مولوی سید احمد دہلوی
رشید حسن خاں

اُ ر د و کے مشہور لغُت فرہنگِ آ صفیہ کے مولف مولوی سید احمد دہلو ی کو میں نے دیکھا تو نہیں ، اور دیکھتا بھی کیسے ، وہ پیدا ہو ئے تھے۱۸۴۶ء میں ، یعنی اب سے ایک سو انتالیس برس پہلے اور ۱۹۱۸ ء میں اس دنیا سے چلے گئے ؛ لیکن میں اُن کو جانتا اچھی طرح ہوں وہ اپنی تحر یروں میں اپنے کردار مزاج اور انداز کی رنگا رنگی کے ساتھ اس طرح نمایا ں نظر آتے ہیں جیسے سامنے موجود ہوں ۔فرہنگ آصفیہ کی پہلی جلد کا جوپرانا اِڈیشن ہے ۱۹۰۸کا،اُس میں ان کی تصویر بھی شامل ہے۔بھاری بھر کم بدن، سر پر تُرکی ٹوپی ،گلے میں نقش ونگار سے آراستہ مفلر جس کے دونوں سرے اِس طرح ملا کر سامنے رکھے گئے ہیں کہ آرایشی حصہ سامنے آگیا ہے۔ بڑی بڑی آنکھیں چوڑا ماتھا بھرا ہوا چہرااُس پر خوش نُما داڑھی،جو حدِ اوسط سے تجاوز نہیں کر سکی ہے،داڑھی کے باوجود چہرے پر خشونت کے آثارنہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ بس وہ نا م کے مولوی تھے۔ان کی تصویر اور سادہ صاف تحریریں اُن کی بے ریاشخصیت کو اس طرح سامنے لے آ تی ہیں کہ اجنبیت کا احساس کم ہو جاتا ہے اور شنا سائی کا احساس بڑھ جاتا ہے ، بس شرط یہ ہے کہ آدمی زبان اور ادب کی نسبت سے مولوی صاحب ہی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہو ۔
غلام یزدانی مرحوم سے دلّی والے نا واقف نا ہونگے، انہوں نے مولوی صاحب سے اپنی ایک ملاقات کا جو حال لکھا ہے اس سے مولوی صاحب کی آخری زمانے کی تصویر بھی ہمارے سامنے آ جاتی ہے ملاخطہ ہو :
مو لو ی صا حب کا حلیہ اور عادات ڈاکٹر جانسن کی شکل صورت اور خصائل سے ملتے جلتے تھے۔ دونوں کی بصارت کم دونوں کا مٹاپے کی وجہ سے بے ہنگم جسم۔ مولوی سید احمد کی پلکیں بالکل جھڑ گئی تھیں اور پپوٹوں کے کنارے بالکل سرخ رہتے تھے پھر بھی مطالعہ اور تصحیح کے کام میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دفعہ میں کسی لفظ کے معنی کی تلاش میں ان کے گھر پہنچا۔ یہ اس زمانے میں ایک پتلی سی گلی میں رہتے تھے، جو شاہ گنج اور شاہ تارا کے درمیان واقع ہے۔ گرمی کا موسم تھا۔ میں نے مکان پر جا کر کنڈی کھٹکھٹائی ،مولوی صاحب باہر نکل آئے ، ننگ دھڑنگ ، صرف ایک میلا جانگیا زیب تن تھا، میں نے اپنا مطلب عرض کیا فرمایا: ذرا ٹھہر یے پھر گھر کے اندر گئے اور کرتا پاجامہ پہن کر اور ایک کنجیوں کا گچھا لے کر باہر آگئے اور مجھے ساتھ لے کر گلی شاہ تارا کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں ایک لیتھو پریس تھا اور مسوّدات بھی وہیں رہتے تھے۔ مولوی صاحب ایک ڈسک نما میز پر بیٹھ گئے ، بستے میں سے مسودہ نکالا کچھ ورق گردانے ،پھر کلاں نما آئینہ اور اپنی عینک دونوں کی مدد سے میرے پیش کردہ لفظ کے معانی محل استعمال بیان کرنے شروع کیے۔ میں کھڑا سنتا رہا ، اور یہ جب تک میری تشفی نہ ہو گئی ، سمجھاتے رہے ۔ کچھ راہ گیر بھی جمع ہو گئے۔ مولوی صاحب ایک کاٹھ کی کرسی پر بے تکلف بیٹھے ہوئے تھے اور اطمینان اور فراغت کا یہ حال تھا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج کے پروفیسروں کو اپنے مطالعے کے کمروں میں اتنا ہی سکون حاصل ہوتا ہوگا۔‘‘(مقدمۂ رسوم دہلی ، طبع کراچی (
