سید محمد سلیمان

اردو ہے جس کا نام

اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ یہ رابطے کی زبان بھی ہے اور ہمارے آئین کے مطابق اسی کو آئندہ ہماری سرکاری دفتری زبان بھی ہوناہے ۔ آج جتنے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ،ان کی ترقی ان کی قومی زبان ہی کی مرہون منت ہے کیوں کہ قومی زبان ہی کسی ملک کی یکجہتی ، سلامتی اور سیاسی و معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے ۔ قائد اعظم محمد علیؒ جناح اپنی بصیرت اور فراست کی بنا پر اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ اسی لیے انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں اردو کے حق میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیا تھا ۔ قائد ملت لیاقت علی خاں نے بھی واضح الفاظ میں کہا تھا : ’’صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ اردو بولیں گے اور اردو لکھیں گے ۔ اردو میں اپنے بچوں کوتعلیم دیں گے اور اپنی زبان کو سوائے اردو کے اور کچھ نہیں کہیں گے ۔‘‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اردو زبان کا دامن اتنا وسیع نہیں کہ اعلیٰ تعلیم بالخصوص سائنسی و فنی تعلیم اس زبان میں دی جا سکے لیکن یہ محض ایک عذر لنگ ہے ۔ پاکستان بننے سے بہت پہلے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں تمام علوم کی تعلیم اردو میں دی جاتی تھی ۔ جب اس وقت ایسا ممکن تھا تو آج کیوں نہیں ۔وہ لوگ جو اردو کی تنگ دامانی کی بات کرتے ہیں ، درحقیقت احساس کمتری اور خود فریبی میں مبتلا ہیں۔
علامہ اقبال کہہ چکے ہیں کہ :
خندہ زن ہے غنچۂ دل گلِ شیراز پر
اور غالب نے تو اس سے بھی بہت پہلے کہا تھا۔ ؂
جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رشک فارسی
گفتۂ غالب ایک بارپڑھ کے اسے سنا کہ یوں
غالب کے مندرجہ بالا شعر میں مبالغہ ہے نہ تعلی بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جسے متاخرین نے تسلیم کیا ہے ۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے ایک شعر کا حوالہ اوپر دیا گیا اور خواجہ الطاف حسین حالی جیسا عظیم نقادغالب کو رشک عرفی و فخر طالب کہتا ہے ۔ حالی مزید کیا کہتے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیے ۔
قدسی و صائب و اسیر و کلیم
لوگ جو چاہیں ان کو ٹھہرائیں
ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے
ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں
غالب نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت
غالب کے کلام کی خوبیوں کو دیکھ کر ہی علامہ اقبال کو کہنا پڑا : ؂
نطق کو سوناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محوحیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
فارسی کے ساتھ اردو کے موازنے کی بات محض سرراہ تھی ورنہ فارسی سے اردو کا موازنہ کرنا ہمارا مقصود نہیں۔ ہمیں تو عربی اور خاص کر انگریزی زبان سے موازنہ کرنا ہے کیونکہ عام طور پر لوگ ان زبانوں کی وسعت کے معترف ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ عربی میں اونٹ کے لیے اتنے سو الفاظ ہیں یا انگریزی میں کتے کے لیے اتنے سو الفاظ ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ اردو کی بے بضاعتی ظاہر کرنا چاہتے ہیں ۔ اول تو ان حضرات کی اس بات میں جو مبالغہ ہے وہ اظہر من الشمس ہے ۔ دوم یہ کہ اگر واقعتا ان زبانوں میں جانوروں کے لیے اتنے الفاظ ہیں تو یہ کون سی ایسی بات ہے جس پر فخر کیا جا سکے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسانوں کے بارے میں ان زبانوں کا دامن اردو کے مقابلے میں کتنا وسیع ہے ۔ ہم ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔
