کتاب میلہ

لوح بھی تو، قلم بھی تو از: سعید اکرم
ناشر : دارالنوادراردو بازار لاہور
ایمان و اعتقاد کے جہاں میں نسبت رسول اکرمؐ ہی ہماری ہستی کا جواز ہے زندگی کی تمام رونقیں آپؐ کے ہی دم سے ہیں ۔اہل ایمان کو حب رسول کی روشنی میں ہی شعور ِ ذات اور یقین ذات کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔ سعید اکرم کا مجموعہ نعت ''لوح بھی تو ،قلم بھی تو '' سرکار دو عالم سے والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار ہے۔ تمام نعتیں جذب و سرور کی آئینہ دار ہیں۔ شہر رسول اکرمؐ اور راہِ طیبہ سے بے پناہ انس ، دربار حبیب میں باز یابی کی تمنا، دامانِ رحمت کے سائے میں زندگی بسر کرنے کی آرزو ، ہر کیفیت میں دل حساس کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔
سعیداکرم نے اپنے مجموعہ نعت کو دو حصوں میں خوبصورت انداز میں تقسیم کیا ہے۔ نعتیہ ادب کو '' غرورِ شوق کا دفتر'' کا عنوان دیا ہے جبکہ دوسرا حصہ ''شہادت جبریل ''(جبریل کی گواہی)کے نام سے ہے۔ مد حتِ حبیبؐ میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کے منظو م ترجمے کو نظم کی صورت میں ڈھالا گیا ہے۔ جس سے نعتیہ ادب کے فنی اسلوب میں اور بھی نکھار آیا ہے۔ رب دو جہاں کی اپنے بندوں پر بے حد عطائیں ، رحمتیں ، برکتیں، اور نوازشیں ہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ و ہ شخص بڑا ہی مقدر کا سکندر ہوتا ہے جو اللہ اور اللہ کے حبیبؐ کی مدح سرائی میں زندگی گزارے ۔ سعید اکرم کا شمار بھی انہی خو ش نصیبوں میں ہوتا ہے جس نے بارگاہ ِ ایزدی اور بارگاہ ِ رسالت مآب میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کر کے بخشش کے حیلے تلاش کرنے کی سعی کی ہے ۔ اللہ کریم سعید اکرم کی بہترین اور ایمان افروز کاوش کو اپنی بارگاہِ عظیم میں شرف ِ قبولیت بخشے۔ سرورق سادہ مگر دلنشین خوبصورت چھپائی دارالنوا در کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امید ہے کہ کتاب علمی و ادبی حلقہ احباب میں اپنی افادیت کو قائم رکھے گی۔ جس کا فیصلہ قارئین ہی کر سکتے ہیں۔
مبصر: اظہر حسین
'ڈان ۸۸'' از: نتاشا اقبال جوزی
ناشر: این او زون پبلی کیشن بک، اسلام آباد
نتاشا اقبال جوزی خداداد صلاحیتیوں کی مالک ہے۔ وہ ایک سچی شاعرہ ہے جس کا تخلیقی تجربہ اعلیٰ صفات کا حامل ہے۔ وہ ایک ایسی نادر صلاحیت رکھتی ہے جس کے تحت وہ بڑے بڑے تجربے کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ اس کی تصنیف میں شامل پسِت تحریر ۲۰۱۲ کی ہر سطر سے عیاں ہے کہ اس کی پختگی اس کی عمر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کی پختگی کی پیمائش گزرتے زمانے سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کا احتجاج نہ صرف موجودہ انسانی صورتِحال کے خلاف ہے بلکہ وہ انسانی قدروں سے بھی غیر مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ اس کی شاعری میں رومانویت کی ایک بھی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ کہیں نعرے بازی نہیں، کوئی اخلاقی درس نہیں، عمومیت نہیں اور نہ ہی تخیل پرستی کی گلابی جذباتیت ہے۔ اس کی ہر نظم اس کے ذاتی تجربے کا عکس ہے۔ اس کی شاعری پر کوئی بیرونی چھاپ نہیں بلکہ ہر سطر انتہائی اوریجنل ہے۔ اور یہی اس کی شاعری کا سب سے بڑا وصف ہے۔
شاعری اس کے لیے اظہار ِآزادی ہے۔ وہ اپنے کرب کو علامتوں میں ڈھالتی ہے اور اس عمل کے دوران اپنی ذات کو آزادی سے ہمکنار کرتی ہے۔ اسی لیے وہ کہتی ہے کہ، ' میں اپنا ناخدا خود ہی ہوں'۔ یہ نشاط انگیز کیفیت اس کی اداسی اور مایوسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس کی شاعری کے موضوع کا دائرہ موجودہ انسانی صورتِحال کی بد صورتی لے کر وجود کی اذیتوں اور دکھوں تک پھیلا ہوا ہے جس میں ایک سچی، یقینی اور مصدقہ تخلیقی کاوش کی لامتناہی لہریں جھلک رہی ہیں۔ میری دعا ہے کہ خداوندِکریم اسے اپنی عنایتوں کی بارش سے نواز دیں۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے اپنے ذاتی تجربات کو اس طور شعری اظہار میں ڈھالتی ہے گویا جدید احساسات کو ایک نئی زبان و بیان مل جائے۔
میں مصوری کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن اس کی نظموں میں ایک مصرع ہے کہ ' تصویریں میری آوازیں ہیں، کیا تم مجھے سن سکتے ہو'۔ ہاں میں کہہ سکتاہوںکہ میں اس کی تصویریں سنتا ہوں۔ یہ تصویریںاپنے رنگوں اور ڈیزائن کی زبان میں باتیں کرتی ہیں۔ یہ انتہائی خالص انداز میں اس کے تصورات، اندرونی محسوسات اور فنکارانہ دسترس کو ہم تک منتقل
کرتی ہیں۔ ڈان ۸۸ کے ٹائٹل کو دیکھئے۔ اس تصویر میں اہرام کی طرح کا ایک درخت ہے جو سبز رنگ کے گھنے پتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے ہر پتے کو اس طرح سے علیحدہ علیحدہ پینٹ کیا گیا ہے۔ گویا اس نے کائنات کے مصور سے اکتسابِ فن کیا ہے۔ یوں لگتا ہے وہ اس سے ہم کلام ہے۔ زندگی کے درخت کے گردا گرد زیروٹائم ہالہ کیے ہوئے ہے جو ایک نئے افق کے جنم کا منظر ہے۔
نتاشا کچھ کچھ فلسفی بھی ہے۔ اس کی نظموں میں نفی اور اثبات کا ملاپ اور تصادم کافی حد تک معنی آفریں ہے۔ اس کی پینٹگ 'ٹو اینڈ فرو' ایک چکر کھاتی ہوئی شطرنجی حرکت ہے جس میں 'سیاہ اور سفید' ،'ـموت اور حیات' اور 'محبت و نفرت' ایک دوسرے میں مدغم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہی انسانی مقدر ہے۔
اس کی مصوری میں رنگوں کی پھوار اک عجیب تاثر پیش کرتی ہے جو ہمیں ایک مختلف قسم کے جمالیاتی تجربے سے آشنا کرتی ہے۔اس کی مصوری اور شاعری ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہے اور زندگی کے نئے معنی اور مفہوم کو آشکار کرتی ہے۔
مبصر: آفتاب اقبال شمیم
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید۔شخصیت اور فن
از: ڈاکٹر محمد شہزاد
ناشر: ادارۂ فروغ قومی زبان، پاکستان
اگر کسی علمی اور ادبی محفل میں خوش طبع، خوش شکل اور خوش لباس شخصیت کا ذکر ہو رہا ہو تو آپ کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ آپ فوراً سمجھ جائیں کہ یہ تذکرہ ڈاکٹر محمد شہزاد کا ہو رہا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ ابلاغیات میں استاد ہیں۔ ڈاکٹر محمد شہزاد ہمدرد دوست، شفیق والد، مہربان بھائی، فرماں بردار بیٹا اور ملنسار شخصیت کا نام ہے۔ یہ صرف میرے الفاظ نہیں بلکہ ان لوگوں کی گواہیاں ہیں جو ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ آج کل قابل سے قابل انسان خود کو ایک فیلڈ میں ایڈجسٹ نہیں کر پاتا جبکہ ڈاکٹر محمد شہزاد اپنی ایک فیلڈ کو چھوڑ کر دوسری فیلڈ میں اس طرح ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں جیسے یہی ان کی اصل فیلڈ ہے۔ کہاں انجینئرنگ اور کہاں صحافت کا شعبہ لیکن آفرین ہے ڈاکٹر محمد شہزاد پر کہ انجینئرنگ کی ملازمت کرتے تھے تو اس کے ساتھ مکمل انصاف اب صحافت اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں تو اس کے ساتھ مکمل انصاف۔ ایسی خوبیوں والے انسان دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں اور ڈاکٹر محمد شہزاد ان میں سے ایک ہیں۔
''ڈاکٹر عبدالسلام خورشید۔شخصیت اور فن'' دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس کو ادارۂ فروغ قومی زبان نے شائع کیا ہے جو کہ بذات خود ایک معتبر اور مستند ادارہ ہے۔ اس کا پیش لفظ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر انوار احمد نے تحریر کیا ہے۔ ۲۶۴ صفحات کی اس کتاب میں ڈاکٹر محمد شہزاد نے بہت دل کش اور عام فہم پیرائے میں ڈاکٹر عبدالسلام کی شخصیت اور کام کا احاطہ کیا ہے ۔ یہ کتاب صرف صحافت کے طالب علموں کے لیے ہی نہیں بلکہ عام قاری کے لیے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام بیک وقت ایک محقق، سوانح نگار، خاکہ نگار، مترجم ، مصنف ، کالم نگار، استاد اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ وہ برصغیر کی نامور شخصیت مولانا عبدالمجید سالک کے فرزند ارجمند اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں طویل عرصے تک شعبۂ صحافت کے سربراہ بھی رہے۔ ایسی عظیم شخصیت کے کام کو اپنے پی ایچ ڈی کے لیے منتخب کرنا پھر ان کے حالات زندگی کو بیان کرنا، ان کی تصانیف کا جائزہ لینا، ان کے مقالہ جات اور کالم نگاری جیسے عظیم کام کو صحافت سے وابستہ لوگوں تک پہنچانا یقیناً ڈاکٹر محمد شہزاد کو تاریخ کے صفحات پر زندہ و جاوداں رکھے گا۔ ڈاکٹر شہزاد لکھتے ہیں کہ ان کی کتب خصوصاً تاریخ صحافت۔ پاک و ہند میں'' اور ''جرنلزم ان پاکستان'' بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی دیگر قابل ذکر کتب میں فن صحافت، داستانِ صحافت، کاروان صحافت طالب علموں کے لیے عظیم سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ایک خوبصورت اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ''پاکستان کے لوک ناچ'' اور ''پنجاب کے رومان''پر لکھ کر اپنی اس ہمہ جہتی کو ثابت بھی کر دیا۔ الغرض ڈاکٹر محمد شہزاد نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اس طرح کے قابل قدر کام کر کے اہالیان بہاول پور کا سر فخر سے بلند کرتے رہیں گے۔
