کتاب میلہ
تاریخ ا د بیات ملتان


’’
تاریخ ادبیات ملتان‘‘ ڈاکٹر روبینہ تر ین کی کتاب ہے،جو حال ہی میں مقتدرہ قو می زبان کے تعاون سے چھپ کر منظر عام پر آئی ہے۔کتاب کا ہرہر لفظ مصنفہ کی ملتان سے محبت کا عکاس ہے۔ملتان اور ملتان کے گردونواح میں ہونے والے علمی و ادبی کاموں پر مصنفہ کی گہری نظر ہے، وہ لکھتی ہیں کہ : ۔۔۔۔۔۔۔
’’
ملتان میں شعروادب کی تاریخ کا جا ئزہ لیتے ہوئے میں نے کوشش کی کہ اسے محض شعراور نثرنگاروں کا تذکرہ نہ بنا یا جائے بلکہ ا س بات کا کھوج لگایا جائے کہ ادب پر اثرانداز ہونے والے ،اس شہر اور با ہر سے آنے والے لوگ،ادبی تحریکیں اورمرکزی ادبی دھارے سے اخذ وقبو لیت کے عوامل کا جائزہ اس علاقے کے تخلیق ادب سے لیا جائے اور گمنا می کے گو شو ں میں موجود ادب کو بھی تلاش کیا جائے۔ ‘‘
روبینہ ترین نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بابل ،نینوااور مو ئنجوداڑوکا ہم عصر ملتان اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے لحاظ سے دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ شہر تین ہزارسال قبل مسیح بھی آباد تھا۔محمود غزنوی کے حملے کے بعد صو فیائے کرام کی آمد سے یہاں نہ صرف اسلام کی تبلیغ و اشا عت کا سلسلہ شروع ہوا ،بلکہ ایک نئی زبان بھی معرضِ وجود میںآئی۔ یہ نئی زبان بلا شبہ اردو تھی ،جسے صو فیاء نے تبلیغی ضرورتوں کے لئے وسیلۂ اظہار بنایا۔اس طرح تصوف کی ایک مستحکم شعری روایت قائم ہوئی ،جس نے بر صغیر پاک و ہند کی ثقافت پر گہرے اثرات ڈالے ۔ملتان میں اردو شا عری کی ابتداء با رہو یں صدی عیسوی میں بابا فرید گنج شکر کی بدولت ہوئی۔قیام پاکستان سے پہلے ملتان کی شعری روایت کو پر کھنے کے لئے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا دور۔۔۔۱۱۶۴ء۔۱۷۰۰ء۔۔۔۔۔۔ دوسرا دور ۔۔۔۱۷۰۰ء۔۱۸۴۵ ۔۔۔ تیسرا دور ۔۔۔۔۔ ۱۸۴۵ء ۔ ۱۹۴۷ء۔
پہلے دور کے صوفی شعرا ء کی بدولت ملتان کے شعروادب میں تصوف کی ایک ایسی مستقل د یرپا اور مستحکم روایت قائم ہوئی جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔پھردوسرے اور تیسر ے دور میں صوفی شعراء کی خدمات نمایاں اہمیت کی حامل نظر آتی ہیں۔قیامِ پا کستان سے پہلے شعروادب کی چار لہریں قوسِ قزح کی مانند رنگ بکھیرتی نظرآ تی ہیں۔یہاں بھی ہمیں تصوف کا رنگ غالب نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ ملتان کا خانقاہی نظام تھا،جس نے عوام کے دلوں پر صو فیانہ عقائد کی چھاپ لگا دی تھی۔دوسری طرف حالی،شبلی،ظفر علی خان اور ا قبال کا رنگ سخن نمایاں نظر آتا ہے ،تیسری لہر اردو کے تہذیبی مراکز کے زیر اثرپروان چڑھتی نظرآتی ہے جبکہ چوتھی لہر پر مغربیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد بھی جدید اردو شا عری کے سبھی رنگ ہمیں ملتان کے شعراء کے نظرآتے ہیں،کیونکہ غزل کے پروان چڑھنے کے لئے یہاں کا خا نقاہی نظام موزوں تر تھا۔تاہم نظم کی رواٰٰیت میں بھی یہاں کے شعراء ایک منفرد مقام کے حامل نظرآتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء کے بعد پا کستانی جس بد نظمی ،ا قتصادی بے رحمی،سیاسی جبراور آمرانہ سیاست سے دو چارہا،ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ملتان کے شعراء نے بھی اس کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا ،اس طرح جدید فکری اور ادبی رحجانات کا غالب اثرہمیں ملتان کے ادبی افق پر نظرآتا ہے۔ترقی پسند فکر اور نظریات کے علاوہ،جدید نظم گو شعراء کا اثر بھی ہمیں ملتان کی شا عری میں نظر آتاہے۔یہ ایک ایسی جا ندار اور توانا روایت تھی ،جس سے ملتان کے شعراء نے بھر پور استفادہ کیا۔۶۰ء کے عشرے کے بعد کچھ ایسے نام بھی منظر عام پرآتے ہیں جنھوں نے اپنی شاعری سے لو گو ں کو چونکا دیا۔ان کے ہاں عصری زندگی کا کرب ،یاسیت، محرومی،تنہائی ذاتی سطح پراور اجتماعی لحاظ سے آشوبِ زیست کے محرکات تلاش کرنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔اس دور میں ہمیں اردو کی شعری روایت میں خواتین کا کردار بہت کم نظر آتا ہے ۔بنیادی وجہ خاندانی روایت اور پردے کی پابندی تھی۔خواتین اعلٰی ادبی ذوق رکھنے کے باوجود مخلوط محفلوں میں آنے سے گریز کرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ملتان کی مردم خیز مٹی کوئی نا مور شاعرہ تو نہ پیش کر سکی ،تا ہم ماہ طلعت زاہدی، نوشابہ نرگس اور غزالہ خا کوانی کا شمار ان شاعرات میں ہوتاہے ،جن کی شا عری ملتان سے با ہر بھی حوالہ بنتی ہے ۔جہاں تک نعتیہ شاعری کا تعلق ہے ،ابتداء ہی سے مختلف شعراء کے ہاں نعتیہ اشعار ملتے ہیں ،لیکن با قاعدہ طور پر نعت گوئی کا آغاز انیسویں صدی کے آخر اور عروج بیسویں صدی کے نصف اول میں نظرآتا ہے ۔نعت کی جو روایت قیام پاکستان سے پہلے بہت مختصر تھی ،قیام پا کستان کے بعد بھر پور انداز میں ابھر کر سامنے آتی ہے ۔اس طرح ملتان نعت گوئی کے اعتبار سے اس خطے کا اہم ادبی مرکز بن گیا۔بر صغیر پاک و ہند میں اہل تشیع کے دو اہم مراکز سمجھے جاتے ہیں ،ایک لکھنؤاور دوسرا ملتان۔۔۔ملتان کوصوفیانہ شاعری کی طرح مرثیہ گوئی میں بھی دوسرے شہروں پر خصوصی اہمیت حاصل ہے۔چھٹی اور ساتویں صدی میں جب تاتاریوں نے بغداد کو تبا ہی سے دوچار کیا ،تو جان بچا کر ملتان میں پناہ لینے والوں کی بڑی تعدادشیعہ مسلک کی حامی تھی،وقتاًفوقتاً ایران اور وسطِ ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والوں کا مسلک بھی یہی تھا۔ان کے مذہبی نظریات نے مقامی لوگوں کو بھی متاثر کیا۔یہاں کے مرثیہ گو شعراء نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ انہیں مرثیہ گوئی کے لئے لکھنؤ بلایا جانے لگا۔مجالس کی اس روایت نے یہاں کے لو گوں کو تہذیبی اور معا شرتی زندگی کے قریب تر کر دیا۔
نگار خانہء ملتان میں تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ تحقیقی اور تنقیدی کام کو بھی اہمیت حاصل رہی ہے ۔اردو زبان کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کی تاریخ و ابتداء،لغات کے حوالے سے ڈاکٹرعبدالحق،طاہر تونسو ی او ر پروفیسرشوکت مغل کی تحقیقی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔خواجہ غلام فرید سرائیکی کے سب سے اہم شاعر ہیں،ان کے حوالے سے کام کرنے والوں میں پانچ نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں،ڈاکٹر مہر عبدالحق، ریاض انور،خان رضوانی،نور احمد فریدی،رفیق خاورجسکانی،شبیر حسن اختر،حنیف چودھر ی ا ور ڈاکٹرانوار احمدنے کلام فرید کے محاسن پرغوروفکر کے لئے سائنسی انداز فکر کو اپنایا ہے ۔تحقیق و تنقید کے حوالے سے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہء اردو کی خدمات بھی نما یاں اہمیت کی حا مل ہیں۔یہاں کے اساتذہ نہ صرف ملتان بلکہ ملکی و غیرملکی سطح پر اپنی علمی استعدادکی بناء پر جانے جاتے ہیں،ان میں ڈاکٹر اے بی اشرف اور ڈاکٹر انوار احمد کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ملتان میں افسانوی نثر کی ابتداء ناول سے ہوتی نظرآتی ہے۔ لالہ دولت رائے کا نام ابتدائی نثر نگاروں میں شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو نثر نگار تو یہاں سے چلے گئے۔جو لوگ ہجرت کرکے ملتان آئے ان میں شاعر تو بہت تھے لیکن نثر لکھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی،اسی لئے آغاز میں ہمیں ناول یا افسانے کے حوالے سے کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا ،البتہ انجمن ترقی پسندمصنفین،حلقہ ارباب ذ وق،بزم ضیائے ادب،ادارہ فکرو فن ،بزم ثقافت پاکستان،رائٹرز گلڈاور اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا تو ان انجمنوں نے اردو کے فروغ میں اہم کرداراداکیا۔
مبصر: ڈاکٹر ارشد خانم
میر حسن اور ان کا زمانہ از ڈاکٹر وحید قریشی