انسانی رشتے : عربی زبان میں دادا اور نانا کے لیے علیحدہ علیحدہ الفاظ نہیں ۔ دونوں کو ’’ جد ‘‘ کہتے ہیں ۔ پھر دادا کی وضاحت کرنے کے لیے اس کے آگے ’’ من قبل ابیہ ‘‘ اور نانا کے لیے ’’ من قبل امہ ‘‘ کہہ کر اپنا مطلب واضح کرتے ہیں ۔ اسی طرح دادی اور نانی دونوں کو عربی زبان میں ’’جدہ‘‘کہتے ہیں۔ خالو ، پھوپھا، چچی اور ممانی کے لیے عربی زبان میں کوئی لفظ نہیں ۔ اسی طرح سالے ، بہنوئی ، نند ، بھاوج ، جیٹھ ، دیور، جٹھانی، دیورانی ، نندوئی وغیرہ کے لیے کوئی لفظ نہیں ، بھانجے ، بھتیجے کے لیے کوئی لفظ نہیں ۔ ساڑھو (ہم زلف) کے لیے کوئی لفظ نہیں ۔ سمدھی اور سمدھن کے لیے کوئی لفظ نہیں ۔
اب انگریزی زبان کو لیجیے ۔ اس میں بھی دادا اور نانا کے لیے علیحدہ الفاظ نہیں، دونوں کو Grand Father کہتے ہیں ۔ دادی اور نانی کے لیے علیحدہ الفاظ نہیں، دونوں کو Grand Mother کہتے ہیں ۔ خالہ ،پھوپھی، چچی اور ممانی کے لیے علیحدہ الفاظ نہیں ، سب کو Aunt کہتے ہیں ۔ چچا ، ماموں ، خالو اور پھوپھا سب کو Uncle کہتے ہیں ۔ علاتی ، اخیافی اور رضاعی بھائی بہنو ں کے لیے کوئی لفظ نہیں۔ اسی طرح دیگر رشتوں، جو اوپر بیان ہوئے ، کے لیے بھی انگریزی زبان میں علیحدہ علیحدہ الفاظ نہیں ۔ جب کہ اردو میں ان تمام رشتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ الفاظ ہیں ۔ پھر کس زبان کا دامن زیادہ وسیع ہوا۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :
’’ عربی زبان نہایت وسیع ہے ۔ باوجود اس کے جن چیزوں کو تمدن اور اسباب معاشرت سے تعلق ہے، ان کے لیے خاص عربی زبان میں الفاظ نہیں ملتے بلکہ ایران یا روم سے مستعار آئے ہیں ۔ سکہ کے لیے ایک لفظ بھی موجود نہیں ۔ درہم اور دینار دونوں غیر زبان کے الفاظ ہیں ۔ درہم، یونانی لفظ درخم ہے اور انگریزی میں ڈرام ہو گیا ہے ۔ چراغ معمولی چیز ہے تاہم اس کے لیے عربی میں کوئی لفظ نہ تھا ۔ چراغ کو لے کر سراج کر لیا ۔ پھرایک مصنوعی لفظ بنایا مصباح ، یعنی ایک آلہ جس سے صبح بنا لی جاتی ہے ۔ کوزہ کے لیے کوئی لفظ نہیں ۔ کوزہ کو کوز کر لیا ہے ۔ لوٹے کو ابریق کہتے ہیں جو آب ریز کا معرب ہے ۔تشت فارسی لفظ تھا اس کو عربی میں طشت کر لیا ہے ۔ پیالہ کو کاس کہتے ہیں ۔ یہ وہی کاسہ فارسی لفظ ہے ۔ کرتہ کو عربی میں قرطق کہتے ہیں، یہ بھی فارسی ہے ۔ پائجامہ کو سروال کہتے ہیں جو شلوار کی بگڑی ہوئی صورت ہے ۔ جب ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے لفظ نہ تھے تو تمدن کے بڑے بڑے سامان کے لیے کہاں سے لفظ آتے ۔‘‘ ( سیرت النبیؐ ۔ جلد اول ۔ صفحہ ۱۱۲)