مبصر: محمد عارف جان
پاکستان کے نامور سائنسدانوں کی ادبی خدمات
از: عمران اختر
ناشر: ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد
ادارہ فروغِ قومی زبان کی مندرجہ بالا موضوع پر شائع کردہ کتا ب میں پاکستان کے نامور ترین سائنسدانوں ، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام، ڈاکٹر انور تسنیم، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ میجر آفتاب حسن، عظیم قدوائی، ڈاکٹر صلاح الدین، ڈاکٹر نسیمہ ترمذی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر محمد افضل فطرتؔ اور ڈاکٹر خان محمد ساجد کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان سائنسدانوں نے ادب کے میدان میں قابلِ تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ مصنف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سائنس جیسے خشک مضمون کی گُتھیوں کو سُلجھاتے سُلجھاتے ادبی میدان میں طبع آزمائی کرکے اپنے صاحبِ ذوق قارئین کو معیاری ادبی تحریروں کا خزانہ پیش کرنا ایک بہت بڑاکارنامہ ہے۔ مصنف نے کتاب کی ابتداء ہی میں ذکر کیا ہے کہ یہ کتاب دراصل انکا ایم فل اردو کا مقالہ ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں سائنس اور ادب کے روابط و اشتراکات ، دوسرے میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ادبی خدمات، جبکہ تیسر ے میں ڈاکٹر عبد السلام کی خدمات، چوتھے میں ڈاکٹر انور سلیم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور پانچویں اور آخری باب میں پاکستان کے نامور ادیب سائنسدان کے عنوان سے باقی ماندہ شخصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے نام اُوپر بیان کیے گئے ہیں۔
باب دوئم میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ادبی خدمات کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے جسمیں ان کا سوانحی خاکہ ، رسمی اور غیر رسمی تعلیم اور احوال و آثار ، ڈاکٹر صدیقی بحیثیت مصوّر و تخلیق کار اور بطور ادیب بیان کیا گیا ہے۔ ان کے نمائندہ ادبی مضامین کا بھی ذکر ہوا ہے اور اہم تواریخ کے آئینہ میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے۔
تیسرے باب میں پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان، ڈاکٹر عبد السلام کے متعلق ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کے متعلق مصنف لکھتے ہیں ''ڈاکٹر عبد السلام نہ صرف ایک طبیعیات دان تھے بلکہ وہ ایسے ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے جس نے مشرقی اقوام کو مغرب کی سائنسی دنیا میں سائنسی تحقیق، تجربے اور سائنسی منظر نامے میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے برصغیر اور خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے سائنسدانوں اور مفکروں کو ایک نئے سائنسی ماحول میں سانس لینے کا جواز فراہم کیا۔ ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی اور انکی کامیابیوں پر سیرِ حاصل تبصرہ کے لیے مصنف نے مختلف عنوانات قائم کیے ہیں جن میں احوال و آثار، تعلیم وتربیت اور انعامات کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ میں داخلہ اور سائنسی مصروفیات وا عزازات شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سائنسی طرز فکر کی بنیاد پر ہمیشہ نئی دنیا کی تلاش میں رہتے وہ تھیورٹیکل فزکس میں عالمی پہچان حاصل کر چکے تھے۔ آپ کو ایٹمی ذرات کے برقی مقناطیس اور کمزور تعاملات کی وحدت پر ۱۹۷۹ء میں نوبل انعام عطا کیا گیا۔اس انعام کے بعد اُنہیں دنیا کی تقریباً چالیس یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی تھیں۔ انکا نام نیوٹن، آئن سٹائن، سڈنی گلاشو اور وائن برگ جیسے عظیم سائنسدانوں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے اٹلی میں ایڈریاٹک ساحل پر نظریاتی طبیعیات کا بین الاقوامی ادارہ ICTP قائم کرنے کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔
و ہ اعلیٰ پائے کے فلسفیانہ ذہن رکھنے والے انسان تھے۔ آپ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس ، ستارہ ٔ امتیاز اور نشانِ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں ملکہ برطانیہ کی طرف سے KBEکا اعزاز دیا گیا اور دنیا کے بعض ممالک میں اُنکے نام پر طبیعیات کے تحقیقی مراکز قائم ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف تحریر کے میدان میں شہسوار تھے بلکہ قادر الکلام انشا پرداز بھی۔ آپ نے علامہ اقبال پر اردو ڈرامہ ، غالب کی زندگی اور سر ظفر اللہ خاں پر لکھا۔ اردو اور فارسی شاعری کے لیے بھی وقت نکالا ۔ وہ ایک صاحبِ اسلوب ادیب، بہترین دانشور اور فلسفی تھے انکی تمام تحریروں میں سحر انگیزی او رجُزئیات نگاری نظر آتی ہے۔
باب چہارم میں ڈاکٹر انور نسیم کی خدمات کا ذکر ہے۔ وہ طویل عرصہ تک کناڈامیں بحیثیت ریسرچ آفیسر خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ پاکستان میں بطورمشیر برائے سائنس تعینات رہے۔ سعودی عرب میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کو صدارتی ایوارڈ برائے حُسن کارکردگی ستارۂ امتیاز (۱۹۹۹ئ) سول کا ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے اردو شاعری، افسانہ اور طنز ومزاح پڑھنے میں گزشتہ چالیس برسوں سے دلچسپی لی ہے اور لکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔
باب پنجم میں مصنف نے مختصراً نو سائنسدانوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلے وہ ڈاکٹر نذیر احمد کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ ایک ماہر حشرات تھے جنہوں نے ساری عمر درس و تدریس میں گذاری۔ فن کے بہت قدر دان، موسیقی سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ انکی تقریباً نو تحریریں سامنے آئی ہیں ان کی اصل پہچان پنجابی زبان و ادب ہے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ہلال امتیاز ، ستارہ امتیاز ہمیشہ اردو میں لیکچر دیتے تھے۔ وہ بیک وقت سائنسدان، معلم اور اعلیٰ پایہ کے ادیب بھی تھے۔ وہ ریاضی اور طبیعیات کے پروفیسر تھے قائدا عظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تقریباً بارہ برس وائس چانسلر رہے۔ جوہری توانائی کمیشن کے رکن بھی تھے، سائنس اکیڈمی کے چیئر مین بھی رہے، انکی قائدانہ صلاحیتوں نے اس ادارہ کو معیاری ادارہ بنا دیا۔ اُنہیں سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ادب اور خاص طور پر شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔ اقبالیات پر انہوں نے بہت اہم کا م کیا۔
میجر آفتاب حسن کیمیا دان تھے لیکن وہ کئی رسالوں کے مدیر بھی رہے اور بچوں کے لیے بطور ادیب اور سنجیدہ مصنف کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے سائنس کی تقریباً ایک لاکھ اصطلاحات کے اردو مترادفات تیار کرائے۔ اردو ٹائپ رائٹر اور ٹیلی پرنٹر کے لیے کلیدی تختہ جاری کیا۔ وہ مقتدرہ قومی زبان کے سیکرٹری (معتمد) بھی رہے۔
عظیم قدوائی صاحب ایک سائنسدان، کالم نویس اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے مشاہیر سائنس پر کتابچے تحریر کیے۔ ریڈیو پروگرام کے ذریعہ سے سائنسی معاملات کو زیر بحث لائے۔ انکے کالم معروف اخباروں میں چھپتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر نسیمہ ترمذی جنہوں نے بے شمار سائنسی اور تحقیقی منصوبے تشکیل دئے۔ اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی ہونے کے ناتے آپ نے اردو ادب کی خدمت اپنے انداز میں کی۔ روزنامہ جنگ میں آپ کی تحریریں شائع ہوئیں۔ آبی حیاتیات پر سو سے زائد تحقیقی مقالات شائع ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر صلاح الدین کیمیا میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو ، فارسی اور عربی زبان و ادب کے بڑے شیدائی تھے اور اردومیں سائنس کی تدریس کے بہت بڑے داعی تھے۔