برصغیر کے معروف محقق اور دنیائے علم و دانش کی جانی مانی شخصیت ڈاکٹر وحید قریشی (۱۴۔ فروری ۱۹۴۵ء تا ۱۷۔ اکتوبر ۲۰۰۹ء ) کی اہم تصنیف ’’ میر حسن اور ان کا زمانہ ‘‘ کا پہلا رسمی ایڈیشن مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے پیش خدمت ہے ۔ یہ در اصل ان کا وہ سندی مقالہ ہے جس پر پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈی لٹ ( Doctor of Literature ) کی ڈگری تفویض کی گئی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور اس کام کو خود انجام دینا چاہتے تھے لیکن افسوس کہ عدیم الفرصتی کے سبب وہ ایسا نہ کر سکے ۔ دراصل ڈگری کے حصول کے لیے پنجاب یونیورسٹی کو جو نسخے مہیا کیے گئے تھے ان کی اشاعت عارضی اور کافی حد تک غیر معیاری تھی ۔ یہ کام اس قدر عجلت میں انجام دیا گیا تھا اور کاتب بھی بے سواد ، غیر محتاط اور غیر معیاری تھا کہ اس میں تدوین و اشاعت کی بہت سی ذمہ داریاں پوری نہ ہو سکیں ۔ صحت متن کا یہی عدم اطمینان تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو کتاب کے آخر میں صحت نامہ اغلاط شامل کر کے ممتحنین سے عذر خواہی کرنی پڑی۔ڈاکٹر وحید قریشی خو د کئی مرتبہ اس کام کی طرف راغب ہوئے لیکن پھر اسے بھاری پتھر سمجھ کر رکھ دیا اور اس کی تکمیل نہ کر سکے ۔ اس کا ثبوت ’’ میر حسن اور ان کا زمانہ ‘‘ کا میرے پاس محفوظ ایک ایسا نسخہ ہے جس پر ڈاکٹر صاحب کے قلم سے حک و اضافے موجود ہیں ، مثال کے طور پرصفحہ ۹ پر میر حسن کے آبائی شجرے پر نظرثانی کی گئی ہے ۔ صفحہ ۲۰۴ کی پہلی ۱۳ سطریں کاٹ دی گئی ہیں ۔ صفحہ ۳۲۱ پر راجہ جسونت سنگھ کے ترجمے پر ایک حاشیہ دیا ہے ۔ اسی طرح صفحہ ۳۴۹ پر چند حواشی اور مطالب کا اضافہ کیا گیا ہے وغیرہ ۔ ڈاکٹر وحید قریشی کی حسرت ناک وفات پر جب مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد میں تعزیتی اجلاس منعقد ہوا تو صدر نشین مقتدرہ نے اعلان کیا کہ مقتدرہ ڈاکٹر صاحب کی بعض اہم تصانیف کو بطور یادگار شائع کرے گا ۔ اسی اجلاس میں مقتدرہ کی طرف سے مجھے ڈاکٹر صاحب کی دو تصانیف کی تدوین نو کا کام سپرد کیا گیا ۔ ایک میرا ہی مرتبہ کتابچہ ’’ کتابیاتِ وحید ‘‘ اور دوسرا ڈاکٹر صاحب کی زیرنظر تصنیف ’’ میر حسن اور ان کا زمانہ ‘‘ کا زیر نظر ایڈیشن ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے تدوینی کام کے دائرہ کار کی وضاحت کروں ، مناسب ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اس مقالے کو پیش کرنے اور اس پر کارروائی کی کچھ تفصیل بیان کر دی جائے ۔ میرے پاس ڈاکٹر وحید قریشی اور پنجاب یونیورسٹی کے درمیان خط و کتابت کا کچھ ریکارڈ موجود ہے پہلے اسے ملاحظہ فرما لیجیے : اس خط و کتابت کے مطابق اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی سے ۲۳۔ دسمبر ۱۹۵۲ء کو پی ۔ ایچ ۔ ڈی فارسی کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب نے ڈی لٹ اردو کا عمل شروع کر دیا تھا ۔ چنانچہ انھوں نے ڈی لٹ کے لیے پہلا درخواست فارم ۱۳۔ نومبر ۱۹۵۲ء کو پر کر کے پنجاب یونیورسٹی کو ارسال کیا جس میں اپنے مقالے کا عنوان ’’ میر حسن اور ان کا زمانہ ‘‘ لکھا اور نگران کے طور پر ڈاکٹر سید عبداللہ کا نام درج کیا ۔ ۷۔ فروری ۱۹۵۳ء کو اس درخو است کی پیروی میں اقرار نامہ ارسال کیا کہ یہ مقالہ کسی دوسری یونیورسٹی کو ڈی لٹ کے حصول کے لیے پیش نہیں کیا گیا ۔ ۲۶۔ مارچ کو پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کو لکھا کہ پنجاب یونیورسٹی سنڈی کیٹ کے ایک فیصلے کے مطابق فارسی میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی حاصل کرنے کے بعد آپ اس فیکلٹی یعنی آرٹس میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی درخواست نہیں دے سکتے ۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر وحید قریشی نے یونیورسٹی سے وضاحت مانگی اور لکھا کہ اس معاملے کو یونیورسٹی سنڈی کیٹ کے سامنے پیش کیا جائے کیونکہ یونیورسٹی کے افسران کو قواعد کے ترجمے میں یقیناً مغالطہ ہوا ہے ۔ یونیورسٹی کے اس خط پر ڈاکٹر صاحب نے دو اعتراض کیے اور لکھا کہ : ۱۔ امتحان یونیورسٹی قواعد کے مطابق کسی خاص مضمون میں امتحان دینے کو کہتے ہیں ۔۲۔ اگر میری اس توجیہہ کے خلاف یونیورسٹی کی رائے ہو تو مجھے تحریری طور پر بتایا جائے کہ میری سابقہ پی ۔ ایچ ۔ ڈی تمام آرٹس مضامین ( اکنامکس ، ریاضی ، اردو وغیرہ ) پر بھی صادق آتی ہے ؟ اس خط کے جواب میں پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار محمد بشیر نے ڈاکٹر صاحب کو ۱۷۔ جولائی ۱۹۵۴ء کو لکھا کہ وائس چانسلر نے سابقہ فیصلے کو حتمی قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد غالباً ڈاکٹر صاحب کے مؤقف پر دوبارہ غور ہوا اور ڈی لٹ کا معاملہ منظور کر لیا گیا کیونکہ ڈی لٹ کی درخواست کے حوالے سے ۲۴۔ جنوری ۱۹۵۵ء کو ڈاکٹر صاحب کے کسی استفسار پر رجسٹرار نے انھیں لکھا کہ وہ اپنی تمام مطبوعات اور وہ کام پیش کریں جس پر ڈی لٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ۱۴۔ فروری ۱۹۵۵ء کو ڈاکٹر وحید قریشی نے یونیورسٹی سے استفسار کیا کہ کیا ڈی لٹ کا مقالہ میری تمام مطبوعات اور علمی کاموں کے ہمراہ ارسال ہو گا مزید عرض ہے کہ میرا عنوان ’’میر حسن اور ان کا زمانہ ‘‘آپ کی وضاحت کے بعد مزید اقدام عمل میں آئیں گے ۔ مورخہ ۳۱۔ مارچ ۱۹۵۵ء پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کو لکھا کہ : آپ نے ۲۳۔ مارچ کے مکتوب کی پیروی میں رجسٹرار یونیورسٹی نے ڈ ی لٹ کی ڈگری کے قواعد آپ کو ارسال کر دیئے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ۲۳۔ مارچ ۱۹۵۵ء کے مکتوب میں لکھا کہ میری ۱۱۔ دسمبر۱۹۵۴ء کی درخواست کے حوالے سے مندرجہ ذیل نکات کی وضاحت کی جائے :
(
۱ ) کیا ضروری ہے کہ مقالہ جمع کرانے سے پہلے ان کے عنوانات کی اجازت حاصل کی جائے ؟
(
۲ ) کیا یہ ضروری ہے کہ مقالہ نگران کی معرفت ارسال کیا جائے ؟
(
۳ ) کیا مقالہ مخطوطے کی صورت میں ہو یا مطبوعہ؟
(
۴ ) مقالے کی کتنی جلدیں ارسال کی جائیں ۔ کیا مطبوعہ کام کو مقالے کے ہمراہ ارسال کیا جائے یا اس سے پہلے ؟
(
۵ ) مطبوعات کے کتنے نسخے ارسال ہوں گے ؟
(
۶ ) کیا یہ ضروری ہے کہ مطبوعات اصل یا اولین اشاعتیں ارسال کی جائیں ؟
اس کے بعد جس دستاویز تک میری رسائی ہوئی ہے وہ ۸ ۔ جون ۱۹۵۹ء کی ہے جس کی رو سے یونیورسٹی سندیکیٹ میں ڈاکٹر وحید قریشی کی درخواست مزید غور کے لیے آئی کہ کیا انھیں ‘‘میر حسن اور ان کا زمانہ‘‘ پر ڈی لٹ کی ڈگری دی جائے یانہ ۔ ۲۸ ۔ ستمبر ۱۹۵۹ء کی لکھی ہوئی ڈاکٹر وحید قریشی کی ایک درخواست بھی موجود ہے کہ وہ مقالے کی چار مزید جلدیں جمع کرانا چاہتے ہیں کیونکہ پہلے ارسال کی گئی چار جلدوں کا پرنٹ اچھا نہیں تھا ۔ اس کام کے لیے انھیں پندرہ دن درکار ہیں ۔ از راہ کرم وقت دیا جائے۔اس کے بعد ۸۔مارچ ۱۹۶۰ء کو ڈاکٹر صاحب نے ایک درخواست دی کہ وہ اپنا مقالہ ۲۸۔ مئی ۱۹۵۹ء کو جمع کراچکے ہیں تاحال اس کی کوئی اطلاع نہیں ۔
ڈاکٹر وحید قریشی کا مقالہ : ’’ میر حسن اور ان کازمانہ‘‘ کا تذکرہ سنڈیکیٹ کے اجلاس منعقدہ ۱۸۔ نومبر ۱۹۶۱ء میں موجود ہے ۔جس کے پیرا نمبر ۱۲ پر حسب ذیل عبارت ملتی ہے :
قاضی عبدالودود کے ارسال کردہ جواب کی روشنی میں جو انھوں نے ڈاکٹر وحید قریشی کے مقالے کے بارے میں ارسال کیا تھا، وائس چانسلر نے وضاحت کی کہ ڈاکٹر وحید قریشی کے مقالے کے بارے میں تین میں سے دو ماہرین نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ مقالہ ڈی لٹ کے معیار کے مطابق ہے یہ تین ماہرین مندرجہ ذیل تھے :
(
۱ ) ڈاکٹر مختار الدین آرزو، علی گڑھ یونیورسٹی ۔
(
۲ ) ڈاکٹر غلام مصطفی خاں : سندھ یونیورسٹی حیدر آباد
(
۳ ) قاضی عبدالودود ، مانکی پور پٹنہ
ان میں ڈاکٹر مختار الدین آرزو اور ڈاکٹر غلام مصطفٰی خاں نے سفارش کی کہ اس مقالے پر ڈاکٹر وحید قریشی کو ڈی لٹ کی ڈگری دی جا سکتی ہے جبکہ قاضی عبدالودود کی رائے تھی کہ مقالے پر ڈی لٹ کی بجائے پی ۔ ایچ ۔ ڈی کی ڈگری مناسب رہے گی ۔ تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ وہ یونیورسٹیوں کے معیار سے واقف نہیں اور یہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔
اس کے بعد میرے پاس کوئی اہم ڈاکو منٹ نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ردوقدح اور بحث و تکرار میں ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۵ء تک پورے چار سال صرف ہوگئے اور بالآخر ڈاکٹر وحید قریشی کے اپنے درست اور نظر ثانی کیے ہوئے کوائف نامے کے مطابق ۱۹۶۵ء میں یہ ڈگری تفویض کر دی گئی ۔
’’
میر حسن اور ان کا زمانہ ‘‘ کی موجودہ تصحیح و تدوین کے دوران جو مراحل میرے سامنے آئے انھیں اختصار کے ساتھ یوں بیان کرنا چاہتا ہوں :
۱۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے پنجاب یونیورسٹی کو مقالہ پیش کرنے کے لیے اسے عجلت میں کتابت کرایا کیونکہ آج سے پچاس برس پہلے ٹائپ اور کمپوزنگ کی وہ سہولتیں میسر نہیں تھیں جو آج ہیں۔ ایک عجلت اور دوسرا کمزور اور نا اہل کاتب ،اس کے نتیجے میں متن کی بے شمار اغلاط سامنے آئیں اور ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو کتاب کے آخر میں ایک طویل صحت نامہ اغلاط شامل کرنا پڑا ۔ زیر نظر تدوین میں سب سے پہلے اس صحت نامہ اغلاط کے مطابق تمام متن کو درست کر کے اسے منشائے مصنف کے مطابق کیا گیا ہے ۔
۲۔ صحت نامہ اغلاط کے علاوہ متن میں جو پروف خوانی کی اور بعض علمی اورفنی تکنیک کی فروگزاشتیں موجود تھیں انھیں اپنی بساط کے مطابق درست کیا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشکلات فارسی عبارتوں ، اشعار اور حوالہ جات میں نظر آئیں جن میں سے بیشتر کو اصل مآخذ سے ملا کر درست کیا گیا ہے ۔
۳۔ مآخذ اور مصادر کی ایک طویل فہرست مقالے کے آخر میں دی گئی تھی ان میں سے زیادہ تر وہ کتابیں تھیں جو مقالے کی تکمیل تک منظر عام پر آئی تھیں یا مخطوطات کی صورت میں مختلف کتب خانوں میں محفوظ تھیں ۔ لیکن اس کے بعد اس فہرست میں اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ ان میں بعض قلمی کتابیں شائع ہوئیں اور بعض مطبوعہ تصانیف کے نئے ایڈیشن نئی ترتیب و تدوین کے ساتھ منظر عام پر آ گئے ۔ ان سب پر حواشی لکھ کران کی موجودہ صورت حال واضح کر دی گئی ہے ۔
