افسانہ نگار ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا نور احمد فریدی کی یاد میں
ڈاکٹر اسلم عزیز درانی


جنوبی پنجاب کی دھرتی بڑی مردم خیز ہے۔ اس کی مٹی سے بڑے بڑے نابغوں نے جنم لیا جنھوں نے علوم و فنون کے علاوہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنی صلاحیت اور لیاقت کا لوہا منوایا۔
۱۵ ستمبر ۱۹۰۸ء کو اسی زمین سے ایک ایسی روشن اور جگمگاتی ہوئی شخصیت نے جنم پایا جس نے اپنی علمیت، ذہانت، صلاحیت، محنت اور ریاضت سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے اپنے نام کو محفوظ کر لیا۔ اس محترم اور معتبر شخصیت کا نام ہے مولانا نور احمد فریدی جس کے علم اور بصیرت کے چراغوں سے آج بھی ہم اکتسابِ نُور کر رہے ہیں۔
وہ عالم دین بھی تھے اور مدرس بھی۔ وہ صحافی بھی تھے اور مدیر بھی۔ وہ مؤرخ بھی تھے اور مترجم بھی۔ وہ مصنف بھی تھے اور مؤلف بھی، وہ ادیب بھی تھے اور محقق بھی۔ وہ نقاد بھی تھے اور مدیر بھی، وہ ماہر اسلامیات بھی تھے اور ماہر فریدیات بھی گویا ہشت پہلو شخص تھے۔ اُن کی علمی و ادبی شخصیت کی کئی جہتیں اور پرتیں تھیں اور ہر جہت مؤقر اور مؤثر اور ہر پرت جاذبِ نظر اور پر اثر۔ انھوں نے زندگی کو اور اس کے ہر پَل کو مکمل دیانتداری سے برتا اور پورے اخلاص کے ساتھ اہلِ نظر کے سامنے قلم کی نوک سے پیش کر دیا۔ کیونکہ وہ قلم کی نوک کو زبانِ ضمیرِ آدم سمجھتے تھے۔۔۔۔ مولانا نور احمد فریدی جیسی بے بدل ہستیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں اور ایک عہدکو متاثر کرتی ہیں۔ وقت انھیں ہمیشہ اپنے ماتھے کا جھومر بناکر رکھتاہے اور تاریخ انھیں ہمیشہ خراج پیش کرتی ہے۔
اُن کی علمی و ادبی شخصیت کے اَن گنت پہلو ہیں۔ آج کی محفل میں میں ان کی افسانہ نگاری کا تذکرہ کروں گا۔
۱۹۴۱ء سے قبل وہ ادب، اسلامیات، تحقیق اور تاریخ کی آبیاری میں مصروف تھے اور تحقیق و تدقیق کے ریگزاروں میں ’’کیکٹس کے گلاب‘‘ چننے میں مصروف عمل تھے مگراچانک سمندِ ذہن کی باگ موڑی اور افسانے کے مرغزاروں اور لالہ زاروں کی گل گشت کے لیے آ پہنچے اور اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کو ثقہ اہل قلم اور اہل نظر سے منوایا۔
یہ وہ دور تھا جب ترقی پسند تحریک کی بدولت اردو افسانہ رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ انسانی معاشرت اور سیاسی، معاشی ، سماجی اور نفسیاتی زندگی کا ہر لمحہ، ہر لحظہ ، ہر پہلوسمٹ کر افسانے کا موضوع بن رہا تھا اور اردو افسانہ عالمی افسانے سے آنکھ ملانے لگا تھا۔ اردو ادب کی سر زمین پر افسانہ نگاروں کی ایک کہکشاں اتری ہوئی تھی۔ ایسے میں مولانا نور احمد فریدی بھی بڑی آن بان کے ساتھ افسانہ نگاروں کی محفل میں آ بیٹھے مگر انھوں نے افسانہ نگاروں میں ایک الگ راہ نکالی اور یہ تھی اسلامی تاریخ کے اہم اور روشن اور منور واقعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالنا۔ اسلامی تاریخی ناول نگاری میں بہت سے بڑے نام موجود تھے۔ مثلاً عبدالحلیم شرر، محمد علی طیب ، صادق حسین صدیقی سردھنوی، رئیس احمد جعفری، رشید اختر ندوی، ایم اسلم وغیرہ مگر ’’تاریخی افسانہ‘‘ خال خال لکھا گیا تھا اور اس میدان میں مولانا نور احمد فریدی کو بڑے بڑے اہل قلم نے خراج تحسین پیش کیا اور ان کی ’’اسلامی تاریخی افسانہ نویسی‘‘ کو سند عطا کی۔
