غزل
رگِ جاں میں فشارِ خوں تو ہے
مجھ میں باقی ابھی جنوں تو ہے

عیش و عشرت کے واسطے گھر میں
کچھ نہیں ہے مگر سکوں تو ہے

اب تعلق نہیں کوئی اُس سے
ملنا جلنا ہمارا یوں تو ہے

اپنا گرویدہ کر لیا ہم کو
اس کے لہجے میں کچھ فسوں تو ہے

سر بلندی پہ ناز تھا جس کو
میرے آگے وہ سر نگوں تو ہے

یوں بظاہر بجھا ہوا ہوں میں
دل میں کچھ آتشِ دروں تو ہے
خواجہ جاوید اختر
غزل
موجوں کا شور و شر ہے برابر لگا ہوا
دریا سے اِس قدر ہے مرا گھر لگا ہوا

ایسا نہ ہو کہ ٹوٹ پڑے سر پہ آسماں
ہے کچھ دنوں سے مجھ کو بڑا ڈر لگا ہوا

اب اس کے شر سے خود کو بچانا بھی ہے مجھے
رہتا ہے میرے ساتھ جو اکثر لگا ہوا

سناٹے چیختے ہیں مرے چار سو مگر
دل میں ہے اضطراب کا محشر لگا ہوا

دشمن کی بات چھوڑیئے حیرت ہے خود مجھے
گردن سے آج بھی ہے مرا گھر لگا ہوا

تکتا ہوں بے قرار نگاہوں سے بار بار
ہے آسماں سے میرا کبوتر لگا ہوا
خواجہ جاوید اختر
غزل
ہر وقت یہ احساس دلانے کا نہیں میں
تیرا ہوں فقط سارے زمانے کا نہیں میں

دریا تو ہوں لیکن مرے اندر ہے وہ وسعت
کوزے میں کسی طور سمانے کا نہیں میں

مدت سے مرے سینے میں اک راز ہے پنہاں
یہ راز مگر سب کا بتانے کا نہیں میں

اِس بار کوئی گل میں کھلائوں گا یقینا
صحرا میں فقط خاک اُڑانے کا نہیں میں

لگتا ہے وہ پھر کوئی نئی چال چلے گا
اِس بار مگر جال میں آنے کا نہیں میں

اِس بھیڑ میں پہچان مری سب سے جدا ہے
شیشہ ہوں مگر آئینہ خانے کا نہیں میں

اب ڈوبنا چاہے جو کوئی شوق سے ڈوبے
ہر ڈوبنے والے کو بچانے کا نہیں میں
خواجہ جاوید اختر
غزل
شگفتہ ہوتا گیا سلسلہ وفائوں کا
نتیجہ خیز ہوا سامنا جفائوں کا

دلوں میں بڑھتے گئے فاصلے کراں تا کراں
عجب مواح تھا تری مری انائوں کا

زمیں سے رشتۂ محکم نے سُرخرو رکھا
شجر کی دشمنی میں سر جُھکا ہوائوں کا

خُدا بھی ایک سے کشور کُشائی بھی اُس کی
مگر ہجوم ہے برپا یہ کِن خدائوں کا

وَرَق وَرق ہے جُنُوں کی جسارتوں سے حَسیں
جو اہلِ دِل ہیں اُنھیں خَوف کیا سزائوں کا
ہمارے کون سے کاموں پہ گوشمالی ہے
فلک نے پھیر دیا رُخ اِدھر بلائوں کا

ہماری سَمت بھی آئے کبھی تو بادِ شمال
گزر اِدھر سے بھی ہو کارگر ہوائوں کا

ریاض ہی سے جو امر کی رُونمائی ہے
ہُنر کمال دکھاتا ہے خُوش ادائوں کا
سید ریاض حسین زیدی
غزل
اُداس ہے حیات کیوں
اُلجھ گئی ہے بات کیوں

بجھا ہے کیوں چراغِ دل
لُٹی ہے کائنات کیوں

تمہارے گیسوئوں کے خم
شریک حادثات کیوں

مہیب تر ہے راستہ
پھر آپ میرے ساتھ کیوں

بکھر گئے چَمن چَمن
ہمارے واقعات کیوں

ریاض میرے حال پر
نئی نوازشات کیوں
سید ریاض حسین زیدی
غزل
میں اک آنگن میں مشتِ خاک ہونے کے لیے تھا
اور ان پوروں سے چھو کر پاک ہونے کے لیے تھا