۴۔ بعض حواشی مقالے کی عارضی طباعت کے وقت شاید عجلت کے سبب اپنے مقام سے ہٹ گئے تھے ، انھیں مصنف کی ہدایت کے مطابق صحیح مقام پر رکھ دیا ہے ۔
۵۔ بعض مقالات پر ہجری اور عیسوی سنین کے تبادلے میں اشتباہات تھے جنھیں مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی تقویم کوہجری و عیسوی کی مدد سے درست کیا گیا ہے ۔
کتاب کی اشاعت کے دوران جن کرم فرماؤں اور دوستوں نے اسے پای�ۂ تکمیل تک پہنچانے میں دلچسپی لی اور توجہ فرمائی ان کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے ۔ ان میں مقتدرہ قومی زبان کے سابق اور موجودہ صدر نشین بالخصوص قابل ذکر ہیں میری مراد جناب افتخار عارف اور ڈاکٹر انوار احمد سے ہے ان دونوں نے علمی ذوق و شوق اور ڈاکٹر وحید قریشی کے بارے میں جس حق شناسی کا ثبوت دیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم کی اہلیہ محترمہ بیگم سعیدہ وحید نے تعاون فرما کر شکر گزار کیا۔ مقتدرہ کے کار پردازوں میں سے جناب عبدالرحیم خاں اور دیگر حضرات نے جس کوشش اور توجہ کا مظاہرہ کیا ، قابل داد ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو زندگی میں آسانیوں اور آخرت میں اجر عظیم سے نوازے اور استاد گرامی ڈاکٹر وحید قریشی کی بارگاہ میں مجھے سرخرو فرمائے ۔
یادگارِ خواجہ بعد از خواجہ برپا داشتن
شکر اور ا خوب تر زیں نیست اسلوبے دگر
مبصر : ڈاکٹرگوہر نوشاہی
’’
لسانی مطالعے ‘‘۔۔۔ایک تاثر
[
معروف محقق اور نعت گو شاعر بشیر حسین ناظم مرحوم کی یہ تحریراخبار اردو کے لیے ان کی آخری تحریر ہے جو انھوں نے اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل ارسال کی ]
لسانی مباحث پر اگرچہ ہمارے ماہرین نے کبھی بہت لکھا اور خوب لکھا تھا لیکن اب یہ موضوعات دور افتادہ ہو کر رہ گئے ہیں کہ زبان اور اس کی صحت اب ترجیحات میں شاذ ہی کسی کے لئے اہم ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین نے اپنے رخشِ کلک و قلم کو رواں دواں رکھتے ہوئے اس دور کے ادباء، شعر اء ،انشاء پردازوں، اخبار نویسوں ، معلموں اور دانش وروں کی راہ نمائی کے لئے ’’لسانی مطالعے‘‘ تصنیف کی ہے جس کی طباعت کا شرف مقتدرہ قومی زبان پاکستان کو حاصل ہوا۔ میں سمجھتا ہوں یہ کتاب عوام و خواص کے لئے عظیم تحفہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِن کی مساعی کو پذیرائی بخشے اور قارئین کو کتاب سے مُستقلاً مستفید و مستفیض ہونے کی توفیق دے۔ آمین۔
پروفیسر غازی صاحب نے بہت سے الفاظ جو ارُدو میں لوگوں کی نافہمی کی وجہ سے غلط مروج ہو گئے ہیں، کی دلائل مبر ہنہ سے اس طرح چہرہ کشائی کی ہے کہ انہیں ہر ثانیہ دل کی وسعتوں سے داد و تحسین دینے کو جی چاہتا ہے۔ اُردو میں کتاب کو نافہمی کے باعث مؤنث باندھ دیا گیا ہے حالانکہ بفحوائے مضمو ن ذالک الکتاب لاریب فیہ یہ مذکر ہے۔ اب جس نے اس صحیفۂ ربانی کی تذکیر کو تانیث میں بدل کر مروج کر دیا ہے اس کے علم کی پہنائیوں کی حد کا پتا بلید حضرات ہی لگا سکتے ہیں۔ لفظ ناقہ کو لے لیجئے، قرآن کریم میں مختلف سورتوں میں ناقہ کا ذکر تقریباً آٹھ مقامات پر آتا ہے ناقۃ اﷲ وسقیاہا اور ھذہ ناقۃ اﷲ سے واضح ہے کہ یہ لفظ مونث ہے مگر ہمارے شعراء نے قرآن کے ارشادات سے نا فہم ہونے کے باعث اسے مذکر باندھا ہے۔
اِسی طرح ’’بقیہ‘‘ ، ’’ھدیہ‘‘ قرآن کریم کے الفاظ ہیں ’’بقی‘‘ کی مونث ’’بقیہ‘‘ ہے اور بقیہ کی جمع ’’بقایا‘‘ ہے، ’’ھدی‘‘ کی مونث ’’ھدیہ‘‘ ہے اور جمع ’’ھدایا‘‘ ہے۔ ’’صفی‘‘ کی مونث ’’صفیہ‘‘ ہے اور جمع ’’صفایا ‘‘ہے ’’رضی‘‘ کی مونث ’’رضیہ‘‘ ہے اور جمع ’’رضایا‘‘ ہے۔ اب نبی قرآنی لفظ ہے اورفعیل کے مستحکم وزن پر ہے، اِسے ہم نے نافہمی کے باعث نبی باندھ دیا ہے اور جمع نبیوں بنا دی ہے جیسے وہ’’ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘۔ یہاں سے اگر ’’وہ‘‘ محذوف ہوجاتا تو مصرع یوں ہوتا ہے۔ ’’نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ تو قرآنی تلفظ میں تحریف نہ ہوتی۔ پچھلے ہفتے مجھے ایک محترمہ ملیں ،کہیں اردو پڑھاتی ہیں ،کہنے لگیں’’ تَوَ قُّع اور تَوَجُّہ کو تَوَ قَّع اورتَوَجَّہ پڑھنے میں کیا حرج ہے۔ میں نے کہا، صرف حرج ہی نہیں بلکہ جہالت ہے، وہ اِس لئے کہ یہ عربی زبان کے الفاظ ہیں اور عربی زبان اپنے قواعد و ضوابط سے زندہ و پائندہ ہے۔ یہ دونوں لفظ تفعّل کے وزن پر ہیں اس لئے انہیں تَوَ قَّع اورتَوَجَّہ کہنا درست نہیں ہے۔ پھر میں نے اس معلمہ خاتون سے اس کا نام پوچھا تو فرمانے لگیں سردار بیگم۔ میں نے کہا محترمہ! اسے سُردار پڑھنے میں کیا حرج ہے؟آپ بیگُم کو بھی بیگم کہہ رہی ہیں۔ کارطفلاں تمام نہ کیجئے، عالمہ و فاضلہ بننے کی سعی فرمائیے۔
اِس کتاب میں لسانیاتی زاویۂ نظر کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے جو قاری کے لئے بہت پُر اثر ہے۔ کتاب میں شامل سب مقالات نہایت پر کشش اور اپنے مطالعے پر محض آمادہ ہی نہیں بلکہ مجبور بھی کرتے ہیں کہ اِنہیں ضرور پڑھا جائے۔ اُس راست فکری اور درد مندی و اخلاص کے پیشِ نظر ، جو اس کتاب کے اکثر مباحث میں موجزن ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو کسی طرح زبان و ادب اور معاشرت کے ہر طالب علم کے مطالعے میں آنا چاہیے۔
میں کلام کو اطالت کی نذر کیے بغیر مخدومِ اساتذہ ڈاکٹر انوار احمد صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے مؤقر ادارے کی جانب سے اس کتاب کو شائع کیا اور پروفیسر غازی علم الدین کا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیں اپنی اصلاح کے لئے ایک کتاب مصلح کا تحفہ عطا فرمایا۔
مبصر: بشیر حسین ناظم
شعبہ اردو کے نئے، اہم اور بنیادی الفاظ
ازحافظ صفوان محمد چوہان
اردو کا خصوصی امتیازی نشان اِس کے عربی فارسی اثرات اور امتزاجی نوعیت ہے۔ سیاسی ہنگامہ پروری کے عہد میں غلط فہمیوں کا پھیلنا ایک عام سی بات ہے، اِس لیے اِس لسانی عرفان کو عام کرنا ازبس ضروری ہے کہ اردو کی جڑیں برِصغیر کی سرزمین میں ہیں اور اِس کی کشش و دلآویزی اور رس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اِس میں کئی زبانوں اور کئی ثقافتوں کا پیوند لگا ہے۔ اردو ہندوستان اور پاکستان کی متعدد بولیوں اور زبانوں کے درمیان ایک سماجی، لسانی اور تہذیبی پل بناتی ہے۔
میرا سفرِ اردو سفرِ عشق ہے۔ جب لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اردو کی خدمت کر رہے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اِتنی بڑی زبان جس کے ذریعہ کروڑوں لوگ اپنی زندگی کو بامعنی بناتے یا اپنے وجود کی شناخت کراتے ہیں وہ کسی فردِ واحد کی خدمت کی محتاج کیسے ہوسکتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان اُن لوگوں میں سے ہیں جو ایسا کوئی اِدّعا نہیں کرتے لیکن آج کے برقیاتی اور سائبر دور کی اردو کو مزید سنوارنے اور نکھارنے کے لیے ایسے بنیادی کاموں میں لگے ہوئے ہیں جنھیں صحیح معنی میں اردو کی لسانی، علمی اور ثقافتی خدمت کہا جاسکتا ہے۔ اُن کی اور اُن کے دوست سید محمد ذوالکفل بخاری مرحوم کی مرتب کردہ Current Corpus-based Urdu-English Dictionary دورِ جدید کی اردو کی پہلی فیلڈورک ڈکشنری ہے جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد الفاظ پر مشتمل کارپس ڈیٹا کی مدد سے بنائی گئی۔ میں نے اِس لغت کو اردو لغت نویسی کی تاریخ میں ایک نیا سنگِ میل قرار دیا تھا۔ اردو کا ایک نام ثقافتی سیکولرازم یعنی ’’غیر فرقہ واریت‘‘ اور ’’بقائے باہم‘‘ بھی ہے۔ اردو نے صدیوں سے اِس کی معنی خیز مثال قائم کی ہے اور ہر طرح کی تنگ نظری اور دقیانوسیت کے خلاف محاذ باندھا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حافظ صفوان محمد انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق ہوتے ہوئے اردو کے اِس مزاج کی کنہ کو پاگئے ہیں اور اُن کی ہر تحریر میں اُن کی بے تعصبی اور وسعتِ نظر خاطر نشان رہتی ہے۔
حال ہی میں حافظ صفوان صاحب نے اردو کے نئے، اہم اور بنیادی الفاظ کے نام سے آج دنیا بھر میں بولی جانے والی اردو زبان میں استعمالِ عام میں آنے والے لفظوں کا مجموعہ Lexicon کے انداز میں ترتیب دیا ہے اور اِس میں بنیادی، ثقافتی، سماجی، گھریلو، سیاسی، کاروباری، اخلاقی، تعلیمی، ادبی اور روزمرہ اہمیت کے الفاظ جمع کردیے ہیں۔ یوں اردو کے کثیر الاستعمال اور مؤثر الفاظ نیز کئی شعبہ ہائے زندگی کے اہم ترین اور مخصوص بنیادی الفاظ یکجا ہوگئے ہیں۔ اُنھوں نے میڈیا، مکالموں، پروپیگنڈا لٹریچر اور مقبولِ عام اردو کالموں وغیرہ سے الفاظ جمع کرتے وقت یہ خصوصی التزام کیا ہے کہ ڈراموں، فلموں اور خبر ناموں میں کام آنے والے الفاظ سرحد کے دونوں طرف سے لیے جائیں۔ اِس علمی کاوش سے اردو کے عام طلبہ اور محققین کے ساتھ ساتھ اُن غیر ملکی طلبہ و طالبات کی بہت بڑی ضرورت پوری ہوگی جو اردو کو بطور ایک ثانوی زبان کے سیکھنا چاہتے ہیں اور اُن اساتذہ کی بھی جو غیر ملکی طلبہ کو اردو پڑھا رہے ہیں۔ خاص طور سے اردو مشینی ترجمے پر کام کرنے والوں کے لیے یہ مجموعہ بڑی نعمت ہے۔ نیز یہ مجموعہ اردو کے ساتھ کسی بھی زبان کی دو زبانی الیکٹرانک ڈکشنری بنانے کے لیے ایک کارگزار Wordbase فراہم کرسکتا ہے۔