حروف تہجی کی کثرت تعداد میں بھی نہ عربی زبان اردو کا مقابلہ کرتی ہے اور نہ انگریزی زبان ۔ عربی زبان میں پ ، ٹ ، چ، ڈ، ڑ، ژ اور غ کی آوازیں ادا کرنے کے لیے کوئی حرف نہیں ۔ اسی طرح بھ ، تھ، پھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، کھ ، گھ کے لیے بھی عربی زبان میں کوئی حرف نہیں ہے ۔ انگریزی زبان میں ت کی آواز کے لیے کوئی حرف نہیں ۔ ت اور ٹ دونوں کی آواز کے لیے صرف ایک حر فT (ٹی) ہے ۔ خ ، غ اور ق کی آوازوں کے لیے انگریزی میں کوئی حرف ہے ہی نہیں ۔ چ ، د اور ش کے لیے کوئی حرف نہیں بلکہ دو حرفوں کو ملا کر ان کا تلفظ ادا کیا جاتا ہے ۔ چ کے لیے CH ، د کے لیے TH ۔
اس زبان کے علاوہ اردو زبان میں ایسا تو ہے کہ ایک جیسی آوازوں کے لیے متعدد حروف ہیں ، مثلاً ذ، ز ، ض ، ظ اور ث ، س اور ص۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی حرف کی آواز مختلف الفاظ میں مختلف ہو البتہ انگریزی میں ایسا ہے ؛ مثلاً
(۱) Ch کی آواز Charm اور Choose میں ’’ چ ‘‘ کی ہے ۔ Chorus میں ک کی ہے اور Chef ، Chute اور Chaufeur میں ’’ ش ‘‘ کی ہے ۔
(۲) D کی آواز dear میں ’ ’ڈ‘‘ کی ہے جب کہ education اور graduate میں ’’ ج ‘‘ کی ہے ۔
(۳) G کی آواز get ، gear اور geyser میں ’’ گ ‘‘ کی ہے جب کہ gem وغیرہ میں ’’ ج ‘‘ کی ہے ۔
(۴) T کی آواز tea میں ٹ کی ہے اور nature میں چ کی ہے ۔
(۵) Th کی آواز then میں ’’دھ ‘‘ کی ہے اور thank میں ’’تھ‘‘ کی ہے ۔
روزمرہ: اب ذرا روزمرہ کی بات چیت کو لیجیے ۔ کسی کو مخاطب کرنے کے لیے اردو میں مختلف درجوں کے لیے مختلف الفاظ ہیں ۔ مثلاً تو ، تم اور آپ ۔ اس کے مقابلے میں انگریزی میں صر ف دو لفظ ہیں thou اور you جب کہ عربی میں صرف ایک ہی لفظ’انت‘ ہے ۔ اسی طرح کسی کو بلانے کے لیے اردو میں مختلف الفاظ ہیں ؛ جیسے آ، آؤ، آئیے ، تشریف لائیے ، جب کہ عربی زبان میں صرف ایک لفظ ہے ’تعال‘ اور انگریزی میں بھی ایک لفظ come ہے ۔ پھر اردو کے مقابلے میں عربی اور انگریزی کی وسعت کا دعویٰ کس برتے پر؟
ابھی کچھ دن پہلے میں ایک مضمون کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کر رہا تھا تو مجھ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ انگریزی زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو ’’شرم و حیا‘‘ کا مفہوم کلی طور پرادا کر سکے ۔ اسی طرح ’’ سمجھانے ‘‘ کے لیے انگریزی کا کوئی لفظ میرے علم میں نہیں ۔
علامہ سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں :
’’ ایک گریجویٹ مسلمان کی کسی انگریز سے بحث ہو گئی ۔ انگریز نے اپنی زبان کی وسعت اور ہمہ گیری کا دعویٰ کیا۔ اس پر مسلمان نے کہا انگریزی زبان میں لفظ پاک کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے ۔ انگریز کہنے لگا کیوں نہیں ۔ لفظ ہولی (holy) سے یہ مفہوم ادا ہوتا ہے ۔ مسلمان نے کہا ہرگز نہیں ۔ یہ لفظ مقدس کی ترجمانی کرتا ہے ۔ لفظ طاہر کے معنی نہیں دیتا۔ پھر انگریز نے اس کی جگہ کلین (Clean) پیش کیا۔مسلمان نے کہا یہ بھی صحیح نہیں ۔ کلین صاف کے معنی میں آتا ہے طاہر کے معنی میں نہیں ۔ ہو سکتا ہے ایک چیز صاف ہو مگر طاہر نہ ہو جیسے ناپاک پانی سے دھویا ہوا کپڑا ، اور ممکن ہے کوئی چیز صاف نہ ہو مگر پاک ہو جیسے گردآلود میلا کپڑا ۔ تو جن قوموں کے یہاں یہ لفظ ہی نہیں وہ پاک اور اس کے بالمقابل نجس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ‘‘ ( اخبار اردو ۔ اگست ۲۰۰۷ء)
