لیے ان مقامات کی زیارت کی سعادت ضرور حاصل کرنا چاہتے ہیں‘۔ ۔۔۔۔۔۔’ اس واضح ہدایت کے باوجود کہ اپنے ساتھ زیادہ سامان نہ لے جایا جائے۔ لوگ بیگ تیار کرنے لگے۔ خواتین نے تو اس ہدایت پر بالکل توجہ نہ دی‘۔ ۔۔۔’ نماز فجر کے فوراً بعد آنے والی بسیں اللہ اللہ کر کے تقریباً ساڑھے دس بجے دن تک آئیں‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’دھکم پیل اس قدر کہ زن ومرد کی کوئی تفریق نہیں تھی اور اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ عازمین کی تعداد کے مطابق بسوں کا انتظام نہیں کیا جاتا‘۔ ۔۔۔۔۔۔’ایک صحابیؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا۔ ’’ یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کردی ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ کوئی حرج نہیں ۔۔۔ اب کنکریاں مار لو ۔ ‘‘میں نے محسوس کیا کہ دین کے معاملات میں کم علمی کی وجہ سے پیدا ہونے والا غیر لچکدار رویہ بہت سے مسائل اور کنفیوژن کا سبب بنتا ہے‘۔ ’بدن تھکاوٹ اور سرنیند کی وجہ سے بوجھل ہورہا تھا مگر خیمے میں میری جگہ پر کوئی اور صاحب ٹانگیں پسارے نیند میں گم خراٹے لے رہے تھے ‘۔ ۔۔۔’جن میاں بیوی کا سامان گرا ،وہ خانیوال کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے بہت ہی سادہ لوح انسان تھے اور ان کی سفری دستاویز (پاسپورٹ ، ٹکٹ) وغیرہ بھی انہی بیگوں میں تھیں۔ کپڑے بھی بس وہی تھے جو انھوں نے پہن رکھے تھے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر تمام لوگوں نے نہ صرف اس نقصان پر اظہار ہمدردی کیا بلکہ ان کی بھرپور مدد کی آفر بھی کی مگر وہ دونوں اللہ کے نیک بندے اپنے نقصان پر ہاتھ ملنے کی بجائے اس بات پر شاکر اور شاداں تھے کہ وہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے در پر پہنچ گئے ہیں‘۔ ۔۔۔ ’تمام بیرے ایک دوسرے کو ایک ہی نام ’’ محمد ‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ استفسار پر جواب ملا کہ ان سب کے نام تو مختلف ہیں مگر وہ محبت ویگانگت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کو ’’ محمد ‘‘ پکارتے ہیں‘۔
چالیس سالہ عمر کے باریش شخص کے ہاتھ میں پکڑا موبائل فون آن تھا اور وہ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بات کرتے ہوئے باآوازِ بلند ہدایات دے رہا تھا کہ : ’ فلاں فلاں کو بتا دیں (چند اہل خانہ کے نام لے کر ) کہ میں روضہ رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بالکل سامنے بیٹھا ہوا ہوں جس جس نے سلام بھیجنا ہو وہ کمرے میں آجائے۔ میرا موبائل آن ہے اور میں سپیکر بھی (موبائل کا سپیکر) آن کر رہا ہوں۔ آپ سب لوگ سلام بھیج دیں۔‘‘۔۔۔مجھے ’’ سلام ‘‘ بھیجنے کا یہ طریقہ اور انداز عجیب لگا کیونکہ ہمارا تو ایمان ہے کہ کائنات کے کسی بھی گوشے سے ، دنیا کے کسی بھی کونے سے آقائے دو جہاں ؐ، سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بھیجا جانے والا درود وسلام تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچاتے ہیں‘۔ ۔۔۔’جناب ابھی تو ہم نے حجازِ مقدس کی زمین کو الوداع نہیں کہا ، ابھی تو مکہ ومدینہ سے آنے والی ہواؤں کی خوشبویہاں محسوس ہورہی ہے۔
مبصر: انوار احمد

جگرِ لخت لخت از حمید علوی
سجاد کمپوزنگ سینٹر ، گوجرانوالہ ۔ ۲۰۱۱ء
حمید علوی اور قیصر علوی دو نفیس ،معصوم اور محبت کرنے والے لوگ ہیں،اس لئے جب وہ اپنی سوانحِ حیات "Putting pieces together" میں مشرقی پنجاب کی نقش کاری کے ساتھ اپنے بزرگوں کے ساتھ بچوں اور پھر ان کے بچوں کا ذکر کرتے ہیں اور کتاب کی مرکزی کردار قیصرہ کی دیگر تصویروں کے ساتھ اپنی اس محبوب رفیقِ حیات کے ساتھ کئی والہانہ تصویریں بھی شامل کرتے ہیں تو اس قوت کی جانب اشارہ کرتے ہیں،جس کی بدولت تموجات بھی ان سے کچھ نہ چھین سکے،ان کی دل فریب مسکراہٹ،اور بے حد وسیع ان کا دل اور دستر خوان انہیں اسلام آباد کی مصنوعی اشرافیہ میں انہیں منفرد بنا دیتا ہے،وہ یو،ایس،آئی،ایس میں رہے،امریکنوں کے التفات کو ترستے پاکستانی حکمرانوں کے کمزور لمحوں کو وہ اس فیملی ساگا میں جگہ نہیں دیتے،ان کے اسلوب میں عالمانہ سادگی ہے اوراختصار میں بہت کچھ کہہ جانے کا فن۔ میَں ’مقتدرہ قومی زبان‘ کے سیکرٹری جناب سرفراز طارق کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کتاب پر تبصرہ لکھ کر مجھے نادہندگی کے احساس سے نجات دلائی[انوار احمد ]
---------
’’
یہ تحریر ایک ایسے باپ کی سوانحِ حیات ہے جسے اپنی بیٹی کے سوالِ شناخت کا سامنا ہے۔ اس کے لیے یہ ناکافی ہے کہ اُس کا والد ( حمید علوی ) مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے لاہور آیا اور بالآخر اسلام آباد میں سکونت پذیر ہوا۔ جہاں وہ پیدا ہوئی۔ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ اُس کے آباؤ اجداد کون تھے اور اُن کا مسکن کیسا تھا ۔ اس تلاش میں اُس کے خاندان کے اور لوگ بھی شریک ہیں۔
حمیدعلوی نے اپنے آبائی وطن جالندھر میں واقع اپنے گاؤں کے حقائق کو یادِ رفتگان کے نام سے تلاش کیاہے جسے سجاد پبلشرز گوجرانوالہ نے کہانی کی شکل میں ڈھالا۔ وہ اس بات پر معذرت خواہ ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی کے لیے مصدقہ دستاویزی حقائق کی بنیاد فراہم نہیں کرسکا۔ جیساکہ اُ ن کا کہنا ہے کہ میری کہانی کو ایک ایسے فرد کی یادداشتیں کہاجانا چاہیے، جس نے تاریخی واقعات کو اپنے مشاہدات کی بناء پر بیان کیا ،جسے بالواسطہ طور پر پرکھا جاسکتا ہے۔ اس کی یہ کاوش دراصل پنجاب کے ایک دیہات کی مصّدقہ کہانی ہے۔
اب میں اپنی اس غلط فہمی کا اعتراف کروں گا کہ حمید علوی کی سرگزشت ایک دباؤ کا نتیجہ ہے حالانکہ وہ اپنی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد کی فطری جستجو اور خواہشوں کا ساتھ دیتا ہے جو اپنی شناخت کے حوالے کھوجنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اپنے آبائی مسکن کی یادمیں محو ہے۔ یادِ ماضی کا اپنا ہی جادو ہوتا ہے۔ وہ اپنے گاؤں کھمبراں کا خواب دیکھتا ہے اور اپنا آپ دوبارہ وہاں بسر ہوتے ہوئے یہ ہر اُس شے کو اپنی طرف پلٹتا محسوس کرتا ہے۔ جو اس کی زندگی کا حصہ رہی۔ وہ اس زرخیز زمین کا بھرپور حوالہ دیتا ہے جہاں کے درخت چرند ، پرند ، فصلوں ، پالتو جانوروں اور سب سے بڑھ کر اپنے لوگوں اور اُن کے شب و روز کی زندہ یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ وہ اپنے مسلم اکثریتی قبیلہ اعوان کا ذکر کرتا ہے اور اپنے لیے علوی ہونے کی شناخت پسند کرتا ہے۔