شہید حکیم محمد سعید دہلوی باقاعدہ طور پر سائنسدان،مصنف، ادیب، موجد اور طبیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ آپ صدر پاکستان کے طبی مشیر رہے، گورنر سندھ رہے، بے شمار رسائل شائع کئے۔ انہوں نے بہت سے سفر نامے تحریر کیے، بچوں پر بہت لکھا۔
ڈاکٹر افضل غوری فطرتؔ پرنسپل سائنٹسٹ اور صدر شعبہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فاربائیو ٹیکنالوجی اینڈ جنیٹک انجیئرنگ فیصل آباد میں تعینات ہیں۔ آپ کے ستر سے زیادہ سائنسی مقالات شائع ہوئے ہیں۔ وہ تقریباً پانچ شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔
آخر میں مصنف نے ڈاکٹر خان محمد ساجد کا ذکر کیا ہے جو بنیادی طور پر کیمیا دان ہیں اور فی الوقت ڈپٹی چیف سائنٹسٹ ''مینار'' نشتر میڈیکل کالج ملتان میں تعینات ہیں۔ ان کے سات دیوان شائع ہوئے ہیں اور چند ادبی ایوارڈ بھی ملے ہیں۔
مصنف نے ہر اہم سائنسدان کے تذکرہ میں بڑی محنت کی ہے اور تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو یقیناً ایک بڑا کام ہے جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔
مبصر: سید جاوید رضا
زخم گواہ ہیں از: عباس خان
ناشر: بیکن بکس ، ملتان
فرانسیسی مفکر روسو نے اپنی آپ بیتی ''اعترافات'' کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ایسی کتاب لکھی گئی ہے اور نہ لکھی جائے گی۔ اس کی تدفین کے وقت اس کا ایک نسخہ اس کے کفن میں رکھ دیا جائے۔ صور اسرافیل پھونکے جانے پر میدان حشر میں جب سب لوگ جزا و سزا کے لیے دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہوں گے تو وہ ان کے ساتھ اعترافات کے اس نسخے کو ہاتھ میں لیے اپنی قبر سے باہر آئے گا اور اللہ تعالیٰ سے کہے گا کہ اے رب عظیم! وہ بہت برا انسان تھا۔ اپنی مخلوق کو اس کے ارد گرد اکٹھا کر کے اس کو کہے کہ وہ اس کی حالت زار پر اس کو برا بھلا کہے لیکن یہ بھی پوچھ لے کہ اس سب مخلوق میں ہے کوئی ایسا جس نے زندگی میں جو کوئی برا کام کیا ہو اس کا اس طرح اعتراف کیا ہو؟
زخم گواہ ہیں جو کہ ایک ناول ہے اس کے متعلق اس قسم کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی کتاب لکھی گئی اور نہ لکھی جائے گی لیکن اس کو اعترافات کے قبیلے کی ایک کتاب ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اس میں مصنف کے جو کہ ایک جج ہے، مشاہدات ہیں۔ یہ مشاہدات ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کے بارے میں ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام روسو کے انداز میں اپنے اعترافات کرتا نظر آتاہے۔
عدل کا شعبہ یوں تو ہر معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے مگر مسلمان کے تو یہ ایمان کا حصہ ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ اس دنیا کے ہر انسان کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کے اس عدل کے تابع ہے جو وہ روز قیامت فرمائے گا۔ اس دنیا میں بھی وہ عدل فرماتا رہتا ہے۔ اس نے اپنی یہ صفت انسان کو عطا کر رکھی ہے۔
انسان کیا ہے؟ اس سوال کا جواب حضرت علامہ اقبال کے الفاظ میں موزوں رہے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے انسان کے متعلق مخاطب ہو رہے ہیں:
یہی آدم ہے سلطان بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں نہ خدا بیں نہ جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟
انسان اپنی راہ سے بھٹک جاتاہے۔ اس کو بھٹکانے والی اس کی خواہشات کی چڑیلیں ہیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ کو اپنے خطبے میں نظام الملک طوسی کو یہ بات یاددلانی پڑتی ہے کہ سلطنت کو قائم رکھنا ہے تو عدل کو اہمیت دو۔ عدل کے اس مقام کے پیش نظر ، یہ بات جاننے کے باوجود کہ پاکستان کے نظام عدل پر تنقید مناسب نہیں، زخم گواہ ہیں کہ مصنف نے قلم اٹھایا ہے۔ یہ اس کی اخلاقی جرأت کی بہترین مثال ہے۔
فکشن کی دنیا میں اس موضوع پر مصر کے توفیق الحکم کے ناول انصاف کی بھول بھلیاں کی ایک مثال موجود ہے، پر اس کا موضوع پر اظہار محدود ہے ۔ اس کے مقابلے میں زخم گواہ ہیں تفصیلات سے بھرا پڑا ہے۔
جب یہ ناول شائع ہوا تو اس میں کام کرنے والے طبقوں کے کچھ افراد نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ امکان تھا کہ وہ مصنف کے اخلاف کچھ کر کے چھوڑیں گے لیکن جلد ہی تفہیم کی فضا قائم ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے کہ اس میں بیان کردہ مشاہدات حرف بحرف درست ہیں۔ جب یہ درست ہیں تو پھر گلہ کیسا۔ انھوں نے بلکہ اس بات کی تائید کی کہ عیاں کردہ خامیوں کو دور کیا جائے۔
ناول کا پلاٹ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ قاری کچہری کی سر زمین پر کسی انصاف کے متلاشی کے پہلے قدم سے لے کر تقریباً عدالت کے فیصلے تک ہر ہر مرحلے سے واقف ہو جاتاہے۔ اس کے سامنے عرائض نویسوں، اسٹام فروشوں، وکلاء کے منشیوں، گواہان، وکلائ، عدالت کے اہل کاروں اور ججوں کی شخصیات کھلتی چلی جاتی ہیں۔ قاری اس عرائض نویس سے ملتا ہے جو کہتا ہے کہ اس کو خاص اجرت دی جائے تو وہ ایسا دعویٰ لکھ دے گا کہ اس کو پڑھ کر جج کو کمرہ عدالت گھومتا نظر آئے گا۔ عام اجرت میں صرف سادہ دعویٰ لکھا جا سکتا ہے۔ قاری اس ریڈر عدالت سے ملتا ہے جو جج کی چھٹی کے دوران مسلوں پر لکھتا ہے کہ افسر جلیس صاحب رخصت اتفاقیہ پر تشریف فرما ہیں، لہٰذا مسل داخل دفتر ہوئے۔ اسی میدان میں وہ تعمیل کرانے والا ہے جو صوبہ پنجاب کی تعمیل کے متعلق رپورٹ لکھتا ہے کہ صوبہ پنجاب ترک سکونت ہے۔ اس کا درست پتہ لیا جائے تاکہ مقدمہ کی اس کو اطلاع دی جا سکے۔ پھر وکیلوں کے منشی ہیں جو اپنے وکیلوں کے پاس مؤکل گھیر لاتے ہیں، ان سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے رقوم بٹورتے ہیں اور مؤکلوں اور عدالت کے اہل کاروں کے درمیان لین دین کا کام کرتے ہیں۔ قاری کا آمنا سامنا وکلاء صاحبان سے بڑے زور و شور سے ہوتا ہے۔ ایک وکیل صاحب دعویٰ دائر کیے بغیر اپنی طرف سے مؤکل کو تاریخیں دیے رکھتے ہیں، دوسرے جج کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور تیسرے نے ہر پھٹے میں ٹانگ اڑا رکھی ہے۔ وہ نائب تحصیلدار اور سول جج کی عدالت سے لے کر ہائیکورٹ اور بورڈ آف ریونیو تک ہر عدالت کے کیس لے لیتے ہیں۔ وہ برسر نہیں آتے لہٰذا ان کے مقدمات طویل عرصے تک دھکے کھاتے ہیں اور چوتھے وکیل صاحب چوری کے مقدمے میں ملزم کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ملزم اونٹ چرانے گیا تھا۔ اونٹ کہیں گیا ہوا تھا۔ ملزم نے دیکھا کہ بیل رسہ تڑا کر ادھر اُدھر گھوم رہا ہے۔ چنانچہ وہ بیل کو لے کر چل پڑا۔ ملزم کی نیت اونٹ چوری کرنے کی تھی نا کہ بیل کی۔ نیت نہ ہونے کی وجہ سے جرم نہیں بنتا۔ قریب ہی اسٹام فروش بیٹھے ہیں جو اسٹام بلیک کرتے ہیں۔ گواہوں میں سے خان گل گواہ کا تذکرہ کافی ہو گا۔ وہ حقیقتوں کو خوبصورت طریقے سے چھپاتا ہے۔ جرح میں گواہ مذکور سے پوچھا جاتا ہے کہ مدعیہ کے باپ کا رنگ کیسا تھا۔ موصوف جواب دیتا ہے کہ اس کا رنگ سفید تھا لیکن دھوپ میں پھرنے کی وجہ سے کچھ کالا ہو گیا تھا۔ اس کے قد کے متعلق پوچھا جاتاہے تو کہتا ہے کہ اس کا قدم لمبا تھا لیکن بڑھاپے کی وجہ سے وہ جھک گیا تھا۔ اس لیے وہ کچھ چھوٹا چھوٹا لگتا تھا۔ اس سے پھر پوچھا جاتا ہے کہ اس کی داڑھی تھی کہ نہیں؟ جواب آتا ہے کہ وہ قلندر آدمی تھا لہٰذا کبھی داڑھی رکھ لیتا تھا اور کبھی منڈوا ڈالتا تھا۔ آخر میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس بیماری سے مرا تو گواہ بتاتا ہے کہ آہ، بیماری کا پتہ چلتا تو علاج نہ کر لیتے۔ آخر میں جج صاحب قاری کو ملتا ہے۔ عدالت میں بے جا بحثیں سن سن کر اس کا معدہ خراب ہے، اس کو آدھے سر کا درد رہتا ہے اور شوگر کا عارضہ لاحق ہونے والا ہے۔ اس کا دماغ بڑا خفش کی طرح ختم ہو رہا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ بے جا بحث سے جان چھڑانا مشکل ہے تو وہ ادھر سے توجہ ہٹا کر خیالی دنیا میں کھو جاتا ہے۔
ناول میں مقدمات کی مسلیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ عدالت میں دو کیس چل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تنسیخ نکاح کا ہے اور دوسرا بیوی گھر آباد ہونے کا جو خاوند نے جواباً کر رکھا ہے ۔ دوران سماعت بیوی مر جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دونوں دعوے ابھی چل رہے ہوتے ہیں کہ بیوی مر جاتی ہے۔ خاوند کا وکیل بیوی کے ورثاء مسل پر بطور اس کے قائم مقامان لانا چاہتاہے اور اس کے ورثاء میں صرف اس کی ماں ہے۔