اردو زبان کے دامن کی تنگی کا شکوہ اس لیے بھی درست نہیں کہ اردو زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمولینے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے ۔ عربی ، فارسی ، ہندی ، ترکی ، انگریزی ، سنسکرت وغیرہ کے بے شمار الفاظ کو اردو نے اس خوبی سے اپنا یا ہے کہ وہ بالکل اجنبی نہیں لگتے ۔ وہ زبان جو دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمونے کی اس قدر صلاحیت رکھتی ہو اس کا دامن تنگ کیسے ہو سکتا ہے؟ شان الحق حقی لکھتے ہیں :
’’ اردو زبان ایک مجمع ا لبحور ہے جس کے الفاظ و اسالیب کی فراوانی سے کم ہی زبانیں مقابلہ کر سکتی ہیں ۔ دوسری گوناگوں سہولتوں کے ساتھ اس میں تین بڑی خصوصیات ہیں جن کا ذکر یہاں بے محل نہ ہو گا۔ اول یہ کہ اس کی صوتیات (phonetic range) عربی ، فارسی ، انگریزی ہر زبان سے بڑھ کر اور زیادہ جامع ہیں ۔ چنانچہ یہ اکثر دوسری زبانوں کے الفاظ کو جوں کا توں اپنا سکتی ہے۔ تعریب ، تفریس کی طرح تارید چنداں ضروری نہیں ہوتی۔۔۔ دوسرے اس میں نئے مصدر ڈھالنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے جو عربی ، فارسی اور انگریزی میں نہیں۔ ان زبانوں کے مادے اور مصادر لگے بندھے ہیں اور ان کے معنی بہر حال محدود۔۔۔۔ تیسرے یہ کہ اس میں سابقوں لاحقوں کی تعداد غالباً ہر زبان سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس نے کئی شائستہ زبانوں کے اسالیب کو اپنالیا ہے ۔ انگریزی میں گنے چنے سابقے اور لاحقے مستعمل ہیں جو اس نے یونانی اور لاطینی سے لیے ہیں ۔ بر خلاف اس کے اردو میں ان کی گنتی آسان نہیں ہے ۔ یہ موضوع ایک علیحدہ تالیف کا محتاج ہے ۔۔۔ اس کی چوتھی خصوصیت اس کی ترکیب نحوی ہے جو ایک آغوش کشادہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر بیرونی لفظ کو آسانی سے سما لیتی ہے ۔۔۔ ‘‘ (نقد و نگارش ملخصاً صفحات ۱۳۷۔۱۳۸ )۔
دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینا ایک بہت بڑی خوبی ہے اور زندہ زبان کی پہچان ہے ۔ خود انگریزی زبان میں یونانی اور لاطینی زبانوں کے بے شمار الفاظ موجود ہیں ۔ طبی اور سائنسی اصطلاحات زیادہ تر انہی زبانوں کے الفاظ سے بنائی گئی ہیں ۔ خود اردو زبان کے بے شمار الفاظ انگریزی میں مستعمل ہیں ۔ ہوبسن و جوبسن(Hobson & Jobson) کی ڈکشنری ہزار صفحے کی کتاب ہے اور اس میں وہ الفاظ درج ہیں جو انگریزی زبان میں دوسری زبانوں سے لیے گیے ہیں ۔
اردو ایک زندہ زبان ہے اور ایک بین الاقوامی زبان میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ اس میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ جارج کیمبل تحریر کرتے ہیں : ’’اس میں ایک خاص خوبی یہ ہے کہ جو کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتی کہ دوسری زبانوں کے الفاظ بلا کسی تغیر یا تخفیف اپنے میں جذب کر لیتی ہے اور پھر وہ لفظ اسی کے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
مسٹر ونسنٹ اسمتھ مصنف ہسٹری آف انڈیا اپنی کتاب کے آخر ی باب میں لکھتے ہیں : ’’ زبان اردو جو ہماری زبان انگریزی سے باعتبار اپنی سادگی اور قواعد صرف ونحو کی نرمی اور کثرت الفاظ کے بہت مشابہ ہے ، ضرور اس قابل ہے کہ تمام مطالب ، عام اس سے کہ وہ ادبی ہوں یا فلسفیانہ یا سائنٹفک ، اس میں ادا کیے جائیں۔ ‘‘ ( تاریخ ادب اردو مصور ۔ رام بابو سکسینہ، مترجم مرزا محمد عسکری ۔ مطبع نولکشور لکھنؤ ، حصہ نثر صفحہ ۱۶۷۔۱۶۸)