اپنے لوگوں کی سرگرمیوں کا بیان کرتے ہوئے اُن کھیلوں اور مشاغل کا ذکر کرتا ہے۔ جیسے قوالی ۔ بیت بازی اور دیہی تھیٹر اور ڈرامے جو اُن کے بھرپور اور زرخیز ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔ کھیلوں میں خاص طور پر کرکٹ میں اپنے گاؤں کے لوگوں کی دلچسپی ، جس میں بعد ازاں نامور شناخت کے حامل کھلاڑی جیسے وزیر علی ، نذیر علی ، جہانگیر خان ، پروفیسر دلاور حسین اور بقا جیلانی وغیرہ اورموسیقی کے میدان میں کے ایل سہگل، استاد سلامت علی اور نزاکت علی ، مبارک علی اور فتح علی قوال اور اُن کے مایہ ناز فرزند نصرت فتح علی خان وغیرہ اور نامور شاعر حفیظ جالندھری اُسی زرخیز زمین کے باسی ہیں۔ البتہ حمیدعلوی چند اور مشہور افراد کا ذکر بھول گئے۔ مثلاً ضیاء جالندھری ، حفیظ ہوشیار پوری اور جنرل ضیاء الحق وغیرہ جن کا تعلق بھی جالندھر سے تھا۔ الغرض علوی صاحب کی سوانح حیات میں دیہی پنجاب کی عمدہ تصویر کشی کی گئی جو بالآخر ایک شہری ثقافت میں تبدیل ہوگیا۔
تقسیم کے نتیجے میں حمیدعلوی دیہی سے شہری اشرافیہ کی منزل کی طرف گامزن ہوگئے۔ اُن کی زندگی کا یہ سفر ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت ہی نہ سمجھی جائے بلکہ یہ ہجرت دیہات سے شہر تک کا سفر بھی ہے۔ اس سفر کا پہلا پڑاؤ لاہور تھا جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے ایم۔ اے کیا۔ وہاں اُن کے اساتذہ اور مربیّوں میں صوفی تبسم ، صفدر میر اور ڈاکٹر عبدالحمید جیسے نامور استاد موجود تھے۔
مبصر: سرفراز طارق
سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری
نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد۔ ۲۰۱۱ء
کراچی سے جب ایک گجراتی اخبار کے مدیر فخر ماتری نے اردو میں ’حریت‘ اخبار نکالا تو وہ اپنے حسن صورت اور مواد و متن میں شاید اپنے تمام معاصرین سے بازی لے گیا۔ مجھے یاد ہے اس وقت میں ہائی سکول کا طالب علم تھا۔ اسی اخبار میں پہلی مرتبہ انور مقصود کی کچھ تحریریں دیکھنے کو ملی تھیں اور یہی وہ اخبار تھا جس میں زیڈ ۔اے بخاری نے قسط وار اپنی سرگزشت لکھنا شروع کی تھی۔ پطرس بخاری ، محمود نظامی ، اورزیڈ۔ اے بخاری کئی اعتبار سے پاکستانی ثقافتی تاریخ کی
صدائے مجسم رہے اور لوگوں میں اشتیاق رہا کہ حکمرانوں کو اتنے قریب سے دیکھنے اور انھیں اپنی مٹھی میں رکھنے کا فن جاننے والے یہ لوگ کون سے قومی راز یا تہذیبی لطیفے اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بخاری کی یہ کتاب سرگزشت پہلے بھی شائع ہو چکی ہے مگر اب اسے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اپنے روایتی دیدہ زیب اہتمام سے شائع کیا ہے تاہم اپنی دیدہ زیب کتابوں کے مقابل اسے ’نظربٹو‘ بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ کم و بیش ہر صفحے پر کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں اور ٹائٹل پر ذوالفقار بخاری کی جگہ پطرس بخاری کی تصویر چسپاں ہے۔ اس کے باوجود یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے،جیسے :
’’
ریڈیو کی زندگی اسی سے ہے کہ ریڈیو سننے والے اس کے شین قاف کو کسوٹی پر کسیں اور اس کی ہر صدا کو پر کھ کر دیکھیں کہ صدا ہے یا محض ھانک یا ھونک۔ ۔۔۔جب ریڈیو کے رسالے ’’ آواز‘‘ میں جناب آصف علی کا نام آیاتو انٹیلی جنس بیورو نے جسے اس زمانے میں ٹھگی دفتر کہا جاتا تھا ہمیں لکھا کہ آصف علی باغی قسم کا آدمی ہے ملک کی آزادی چاہتا ہے اس سے تقریر نہ کراؤ۔ ہم نے گزارش کی کہ اقرارنامے پر دستخط ہوچکے ہیں ۔ اب ہم کس منہ سے اسے منسوخ کریں۔ اس پر سرکار نے حکم دیا کہ اچھا آئندہ را احتیاط مگر آصف علی کی تقریر کا مسودہ نشر ہونے سے پہلے ٹھگی دفتر میں محاسبے کے لیے بھیج دیا جائے۔ ۔۔۔ بھائی آصف علی نے اپنے مسودے میں ڈپٹی نذیر احمد کا ذکر کیا تھا اور لکھا تھا کہ ایک مرتبہ ڈپٹی صاحب کی ملاقات لارڈ کر زن سے ہوئی۔ باتوں باتوں میں لارڈ کرزن نے کہا ہندوستانی بہت جھوٹے ہوتے ہیں۔ ڈپٹی صاحب بولے جی بجا اور آپ جھوٹوں کے بادشاہ ۔ ٹھگی دفتر نے آصف علی کی تقریر کا یہ حصہ کاٹ دیا ۔ ۔۔۔ہر پروگرام کے بعد اسٹوڈیو میں وہ رنگ جمتا تھا جو شراب وکباب کی فراوانی کے باعث محفل جمشید کو شرماتا تھا۔ ۔۔۔ افسروں کو کیا معلوم کہ ریڈیو والے دید کو شنید کے سانچے میں کیوں کر ڈھالتے ہیں۔ ۔۔۔سات سمندر پار سے اقتدار کاچشمہ آنکھوں پر چڑھا کر آئے تھے ۔ اس چشمے کی مدد سے انھیں قبائلیوں کے جسم تو نظر آگئے قبائلیوں کے دل تک ان کی نگاہ نہ پہنچ سکی۔ ۔۔۔بھائی اسٹیشن ڈائریکٹر ، دوسرا بھائی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ، فیلڈن دونوں کا دوست ، پھر کیا تھا، بی بی سی کے حروف کو نئے معنی پہنائے گئے اور آل انڈیا ریڈیو کو بخاری برادرز کارپویشن کا خطاب دیا گیا۔ اس خطاب کی ایجاد کا سہرا دیوان سنگھ مفتوں ایڈیٹر ’ریاست‘ کے سر ہے۔ ۔۔۔ہماری چاپ سن کر ایک بھاری بھر کم شخص کی آنکھ کھلی ۔ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بیٹھے بیٹھے اختری بائی کو لات مار کر جگایا۔ دھان پان پتلی دہلی مدقوق سی لڑکی ، بادل ناخواستہ ا ٹھی اور اپنے ہونٹوں پر وہ مسکراہٹ بکھیر دی جس کی تہہ میں غمِ روزگار کے آنسو چھلک رہے تھے۔ ۔۔۔اختری کے سامنے اور بالکل قریب ہو بیٹھا ، کان اس کے ہونٹوں کے ساتھ لگا دئیے ۔ یوں جیسے کوئی راز کی بات سن رہا ہو۔ مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے ذرا ترش لہجے میں کہانیازی کیا کر رہے ہو۔ فرمایا سن رہا ہوں کہ اس کے گلے میں خراش تو نہیں۔ ۔۔۔شام کو اختری اور دُرگا کے کوٹھے پر گیا اور اگلے روز دفتر میں آکر بل پیش کردیا کہ دس روپئے اختری کے وہاں پان کی تھالی میں رکھے اور دو روپئے درگا کے وہاں ۔ یہ بارہ روپئے دلوائے جائیں ۔ ۔۔۔اس بل کی داستان سب دفتر نے پڑھی دفتر سے اخباروں تک پہنچی اور اخباروں کی مہربانی سے میری اہلیہ تک۔
۔۔۔۔۔غالب کی قبر پر حاضر ی کے وقت مجھے اکثر غالب کا شعر یاد آتا تھا۔
زمن بجرم تپیدن کنارہ می کردی
بیابخاک من و آر میدنم بنگر