ناول یہیں تک محدود نہیں۔ یہ انسان کے بخت کی سیاہی اور انسان کی حسرتوں کے خون سے پینٹ کیا گیا ایک مرقع بھی ہے۔ اس کا مرکزی کردار بخت بھری ہے جس کی آرزوئیں کئی کئی کلو میٹر دور نکل جاتی ہیں اور واپس آنے کا نام نہیں لیتیں۔ وہ قدم قدم پر اپنی تمنائوں کے خون کا قصاص مانگتی نظر آتی ہے۔ اس کی بیٹی جہاں آرا ہے۔ زندگی میں خوشیوں کی خاطر وہ اس کو دائو پر لگا دیتی ہے۔ تیسرا کردار گل میر کا ہے۔ انگریزی زبان کی طرف مائل ہو جانے پر اس کا وکیل اس کو گول میر بلاتا ہے۔ بخت بھری کے نزدیک گل میر امیر ہے کیونکہ اس کے پاس گدھے ہیں، مٹی اٹھانے کے بورے ہیں، کسیاں ہیں اور اپنا گھر ہے۔ وہ جہاں آرا کا نکاح اس سے کر دیتی ہے۔ درمیان میں مجید وارد ہو جاتا ہے۔ وہ کراچی سے پیسے کمالایا ہے اور چالاکی و ہوشیاری سیکھ آیا ہے۔ وہ چاہتاہے کہ جہاں آرا کی اس سے شادی ہوا اس لیے تنسیخ نکاح کے لیے معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے۔
تکنیکی طور پر ناول کا انداز نیا ہے۔ ناول کے کئی باب ہیں۔ تقریباً ہر باب کے شروع میں موقع کی مناسبت سے مضمون کی صورت میں باتیں لکھی گئی ہیں۔ یہ باتیں بہت ساری اہم معلومات مہیا کرتی ہیں۔ ناول میں تاریخی واقعات ہیں، شعر و شاعری ہے اور چٹکے ہیں۔
کسی نے عدالت میں کوئی کیس کرنا ہے یا کسی نے کس کیس کا دفاع کرنا ہے تو وہ پہلے اس ناول کو پڑھ لے۔ قانون کے طالب علموں کے لیے اس کا مطالعہ ضروری قرار دیا جائے تاکہ وہ عملی زندگی میں طریقہ حصول انصاف کا کوئی عمدہ تصور لے کر داخل ہوں۔
اس ناول کا مصنف کہہ سکتا ہے کہ اس کے مرنے پر اس کا ایک نسخہ اس کے کفن میں رکھ دیا جائے تاکہ روز محشر جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو تو اس کو ہاتھ میں لیے اس کی سرکار میں عرض کرے۔ ''حضور!اس منصب کے دوران اس نے جہاں دیانت داری سے اپنا فرض سر انجام دیا وہاں قلم سے جہاد کا فرض بھی نبھایا۔ اس کی اس کاوش پر اس کی بخشش کا حکم صادر فرمائیے''۔
مبصر: لیفٹیننٹ کرنل(ر) غلام حسین بلوچ
فیض اور پنجابی…ایک تجزیہ از: تنویر ظہور
ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور
فیض احمد فیض جدید دنیائے شاعری کے منظر نامے کا وہ بڑا نام ہیں جن کی کلاسیکیت اور جدت کے خوبصورت امتزاج کی حامل شاعری ہر خاص و عام کے لیے قابل توجہ ہے۔ غم جاناں سے غم دوراں کی طرف سفر کرتی اس شاعری میں نظریہ اور فن اس طرح گھلا ملا ہے کہ نہ تو نظریہ پروپیگنڈا کا روپ دھارتا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری پر فنی و جمالیاتی حوالے سے کوئی حرف آتا ہے۔ اصل میں یہی ایک بڑے تخلیق کار ہونے کی علامت ہے اور فیض یقیناً ایک بڑے تخلیق کار ہیں۔ اپنے نظریات و افکار کو شعری سانچے میں ڈھالنے کے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا اور اردو کلام ہی کی بدولت شہرت دوام پائی مگر انھوں نے چند نظمیں ہی پنجابی زبان میں لکھیں۔ فیض کی پنجابی شاعری اگرچہ بہت کم سہی مگر موضوع فنی حوالے سے اسے قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ اتنی کم مایہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ ان نظموں کا مطالعہ اس بات کی دلیل فراہم کر سکتا ہے کہ ان کی پنجابی شاعری میں بھی وہی رویے، رجحانات اور انقلابی فکر نمایاں ہے جو اُن کی اردو شاعری کا خاصہ رہی ہے۔
تنویر ظہور کی مرتب کردہ کتاب ''فیض اور پنجابی'' اپنی نوعیت کی ایک منفرد کاوش ہے جس کی اشاعت کا مقصد فیض کی پنجابی زبان و ادب سے محبت اور لگائو کو سامنے لانا ہے۔ تنویر ظہور کی ادب دوستی اور علم پروری پنجابی اور اردو زبان و ادب کے قارئین کے لیے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور تنویر ظہور کی فیض شناسی کی اہمیت کچھ اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ فیض صاحب سے گہری عقیدت رکھتے ہیں بلکہ انھیں فیض کو بہت قریب سے دیکھنے، مختلف محافل و تقریب میں ان سے ملنے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا۔
تنویر ظہور ایک اچھے مدون، محقق، مرتب اور تجزیہ نگار ہیں یادداشتیں لکھنے اور اکٹھی کرنے میں انھیں خاص دلچسپی ہے اور مہارت بھی۔ استاد دامن پر ان کی مرتب کردہ کتاب ''استاد امن۔حیاتی شاعری'' میں ان کی شخصیت کی یہ تمام خصوصیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کی کتاب ''فیض اور پنجابی '' کو جمہوری پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۱۱ء میں شائع کیا ۔ اس کتاب میں مرتب نے ۳۸ مختلف انواع کے مضامین کو جگہ دے کر فیض کی پنجابی زبان و ادب سے محبت، فیض کی پنجابی شاعری اور ان کی ذات سے متعلق بہت سی معلومات کو اکٹھا کر دیا ہے جو یقیناً ہر حوالے سے بہت اہم ہے۔
کتاب میں فیض احمد فیض سے متعلق ڈاکٹر ایوب مرزا، سلیم ہاشمی، شاہد علی، کرنل مسعود اختر شیخ، شفقت تنویر مرزا، اسلم کمال، احمد ندیم قاسمی، حسن رضوی، پروفیسر رمضان شاہد، مجاہد ترمذی، سبط الحسین ضیغم، سید افضل حیدر، منصور قیصر، یاسر عرفات، محمد حنیف، احسان وائیں، مرزا نجیم چغتائی اور ڈاکٹر ایرک رحیم جیسی شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔
تنویر ظہور کے دو مضامین ''فیض اور پنجابی'' اور ''فیض کی وارث شاہ سے عقیدت' بھی شاملِ اشاعت ہے جو فیض کے پنجابی زبان سے محبت اور والہانہ لگائو کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے فیض کی شخصیت کے ایک منفرد پہلو کو سامنے لاتے ہیں۔ اپنے مضمون ''فیض اور پنجابی'' میں انھوں نے فیض احمد فیض کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا ہے جو امرتا پریتم نے لیا تھا۔ تنویر ظہور لکھتے ہیں: امرتا پریتم نے جب ان سے پنجابی شاعری سے متعلق سوال کیا تو بولے:
''پنجابی شاعری کا میں نے مطالعہ نہیں کیا تھا جتنا کچھ سنا تھا لگتا تھا وارث شاہ کی طرح نہیں لکھ سکتا۔ اگر کوشش کروں تو غالب جیسا شعر کہہ سکتا ہوں مگر بلھے شاہ یا وارث شاہ جیسا نہیں وجہ یہ ہے کہ پنجابی محاوروں پر اتنا عبور نہیں ہے جتنا اردو محاورے کی کلاسیکی روایت پر ہے۔ بعض مضامین ایسے ہیں جو پنجابی میں لکھے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی کسان کے لیے شعر کہنا چاہیں تو وہ پنجابی میں کہا جا سکتاہے۔ اردو میں نہیں۔ ہم نے حصولِ تعلیم کے دوران پنجابی پر توجہ نہیں دی۔ میں پنجابی گیت کے اس شعر سے متعلق سوچ رہا تھا اس میں کتنی تائید ہے اس کو آپ اردو میں کیسے اظہار کریں گے''۔
میری لگ دی کِسے نہ ویکھی
تے ٹٹ دی نوں جگ جان دا (ص: ۲۰،۲۱)
فیض کسی بھی لسانی تعصب سے پاک شخصیت تھے۔ پنجابی ادبی سنگت کے کئی پروگراموں کی صدارت کی اور علاقائی زبانوں کی قدر و اہمیت پر زور دیتے ہوئے ان کے فروغ کی بات کی۔ کتاب کے دیباچے میں محمد علی چراغ نے علاقائی زبانوں سے متعلق فیض کے خیالات کے مطابق لکھا۔ ان سب زبانوں کو اپنے اپنے علاقے میں ترقی اور نشوونما کا موقع دیں… مقامی زبانوں کی ترقی اردو کی ترقی کا موجب ہو گی… اسلام بذاتِ خود کسی بھی زبان کے خلاف نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے پاس جو کچھ جتنا بھی تاریخی ورثہ ہے ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ (ص:۱۱)
تنویر ظہور روزنامہ جنگ سے بھی وابستہ رہے اس کتاب میں بہت سے ابواب ایسے ہیں جو جنگ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوئے۔ مرتب نے انھیں تواریخ و سنین کے ساتھ کتاب میں جگہ دے کر فیض سے متعلق بہت سے ادبی سرمایے کو محفوظ کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ اس سلسلے میں فیض احمد فیض کی ۷۲ ویں سالگرہ پر لیا گیا انٹرویو خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس انٹرویو کے میزبان اور مرتب تنویر ظہور تھے جبکہ شرکاء میں صفدر میر، اشفاق احمد، قتیل شفائی، جلال فارغ بخاری، سعادت سعید اور ڈاکٹر اجمل نیازی شامل تھے۔
فیض کا یہ انٹرویو عالمی ادب اور سیاست سے متعلق ان کے نظریات کے حوالے سے قدروقیمت کا حامل ہے۔ یہ انٹرویو ۱۵ فروری ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا تھا۔ مرتب نے اسے زیر نظر کتاب میں شامل کرتے کر کتاب کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔
قرۃ العین حیدر کا مضمون ''اقبال، فیض اور راشد'' بھی بہت عمدہ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
پنجاب اور پنجابی زبان سے متعلق اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتی ہیں:''ہم اہل زبان لوگ پنجاب کو وئیلڈ ویسٹ ہی سمجھے۔ ہم پنجاب کی اس توانا کلرفلRobustکلچر سے ناواقف تھے جو غزنوی عہد سے لے کر سکھوں کے زمانے تک وہاں پھلی پھولی اور جسے میں پنجابی پرشیّن سکھ کلچر کا نام دے سکتی ہوں… پنجابی کے رومان وہاں کی لوک سنگیت اور ناچ اور وہاں کی صوفیانہ داستانیں، صوفیانہ موسیقی یہ ایک علیحدہ دنیا تھی جس پر خود تعلیم یافتہ پنجابیوں نے فخر کرنا کافی عرصے بعد سیکھا'' (ص:۵۴)