دعائیں پوٹلی میں باندھ کر بیٹھا ہوا تھا
سفر اب جانبِ افلاک ہونے کے لیے تھا

پرندے مدتوں سے اس طرف آئے نہیں تھے
یہ عالم اور عبرت ناک ہونے کے لیے تھا
ہوائیں بادلوں سے پوچھ کر آئی ہوئی تھیں
وہ گائوں اب خس و خاشاک ہونے کے لیے تھا

غلافِ صبر میں سہمے پڑے تھے چپ صحیفے
زمیں پر آسماں پوشاک ہونے کے لیے تھا

شبِ گریہ مری آنکھوں پہ میرے ہاتھ بھی تھے
پہ وہ ہنسنا ذرا بے باک ہونے کے لیے تھا

سفر کی تلخیوں میں لذتوں کی داستاں تھی
مگر منزل پہ قصہ پاک ہونے کے لیے تھا

میں جس کو دیکھ کر پھر آسماں کی سمت لوٹا
وہ پیکر بھی سپردِ خاک ہونے کے لیے تھا
عدنان بشیر
غزل
مجھے مواخذہء حشر کا ہے دھیان بندھا
جمے لہو سے مرا چاک پر نشان بندھا

جلے ہوئے تھے ہوائوں کی دسترس میں چراغ
بہ سطحِ طاق پڑا تھا یہ استخوان بندھا

دھلے ہوئے ہیں اسی سرخ آگ سے ملبوس
اور آب و گل کے مرکب سے استخوان بندھا

بدن کے پیرہنِ خاک کو لگا زنگار
ہوا کی طرح دلوں میں وہ بے نشان بندھا

جہاں سے دیکھیں جھکا پڑ رہا ہے کاسہء چرغ
نشیبِ خاک میں شاید ہو آسمان بندھا

ابھی تلک تو میسر ہے روشنی عدنان
پہ کھلنے والا ہے سورج سے خاکدان بندھا
عدنان بشیر
غزل
پھیلا رنگ اذانوں کا
نکلا غول کسانوں کا
دل کے اندر دیکھا ہے
رستہ ریگستانوں کا

بارش کے سناٹے میں
شور قدیم زمانوں کا

اسکی گہری آنکھوں میں
نقشہ قبرستانوں کا

آبائی خوشبو کے ساتھ
سندیسہ ویرانوں کا

حیرت اور حیرانی سے
رشتہ ہے انسانوں کا

رفتہ رفتہ بکھر گیا
گلدستہ مسکانوں کا
حماد نیازی
غزل
وہ جو آیا تھا جانے والا تھا
یعنی وہ بھی زمانے والا تھا

میں نے کوزے سنبھال رکھے تھے
وقت دریا بنانے والا تھا

لہلہاتی تھی روشنی مجھ میں
وہ کہیں مسکرانے والا تھا

دھوپ تھی عکس کی منڈیروں پر
آئینہ ٹوٹ جانے والا تھا

لو دھڑکتی تھی خوابنائے میں
کوئی مجھکو جگانے والا تھا

سانس لینے لگی تھی ویرانی

ہاتھ ہاتھوں سے جانے والا تھا
حماد نیازی
اُڑتا سورج ایک پہیلی

دیوتا کے گُن گانے والوں ، اُڑتا سورج کیا ہے؟
اُڑتا سورج ایک پہیلی، بڑی پرانی
سُونا امبر جس کو ہر دن دُہراتا ہے
اپر م پار اندھیروں میں وہ انجانی
موت کی جانب جادو کی بائوپہ چڑھا
دُور، بہت ہی دور کو اُڑتا جاتاہے
اُڑتا سورج کیا ہے ، بھگتو؟ ایک روپہلی
شان ہے، چاندی کا شعلہ ہے
اُٹھتی اور نکھرتی کھیتی، پکتا پھل ہے
لال لہو میں لہریں لیتی گرماہٹ ہے
اس بستے سنسار میں چمکیلا دن ہے