۔۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کا انگریز دل میں سمجھ چکا تھا کہ میں بتدریج گھٹ رہا ہوں اور ہندوستان کا ہندو مسلمان میرے ہی میدانِ علم وہنر میں مجھ سے بازی لے جارہا ہے۔ اب کا انگریز وہ انگریز نہ تھا جو یہاں آ کرکتابیں لکھتا تھا ، اُردو فارسی پڑھتا تھا ، کالج آف فورٹ ولیم چلاتا تھا ، لغات تالیف کرتا تھا اس کے بعد کا انگریز تو انگلستان کے کسی لال کرتی علاقے کا رہنے والا ، کتابیں رٹ کر امتحان پاس کر کے کالوں پر حکومت کرنے آیا تھا۔ اس کے پاس ان مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لیے حشمت اور فراست کہاں جو اس سے قبل آٹھ سو سال تک اسی ملک پر حکومت کرچکے ہوں ۔ ان حویلیوں کو یاد کیجیے جن میں مسلمان رؤ سا رہا کرتے تھے اور پھر ٹین کی چھت والے ان بنگلوں کو دیکھئے جو پی ، ڈبلیو ، ڈی نے ان مضافاتی صاحبوں کے لیے سڑک کے کنارے کنارے ٹھیکے پر بنوائے تھے۔ اس خاصے کا تصور کیجیے جو مسلمان حاکم نوش جان فرمایا کرتے تھے اور پھرا س ملغوبے پر نظر ڈالئے جسے یہاں کے انگریز نے ڈنر کا خطاب دے رکھا تھا۔ اس حریر ودیبا ، اطلس وزربفت کا خیال کیجیے جو ہمارے یہاں کے وابستگان دربار زیب تن فرمایا کرتے تھے اور پھر انگریز حاکم کی اس فلالین کی پتلون اور اس شکاری کوٹ کو ملاحظہ فرمائیے جسے لباس کہنا ننگِ برھنگی ہے۔ ۔۔۔ہم اپنے جذبہ آزادی کے ہاتھوں مجبور تھے اور سرکار اپنے جذبہ حکمرانی کے ہاتھوں ۔۔۔آغا اشرف کو سخت کھانسی آرہی تھی مگر اسی حالت میں بادشاہ سلامت کی علالت اور ان کی رحلت کا حال سنانے مائیکروفون کے سامنے آبیٹھے ، خبروں کے دوران میں اعلان کیا۔ ’’ حضور ملک معظم نے انتقال سے تقریباً پانچ منٹ پہلے فرمایا ۔۔۔‘‘یہاں ان کو کھانسی اٹھی ، جھٹ گھنڈی بائیں طرف گھما دی ۔ موسیقی کے اسٹوڈیو کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہاں طبلہ نواز بابا ملنگ خان فرما رہے تھے۔ ’’ یہ میری ہتھوڑی کون حرام زادہ لے گیا ہے ۔ ‘‘پورا فقرہ یوں بنا ۔ ’’ حضور ملک معظم نے انتقال سے تقریباً پانچ منٹ پہلے فرمایا یہ میری ہتھوڑی کون حرام زادہ لے گیا ۔ ‘‘
۔۔۔لارڈ لن لتھگو مع بہیرو بنگاہ اسپیشل ٹرین میں بمبئی سے دہلی روانہ ہوئے۔ ۔۔۔راستے میں چار چھ اسٹیشنوں پر گاڑی کوئلہ لینے اورپانی بھر نے کوٹھہری۔ ان اسٹیشنوں کو دیکھ کر میں عش عش کر اٹھا۔ خوانچے والوں کے خوانچے سفید براق کلف دار جالی سے ڈھکے ہوئے ، خوانچے والے خود اس قدر صاف اور ستھرے کپڑوں میں ملبوس جیسے عید کی نماز پڑھنے جارہے ہوں ۔ نہایت خاموشی کے ساتھ جتنے پیسے کوئی دیتا ، صبر شکر کر کے لے لیتے۔ ہر ایک کے چہرے پر طہارت ، پاکیزگی اور ایمانداری کا ملمع ۔ ۔۔۔خدا جانے کس رو میں ہم نے لارڈ اسپیکر کا ترجمہ آلہ مکبر الصوت کیا تھا ۔ اس کا ترجمہ تو آلہ کریہہ الصوت زیادہ مناسب تھا۔ ۔۔۔ہمارے ہیڈ ماسٹر واٹکنز صاحب بھائی جان کو پیر کے نام سے پکارا کرتے تھے ۔ اور پیر کا لفظ کچھ اس انداز سے ادا کرتے تھے جیسے یہ لفظ فرانسیسی ہو۔ فرانسیسی لفظ ’’ پیر ‘‘ کا انگریزی ترجمہ ’’ پیٹر ‘‘ ہے اور انگریزی لفظ ’ ’ پیٹر‘‘ کا یونانی ترجمہ ’’ پطرس ‘‘۔بھائی جان شروع شروع میں انگریزی مضامین ’’ پیٹر کے نام سے لکھا کرتے تھے ۔ ’’ پطرس ‘‘ کا قلمی نام سب سے پہلے انھوں نے’ کہکشاں ‘کے ایک سلسلہ مضامین کے لیے اختیار کیا۔ مضامین کے اس سلسلے کا نام تھا ’’ یونانی حکما اور ان کے خیالات ‘‘ مضمون کی رعایت سے ’’ پطرس ‘‘ اچھا نام تھا اور پھر بھائی جان یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس سلسلہ مضامین کے مصنف کا اصلی نام کسی کو معلوم ہو، لیکن کہکشاں کے عملے کی بے احتیاطی کہئے کہ کسی کا تب نے مضامین کی ایک قسط میں پطرس کے ساتھ ان کا پورا نام بھی لکھا دیا۔ پس اس دن سے انھوں نے اردو تصنیفات کے لیے اپنا قلمی نام پطرس رکھ لیا ۔ ۔۔۔۔میں جلدی میں ملازم سے یہ کہنا بھول گیا تھا کہ شام کو کھانے کے وقت گھنٹہ نہ بجانا۔ ظالم نے بجا دیا۔ اب کیا ہوسکتا ہے میں والد کو لے کر کھانے کے کمرے میں گیا۔ میزپر خالی پلیٹیں پڑی تھیں۔ والد نے ایک پلیٹ کو اٹھایا۔ دیر تک اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے اور پھر میری بیوی سے کہا ، بیٹا مہمانوں کے سامنے خالی برتن نہیں رکھا کرتے۔ ۔۔۔۶۔ گھنٹے کی لمبی تقریب ۔ سننے میں آیا ہے کہ ایسے موقعوں پر ڈاکٹر لوگ ایسے ترکیب کرتے ہیں کہ بادشاہ سلامت یا دیگر حاضرات وحضرات کو اس طویل عرصے کے دوران میں بول وبراز کی حاجت نہ ہو۔ ۔۔۔جو لوگ زبان کو آسان بنانے کے لیے برسوں سے چلا رہے ہیں ان کے شور پر ہنسی آتی ہے اور ان کی جہالت پر رحم ، ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مشکل لفظ وہ ہوتا ہے جو ہم نہ جانیں وہ مشکل نہیں رہتا۔ ۔۔۔ خود تو یہ حضرات نئے لفظ سیکھتے نہیں البتہ اہل قلم سے کہتے ہیں کہ جو لفظ تم نے سیکھ رکھے ہیں ان کو بھول جاؤ۔ یہ حضرات مہینہ بھر میں ایک نیا لفظ بھی سیکھ لیتے تو آج نو سو نئے الفاظ جانتے اور انھیں یہ کہنے کی نوبت ہی نہ آتی کہ آسان زبان لکھو۔ ۔۔۔ ایک دن میرے پاس آئے تو میں نے عرض کیا کہ اس نئی نظم کے چند اشعار میری سمجھ میں نہیں آئے۔۔۔۔ایک لڑکی سے محبت ہے ، آٹھ سال سے محبت ہے۔ ہفتے میں صرف ایک دن یعنی منگل کے دن ہم دونوں ملتے ہیں اور سارا دن ایک ہوٹل میں چائے کی میز پر بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا تم کو اس لڑکی سے محبت ہے ، آٹھ سال سے محبت ہے ، تو تم اس سے شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟ کہا اس لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا شادی ہوچکی ہے ؟ کس سے ؟ کہا چاند سے !یہ لڑکی ویسے تو ایم اے پاس تھی مگر اس کے دماغ کی یہ کیفیت تھی کہ اپنے آپ کو چاند کی بیوی سمجھتی تھی۔ چاند کی چودھویں کو اپنے مکان کی چھت پر پلنگ بچھا کر بیٹھ جاتی اور ساری رات چاند سے باتیں کیا کرتی تھی ۔ چندرو دن اس لڑکی سے منگل کے دن ملنے جاتا تو کبھی کبھی اپنے ایک شاگرد کو بھی ساتھ لے جاتا۔ آخرساڑھے نو سال کی منگلی ملاقات کے بعد وہ لڑکی چندرو دن کے اس شاگرد کی بیوی بن گئی ‘۔
مبصر : انوار احمد
محبت کے دو رنگ از عامر بن علی
نستعلیق مطبوعات، لاہور۔ ۲۰۱۲ء