کتاب کے مرتب پنجابی کے اچھے شاعر بھی ہیں اور اس زبان کی ترویج و فروغ کے سرگرم پرچارک بھی۔ وہ پنجابی ادبی رسالہ سانجھاں کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔ اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے ان کے پیش نظر فیض کا مادری زبان سے لگائو، محبت اور پسندیدگی کے عنصر کو تلاشنے کی جستجو کارفرما رہی ہے مگر اس جستجو میں تعصب کی بجائے گہری محبت شامل ہے۔ یہ کتاب صرف فیض کی پنجابی شاعری ہی سے متعلق مضامین کی حامل نہیں بلکہ اس میں سے کچھ مضامین فیض کی ذات و افکار کے دوسروں پہلوئوں سے بھی متعلق ہیں۔ کتاب میں اسلم کمال کی مصوری نے اسے موضوعی خوبصورتی ساتھ ساتھ جمالیاتی حسن بھی عطا کیاہے۔
کتاب کے آخر میں فیض کے مجموعہ کلام سے ان کی پنجابی شاعری کا انتخاب بھی شامل کیا گیاہے۔ یہ کتاب فیض سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ پنجابی زبان بولتے ہیں یا اُردو۔
مبصر: شہناز فریاد
امریکہ جیسے میں نے دیکھا از: فقیر اللہ خان
ناشر: مثال پبلی کیشنز، فیصل آباد
زندگی آتے جاتے لمحوں کا غیر ہموار سلسلہ سہی لیکن جب کوئی لمحہ سفر بن کے دل کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگتا ہے تو راستے گلزار بن جاتے ہیں۔ جب راہ حیات کی بنیاد زمان و مکان اور مقصود تخلیقِ نظر ہی ہو توحکایت عشق و جمال کون سنتا ہے۔ پھر تو بس کلیوں کا تبسم، جھرنوں کا ترنم، دوشیزائوں کی مسکان، کھیتوں کی بہاد، چڑیوں کی چہکار اور خوشیوں کی پھوار۔ آزادیٔ فکر کی اڑان، دانش کا ایقان، تعمیر و ترقی کے سنہرے سپنے آنکھ کی پتلی میں سما جاتے ہیں۔ تو مسافر محوِ نظارہ ہو کر اس تجربے کو جب رقم کرتا ہے۔ سفر نامہ ادبی صنف میں جلوہ افروز ہو جاتا ہے۔ ویسے تو سفر نامہ ادبی صنف کے طور پر اپنی حیثیت اور جگہ مستحکم کر چکا ہے۔ سفر ناموں کے ذریعے ہم کسی بھی ملک کی ثقاقت ، رہن سہن ، وہاں کے لوگوں کی عادات و اطوار سے ناصرف آگاہی حاصل کرتے ہیں بلکہ بیرونی ممالک کے طلسمی اسرار بھی ہم پر واشگاف ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام عناصر و اجزاء ہمیں ''مثال پبلشرز فیصل آباد'' سے شائع ہونے والی فقیر اللہ خان کی کتاب ''امریکہ جیسے میں نے دیکھا'' میں انتہائی خوبصورت انداز میں نظر آئیں گے۔ عمومی طور پر اگر سفر ناموں کا مطالعہ کیا جائے تو اکثر میں مبالغہ کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ صنف نازک سفرناموں کا لازمی حصہ دکھائی دیتی ہے۔ جس کی وجہ صرف یہ بیان کی جاتی ہے کہ سفرنامہ جب تک لچھے دار نہ ہو قارئین میں مقبول نہیں ہوتا۔ اس مبالغہ کا عنصر ہی تو سفرنامہ کی جان ہوتا ہے۔ مگر فقیر اللہ خان کا سفرنامہ ''امریکہ جیسے میں سے دیکھا'' پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ مبالغہ آمیزی اور صنف نازک کے ذکر کے بغیر صرف حقائق اور مکمل ریسرچ و مشاہدات کی مکمل و سچی تصویر کشی ہی سفر نامے کی روح ہے۔ اس کا ایک سبب تو شاید یہ بھی ہے کہ اس سفرنامے کی حقیقی صورت حال انتہائی معلومات افزاء اور Mathematical & Geographicalحقائق پر مبنی ہے۔
فقیر اللہ خان کی اس کتاب کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سفر نامہ محض سیاحت کا نام نہیں بلکہ اس کا تعلق تحقیقی کام کے تکنیکی پہلو سے ہے تاکہ مبالغہ آمیزی سے کسی نقاد نے کیا خوب کیا ہے کہ:
Here is a poet who wouldnt like to play hide and seek with his readers.
سفرنامے کی نگارش ایک نہایت ہی مشکل کام ہے مگر فقیر اللہ خان کے اس سفرنامے کی سب سے بڑی خوبی وہ شگفتگی، زندہ دلی، خوش دلی صحیح اور سچے زمینی حقائق، ٹھوس و جامع تحقیق ہے جو اُن کے طرز تحریر میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ امریکہ جیسا ملک کتنا ہی سنجیدہ ہو اور وہاں باشندے کتنے ہی ثقہ کیوں نہ ہوں، خدا نے مصنف کو جو دولت بخشی ہے اس کے باعث اُن کا اسلوب تحریر بے حد رواں دواں، سُبک، چابکدست، بے تکلف، تروتازہ اور عمدہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی مصنف نے اپنے منفرد طرزِ تحریر سے ایسی فنکارانہ مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اس سفر نامے کے سحر میں ڈوب جاتاہے اورجہاں فقیر اللہ خان کا سیاحت نامہ ختم ہوتا ہے۔ وہاں سے قاری اپنی زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز بھی کرتا ہے۔
''امریکہ جیسا میں نے دیکھا'' میں مصنف نے اپنے سفر کی سر گزشت جس بے تکلفی سے بیان کی ہے گویا قاری بھی آپ کے ساتھ ہم سفر ہو۔ جب منظروں اور منزلوں کے باطن میں اترنے والی نگاہ نہ ہو تو سفر نامہ محض قصہ بن جاتاہے۔ وہ کہانیاں جو سفر کے بغیر بھی سنائی جا سکتی ہیں جب سفر کے حوالے سے سنائی جانے لگتی ہیں تو یہ محسوس ہوتاہے کہ جس طرح سفر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ثانیاً اسی طرح سفر نامہ لکھنا بھی کوئی کارنامہ نہیں لیکن فقیر اللہ خان نے اپنے عہد کے سفرنامہ نویسوں کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی الگ راہ نکالی ہے وہ سفر کے دوران گویا راستے کے ہر منظر سے ہم کلام ہوتا ہے او ر یون اُس کا سفر نامہ ایسی دستاویز بن جاتاہے جسے پڑھ کر قاری کو احساس زیاں نہیں ہوتا بلکہ یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے ساتھ ساتھ اس نے بھی اس سفر نامے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔
فقیر اللہ خان ہیلی کالج آف کامرس سے بی کام (آنرز) اور پھر ایم کام کرنے کے بعد قومی ایئر لائن پی آئی اے کے فنانس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ اس شعبے سے وابستگی اُن کے سفر نامے میں بھی واضح نظر آتی ہے امریکہ کے احوال کے علاوہ تمام ریاستوں کا تذکرہ انھوں نے بڑے حسابی انداز میں بیان کیا ہے۔
امریکہ ہمیشہ ہی سے دلچسپی کا باعث رہا ہے اور ہمارے ہر دوسرے نوجوان کے خوابوں کی جنت جو دراصل ہے ہی مہاجروں کی سر زمین امریکہ میں اُس کے اصل مکین آٹے میں نمک کے برابر ہیں باقی سارے لوگ کہیں نہ کہیں باہر سے آئے ہیں۔ امریکہ نے بڑی خندہ پیشانی سے باہر سے آنے والے دانشوروں اور انٹیلیکچوئلز (Intellectuals) کو یکجا کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے امریکہ کے بارے میں بے شمار معلومات کے علاوہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سے کئی ریاستیں دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑی ہیں۔ اتنی نسلوں اور قسموں کے لوگ وہاں آباد ہیں جن کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ امریکہ کی بے شمار اچھائیوں کے ساتھ ساتھ مصنف نے وہاں کے منفی پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے مطابق امریکہ میں ایسی ایسی برائیاں اور ایسے ایسے جرائم جنم لیتے ہیں جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
اس کتاب کے مطالعے سے قاری اس بات سے آگاہ ہوتاہے کہ جس ملک کے ہم سب خواب دیکھتے ہیں اور اُسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں سرفہرست سمجھتے ہیں وہ کسی نہ کسی لحاظ سے ہم ترقی پذیر ممالک سے ملتا جلتا ہے۔ وہاں آئے دن ایسی ایسی قدرتی آفات آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور ترقی یافتہ ہونے کے باوجود وہ اس کی کوئی پیش گوئی یا پیش بندی و مانیٹرنگ نہیں کر پاتے۔ اگر کہیں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کیلی فورنیا کے جنگل کے جنگل شعلوں کی لپیٹ میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح سمندری طوفان سے پورے پورے مکانات سڑکوں پر دھڑے نظر آتے ہیں۔
یہ سب تو ایک طرف پاکستانیوں کی دل جوئی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہاں بھی پاکستان کی طرح بجلی بغیر اطلاع کے کبھی بھی غائب ہو جاتی ہے اور پورے امریکہ کا ایک چوتھائی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟ یہ اور ایسے کئی واقعات امریکہ کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں بلکہ میرے خیال میں اُن لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی کافی ہونے چاہیئیں جو اپنی دھرتی ماں کو چھوڑ کر دن رات امریکہ جا بسنے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا کر ہر جائز و ناجائز حربوں سے گزر جاتے ہیں۔
