اس ماہ کی منتخب کتابیں
اتا ترک کی ’’ نطق ‘‘
اُردو ترجمہ : ڈاکٹر اے بی اشرف ،ڈاکٹر جلال صوئیدان
ناشر : اتاترک ریسرچ سینٹر، انقرہ
’’ کئی دنوں سے آپ کو مشغول رکھنے والا میرا یہ ’’نطق‘‘ بہر حال ایک دور کی کہانی ہے جو ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر میں اس میں اپنی قوم اور مستقبل کی اولاد کے لیے ایسے نکات بیان کرپایا جو ان کو چونکانے اور جگانے کا باعث ہوں تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھوں گا۔ ‘‘
یہ ہیں وہ الفاظ جو جدید ترکیہ کے بانی، محسن ، عظیم قائد اور راہنما جناب مصطفی کمال اتا ترک نے اپنی ہی قائم کردہ ’’ جمہوری عوامی پارٹی ‘‘ کی دوسری کانگریس منعقدہ ۱۵ سے ۲۰ اکتوبر ۱۹۲۷ء کے اختتامی خطاب میں کہے۔ یہ اجلاس مسلسل چھ روز تک جاری رہا اور اس سے قریب ساڑھے چھتیس گھنٹے جناب مصطفی کمال اتا ترک نے خطاب کیا اور خود اس خطاب کو نطق کا نام دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نطق ، ترکی کی سیاسی ، عسکری اور معاشرتی واقعات پرمبنی ایک تاریخی دستاویز ہے تو بے جانہ ہوگا ۔ایسا خطاب اور ایک ایسے شخص کی زبان سے جو تبدیلی کے ہر مرحلے پر قائدانہ کردار ادا کر رہا تھا۔ جس نے تبدیلی کی ہر مشکل کو اپنے عزم صمیم سے رد کرتے ہوئے کامیابی کی طرف سفر کیا تھا اور ایک ایسے منظر کی نشاندہی کی جسے وہ ترکیہ کے لیے درست سمجھتے تھے ۔
دنیا کی تاریخِ حاضر جدید ترکی کے بانی غازی مصطفی کمال پاشا کو عظیم انقلابی لینن اور ریاست کا نیا تصور دینے والی شخصیت مسولینی کے ساتھ شمار کرتی ہے۔ ۳۶ سال کی عمر میں جنرل کے عہدے پر پہنچنے والے ’’ ٹرکش ریفارمر ‘‘ نے اپنے چھ روزہ اس خطاب میں بادشاہت کے خاتمے اور زوال سے عروج تک کی محنتِ شاقہ کو اس درد مندی سے آنے والے ذمہ داروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جو ان کا خواب تھا۔ جسے وہ حقیقت سے ہمکنار کرچکے تھے اور اس کا تسلسل دیکھنے کے خواہش مند تھے۔
غازی اپنی قوم کو خرافات پرست اور قدامت پسند نہیں سمجھتے۔ وہ ترکوں کو ہر طرح سے صرف اور صرف ایک ہی بنیادی نقطۂ نظر سے استفادہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے کہ ترک قوم کو مہذب دنیا میں اس مرتبے پر لانا جس کے وہ لائق ہے یعنی جمہوریہ ترکی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا اور اس کی خاطر استبدادی سوچ کا خاتمہ کرنا۔ ترکوں کے قائد نے کہا کہ اے مستقبل کے فرزندو ! ان احوال وشرائط کی صورت میں بھی تمہاری ذمہ داری یہی ہے کہ تم ترک جمہوریت کی آزادی کی مدافعت کرو۔ تمہارے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے وہ تمہارے رگوں کے اندر شریف خون کی صورت میں موجود ہے۔
یہ ہے ولولہ جو جناب کمال اتا ترک کی سوچ ’’نطق‘‘ کا محور ہے اورجسے وہ بڑی حد تک عام کرچکے تھے اور شعوری طور پر آنے والے وقت میں بھی دیکھنا چاہتے تھے ۔