عامر بن علی ایک خوش نوا شاعر ، علم کے لیے مضطرب کالم نگار اور اپنے وطن کے لیے تعلیمی ، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو جاپان کے زیادہ برابر لانے کا آرزو مند ہے جہاں وہ ایک عرصے سے مقیم ہے ۔ وہ اپنے وطن اور اہل وطن کے ساتھ اپنے وعدے کو محبت کا وعدہ خیال کرتا ہے اور اسی تناظر میں اس کی اس کاوش کو بھی دیکھنا چاہیے جس میں اس نے ایک طرف پابلونرودا جیسے عظیم مزاحمت کار کی منتخب شاعری کا ترجمہ پیش کردیا ہے وہاں نرودا کے سیاسی اور ادبی مسلک کے مدمقابل عالمی شہرت کی گبریلا مسترال کے تراجم بھی پیش کردیے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ شعر وادب میں دونوں غالب مگر مد مقابل رنگوں کو محبت کے ساتھ محسوس کیا جائے، یہ پہل عامر بن علی نے کی ہے اور نام رکھا ہے۔ ’’ محبت کے دورنگ ‘‘۔
مبصر : انوار احمد
ہمارے تجربات از حمید اللہ
سانجھ پبلی کیشنز ، لاہور ۔۲۰۱۱ء
انسان زندگی گزارنے کے کوئی نہ کوئی بہانے تلاش کر لیتا ہے اور پھر انہی حیلے بہانوں کو اپنی روزی روٹی سے جوڑ لیتا ہے مگر ہمارے درمیان کئی مرد قلندر، اگرچہ خال خال ہی سہی ، ایسے ضرور نظر آجاتے ہیں جنھوں نے ایسے حیلے بہانے تلاشے ضرور مگر انھیں صرف اپنی روزی روٹی سے نہیں جوڑا بلکہ دوسروں کے لیے وقف کردیا ۔ سماجیات کے میدان میں حمید اللہ بھی ایک ایسی ہی مثال ہیں۔
’’
ہمارے تجربات ‘‘ میں مصنف حمید اللہ نے بالکل سیدھے سادے الفاظ میں اپنی سماجی زندگی اور حالات کو قلم بند کردیا ہے۔ انھوں نے اپنی سماجی زندگی کا آغاز ایک پرائمری سکول بنوانے سے کیا اور اب دستکاری سکول ، غیر رسمی سکول ، ٹیچرز ریسورس سنٹر، قدرتی آفات میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات ، ہیلتھ پروگرام اور سیاسی تعلیم وغیرہ جیسے بیسیوں فلاحی ادارے چلا رہے ہیں۔
’’
ہمارے تجربات ‘‘ انہی اداروں کی آپ بیتی کہہ لیں یا حمید اللہ کی آپ بیتی ،کچھ کر گزرنے والوں کے لیے ایک عملی سبق ہے اور جو کوئی بھی ان تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ وحید پبلی کیشنز لاہور کی یہ خوبصورت کتاب ’’ ہمارے تجربات ‘‘ کی صورت اس کی رہنمائی کے لیے موجود ہے۔
مبصر: نور محمدخاور
اُردو زبان وادب کی تاریخ وتدریس
از : زاہد ہمایوں
فیصل پرنٹ پوائنٹ ، صدر راولپنڈی۔ ۲۰۱۱ء
اُردو زبان پر بہت کچھ لکھا گیاہے اور لکھا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر گراہم بیل کی ’’ اے ہسٹری آف اُردو لٹریچر‘‘سے لے کر ڈاکٹر سلیم اختر کی ’’ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ‘‘تک محققین اور ناقدین کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے مگر زاہد ہمایوں نے اپنی اس تصنیف میں جدیدو قدیم ادب کو بڑے جامع انداز میں اور کہیں کہیں اشارات میں بھی پیش کیا ہے تا کہ اردو زبان و ادب کے شائقین ان سے واقفیت حاصل کر سکیں۔ اُنھوں نے اپنی اس تصنیف کو ذرا منفرد بنانے کی کوشش کی ہے ۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ تدریس و ترویج کے پہلوؤں کو بھی مدِ نظر رکھا ہے جو اِس حوالے سے ایک بالکل منفرد کوشش ہے۔ پھر اردو رسم الخط ، اعراب ، قواعد، نثری اسلوب، شعری روایت و ارتقأ اور تدریسی رحجانات جیسے اہم موضوعات کو بھی شامل کیا ہے اور بذات خودہر ایک موضوع اس قدر وسیع ہے کہ اُن میں سے ہر ایک کی گہرائی اور گیرائی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے الگ الگ مقالے کی ضرورت ہے مگر مصنف نے اِس کمال مہارت سے اپنے اِس تجزیاتی مطالعے میں ان سب کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔
اُردو زبان کے ماخذات کا سراغ لگانے میں جہاں دیگر محققین نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں وہاں عصر حاضر کے محققین بھی اپنی اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کر رہے ہیں اُن میں زاہد ہمایوں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ اُردو ادب کے بارے میں بکھرے اس خزانے کو جمع کرکے زیور طباعت سے آراستہ کرنا بلاشبہ ان کا ایک اہم کارنامہ ہے ۔جو ان کی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اِس تجزیاتی مطالعے میں مصنف نے لسانی اور تاریخی زاویوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی بالواسطہ سعی کی ہے کہ اُردو کی تدریس وترویج میں سیاست کے عمل دخل کی بجائے انسانی جذبات و احساسات کو بھی فوقیت حاصل ہے ۔ انہوں نے حتی المقدور اس مطالعے کو جامع بنانے کی کوشش کی ہے مگر بعض موضوعات بذات خود اس قدر جامع ہیں کہ جنہیں مصنف نے مختصر اشارات میں بیان کیا ہے اور اسی حوالے سے کچھ تشنگی سی رہ گئی ہے تاہم ان کی یہ سعی و کاوش فروغ اردو رحجانات کی یقیناًایک اہم کڑی ثابت ہو گی ۔
باب اول ’’ اُردو زبان کا تجزیہ ،، ہے جس میں اُردو زبان کی تاریخ ، اُردو مخالفت رحجانات ، رسم الخط ، حروف تہجی ، اعراب ، رموزِ اوقاف اور قواعدجیسے موضوعات کو تاریخی حوالے سے دیکھتے ہوئے زبان کی تاریخ اور ادب پر روشنی ڈالی ہے۔
زبان کیا ہے ، ادب کسے کہتے ہیں اور قدرتی طور پر زبانوں میں ارتقأ وقوع پذیر کیسے ہوا . زبان پر لفظ اُردو کا اطلاق کیسے ہوا؟ اِن تمام سوالوں کے جوابات کو مصنف نے اس باب میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔انھوں نے ارسطو کی بوطیقا اور افلاطون کے نظریہ Mimesis کے حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں ۔موجودہ صورت تک پہنچنے کے لئے اُردُو نے کیا کیا مراحل طے کئے ہیں اِس کے بارے میں بہت سے نظریات بھی باب اوّل میں مل جاتے ہیں ۔
باب دوم ’’ تدریس اُردُو کا تجزیہ ‘‘میں مصنف نے نصابی پیش رفت ، تعلیمی روایت ، تدریس اُردُو کے مقاصد، تدریس اردو کے مراحل اور لسانیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اِس کے علاوہ اس باب میں نصابی لٹریچر ، نصاب کی طوالت ، اور نو آموزوں اور مبتدیوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے آسان اور عام فہم زبان کا اِستعمال ، جیسے موضوعات کو سامنے رکھتے ہوئے قدیم اور جدید نصاب کی تربیت و تزئین کے حوالے سے ہمیں مغلوبیت اور مقہوریت کی ذہنی بیماری سے باہر نکالا ہے ۔
باب سوم ’’ اُردُو شاعری کا تجزیہ اور تدریس ‘‘ میں اُردو شاعری کی تاریخ ، ایہام گوئی ، جدیدیت اور تدریس جیسے اہم موضوعات کی وضاخت پیش کی ہے . اسباب میں جدید شاعری کی بنیاد اور عصرِ حاضر کے شاعروں کو موضوع بنایا گیا ہے .