میں نے ابھی جو مولوی صاحب کی شخصیت کو بے ریا کہا تھا ، اس کی تصدیق آپ کو بھی ہو گئی ہو گی۔ زبان کے معاملے میں مولوی صاحب کٹّر دلی والے تھے۔ دہلی اور لکھنؤ میں جو ادبی اور لسانی چپقلش رہی ہے ، اس میں وہ بھی اُلجھے ہوئے تھے اور اس حد تک کہ ان کا فتوا یہ تھا کہ لکھنو والوں کو بھی دلی والوں کی تقلید کرنا چاہیے۔ کیوں کہ دلی سے باہر کا آدمی وہ لکھنؤ کا ہی کیوں نہ ہو ، اہل زبان ہوہی نہیں سکتا ۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ دہلی کے سوا کوئی دوسرا شہر ٹکسالی اور مرکز اردو قرار نہیں پاسکتا ۔ اردو لکھ لینا اور ہے اور اس کا صحیح لہجہ ادا کرنا اور ‘‘ آصفیہ جلد اول ۶۶ اب آپ کہیں گے کہ کوئی دوسرا شخص کہے تو کہے ، ایک لغت نویس کو یہ بات یا ایسی بات نہیں کہنا چاہیے۔ میں اس رائے میں آپ سے متفق ہوں ، مگر اس کو کیا کیّا جائے کہ اس زمانے میں دبستانی اختلاف نے کچھ ایسی ہی جانب داری کی فضا پیدا کر رکھی تھی ۔ مولوی صاحب نے کوئی نئی بات تو نہیں لکھی ،مرزا داغ اس سے پہلے کہہ چکے تھے کہ : اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ۔ یہ تو خیر ایک طرف دار اور ایک فدائی کا نعرہ بے اختیار تھا ، لیکن اسی سلسلے میں دو سطروں کے بعد مولوی صاحب نے ایک بہت اہم بات لکھی ہے کہ :’’نیز یہ بھی لحاظ رہے کہ زبان اردو سے صرف الفاظ اردو مراد نہیں ، بلکہ لہجہ بھی ، جو اس کی اصالت ہے ، اسی میں شمار کیا جا تاہے ۔ بس جس شخص کا لہجہ مع الفاظ روز مرّہ درست ہو گا ، وہی اُستاد کا مل خیال کیا جائے گا، بلکہ اصل باشندے کا اسی پر اطلاق ہو گایہ نکتہ آج بھی ہماری توجہ کا طلب گار ہے۔
ایک تو مولوی صاحب سچے دلی والے تھے ، پھر اردو کا اس وقت تک سب سے بڑا لغت مرتب کر رہے تھے ۔ ان دو باتوں نے ان کی تحریر میں عجیب صورت پیدا کر دی ہے ۔ لغت نویسی کی حد تک ان کا خیال تھا کہ انھوں نے اتنا بڑا کام شروع کیا ہے تو اب کسی اور کو اس میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ امیر مینائی نے جب امیر اللّغات کا ایک جز چھاپا تو انھوں نے واضح لفظوں میں امیر پر چوری کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ تو میرے ہی لغت کا چربا اتار لیا ہے ۔فرہنگ آصفیہ کی پہلی جلد کے مقدمے میں بہت ہی سخت اور نامناسب الفاظ میں ان دونوں کا ذکر کیا ہے اور کہا کہ میں نے آنکھ اور ہاتھ وغیرہ کے جو لغات لکھے تھے ، انہی کو ان لوگوں نے اُڑا لیّا ہے مولوی صاحب سے کون یہ پوچھ سکتا تھا کہ ہاتھ اور آنکھ کے نئے لغات یہ لوگ کہاں سے لاتے۔ اصل بات یہ تھی کہ مولوی صاحب امیر مینائی اور صاحب نور اللّغات کو اہل زبان سمجھتے ہی نہیں تھے ، وہی دہلی و لکھنو کا پرانا جھگڑا ۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ مولوی صاحب کی گفتگو کا انداز کیا ہوتا تھا ، مگر ان کی تحریر ہم سب کے سامنے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دلی والے ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ ایچ پیچ کے قائل نہیں تھے اور سب کچھ لکھ دینے کو غیر مناسب نہیں سمجھتے تھے ، خاص کر لسانی بحثوں میں۔ ایسے میں اگر کہیں لکھنؤ کا ذکر آگیا تو پھر مولوی صاحب سنجیدگئ تحریر کی بھی کچھ ایسی پروا نہیں کرتے تھے اور نہ یہ دیکھتے تھے ، کہ جہاں وہ باتیں لکھ رہے ہیں ، وہ کوئی رسالہ نہیں لغت کی کتاب ہے ۔فرہنگ آصفیہ کو دیکھ جائیے ، مقدمہ کی کتاب کی بات نہیں، الفاظ کی تشریح کے ذیل میں بھی وہ گنجائشیں نکال لیا کرتے تھے۔ میں مولوی صاحب کے مزاج ، انداز فکر اور ایسے عالم میں طرز کلام کی وضاحت کے لیے صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا ۔ لفظ’’توتی ‘‘ کے ذیل میں مولوی صاحب نے لکھا ہے :
