کتاب میلہ
اقبال ہمارا
مصنف : ڈاکٹر نجیب جمال
ترتیب وتسوید : ذی شان تبسم
ناشر : بیکن بکس ، ملتان
اُردو کے ممتاز استاد، محقق اور تنقید نگار ڈاکٹر نجیب جمال کے علامہ محمد اقبال کے احوال و آثار اور فکر کے حوالے سے اُردو مضامین پر مشتمل کتاب ’’اقبال ہمارا‘‘ ذی شان تبسم نے مرتب اور بیکن بکس، ملتان سے شائع کی ہے۔
کتاب تین حصوں (ا) مضامین، (ب) اقبال اور مصراور(ج) تجزیہ پر مشتمل ہے۔ پہلے عنوان ’’مضامین‘‘ کے تحت سات مضمون اقبال کی ابتدائی اُردو شاعری، اقبال کی شاعری، کمالِ فن کی مثال، مسجد قرطبہ۔۔۔ اقبال کی ایک لافانی نظم، اقبال اور عشق، اقبال کی غزل۔۔۔ ایک جائزہ، اقبال کا نظریہ تعلیم اور قومی شعور، اُردو شاعری اور اقبال شامل ہیں۔ یہ مضمون ڈاکٹر نجیب جمال کی علامہ محمد اقبال کے انکار سے گہری وابستگی کے علاوہ تاریخی تناظرکی تفہیم، شعری نکتہ رسی اور عصرِ حاضر کے گہرے شعور و ادراک کا پتا دیتے ہیں۔ ان مختصر اور طویل مقالوں میں جہاں ڈاکٹر صاحب کے اردو شعر و ادب اور عالمی ادبی منظرنامے سے گہری واقفیت عکس انداز ہورہی ہے وہاں عصرِ حاضر کے انسانی اورعالمی مسائل کے حوالوں سے درد مندی کا عنصر بھی بے حد نمایاں ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے’’ اقبالیات اور مصر ‘‘میں چار مضمون اقبالیات اور مصر، مقدمہ ’’اقبال شاعر الاسلام‘‘ مقدمہ ’’محمد اقبال: المصلح، الفیلسوف، الشاعر الاسلامی الکبیر‘‘ اور تقریظ:’’اقبال والا زہر‘‘ شامل ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون بے حد اہم ہے کیونکہ اس میں عربی زبان میں اقبالیاتی ذخیرے کا کھوج لگا کر بہت محنت سے فہرست مرتب کی گئی ہے۔ اس فہرست میں کتابوں، مقالات، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالات سمیت متعدد دوسرے آثار کی قوی محنت کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے جو یقیناً اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔
اس حصے کے اگلے تینوں مضمون اقبالیات کے حوالے سے عربی میں شائع ہونے والی کتابوں کے مقدمے اور تقریظ کے طو رپر شامل ہیں۔ یہ مضمون روایتی مقدمے اور تقریظیں نہیں بل کہ ڈاکٹر صاحب کی عمومی طو رپر اقبالیات اور خصوصی طو رپر عربی میں اقبالیات سے گہری اور بامعنی دلچسپی کی غمازی کرتے ہیں۔ کتاب کے تیسرے حصے’’ تجزیہ‘‘ میں ’’متاعِ کاروان اقبال‘‘ پر ایک نظر کے عنوان سے رانا غلام یٰسین کی کتاب پر مفصل تبصرہ شامل ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے مشمولات پر عمومی اقبالیاتی آثار کے تناظر میں بحث کی ہے۔
مجموعی طور پر ’’اقبال ہمارا‘‘ اقبالیاتی ادب کے اثاثے میں بہت وقیع اضافہ ہے جس سے استفادے کی یقیناً بہت سی صورتیں نکلیں گی۔ خاص طور پر عربی اور مصر کی نسبت سے اقبالیاتی ادب کے سلسلے میں اس کتاب کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
-----
ڈاکٹر راشد حمید
فرہنگ اصطلاحات علوم وتمدن اسلامی
ناشر : اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (بنیاد پژوہشہای اسلامی، مشہد (
فرہنگ اصطلاحات علوم و تمدن اسلامی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن مشہد کے شعبہ ترجمہ کی کاوش ہے جسے جواد قاسمی کے زیر نظر محمد تقی اکبری نے علی آخشینی ، احمد رضوانی اور عبداللہ عظیمایی کی معاونت سے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب مذکورہ لغت کا دوسرا اور نظر ثانی شدہ ایڈیشن ہے جو ۱۳۸۶ ش/۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔ اس لغت کا پہلا ایڈیشن۱۳۷۰ش/۱۹۹۰ء میں طبع ہوا تھا۔اگرچہ پہلا ایڈیشن قارئین اور محققین کے لیے قابل استفادہ تھا لیکن بہت مثبت انداز میں اس پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ جاری رہا ، جس کے سبب فاؤنڈیشن کی ہیئت حاکمہ کی رضامندی سے اس لغت پر نظر ثانی کا کام شروع کیا گیا ۔
یہ فرہنگ ایک نہایت مفید اور قابل استفادہ لغت میں شمار کی جا سکتی ہے۔اس میں جن علوم کے الفاظ و اصطلاحات دستیاب ہیں،ان میں اخلاق، ادبیات، اقتصاد، تجارت، طب، تاریخ، علوم عروض وبدیع، تجوید،عرفان و تصوف، جغرافیہ، جلد سازی،علم حدیث، حساب، ریاضی، قانون، صرف و نحو، سیاسیات، علم کلام، علوم قرآنی، فقہ، فلسفہ، علم معماری، منطق، موسیقی، نجوم ، نقاشی، ہنر، ہندسہ وغیرہ شامل ہیں۔
اس لغت کا ذخیرۂ الفاظ نہایت وسیع ہے۔ ۷۴۰صفحات کی اس لغت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ۲۵۰۰۰سے زائد الفاظ شامل ہیں۔ اس کام کو مرتب کرنے کے لیے۱۶۹کتب ماخذ سے استفادہ کیا گیا ہے جس کی تفصیل کتاب کے آخر میں دی گئی ہے۔
اس لغت میں محض علوم رائج جیسے فقہ، فلسفہ، کلام، قرآن و حدیث کے الفاظ شامل نہیں ہیں بلکہ تمدن اسلامی کے ضمن میں موجودہ بہت سے علوم و فنون کا ایک وسیع دائرہ پیش نظر ہے۔ یہ علوم و فنون جیسے معماری، ہنر ، طب، نجوم،علم النفس وغیرہ۔ آج ان کا علمی استعمال نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنا تاریخی کردار محفوظ کر رکھا ہے۔لغت کے مقدمے میں مثالوں کے ساتھ اس کی وضاحت کی گئی ہے۔یہ لغت فارسی اردو زبانوں کے مشترک الفاظ پر تحقیق کے سلسلے میں ایک عمدہ ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ا س میں موجود بے شمار الفاظ ایسے ہیں جو آج اردو میں جو ں کے توں مستعمل ہیں۔
لغت کے مرتبین اس گرانقدر خدمت پر تحسین کے مستحق ہیں۔بلاشبہ یہ ایک عمدہ لغت ہے جو محققین اور طلبہ کے علاوہ عام قارئین کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔
مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین ڈاکٹر انوار احمد نے حال ہی میں جب اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کا دورہ کیا تو انھیں ادارے کی مطبوعہ لغت بعنوان’’ فرہنگ اصطلاحات علوم و تمدن اسلامی‘‘ تحفتاً پیش کی گئی۔ یہ دو زبانی لغت فارسی اور انگریزی زبان میں ہے۔ فاؤنڈیشن چونکہ اردو زبان میں بھی اپنے تراجم پیش کرتی ہے۔اس لیے جناب صدر نشین نے اس کتاب میں دلچسپی کا اظہار کیا او رتجویز پیش کی کہ اس کتاب میں اردو زبان کے تراجم بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ا س تجویز کا نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ۔امید ہے جلد ہی مقتدرہ اس سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھائے گا۔
------
ڈاکٹر انجم حمید
کتابِ دوستاں
مصنفہ : ڈاکٹر فاطمہ حسن
ناشر : دوست پبلی کیشنز ، اسلام آباد
’’
کتاب دوستاں‘‘ کے نام سے مجموعہ مضامین، قلم کتاب سے ہمہ وقت وابستہ رہنے والی ڈاکٹر فاطمہ حسن کی ایک ادبی کاوش ہے جس میں انھوں نے چنیدہ ادبی شخصیات کو موضوع سخن بنایا ہے۔ شخصیات کو کم مگران کی ادبی نگارشات پر زیادہ قلم اٹھایا ہے۔ ادبی شخصیات کے چناؤ میں نظم و نثر کے حوالے سے خاص طور پر توازن رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نسائی ادب کو بھی برابر جگہ دی ہے۔ مصنفہ نے کتاب دوستاں میں تنقید پر براہ راست تو نہیں لکھا مگر کچھ گوشے در آئے ہیں جیسے ایک مضمون’’ بیدی کی کہانیوں میں عورت: پرش اور پراکرتی ‘‘ اسی تناظر میں شامل کتاب ہے۔ اور یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ بیدی عورت کو اس صورت حال سے علیحدہ ایک مکمل انسانی وجود میں نہیں دیکھتے جہاں وہ مردوں کی اس سیاست کو آشکاراکریں کہ عورت صرف ایک کمزور مہرہ ہے۔ ’’ڈاکٹر اسلم فرخی، نگارستان آزاد میں‘‘ کتاب میں شامل پہلا مضمون ہے جس میں مصنفہ نے ’’آب حیات‘‘ کے خالق مولانا محمد حسین آزاد پر ڈاکٹر صاحب کے کام گِنوائے ہیں۔ نیز مولانا محمد حسین آزاد اور ڈاکٹر اسلم فرخی کی نثر میں روانی اور اثر آفرینی کے حوالے سے یکسانیت اور نسبت کو ایک دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ’’انور شعور فرقہ ملامتیہ کا شاعر‘‘ میں مصنفہ نے پوری کوشش کی ہے کہ انو رشعور کو فرقہ ملامتیہ سے نتھی کیا جائے ساتھ ہی انور شعور کی شاعری سے متعدد مثالیں دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ شعوری یا لا شعوری طور پر، انور شعور بہرحال فرقہ ملامتیہ کے ہی شاعر گردانے جائیں گے۔
کتاب دوستاں کی مصنفہ نے پیرزادہ قاسم کی شاعری کو نور اور روشنی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ان کی شاعری کو سائنسی شعور سے پوری طرح ہم آہنگ قرار دیا ہے کہ روشنی کس طرح نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے سائنسدانوں کا مسئلہ بھی رہی ہے اور یہ سلسلہ گوئٹے اور زرتشت تک جا ملایا ہے۔ اسی طرح اسلامی ثقافت میں نور کے اعلیٰ مقام کا حوالہ بھی دیا ہے۔ یہ مصنفہ کا کمال ہے کہ کس طرح سائنس،ادب اور اسلام کی تکون بنا ڈالی ہے۔ ایسی ہی تشبیہات کتاب دوستاں میں نظر آتی ہیں اور قاری کے لیے کتاب میں ایک دلچسپی اور تجسس کا عجیب سماں باندھ دیتی ہیں۔اسی طرح اکبر معصوم کی شاعری کو تشبیہات ، تراکیب، استعاروں اور اضافتوں سے ’’پاک‘‘ قرار دے کر اسے ان کی شاعری کا امتیازی وصف قرار دیا ہے۔
بات جمال احسانی کے مشفقانہ رویے کی ہو یا خالدہ حسین کے ناول’’ کاغذی گھاٹ‘‘ کا ہمارے معاشرے کے تناظر میں جائزہ؛رضیہ فصیح احمد کے ’’آبلہ پا ‘‘ سے ’’زخم تنہائی تک‘‘ کا سفرہو یا زاہدہ حنا کی کہانیوں کی تصویر کشی، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے نہایت فنی مہارت کے ساتھ دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’’بلوچ سماج میں عورت کا مقام‘‘ پر ایک مضمون میں جرأت اظہار اور عورت کے مسائل کی واضح نشاندہی پر مصنف کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور کتاب کی افادیت کو گِنوایا ہے۔
کتاب میں شامل دیگر مضامین جیسے ’’کشور ناہید۔ نسائی شاعری کی پہلی مزاحمتی آواز‘‘،’’ قمر جمیل کے چہار خواب‘‘ اور فراق، فیض،فراز اور فہمیدہ ریاض کی شاعری پر مضامین بھی خاصے کی چیز ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کے ایک بہترین مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اسلوب نثر نگار ہونے کے حوالے سے بھی اپنے تاثرات کو کتاب کی زینت بنایا ہے۔ چنددیگر اہم ادبی شخصیات کے علاوہ لطف اﷲ خان کی شخصیت پر ایک اورمنیر نیازی پر دو مضامین شامل کتاب ہیں۔
الغرض اہم شخصیات او ران کی ادبی کاوشوں پر مشتمل یہ کتاب قارئین کی دلچسپی اور توقع پر پورا اترتی ہے کیونکہ شخصیات اور ان کی ادبی کاوشیں جیسے ان کے سامنے آئیں انھوں نے سلیس زبان میں قلم بند کردیں۔ انداز تحریر شگفتہ، رواں اور سادہ ہے ۔ تاہم شخصیات کے انتخاب میں خاص منتخب حلقے کو شامل کیا گیا ہے کیا ہی اچھا ہوتااگردیگر اصنافِ ادب کے نمائندہ اہل قلم کی ادبی نگارشات کو بھی مناسب نمائندگی دی جاتی کہ کتاب کی مزید وسیع حلقوں تک پذیرائی ممکن ہو پاتی۔
-----
نور محمد خاور
علم و دانش کے معمار
مصنف : احمد عقیل روبی
ناشر : نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد
احمد عقیل روبی نے ایک عرصہ پہلے یونان کے ادبی ورثہ سے اُردو دنیا کو متعارف کرانے کا بیڑہ اُٹھایا اور یونانی اساطیر اور وہاں کے ادبی شاہکاروں کے حوالے سے ’’یونان کا ادبی ورثہ‘‘ کے عنوان سے گراں قدر کام سامنے لائے۔ سوفیکلیز کے ڈراما "Oedipus the King"اور یورپیڈیز کے "Medea"کے اُردو تراجم پیش کیے جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یونان کے ادبی ورثہ کے مطالعہ میں انھوں نے کئی عشرے صرف کیے ہیں۔’’یونان کا ادبی ورثہ‘‘ اور ان تراجم کے علاوہ انھوں نے اُردو کے چند ادیب و شعراء کی سوانح حیات بھی لکھی ہیں جن میں ’’مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘ کے عنوان سے ناصر کاظمی، ’’علی پور کا ایلی‘‘ کے عنوان سے ممتاز مفتی اور ’’قتیل کہانی‘‘ کے عنوان سے قتیل شفائی کی سوانح حیات شامل ہیں۔اس کے علاوہ وہ ’’فاہیان‘‘ کے عنوان سے ناول بھی لکھ چکے ہیں ۔حال ہی میں اُن کی نئی کتاب ’’علم و دانش کے معمار‘‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ایک تالیف ہے جسے دنیا ئے علم و فن میں ہومر سے لے کرسارترتک عظیم دانشوروں ، ادیبوں اور آرٹسٹوں کے حوالے سے ایک توضیحی انسائیکلو پیڈیابھی کہاجا سکتا ہے۔مظہر الاسلام کی رائے میں ’’یہ کتاب ادب، فلسفہ، تاریخ، سیاسیات، تنقید ، تحقیق غرض کہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے،کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس کا قاری زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو،یہ اُسی سے مخاطب ہے ۔کتاب میں جن شخصیات اور اُن کی فکر کو موضوع بنایا گیا ہے ،وہ ہر عہد کے زندہ لوگ ہیں۔‘‘اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ’’علم و دانش کے معمار‘‘ میں احمد عقیل رُوبی نے کم و بیش گزشتہ تین ہزار سال کی علمی روایت کے روشن ابواب کا تذکرہ کرنے کی سعی کی ہے لیکن دراصل یہ علمی روایت مغرب کی علمی روایت دکھائی دیتی ہے گویا اُن کے خیال میں مشرق نے علم و دانش کاکوئی ایک بھی ایسامعمار پیدا نہیں کیا جس کا ذکر اس کتاب کا حصہ بن سکتا۔غالبؔ اور اقبال ؔ تو ایک طرف ، مولانا روم یا شیخ سعدی بھی گزشتہ تین ہزار سال کی علم و دانش کی روایت میں انھیں اُس سطح پر دکھائی نہیں دیتے ۔بہر کیف اس کتاب میں احمد عقیل رُوبی نے پچپن ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی حیات اور فکر و فن پر نہایت اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ہر ادیب بارے دستیاب معلومات کی مدد سے ایک سوانحی تعارف پیش کرنے کے بعد وہ اُس کی تصنیفی خدمات کا ذکر کرتے ہیں جس میں اُس کی کتب کے موضوعات اور فنی پختگی پر سادہ اور عام فہم اسلوبِ بیان اختیار کرتے ہوئے روشنی ڈالتے ہیں۔ہومر کے شاہکار "Iliad" اور "Odyssey" کا ذکر ہو یاپھر وکٹر ہیوگو کے ناول "Les Miserables" کا،ہنرک ابسن کے معروف ڈراما "A Doll's House"کی بات آئے یا پھر ہرمین میلول کے شہرۂ آفاق ناول "Moby Dick"کا تذکرہ، احمد عقیل رُوبی ہر تخلیق کار کی مختصر سوانح درج کرنے کے بعد پہلے اس کی وجۂ شہرت تصانیف کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس کے فکری و فنی پہلوؤں کا تجزیہ ،جس سے یہ پہلو بھی عیاں ہوتا ہے کہ انھوں نے فن پارے کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی رائے دی ہے۔اس کے علاوہ مختلف شعراء کے کلام کااُردو میں ترجمہ کرکے انھیں مثال کے طور پر شاملِ مضامین کیا گیا ہے۔مترجم کی حیثیت سے اس سے پہلے اُن کے کئی اہم کام منظرِ عام پر آچکے ہیں جس کے ذریعے انھوں نے اپنی اس حیثیت کو بھی منوایا۔ اُن کے تراجم جوں کا توں معانی کے اندراج کا عمل نہیں بلکہ تخلیقی تراجم ہیں۔مثال کے طور پر جان کیٹس کی ایک نظم "Ode to a Grecian Urn"کی چند سطور کا ترجمہ ملاحظہ کریں :
حسن سچائی ہے اور سچائی حسن
سب کچھ یہی ہے
جو دنیا میں تمہیں جاننا چاہیے
اس سے زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں۔۔۔
اپنی نوعیت کی اس منفرد دستاویز کی تمام تر اہمیت کے باوجود اس میں کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جنہیں احمد عقیل رُوبی نے یکسر نظر انداز کیا ہے مثلاً انھیں تحقیق و تنقید کی دنیا سے اپنی بخوبی واقفیت کے بعد کم از کم اس بات کا احساس ضرور رہنا چاہیے تھا کہ عصرِ حاضر میں کسی حوالے یا مآخذ کی نشاندہی کے بغیر اُن کی درج معلوما ت تشکیک کا شکار ہو سکتی ہیں سو ضروری تھا کہ اول تو تمام اقتباسات اور فن پاروں سے دی گئی مثالوں کے مآخذات کا حوالہ دیا جاتااور اگر یہ ممکن نہ ہو سکا تو کتا ب کے آخر میں ایک ایسی کتابیات ضرور درج کی جاتی جس سے اُن مآخذات کا کچھ اندازہ ہو سکتا۔
-----
محمد خاور نوازش
دن کے نیلاب کا خواب
مصنف : سعید احمد
ناشر : شہر زاد ، کراچی