جناب کمال کہتے ہیں ہماری قوم قوت ، مسرت اور ثبات کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو اس لیے ہماری حکومت کو مکمل طور پر ایک قومی سیاست کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ یہ سیاست ہمارے داخلی نظام کے ساتھ قطعی طور پر ہم آہنگ اور مطابقت رکھتی ہو جب قومی سیاست کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد اپنی قومی حدود میں رہ کر سب سے پہلے تو خود اپنی قوت سے اپنے وجود کی بقا اور ملک وقوم کی حقیقی خوشیوں اور فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا، قوم کو طول طویل آرزؤں کے تعاقب میں ڈال کر خستہ وخراب نہ کرنا ۔۔۔۔۔۔ مہذب دنیا سے مہذب انسانی اور باہمی دوستی کی توقع کرنا۔
مصطفی کمال اتا ترک کے خطاب ’’ نطق‘‘ کی پہلی اشاعت ۱۹۲۷ء میں ہوئی جبکہ یہ اسمبلی میں پڑھی گئی تھی تاہم اس کی حقیقی پہلی اشاعت جولائی ۱۹۲۸ء میں عثمانی زبان میں ہوئی جس کا رسم الخط عربی حروف کے مطابق تھا اور اس کی دو جلدیں تھیں۔ ترکی میں رسم الخط کی تبدیلی کے بعد ’’ نطق ‘‘ لاطینی حروف میں مختلف اداروں کی طرف سے کئی بار شائع ہوئی اور اسے انگریزی، فرانسیسی ، جرمن ، روسی ، فارسی ، ترکمانی اور قزاقی زبان میں بھی شائع کیا گیا۔ فروری ۲۰۱۱ء میں اس کا اُردو ترجمہ ممتاز اہل علم ، دانشور استاد مکرم جناب پروفیسر ڈاکٹر احمد بختیار اشرف اور پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان نے بڑی محنت سے کیا اور اشاعت کا اہتمام انقرہ میں قائم سرکاری ادارہ ’’ مرکز مطالعہ اتا ترک ‘‘ نے کیا ۔
غازی کمال اتاترک کے خطاب نطق کا اُردو ترجمہ ۵۷۶ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ۳۷۸ چھوٹے موضوعات قائم کیے گئے ہیں۔ جس سے اس خطاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان موضوعات پر نظر دوڑائیے تو پڑھنے والے کو اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرتی ،سیاسی اور عسکری شعبہ کا کون سا پہلو ہے جس پر مقرر نے روشنی نہیں ڈالی ہے بلکہ اپنے نقطہ نظر سے کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ تحقیق کا روں کیلئے آسانی کا یہ پہلو بھی اطمینا ن کا باعث ہوگا۔
سیاست کی اونچ نیچ اور صحرا نوردوں کے لیے مصطفی کمال پاشا بلکہ غازی اور مارشل مصطفی کمال اتا ترک کی یہ نطق ---- تقریر وخطاب کا ایسا مجموعہ ہے جو بہت سے دریچے واکرتا ہے۔ کمال سچ کہتے ہیں کہ کئی دنوں سے آپ کو مشغول رکھنے والا میرا یہ نطق بہر حال ایک دور کی کہانی ہے جو ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر میں ، اس میں اپنی قوم اور مستقبل کی اولاد کے لیے ایسے نکات بیان کرپایا جو ان کو چونکانے اور جگانے کا باعث ہوں تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھوں گا۔
------- محمد احمد گوندل
می نگریم ومی رویم
اقبال لاہوری، منادی وحدت اسلامی
بہ کوشش ڈاکٹر محمد جعفر یا حقی و ڈاکٹر سلمان ساکت
ناشر : سخن ، تہران
سال اشاعت : ۱۳۹۰ ش/۲۰۱۱ء
حال ہی میں تہران کے ایک ناشر’’سخن‘‘ نے درج بالا عنوان سے ایک عمدہ کتاب شائع کی ہے۔ مذکورہ کتاب علامہ اقبال کے ادبی آثار و افکار پر مبنی مقالات پر مشتمل ہے جو دانشگاہ فردوسی، مشہد کے اساتذہ و دانشوروں کی علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
اس کتاب کا عنوان علامہ اقبال کی کتاب پیام مشرق کی ایک نظم بعنوان’’ سرود انجم‘‘ کے ایک مصرع سے اخذ کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں متعلقہ نظم کے درج ذیل اشعاربھی شائع کیے گئے ہیں :