’’ اس لفظ کی تذکیر و تانیث پر جو لطیفہ حضرت استاد ذوق اور ایک لکھنوی شاعر سے ہوا۔ اسے ناظرین کی تفنن طبع کی غرض سے ۔ درج کیا جاتا ہے ۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ استاد ذوق کے ایک لکھنوی ’’دوست‘‘ نے ناسخ کی ایک تازہ غزل سنائی ،اسی زمیں میں ان کو ذوق نے اپنی غزل سنائی جس میں یہ شعر بھی تھا :
ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
خوب طوطی بولتا ہے ان دِنوں صیاد کا
اب باقی لطیفہ مختصراً مولوی صاحب کے لفظوں میں سنیے: شعر سنتے ہی چونکے اور فرمایا کہ ہیں ! آپ نے طوطی کو مذکر باندھ دیا ، حالاں کہ اس میں یا ے معروف تانیث موجود ہے ۔
استاد ذوق نے فرمایا کہ حضرت ! محاورے پر کسی کے باپ کا اجارہ نہیں ہے۔ آج آپ میرے ساتھ چوک پر چلیے جب شام کا وقت ہوا ، دونوں صاحب جامع مسجد کی سیڑھیوں پر، جہاں گُزری لگتی ہے ، پہنچے ۔۔۔۔۔۔دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ ایک شُہدے صاحب بھی طوطی کا پنجرہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔ اُستاد ذوق نے اشارہ کیا : ذرا ان سے بھی دریافت کر لیجیے آپ نے بے تکلف پوچھا:بھیا ! تمہاری طوطی کیسی بولتی ہے ؟ جواب دیا کہ میاں!بولتی تمہاری ہوگی ، یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے ‘‘ آپ نے مولوی صاحب کا اندازہ دیکھ لیا!اس فرضی لطیفے کا بھلا لغت سے کیا تعلق ہو سکتا تھا، مگر دہلی لکھنو کی بحث میں تعلق نکل آیا ۔ سچ کہا گیا ہے کہ عاشقی میں سب کچھ جائز ہے۔
آج ہم لوگ فرہنگِ آصفیہ میں بہت سے عیب نکالتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ اس میں بہت سے بحث طلب مقامات ہیں لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ آج بھی یہ لغت بعض اعتبارات سے بے مثال ہے ۔ اس کی بڑائی اس وقت واضح ہو گی جب اسے کسی نئے لغت کے ساتھ رکھ کر دیکھیے مثلا ترقی اردو بورڈ کراچی کے ضخیم لغت کی چھ جلدیں اب تک چھپ چکی ہیں۔ ان جلدوں کے مندرجات کا مقابلہ فرہنگ آصفیہ کے اندراجات سے کیا جائے تو جگہ جگہ اندھیرے اجالے کا فرق نظر آئے گا ۔ الفاظ اور محاورات کے ذیل میں مولوی صاحب نے بہت سی ایسی تفصیلات لکھ دی ہیں جو آج اور کہیں مشکل سے ملیں گی ۔ خاص کر رسم ورواج اور اصطلاحات کے سلسلے میں۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ مولوی صاحب نے اپنی آنکھوں سے بہت سی رسموں کو دیکھا تھا اور بہت سی چیزوں کو برتا تھا ، جن سے آج کا لغت نگار واقف نہیں، وہ نرانقل نویس ہے ، ادھورا نقل نویس