باب چہارم’’ اُردُو نثر کا تجزیہ اور تدریس ‘‘ میں اُردُو نثر کی تاریخ ، اسلوب، تدریسی مقاصد ، عملی تدریس ، داستان اور ناول کی تدریس ، کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جان گل کرسٹ ، جان بیلی، پروفیسرفتح محمد ملک، کی کتابوں کے حوالہ جات اور اُن کی خدمات کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں مثلافورٹ ولیم کالج کا ذکر بھی کیا ہے ۔ صوتیاتی حوالے سے اس فن پارے میں موجود ردیف و قوافی کی خصوصیات ، معکوسیت ، ہکاریت اور مصوتوں و مصمتوں کا تناسب شامل ہے۔ آخر میں انہوں نے خدیجہ مستور کے ناول ’’ آنگن ‘‘کا تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ اس کے کرداروں کا تعارف اور ناول نگار کا نقطہ نظر اور ناول پر کی جانے والی بحث شامل کر کے مصنف نے اِس کتاب کی رونق میں بلا شبہ اضافہ کیا ہے ۔
باب پنجم ’’ اُردُو ادب کی تشکیل و ترویج کے دیگر عوامل و عناصر کا تجزیہ ‘‘ اِس حوالے سے مغلیہ حکومت ، سرسید تحریک ، فکر اقبال ،افسانوی ادب سے لے کر اُردُو زبان کی ترقی ٹی وی سے لے کر کمپیوٹر تک کو موضوعِ مطالعہ بنایا ہے ۔
مبصر: شگفتہ طاہر
دیوان حیرت شملوی از سید انیس شاہ جیلانی
مبارک اُردو لائبریری ، محمد آباد، تحصیل صادق آباد۔ ۲۰۰۶ء
سید انیس احمد شاہ جیلانی کی مرتبہ کتاب ’’دیوان حیرت شملوی‘‘شائع ہو گئی ہے ۔ جس میں مرتب نے حیرت شملوی کے کلام سے معیاری شعر و شاعری کا ذوق رکھنے والے قارئین کو مطالعہ کا سامان فراہم کیا ہے ۔کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے بصورت شعر گلہائے رنگا رنگ کی مہک کا ایک جھونکا سا لپکتا محسوس ہوتا ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی مرتب جب شعراء کے کلام کا انتخاب کر رہا ہوتا ہے یا افسانہ نگاروں کے مطبوعہ افسانوں کا، تب عدل کا میزان سنبھالنا بڑا کٹھن کام ہوتا ہے ۔ ایسے کاموں میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ادب دوستی اور ادب نوازی سے کہیں زیادہ احباب پروری اور دوست نوازی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ثقہ شعراء اور افسانہ نگار نظر انداز ہو جاتے ہیں ۔ اور جن کے نام اور کام سے ادبی دنیا میں کوئی شناسا بھی نہیں ہوتا انہیں اقلیم شعر و ادب کے تخت پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔ مگر سید انیس احمد شاہ جیلانی اس الزام سے اپنا دامن صاف بچا لے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے جس شاعر کا انتخاب کیا ہے وہ نسبتاً کم معروف ہونے کے باوجود شعر و سخن میں علمی بصیرت رکھنے والے شاعر ہیں جنہیں غزل کی نزاکت و لطافت اور باریک بینی پر مکمل عبور حاصل ہے ۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ۔
زباں میری پڑھتی ہے کلمہ کسی کا
ہے لب پر مرے ذکر زیبا کسی کا
وہی دل ہے جو دل ہو شیدا کسی کا
وہی سر ہے جس میں ہو سودا کسی کا
اس کے علاوہ
بر ہی آئے گی کہیں آرزوئے دل کوئی
ہو نہ آساں کبھی ایسی نہیں مشکل کوئی
کیا کہے کون کہے کس سے کہے حالت دل
تم نے رکھا بھی ہے کچھ کہنے کے قابل کوئی
رخ زیبا ئے حقیقت بھی نظر آجائے
ہو اگر دل میں اندیشۂ باطل کوئی
سخن کے ان ٹکڑوں کے کیا کہنے کس خوبصورتی سے بحر، قافیہ ، ردیف کی پابندیوں کو حصار میں رکھتے ہوئے تغزل کے مزاج ، رنگ و آہنگ اور فارمیٹ کو کمال مہارت سے ملحوظ نظر رکھا گیا ہے ۔ غزل کے ہر شعر کی اکائی اور اختصار ہی دراصل شاعر کی عظمت کی دلیل ہے ۔ ان کی غزلوں میں کلام کی سادگی ، برجستگی ،حسن بیان، قیود ، لب ولہجے کی نفاست ، الفاظ کی نشست ، اظہار خیال کی بے تکلفی ، تخیل کی بلند پروازی، زاویہ نگاہ کا تنوع ، با حسن وخوبی ملتا ہے ۔
شعرا ء کے کلام کا انتخاب کرکے انہیں مرتب کرنے میں صرف وہ ہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جوخود بھی شعری ذوق اور تاریخ و ادب پر گہری نظر رکھتاہو ۔ لہٰذا یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مرتب اس میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ انتخاب کلام کے ساتھ ساتھ غزل گو کا مختصر سا سوانحی خاکہ بھی اس میں شامل کرکے مرتب نے اس کتاب کی ادبی اور تخلیقی قدر وقیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ نومبر ۶۴ء میں حیرت شملوی اللّہ کو پیارے ہوئے مگر مرتب سیّد انیس شاہ گیلانی نے نگارشِ حیرت کومحفوظ کر دینے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا ۔
مبصر: شگفتہ طاہر
شاہ کے جوگی ، از ناطق سولنگی
یہ کتاب ان جوگی فقیروں کے متعلق ہے جو اپنے حقیقی محبوب کو پانے کی جستجو میں جنگل و بیاباں اور صحراؤں میں مظاہرِ قدرت کے مشاہدوں میں سرگرداں پھرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ شاہ سائیں کے جوگی فقیر ہیں جو جوگ کی ریاضتوں کے طویل کٹھن سفر طے کر کے جگت کی انتہا کو پہنچ گئے۔ ناطق سولنگی نے حرفِ اول کے عنوان سے لکھا ہے :
’’
یہ کتاب فکر جوگ اور تصوف کو سمجھنے کے لیے مختصر جائزہ ہے جس کے مطالعہ سے فکر جوگ اور تصوف کے حسین امتزاج کا روپ نکھر کر سامنے آ جائے گا۔گویادونوں افکار کا مختصر خلاصہ ہے ۔ ضخیم اور ادق کتب کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے تدریجی ارتقاء سے واضح ہو جائے گا کہ کچھ آفاقی صداقتیں ہر دو افکار میں کس قدر پیوست ہیں جن کا رنگ وروپ آج بھی تازہ نظر آتاہے۔ اگرچہ فکر جوگ تصوفِ اسلام سے مشابہہ ہے لیکن دونوں کی بنیادیں جداگانہ ہیں۔ دوسری طرف ہم بقدر نظر و فکر اس کااطلاق متصوفانہ نظریات پر کر سکتے ہیں۔ شاہ سائیں نے محدود نظریات اور فرقہ واریت سے بالا تر اس مسلک کی بنیاد رکھی جو اعلیٰ انسانی اقدار کا مظہر ہے۔ ‘‘
۱۱۲صفحات پر مشتمل اس کتا ب میں اسلامی تصوف، برصغیر کے صوفیاء اکرام، بھگتی تحریک، فلسفۂ ویدانت، حقیقت عشق ، علم شریعت، سلاطین دہلی کا تاریخی پس منظر، شاہ کے جوگی، تصوف میں شاعرانہ رنگ، شاہ کے متصوفانہ نظریات اور شاہ کے کلام کے معنوی نکات و رموز ایسے اہم فکر انگیز موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
مبصر: سحر صدیقی
عزیز احمد ۔ سوانح اور تصانیف از: طاہر سرور
عزیز احمد کا شمار ایسی نامور شخصیات میں ہوتا ہے جن کی زندگی شعر و ادب کی تخلیق اور تاریخ وتنقید و تالیف میں بسر ہوئی۔ ان کا نام اور کام ادب کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ ناول افسانہ ، تنقید اور ترجمہ سب میں ان کا ایک مقام ہے۔ انہوں نے میٹرک کے بعد ۱۹۲۸ء میں جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔ وہیں سے ایف اے کیا اور ۱۹۳۴ء میں اعزاز کے ساتھ بی ۔ اے (آنرز ) کیا۔ بعد ازاں مولوی عبدالحق کی کوششوں سے عزیز احمد کو اعلی تعلیم کے لیے وظیفہ ملا اوروہ ۱۹۳۵ء میں انگلستان چلے گئے ۔۱۹۳۸ء میں لندن یونیورسٹی سے بی۔اے (آنرز ) کی ڈگری لی۔ اور کچھ وقت یورپ کی سیروسیاحت میں گزارا۔ اسی عرصہ میں وہ فرانس کے سوربون یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے۔
عزیز احمد۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۵ء شہزادی درشہوار کے پرائیوٹ سیکرٹری رہے ۔ ۱۹۴۶ء میں وہ ایک بار پھر جامعہ عثمانیہ سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۴۹ء تک درس و تدریس میں مشغول رہے ۔ ۱۹۴۹ء میں وہ استعفےٰ دے کر پاکستان آ گئے اور حکومت پاکستان کے فلم و مطبوعات کے محکمے کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اس محکمے سے وہ ۱۹۵۷ء تک وابستہ رہے۔