میں اِس اہم علمی کام کے لیے ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اردو کے لسانی، علمی اور اطلاعیاتی حلقوں میں عالمی سطح پر اِس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔
مبصر : ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
بلا کم وکاست خود نوشت سوانح از مہدی علی صدیقی
شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ جامعہ کراچی ۔۲۰۰۲ء
کتاب ’’ بلا کم وکاست‘‘ خود نوشت سوانحِ حیات ہے جسے مشہور ادیب،سابق مجسٹریٹ اور شاعر مہدی علی صدیقی نے تحریرکیا ہے۔ اس کتاب میں صدیقی صاحب نے اپنی جنم بھومی،حیدر آباد دکن سے لے کر قیام امریکا تک کے واقعات بڑے دلنشین انداز میں بیان کیے ہیں۔ مصنف کا یہ کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی ڈائری نہیں رکھی اور واقعات محض حافظے کی مدد سے بیان کیے ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے ایک بھرپور ، دلچسپ اور قابل رشک زندگی گزاری ہے ۔ یہ ایک پورے دور کا احاطہ کرتی ہے۔ قیام پاکستان، اس کے بعد ملک میں پیش آنے والی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی تبدیلیاں ، حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ، بیوروکریسی اور فوج کے رویے ، عالمی طاقتوں کا پاکستان کے ساتھ برتاؤ ، الغرض قومی اور بین الاقوامی تناظر میں ملک کی مجموعی صورتحال پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے اور ملکی تاریخ کے سارے ہی ادوار کا بھرپور انداز میں صدر ضیاء الحق کے آخری دور تک ذکر کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے اپنی ترانوے سالہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات مشاہدات اور تجربات کو بغیر لگی لپٹی بیان کیا ہے۔ کسی چیز کو چھپایا نہیں اور ہر واقعہ کو بلا کم وکاست بیان کیا ہے ، اسی لیے اس کتاب کا عنوان ’’ بلا کم وکاست ‘‘ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندازِ تحریر دل میں اُترنے والا اور دلکش ہے اور اس میں کسی قسم کی بناوٹ یا افراط و تفریظ نظر نہیں آتی۔
کتاب کے کل پینتیس ابواب ہیں اور ضمیمے ، منٹو کا مقدمہ ، رودادِ مقدمہ ، مصنف کے نام منٹو کا آخری خط پر مشتمل ہیں۔ ان کے علاوہ صدیقی صاحب کی منتخب شاعری بھی شامل کی گئی ہے۔ مشہور محقق اور ادیب جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کتاب کے دیباچے بعنوان ’’ ایک شخص ایک عہد ایک تاریخ ‘‘ میں بجا تحریر کیا ہے ’’ مصنف نے اس سوانح عمری کو محض سوانح ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے اپنے پورے عہد کی ایک چشم دید تاریخ بنا دیا ہے۔‘‘ یہ آئندہ نسلوں کے مطالعہ کے ایک بنیادی مآخذ کے طور پر منظر عام پر لارہی ہے۔
پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں مصنف جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کی اور ان کی جماعت کی کاوشوں کے بھی معترف ہیں لیکن انھوں نے لکھا ہے ’’ اسلامی نظام کا سب لوگ مطالبہ کرتے ہیں مگر مجھے اس سلسلہ میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ ‘‘
صدیقی صاحب کی روشن خیالی ان کے اس جملے سے واضح ہے ’’ میں یہ عقیدہ ضرور رکھتا ہوں کہ جو رسول مقبول ﷺکو آخری پیغمبر نہیں مانتا وہ ’’ کافر ‘‘ ہے لیکن اگر وہ بحیثیت فریق معاہدہ آپ کے ساتھ بنیادی شہری حقوق کا دعویدار ہے تو محض اعتقاد کے فرق کی بناء پر ہم اسے اچھوت اور خارج از قوم کیوں کہیں۔ ‘‘
پاکستانی معیشت کے متعلق ان کا بے لاگ اور لاجواب تبصرہ یہ ہے ’’ پاکستان میں دو معیشتیں ‘‘ ایک کھلی معیشت اور ایک چور بازاری کی معیشت بیک وقت جاری نظر آتی ہیں۔ غیر قوموں کے سیاحوں کو یہ طنز کرنے کا موقع ملتا ہے کہ پاکستانی عوام ایک غریب ملک کے دولتمند شہری ہیں۔
آج کل صوبوں کے قیام پر جو بحث چل نکلی ہے ، اس کے متعلق مصنف کا کہنا ہے ’’ ضرورت ہو تو پٹھانوں کا صوبہ الگ ، بلوچوں کا الگ ، سندھ کا مہاجر سندھی ملا کر یا علیحدہ علیحدہ ، سرائیکی صوبہ وغیرہ۔ سب ریاستی تنظیم کے ساتھ وفاق کا جزو بنیں اور ٹیکسوں کی مناسب تقسیم ہو۔ بعض ذرائع کی آمدنی ، مخصوص مرکزی ذریعہ آمدنی ہو ، یہ تنظیم اگر ہوتی تو بنگلہ دیش کو بھی علیحدہ ہونے سے قبل سوبار سوچنا ہوتا۔ ‘‘ مصنف نے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے کردار کو بھی سراہا اور لکھتے ہیں ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی کو قیام پاکستان کے ہی خلاف اپنی دھونس اور دھاندلی کی پالیسی ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔‘‘ یہ ان ہی کے اقدامات کا ثمر ہے کہ اب قیام پاکستان کی مخالفت اور اکھنڈ بھارت کا نعرہ اور پالیسی اختیار کرنے والی جماعت کا وزیراعظم مینار پاکستان پرحاضری دیتا ہے اور پاکستان کے قیام کو تسلیم کرتا ہے۔
بھٹو صاحب کے فہم وفراست ، ان کی ذہانت ، سیاسی بصیرت اور خارجہ امور پران کی مکمل گرفت کا اعتراف کرتے ہوئے مصنف نے ۱۹۷۷ء کے عام انتخابات کے بعد بھٹو کی غلطیوں کا ذکر کیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ فوج نے بھٹو کو کبھی معاف نہیں کیا تھا۔
صدیقی صاحب نے ایک زبردست ماہر قانون کی حیثیت سے مختلف عہدوں پر کام کیا اور قابل قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی رہے ، تعلیمی میدان میں انھوں نے کراچی میں بہادر یار جنگ اکادمی کے ذریعہ اہم ترین مسائل حل کیے۔ ادبی خدمات کا آغاز مرحوم سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’ اوپر نیچے درمیان ‘‘ پر فحاشی کے مقدمے کے باعث ہوا۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں ’’ منٹو کا مقدمہ ‘‘ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ یہ ۱۹۵۳ء کا دور تھا۔ انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ان کا آخری خط مصنف کے نام ۱۹۵۵ء میں لکھا گیا تھا جس میں منٹو نے ان کے خلوص اور محبت کو سراہا تھا۔
کتاب کے آخر میں مصنف کا منتخب کلام شامل کیا گیا ہے۔ جس میں حمد، نعت ، یوم پاکستان پر نظم ، مناجات اور غزلیں ہیں، جن کے مطالعہ سے مصنف کے زبان وبیان پر عبور اور کلام میں روانی ظاہر ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک منفرد سوانح ہے جس کا مطالعہ ملکی حالات وواقعات کو سمجھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس کتاب کے کل صفحات ۳۷۲ ہیں اور قیمت تین سو روپے ہے۔
’’
حسن ناصر کی شہادت ‘‘ از: میجرا سحاق محمد
اسحاق اکیڈمی ، ملتان ، ۲۰۰۸ء
کتاب ’’ حسن ناصر کی شہادت ‘‘ شہید حسن ناصر کے دیرینہ دوست اور وکیل میجر اسحاق محمد مرحوم کی تحریرہ کردہ ہے جس میں کامریڈ حسن ناصر کی مظلومانہ شہادت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے دیباچہ میں مضمون نگار نے کتاب کے مصنف کو ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ میجرا سحاق کی جرأت رندانہ وبہادری تھی کہ وہ آمریت کے خوفناک عہد میں حکومتی ڈرامہ کا پول مکمل طور پر کھولنے میں کامیاب رہے۔ کتاب کے سات ابواب ہیں اور کل صفحات ۴۳۵ ہیں۔
اس کتاب میں ایجنسیوں کی وہ رپورٹیں بھی دی گئی ہیں جن کے مطابق حسن ناصر کی موت خود کشی سے ہوئی اور اسے کسی نے تشدد کر کے ہلاک نہیں کیا۔ مصنف نے ایسے شواہد بیان کیے ہیں جن کے مطابق حسن ناصر کو قتل کیا گیا تھا۔ان کے کہنے کے مطابق حسن ناصر اتنی مضبوط اخلاقی اور ذہنی حیثیت کا مالک تھا کہ اس کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ بے غیرتی کی موت مرے۔ حکام کی نظرمیں وہ بدترین قسم کا سیاسی مجرم تھا اور ایک مخصوص سیاسی تحریک کا دماغ تھا۔ ۱۳ نومبر ۱۹۶۰ء کو بروز اتوار دن پونے دو بجے پولیس کو اطلاع ملی کہ سی آئی ڈی کی حراست میں ایک نظر بند نے خود کشی کرلی ہے۔
مصنف نے حسن ناصر شہید کے مقدمے کی پوری تفصیل دی ہے۔ پولیس کی رپورٹ، خفیہ اداروں کی کارروائیاں ، کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ان لوگوں کے متعلق معلومات جن کا تعلق حسن ناصر سے تھا ۔ یہ سب اس کتاب میں ملتا ہے اور قاری کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ حسن ناصر کو شہیدکیا گیا ہے اور انھوں نے خود کشی نہیں کی۔ اس لحاظ سے مصنف نے بڑی عرق ریزی اور جدوجہد سے حسن ناصر کے کیس کو میرٹ پر بیان کیا ہے۔ انھوں نے کسی قسم کی لگی لپٹی نہیں رکھی اور مصنف کی سخت محنت کے نتیجے میں یہ تاریخی دستاویز پاکستان کے سیاسی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ ، ظالمانہ ، جابرانہ اور غیر منصفانہ سلوک کی نشاندہی کرتی ہے۔ کتاب میں کمیونزم کے بانی کارل مارکس اور لینن کی تعلیمات کی وضاحت کی گئی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں ’’ کارل مارکس دنیا کی تاریخ کے چند ایک بڑے عالموں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس نے قسم کھالی تھی کہ بھوکا رہ جائے گا لیکن اپنے علم کے سہار ے پروفیسر وکیل ، اخبار نویس وغیرہ بن کر سرمایہ دار مشین کا پرزہ نہیں بنے گا۔ اقبال نے یہ کہہ کر کہ ’’ ۔۔۔نیست پیغمبر ولے دار د کتاب ‘‘ یعنی پیغمبر نہیں ہے لیکن کتاب والا ہے ، اس کی تحریر کو الہام کا درجہ دیا ہے ۔ ‘‘