مولوی صاحب فنافی اللّغت تھے ۔ کیسی کیسی مصیبتیں اس سلسلے میں انھوں نے اٹھا لیں۔ کتنے دروازوں پر مالی امداد کے لیے دستک دی ۔ ایک بار ۱۹۱۲ء میں گھر میں آگ لگ گئی تو سارا اثاثہ جل گیا ، کتابیں بھی جل گئیں ۔ لیکن مولوی صاحب نے نہ ہمت ہاری نہ دل چھوٹا کیا ۔ کسی ادارے کی مدد سے انھوں نے اس کام کو شروع نہیں کیا تھا ۔ محض ذاتی دلچسپی نے ان کو لغت نویسی کی طرف مائل کیا ۔ اس ذاتی دلچسپی میں بہت بڑا حصہ اس احساس کا تھا کہ دہلی کی زبان محفوظ ہو جائے اور دہلی کی معاشرتی زندگی کے بہت سے مظاہر ہو جائیں۔ انھوں نے معمولی ملازمتیں کیں۔ دلی میں بھی رہے۔ دلی سے باہر بھی رہے مگر لغت کے کام سے ایک دن کیا ایک لحظہ بھی غافل نہیں رہے ۔ ایسے دل لگا کر محض اپنے شوق کی تسکین کی خاطر کام کرنے والے اب کہاں ہیں۔
مولوی صاحب دہلی کے آخری بڑے آدمی تھے جنھوں نے بڑے سے بڑے کاموں کو انفرادی طور انجام دینے کی مشرقی روایت کو برقرار رکھا اور اتنا بڑا لغت مرتب کر گئے۔ یہ صحیح ہے کہ ایسے کام اب ایک آدمی انجام نہیں دے سکتا مگر ہمارے یہاں اب تک اجتماعی طور پر اور منصوبہ بندی کے تحت ادبی کام کرنے کی روایت پروان نہیں چڑھ سکی ہے اور لغت یا تاریخ ادب کے سلسلے میں جو پنچایتی کام اب تک ہوئے ہیں ، انکا احوال اس قدر تباہ ہے کہ ان کاموں کے کرنے والوں کو اگر روایتی لیبر کیمپ میں بھیج دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ اس صورت حال کے تحت اب سے سوا سو برس پہلے جو اتنا بڑا کام ایک فرد واحد نے انجام دیا ہے اور جس میں خامیوں کے مقابلے میں خوبیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں رہی ہے ، اس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ اگر کسی کو اس میں کچھ شک ہو تو اس لغت کے مقابلے کی اس زمانے کی کوئی ایک ہی مثال لے آویں ۔اب تو مالی وسائل کی کمی نہیں۔ سائنسی نقطہ نظر بھی عام ہو چکا ہے اور علم زبان نے بھی بہت ترقی کر لی ہے۔ مولوی صاحب لسانیات سے واقف نہیں تھے (اور اس زمانے میں کوئی بھی واقف نہیں تھا ) دولت مند بھی نہیں تھے ، انھوں نے غلطیاں بھی بہت کی ہیں ، وہ دہلی و لکھنو کے دبستانی جھگڑے میں بے طرح الجھے ہوئے تھے ، اس کے باجوددو وصف ایسے بھی تھے ان کے یہاں جن کا اب قحط ہے۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے پوری زندگی اپنی اس کے لیے وقت کر دی تھی اور پوری صلاحیت اور توفیق کے ساتھ بس اسی کے ہو کر رہ گئے تھے اور عمر عزیز کا دوتہائی حصہ اسی ایک کام کی نذر کردیا۔ آج ہے کوئی ایسا فدائی ایسا مخلص اور ایسا ڈوب کر کام کرنے والا۔ اس ایک وصف کے سامنے بہت سی خامیاں بے رنگ ہو کر رہ جایا کرتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ صحیح معنی میں زبان سے واقف تھے ۔ اردو میں کتنا ہی بڑا لغت مرتب ہو جائے جو جدید معیار لغت نویسی کے لحاظ سے بھی اعلا درجے کا بھی ہو تب بھی فرہنگ آصفیہ کی اہمیت کم نہیں ہوگی ۔ کلا سیکی ادب پر کام کرنے والے خاص کر دہلی کی زبان پر کام کرنے والے ہمیشہ اس سے استفادہ پر ہمیشہ مجبور رہیں گے ۔ اس بنا پر کہ جو مختلف معاشرتی اور تہذیبی تفصیلات اس میں محفوظ ہیں ، وہ کہیں اور نہیں ملیں گی اور زبان دہلی کے لحاظ سے روز مرہ محاورہ کے جو بہت سے نکات اس میں مندرج ہیں وہ نئے لغت میں اُن کو نہیں ملیں گے۔ ہم لوگ جو زبان اور لغت سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھتے ہیں اور ان موضوعات میں سر کھپاتے رہتے ہیں ، ہمیشہ مولوی صاحب کو یاد رکھیں گے اور ان کے خلوص کو اور ڈوب کر کام کرنے کے انداز کو مثال میں پیش کرتے رہیں گے۔