فقیر اللہ خان کی کتاب امریکہ کے بارے میں انتہائی جامع اور مفصل علمی و تحقیقی سفرنامہ ہے۔ انھوں نے امریکہ کے بارے میں محض آنکھوں سے نہیں دماغی نظر سے کام لیتے ہوئے پورے امریکہ کا جغرافیائی نقشہMathematicallyاورGeographicallyیوں بیان کیے ہیں کہ وہاں کی ایک ایک ریاست کا حدود اربع، لمبائی چوڑائی، ماپ تول کے گویا اس کتاب کے صفحوں میں لپیٹ دی ہو۔
واشنگٹن ڈی سی، نیویارک، لاس اینجلس، شکاگو، ٹیکساس، ہوائی سان فرانسسکو نیز تمام ریاستوں کے مطالعے سے قاری کو محض منظر کشی ہی نہیں وہاں کے ایک ایک پہاڑ ، دریا، جھرنے، سڑکوں، کھیتوں اور دلچسپ نظاروں کا احوال ہی نہیں ملتا بلکہ شمالاً جنوباً شرقاً ۔ اوسطاً لمبائی، چوڑائی، مسافت، میل، مربع میل کے بارے میں انتہائی حسابی کتابی اور حد درجہ تحقیقی انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔
ہر ریاست کا کل رقبہ، آبادی ہر نسل کے لوگوں کی وہاں پر Percentageتک کو بیان کیا گیا ہے جو کہ عموماً قاری کو سفرناموں میں شاد ہی نظر آئے گا۔
مصنف نے امریکہ کے مشرق، مغرب، شمال و جنوب میں پائے جانے والے سمندروں، دریائوں، پہاڑوں اور Beachesنیز ہر ہر جگہ اور ہر ہر نظارے کا اس طرح بیان کیا ہے کہ کس ریاست کے ساتھ کون سا علاقہ ، کون سا دریا، سمندر، کھیت، کھلیان وہاں پر پائے جانے والے پھل سبزیاں اور دوسری اجناس اور اُن کی پیداواری شرح تک کے بارے میں بیان کیا ہے۔ گویا پورے کا پورا امریکہ مصنف نے اس کتاب میں سمو دیا ہے۔ ہر ریاست کا قومی کھیل، قومی پھل، لباس، رہن سہن اور بودوباش انتہائی جامع انداز میں اس طرح پیش کیے ہیں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو ہر ریاست میں مصنف کے ساتھ ساتھ محو سفر محسوس کرتاہے۔
کتاب کے مطالعے کے دوران جو چیز امریکی حوالے سے مجھے اچھی لگی وہ یہ تھی کہ امریکہ میں کہیں بھی مذہبی تعصب نظر نہیں آتا ہر کوئی اپنے مذہبی نقطہ نظر میں آزاد ہے۔ امریکہ میں مسجدوں اور گرجا گھروں کو برابر احترام دیا جاتا ہے۔
امریکہ کی آب و ہوا وہاں کے موسم، بارش کی سالانہ اوسط، آندھیاں طوفان نیز تمام وہ سوالات جو امریکہ کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں سما سکتے ہیں اس کتاب میں اُن کے جوابات موجود ہیں۔
فقیر اللہ خان کی یہ کاوش بلاشبہ قابل ستائش ہے اور ایک انتہائی اہم ادبی کاوش ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد میں نے تو امریکہ کے حوالے سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
جیسا دیس ہے تیرا
ویسا دیس ہے میرا
وہ ہی دریا، جھرنے اور پہاڑ
وہ ہی پت جھڑ خزاں اور بہار
وہ ہی کھیت کھلیان اور سمندر
وہ ہی دھوپ چھائوں وہ ہی باہر اندر
جیسا دیس ہے تیرا
ویسا دیس ہے میرا
وہ ہی مشرق و مغرب وہ ہی شمال و جنوب
وہ کھلی کھلی سرسوں وہ ہی دوپیلی دھوپ
وہ مندر، مسجد، گرجا گھر اور عبادت خانے
سب ہی تو ہیں وہ تو مانے یا نہ مانے
جیسا دیس ہے تیر
ویسا دیس ہے میرا
مبصر: شگفتہ طاہر
وادی گل پوش میں از: ظفر حسین ظفر
اچھا مسافر ہمیشہ اپنے یادگاری لمحات کسی نہ کسی صورت میں محفوظ ضرور کرتا ہے تاکہ وہ لمحے ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں۔ وادی کشمیر جنت نظیر کی سیاست کا ایک شیدائی ظفر حسین ظفر جب اس وادی گل پوش میں اترتا ہے تو اپنی تخیلاتی اور مشاہداتی اڑان پر قابو نہیں رکھ سکتا اور خوابوں کی یہ سر زمین اسے اپنا احوال جزوکل لکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ظفر حسین ظفر نے بھی اپنے سفری مشاہدات کی مکمل داستان ''وادی گل پوش میں'' کے عنوان سے رقم کی ہے۔ سیاحتِ کشمیر کے حوالے سے دیگر مسافروں نے بھی اپنی اپنی رودادیں لکھی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اردو تحقیق و تنقید کے راہی ہیں، ان کی نگرانی میں شائع ہونے والا رسالہ ''ارقم'' اپنی شناخت کروا چکا ہے۔ سفرنامے کی صنف میں ''وادی گل پوش میں'' ان کا پہلا سفرنامہ ہے۔ واہگہ بارڈر لاہور سے اس سفر کا آغاز ہوتا ہے اور پہلا پڑائو اٹاری اسٹیشن ٹھہرتا ہے۔ یہ سفر اس وفد کی صورت میں تھا کیونکہ اس وفد کو مسلم فیڈریشن جموں و کشمیر کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس وفد میں ظفر حسین ظفر کے دیرینہ دوست ذوالفقار عباسی بھی شریک تھے۔ اٹاری اسٹیشن سے یہ چھوٹا سا کارواں جموں کی طرف کشاں کشاں بڑھتا ہے؛ جا بجا گاڑی کی کھڑکیوں سے نظر آنے والے مناظر سفر نگار کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ راستے میں پٹھان کوٹ کا بورڈ دیکھ کر بھی سفر نگار کی چشم تخیل پیچھے کی طرف دوڑنے لگی اور ماضی کے گم گشتہ ایوانوں میں چمکتے مناظر سے خود کو روحانی طو رپر منور کرنے لگی۔
جموں جاتے ہوئے دوسرے بڑے شہر ضلع گورداس پور کا تاریخی و جغرافیائی ذکر ظفر حسین ظفر نے اپنے سفرنامے میں کیا ہے۔ انھوں نے گورداس پور کے حوالے سے چند نادر معلومات بھی قارئین تک پہنچائی ہیں اور ان کے ماخذات بھی درج کیے ہیں۔ ریڈ کلف کے غیر منصفانہ فیصلے کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دائمی تلخی کی ایک بنیاد قرار دیا ہے۔ سفرنامے کا وصف ہے کہ اس میں زمانی و مکانی ہر لحاظ سے سفری مباحث کو من و عن بیان کیا جائے۔ سفر نگار نے گورداس پور کے حوالے سے جو تاریخ ساز زیادتی ہوئی اسے واضح طو رپر لکھا ہے۔
مصنف لکھن پور سے جموں شہر تک کا سفر بھی بخوبی طے کرتے ہیں۔ جموں شہر سفر نگار کے خوابوں کی سر زمین ہے۔ جموں شہر کا تعارف اور اس کی بنیادی معلومات کو بڑے عام فہم الفاظ میں پیش کیا ہے۔ جموں ایک تاریخی اور تہذیبی شہر ہے، جس میں کثیر المذاہب لوگ آباد ہیں۔ سفر نگار نے اس شہر کو مندروں کا شہر کہا ہے۔ مسلمانون کی آبادی مجموعی طو ر پر ۳۱ فی صد ہے۔ جموں شہر میں مسلم فیڈریشن کی طرف سے دی جانے والی دعوت اور بعد ازاں سوسائٹی کی طرف سے ملنے والے عشائیے اور اس میں ہونے والے واقعات اور متعدد شخصیات سے ملاقات کی روداد ظفر حسین ظفر نے بڑے مربوط انداز میں لکھی ہے۔ علمی وادی شخصیات کے متعدد علمی و ادبی کارنامون کا ذکر زیب داستان کے لیے سفر نگار نے لکھنا ضروری سمجھا ہے۔ ۹؍اکتوبر۲۰۰۹ء کو یہ وفد جموں سے ہوائی جہاز کے ذریعے سری نگر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ سری نگر کی سر زمین پر پہنچتے ہی سفر نگار نے چہار اطراف بلکہ شش جہات کا جائز لیا اور فطرتی مناظر کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کے قلم سے خود بخود لکھا گیا کہ یہ وادی گلفام مشرق والوں کی جنت ہے۔
سفر کی غرض و غایت انڑا کشمیر کانفرنس تھی جس میں پورے وفد نے شرکت کی۔ سفر نگار نے اس کانفرنس کی تمام کارروائی اپنے رنگ میں بیان کیا ہے۔ واقعات کا تسلسل اور افکار و خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔ تنازعہ کشمیر کے ح کے لیے اس کانفرنس میں اعتماد سازی کی فضا بحال کرنے پر زور دیا گیا۔ شرکائے کانفرنس میں آزاد کشمیر کے نمائندوں کے علاوہ گلگت، کارگل ہل کونسل اور جمون سے تاجر، سابق بیورو کیرٹ، پروفیسر، وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندگان شریک تھے۔ سفر نگار نے مسئلہ کشیر میں حائل رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ مفتی محمد سعید (کشمیر کے سابق وزرا اعلیٰ) کے ہاں دعوت کا بیان بھی قابل تحسین ہے۔ اچھا سفر نگار اپنے گردوپیش کے تہذیب و تمدنی خدوخال کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ ظفر حسین ظفر نے کشمیر کلچر کو پس پشت نہیں ڈالا بلکہاس کے نقوش کو سفرنامے میں واضح کیا ہے۔
دوران سیاحت انھوں نے کشمیریوں کی بڑی پرانی صنعت شال بافی کے حوالے سے بھی مستند معلومات بہم پہنچائی ہیں۔
کشمیر کلچر ل اکیڈمی کا دورہ او رکیڈمی سے متعلق بنیادی معلوما بھی فراہم کی ہیں۔
اس سفر نامے (وادی گل پوش میں) مین ظفر حسین ظفر کا تخیل بلند پروازیوں میں ہے۔ اقبال کے ساتھ ان کو عقیدت اور محبت ہے، اس سفرنامے میں بھی جا بجا علامہ محمد اقبال کا ذکر مختلف حوالوں سے آیا ہے۔ اس سفر نامے کا وہ اقبالیاتی گوشہ بھی بڑا کمال ہے۔ ''اقبال اور کشمیر' ' کے عنوان سے ظفر حسین ظفر نے اقبال کے کشمیر کے ساتھ جو روابط تھے ان کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ اقبال کی مختلف کانفرنسوں اور دیگر اداروں میں کس کس طرح شرکت رہی، ان کو سفر نگار نے بڑی واضح صورت میں رقم کیا ہے۔ کشمیری آج بھی اقبال کی محبت کے شیدائً ہیں۔ کشمیرمیں اقبال پارک اور دیگر اقبالیاتی ادارے اقبال کے ساتھ محبت کا بین ثبوت ہیں۔