حسن ناصر کی شخصیت کے متعلق مصنف لکھتے ہیں ’’ وہ بہت مطمئن نوجوان تھا۔ معلوم ہوتا تھا اس نے زندگی کی شاہراہ دریافت کر لی ہے ، حسن ناصر حیدر آباددکن کے متمول اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس نے کراچی کی مزدور کالونی میں رہنے والے مزدوروں کے ساتھ رہ کر وہی فقیرانہ اور دوریشانہ روش اختیار کی جس کا اظہار کمیونزم کی تحریک سے وابستہ لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ حسن ناصر شہید کے رویہ میں زیادہ سادگی نظر آتی تھی ۔ وہ دنیا داری کی طرف دیکھتا ہی نہ تھا۔ آپس کے معاملات میں خوفناک حد تک صاف گو تھا اس کی صاف گوئی سے چالاک اور بدنیت لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے ۔ وہ ایک فولادی خصوصیات کا حامل انسان تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کارل مارکس اور حسن ناصر کا رشتہ انقلابی سماجی سائنس کے ذریعے قائم ہوتا ہے ، جسے عام طور پر مارکس سائنسی سوشلز م یا پرولتاری انقلاب کے فلسفہ کا نام دیا جاتا ہے۔ مصنف نے لینن کے کمیونزم اور چین میں ماؤزے تنگ کے فلسفہ سوشلزم کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ چین میں ماؤزے تنگ اور وہاں کی کمیونسٹ پارٹی نے لینن ازم کو تخلیقی انداز میں حیرت ناک بڑھاوا دیا ۔ روس کے انقلابیوں نے انیسویں صدی میں اپنی جلاوطنی کے دوران یورپ میں رہ کر انقلاب کی فتح نے عالمی سرمایہ دار کا محاذ دنیا کے چھٹے حصہ میں پاش پاش کردیا۔ ماؤزے تنگ اور چینی پارٹی نے جاگیرداری کے خلاف جمہوری جدوجہد کو سامراج کے خلاف قومی آزادی کی جدوجہد سے جوڑ کر دونوں کو پرولتاری سوشلسٹ انقلاب کے تقاضوں سے جوڑ دیا۔
اس کتاب میں حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار حسین ، معروف شاعر ، فیض احمد فیض ، بیرسٹر اعتزاز احسن ، خالد مسعود ، ڈاکٹرمصدق حسین ، پروفیسر رشید انقلابی اور ڈاکٹر مقبول اختر کی آراء شامل ہیں۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک مکمل جائزہ پیش کرتی ہے نہ صرف حسن ناصر شہید کے کیس کا بلکہ سوشلزم اور کمیونزم کے تمام فلسفہ کا اور ان نظریات کا پرچار کرنے والی شخصیات کا کہ جن کے مطالعہ سے ہماری معلومات میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ میجرا سحاق محمد نے حسن ناصر شہید کے کیس پربڑی سخت محنت کی اور اس کتاب کے ذریعے اس عظیم رہنما کا ذکر رہتی دنیا تک محفوظ کردیا ۔ اس کتاب کے کل صفحات ۴۳۵ اور قیمت ۴۰۰ روپے ہے۔ شاعر اصغر مہدی نظامی نے کیا خوب کہا ہے :
قلعہ لاہور سے رہ رہ کے آتی ہے صدا
اے حسن ناصر ، حسن ناصر ابھی زندہ ہے تو
برسر پیکار ہے اب بھی تیرا عزم جواں
جاوداں ہیں ولولے تیرے کہ پائندہ ہے تو
مبصر : سید جاوید رضا
اطراف تحقیق از ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
الفتح پبلی کیشنز ، راولپنڈی ۔ ۲۰۱۲ء
اطراف تحقیق نام ور شاعر، محقق ، تنقید نگار اور استاد ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے تحقیقی اور تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین مصنف کی پندرہ بیس برس کی محنت کا نتیجہ ہیں اور وقتاً فوقتاً مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات اردوئے قدیم کا ایک نایاب نمونہ ، ماہیے کی ہیئت کا مسئلہ، اٹک میں آل انڈیا محمڈن اینگلو اورینٹل کانفرنس کا ایک سفیر: قاضی فضل الرحمن ، محاورے کا لسانی مطالعہ، اقبال کا ایک شاگرد اور مقلد۔۔اسلم ، پاکستانی اردو غزل : رجحانات و امکانات، غوث کا قصہ دل آرام و دل شوق اور بارہ ماسہ، اردو اور ہندکو : لسانی و ادبی اشتراکات اور بلھے شاہ کی ایک نو دریافت پنجابی غزل ہیں۔آخر میں پانچ کتابوں پر تبصرے بھی کتاب کا حصہ ہیں جن کے عنوانات ہیں :
۱۔ پنجاب تحقیق کی روشنی میں ، ۲۔ اقبال اور قادیانیت: تحقیق کے نئے زاویے، ۳۔ سیر دریا۔ پر ایک نظر، ۴۔ امیر خسرو۔ فرد اور تاریخ، ۵۔ علامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن ۔
آخر میں اشاریہ بھی فراہم کر دیا گیا ہے ۔ جس سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے اور تحقیق کی ایک ضرورت بھی پوری کر دی گئی ہے۔
مضامین کے عنوانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی تحقیق کا دائرہ بے حد وسیع اور متنوع ہے ۔ علم و فن ، لسانیات، کلاسیکی ادب ، جدید ادب، صوفی ادب، تاریخ، تہذیب ، روایت ، نظریاتی مباحث غرض موضوعات کا ایک جہان آباد ہے ، جس میں ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی توجہ ، لگن ، جرأت اور ذہانت یہاں وہاں جلوہ نما ہے۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
"
اس میں شک نہیں کہ دور حاضر تحقیقی اور علمی سرگرمیوں کے لیے زیادہ موزوں نہیں؛ ہر طرف تساہل پسندی ، عجلت روی اور نارسائی کا دور دورہ ہے۔ تازہ واردان بساط تحقیق نے 'کاتا اور لے دوڑی ' کی روش کو اپنا رکھا ہے لیکن اس صورت حال میں اطراف تحقیق کی اشاعت ہوا کے ایک تازہ اور حیات بخش جھونکے سے کم نہیں۔ اطراف تحقیق میں نو مقالات اور پانچ تبصرے شامل ہیں۔ جن میں نظری اورعلمی تحقیق کے بعض نمونے دامن دل کھینچتے ہیں۔ بہ طور مثال: ماہیے کی ہیئت کا مسئلہ، محاورے کا لسانی مطالعہ، پاکستانی غزل اور اردو اور ہندکو : لسانی و ادبی اشتراکات جیسے مقالات جہاں تحقیق میں نظری مباحث کی نشان دہی کر رہے ہیں، وہاں اردو ے قدیم کا ایک نایاب نمونہ ، غوث کا قصہ دل آرام و دل شوق اور بلھے شاہ کی ایک نو دریافت پنجابی غزل تحقیق میں تلاش و جستجو کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ اسی طرح پانچ تبصرے علمی تحقیق میں ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی عمدہ بصیرت کے غماز ہیں۔ "
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے متعدد شعری مجموعے اور تحقیقی و تنقیدی کتابیں اردو ادب کو عطا کر چکے ہیں اور ان کی دل چسپیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انہوں نے اردو ادب کو آئندہ بھی مالا مال کرتے رہنا ہے۔ میں اردو کے میدان میں ایک نام ور استاد اور شاعر کے علاوہ محقق اور نقاد کی حیثیت سے ابھرنے والے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی کتاب اطراف تحقیق کو ہوا کا خوش گوار جھونکا سمجھتا ہوں جو آنے والے وقتوں میں بہت بڑی کتابوں کی خبر لیے ہوئے ہے۔
مبصر: ڈاکٹر راشد حمید
بیادِ صفوت غیور
صفوت غیور شہید کو اُردو ، انگریزی ، پشتو اور ہندکو میں خراج عقیدت
گندھار ا ہندکو بورڈ پاکستان ، پشاور
شعراء : اعجاز رحیم ، محمد ضیاء الدین ، سلطان فریدی
جیسا کہ کتاب ’’ بیادِ صفوت غیور ‘‘ کا انتساب صفوت غیور کی بہادری، شجاعت، جرأت مندی اور وطن سے محبت کے نام ہے ، اس میں مرحوم پولیس آفیسر صفوت غیور کی بے مثال قربانی کا ذکر شاعری میں کیا گیا ہے۔ مرحوم کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا کہ جس نے تحریکِ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا اور وطن سے جن کی محبت ہر شک وشبہ سے بالا تر تھی۔ آپ سردار عبدالرب نشتر مرحوم کے بھتیجے تھے۔ صفوت ۱۹۸۱ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کی بنیاد پر پولیس سروس آف پاکستان میں شامل ہوئے اور شہادت کے وقت آپ کمانڈنٹ فرنٹےئر کانسٹیبلری کے عہدہ پر فائز تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی ایک بہادر، نڈر، بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل کمانڈر کی حیثیت سے گزاری ، وہ اشتہار ی مجرموں ، جرائم پیشہ عناصراور دہشت گردوں کے گروپوں سے نبرد آزما رہے اور کبھی طالع آزما وطن دشمن عناصر کی دھمکیوں اور دباؤ میں نہیں آئے۔ ایک باکردار، ایماندار ، قابل اور خاندانی وجاہت ودبدبہ کے حامل شخص کو ہم ایک لیجنڈ کی حیثیت سے جانتے ہیں کیونکہ ایسے افسر روز روز پیدا نہیں ہوتے؛ بقول میر تقی میر :
مت سہل ہمیں جانو ، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
شہید صفوت غیور ، دہشت گردوں کی کارروائی کا شکار ہو کر ۴۔اگست ۲۰۱۰ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے ۵۱ برس کی عمرپائی۔ جناب اعجاز رحیم جو انگریزی کے ممتاز شاعر ہیں اور حکومت پاکستان میں سیکرٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے ، صفوت شہید کو اس وقت سے جانتے تھے جب وہ چیف سیکرٹری صوبہ سرحد تھے۔ اعجاز رحیم صاحب نے صفوت کی یاد میں تیس نظمیں انگریزی زبان میں کہی ہیں جن کا ترجمہ اُردو، ہند کو اور پشتو زبانوں میں کیا گیا ۔ اُردو اور پشتو میں ترجمہ سلطان فریدی صاحب نے کیا جبکہ ہندکو میں جناب محمد ضیاء الدین نے ترجمہ کیا ہے۔
ان نظموں میں شہید صفوت غیور کی شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور بہت حد تک ان کو خراج عقیدت پہنچانے کا حق ادا ہوتا نظر آتا ہے۔ اعجاز صاحب نے کیا خوب کہا :
we Children of this soil who excel in paying lip service to the metaphysical have just experienced a miracle in our lives.