بیش تو نزد ما کمی
سال تو پیش مادمی
ای بہ کنار تو دمی
ساختہ ای بہ شبنمی
ما بہ تلاش عالمی
می نگریم و می رویم
پیش نظر کتاب میں ڈاکٹر محمد جعفر یا حقی نے ایک مفصل مقدمہ بعنوان ’’اقبال شناسی در دانشگاہ فردوسی‘‘ (دانشگاہ فردوسی میں اقبال شناسی) تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر یا حقی ایران کے ممتاز دانشور و استاد ہیں۔علاوہ ازیں کتاب چوبیس مقالات پر مشتمل ہے۔ مذکورہ مقالات اس سے پہلے بھی دیگر مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔
اس کتاب کی ترتیب و تدوین و اشاعت کا اصل مقصد دانشگاہ فردوسی، مشہد میں اقبال شناسی کی روایت کو اجاگر کرنا ہے۔مقالہ نگاروں کا تعلق ایران اور پاکستان کے ممتاز دانشورو ں اور اساتذہ سے ہے۔
ڈاکٹر یا حقی نے نہایت تفصیل سے پہلے مجموعی طورپر ایران میں اور پھر مشہد میں اقبال شناسی کی روایت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس مقدمے کے مطالعے سے کچھ اہم شواہد دستیاب ہوئے ہیں جن کا ذکر درج ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے۔
ایران میں اقبال شناسی کی روایت سب سے پہلے ایک معروف ایرانی دانشور مجتبیٰ مینوی نے علامہ اقبال کی وفات کے گیارہ سال بعد ۱۹۴۹ء میں ایک کتاب بعنوان’’اقبال لاہوری‘‘ تحریر کرکے ڈالی۔
۱۹۴۹ء میں ہی دانشگاہ (یونیورسٹی) مشہد جو آج دانشگاہ فردوسی کہلاتی ہے، کی تأسیس ہوئی۔ اگر ایران میں استاد مجتبیٰ مینوی کی کتاب کی اشاعت کو ایران شناسی کا پہلا مرحلہ قرار دیا جائے تو اقبال شناسی کے اس راستے پر دانشگاہ مشہد میں مرحوم ڈاکٹر احمد علی رجایی بخارایی نے اپنا مقالہ بعنوان’’کیفیت تولد نظریہ خودی در درون اقبال و ریشہ ھاو اجزای آن تحریر کرکے پہلا قدم رکھا۔ مذکورہ مقالہ ۱۹۶۲ء میں فارسی مجلہ’’یغما‘‘ میں شائع ہوا۔اور اس مقالے کی اشاعت کے ساتھ ہی ڈاکٹر رجایی نے اقبال شناسی کو اپنا اصلی محور و مرکز بنایا اور متعدد مقالے تحریر کیے جو دانشگاہ مشہد کے مجلہ ’’دانشکدہ ادبیات‘‘ اور ’’نامہ آستان قدس‘‘ میں شائع ہوئے۔ اس سے زیادہ اہم یہ بات تھی کہ دانشگاہ مشہد میں خاص طورپر کبھی کبھی فارسی متون پر تحقیق کی جگہ اقبال کے افکار و ادبی آثار پر بحث کی جاتی تھی۔
ڈاکٹر یا حقی خود بھی اپنے آپ کو اقبال شناسی کے ایک شاگر د کی حیثیت سے روشناس کراتے ہیں۔وہ ڈکٹر رجایی کے شاگردوں میں سے ہیں او ربقول ان کے، انھوں نے ڈاکٹر رجایی کے لیکچر نوٹ کررکھے ہیں جو کسی وقت علیحدہ طورپر شائع کیے جاسکیں گے۔
ڈاکٹر یا حقی نے اپنے مقدمے میں ڈاکٹرر جایی کی خدمات کے بعد، اس سلسلے میں ڈاکٹر علی شریعتی او رڈاکٹر غلام حسین یوسفی کی کوششوں کا ذکر کیا ہے۔ ضمناً ان کے مقالات، تقاریر اور لیکچروں کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں قابل ذکر نکتہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آغاز سے ہی دانشگاہ مشہد میں یوم اقبال منعقد کیا جاتا رہا ہے۔پاکستان کے ممتاز استادو دانشور ڈاکٹر عبدالشکور احسن نے دانشگاہ مشہد میں مہمان استاد کی حیثیت سے اقبال شناسی کی روایت کو مزید تقویت دی۔