ظفر حسین ظفر نے صرف دیدنی مناظر کا احوال ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کی الم ناک داستانیں اور ان پر ظلم کے ٹوٹنے والے پہاڑوں کا نوتہ بھی اپنے انداز میں ضبط تحریر کیا ہے؛ جس میں کبھی کچھی جذباتیت زیادہ نمایاں ہونے لگتی ہے۔
ہجر کی شب جتنی بھی طویل ہو آخر کٹ ہی جاتی ہے۔ وادی گل پوش میں بھی ایک دن آزادی کا سورج ضرور چمکے گا۔ سفر نگار کا سفر جب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو ان کے دل کی امنگ اور ترنگ میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے۔ وادی کشمیر کی گل پوش وادیاں ظفر حسین ظفر کا دامن گیر ہوتی ہیں لیکن مسافروں کو بالآخر اپنی اپنی منزلوں کی طرف لوٹ جانا ہوتا ہے۔ سفر نگار نے اپنی یادوں کی برات اس انداز سے رقم کیا ہے کہ اس کے نقوش ان کے ذہن میں تروتازہ رہیں گے۔ کیونکہ کشمیر قدرت کا ایک انمول عطیہ ہے۔
''وادی گل پوش میں'' کا فکر و فنی تجزیہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ سفر نامہ کشمیر کے دیگر کئی سفرناموں میں اپنی الگ پہچان ضرور بنا لے گا۔
مبصر: سکندر حیات میکن
باتیں اُن کی! از: ڈاکٹر عطش دُرّانی
ناشر: شاخ زریں، اسلام آباد
کسی انسان کو کھنگالنے کے فن کو" انٹرویو" کہا جاتا ہے۔ڈاکٹر عطش درانی نے اسی فن کے ذریعے مختلف سیاسی اور سماجی شخصیات کے اندر اترنے کی کوشش کی ہے۔اور کافی حد تک اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔اس کتاب "باتیں ان کی" میں ۱۸ انٹرویو/ مصاحبت شامل ہیں، جو انہوں نے مختلف موقعوں پر مختلف شخصیات سے کیے۔اس کتاب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف سوالات اور ان کے جوابات ہی نہیںدیئے گئے بلکہ ہر شخصیت کا مختصر تعارف اور نفسیاتی تجزیہ بھی شامل ہے۔ڈاکٹر عطش درانی نے اپنے ہر سوال پر جواب دینے والے کا ردعمل اور انداز دلکش منظر نگاری کے ساتھ بیان کیا ہے۔روایتی نٹرویو/ مصاحبت کے طریقے سے پہلو تہی کر کے دوستانہ ماحول پیدا کیا اور اسے پوری جزئیات نگاری کے ساتھ صفحہء قرطاس پر منتقل کیاہے۔ اس کتاب کا مقصد پاکستان کی سیاسی صورتحال اور اردو کی اہمیت قاری پر واضح کرنا ہے۔
مبصر:ماورا زیب
ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں از: رانا اظہر
''ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں'' رانا محمد اظہر خاں کی زندگی کے وہ اوراق ہیں، جو اُن کی زندگی کا حاصل رہے، رانا اظہر صاحب اوکاڑہ کے اُن ذی احترام اور معززین میں شامل ہیں، جنھوں نے ایمانداری، اخلاص، محبت اور سچائی کو اپنی زندگی کا منشور بنائے رکھا، پیپلزپارٹی کے قیام کے وقت بھٹو کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں موجود تھے اور اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کے بانی ہیں، وہ اُن دنوں نوجوان تھے اور بھٹو کو غریب طبقہ کا ہمدرد خیال کرتے ہوئے اُن کی پارٹی سے وابستہ ہوگئے، اُس کے بعد خلوص نیت سے پارٹی کے لیے دن رات کام کیا، رانا صاحب کی زندگی سخت محنت اور بے باک سیاست سے عبارت رہی، جس طرح وہ ایک سچی تبدیلی کے خواہاں تھے، اُسی طرح کی نیک نیتی سے کام کیا، اپنے آپ کو ہمیشہ مفاد پرست اور پرمٹ مافیہ سیاستدانوں اور کارکنوں سے دور رکھا، جب انھوں نے دیکھا جو وعدے کیے گئے تھے، وہ جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں تو اپنے آپ کو پیپلز پارٹی سے علیحدہ کر لیا اور اپنے دامن کو ہرا لائش سے پاک رکھا، رانا اظہر کی یہ کتاب اپنی اُنہی یادداشتوں کا خزینہ ہے، جو انھوں نے نہایت ، سادہ، رواں اور بیانیہ اسلوب میں لکھی، انھوں نے اس کتاب میں بڑی دیانتداری سے واضح کر دیا ہے کہ بھٹو مفاد پرست طبقہ کے ہاتھوں یرغمال ہو کر اپنے منشور سے ہٹ گئے تھے، جس کا اثر اُن کی زندگی پر بہت گہرا ہوا، اس کے بعد ضیاء دور کی جو قباحتیں نازل ہوئیں۔ اُس کا بھی ذکر بڑی صفائی سے کیّا گیا ہے۔ حقیقت میں یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور اُن پیپلز پارٹی کے مخلص کارکنوں کی زندگی کے روشن لمحوں کی یاد دلاتی ہے۔ جو حسینی کردار کو مشعل بنائے ہوئے تھے۔ کتاب کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کریں تو دل میں اترتی چلی جاتی ہے ، نہ کوئی تصنع ہے، نہ افسانہ نگاری ہے جو اکثر سیاست دانوں کا وطیرہ ہوتا ہے اور وہ پیسے دے کر کتابیں لکھوا کر اپنے آپ کو ادیبوںمیں بھی شامل کر لیتے ہیں۔ رانا اظہر صاحب آج کل اوکاڑہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کتابیں پڑھنے کو اپنا تکیہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس کتاب کی یادداشتیں انھوں نے اپنے دوستوں کے بھرپور تقاضے پر لکھیں۔ خاص کر محمد زکریا صاحب نے انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز کو سیاسی حوالے سے سامنے لائیں، اسے کتابی شکل بھی محمد زکریا صاحب ہی نے دی اور احباب تک پہنچائی۔ الغرض اس سو صفحے کی کتاب میں آپ رانا صاحب کی امیدوں اور وابستگیوں کی ایسی دلنواز اور داستان حسرت پڑھیں گے ، جس سے اس ملک کا ہر سچا اور کھرا آدمی دوچار ہوا ہے، ہم زکریا صاحب کے بھی شکر گزار ہیں جنھوں نے ان تحریروں کو سامنے لانے میں محبت اور خلوص کا رویہ اختیار کیا۔
مبصر: علی اکبر ناطق
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا از: جاوید عارف
''کچھ عشق کیا کچھ کام کیا'' جاوید عارف کی سفرنامے پر مبنی سرگزشت ہے۔ انھوں نے یورپ اور خاص کر لندن میں رہ کر جو کچھ وقت گزارہ وہ اس کتاب میں بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے، کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جتنے باب ہیں وہ اپنے طور پر دلچسپ افسانے بھی ہیں، آپ اُن کو پڑھتے ہوئے ان میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں جیسے خود آپ کی زندگی کے واقعات ہوں۔ تمام کتاب کی عبارت سادہ اور رواں ہے، طبیعت پر کہیں بار محسوس نہیں ہوتا، نہ بلا وجہ کہیں فلسفہ نچوڑا گیا ہے اور نہ ہی کذاب سفر نامہ نگاروں کی طرح گھر بیٹھ کر یورپ کی حسینائوں سے عشق کے واقعات گھڑے ہیں بلکہ سفر میں پیش آنے والی صعوبتیں اور کٹھن مرحلے اس کتاب کا خاصا ہیں جنھیں پڑھ کر قاری مصنف کے ساتھ محبت کا رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جاوید عارف اوکاڑہ کے ادبی پس منظر میں بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں، اُن کی پنجابی اور اردو شاعری کے بیشتر مجموعے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ جس کی سخن فہموں سے انھوں نے داد بھی وصول کی ہے۔ آج کل وہ ایک اور سفر نامے پر کام کر رہے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں امریکہ اور اُس کے مضافات کا کیا ہے۔
''کچھ عشق کیا کچھ کام کیا'' جاوید عارف کی نثر کے حوالے سے ایک شاندار کتاب ہے، جس میں یورپ کا کلچر، وہاں پر مزدوری کرنے والے ایشین کارہن سہن، کالے اور گوروں کے نسلی تعصبات اور اسی طرح بہت سے دوسرے موضوعات کو لپیٹا ہے۔ بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے آپ کو دلچسپی اور شوق سے پڑھوا سکیں۔ آپ جاوید عارف کی اس کتاب میں وہ تمام خوبیاں محسوس کریں گے، جو ایک اچھے سفر نامے میں ہونی چاہیے۔ اسے سانجھ پبلشر نے لاہور سے چھاپا ہے۔
مبصر: علی اکبر ناطق
سب ترے واسطے از: طاہر عبید تاج
ناشر: بک کارنر شو روم بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم پاکستان
گجرات کی سرزمین ادبی حوالے سے کافی زرخیز ہے اردو اور پنجابی کے بہت سے شعراء نے اس دھرتی پر جنم لیا اور یہ سلسلہ موجودہ دور میں بھی جاری و ساری ہے۔ زیر نظر کتاب بھی اس خطے کے باسی نوجوان شاعر طاہر عبید تاج کی پہلی تخلیق ہے ۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کتاب میں اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ شعر کی تکمیلِ تجسیم میں یا تو کئی ادوار کی خلیج حائل ہو جاتی ہے یا پھر مضطرب اوقات کے بعد کوئی ساکت لمحہ مُراقب کو اپنے باہنر ہاتھوں کوئی ایسا شعر تراش دیتا ہے کہ آخر کار وہ مجسمہ ٔ غزل شاعر کو بھی تحیر میں مبتلا کر جاتا ہے۔ ایسے اشعار اپنی بناوٹ خود لے کر آتے ہیں۔ اپنے تعلیمی دَور میں مجھے ایسے اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی کہ جن کو اس تراش کے ہنر میں کمال مہارت حاصل تھی۔ میرے سب سے پہلے استاد میرے دادا جان مرحوم چوہدری عبدالمجید بنگیالوی ایک شاعر، عالم اور معلم جنھوں نے بچپن سے ہی اپنی کمال شفقت کے ساتھ ساتھ فارسی اور پنجابی کے ان شعراء کے کلام سے بھی روشناس کروایا جن کے نام پر بڑے بڑے شعراء تعظیم سے سر جھکالیتے ہیں۔