محترمہ رابعہ سرفراز لکھتی ہیں :
’’ اردو زبان کی تنگ دامانی ، ذخیرۂ الفاظ کی کمی اور معیاری تراجم کی عدم دستیابی کی شکایات اب بہت پرانی اور فرسودہ ہو چکی ہیں ۔ ۔۔۔ اردو زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہم معنی اور مترادف الفاظ کثیر تعداد میں موجو دہیں ۔ اس طرح تحریر و تقریر میں انتخاب کی سہولت پیدا ہوتی ہے ۔ دیگر زبانوں ، خصوصاً انگریزی ، میں مترادفات کی اتنی کثیر تعداد موجود نہیں ہے۔ ‘‘ (اخبار اردو ، جولائی ۲۰۰۸ء )
پروفیسر سید وقار احمد رضوی لکھتے ہیں :
’’ یہ خیال غلط ہے کہ اردو زبان تہی داماں ہے اور یہ کہ وہ سائنسی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اردوایک مکمل اور جامع زبان ہے اور اس میں ذریعہ تعلیم بننے کی جملہ صلاحیتیں موجود ہیں ۔ اردو نہ صرف ذریعہ تعلیم بن سکتی ہے بلکہ اس میں سرکاری ، دفتری ، عدالتی ، تعلیمی اور کاروباری حلقوں میں رائج ہونے کی بھر پور صلاحیت ہے ۔ دہلی کالج ؛ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد(دکن) ؛ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اردونہ صرف ذریعہ تعلیم بن سکتی ہے بلکہ سائنس پڑھانے کے لیے نہایت موزوں ہے ‘‘۔ (اخبار اردو ، جنوری ۲۰۰۷ء)
شان الحق حقی صاحب اردو اور انگریزی املا کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ انگریزی زبان میں بہت ساری کوتاہیاں ہیں جو اردو زبان میں نہیں۔انگریزی کا املا ناقص ہے ۔ املا اور تلفظ میں کوئی مناسبت یا مطابقت نہیں ہے۔ انگریزی بے قاعدہ اور محدود دائرہ رکھنے والی زبان ہے ۔ ہم تو ’’ت ‘‘ اور ’’ د ‘‘ کے بغیر کوئی جملہ نہیں بول سکتے اور انگریری میں ’’ ت ‘‘ اور ’’د ‘‘ تک نہیں ہیں ۔ ’ خان‘ آپ نہیں لکھ سکتے اسے کھاں یا کان پڑھیں گے ۔ آپ ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ انگریزی میں لکھیں گے تو آپ ’’ پاکسٹان زنڈہ باڈ ‘‘ ہی لکھ اور پڑھ سکیں گے ۔ کتنی ہی آوازیں ہیں جو عربی ، فارسی اور ہندی میں بھی نہیں ہیں لیکن ہماری زبان اردو میں موجود ہیں۔‘‘
اردو پاکستان اور بھارت کی زبان تو ہے ہی لیکن باہر کے ملکوں میں بھی یہ خوب بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ دبئی کے شیخ خوب اردو بولتے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ میں بھی یہ رابطے کی زبان کا کام دیتی ہے ۔ بنگلہ دیش میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ اب تو یورپ اور امریکا میں بھی اردو بولنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔ رالف رسل (Ralph Russel) لکھتے ہیں :
Since independence, large scale migration of urdu speakers has extended the range of the language far and wide to the Arab countries; to Western Europe and to North America . In Britain it is , after English, perhaps the language most widely spoken and understood, and the community of Urdu speakers is large enough to support a thriving national daily newspaper, more than one weekly, and numerous (often ephemeral) small literary periodicals. (The pursuit of Urdu Literature. A Select History,Ralph Russel, Oxford University Press. 1992. p.2)