یوم اقبال کے حوالے سے منعقد ہونے والی مجالس میں ڈاکٹر این میری شمل، ڈاکٹر محمد اکر م شاہ، ڈاکٹر عبدالکریم سروش، ڈاکٹر محمد حسین ساکت اور دیگران کو بھی تقاریر کے لیے دعوت دی جاتی رہی ہے۔
ڈاکٹر یاحقی نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ دانشگاہ فردوسی میں ۹ ۔نومبر ۲۰۱۰ء میں مرکز اقبال شناسی تأسیس ہوا جو کہ قطب علمی فردوسی شناسی سے وابستہ تھا او راس مرکز کو پاکستان کے علمی اداروں اور جامعات کا تعاون حاصل ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ڈاکٹر یاحقی نے مقتدرہ قومی زبان کو بھی اس سلسلے میں ایک مراسلہ تحریر کیا تھا جس کے جواب میں مقتدرہ نے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔
پیش نظر کتاب کے فاضل مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر سید محمد علوی مقدم اور ڈاکٹر محمد جاوید صبا غیان نے نمل یونیورسٹی ، اسلام آباد میں اور ڈاکٹر محمد مہدی ناصح اور ڈاکٹر حسین رزمجو نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ ان فاضل اساتذہ کو پاکستا ن میں قیام کے دوران اقبال کی سرزمین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا او رانھوں نے یہاں منعقد ہونے والے متعدد سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت بھی کی۔ اگرچہ آپ سب پہلے سے اقبال شناسوں میں شمار کیے جاتے تھے لیکن اقبال کی سرزمین نے اس ذوق و شوق میں مزید نکھار پیدا کیا۔
راقم الحروف کو بھی ڈاکٹر علوی مقدم اور ڈاکٹر صبا غیان کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔ ان اساتذہ کی اقبال شناسی میں دلچسپی واقعی قابل قدر ہے۔
اس کتاب میں شامل تین مقالے بعنوان ہائے’’نظری بر جاوید نامہ اقبال لاہوری‘‘از چوھدری محمد حسین، ترجمۂ فارسی از ڈاکٹر محمد ریاض؛ اقبال و حافظ‘‘ از ڈاکٹر گوہر نوشاہی اور ’’اقبال و میلتون‘‘ از سید عبدالواحد پاکستانی دانشور کی تحریریں ہیں۔ ان میں سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کا تدریس کے حوالے سے مشہد یونیورسٹی سے تعلق رہا ہے۔ دیگر دو مقالے مجلد دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی مشہد میں شائع ہوئے ہیں۔
اس کتاب میں ڈاکٹر یاحقی کا مقدمہ ایران خصوصاً مشہد میں ایران شناسی کی روایت کے حوالے سے ایک ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے اور درحقیقت مزید استفاد ے کے لیے اردو زبان میں قابل ترجمہ بھی ہے۔
ایران میں اقبال شناسی کے سلسلے میں یہاں کے تیرہ اور پاکستان کے چار دانشوروں کی علمی کاوشوں کا ذخیرہ موجود ہے جو بلاشبہ ایک عمدہ ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس مجموعہ میں شامل مقالات کی تفصیل درج ذیل ہے :