اُڑتا سورج کیا ہے؟ کہ دو، دھن ہے
سوز بھری یا جلتا ہے امبر پہ دیا
آسمانوں اور زمینوںکے راجا کا
دن اور دن کے بیچ میں آنے والے ٹھنڈے
اندھیارے میں دل کو ڈھارس دینے والا
دھیان جو فوّارے کی صورت نور بکھیرے
اُڑتا سورج کیا ہے؟ آنکھ ہے
بڑے گیانی چتر کارکی، جانتاہے جو
اپنے کام کے سارے نکتوں کو، باتوں کو
اور امبر پر سانجھ سویرے کھینچتا ہے وہ
اپنے دل کے بیچوں کی ، رنگ برنگی
جلتی اور دہکتی پرتوں کی تصویریں

اُڑتا سورج کیا ہے؟ آگ ہے
جو سنسار کے سارے جینے والوں کی
رگ رگ اور ریشے ریشے میں جلتی ہے
محمد سلیم الرحمن
سہاگن

تھوڑا تھوڑا یہ جوسہاگن رنگ اکٹھا دل میں ہوا ہے
جانے کتنے بھید نچوڑے، نیندگنوائی، پیاس چرائی
کون سے چورہاتھوں سے لُٹ کر آج یہ گھر آباد کیا ہے؟
برسوں سے سو ندھی مٹی نے کیسی ہیکٹر جوت جگائی
خوشیوں کی بوچھار جو پلٹی ، غم کا مکھڑادھل سا گیا ہے

ساون ماس خزانے اُپجے ، سر سے پائوں تلک ہریائی
کون یہاں میری چھائوں میں مجھ سے منہ موڑے بیٹھا ہے؟
روپ وہی جانا پہچانا، انگ میں ویسی ہی گرمائی
آج کی کھوٹی منزل او ہلے کیسا کندن رنج اُگا ہے
آس کے سیر جیون سوتوں سے پھوٹ بہی گھنگھور بدھائی

سیرابی کے اس ریلے نے لُک چُھپ کیسی راس رچائی
ہاتھوں ہیٹھ وہ برکھا چہرہ پھول سریکھا کھل اُٹھا ہے
گھپ رنگوں کے گھاٹ اترتی ریجھ کی یہ ادھلی سرسائی
دل کی اجلی بے سروسامانی ، اس میں کیا کیا ٹھاٹ چھپا ہے
جیتے جی اس چہل پہل کی تہ تک کب ہوتی ہے رسائی
محمد سلیم الرحمن
جواہرات کی نمائش میں شاعر