یورپ اور امریکہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ وہاں ان کی اپنی انجمنیں ہیں ۔ یہ لوگ وہاں ادبی محفلیں بھی سجاتے ہیں ۔ مشاعرے بھی کراتے ہیں ۔ اردو کے اخبار و رسائل بھی نکالتے ہیں اور حتی المقدور اردو کی خدمت کر رہے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیر ( الماتی قزاقستان ) لکھتے ہیں :
’’ ڈاکٹر عطش درانی نے Collin's Encyclopaedia اور of Records Guinness Book کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ اردو بولنے اور سمجھنے کے لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے جب کہ چینی پہلے نمبر پر اور انگریزی دوسرے نمبر پر آتی ہے ۔ یہ اعداد و شمار نوے کی دہائی کے ہیں۔ اب منظر نامہ بدل چکا ہے اور محمداسلام نشتر نے اردو کو دنیا کی دوسری بڑی زبان کہا ہے ۔ پاکستان کے علاوہ یہ زبان بنگلہ دیش ، سری لنکا ، ایران ، افغانستان ، عرب اور خلیجی ممالک ، انگلستان ، کینیڈا ، امریکہ ، اسپین ، فرانس ، ہالینڈ ، جرمنی ، ڈنمارک ، ناروے ، سویڈن ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ ، گنی ، سری نام ، فجی ، ماریشس، ٹرے نیڈاڈ ، مالدیپ وغیرہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ ’’ ( اخبار اردو ، اپریل ۲۰۰۹ء ) ۔
محمد اسلام نشتر لکھتے ہیں :
’’ سب جانتے ہیں کہ کئی ایک بین الاقوامی لسانی جائزوں کے مطابق اردو چینی زبان کے بعد دوسرے نمبر پر تسلیم کی جاتی ہے ۔ آج اردو دنیا کے تمام براعظموں کے کم و بیش ساٹھ ممالک میں لکھی ، بولی ، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے ’’ ۔ ( اخبار اردو ۔ اپریل ۲۰۰۷ء )
یہ تو ثابت ہو گیا کہ اردو ایک بہت وسیع اور زندہ زبان ہے ۔ منجملہ اور بہت سی خوبیوں کے اس کی دو خوبیوں کا خصوصی تذکرہ ضروری ہے ۔ اول یہ کہ اردو زبان سیکھنے میں بہت آسان ہے اور اپنی اسی خوبی کی وجہ سے یہ رابطے کی زبان بننے میں کامیاب ہوئی ہے۔ دوم یہ کہ یہ زبان بہت میٹھی ہے ۔
رالف رسل لکھتے ہیں :
" Many who understand very little of it will tell you that Urdu is a sweet language and will listen enthusiastically to the Urdu songs which feature permanently in the mass circulation films of India's huge film industry" (Ralph Russel ; The Pursuit of Urdu Literature, P.2)
علامہ آئی آئی قاضی لکھتے ہیں :
’’آنکھیں رکھنے والے لوگوں کے لیے اردو ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، وسیع المشربیت اور بین الاقوامی قومیت کی علامت ہے اور ایک ایسا نقطہ ہے جس پر دنیا کی بڑی تہذیبیں یعنی ہند ، جرمنی ، سامی اور منگول تہذیبیں آ کر ملتی ہیں اور جسے ایشیا کی زبان عامہ (Lingua Franca) بننا ہے ۔ یہ دنیا کی ان بنیادی زبانو ں میں سے ہو گی جن سے ساری دنیا کے لیے ایک بین الاقوامی زبان اسپرانتو (Esperanto) کی تعمیر و تشکیل ہو گی ۔ ‘‘ ( اردو ۔ قومی یکجہتی اور پاکستان ص ۱۶۵ انجمن ترقی اردو پاکستان )
نواب مرزا داغ دہلوی نے کہا تھا : ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے ‘‘ ۔ میں اس میں تھوڑا سا تصرف کر کے اس طرح کہتا ہوں :
’’ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے ۔ ‘‘