’’کیفیت تولد نظریہ خودی دردرون اقبال وریشہ ھاو اجزای آن‘‘ از ڈاکٹر احمد علی رجایی بخارایی؛’’تحلیلی از جاوید نامۂ اقبال‘‘ از ایضاً ؛ ’’نکتہ ای چند دربیتی از اقبال‘‘ از ایضاً‘‘؛ ’’ہنر شاعری اقبال‘‘ از ایضاً ؛ ’’نظر اجمالی بہ مثنوی پس چہ باید کرد ای اقوام شرق‘‘از ایضاً؛ ہمسانیھای فکری و آرمانی موجود درآثار علامہ اقبال لاہوری و دکترعلی شریعتی‘‘ از ڈاکٹر حسین رزمجو؛ لالۂ طور و ارمغان حجاز جلوہ گاہی از اندیشہ و احساس لطیف اقبال ‘‘ از ڈاکٹر حسین زرمجو؛ ’’اقبال اور عرفان‘‘ از ڈاکٹر محمد مہدی رکنی؛’’نظری بر جاوید نامۂ اقبال لاہوری‘‘از چوھدری محمد حسین، ترجمہ فارسی از ڈاکٹر محمد ریاض خان؛ ’’اقبال و میلتون: نگرشی سنجشی بہ سقوط و شخصیت شیطان در بھشت گمشدہ میلتون و شعر ھای اقبال‘‘ از سید عبدالواحد، ترجمہ فارسی از محمد حسین ساکت؛ ’’تحلیلی از اسرارو رموز اقبال‘‘ از ڈاکٹر محمد جاوید صباغیان؛ ’’خودی و تعالی آن درنگاہ اقبال‘‘ از ڈاکٹر محمد جاوید صباغیان؛ ’’قرآن و اقبال‘‘ از ڈاکٹر سید محمد علوی مقدم؛ ’’مفاھیم انسانی در شعر اقبال ‘‘ از ڈاکٹر سید محمد علوی مقدم؛’’اقبال و شعر فارسی‘‘از ڈاکٹر گیتی فلاح رستگار، ’’اقبال و ایران‘‘ از ڈاکٹر جلا ل متینی؛ ’’معیار ارزشھای انسانی از نظر گاہ اقبال‘‘ از ڈاکٹر محمد مہدی ناصح؛’’گل واژہ لالہ اقبال ‘‘ از ڈاکٹر محمد مہدی ناصح؛ ’’محمد اقبال لاہوری معمار وحدت اسلام درقرن بیستم‘‘ ڈاکٹر ابو الفضل نبئی؛ ’’اقبال و حافظ‘‘ از ڈاکٹر گوہر نوشاہی؛ ’’شاعر زندگی‘‘ از ڈاکٹر غلام حسین یوسفی؛’’اقبال مصلح قرن اخیر‘‘ از ڈاکٹر علی شریعیتی۔
مذکورہ مقالات اقبال شناسی کی راہ پر اس یونیورسٹی کے اساتذہ کی کوششوں کو ظاہر کرتے ہیں، نیز یہ سب نایاب اور شائقین کی عمومی دسترس سے باہر تھے جو اب اس مجموعے کے توسط سے قابل استفادہ ہیں۔
درحقیقت یہ مقالات مسلم دنیا کی وحدت اور بیداری کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اقبال اور علی شریعتی کی حقیقی آرزو بھی یہی بیداری اور وحدت اسلامی تھی۔
-------ڈاکٹر انجم حمید
ضمیرِ زندہ ، سید ضمیر جعفری
مصنف : ڈاکٹر عابد سیال
ناشر : سید ضمیر جعفری فاؤنڈیشن ، راولپنڈی۔
سید ضمیر جعفری کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جہاں انھیں اپنے مداحوں کا ایک وسیع حلقہ میسر آیا وہاں ایسی اولاد اور دوست بھی جو ان کے نام کا فاؤنڈیشن قائم کرکے نہ صرف ان کی تمام تحریروں کو شائع کرسکتے ہیں بلکہ ان پر اچھی کتابیں بھی لکھوا سکتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کتاب سید ضمیر جعفری فاؤنڈیشن نے ’’ضمیرِ زندہ ‘‘ کے نام سے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز کے ڈاکٹر عابد سیال سے لکھوائی ہے۔ جس کے دیباچے میں جعفری مرحوم کے ایک باوفا دوست ڈاکٹر انور نسیم نے لکھا ہے :
’’ ۵۵۔ ۱۹۵۳ء کے سیشن میں جب میں گورڈن کالج راولپنڈی کا طالب علم تھا ، تو اس زمانے میں ضمیر جعفری پاکستان میں معروف مزاح نگار کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ گورڈن کالج میں مشاعرے کی روایت تھی اور وہ ایک مشاعرہ مجھے اب تک یاد ہے جس میں تلوک چند محروم اور ان کے بیٹے جگن ناتھ آزاد نے بھی شرکت کی تھی۔ احمد فراز ایک معروف نوجوان شاعرکے طور پر اور احمد ندیم قاسمی اورضمیر جعفری بھی شریکِ محفل تھے۔ جعفری صاحب کے سنائے ہوئے یہ شعر اب تک میرے حافظے میں محفوظ ہیں :
حادثہ ایسا بھی اکثر ہوگیا
آدمی کھانسا منسٹر ہوگیا
عورتیں پردے سے باہر آگئیں
مولوی لوٹے کے اندر ہوگیا
جانِ محفل تھا خدا بخشے ضمیر
اب تو اِک عرصے سے شوہر ہوگیا