جواہرات کی نمائش کھلے آسمان کے نیچے نہیں ہوتی
شہر کی سب سے خوب صورت لڑکی وہاں نہیں آئے گی
(وہ پھولوں کی نمائش میں گئی ہے)
لوگ ان قیمتی پتھروں اور نمائش کرنے والی لڑکیوں کو دیکھنے آئے ہیں
جنھیں شاہ زادی قط لگا ہے
ایک بڑے زمرد کو تین کم سِن لڑکیاں
(جنھیں شہر کے راستوں کا پتا نہیں)
ماہرانہ انداز سے دیکھ رہی ہیں
جو اوریٔنٹل روبی مجھے پسند آیا ہے
(تصور میں اسے بغیر آستینوں کے سیاہ لباس والی لڑکی کو پیش کرنے والا ہوں)
اس سے متصل ایک چھوٹی سی
''فروخت ہو چکا ہے'' کی تختی پڑی ہے
''پانچ قیراط کے پتھر کو اٹھارہ پہلوئوں میں تراشنا
اوپن ہارٹ سرجری سے زیادہ نازک ہے''
ایک شخص غیر ضروری طور پر مجھے بتاتا ہوا گزر جاتا ہے
سب سے ادنیٰ موتی کے عوض
میں حساب لگاتا ہوں
آٹھ سو بتیس اعشاریہ تین تین روٹیاں مل سکتی ہیں
نمائش کے وسط میں
ایک فروش کار لڑکی کی مسکراہٹ مجھے روک لیتی ہے
''ایک ڈائمنڈ ہمیشہ کے لیے ہے''
اس نے دُہرایا
جیسے میری شاعری مٹ جانے والی چیز تھی
افضال احمد سید
صحارا
ابھی چوتھا درویش اپنی کہانی سنا ہی رہا تھا کہ یک لخت ہی پانچویں کھونٹ سے ایک جوگی برآمد ہوا اور الاؤ کے نزدیک جا، آلتی پالتی مار کر بیٹھ کے اور گلا صاف کرکے یہ کہنے لگا:
چھوڑو رہنے بھی دو اپنے بھوتوں کے پریوں کے جنوں کے فرسودہ قصے، بھلا ان میں رکھا ہی کیا ہے؟ زمانہ کہاں سے کہاں تک چلا آیا ہے، آج کے دور میں ان کے چکر میں دو سال کا کوئی بچہ ہی آئے تو آئے۔
سنو داستاں میری، کانوں سے کم اور دلوں سے زیادہ کہ اس میں تمہاری کتھاؤں کا وہ سبزطوطا ہے اب جس کے خوش رنگ دھندلا گئے ہیں۔ سنو، یہ کہانی ہے اک پیڑ کی جو صحارا کے سینے پہ صدیوں سے یوں ایستادہ تھا، جیسے اماوس کی تاریک شب میں بشارت کی کرنیں۔
اک اعزاز حاصل تھا اس کوکہ یہ ساری دنیا کا سب سے اکیلا شجر تھا۔ یہ یکتا، یہ تنہا شجر، جس کے چاروں طرف چار سو کوس کے دائرے میں کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں تھا۔
یہ یکتا، یہ تنہا شجر سالہا سال سے اس بیاباں کی بخشی ہوئی ہر صعوبت کو ہنس ہنس کے سہتا تھا، دھرتی کے سینے کے اندر گزوں تک جڑیں اپنی پھیلا کے پانی کی ہر آخری بوند تک سینچ لاتا تھا اور اس کو ممتا کے آنچل سی مشفق، گھنی چھاؤں میں ڈھال کر راہیوں کے سروں پر سجاتا تھا۔
جب بھی کبھی 'آغادِیز' او ر' بِلما' قبیلوں کے سوداگروں کے لدے کارواں اس علاقے میں آتے تو ان کے شکستہ مسافر گھڑی دو گھڑی اس کی چھاؤں میں سستاتے، اپنا پسینہ سکھاتے تھے۔
یا پھر کبھی رات کو بھولا بھٹکا کوئی قافلہ اس طرف آ نکلتا، تو اس کے نمک اور ریشم کے تاجر شجر کے تنے سے کمر ٹیک کر اپنے قہوے کے فنجانوں سے چسکیاں لے کے تاروں کی منڈلی کو حیرت سے تکتے تھے۔ صحرا کی پہنائی میں پھیلے اسرار کی داستانیں سناتے سناتے تھکے راہیوں کے نِنداسی پپوٹوں پہ خوابوں کی شبنم اترتی تھی۔
پھر کیا ہوا، رفتہ رفتہ زمانہ بدلنے لگا اور صحارا ترقی کے فیضانسے بہرہ ور ہو گیا، اس کی وسعت میں اونٹوں کی مسحور کن گھنٹیوں کی جگہ گھرگھراتے ہوئے انجنوں کی صداؤں نے لے لی۔
پھراک دن کوئی بے مہار اور بدمست چھکڑا اکیلے شجرکے ستم آشنا جسم کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگا کر کہیں چل دیا۔
اور اگلے سویرے وہاں سے 'طراقی' قبیلے کا اک شخص گزرا تو اس کو یقین ہی نہیں آیا آنکھوں پہ اپنی۔۔۔ وہ ممتا کا چھتنار آنچل، وہ صحرا کا قطبی ستارہ، زمیں پر کسی بے کفن اور گمنام لاشے کی مانند پڑا تھا۔
یہ کہہ کر وہ جوگی بنا کچھ کہے اور سنے دھند میں کھو گیا اور درویشوں نے ہڑبڑا کر جو چاروں طرف اک نظر کی تو دیکھا کہ اب چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سب کرہ اپنے گھیرے میں لپٹا چکا ہے، یہاں سے وہاں چار سو لق و دق دشت پھیلا ہوا ہے، جہاں پر کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں ہے۔
زیف سید
برف
زمیں پر پتی پتی
گر رہی ہے برف
بیری کا اکیلا پیڑچاندی کے شگوفے اوڑھ کر
ساکت
کھڑا ہے
گائوں سناٹے کی بکل مار کر
سوچوں میں گم ہے
میرے آتش دان میں انگار بھوبھل اوڑھ کر دبکے ہوئے ہیں