اُردو نظم نے مختلف ادوار میں مختلف رُوپ دھارے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس کا ہر رُوپ کسی خاص رجحان سے فرار یا پھر یوں کہہ لیں کہ نظم گو شعراء کی اُکتاہٹ اور روح کی مافوق العقل بے چینی کے باعث ہی وجود پاتا دکھائی دیتا ہے،اس بات سے ہمارے نظم گو شعراء کی دل آزاری قطعاً مقصود نہیں لیکن یہ فی الواقعی امر ہے کہ اردو نظم کا ہر نیا رُوپ فضا اور آزاد مزاجی کی بجائے ردِ عمل یا فراریت کا عملی مظاہرہ دکھائی دیا ہے۔ اُردو نظم کا ہر نیا رُوپ کسی آزاد فضا اور آزاد مزاجی کی بجائے ردِ عمل یا فراریت کا عملی مظاہرہ دکھائی پڑتا ہے۔بہر کیف کسی بھی اورتلخ تاویل سے پیشتر یہاں یہ بات کرنا مقصود ہے کہ اُردو نظم اپنی ہیت اور تکنیک کے نت نئے تجربوں سے گزرتے ہوئے ایک ایسا رُوپ اختیار کر چکی ہے جواسے لایعنیت کے دامن میں پھینکنے کے لیے پر تَول رہا ہے اوریوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کوئی بھی تخلیق کار جتنی گنجلک تحریر لکھ سکتا ہے وہ اتنا ہی بڑا نظم گو شاعر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس رجحان کو سب سے مضبوط سہارا نثری نظم کے نام پرملنا شروع ہواجس نے نئے تخلیق کاروں کو یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ وحدتِ تاثر، نغمگی، تسلسل، ہم آہنگ�ئ اظہار،عصری شعور اور عظمتِ خیال بھی کہیں امیجری کے ساتھ پڑے ہوئے ایسے لوازمات ہیں جن کے بغیرنظم ایسا فن پارہ مکمل نہیں ہوپاتا اور جنھوں نے اس پہلو کو واقعتا سمجھا انھوں نے آزاد نظم یا پابند نظم تو کیا نثری نظم میں بھی اُس خاص رنگ و آہنگ کو قائم رکھا جو اس صنف کا خاصا ہے۔عصرِ حاضر میں دبستانِ پنڈی سے تعلق رکھنے والا نوجوان سعید احمد بھی اسی روایت سے جڑا ہواشاعر ہے جو اپنے تمام تر نئے پن کے باوجود نظم کے فکری و فنی لوازمات کو پوری طرح خاطر میں رکھتاہوا مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ تصویر سازی کا عمل اُس کی نظم کو لایعنیت سے دامن گیر نہ ہونے دے اور وہ اپنی بات قاری تک نئے انداز میں پہنچا سکے۔ سعید احمد کی نظموں کا مجموعہ ’’دن کے نیلاب کا خواب‘‘ کراچی کے اشاعتی ادارے شہر زاد سے شائع ہو کر منظرِ عام پر آیا ہے جس میں ساٹھ سے زائد مختلف ہیتوں میں لکھی گئی نظمیں شامل ہیں۔سعید احمد کا اپنے مجموعۂ کلام کے لیے تراشیدہ ایک منفرد عنوان خود اپنے اندر ایک پوری نظم ہے جو ایک ہی وقت میں اس مجموعے کے مشمولات اور شاعر کے مشاہدے پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔سعید احمد ان نظموں میں نت نئی تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی دانست میں اسطورہ سازی کے عمل سے گزرتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے جس سے شاعر کے عصری شعور کے ساتھ ساتھ اُس کی مشاقی اور اپنے مضمون پر گرفت بڑی واضح نظر آتی ہے لیکن بعض اوقات انوکھے پن کے دھارے پر چلتے ہوئے اُسے اپنی ذات میں موجود تضادات اور الجھاؤسے باہر نکلنے میں مشکل بھی پیش آتی ہے اور یہی چیز اُس کے قاری کے لیے اجنبیت کی فضا پیدا کرتی ہے۔ عہدِ حاضر کا نظم گو دراصل سادگی اور اُلجھاؤ دونوں میں انتہا پسندی کا قائل نظر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے عہد کے معنیاتی نظام سے پہلو تہی کرکے ایک نئی تصویر کے بالکل منفرد نقش و نگاربنانے یا پھربعض اوقات بہت زیادہ سادگی تلاش کرنے کی کوشش میں قرطاس کو بے رنگ کرنے کا خیال ہی نہیں رہتا۔ معروف نقاد شمیم حنفی کی اُس رائے پر اعتبار آتا ہے جو انھوں نے اس کتاب کے دیباچہ کے پہلے چند جملوں میں ظاہر کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ :’’شاعر ی کی کتاب جب تصویروں کی کتاب بن جائے اور تصویریں بھی ایسی جن کے رنگ سیّال ہوں اور کسی منصوبہ بند اور متعین مفہوم کے قابو میں نہ آتے ہوں تو پڑھنے والے کے لیے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے‘‘(ص۱۱)اسی مسئلے کو سلجھانے کے لیے سعید احمد کا قاری اُس کی نظموں میں اتر کر اُنھیں سمجھنا چاہتا ہے اور اُس سرشاری کو محسوس کرنا چاہتا ہے جو خود شاعر کی تخلیقی قوت بنی ہے۔ سعید احمد کی ایک نظم ’’ غیر مرئی منظروں کی عکس بندی ‘‘ ملاحظہ کریں جس میں شاعر نے زندگی کی ایک تلخ حقیقت کو اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ہے، کہتے ہیں:’’دیکھ رات کی رانی؍شہر کی ہتھیلی پر؍کھِل اُٹھی ہے چپکے سے؍مرمریں کلائی پر؍وقت کی صدا باندھے؍زندگی طوائف کے؍خستہ بالا خانے سے؍سردیوں کی تنہائی ؍بھر کے اپنی بانہوں میں؍بے لحاف سڑکوں پر؍آگئی ہے چپکے سے؍بند مٹھیوں میں جو؍آگ لے کے شہوت کی؍رات کاغذی زر کے؍بستروں پہ سوتے ہیں؍ہر خبر کی سرخی میں؍پائمال منظر پر؍ندّیوں سا روتے ہیں۔۔۔(ص۴۷،۴۸)یہ اور ایسی کئی دوسری معنی خیز اور حرکت کرتی تصاویر سعید احمد کا زندگی کو نہایت قریب سے دیکھنے کا اظہاریہ ہیں لیکن اس مجموعۂ کلام کی تمام نظمیں پڑھنے کے بعد کہیں کہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی ایک ہی نظم کا تسلسل ہوں ، شاعر کی بصیرت فن کی حد تک یقیناًبہت وسیع اور پختہ ہے اور یہ اُمید کی جاسکتی ہے۔ اُس کے اندر امکانات کی وسیع دنیا آباد ہے جس میں احساسات کی دلکشی ، رومانوی آہنگ، تمناؤں کا گنجان آباد ساحل، کرب کو تخلیقی قوت میں ڈھالنے والی سرشاری ، فطرت کے بے رنگ مناظر کی رنگ آمیزی اور اُن سب کوکسی لڑی میں پرونے کی مہارت موجود ہے ۔ اُمید ہے کہ سعید احمد اس دنیا کی چکا چوند میں خود کو گم کرنے کی بجائے اسے اپنی منفرد پہچان کا وسیلہ ضرور بنائے گا ۔انوار فطرت نے اس کتاب میں شامل اپنے مضمون کی تمہید میں لکھا ہے کہ ’’ہر اچھا فن پارہ اپنی ذات میں تنہا ہوتا ہے اور ہُو بُہو کسی اور جیسا نہیں ہوتا،ایک اچھی نظم میں لفظ گنگناتے ہیں ، اس کی اپنی ہی لَے ہوتی ہے اور اپنی ہی سرگم ہوتی ہے جس سے ایک ایسا سماں بندھتا ہے جو اسی سے خاص ہوتا ہے(ص۱۴۹) میرے خیال میں انوار فطرت کے ان الفاظ میں اگر فن پارہ یا نظم سے مراد فنکاراور شاعرلیا جائے تو اس کی معنویت اور زیادہ ہو جائے گی اور بالخصوص سعید احمد ایسے نواجوان شاعر کے لیے جسے ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے۔
------
محمد خاور نوازش