ہندکو زبان میں شاعر کہتے ہیں :
وعدہ تیرا پورا ہو یا
ملاقات ہوئی ضرور
پر تیری بند اکھیاں نال
جنہاں دیاں اُڈاریاں
نتھیا گلی سی بلند
پرواز کردی اسماناں ول
اُڈدی اُڈدی اُڈ گنیاں
اُردو نظم دو’چاند‘ میں شاعر کہتے ہیں :
چاند وہ دو روشنی دینے لگے
ایک ظاہر آسماں پر ہے ، جو ہے
دوسرا مظہر شہادت کا تو ہے
رونما ہوتے ہیں ایسے واقعات
واقعہ لیکن وہی ہے منفرد
دیکھنے میں آتا ہے جو روبرو
خوب ہے منظر یہی
پشتو میں شاعر نے کہا :
درخصت پہ وخت وی دابہ تاوئپلی
پہ انداز دفن بہ تاوی خند ولی
منظوم نذر عقیدت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ایسے لائق ، محنتی ، باکردار ، جانباز اور محب وطن افسروں کی کوئی کمی نہیں جو پاکستان کو مشکلات سے نکال سکتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ہیروں کی قدردانی ہو کہ ہمارے ہاں صفوت جیسے مزید لوگ میدانِ عمل میں آکر ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں اور اسے ایک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی معاشرہ بنا سکیں۔ اس کتاب کی قیمت۴۰۰ روپے اور کل صفحات ۱۷۷ ہیں۔
مبصر : سید جاویدرضا
شاہد زبیر کی تصانیف
شاہد زبیر کا نام علمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ اور ’’ ایکسپریس ‘‘ میں کالم لکھنے کے علاوہ علم وادب سے وابستہ رسائل میں بھی باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ بینکاری سے منسلک رہے ۔ شاہد زبیر کی ۹ مذہبی اور ۷ تخلیقی کتب شائع ہوچکی ہیں جنھیں قارئین میں بے حد سراہا گیا۔ ڈاکٹر مختار ظفر کے بقول ’ شاہد زبیر کے درون باطن میں فکر ونظری قوس قزح ہے جس کے مختلف رنگ تصنیف وتخلیق کے پردوں میں جلوہ سامان ہیں۔ نثری نظم میں تو وہ ملتان کا سب سے بڑا حوالہ بن رہے ہیں۔ ان کی مختصر نظمیں کاٹ دار جملوں کی طرح سینے میں پیوست ہوجاتی ہیں اور نسبتاً طویل نظمیں سوچ کو متحرک کرتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ خود تجربے کی حاصل اور تاثر کی حامل ہیں۔ ‘ شاعری اور نثری کتب میں چند ایک کا ذیل میں احاطہ کیا گیا ہے۔
حصہ نظم :
(i)
دیوانے کا روزنامچہ
’’
دیوانے کا روزنامچہ ‘‘ شاہد زبیر کی نثری نظموں پر مبنی کتاب جو ایک ایسے شاعر کا مجموعہ کلام ہے جس نے اپنے مشاہدات اور تجربات کے لیے نثری نظم جیسی صنف کا استعمال کیا ہے ۔اُس کی نثری نظم میں کلاسیکی رویوں کے ساتھ ساتھ نادرہ کاری کا ایک ایسا وصف نمایاں ہے جو اسے اپنے ہم عصرشاعروں سے منفرد گردانتا ہے ۔اِن تمام نظموں میں عصری مسائل سے پیدا ہونے والے عمل او رردِ عمل کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے جس کی تلازماتی وسعت کے حوالے سے کئی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔شاہد زبیر کی نظموں کے موضوعات اچھوتے ہیں جن میں بے ساختہ سچائیاں موجود ہیں ۔موجودہ دور میں سچااور معیاری ادب اُسے مانا جاتا ہے جس میں زندگی پر نظر اور الفاظ میں جیتی جاگتی زندگی کی مورتیاں بنائی گئی ہوں۔ ایسی بشارتیں شاعر سے ہی مل سکتی ہیں اور شاہد زبیر کی نظموں میں یہ کیفیات موجود ہیں جن میں شاعری کا رنگ نہ صرف رومانیت و مقصدیت کا حسین امتزاج لیے ہوئے نظرآتا ہے بلکہ اِس میں مختلف تہذیبیں باہم متصادم دکھائی دیتی ہیں ۔وسیع پیمانے پر انسانیت سوز مظالم ...... معاشرتی تفاوت.....سماجی نا انصافی اور اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہوئے معاشی مسائل کے ساتھ وارداتِ قلبی کا رومانی پس منظر .....سب کچھ گویا شاہد زبیر کی نظموں میں ڈھل گیا ہے ۔
شاہد زبیر جدید اُردو نظم کے اہم شاعر ہیں وہ تخلیقی اعتبار سے بہت توانا ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک ان کے درجن کے قریب نثری نظموں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اُن کی تخلیقات میں ’’کمالِ مطلوب ، کمہار کے برتن ،سرخ موسم ، سوچ میں بیٹھے رنگ ، اپنائیت کا سفر ‘‘ شامل ہیں اُن کی شاعری کا مطالعہ انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز ہے ۔ادب کو پرکھنے کا وہ اپنا ایک جداگانہ نظریہ رکھتے ہیں ۔ملتان کی ادبی مجلسوں کے فعال ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نئی شاعری کے اہم نقاد بھی ہیں جو ادبی حلقوں میں افسانہ نگار اور نظم کے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔شاہد زبیر اپنی نظموں کے ذریعے زندگی کے جملہ تجربات اور تلخ حقائق کو سہل ممتنع میں اس خوبصورتی سے بیان کر جاتے ہیں کہ ہر نظم میں کوئی نہ کوئی شعر زندگی کے بارے میں ان کے کیف و انبساط کی تصویر بنتا چلا جاتا ہے ۔ ملاحظہ ہو اُن کی نظم ’’حکمران ‘‘جس میں بڑے بڑے گھروں میں بستے بیورو کریٹس اور عام انسان کے درمیان وسیع خلیج کو انتہائی کرب کے ساتھ بیان کیا ہے ۔اُن کی ایک نظم ’’ یاد گار ‘‘ اِس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ لوگ دوسروں کے دکھوں سے کس طرح آنکھ چرا کر کھسک لیتے ہیں، ہیگل ، مارکس ، لینن نے معاشی جدو جہد کا دائرہ اِس قدر وسیع کردیا ہے کہ انسان کی اپنی ذات کا تشحض خطرے میں پڑ گیا ہے ۔وقت نے مشاورت کے سارے دروازے بند کرکے ہماری زبانوں پر تالے لگا دیے ہیں۔دُکھ ، کرب ، اذیت اور خوف کا احساس ’’ یادگار ‘‘ میں بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے اور فلسفۂ غمِ دوراں کے تحت آنے والی کیفیات و تاثرات اِس نظم میں جا بجا نظر آتے ہیں ۔ایک سچا فنکار اپنے دور میں اپنے ہم عصروں اور ہم سفروں کے فن کارانہ مرحلوں اور روایت کے پیچ و خم سے آگاہ ہوتا ہے اُس کی نظر میں آج ہی نہیں ہوتا بلکہ کل جو گزر چکا ہے اُس کے تہذیبی اثاثے اور دین سے بھی واقفیت ہوتی ہے اسی طرح آئندہ و گزشتہ کا آئینہ بنتا ہے ۔شاہد زبیر میں یہ تمام وصف موجود ہے وہ ایک مذہبی سکالر بھی ہیں اِ س کے علاوہ سیاسی ، سماجی شعور کے حامل خیال مفکر بھی۔ تاہم اُن کی نظم نگاری ہی ان کی شخصیت کا غالب حوالہ ہے ۔ ۱۲۷ نظموں پر مبنی اِس کتاب میں اُن کے قلم سے کچھ ایسی نظمیں بھی نکلی ہے جن میں محرومی کا احساس حدوں کو چھوتا ہے۔ یہ کتاب معاشرتی استحصال ، جبر ، گھٹن جیسی کیفیاتِ مسلسل کا مجموعہ ہے جو ہر ذی حس انسان کے فکر و عمل میں جا گزیں رہتی ہے ۔ اُن کی نظمیں ان تمام رحجانات کی علمبردار ہیں جو حیات سے کائنات تک اور کائنات سے نجات تک ہر بڑے فنکار کا موضوع رہے ہیں ۔شاہد زبیر نے نثری نظم کے پیرایۂ اظہار کو اپنایا اور نت نئے رنگوں ، مشاہدات اور محسوسات کے تناظر میں ردِ عمل ، بے بسی و شعور فکری اور بحیثیت مجموعی سرشتِ انسان کی پوسٹ ماڈرن صورتحال کو کشید کیا ہے جن میں سادگی کے ساتھ ساتھ ایک ڈرامائی الہڑ پن بھی ملتا ہے اور یوں شاہد زبیر خود کلامی ، ڈرامائی مکالمہ اور اساطیریِ جہاں سے اشاراتی نظام بھی تخلیق کرتے ہیں ۔ یہ کتاب بلاشبہ ان کی فنی صلاحیتوں کی ایک اہم کڑی ثابت ہوگی اور ادبی حلقوں میں اسے یقیناً بڑی پذیرائی حاصل ہوگی۔ دستک پبلی کیشنز گول باغ گلگشت، ملتان سے شائع ہونے والی یہ کتاب ۱۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کی قیمت صرف ۱۵۰ روپے ہے ۔
(ii)
برف کی قاشیں
اس کی منظومات میں استعمال ہونے والی علامات و تشبیہات دیگر نثری نظموں کے شاعروں کی طرح دوراز کار نہیں بلکہ ارد گرد پھیلی زندگی سے ہی اخذ کی گئی ہیں ۔ اِس کی تراشیدہ علامات کو کھولنے میں زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا اور انکشاف کا عمل ایک ایسی حیرت کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ وہ جلد رہا نہیں ہو پاتا ۔شاہد زبیر کا مصلحت سوزاسلوب مستقبل کے اُس ادب کی نوید دیتا ہے جس میں قارئین کو رسیلی سر زمین کی بو باس ملے گی کیونکہ اس کتاب میں شامل نظموں کے موضوع ملک میں سیاسی ماحول کی تبدیلی سے سماجی صورت حال کی تبدیلی ، معاشرے کے ہر فرد کی نفسیات اور اُس کے مسائل اور ارد گرد پھیلی سسکتی ، سلگتی زندگی سے ہی اخذ کئے گئے ہیں ۔ بہت سی نظمیں اس ملک کے عام شہریوں کے حالاتِ زندگی اور اُن سے جڑے ہوئے روز مرہ کے مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ شادی ، محبت، بچے، جھگڑے، وفات نیز ہر طرح کے موضوعات کو انتہائی احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے ۔ شاہد زبیر نے ادبی دنیا میں اپنی تخلیقات کے ذریعے پائیدارنقوش بنائے ہیں اور وہ ان اہلِ علم و دانش کی صف میں نمایاں کھڑے نظر آتے ہیں جن کے کندھوں نے ادب کی عظیم الشان تعمیر کا بوجھ اٹھا رکھا ہے ۔گویا اُ س کے موضوعات کی ایک بہار ہے جس میں افکار کے متنوع رنگ اُسے اپنی جانب متوجہ کرتے رہتے ہیں مگر ان موضوعات میں کچھ موضوع نہایت گنجلک بھی محسوس ہوتے ہیں جنہیں انھوں نے انتہائی سہل اُردو کے امتزاج کے ساتھ وقیع انداز میں اجاگر کیا ہے جس میں ایک فقیرانہ بے نیازی اور عاجزی جھلکتی نظر آتی ہے۔ یہی رویے فن کو سر بلندی عطا کرتے ہیں اور یہی رویے تخلیق کے حوالے سے ایک سچے فن کا رکی پہچان بھی بنتے ہیں اسی تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کی نثری نظمیں ہماری شعری روایات کی آئینہ دار ہیں ۔