۱۹۵۷ء میں وہ لندن یونیورسٹی کے اسکول میں اردو اور ہندی اسلام کے شعبے میں لیکچر مقرر ہوئے۔ جہاں وہ ۱۹۶۲ء تک رہے ۔ ۱۹۶۲ء میں وہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہو کر ٹورنٹو یونیورسٹی (کینڈا ) کے شعبہ اسلامیات سے وابستہ ہوگئے۔ ۱۹۶۵ ء میں انہیں پروفیسر بنا دیا گیا اوروہ باقی عمر اسی عہدے پرکام کرتے رہے۔ ان کے کام کی اہمیت اور وقعت کے پیش نظر انہیں رائل سوسائٹی آف کینڈا کا فیلو مقرر کیا گیا۔ ۱۹۷۲ء میں یونیورسٹی آف لندن نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا۔
عزیز احمد کئی زبانیں جانتے تھے۔ اردو ،انگریزی فرانسیسی اور زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ جبکہ ترکی، اطالوی اور جرمن زبانوں میں گفتگو کر لیتے تھے۔ آخری عمر میں نارویجن زبان سیکھ رہے تھے۔ عزیز احمد کی پہلی تنقیدی تصنیف ’’ترقی پسند ادب ‘‘ہے۔
طاہر ہ سرور کی زیر نظر کتاب کے باب اول میں عزیز احمد کے مختصر حالات زندگی اور ان کے ادبی سفر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرا باب کشمیر کے بارے میں ہے جس میں کشمیر کی تاریخ ، جغرافیہ اور معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ آخری باب میں عزیز احمد کا ناول ’’آگ‘‘ کا فنی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔وہ لکھتی ہیں کہ :
’’
عزیز احمد تو کہتے ہیں کہ وہ انکسار کے قابل نہیں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ یہاں انکسار برت رہے ہیں۔ ’’آگ‘‘ میں کشمیر کی جیسی زندگی پیش کی گئی ہے ،ویسی ہمیں کسی بھی اردو ناول میں نظر نہیں آتی ۔ ‘‘
مبصر: احمد تمثال
دوسرا آخری خط از : حمید قیصر
دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد
حمید قیصر کی بیشتر کہانیاں واحد متکلم یا واحد غائب کی بیانیہ ٹیکنیک میں ہیں۔لیکن ان کی دو کہانیاں ’’دوسرا آخری خط‘‘ اور ’’دوسرے دکھ‘‘ خطوط کی خطابیہ ٹیکنیک میں ہیں اور ان میں بھی واحد متکلم ہی اہمیت رکھتا ہے جو راوی کی حیثیت میں کہانی کی پرتیں کھولتا اور اپنے جذباتی زیرو بم سے ایک مخصوص قسم کا تاثر بھی پیدا کرتا ہے۔ جو یادوں کی حزیں باز یافت کا حاصل ہے۔ لیکن انجام محرومی جاوید ہے جو دکھ کو جنم دیتی ہے۔ دوسری طرف واحد متکلم ایک ایسے مردِ دانش مند کی صورت میں سامنے آتا ہے جو سامنے کے منظر کے عقب میں ایک اور منظر کو دیکھ سکتا ہے اور مکتوب الیہہ کو یہ منظر دکھا سکتا ہے۔
حمید قیصر کے نئے افسانوں کا مطالعہ بھیدوں سے بھرے ہوئے جہاں کا مطالعہ ہے۔ اس کے کردار ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن انہیں بہت زیادہ مانوس قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ اسے پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ وہ نوکیلے انسانی مسائل پر کہانیاں لکھنے کی بجائے زمینی حقیقتوں پر کہانیاں روانی سے لکھتا ہے۔ لیکن ا ن کے بطون میں مسائل بھی موجود ہوتے ہیں جوسوچ کی پرواز کا رخ موڑ دیتے ہیں اور عصری حقیقت عیاں ہوتی ہے ۔ اس کے اسلوب میں ایسی خوشگوار اور دلنشین رومانویت نمایاں ہے جو کہانی کے اسرار کو کھولنے اور اس کی ادبی اہمیت کو نمایاں کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ بلا شبہ حمید قیصر نے کہانی کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کا فنی سفر اردو کہانی کے ارتقاء کا سفر ہے ۔
پیش نظر مجموعہ میں گزشتہ عرصہ میں لکھی گئی گیارہ کہانیاں ہیں۔ میرے قارئین کو ’’سیڑھیوں والا پل ‘‘ کی بیس کہانیوں کی نسبت اس کتاب کی کہانیاں ذرا ہٹ کے ‘ محسوس ہوں گی اور ہونی بھی چاہیءں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کی سوچ، لکھنے کا انداز اور نظریات سب تبدیل ہوتے ہیں۔ مجموعہ کی ٹائیٹل کہانی ’’ دوسرا آخری خط ‘‘ زندگی کی طرح ایک جاری وساری کہانی ہے ، ابھی ختم نہیں ہوئی اور جانے کب تک جاری رہے گی ، شاید پہلے آخری خط کا جواب آنے تک ؟
مبصر: سید سردار احمد پیرزادہ
شاہراہ خوشحالی و استحکام
حالیہ برسوں میں چین اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ اقتصادی و تجارتی تعاون نے تیز رفتاری سے ترقی کی ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد جب بھی پاکستان کو کسی بحران کا سامنا کرنا پڑا چین نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کی مدد کی۔ اس طرح جب چین کو مشکلات کا سامنا ہوا تو پاکستان نے بھی فوری طور پر مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا اور حتی الا مکان کوشش کی۔ ان تمام برسوں میں دونوں ممالک نے بین الاقوامی تعاون ، اقتصادی اور تجارتی تعاون، سائنسی اور تکنیکی تبادلوں اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں غیر معمولی نتائج حاصل کئے ہیں۔
’’
پیش نظر کتاب شاہراہ خوشحال خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر میں چین کی کامیابیوں کا ایک جائزہ اور پاک چین خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کے ماڈل کے بارے میں تحقیق و تجاویز ہیں۔‘‘ اقتصادی ماہر کے طور پر اصلاحات اور اوپن پالیسی کے نفاذ کے بعد سے خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر میں چین کی کامیابیوں اور تجربے کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پاکستان اور چین کے تعاون سے خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کے ماڈل کے متعلق منظم تجاویز و سفارشات تحقیقی انداز میں پیش کی ہیں۔ ہماری دلی آرزو ہے کہ یہ تحقیقاتی عمل پاکستان کو اصلاحات اور اوپن پالیسی کے نفاذ اور خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کے حوالے سے کچھ مفید خیالات اور تدابیر فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہو ۔ ہم پرتپاک امید کرتے ہیں کہ پاک چین خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کامیاب و کامران ہو گی اور امید ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان میں اصلاحات اور اوپن پالیسی کے نفاذ اور اقتصادی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گااور پاک چین دوستی صدیوں قائم رہے گی اور دونوں ممالک مل جل کر خوشحالی اور استحکام کی راہ پر چلیں گے۔
اس کتاب کی منصوبہ بندی ڈاکٹر سولانگ ڈوجی نے کی ،مصنف پروفیسر وانگ تئے جیون ہیں جبکہ اردو ترجمہ اردو دان چینی پروفیسر تھانگ مینگ شینگ نے کیا ۔
مبصر : تجمل شاہ
مراۃ المذاہب
خلیفہ پیر محمد اسلم نواز حیدری نے کتاب میں مختلف مذاہب کے بارے میں تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے ۔ اس دور کا قاری اکثر مختلف مذاہب، ان کی تعلیمات اور دیگر پہلوؤں کے بارے میں کافی آگاہی حاصل کرنا چاہتا، کتاب میں مصنف نے اپنے انداز میں اس با رے تحریر کیا ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ میرے اسلوب اور تحریری انداز میں شروع سے کوشش رہی کہ اس میں فرق نہ آئے اپنا نقطہ نظر اتنا ہی لکھا جائے اور اس انداز سے لکھا جائے کہ قاری کو نیا نہ لگے ۔ شر ظلم اور فتنہ قیامت تک ایک بد نما اور غلیظ داغ کی صورت میں ہر ذرہ ذرہ کے لیے باعث تکلیف رہے گا اس پر جتنی بھی لعنت کی جائے کم ہے۔ ظاہری دنیا کے معاشرتی معاملات و مسائل جس قدر سامنے آتے ہیں ان کو درست رکھنے کے لیے عوام کو آگاہ رکھنا ضروری ہے تا کہ معاشرہ امن اور سلامتی کے ساتھ تمام فتنوں سے بچ بچا کر آگے اور آگے ترقی کرتا رہے۔
مبصر : تجمل شاہ
نزول(۵ )
سہ ماہی ادبی سیریز کے سلسلے میں نزول (۵) سید اذلان شاہ کی ادارت میں گوجرہ (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) سے شائع ہو گیا ہے۔معاونین میں فیصل ضیاء، ملک ظہیر احمد اور عدیل اظہر شامل ہیں۔ اداریے میں سید اذلان شاہ لکھتے ہیں :
’’
اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے ادیب کو مجموعی طور پر انوکھے پن اور ذاتی پسند کے ساتھ ساتھ رُتبہ لے ڈوبتا رہاتو کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو گا۔ شاید انوکھے پن کا یہی اشتیاق خیالات کو زہر آلود اور کسی حد تک پاکیزگی سے دور کرنے کا سبب بھی بنا۔ فرانسیسی ادیبوں کے بعد تقریباً ہمارے یہاں کے لکھنے والوں نے اس نامناسب تحریری انداز کا استقبال گرم جوشی سے کیا اور پریشان خیالی کودُکھ کا مداوا سمجھ لیا۔ نتیجتاً دھڑا دھڑا تخلیق کیا جانے والا ادب ذہنی تخریب اور اپنی ہی ذات کے لیے بارِ گراں بن کر رہ گیا۔ ‘‘
اس شمارے میں خورشید رضوی، شاہد رضوان ، خالد اقبال یاسر، علی حیدر ملک، ڈاکٹر شبیر رانا، نیلم احمد بشیر، رئیس فاطمہ، نسیم انجم، محمد سلیم طاہر، صابر ظفر، نصرت صدیقی، اخلاق عاطف، غضنفر عباس رانا، حامد علی سید، منظور ثاقب، افضل خان، مبشر سعید، اعزازاحمد آذر، راشد امام اور روبی جعفری سمیت کئی اہل قلم کی شعری و نثری تخلیقات شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور مرتضیٰ برلاس کی شخصیت اور فن کے حوالے سے الگ گوشے رکھے گئے ہیں جو واقعی قابل تحسین اقدام ہے۔
مبصر: سحرصدیقی
ماہنامہ ’’فانوس ‘‘
ماہنامہ ’’فانوس‘‘ نے لاہور سے اپنی اشاعت کا آغاز ۱۹۶۰ء میں کیا تھا اور اس کے بانی قدیر شیدائی تھے۔ حال ہی میں اس کا پچاس سالہ ایڈیشن شائع ہواہے۔ جس کے مدیر اعلیٰ محمد شکور اور مدیر خالد علیم ہیں۔ خالد علیم نے اداریے میں اظہارخیال کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’
ہم اپنے قارئین کو پورے وثوق سے یقین دلانا چاہیں گے کہ ہمارے تمام تر منصوبہ جات محض خیال یا قیاس آرائیوں پر مبنی نہیں، اس کو عملی جامہ پہنانے کا ہم مکمل عزم رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورتِ احوال ، معاشرتی و معاشی فضا میں امید و نا امیدی کا مدّو جزر، غیر مستحکم ملکی حالات اور اس کے نتیجے میں ڈوبتے ڈولتے احساسات کی موجودگی میں مقاصد کو عملی جامہ پہنانا ایک خوابِ بے تعبیر کی طرح دکھائی دیتا ہے، تاہم ہم دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مقصدِ خیر کو کامیابی نصیب فرمائے۔ آپ کی دُعائیں بھی ہمارے عزم کو پختہ تر کرنے اور کامیابی میں معاون ثابت ہوں گی۔ ان شاء اللہ!‘‘اس شمارے میں خالد احمد ، حفیظ الرحمن احسن، ڈاکٹر خورشید رضوی ، بشریٰ رحمانی ، ڈاکٹر سیدشبیہ الحسن،اشفاق احمد ورک، نوید صادق، سید کامی شاہ، یعقوب پرواز، شہزاد احمد، ڈاکٹر تحسین فراقی، حامد یزدانی، عارف شفیق، اشرف جاوید، طارق سلطان، خاور اعجاز، مریم عرفان، پرتیا سیمی اور اعجاز احمد نکرال سمیت دیگر اہل قلم کی شعری اور نثری تخلیقات شامل ہیں۔
مبصر: سحر صدیقی
سہ ماہی ’’ذہن جدید ‘‘
از : جمشید جہاں ، جلد : ۲۲ شمارہ ۶۱، نئی دہلی ، بھارت
جمشید جہاں کی ادارت میں زبیر رضوی کا مرتبہ سہ ماہی’’ ذہین جدید ‘‘کا اکسٹھواں شمارہ دہلی سے شائع ہوگیا ہے ۔ ذہن جدید کا یہ شمارہ ن۔ م۔ راشد سلسلہ (۳) کے ذیل میں سات مضامین اور فیض احمد فیض سلسلہ (۲) کے تین مضامین سے مزین ہے ہر دو سلسلہ کے مضامین کا انتخاب نہایت اہم ہے ۔ یہ مضامین راشد اور فیض پر حوالے کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ منشایاد کے پانچ افسانوں کے علاوہ منشایاد کا اپنا ایک مضمون ’’ کچھ اپنے اور افسانوں کے بارے میں ‘‘ بھی شامل اشاعت ہے۔ اس طرح ’’ ناقدین اور منشایاد ‘‘ میں مختلف ناقدین فن کے منشایاد کی شخصیت اور فن پر نقطہ نگاہ کو مختصراً بلا تبصرہ پیش کیا ہے نیز منشایاد پر ڈاکٹر اقبال آفاقی کا ایک مضمون ’’ وقت سمندر تپسیا کااعجاز ‘‘ کے عنوان سے شامل شمارہ ہے۔ دیگر مندرجات میں معروف شعراء کی درجن بھر غزلوں کے علاوہ مضامین ، عالمی ادب ، سنگیت ، طنزیہ ، تھیٹر، مصوری، رقص اورفلم کے ذیل میں ہر ایک پر دو یا تین مضامین علم وفن کے کئی ایک شعبوں سے وابستہ افراد کی تشنگی دور کرنے کے لیے موجود ہیں۔
’’
نو پاکستانی خواتین کے افسانے ‘‘ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ زبیر رضوی نے ذہین جدید میں خواتین افسانہ نگاروں پر ایک سلسلہ شروع کیا تھا جسے کتابی صورت میں یکجا کیا جارہا ہے۔ عالمی ادب کے گوشے ہیں ’’ بغداد بے رحم نہیں ہے ایک مطالعہ ‘‘ یاسمینیا خضرا کے ناول ’’ The Siren of Baghdad‘‘کا قیصر سلیم کے اُردو ترجمہ پر ایک مطالعہ ہے۔ اس مضمون میں عالمی ادب کی ایک جھلک نظر آتی ہے اور عراق میں ڈھائے گئے امریکی مظالم وبربریت کی کہانی عینی شاہد کی ز بانی سننے کا موقع ملتا ہے۔ طنز ومزاح پر ذہن جدید کا سلسلہ کچھ توقف کے بعد نصرت ظہیر کی آمادگی پر دوبارہ چل پڑا ہے۔ اسی طرح فلمی ستاروں کے لیے بھی ایک گوشہ مخصوص ہے۔
مبصر : نور محمد
سہ ماہی : تعلیمی زاویے
مدیر اعلیٰ: پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم خالد
شمارہ نمبر ۱، جلد نمبر ۲۳ ، پاکستان ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ، اسلام آباد
پاکستان ایجوکیشن فا ؤنڈیشن کا سہ ماہی تحقیقی و علمی جریدہ تعلیمی زاویے پروفیسر ڈاکٹرابراہیم خالدکی ادارت میں شائع ہوگیاہے جو کہ بیس کے قریب مضامین سے مزین ہے۔موجودہ حالات میں اساتذہ جس قسم کے مسائل سے دوچار ہیں انھیں اداریے میں بڑی خوبصورتی سے سمو دیا گیاہے اور ساتھ ہی ان مسائل سے نمٹنے کے لیے چند تجاویز بھی دی ہیں۔
قومی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے’’ جہا لت اور تعلیم‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں بڑے موئثر پیرائے میں کسی معاشرے کے لیے تعلیم کی ضرورت اور اہمیت، خاص طور پر سائنس اور ٹکنالوجی کے حوالے سے علوم و فنون کو عام کرنے کی ضرورت پردیا ہے اور ان میں بہتری لانے کے لیے اقدامات سے آگاہی بھی فراہم کی ہے جبکہ ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے ’علم پر مبنی معیشت کی تشکیل ضروری ہے کے تحت اپنے ا یک مضمون میں facts & figureکی بنیاد پرمعاشی ترقی کے حوالے سے بات کی ہے اور اس امر کو ضروری قرار دیا ہے کہ علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کے لیے حکومت کو انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کے بجائے تعلیم یافتہ کارکنوں کے اعلٰی معیار کی تشکیل پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔نیز انھوں نے ایچ ای سی اور گزشتہ دور حکومت میں اس حوالے سے منظور کی گئی تجاویزکا حوالہ بھی دیا
ڈاکٹر محمداجمل کا’ تعلیم، تعلیمی ادارے اور پاکستانی معاشرہ ‘ ،مہناز اختر کا’فرانس میں اعلٰی تعلیم کا نظام‘ محمدعمرچھاپرا کا ’عالمگیریت:اسلام کی نگاہ میں‘ اور محمد سلیم کا مضمون ’آج کا استاد، مجسمہ نمود و نمائش ، خاصے معلومات افزا ہیں۔تعلیمی زاویے کے دیگر سبھی مضامین بھی تعلیمی نقطہ نگاہ رکھتے ہیں اورتعلیم کے حوالے سے مسائل ،امکانات اور آراء پر مبنی ہیں اور خاصا مواد لیے ہوئے ہیں۔
تعلیمی زاویے کی خاص بات علم و ادب سے وابستہ اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ حکومتی شخصیات کے انٹرویو بھی ہیں، ایسی شخصیات کی آراء اوران کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ تعلیم و ادب کے حوالے سے اہم حکومتی اقدامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔علاوہ ازیں تعلیمی زاویے میں شامل بین الاقوامی شہرت کے حامل ادیبوں اور دانشو روں کے فرمودات طالب علموں کے لیے ایک اچھا سلسلہ ہے۔
مبصر: نور محمد
ارضِ ملتان
مدیر اعزازی: رضی الدین رضی
شمارہ : ۲ ، زیر اہتمام : کاروان ثقافت