داستانیں
مصنفہ : ایم سلطانہ بخش
ناشر : نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد
داستانوں کا ذکر آئے توگیان چند جین، فرمان فتح پوری،سید وقار عظیم، سہیل بخاری اور سید محمد نقوی کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں کہ ان تمام حضرات نے اس صنف کے حوالے سے گراں قدر تحقیقی و تنقیدی سرمایہ رقم کیا ہے لیکن اُردو داستان پر کام کرنے والے ان تمام مرد محققین و ناقدین کی صف میں ایک ایسی خاتون بھی شامل ہیں جنھوں نے مذکورہ صنف پر تحقیق کے ضمن میں اپنا منفرد مقام بنایا،یہ خاتون محقق ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش ہیں۔انھوں نے اُردو داستانوں میں مزاح کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی مقالہ لکھا جودسمبر ۱۹۹۳ء میں ’’داستانیں اور مزاح‘‘ کے نام سے مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی لاہور سے اشاعت پذیر ہوا۔یہ کتاب حال ہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آبا د سے ’’داستانیں ‘‘ کے نام سے دوبارہ شائع ہوئی ہے۔اس سے پہلے ’’اُردو میں اُصولِ تحقیق ‘‘ کے عنوا ن سے دو جلدوں میں اُن کی ایک مرتبہ کتاب مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہو چکی ہے جو اُردو تحقیق کے طالب علموں کے لیے آج بھی بنیادی دستاویزات میں شمار ہوتی ہے۔’’داستانیں‘‘ اپنی گذشتہ اشاعت کا ایسا نیا رُوپ ہے جس میں مواد توجوں کا توں بغیر کسی کم بیشی کے موجود ہے البتہ کتاب کے سرورق پر مصنفہ کے نام سے’ایم‘ نکال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حوالہ جات و حواشی کو جدید رسمیاتِ تحقیق کے مطابق ڈھال دیا گیا ہے جس میں مصنف کے نام کا معروف حصہ پہلے اور پھر اس کی ڈگری یا کوئی لقب وغیرہ آتا ہے۔اس اشاعت میں کتاب کے آخر میں درج اشاریہ میں صرف مصنفین کے ناموں کا اشاریہ رہنے دیا ہے جبکہ گذشتہ اشاعت میں شامل ’منظوم و منثورقصوں‘ کا اشاریہ اس اشاعت میں شامل نہیں کیا گیا۔اس کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے ،پہلے حصے میں اُردو داستان اور مزاح نگاری کا تعارف اور روایت بیان کرنے کے بعد نثری داستانوں میں موجود مزاحیہ عناصر کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں ابتداء سے ۱۹۰۵ء تک کی داستانوں کی روایت کو سمیٹا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اُردو کی منظوم داستانوں اور اُن میں موجود مزاحیہ عناصر کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔یہ کتاب اپنے موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے یقیناًایک منفرد کام ہے جو اُردو زبان و ادب کے ہر طالب علم کے مطالعے کا حصہ بننا چاہیے۔
------
محمد خاور نوازش
اُردو موحاورے
مصنف : نذر لطیف
اسٹاکسٹ : بیکن بکس ، گلگشت ، ملتان
نذر لطیف گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے ایک سینئر استاد ہیں۔ وہ جاپان کا سفرنامہ لکھ چکے ہیں اور اب اپنی شگفتہ تحریروں کو اُردو محاوروں کی صورت میں شائع کیا ہے۔ جن میں محاوروں سے زیادہ ضرب المثال سے منسلک تمثیلی حقائق کو مزاحیہ انداز میں نئی صورت حال میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
چند اقتباسات دیکھیے :
’’
جس طرح آج تک ہم قوالی کو ہمیشہ قوال کی مؤنث ہی سمجھتے رہے ہیں اِسی طرح قوال کی جمع بھی اقوال ہی سمجھتے رہے۔ اگر کوئی خاتون کہیں چپ بیٹھی ہو تو سمجھ لو کہ وہ بیمار ہے۔ موسم کی طرح وکیلوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ ان کی مرضی ہے چاہیں تو مقدمے کے حق میں پیش ہوجائیں اور چاہیں تو مخالفت میں پیش ہو جائیں۔ ان کے پاس دلیلیں دونوں موجود ہوتی ہیں اور اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق صرف سائل کو پڑتا ہے۔۔۔ایک زمانے میں طلباء کو طعنہ دیا جانے لگا کہ انھوں نے ہاتھوں میں قلم کی جگہ کلاشنکوف اٹھالی ہے چنانچہ تنگ آکر طالب علموں نے کلاشنکوف وہیں پر پھینک دی اور ہاتھوں میں موبائل فون اٹھا لیے ہیں ۔اس نے اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا اٹل فیصلہ کرلیا چنانچہ اس کو اپنے محل کے قید خانے میں ڈال دیا اور خود با امر مجبوری تخت پربیٹھ گیا ۔ اورنگ زیب عالمگیر خود بھی نیک آدمی تھا ۔ دن کو حکومت کرتا تھا اور رات کو تہہ خانہ میں قید خانہ میں جا کر اپنے والدِ محترم کی خیر خیریت بھی دریافت کرلیتا تھا، بڑا سعادت مند بیٹا تھا۔کھجور کے درختوں پر اکثر جن ہوتے ہیں ۔ جنوں کے بچے ہوتے ہیں اور وہ بڑے شرارتی ہوتے ہیں۔ جنوں کے بچے اکثر گلیوں میں مل جاتے ہیں ۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہورہا ہوتا ہے کہ گلی میں سے ایک بچہ ملا ہے جس کی عمر تقریباً آٹھ سال ہے۔ یہ جن کا بچہ ہے ،آکر مسجد سے لے جائیں ۔ملا جی دو ہوجائیں تو مرغی ہمیشہ حرام ہوجاتی ہے البتہ شوربہ حلال رہتا ہے۔چور ، شکاری اور گیدڑ پیٹ کے بڑے کچے ہوتے ہیں۔ ‘‘
------
انوار احمد
فنِ حرب
مترجم : سید محمد شاہ جلال
ناشر : نہال پریس، کراچی
قیمت : ۱۰۰روپے
پاکستان کے پرتشدد منظر نامے میں فن حرب کے بارے میں اس کتاب کا تعارف کرانا بظاہر مناسب نہیں لگتا لیکن مترجم کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ :
"The Art of War" (
فنِ حرب) آج سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل ایک چینی فلسفی ماہر جنرل سن زو (Sun Tzu) نے چینی زبان میں لکھی تھی جسے سب سے پہلے ۱۷۸۲ء میں ایک عیسائی پادری فادر ایمیوٹ نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔ ۱۹۰۵ء میں پی ۔ ایف ۔ کالتھروپ نے اس کو انگریزی ز بان میں منتقل کیا۔ دوسری بار ۱۹۱۰ء میں لاسنل گائیلز نے چینی طریقے کے مطابق ہر پیراگراف کے آخر میں حواشی وتشریحات کے ساتھ لندن اور شنگھائی سے ایک ساتھ شائع کیا اور پھر تیسری بار مشہور مصنف جیمز کلیول نے چینی ناموں کو رومن زبان میں آسان بنا کر گائیلر کے حواشی وتشریحات کو کتاب کے اصل متن میں شامل کر کے اور کتاب کے مفہوم کو پڑھنے والوں کی ذہنی رسائی کی خاطر عام فہم زبان میں پیش کیا۔ سید محمد شاہ جلال کے پیشِ نظر جیمز گلیول کا یہی ترجمہ رہا ہے۔ ‘‘
اس کتاب کے دو تین اقتباسات ملاحظہ کیجئے :
’’
سوما چائن (تقریباً ۱۱۰ق م) کتاب میں یہ اضافہ کرتا ہے کہ اگر ایک جنرل حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کے اصول سے ناواقف ہے تو اسے ہر گز بااختیار عہدہ پر نہیں بٹھانا چاہیے۔ ایک عقلمند شخص کو ، ایک بہادر شخص کو ، ایک چھپے ہوئے مکار شخص کو اور ایک بے قوف شخص کو کیونکہ عقلمند انسان اپنی قابلیت (جوہر ذاتی ) کو ثابت کرنے میں خوشی محسوس کرے گا، بہادر آدمی اپنے کام میں اپنی بہادری کو ظاہر کرنا پسند کرے گا، مکار آدمی کسی سود مند موقع سے فوراً فائدہ اٹھائے گا جبکہ بے وقوف آدمی کو موت کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ شکست کھانے کے چھ طریقے ہیں :
۱۔ دشمن کی قوت کا اندازہ لگانے میں غفلت برتنا
۲۔ اختیارات کی کمی
۳۔ تربیت کے نقائص
۴۔ ناحق کا غصہ
۵۔ نظم وضبط کی پابندی نہ ہونا
۶۔ چنیدہ افراد کو استعمال کرنے میں ناکامی ‘‘
------
انوار احمد
دریاتمام شُد
شاعر : حسن عباس رضا
ناشر : دوست پبلی کیشنز ، اسلام آباد۔
قیمت : ۲۵۰ روپے
اس وقت جب ہر طرف سے تمام شد کی یاسیت بھری آواز گونج رہی ہے، وہاں ایک خوبصورت اور عمر بھر امید کا دیا جلانے والا شاعر ایسا شعری مجموعہ لے کر آتا ہے جس کا نام ہی دریا تمام شد ہے۔ تو تعجب ضرور ہوتا ہے۔ تاہم حسن عباس رضا نے اپنی جس خوبصورت غزل سے یہ عنوان لیا ہے وہ تشنگی کے جواز پر محیط وہ استعارہ سامنے لاتا ہے جس کا تعلق دریا کے کنارے پیاسوں کے ایک قافلے کا تجربہ ہے اور جو ہمارے اجتماعی لاشعور میں ایک نوحہ بن کر گونجتا رہتا ہے۔ حسن عباس رضا ان بہادر اہل قلم میں سے ہے جس نے اپنے ادبی رسالے ’’خیابان‘‘ کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے دور میں روشنی اورامید کے چراغ جلائے تھے اور اس کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کی تھیں ۔ اس کتاب میں غزلیں ، نظمیں تو ہیں ہی مگر کسی شاعر کی بیوی کا لکھا ہوا ایک غیر معمولی اظہار الفت بھی شامل ہے جس میں اس طرح کے جملے شامل ہیں۔
’’
کہتے ہیں خواتین کو زیور سے بہت لگاؤ ہوتا ہے لیکن میں نے سونے کا زیور بیچ کر سخن کا زیور خرید لیا کہ میرا سرماے�ۂجاں تو حسن کی شاعری تھا اور ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں حسن کوزہ گر کے چاک پر چڑھا وہ کوزہ ہوں جسے وہ اپنی متّون ومتنوع طبیعت کے ہاتھوں نت نئی شکلوں میں ڈھالتا رہتا ہے۔ نہ اس کا اضطراب کوزے میں متشکل ہوتا ہے اور نہ ہی میں چاک سے نیچے آپاتی ہوں ۔ ایک وعدہ حسن سے میں نے بھی لیا کہ ہمیشہ سچ اور پورا سچ بولو گے کہ اس میں معافی کی گنجائش ہمیشہ رہے گی لیکن جھوٹ ہر گز نہیں چلے گا۔ ‘‘
اس مجموعے میں سے چند اشعار کا انتخاب دیکھئے :
آپ کی تربت پر تو
دل والے آکر روتے تھے
آپ کا ایک اک شعر سنا کر
اپنے اپنے غم دھوتے تھے !

میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے

پوچھا گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہوگئیں؟
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے

اگلا سوال تھا کہ میری نیند کیا ہوئی؟
بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے

شاید وہ خواب اُس کی مسہری پہ رہ گیا
جس کے لیے میں شہر میں گُھوما اِدھر اُدھر

سورج کے ڈھلتے ہی اُس نے رکھ دئیے ہونٹ پہ ہونٹ
عشق کے روزہ داروں کی بھی کیا افطاری تھی

آنکھیں ماضی میں ہیں ، اور خود حال میں رہتے ہیں
آج بھی ہم گزرے ہوئے ماہ وسال میں رہتے ہیں

جانے کتنے اور سُنامی ہیں اِن آنکھوں میں !
جانے کب سے ہم دکھ کے بھونچال میں رہتے ہیں

میں عین خواب میں تجھ سے مکرنے والا تھا
مجھے خبر ہی نہیں ، کب جگا دیا تو نے

سوال یہ نہیں ، میں نے تجھے بُھلایا کیوں؟
سوال یہ ہے ، مجھے کیوں بھُلا دیا تُو نے ؟

پوچھا تم تو شیریں دہن تھیں ، کیسے ہوا ہے تلخ یہ لہجہ
طنزیہ بولی ، ’’ جوتن لاگے ، سوتن جانے ‘‘ تم کو کیا ہے ؟

