آٹھ قومی زبانیں ؟
ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی
ترجمہ: نبلی پیرزادہ


۸مئی کو منعقد ہونے والے ہمدرد شوریٰ کے اجلاس جو ملک کی معروف شخصیات، ادیبوں، سابق قانون دانوں ، ججوں، فوج اور سول کے سینئر ترین ریٹائرڈ افسران، صف اوّل کے ماہرین تعلیم اور وکلاء اور اپنے شعبہ جات میں تخصص رکھنے والی اہم ترین شخصیات کا ایک فورم ہے، ایک رپورٹ کے بارے بات چیت کی گئی جس کے مطابق ۲۲ ممبران قومی اسمبلی (جن میں سے زیادہ تر کا تعلق حکمران جماعت سے ہے ) کی جانب سے قومی اسمبلی میں ایک تجویز پیش کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں ترمیم کے ذریعے پاکستان کی ۷ مقامی زبانوں بشمول بلتی ، شنا اور دیگر کو، قومی زبان کا درجہ دے دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں ترمیم کی اس تجویز کو قومی اسمبلی نے بغیر کسی بحث مباحثے کے قبول کر لیا اور اب اسے آئین میں ترمیم کے ضروری تقاضے پورے کرنے کے لیے باقاعدہ "Bill"کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
شوریٰ کے اجلاس میں اس امر کی جانب اشارہ کیا گیا کہ پچھلے ۶۵ برسوں میں مئی ۱۹۴۸ء کے آغاز سے لے کر، جب قائداعظم محمد علی جناح نے ’’اردو‘‘ کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا، آج تک مختلف دستور ساز اسمبلیوں کے بنائے ہوئے ۱۹۵۶، ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۳ء کے تینوں آئین میں اس بات پر مکمل اتفاق رائے موجود ہے کہ پاکستان کی قومی زبان صرف ’’اردو‘‘ ہو گی۔ اگرچہ آئین کے ۲۸ ویں آرٹیکل کے تحت ایک مخصوص، زبان، ثقافت یا رسم الخط رکھنے والے تمام شہریوں کو ان چیزوں کی حفاظت اور ترویج کاحق حاصل ہے تاہم مقامی زبانوں کا اپنا دائرہ کار ہے اور وہ کسی طور پر قومی زبان کا بدل نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ ۸ قومی زبانیں قرار دیے جانے کی تجویز قومی وحدت پر ایک کاری ضرب لگانے کے مترادف سمجھی گئی اور کہا گیا کہ قومی اسمبلی کو اس تجویز کو رد کرنے کی درخواست کی جائے جیسا کہ یہ اردو کی ’’لینگوافرانکا‘‘ حیثیت ختم کر کے قومی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے حاضرین کو بتایا کہ اقوام متحدہ نے اردو/ہندی کو دنیا کی تیسری بڑی زبان قرار دیا ہے جیسا کہ یہ برصغیر میں ۳۰۰ ملین لوگوں کی مادری زبان ہے۔ میں نے کہا کہ یہ ’’ہندوستانی‘‘ کے نام سے اردو کے بارے گاندھی جی کی توضیح تھی جس نے ہندو اور مسلمانوں کے بیچ شگاف کو مزید گہرا کر دیا۔ ہر زبان اپنی قبولیت کی بنا پر بین الاقوامی طو رپر رائج ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ڈالر کی طرح کوئی کرنسی بین الاقوامی طو رپر قابل قبول ہو جاتی ہے۔ چنانچہ کثیر لسانی پاکستان /برصغیر میں اردو ایک ضرورت ہے۔ اپنے اس نکتے کی وضاحت کے لیے میں ناگالینڈ سے مصر تک اپنی ہی کچھ کہانیاں بیان کروں گا۔
۱۹۴۵ء میں ناگالینڈ پر آسام کے ایک گھنے دور دراز کے جنگل میں میرا جانا ہوا۔ میں اپنے ایک کزن کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا جس نے مجھے ایک رائفل دی اور ملحقہ جنگل میں شیر کے شکار پر بھیج دیا۔ میرا گائیڈ ایک مقامی باشندہ تھا جو ایک انتہائی غیر تہذیب یافتہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ تاہم وہ ایک قسم کی اردو ہی تھی جس میں ہم بات چیت کر رہے تھے۔’’ اس جنگل میں بگا آتاہے فجر کے وقت، جل پینے، یہ دیکھو بگا کے پاؤں کے نشان‘‘۔ اسی طرح ’’انڈین فلم سنسر بورڈ‘‘ نے ۲۰۰ سال قبل تحریر کیے جانے والی شہ پارے ’’امراؤ جان ادا ‘‘ پر مبنی فلم کی زبان کو ہندی قرار دیا جبکہ درحقیقت یہ انتہائی نستعلیق قسم کی اردو تھی جس میں ہندی کا ایک لفظ بھی نہیں تھا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ قاہرہ میں میرے قیام کے دوران پیش آیا جب میں بحیثیت سفیر وہاں تعینات تھا۔ اس موقع پر جب میں نے بھارتی سفیر کے ساتھ اردو میں بات چیت کا آغاز کیا تو نیپال، برما، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے سفیر بھی اردو زبان میں اس گفتگو میں شریک ہو گئے۔ مختصر یہ کہ چاہے ’’اردو‘‘ کو جو بھی نام دے لیں ، نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ عمومی طور پر پورے جنوبی ایشیا یا سارک (SAARC)خطے میں رابطے کی زبان صرف اردو ہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اس خطے کی سب سے زیادہ ثروت مند زبان بن چکی ہے۔ برصغیر میں مدرسہ دیوبند، علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ عثمانیہ جیسے بڑے اور پروقار اداروں نے درس و تدریس کے لیے اسی زبان کو اپنا یااور اس میں بے پناہ کام کیا۔
چنانچہ اگر مذکورہ بالا ترمیم کی منظوری ہو جاتی ہے تو تمام سرکاری نوٹنگ کے لیے مقامی زبانوں کا استعمال کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر بلتستان، پنجاب کے ساتھ مراسلت کے لیے بلتی زبان استعمال کرے گا اسی طرح سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی مقامی زبان استعمال کی جائے گی۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنی اپنی مقامی زبان میں خطاب کریں گے۔ جن کا سات زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا تاکہ دیگر ممبران اسمبلی اسے سمجھ سکیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سابقہ سویت یونین میں آمریت کے دور میں ایسا تجربہ کیا گیا تھا تاہم اس امر سے سب بخوبی واقف ہیں کہ یہ تجربہ ناکامی سے کیسے دو چار ہوا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حکومتِ وقت پاکستان کی ریاستی اساس یعنی واحد قومیت (پاکستانیوں) کے پاکستان کو سوئٹزرلینڈ کی طرز پر تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ جہاں Cantons شناخت کی بنیادی اکائی ہیں اور سوئٹزرلینڈ محض انCantons کا مجموعہ ہے، اس کا یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو سابق یوگوسلاویہ کی طرز پر لسانی قومیتوں پر مبنی الگ الگ صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس صورت میں البتہ ۸قومی زبانوں کا نظریہ درست ہے---- یقینی پاکستانی قومیت کی بجائے۸ مختلف قومیتیں۔
(
بشکریہ: پاکستان آبزرور )