نثری نظم یا نظمی نثر اور نثر لطیف جیسی تراکیب پراگر بحث نہ کی جائے اور اِس کے جواز کو اگر مسئلہ نہ بنایا جائے تو شاہد زبیر کی شاعری کا مطالعہ انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔ ان کی نظم اور نثر میں کہیں بھی حدِ فاصل نظر نہیں آتی ۔ نت نئے رنگوں کی آمیزش سے تیار ہونے والی تصویروں کے کینوس کبھی ایک نقطہ نظر پر مرکوز ہو جاتے ہیں اور کبھی پوری کائنات کا احاطہ کرنے لگتے ہیں وہ اپنی نظموں میں انتہائی بے باک نظر آتے ہیں اور یہی بے باکی اسے ایک انفرادیت بھی عطا کرتی ہے انھوں نے اپنے عہد کے دکھ کو سمیٹ کر قارئین کو خود شناسی کی دعوت دی ہے ۔ سر ورق پر بنی تصویر میں برف پر لکیر ان کی سوچ اور پرواز تخیل کی گویا عکاسی کرتی ہے کہ معاشرے کی سرد و ساکت روش کے بیچ کہیں کوئی راستہ ، کوئی پگڈنڈی نئی اور پر امید راہوں کی نوید دیتی ہے۔ یہ لکیر ہی ایک راستہ ہے نئی جہتوں اور نئی منزلوں کا کہ جن کا ہر شاعر متلاشی ہے ۔اُن کی بیشتر نظموں مثلاً ’’کند ذہن شہزادہ ،شرم ،ساتھی کنواریاں،غنائی جسم ، جمہوری مجسمہ ، خود کشی کا طریقہ ‘‘ وغیرہ کے موضوعات اتنے متنوع ہیں کہ حیرت ہوتی ہے مگر ڈکشن اتنا جاندار ہے کہ قاری کی بھر پور توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ نظم ’’کرنل‘‘ انتہائی دلچسپ ہے جس میں زندگی اور موت کو دو سگی بہنیں قرار دیتے ہوئے شاہد زبیر نے ایک عجیب سا سماں پیدا کیا ہے کہ زندگی اور موت ایک ہی کوکھ سے جنم لیتی ہیں موت ہی اصل سرمایۂ غم ہے کہ جس کے چھن جانے کا خوف نہیں بالکل اسی طرح جیسے زلزلہ بس تھوڑی دیر برپا ہوتا ہے مگر سب کچھ تہس نہس ہو جاتا ہے ایسے ہی زندگی محض کچھ دیر ٹھہرتی ہے اور پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ۔ نہ صرف ’’کرنل ‘‘ بلکہ بہت سی ایسی نظمیں جو زندگی کے تلخ و شیریں موضوعات لئے ہوئے اس کتاب کے اوراق پرسجی ہیں، اپنے خیالات کی گیرا ئی وگہرائی کی بناپر قارئین کو قائل کرتی ہیں اور وہ ان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اِس کتاب میں کل ۱۱۱ نظمیں شامل ہیں جو اپنے مختلف عنوانات و مو ضوعات کے باعث معیاری ادب سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے ذوق مطالعہ کو یقیناً جلا بخشے گی اِس کتاب کو بھی دستک پبلی کیشنزگول باغ گلگشت ملتان نے پیش کیا ہے اور اِس کی قیمت صرف ۱۵۰ روپے ہے۔ اِس میں ۱۱۲ صفحات ہیں ۔
(iii)
سات سطروں کی کہانیاں
شاعری کے قافلۂ شوق میں ایک اہم نام شاہد زبیر کا بھی ہے جو شاعری اور شاعروں کے ہجوم میں اپنی مختلف آواز اور لہجے کے ساتھ دور سے پہچانا جاتا ہے ۔ اُس کے شعروں میں وہ لپک ہے جو پڑھنے والے کو روک سکے اور اس کے دل کو پکڑ سکے کیونکہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کے اظہار کا شاعر ہے ۔ وہ اپنے عنوانات میں جدت پیدا کرتا ہے یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسی ضمنی عبارت بھی استعمال کرتا ہے کہ نفسِ مضمون روشن ہو جاتا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ شاہد زبیر نے شاعری کو بطور پیشہ نہیں بنایا بلکہ شاعرانہ عنوانات تخلیق کر کے ذوقِ شعر گوئی کا سامان کیا ہے ۔ اِس کتاب ’’ سات سطروں کی کہانیاں ‘‘ میں شاہد زبیر نے روایت کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ لمحۂ موجود پر کھل کر بات کی ہے ۔ ہم انھیں روایت شکن تو نہیں کہہ سکتے البتہ وہ روایت پرست بھی نہیں ۔ انھوں نے آشوب ذات کو آفاقی ملبوس دینے کی کوشش تو ضرور کی ہے مگر ان کا نغمہ Dying songبن کر سماعتوں سے نہیں ٹکراتا البتہ سحر انگیز ضرور لگتا ہے ۔ ان کے بعض اشعار اردو ادب کے کشکول میں ہیروں کی طرح جگمگا رہے ہیں جنہیں میزان ادب پر تولا نہیں جا سکتا ۔ وہ آسابی کے ساتھ اپنے جذبوں کا اظہار تمام تر فنی خوبیوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں احساس و اظہار کی یہی شدت اور شعور کی یہی بلوغت انھیں بتدریج ایک بہتر مقام تک لے جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اُس میں شوق اور ریاضت کا جذبہ موجود ہو ۔
شاعری کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ عالمگیر اور بلند آہنگ مسائل کو ہی موضوع سخن بنایا جائے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور ننھے ننھے غم بھی دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان موضوعات پر بڑی شاعری لکھی جا چکی ہے اور آئندہ بھی اس کا امکان موجود ہے ۔ شاہد زبیر نے بھی اس کتاب میں انہی سادہ جذبات کو شاعری کا موضوع بنایا ہے اور جس طرح محسوس کیا ہے اُسی طرح سادگی سے بیان کرنے کی سعی کی ہے اور اظہار و بیان کے نئے نئے گوشے بے نقاب کیے ہیں ۔ اِس کتاب کی انتہائی خوبصورت بات یہ ہے کہ ہر نظم صرف سات سطروں پر مشتمل ہے اور یہ تسلسل اول تا آخر نظم قائم ہے جو شاہد زبیر کے زور قلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر مضمون اور ہر تخلیق کو صرف سات سطروں میں باندھ کر لکھنا بلا شبہ مشکل کام ہے مگر شاہد زبیر نے انتہائی مشاقی سے اِس کتاب میں ۱۰۶ نظمیں لکھ لیں جو سب کی سب سات سطروں پر مشتمل ہیں ۔ اِس کتاب میں شامل نظم ’’ نئے دکھ ‘‘ اِس بات کا اظہار کرتی ہے کہ دکھ ہر بار شکل بدل بدل کر ہمیں آن ملتے ہیں۔ہماری خوشیوں کو شائد کوئی اور منزل مل گئی ہے یا وہ یہیں کہیں کسی اور راستے پر کھو گئی ہیں مگر دکھ ہر بار ہم سے نئے ہو کر نیا چہرہ ، نیا لباس بدل بدل کر ملتے رہتے ہیں۔ یہ نظم آج کل کے معاشی اور معاشرتی ماحول کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ ہمارے ارد گرد ہر انسان کسی نہ کسی قسم کے کرب میں مبتلا ہے۔اسی طرح ایک اور نظم ’’مقید ‘‘ معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے کہ جب ہم کسی دوسرے کی حق تلفی کرتے ہے تو شایدہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور جب ہم خود وقت کا شکار بنتے ہیں اور کوئی دوسرا ہماری حق تلفی کرتا ہے اور جب ہمارا استحصال ہوتا ہے تو کبھی کبھی ہم اپنی ذات کے پنجر خانے میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں ۔اِسی طرح کے بہت سے مسائل کو شاہد زبیر نے اس کتاب میں بڑی سادگی سے پیش کیا ہے۔ یہ کتاب بلا شبہ نثری نظموں پر مبنی بے مثال کتاب ہے جسے دستک پبلی کیشنز گول باغ گلگشت، ملتان والوں نے شائع کیا ہے۔ ۱۱۸ صفحات پر مبنی اِس کتاب کی قیمت صرف ۱۵۹ روپے ہے ۔
حصہ نثر :
(i)
برف پر لکھی تحریریں
شاہد زبیر کی شخصیت کو پرکھنے اور ان کی تحریروں کو جانچنے کے لئے اُن کی ذات کے آشوب پر غور کرنا ضروری ہے۔ وہ آشوبِ ذات کا شکار ہو کر جو بکھرا تو سمٹنے کی آرزو نے تکمیلِ ذات کے لئے اہم کردار ادا کیا اور یوں وہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو ہیجان انگیز ہوتی ہے ایسی ہیجانی کیفیت کبھی دیوانہ بنا دیتی ہے تو کبھی فرزانہ ۔ یہی وجہ ہے کہ دیوانگی اور فرزانگی میں انتہا پسندی قدر مشترک ہے اسی ہیجانی نفسیاتی کیفیت نے شاہد زبیر کو کتابوں کا انسائیکلو پیڈیا ، بنا دیا اُن کا اشہب قلم تصنیف و تالیف کے میدان میں سر پٹ دوڑتا چلا گیا اور ’’حکایت اولیاء، کمہار کے برتن ، برف کی قاشیں ، دیوانے کا روزنامچہ ‘‘ جیسا معیاری ادب تخلیق ہوا ان کی افسانوں پر مبنی کتاب ’’برف پر لکھی کہانیاں ‘‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو ہنری ، موسپاں ، یا پھر منٹو کی مختصر کہانیوں ہی کی طرح مختصر مگر افسانے کے روایتی وصف پر پوری اترتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ناول کی ضخامت نے مصروف قاری کوکہیں دور کر ڈالا ہے اور لوگ شارٹ سٹوری پڑھنا نسبتاً پسند کرنے لگے ہیں اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شاہد زبیر نے اپنی کہانی کو تھوڑی بات چھوٹی تحریر میں پوری بات کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مختصر سا کوئی واقعہ ، زندگی کی موجودگی اور اس کا دل کو چھو لینے والا انجام ایسے ہی افسانے قاری کے دل کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔
مرزا غالب نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’دریا میری روانئِ طبع کے سامنے سجدہ ریز ہے اور صحرا کی وسعت میری وسعتِ خیال کے سامنے شرمندگی سے گرد کی چادر اوڑھ لیتی ہے ۔مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا دعویٰ تو صرف شاعری کے بارے میں تھا مگر شاہد زبیر نے ا ن کی عظمت کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے نہ صرف نثری شاعری بلکہ مختصر افسانہ نگاری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔
اِس کتاب میں شامل افسانوں کو تحریر کرتے ہوئے مصنف کا لہجہ کہیں کہیں جذباتی ہو جاتا ہے مگر یہی اُن کے خلوص اور محبت کی علامت ہے جو فطری اظہار کا واحد وسیلہ ہے۔ اِن افسانوں میں انھوں نے اختصار و ایجاز سے کام لے کر انتہائی پرکشش اور عام فہم انداز میں اپنایا ہے اور لفظوں کی فضول خرچی سے پرہیز برتا گیا ہے ۔ اختصار کے باوجود اُ ن کی تحریریں کسی بھی تخلیقی عنوانات کا آئینہ خانہ ہے جنھیں قائم کرنا دقت طلب کام ہے مگر شاہد زبیر نے اِس کتاب میں بڑے تواتر سے ایسے عنوانات باندھے ہیں کہ اب ایسے عنوانات باندھنا محض ان ہی سے مخصوص نظر آتا ہے ۔ اپنی کہانیوں میں انھوں نے کہیں معاشرتی رویوں ، معاشرتی قدروں اور عام انسانی سوچ کی عکاسی کی ہے تو کہیں رومان پرور عنوانات کے صنم کدے تعمیر کیے ہیں ۔ ان افسانوں کی پیکر تراشی میں ان کے اندر بیٹھا ہوا ایک الہڑ اور نٹ کھٹ ادیب بولتا ہے جو ان کے لاشعورمیں چھپ کرشعور کی رہنمائی کرتا ہے ۔ اِس کتاب کے قارئین کو درمیانی قامت کے بہت تھوڑے افسانے روایتی بھی ملیں گے جن کا ماحول خالصتاً دیسی ہے مگر زیادہ افسانے وہ ہیں جو ہماری زندگی سے جڑے ہیں لیکن ان کا انداز مختصر انگریزی افسانے کی طرح ہے ۔ ان میں بہت سی کہانیاں ’’بڑی یا عمدہ ‘‘ کے خاکے میں آسانی سے رکھی جا سکتی ہیں جو بلا شبہ ایک صاحب مطالعہ فرد کی دانش کا نچوڑ ہیں ۔اِس کتاب میں شامل ایک مختصر کہانی’’خود کشی ‘‘ جو ایک طرح کے معاشرتی ناسور کی منہ بولتی تصویر ہے جس میں بعض عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں کسی ڈاک بنگلے جا کر اپنی ناموس و عزت کی بھینٹ سے وہ ساری چیزیں حاصل کرتی ہیں جو اُن کے گھر والے انہیں لے کر نہیں دیتے اور پھر ایک دن پولیس نے جب اس ڈاک بنگلے پر چھاپہ مارا تو عزت دار گھرانوں کی لڑکیوں نے بنگلے کے کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ یہ او ر ایسی بہت سی کہانیاں جو خود ساختہ نام نہاد عزت داروں کے چہروں کو بے نقاب کرتی ہے اس کتاب میں شامل ہیں ۔’’ مرغ مسلّم‘‘ جو کہ محض دو سطری کہانی ہے مگر اس میں غربت و افلاس کا آہنی شکنجہ اس قدر مضبوط نظر آتا ہے کہ ایک عام انسان تاحیات اس کی گرفت سے نکلتا نظر نہیں آتا بالکل اس کہانی کے مرکزی کردار یعنی اس بچے کی طرح جو پانی کے ساتھ روٹی کھاتے ہو ئے اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ مرغ مسلّم کیا ہوتا ہے، تو اُس کی ماں کہتی ہے کہ یہی جو تم کھا رہے ہو تو وہ ساری زندگی روٹی کو پانی میں بھگو کر اسے ہی مرغ مسلّم سمجھ کر کھاتا رہتا ہے ۔ یہ کہانی جو انتہائی مختصر ہے مگر اس میں غربت کا کرب اس قدر ہی جامع ہے۔یہ احساس ہے اس تکلیف کا جو ہمارے معاشرے کے لوگوں کو لاحق ہے ۔ان تمام کہانیوں کے کردار دراصل مصنف کے اندر آباد شہر کے مکین ہیں جنہیں وہ ہم سے ملوانے کے لئے لایا ہے ۔ اس نے نظم اور افسانے کو کافی حد تک ایک کر دیا ہے۔ اس کے اسی اجتہادی عمل کی وجہ سے ا س کی تخلیقات میں تازگی اور نیا پن پیدا ہو گیا ہے ۔ ۸۳ کہانیوں پر مشتمل اس کتاب کو دستک پبلی کیشنز گول باغ گلگشت ملتان نے شائع کیا ہے۔ ۱۲۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے ۔
جدید شعری روایت
ناشر: بیک بکس، ملتان
الیاس میراں پوری کی مرتب کردہ کتاب ’’جدید شعری روایت‘‘ میں جدید اردو غزل اور جدید اردو نظم کے عنوانات کے تحت اہم مضامین یکجا کر دیے گئے ہیں۔ بیسویں صدی کے شعر و سخن پر بات کی جائے تو جدید غزل کے حوالے سے خاص طو رپر حسرت موہانی، فراق، ناصر کاظمی، منیر نیازی، ظفر اقبال اور احمد فراز نمایاں نام ہیں اور جدید نظم کے حوالے سے خاص طور پر میرا جی ، مجید امجد، ن۔م۔راشد اور فیض نے نئے دروا کیے۔ اس کتاب میں ان جدید شعراء پر چند اہم نقادوں کے مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب طلبا کے ساتھ ساتھ علم و ادب کا ذوق رکھنے والے صاحبان کے لیے بھی مفید ثابت ہو گی۔
مبصر: صفدر رشید
راوی۔ ۲۰۱۱ء
’’
راوی‘‘ جی سی یونیورسٹی ، لاہور کا پروقار رسالہ ہے۔ یہ میگزین تین زبانوں کے ادب کا احاطہ کرتا ہے۔ اُردو ، پنجابی اور انگریزی ۔ میگزین کے سرپرست پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمن (وائس چانسلر) ہیں۔ حصہ اُردو وپنجابی کے نگران ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی ہیں اور حصہ انگریزی کے نگران ڈاکٹر نوشین خان ہیں۔ اُردو کے حصہ میں اداریہ ، حمد اور نعت کے بعد گوشۂ فیض احمد فیض، مضامین (مختلف الموضوعات ) ، افسانے ، گوشۂ انیس ناگی ، شاعری (غزل ونظم ) ہیں جو بہترین ترتیب اور انتخاب پر مشتمل ہیں۔ حصہ پنجابی مضامین اور شاعری (نظم وغزل) پر مشتمل ہے، جن کا انتخاب بھی بہترین ہے۔ اگر اس حصے میں کچھ افسانے اورشخصیات (بلھے شاہ ؒ ، اقبال باہوؒ وغیرہ ) کے حوالے سے گوشہ بناتے تو اس حصے کا ادب مکمل ہوجاتا ۔ بہرحال یہ ایک بہترین کاوش ہے۔ روای کی روایت سے کون واقف نہیں ، سرورق کے اندرونی رخ پر مدیرانِ گرامی کے نام پڑھ کر ہی ایک کہکشانِ ادب نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ حصہ انگریزی میں اداریہ کے بعد Pensive, Patriotic Wisdom, Poetry, Preserving Footsteps, Creative Amalgan کے عنوانات کے تحت مضامین ، افسانے اور شاعری کو ترتیب دیا گیا ہے جو معروضیت وجامیعت کا حامل ہے۔ خوبصورت پرنٹنگ اور دیدہ زیب تصاویر سے مزئین یہ میگزین جی سی یونیورسٹی ، لاہورکی بہترین کاوش ہے۔
المشکوٰۃ
’’
المشکوٰۃ ‘‘ فیڈرل گورنمنٹ کالج برائے خواتین ، ایف سیون ٹو ، اسلام آباد کا رسالہ ہے۔ یہ رسالہ دوحصوں پر مشتمل ہے حصہ اُردو اور حصہ انگریزی ، رسالہ کی سرپرست کالج کی پرنسپل ڈاکٹر طیبہ صدیقی ہیں۔ حصہ اُردو کی نگران رخسانہ شبیر ، عارفہ ثمین طارق اور روبینہ الماس ہیں۔ حصہ انگریزی کی نگران ثمینہ ترمذی ، تسکین سعید اور نصرت بتول ہیں۔
حصہ اُردو میں اداریہ کے بعد حریمِ ذات (حمد ، نعت ، قرآن الحکیم ) ، صباحات، بازیافت (مضامین) ، رنگِ حیات (افسانے )، مضحکات (طنز ومزاح ) ، ابیات (شاعری ) ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں۔ جو مختلف اساتذہ اور طالبات کی تحریروں پر مشتمل ہے۔ اثبات کے عنوان کے تحت کالج ہذا کی تقریبات اور طالبات کی کارکردگی کی رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ ملاقات میں پرنسپل ڈاکٹر طیبہ صدیقی کا انٹرویو ہے جسے عارفہ ثمین طارق اور روبینہ الماس (شعبہ اُردو ) نے کیا۔
حصہ انگریزی مختلف نوعیت کے مضامین پر مشتمل ہے جو اساتذہ اور طالبات کی بہترین کاوش ہیں۔ آخر میں کالج ہذا کی تقرچیبات اور طالبات کی کارکردگی کی رپورٹیں پیش کی گئی ہیں۔ پروقار تحریریں اور بہترین طباعت قابل ستائش ہے۔ اپنے محدودذرائع کے باوجود ایک معیاری میگزین شائع کرنے پر کالج ہذا تعریف کا مستحق ہے۔
مبصر: روبینہ الماس