میٹرک میں پہنچنے تک گلستان و بوستانِ سعدی، دیوانِ حافظ ، کلیات اقبال، جلال الدین رومی اور سیف الملوک جیسی کتب دادا جان کی رہنمائی میں پڑھ چکا تھا۔ بچپن سے ہی حسن قرأت، نعت خوانی ، تقاریر اور بیت بازی کے مقابلوں میں اسی وصف کی بدولت ہمیشہ نمایاں کامیابی حاصل کی۔
دوست اکثر استفسار کرتے ہیں کہ شاعری کب شروع کی۔ یہ تو مجھے خود بھی نہیں معلوم لیکن اتنا جانتا ہوں کہ یہ میرے خون کا خاصہ ہے۔ میرے پڑاداد چوہدری عالم دین فجر کے وقت جب نماز ادا کرنے جایا کرتے تو رستے میں با آوازِ بلند اپنے یہ اشعار پڑھا کرتے تھے:
پڑھ بسم اللہ، اُٹھ بوہ یار
چل مسیت نماز گزار
O
لام لَکھ عبادتاں روڑھ بیٹھا
جس میں دا لفظ پکاریا ای
اپنے معلمین کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ ماسٹر فضل کریم ، سر اشفاق احمد، سیف اللہ صاحب، گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات کے پروفیسر عبید اللہ اور پروفیسر کلیم احسان بٹ جیسے شفیق اساتذہ کی رہنمائی حاصل رہی۔ بعد ازاں پروفیسر اقبال ناظر نے علم عروض سے روشناس کروایا۔ میں نے ریڈیوفرضی سفر کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ۱۰۵ آواز ایف ایم گجرات سے کیا۔ مختلف ریڈیو پروگراموں میں سامعین کی فرمائش پر اپنی شاعری بھی شامل کرتا رہا۔ اسی لیے سامعین کی طرف سے ہمیشہ یہی تقاضا رہا کہ یہ سب شاعری کتابی صورت میں بھی شائع ہونی چاہیے۔ امید ہے کہ اساتذہ کرام میری اس جسارت کو شرفِ قبولیت بخشیں۔
۲۰۰۸ء کے اواخر میں ملازمت کے سلسلے میں دبئی جانا پڑا اور وہاں تین سال قیام کے دوران مختلف ایف ایم ریڈیو پر پروگرام کرتا رہا۔
جہلم کے ادبی حلقے''روہتاس ادبی سنگت'' میں ۲۰۰۸ء اور بعد ازاں دبئی کے ادبی حلقوں میں شمولیت اختیار کی تو کتاب کی اشاعت کا تقاضا احباب کی طرف سے بڑھتا چلا گیا۔
مبصر: تجمل شاہ
نام کتاب: ہم غریب شہری از: سمیرا گُل
ناشر: کتاب ساز پبلی کیشنز، راولپنڈی
پیش نظر کتاب مصنفہ سمیرا گل کے والدین ستّر کی دہائی میں ایبت آباد کے پہاڑوں سے روز روٹی کی تلاش میں راولپنڈی آئے۔ شہر کی مضافاتی آبادی میں پرورش پائی۔ وقار النساء کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بھائی نہ ہونے کی وجہ سے والدین کو سہارا دینے کے لیے معاشی سرگرمیاں شروع کیں۔ مقامی فلاحی ادارے میں سماجی خدمات سر انجام دیں اور ایک غیر رسمی سکول کی معلمہ بنی۔ سماجی سرگرمیوں کی بدولت ادارے کی سربراہ بنی اور سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کیں اور شہر میں نمایاں مقام پایا۔ انھیں سفارتی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ صدر پاکستان نے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا جبکہ یو این نے شہری ماحولیاتی خدمات کے اعتراف میں ٹوگی (TUGI) ایوارڈ دیا۔ سماجی کاموں کو مزید بہتر طریقے سے کرنے کے لیے کئی غیر ملکی دورے کیے اور تربیتی پروگراموں میں شرکت کی۔
سمیرا نے سماجی خدمات کے دوران نہایت باریکی، سوجھ بوجھ اور تفصیل کے ساتھ اپنے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں کو غور سے دیکھا ہے اور قلمبند کیا ہے۔ کتاب میں انھوں نے بہت جرأت کے ساتھ غریب علاقوں کی زندگیوں کے حقائق کو بیان کیا ہے۔ اُن پر اچھے یا بُرے کا لبیبل چسپاں کیے بغیر انھیں ویسے کا ویسے بیان کر دیا ہے جیسے وہ ہیں۔
زیر نظر کتاب غریب لوکوں کے انداز زندگی کو سمجھنے افے ان میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے ایک نہایت قابل قدر اضافہ ہے۔ ہمارے ملک کے ''پڑھے لکھے'' طبقات کے لوگ جن کے پاکستانی عوام کے بارے میں علم المحاتی رابطے سے آگے نہیں بڑھتا، یہ کتاب اُن کے لیے نہایت مفید، دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔
مبصر: فیاض باقر
رسا ئل پر تبصرہ
ماہتاک: سنگت، کوئٹہ
ناشر: مری لیب، فاطمہ جناح روڈ، کوئٹہ
صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ سے بلوچی اور اردو زبانوں میں ماہنامہ ''سنگت'' ڈاکٹر شاہ محمد مری کی زیر ادارت پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے سرپرست عبدا للہ جان جمالدینی ہیں۔
ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارہ میں کل گیارہ مضامین اردو میں جبکہ بلوچی میں کل چار مضامین شائع ہوئے ہیں۔ سات اردو نظمیں اور غزلیں شائع ہوئی ہیں۔ یہ شمارہ مسلسل اشاعت کے پندرہویں سال میں ہے اور بلوچستان میں بلوچی ادب کی ترویج اور فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ شائع ہونے والا کلام صوبہ کے ممتاز ادیبوں اور شعراء کا ہے، اس کے علاوہ اردو میں بھی جو کچھ لکھا گیا ہے وہ عہد حاضر کے سُلگتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری کا مضمون شاہ: سندھی کاسیک کا شہسوار ، معلومات افزاء ہے اسی طرح لینن اور جمالیات پر جاوید اختر صاحب نے تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جو ایک اچھوتا عنوان ہے کیونکہ لینن کے موضوع پر زیادہ تر روسی انقلاب اور دنیا پر اس کے اثرات کی گفتگو کی جاتی ہے۔ عذرا عباس کی آزاد نظم ''چیزیں'' موجودہ حالات کی بھر پور عکاسی کرتی ہے ۔ سیتا پال آنند کی نظم ''A Love'' بھی شامل ِ اشاعت ہے اور اس کے ساتھ یتیم بچے کے متعلق تاثرات ہیں، بلوچی زبان و ادب اور علم گریز رویے پر غلام قاسم بلوچ کا مضمون دعوتِ فکر دیتا ہے کہ ہم زبانون کے علمی و ادبی خزینوں پر دائمی قفل لگائے بیٹھے ہیں اور اُن سے استفادہ نہیں کرتے۔ بلوچ صاحب نے اس سلسلہ میں دو بیت کہے ہیں۔ مضمون ''سٹیزن ٹام پین'' میں ٹام پین نامی امریکی، برطانوی فوج سے انقلابی لڑائی کا اہم کردار تھا جس کے جنگی کا رناموں کا ذکر ہوا ہے۔ ہٹر دوڑ میں قاضی فضل الرحمن صاحب کوئٹہ کی اس عوامی بولی کو ضبطِ تحریر میں لائے ہیں جس میں کوئٹہ میں بولی جانے والی مختلف پاکستانی زبانوں اور بول چال کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو بہت دلچسپ ہے۔ اس میں اردو کا طرز بیان خاصا مختلف ہو جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں''گیٹ کیپر ٹیٹ سوختہ ہو کر ہال سے نکل رہا تھا کہ افضل نے جو اس کو اڑنگی دیا تو وہ سیٹوں کے درمیان کلٹی ہو کر لم لیٹ ہوگیا۔ سب لوگوں نے ملامت کیا اور وہ شوٹ شوٹ جانے لگا اور جاتے پاؤں سے اپنا بوٹ اُتار کر افضل کے منہ پر مار دیا'' اُس کے ساتھ ہی رفیق قادر کی غزل بلوچی زبان میں ہے۔ ''زال چیدگ'' بلوچی میں اصغر زبیر صاحب کا مضمون ہے اور ساتھ ہی منیرؔ دشتی کی بلوچی غزل بھی شاہ مری صاحب نے مولانا عبد الکریم ظہیری پر اپنی یادداشتیں رقم کی ہیں۔افسانہ کوش کرشن چندر کا تحریرکردہ بلوچی کے قالب میں حفیظ تاج صاحب نے ڈھالا ہے۔ آغا گل کا افسانہ ''قراری'' بلوچستان کے امن کی مخدوش صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ چراغ آفریدم نسیم سید صاحب کی رپورٹ ہے۔ کراچی حادثہ کا مریڈ کلیم کی نظم کراچی کے مخدوش حالات کے متعلق آگہی فراہم کرتی ہے۔ وشیانی روح ، سارا شگفتہ کی بلوچی نظم ہے۔ اس طرح نسیم سید کی تحریر ''کہاں ہے بات چلی تھی !'' مجبوری کی موت سے مرنے والی فلسطین کی پہلی لڑکی کے تمام فکر انگیز تحریر ہے اردو میں شرف شاد کی غزل انکے کلام کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے۔ ''عکس'' عبدالوحید کپیچ کی بلوچی تحریر اور رفیق مغیری کا کلام ''لوہ بانکئے جدائی سرا'' مختصرہے۔ صادق ہدایت اور اشرف یاد کا مضمون ''فرانسیسی بندیگ'' امین شمع کی غزل اور ھمانئیِ ناما اچھی تحریروں میں شمار ہے۔ پھر انگریز۔۔۔ بلوچ مزاحمت خالق کے عنوان سے تاریخی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ جینی کا خط مارکس کے نام ایک اچھی کاوش ہے جسے ادبی حلقے پسند کریں گے۔
رسالہ کے آخر میں شیخ ایاز / جہانگیر عباسی کی نظم''سوچتا ہے کیا کیا چھاچرو!!'' فرحت عباس شاہ کی نظم ''لب داریں کم ذات، اور تاج بلیدی کی نظم ''توکلی مست'' شائع ہوتی ہے۔ میگزین کے پشت کے صفحے سے پہلے مرحوم غلام محمد قاصرؔ کی ایک خوبصورت غزل شائع ہوئی ہے جس کا ایک شعر مشہور ہوا ہے۔
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جسکے نین نشیلے تھے
اور آخری صفحہ پر نسیم سید کی نظم ''جل کے بجھتے رہے'' شائع ہوئی ہے جو زندگی کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ رسالہ قارئین کی دلچسپ ادبی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی حالاتِ حاضرہ سے بھی واقفیت دلاتا ہے۔ بلوچستان جیسے پس مانندہ صوبہ سے بھر پور معلومات کے رسالہ کا اجراء یقیناً ملک کے ادبی اور تعلیمی حلقوں کے لیے بے انتہا مفید اور کار آمد ثابت ہوگا۔
مبصر: سید جاوید رضا