انور مسعود نے ان کے سعودی عرب میں عمرہ کرنے کے حوالے سے یہ واقعہ سنایا کہ حرم شریف میں عمرے کی ادائیگی اور نماز پڑھنے کے بعد شام کو جدہ میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک دعوت کا اہتمام کیاگیا تھا۔ اس ضیافت میں شرکت کے لیے معروف فلم ایکٹریس انجمن بھی آئی تھیں۔ میں نے جعفری صاحب سے کہا کہ یہ کیا ، دوپہر کو عمرہ اور نماز کے بعد اب ۔۔۔؟ انھوں نے بلاتامل کہا : عمرہ قبول ہوگیا ہے۔ دینہ شہر کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ معروف شاعر ، افسانہ نگا ر اور فلم ساز گلزار کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ ضمیر جعفری نے اس علاقے سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس واقعہ کی بڑی دلچسپ تفصیلات ان کی کتاب ’’ میٹھا پانی ‘‘ میں موجود ہیں۔ ذاتی سطح پر اس الیکشن کی اہم بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اس مہم میں جعفری صاحب کا ساتھ دیا تھا لہٰذا الیکشن میں ناکامی کی ذمہ داری میں ہمارے خاندان کا حصہ بھی شامل ہے۔ضمیر جعفری صاحب کے حوالے سے ایک خلش دل میں بار بار ابھرتی ہے کہ ہماری ادبی قومی زندگی میں ان کا جو کردار رہا ہے اور ان کی جو اہمیت ہے، ہم اس کا حق ادا نہیں کرسکے۔ اسلام آباد میں کئی مشاہیرِ ادب کے نام پر سڑکوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ مشاہیرِ ادب کے بعض وابستگان تک اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں لیکن ضمیر جعفری کے نام سے کسی سڑک کو منسوب نہیں کیا گیا۔ ‘‘
اب ملاحظہ کیجیے اس کتاب کے سوانح اور تنقیدی حصے سے چند اقتباسات اور سید ضمیر حسین جعفری کے اشعار کا انتخاب۔
تاریخ ولادت کے حوالے سے اپنے بڑے بھائی کے متعلق کہتے ہیں : ’’ گھر والوں کی لاپروائی کا یہ عالم تھا کہ بڑے بھائی کی عمر مجھ سے تین سال چھوٹی لکھی ہوئی ہے۔ اسی بناء پر میں انھیں ڈانٹ لیتا ہوں۔‘‘۔۔۔
سید ضمیر جعفری کا بچپن دیہی ماحول میں گزرا جس میں رہ کر انھیں فطرت کی نیر نگیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، تصنع اور تکلفات کی بجائے سادگی اور خلوص دیہات کی زندگی کا خاصہ ہے۔ یہی خصوصیت ضمیر جعفری کی زندگی اور فن میں بھی نمایاں ہوئی۔ معاشی آسودگی اورخوشحالی نہ ہونے کے باوجود ان کا بچپن کھلنڈرا اور ر نگین تھا۔ انھیں پرندے پالنے کا شوق تھا۔ بٹیر، کبوتر ، تیتر ، کتے وغیرہ پال رکھے تھے۔ کبڈی اور کسرت کا شوق تھا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے رہے۔ گاؤں کے میلوں ٹھیلوں، مذہبی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں میں بھی گرمجوشی سے شریک ہوتے رہے۔ زندگی کے جملہ مشاغل میں اس بھرپور شرکت نے ان کی شخصیت کو مکمل اور ہمہ جہت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا پر تو ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ دیہی مناظر ، میلوں ٹھیلوں اور دیگر ثقافتی تقریبات کی زندہ تصویریں ان کی شاعری میں جابجا بکھری ہوئی ہیں اور ان میں یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ بیان کرنے والا صرف ناظر نہیں بلکہ خود منظر کا حصہ رہاہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ’’ میرے دیہات ، میرے گاؤں کی زندگی ، گاؤں کا معاشرہ ، گاؤں کی خوشبو میری شاعری کا نمایاں ترین حوالہ ہے۔ ‘‘۔۔۔اپنے گاؤں چک عبدالخالق کے پرائمری سکول سے ضمیر جعفری کے باقاعدہ تعلیمی سلسلے کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں سکول پرائمری تھا پھر لوئر مڈل اور مڈ ل ہوگیا اس سکول کے ماحول کے بارے میں ضمیر جعفری بتاتے ہیں :