اپنے پہلے شمارے کی بھرپور پذیرائی کے بعد ارض ملتان کا دوسرا شمارہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ اپنے سرورق پر اس خوبصورت شعر سے مزین :
ھُن تھی فریدا شاد وَل
مونجھاں کوں نہ کر یاد وَل
جھوکاں تھیسن آباد وَل
ایہہ نیں نہ واھسی ہک منٹیں
خواجہ غلام فرید ؒ کے رنگ میں رنگا ہوا یہ شمارہ اولیاء اللہ کی سرزمین ملتان میں تصوف کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب میں ادب کی بھرپور آبیاری کرتا بھی نظر آتاہے۔
تصوف کے ذیل میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں شعبہ فلسفہ کے سربراہ ڈاکٹر محمد امین کا مضمون ’’ تصوف میں ملتان کی خدمات‘‘ میں انھوں نے برصغیر پاک وہند میں تصوف کے حوالے سے ملتان کی اہمیت واولیت کو بڑے مدلل اور جامع انداز میں بیان کیا ہے اور اس کے ثبوت میں تاریخی حوالے بھی دیے ہیں اور لکھا ہے کہ دورِ اول کے صوفی بزرگ حضرت دیوان چاولیؒ جن کا لقب حاجی شیر تھا کے مزار پر بڑے بڑے بزرگان دین مثلاً حضرت بہاء الدین زکریاؒ ملتانی ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ اور حضرت لعل شہباز قلندر ؒ جیسے اولیاء اللہ نے چلہ کشی کی اور فیض حاصل کیا۔
حصہ تاریخ میں ’’ ملتان کے نابود قبرستان ‘‘ کے عنوان سے مضمون میں حنیف چوہدری نے ملتان اور گردونواح کے قبرستانوں کا بڑی کامیابی سے کھوج لگایا ہے اور اہل ملتان اور رفتگاں کا کھوج لگانے والوں کے لیے قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ اگر مزید کھوج لگایا جائے تو اس ضمن میں اور بھی خزانے مل سکتے ہیں۔
ادب کے ذیل میں معروف محقق، نقاد ، ماہر تعلیم اور افسانہ نگار ڈاکٹر انوار احمد کا ’’ ارض ملتان ‘‘ کے لیے بھیجا گیا ڈرامہ ’’ تیر پیالہ اورالنگ ‘‘ شامل اشاعت ہے۔ ڈرامے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملتان کی تاریخ کو سمو دیاگیا ہے اور ساتھ اس تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے بخیے بھی ادھیڑے گئے ہیں۔ انھوں نے ملتان اور جنوبی پنجاب سے لگاؤ رکھنے والے قارئین اور قاہلِ علم کی کئی جہتوں اور حوالوں سے صحیح معنوں میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔
’’
خواجہ غلام فرید ؒ اور ملتان ‘‘ میں محمد سعید احمد نے خواجہ غلام فرید ؒ کے حالات زندگی اور شعری محاسن پر گفتگو کی ہے اس طرح جنو بی پنجاب کی تہذیب وثقافت اور فنون پر دیگرمضامین قارئین کے ایک وسیع حلقے کی ذہنی تشفی کے لیے کافی ہیں۔
رنگ پور میں پاکڑہ دور کے آثار ، لیہ ۔۔۔ قدیم روایتوں کا امین اور استاد توکل حسین خاں۔۔۔ برصغیر کا طلسماتی گائیک جیسے متنوع مضامین کے ساتھ مدیر اعزازی رضی الدین رضی کی ادارت میں ’’ ارض ملتان ‘‘ جنوبی پنجاب کی تاریخ ، تہذیب وثقافت اور ادب کی مکمل آئینہ داری کرتا نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ یہاں کے ادب اور تہذیب وثقافت کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
مبصر: نور محمد خاور
تحقیقی و تنقیدی مجلہ معیار
تحقیقی و تنقیدی مجلہ ’’ معیار ‘‘ شعبہ اردو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام شائع ہونے والے پیش نظر شمارے میں غالب ،اقبال اور راشد پر خصوصی گوشے بنائے گئے ہیں۔ نومبر اور دسمبر اقبال اور غالب کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے مہینے ہیں۔ پیش نظر’’ معیار‘‘ کے ساتویں شمارے میں غالب اور اقبال کے بارے کئی اہم مضامین بھی خاص طور شامل کیے گئے ہیں۔ جس میں ’’غالب کی تخلیقی شخصیت کے چند پہلو‘‘ از ڈاکٹر انوار احمد ، اٹھارہ سو ستاون اور غالب کی عملیت پسندی ،از ڈاکٹر خالد اقبال یاسراور غالب کے بعض بیانات کا تنقیدی جائزہ ،از ڈاکٹر محمد یار گوندل کے مضامین کو نمایاں شائع کیا گیا ہے۔ جبکہ اقبال اور جمال الدین افغانی از پروفیسر فتح محمد ملک ،اقبال کے دل درد مند اور فلسطین ۔۔۔کل اور آج ،ازڈاکٹر زاہد منیر عامر ، دور حاضر کے خلاف اقبال کا اعلان جنگ ، ازڈاکٹر شاہد اقبال کامران ،بھارت میں اقبال شناسی ، ازڈاکٹر شفیق نجمی ، آئن سٹائن اور اوس پنسکی کا چارا بعادی تصور ، ازڈاکٹر محمد آصف اعوان ، اور اقبال کا تحقیقی جائزہ اور اقبال : فکروفن کا ایک امتزاج ، ازڈاکٹر عزیز ابن الحسن ، جیسے پر مغز مقالات کے علاوہ اردو تحقیق مغربی پاکستان لیجیسلیٹو اسمبلی میں نفاذ اردو کی کوششیں اشاریہ سازی اصطلاحات زبان میں املاء و تلفظ کی کوششیں ،اردو سند نگاری میں بلوچ اہل قلم کی خدمات جیسے بے شمار مقالات تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک مخزن ہیں۔سات سو کے قریب صفحات پر مشتمل جنوری تا جون ۲۰۱۲ء ، زیر نظر ’’معیار ‘‘ کاساتواں شمارہ ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے دشعبہ اردو کی جانب سے شائع ہونے والے اس تحقیقی و تنقیدی مگر جامع مجلے کو ملک کے ممتاز دانشور ، صاحب علم اور یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر فتح محمد ملک کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے نگران ڈاکٹر ممتاز احمد جبکہ مدیران میں ڈاکٹر رشید امجد اور ڈاکٹر سعدیہ طاہر شامل ہیں۔ اس مجلے کے لیے ar@iiu.edu.pkپر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مبصر:تجمل شاہ
نقاط کا شمارہ ۱۰ نظم نمبر
اُردو دنیا میں رسائل کا بہت اہم کردار رہا ہے۔’’ نقاط‘‘ کا آغاز ۲۰۰۶ء کو فیصل آباد سے ہوا۔ اس کے مدیر قاسم یعقوب اسلام آباد میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ نقاط کی نمایاںContributionجدید ادب اور نئے مباحث ہیں۔ ’’نقاط‘‘ نے دس شماروں میں تخلیقی ادب اور تنقیدی ادب ، دونوں کو نمایاں جگہ دی۔ مگر نقاط کی اصل پہچان تنقیدی مباحث ہی ہیں۔ نقاط کے دس شماروں میں دو خاص نمبر بھی ہیں۔ جن میں ایک ’’ترجمہ نمبر‘‘ اور دوسرا’’نظم نمبر ‘ ‘ہے۔
اُردو جرائد میں ’’جدید نظم‘‘ پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں نقاط سے پہلے صرف دو نظم نمبرز شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک ’’سوغات‘‘ اور دوسرا ’’اوراق‘‘ ہے۔ سوغات کا نظم نمبر ۶۰کی دہائی میں منظر عام پر آیا لہٰذا اس شمارے میں زیادہ تر اس دور کی نظم اور اس سے منسلک گذشتہ منظر نامہ کو پیش کیا گیا ہےْ جب کہ وزیر آغا کے ’’اوراق‘‘ نے ستر کی دہائی کو بھی اپنے تنقیدی مباحث کا حصہ بنایا۔ ’’نقاط‘‘ کے نظم نمبر کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ نظم کے اب تک کے تمام مباحث کو سمیٹتا ہے جس میں اسّی اور نوے کے بعد کا منظر نامہ بھی شامل ہے۔
نقاط ’’نظم‘‘ نمبر میں بہت سے شاعر پہلی دفعہ اپنی مجموعی شاخت کے بعد سامنے آئے ہیں اور آنے والے عہد سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں مختار صدیقی، اختر حسین جعفری، آفتاب اقبال شمیم کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
اسّی کی دہائی میں علی محمد فرشی کو نظم نمبر میں نمایاں جگہ دی گئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس دہائی کے نمایاں لکھنے والوں میں شامل ہیں۔۹۰۴صفحات کے اس نظم نمبر میں ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر عتیق اللہ، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر افتخار بیگ، احتشام علی،عبید اللہ سکھیرا، سفیر حیدر، پرویز انجم، ڈاکٹر بلال سہیل، سیلم سہیل ، ڈاکٹر یاسمین سلطان نے اہم مقالے پیش کئے ہیں جو اپنے موضوعات اور تنقیدی فکریات کے تنوع کی وجہ سے ایک یادگار دستاویز بن گئے ہیں۔اس کے علاوہ پابلو نیرودا اور ڈبلیوایچ آڈن کی نظموں کے تراجم نے بھی اس نمبر کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
مبصر: صفدر رشید