عبدالرحیم شبلی بی کام لکھتے ہیں ’’انھوں نے مروجہ افسانہ نگاری کی ڈگر سے ہٹ کر تاریخ اسلام کے بعض درخشندہ واقعات کو افسانوی زبان میں ڈھالا ہے اور اپنی قوت بیان اور شگفتگ�ئ زبان سے ایسا تاثر پیدا کیا ہے کہ ہر افسانے کو بار بار پڑھنے کے باوجود طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ مغل شہنشاہوں کے عدل و انصاف، افغان نوابوں کی سخاوت و مروت، دکنی وبہمنی سپہ سالاروں کے عزم و استقلال کی داستانیں نہایت سادہ و پرکار زبان میں ادا کی گئی ہیں اور لطف یہ ہے کہ ان میں حقیقت کی چاشنی اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے‘‘۔
آگرہ (ہندوستان) کے ایک معروف ادیب حشمت علی کاظمی کی رائے ہے:’’میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی بھی انصاف پسند نقاد’اسلامی افسانے‘ کی افادیت اور اہمیت کو سراہے بغیر نہ رہے گا۔ کیونکہ یہ افسانے جس محنت اور جانفشانی سے لکھے گئے ہیں اتنے ہی کامیاب ہیں۔ ان افسانوں میں شاہان اسلام کے عادات و اخلاق، عدل و انصاف، حِلم و عفو، صداقت و جرأت، حریت و مساوات اور محبت و شجاعت کے بصیرت افروز کارناموں کو نہایت مؤثر اور دلکش انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ بُھولے ہوئے افسانے مایوس اور مردہ دلوں کے لیے پیغام حیات ہیں‘‘۔
شاکر عروجی مدیر ’’پرچم‘‘ لائل پور یوں اظہار کرتے ہیں: ’’مولانا کو فنِ تاریخ سے وابستگی ہی نہیں بلکہ عشق ہے۔ قدرت نے واقعی انھیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ فن تاریخ کی خدمت کریں۔۔۔’’ اسلامی افسانے‘‘جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تاریخ اسلام کا گنجینۂ تابناک ہے اور ہر افسانہ اسلامیات کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے‘‘۔
آزاد شیرازی لکھتے ہیں’’مولانا نے اسلامی افسانوں کو اپنا موضوع بنانے سے پہلے افسانے کی تکنیک اور تنوع کا اچھی طرح مطالعہ کر لیا ہو گا کیونکہ ان کے افسانوں میں پلاٹ ، کرداروں کا انتخاب ، منظر نگاری ، مکالمے اور دوسری تمام چیزیں جو افسانے کے لوازمات کی حیثیت رکھتی ہیں، اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتی ہیں‘‘۔
اردو کے نامور مؤرخ، محقق اور نقاد مولانا حامد حسن قادری نے ان کی تحسین ان اشعار کے ذریعے کی ہے۔
رہے تاریخ کے میدان میں گردش
سمندِ کلک کو ہرگز نہ ٹھہرا
مَے اسلام کے سب جام و خُم ہیں
تری ایک ایک سطر ایک ایک پیرا
پیا اے ساقئ تاریخِ اسلام
بگردش آرا ایں مینا و مے را
مولانا کی افسانہ نگاری اگرچہ مقصدیت کی حامل ہے مگر انھوں نے مقصد کو فن پر غالب نہیں آنے دیا۔ تاریخ اور تخیل کی آمیزش سے ایسے فن پارے تخلیق کیے ہیں جن کے لیے بے اختیار داد و تحسین کے کلمات لبوں پر مچلنے لگتے ہیں۔
الفاظ کی دروبست، تشبیہات و استعارات کا استعمال، بیان کی شگفتگی، واقعات کا تسلسل ، کرداروں کی جاذبیت، ماحول کی آراستگی، فضا کی دلربائی، تاریخ کا بہاؤ، تاریخی شعور کا رچاؤ، مناظر کی تصویر کشی ، نسوانی حسن کی دلکشی، مردانہ جرأت و استقامت، شاہانہ جبروت و جلال، سپاہیانہ رعب و استقلال، نوابانہ کروفر اور طمطراق، انسانی عادات واخلاق، درویشانہ بے نیازی، فقیرانہ درویشی، بلوچی صداقت و غیرت، صحرائی حریت و شجاعت ان کے افسانوں میں ورق ورق میں موجود ہے۔
مولانا کے ہاں تاریخ اور افسانہ یوں بغل گیر ہو گئے ہیں کہ افسانے پر تاریخ کا اور تاریخ پر افسانے کا گماں ہوتا ہے اور یہی افسانہ نگار نوراحمد فریدی کی کامیابی ہے۔
***