اور اک تنہا
کبوتر
گائوں بھر میںپھڑپھڑاتا اڑ رہا ہے
زیف سید
ہم تمہاری چھاؤں میں بیٹھیں گے
جیسے بھی ہو
؎ان گہری گہری راتوں
اور سہمے سہمے دنوں کی کھٹ پٹ میں جینا پڑتا ہے
طوفانی موسم کی شدّت کواپنی ننھی اوک سے پینا پڑتا ہے

جیسے بھی ہو
ارمانوں کے جھلسے پیڑوں کی کالک کو دھونا پڑتا ہے
خوابوں کے ٹھہرے پانی کی گدلاہٹ میں
شفافی کا پودا بونا پڑتا ہے

لیکن بچّو!
تم جو دھرتی کی ساری خوشیاں تھامے چلتے ہو
تمہارے کومل ہاتھوں میں
سب چہروں کی مسکانوں کے جگنو ہیں
تم لوگوں کو ڈر کاہے کا؟
؎تم تو اس دنیا کی قوّت ہو

بچّو!
تم نے دیکھا ہے
مارگلہ کے جنگل کو جب آگ پکڑ لیتی ہے
اور ہنستے ہنستے پھول اچانک جل جاتے ہیں
اُس لمحے تو لگتا ہے
دنیا کے اس حصے میںاب
بارش کبھی نہیں برسے گی
یہاں پرندے کبھی نہیں لوٹیں گے
لیکن گرما کے بیمار بدن سے جب گہرا بادل اُڑتا ہے
اور بوسوں جیسی ٹھنڈی بوندیں بن کر گرتا ہے
جلے ہوئے باغوں میں پودے اُگ آتے ہیں
مُرجھائی شاخ پہ چڑیاں پھر سے بیٹھنے آجاتی ہیں

روشنیوں اورزرخیزی سے بھرے ہوئے بے خوف ،بہادر بچّو!
خودروپودوں کی صورت بڑھتے بڑھتے
تم بھی دھرتی کے سینے پراِک دن
چھتناور جنگل بن جاؤ گے
اور ہم اپنے تھکے ہوئے جسموں کے ساتھ
تمہاری چھاؤں میں آکر بیٹھیں گے
تم لوگوں کو کھِل کھِل ہنستے دیکھیں گے
زاہد اِمروز
فروگذاشت
موسم جس میں
سانس کی پوٹر ''زندگی''
حسب عادت نہیں یاد رکھی کہاں تھی
مگر یاد ہے!
آخری وقت دیوار میں
ٹوٹتے ہانپتے سے نفس کے سیارے
دریچہ بنانے میں مصروف تھا
کھوج
مانا سب سے پہلے تو تھا
پہلا نقش بنایا تو نے
لیکن تجھ سے پہلے کیا تھا
اس کا کھوج لگایا تو نے؟
سیدحسن نقوی
رَت جَگے

مَیں غنودگی سے رِہا ہوا تو کُھلا یہ مجھ پہ معاملہ
مرے ہم نفس سرِ شام ہی مری بستیوںسے چلے گئے
وہی بستیاں کہ مضاف میں ہرے باغ تھے گُل ِ سرخ تھے
دمِ صبح پھیلتی وادیاں پرِ جبرائیل کے نام تھیں
شبِ ماہ کھیلتی چاندنی رہِ جاں میں نورِ کلام تھی
بڑے پھاٹکوں کی حویلیوں میں ڈیوڑھیوں پہ نقیب تھے
کُھلے صحن تھے کہ چبوتروں پہ نزولِ مجلسِ دوستاں

یہی بستیاں کہ چہار سُو یہاں سُنبلوں کے چراغ تھے
یہیںوسط میں بڑے چوک تھے جہاں برگدوں کی سپاہ تھی
کہیں دھوپ تھی تو وہ ساونی ،کہیں چھاؤں تھی تو وہ چیتری

وہ غروبِ عصرکے مرحلے پسِ شہر سونے کی بدلیاں
اُنہی بدلیوں کے حِصار میں رُکیں پنچھیوں کی سواریاں