’’ سکول کھیتوں کے اندر واقع تھا۔ ہم اس کی کھڑکیوں سے مکئی یا باجرے بھی توڑ کر کھاتے تھے اور ساتھ پڑھائی بھی کرتے تھے۔ اردگرد کے تقریباً چالیس دیہات کے لڑکے یہاں پڑھنے آتے تھے۔ آسانی اور سادگی کا زمانہ تھا۔ لوگ بہت فراخ دل تھے۔ دوسرے دیہاتوں سے لڑکے پڑھنے آتے۔ اگرچہ مائیں ساتھ روٹی اور اچار دیتیں لیکن گاؤں کے لوگ بڑا خیال کرتے انھیں لسی پلواتے اور کھانے کابھی پوچھتے۔ ‘‘
ضمیر جعفری کو شاعری کا ملکہ فطری طور پر ودیعت ہوا تھا اور اس کا اظہار ان کے سکول کے زمانے ہی سے ہونے لگا۔ گورنمنٹ ہائی سکول جہلم ہی سے تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے شاعری کا آغاز کیا ۔ باذوق اور جوہر شناس اساتذہ نے اپنی توجہ اور محنت سے ان کی فطری شعری صلاحیتوں کو جلا بخشی اورضمیر جعفری کا ذوق اور مشق پختہ ہوتی چلی گئی ۔ ۔۔۔ضمیر جعفری نے ۲۵ روپے کی تنخواہ پر کلر کی کے عہدے سے اپنی ملازمت کا آغازکیا۔ علاوہ ازیں مختلف اخبارات ورسائل وجرائد کے ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دینے کے صلے میں انھیں کچھ معاوضہ بھی ملتا تھا۔ جہلم سے ۱۹۵۱ء میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی بطور آزاد امیدوار لڑا لیکن کامیابی ان کے قریب سے کچھ سہمی رہی۔ ملٹری اکیڈمی کے شعبہ تعلقات عامہ سے بھی وابستہ رہے۔ فوج میں ملازمت کی اورجنرل ہیڈکوارٹر میں آرمی ایجوکیشن کور سے بھی وابستہ رہے، میجر کے رینک پر ریٹائر (۱۹۶۶) ہونے کے بعد اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے ) کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ چنانچہ اسلام آباد کے منصوبے کی آبیاری اور اس شہر کی آبادکاری میں ضمیر جعفری کی محنت بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کے مرکزی اور مشہور علاقے ’’ آبپارہ ‘‘ کا نام بھی ۱۹۶۳ء میں ضمیر جعفری نے ہی تجویز کیا۔ وہ کچھ عرصہ اکادمی ادبیات پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ اسلام آباد کے ٹیلی ویژن سنٹر سے بھی ضمیر جعفری کاتعلق رہا چنانچہ پی ٹی وی سے آپ کا ایک پروگرام ’’ آپ کا ضمیر ‘‘ کے نام سے چلا جو بہت مقبول ہوا۔
منتخب اشعار :
ظلم سہتا رہا ناروا آدمی
بن گیا آدمی کا خدا آدمی
کشت دہقاناں وہی بے آب و نم
قصرِ سلطاناں پہ ساون ہے ابھی
جعفری صاحب نے سب سے پہلے جس زبان کی شاعری کو اُردو کے قالب میں ڈھالا وہ ملائشیا کی لوک شاعری تھی ۔ شاعری کی اس قسم کو اس کی مقامی زبان میں ’’ پنتون ‘‘ کہتے ہیں اور یہ وہاں کی لوک شاعری ہے۔ گویا ’’ جزیروں کے گیت ‘‘ اُردو میں ملایا کے لوک ادب کی صورت میں موجود ہے۔ جعفری صاحب کے دیگر تراجم میں آسٹریلیا کے شعراء کی انگریزی نظموں کا اُردو منظوم ترجمہ ’’ وہ پھول کہ جن کا نام نہیں ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’ ولایتی زعفران ‘‘ میں انگریزی کی مشہور فکاہیہ اور طنزیہ نظموں کا ترجمہ ہے۔ ’’ من کے تار‘‘ میں انھوں نے اپنے ہی خاندان کے ایک بزرگ پیر محمد شاہ کی پنجابی شاعری کا اُردو ترجمہ کیا ہے جبکہ ’’ من میلہ ‘‘ پنجابی کے قادر الکلام صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش کی مشہور لوک داستان ’’سیف الملوک ‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے۔ ذیل میں ہم اسی ترتیب سے ان کے تراجم کا اجمالی جائزہ لیں گے۔
’’پنتون‘‘ کم وبیش ایسے ہی اوصاف کے ساتھ ملائی لوک ادب میں موجود ہے جس طرح ہمارے ہاں پنجاب میں ماہیا۔ ماہیے ہے۔ اس کی مماثلت ہی نے شاید جعفری صاحب کو اس کی طرف رغبت دلائی ہو۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ضمیر جعفری بطور ایک فوجی ملایا میں مقیم رہے۔ یہاں اپنے قیام کے دوران انھیں ملائی لوک ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ لوک شاعری اپنے دیس کی ہو یا کسی اجنبی دیس کی ، اس میں ایسے احساسات کی فراوانی ہوتی ہے جو ہر دل کی دھڑکن ہوتے ہیں۔ ’’ پنتونوں‘‘ میں ملائی دلوں کے لیے دھڑکن تو ہر سوموجود ہے مگر ساتھ ہی ایک ’’ ہندوستانی ‘‘ کے دل کے تار بھی ہل کر رہ گئے اور اس نے ان بدیسی گیتوں کو اپنے دیس کی زبان میں منتقل کرنے کی ٹھان لی ۔
سید محمد شاہ ، ضمیر جعفری کے ننھیالی بزرگ تھے ۔ جو اہل تصوف میں سے بھی تھے اور شاعر بھی ۔ ان کی پنجابی شاعری پوٹھوہار اور آزادکشمیر میں بہت مقبول ہوئی بالخصوص ان کی ہیر رانجھے کی ’’ سہ حرفی ‘‘ بہت معروف ہے جو اس علاقے میں ’’ ہیر محمد شاہ ‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ ’’ من کے تار ‘‘ میں ضمیر جعفری نے انہی بزرگ کے پنجابی پوٹھوہاری ابیات کو اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ جعفری صاحب نے اس کے علاوہ بھی ترجمے کیے ہیں اور اپنے ان تراجم کو وہ ترجمے نہیں بلکہ ’’ ترجمانیاں ‘‘ کہتے ہیں یعنی ترجمہ شدہ فن پارے کے اصل خیالات ترجمے میں منتقل ہونے کے بعد بہت زیادہ اصل نہیں رہتے۔ اس ترجمے میں اس کے برعکس ہے یعنی اصل زبان اپنی پور ی آب وتاب کے ساتھ اُردو ترجمے میں موجود ہے۔
من کے تار کے پنجابی ابیات میں ہندی گیت کا اسلوب موجود ہے جس طرح گیت میں عورت عشق کا اظہار کرتی ہے اور ہجر اور دردوفراق میں گھل مرتی ہے۔ اسی طرح محمد شاہ کے ابیات میں بھی محبوب حقیقی سے ملنے کی تڑپ اور اس سے فراق کی کسک عورت کے پرتاثر نسائی لہجے میں موجود ہے۔
ضرب زبان کٹار وانگوں ، متاں بول اولڑا بول دیویں
پھٹ دِلاں دے دِلبرا مولدے نہیں، بولی بول کے زخم نہ کھول دیویں
بھانویں زہر دیویں ، بھانویں شہد دیویں ، تیرے کول سبھے جوی گھول دیویں
نال خلق محمدا خلقتاں نوں موتی رول دیویں سونا تول دیویں
***
شوق سے لختِ جگر ، نور نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
میں بتاتا ہوں زوالِ اہل یورپ کا پلان
اہل یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
حضرتِ اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
-------- انوار احمد