اپنے ہونٹوں سے مرا کاسہِ لب بھر دینا
اس طرح جسم کی خیرات نکل جاتی ہے

آتش و آب حسنؔ ہو نہیں پاتے باہم
یار رُک جائے ، تو برسات نکل جاتی ہے

شکر ہے شہر میں میرا ایک بھی دوست نہیں
مجھ پر چھپ کر وار تو اب نءں ہونے کا

حسن رضاؔ ، تمثیل وہی ہے، پر ہم سے
پہلے سا کردار تو اب نءں ہونے کا

اسلام آباد سے جو گزر ہو تو اے صبا
کتنا اداس ہے مِرا گھر بار ، دیکھنا

اب بھی ہونٹوں پر نمک اُس سانوے چہرے کا ہے
میرے سارے ذائقوں میں ہے وہ مرجانی ہنوز

یہ کس پاداش میں چھینی گئی تاریخ ہم سے
یہ کیسے جبر کے زیرِ اثر رکھا گیا ہے

ہمارے ہی لیے کھودی گئیں بے نام قبریں
ہم ہی کو اِس خبر سے بے خبر رکھا گیا ہے

کبھی مامور تھے گھر کی حفاظت کے لیے جو
انہی کے پاس ، گروی اب یہ گھر رکھا گیا ہے

کجی شاید کسی بنیاد ہی میں رہ گئی تھی
یقیناًگھر اُسی بنیاد پر رکھا گیا ہے
------
انوار احمد
میری تنہا پرواز
مصنفہ : کلثوم سیف اللہ خان
ناشر : علی پبلشنگ بیورو ، اسلام آباد
سحر صدیقی اُن اہل قلم میں سے ہیں جنھوں نے زمانۂ طالب علمی میں سے ہی اپنے لیے قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کرلیا تھا۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھیں لکھتے ہوئے نصف صدی سے زائد ہوچکا ہے۔ وہ مختلف جرائد سے وابستہ رہے محکمہ اطلاعات میں خدمات انجام دیں اور آج کل فری لانس (Freelance) قلم کار کے طور پر کتابیں لکھتے ہیں اور یہ ان کے قلم کا سحر ہے کہ وہ غلام اسحاق خان پر بھی لکھتے ہوئے اپنی کتابوں کو قابل مطالعہ بنا دیتے ہیں۔ اس سلسلے کی دوسری کڑی بیگم کلثوم سیف اللہ خان کی ایسی آپ بیتی ہے جسے سحر صدیقی نے ان کی یادداشت اور انٹرویوز کی مدد سے مرتب کیا۔
اس میں شک نہیں کہ بیگم کلثوم کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور انھیں اپنی خاندانی نسبت کے سبب بہت مشکل مواقع پر بھی نواب آف کالا باغ ، جنرل یحیےٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، بینظیر بھٹو ، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی اعانت یا توجہ حاصل رہی۔ تاہم ضیاء الحق کے زمانے میں انھوں نے کچھ عرصے کے لئے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ ان کی زندگی میں ان سب اعانتوں کے باوجود یہ پہلو سبق آموز ہے کہ ۳۸ برس کی عمر میں بیوہ ہونے والی ایک پشتون عورت نے کس طرح نہ صرف اپنے بچوں کو معاشرے میں اہم ترین افراد میں شامل کیا بلکہ ایک صنعتی سلطنت بھی قائم کی۔ ان کی کتاب کے بعض دلچسپ حصے پیش کیے جاتے ہیں :
جب ضیاء الحق دور میں مجھے نظر بند کیا گیا تو۔۔۔’میں نے اپنے اس گھر میں اپنی نظر بندی کے دنوں میں خوب باغبانی کی۔ تب میں نے جو پودے لگائے تھے۔ وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ میں ہاتھ میں کھرپا پکڑ کر کئی کئی گھنٹے تک کیاریاں سنوارنے اور پودوں کی گوڈی کرنے میں مصروف رہتی۔۔۔اس نے [جنرل سعید قادر نے] مجھے یہاں تک کہا: آپ کو اس ضد کی قیمت ادا کرنا پڑے گی لیکن میں نے اس کو جواباً لکھا کہ زمین کے اس ٹکڑے کے لیے میں اپنی جان تک دے دوں گی۔ایک بار اس نے کہا کہ یہ ہمارا قانونی حق ہے۔ اس پر میں نے اس کو جواب دیا کہ میں تمہارے قانونی حق کے بارے میں خوب جانتی ہوں۔ آپ کا سارے ملک پر حق ہے لیکن آپ اپنا یہ حق اس وقت استعمال کرسکتے ہیں جب آپ کو اس کی کسی عسکری مقصد کے لیے ضرورت ہو۔۔۔۔ ہم نے اٹلی کے شہر میلانو کی ایک کمپنی کے ساتھ سودا طے کرلیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مشینری کا سودا طے ہونے کے بعد انہوں نے مجھے کمیشن بھی دیا۔ یہ ایک خاصی معقول رقم تھی۔ انہوں نے کہا: یہ آپ کا حصہ اور آپ کا حق ہے کیونکہ آپ نے ہمیں بزنس دیا ہے۔۔۔۔ Italiansکے بارے میں میری رائے تھی کہ وہ فنکار اور نازک مزاج قسم کے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی مشقت او راپنے کام سے لگن نے مجھے اپنا یہ خیال تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے اپنا کام اتنی مہارت اور دیانتداری کے ساتھ کیا کہ ان کی نصب کی ہوئی مشینری اور پلانٹ میں آج تک کبھی کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ میں آج بھی اس پلانٹ کو دیکھتی ہوں تو خوشگوار حیرت میں ڈوب جاتی ہوں۔۔۔۔ اسمبلی میں ایک مولانا بھی تھے،جو ہر وقت کالا چشمہ لگائے رکھتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اجلاس کے دوران وہ ہم دونوں [میرے علاوہ صاحبزادی محمودہ سلیم]کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ میں نے جب بھی نگاہ اٹھا کر دیکھا، ان کو اپنی جانب دیکھتے ہی پایا لیکن میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔۔۔۔ مجھے خود جنرل ضیاء الحق نے ایک بار بتایا تھا کہ جب وہ پشاور آیا تو اپنی بیگم کو ایک تانگے میں سوار کرکے لایا تھا اور اس نے رہائش کے لیے جالندھر سویٹ ہاؤس کے اوپر ایک چوبارہ کرایہ پر لیا تھا۔ اسی طرح جنرل اختر عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے کہ وہ اپنے لیے ایک نئی سائیکل ہی خرید لیتا لیکن بعد میں ان لوگوں نے جس انداز میں دولت سمیٹی اور جائیدادیں بنائیں اس کا عام آدمی تصور تک نہیں کرسکتا۔ اس واقعہ کے گواہ موجود ہیں کہ جب پیپسی کمپنی فروخت کرنے کا فیصلہ ہوا او رہمایوں اختر کے ساتھ سودے کی بات ہوئی تواس نے اپنے بریف کیس میں سے کروڑ سے زائد روپے کے کرنسی نوٹ نکال کر میز پر رکھ دیئے اور کہا: اب سودے کی بات شروع کرتے ہیں، میں ہر قیمت پر پیپسی پلانٹ خریدنا چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کے باپ کے پاس سائیکل خریدنے کے لیے پیسے نہ ہوں اور وہ پیپسی پلانٹ خریدنے کے لیے منہ بولے دام ادا کرنے کو بخوشی تیار ہو تو اتنی دولت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ’’طریقہ‘‘ ہے اور اس طریقے سے ہر شخص واقف ہے۔ ۔۔۔۔اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک دن چندی بیگم (بیگم عابدہ حسین) نے کہا: ہمارا وزیر اعظم (جونیجو) بڑا نالائق شخص ہے۔ چندی بیگم عام طور ایسے ریمارکس نہیں دیتی لیکن معلوم نہیں اس دن اس نے ایسا کیوں کہا؟ سب لوگ حیران رہ گئے بلکہ میں تو یہ سن کر جھینپ سی گئی۔ ۔۔۔[میاں نواز شریف نے جب بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران مری میں رکھے گئے اپنے ارکان کی نگرانی کا فرض مجھے سونپا تھا تب ]میں نے میاں صاحب کو اطلاع بھیجی کہ حویلیاں کا فلاں رکن آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا: مجھے معلوم ہے وہ کیوں ملنا چاہتا ہے، دراصل وہ پتریاٹہ میں 20,25کنال کا ایک پلاٹ چاہتا ہے، میں کچھ بندوبست کرتا ہوں‘۔۔۔۔ میں رات کو اپنے نوکر اور چوکیدار کو ساتھ لے کر دبے پاؤں جاکر کمروں کی کھڑکیوں میں سے جھانکتی تھی اور دیکھتی تھی کہ سب لوگ کمروں میں موجود ہیں یا نہیں۔ میں ان سب کی گنتی کرکے واپس آ کرسوتی تھی۔ نگرانی کے اس کام میں خاقان عباسی کے بیٹے شاہد عباسی میرے ساتھ تھے چنانچہ ہم رات کو ٹارچ لے کر چکر لگاتے اور یقین کرتے کہ تمام ارکان موجود ہیں۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی جو زبردستی مجھے سونپ دی گئی تھی او رمجھے اس کا کوئی تجربہ یا شوق نہ تھا لیکن بہرحال مجھے یہ کام کرنا پڑا۔ ۔۔۔۔۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایسے ہی اجلاس میں انہوں نے [ذوالفقار علی بھٹو نے]کسی معاملہ پر حفیظ پیرزادہ کو کوئی ہدایت دی جس کو پیرزادہ صحیح طو رپر سمجھ نہ پایا تو بھٹو صاحب نے انتہائی’’عوامی زبان‘‘ میں اس کو مخاطب کرکے اپنی ہدایات کو دہرایا۔ سب لوگ چپ سادھ کر بیٹھ گئے اور پیرزادہ کی پیشانی پر شرم یا خفت کے مارے پسینہ آگیا۔ ۔۔۔جب بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملا تو انہوں نے ایک بار مجھے بتایا : میرے پاس میرے پاپا (بھٹو صاحب) کا وہ شلوار قمیض اب تک محفوظ ہے جو انہوں نے پھانسی کے وقت پہن رکھا تھا۔ میں اس جوڑے (شلوار قمیض) کو اپنے بستر کے سرہانے رکھتی ہوں اور رات کو اپنے سینے سے لگا کر سوتی ہوں، مجھے ان کپڑوں سے ابھی تک اپنے پاپاکی خوشبو آتی ہے۔
[
میری سہیلی ایک مرتبہ ایک معروف پیر کے پاس مجھے لے گئی] میں ان کے قریب جاکر بیٹھ گئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: آپ میرے پاس کیوں آئی ہیں؟ میں نے کسی بناوٹ اور تکلف کے بغیر کہا: جی، میں تو نہیں آرہی تھی، مجھے تو میری سہیلی نے اصرار کیا تو میں اس کے ہمراہ چلی آئی۔ میرے بچے ماشاء اﷲ خوبصورت ہیں اور ان کوعام طور پر نظر لگ جاتی ہے۔ میں نے ان کے گلے میں تعویز ڈال رکھے ہیں اور خود بھی قل شریف پڑھ کر ان پر پھونکتی رہتی ہوں۔ میرا جواب سن کر وہ گہری سوچ میں چلے گئے اور کچھ دیر بعد گویا ہوئے: ہم تمہیں ایک وظیفہ دیتے ہیں، رات کو سونے سے پہلے اس وظیفہ کو پڑھنا اور اپنے ذہن میں مسلسل ہمارا خیال رکھنا، جب تم سوجاؤ گی تو ہم تمہارے خواب میں آئیں گے۔[پیر صاحب کی یہ ہدایت جب میں نے اپنے شوہر کو بتائی تو وہ سخت برہم ہوئے ]
-----
انوار احمد
Ghalib and Iqbal Rhymed Translations of Selected Ghazals & Poems
مترجم : خواجہ طارق محمود
ناشر : ملک سراج الدین اینڈ سنز، لاہور
ہر دور میں عسکری حلقوں میں صاحبان قلم رہے ہیں اور ان میں سے اکثر کا تعلق فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رہا، ایسے صاحبان قلم میں چراغ حسن حسرت، فیض احمد فیض اور ضمیر جعفری تھے۔ تاہم عسکری حلقوں میں ایسے صاحبان قلم بھی رہے ہیں جن کاتعلق لڑا کا افواج سے تھا، ان میں کرنل (ریٹائرڈ) محمد خان اور لیفٹیننٹ جنرل آغا ابراہیم شامل ہیں۔ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) خواجہ طارق محمود کا تعلق بھی اسی دوسرے حلقہ سے ہے۔ بریگیڈیئر خواجہ طارق ایک ہمہ جہت مصنف ہیں۔ آپ نے تاریخ و ثقافت پر مضامین لکھے ہیں اور شعراء کے کلام کے منظوم انگریزی تراجم بھی کیے۔ منظوم اور منثور تراجم کی روایت کافی پرانی ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے غالب کی فارسی غزلوں کے بہت خوبصورت پنجابی منظوم تراجم کیے۔ اس طرح اسیر عابد نے غالب کی غزلیات کانہایت خوب صورت پنجابی منظوم ترجمہ کیا ہے۔ فارسی و اردو کے منظوم و منثور انگریزی تراجم کی روایت پرانی ہے۔ ایڈورڈفٹزجیرالڈ نے عمر خیام کی رباعیات کا بہت بہترین منظوم ترجمہ کیاہے۔ اس طرح پروفیسر نکلسن نے مولانا جلال الدین رومی ؒ کی مثنوی اور علامہ اقبال ؒ کے کلام کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) خواجہ طارق محمود نے ناموراُردو شعراء کے کلام کے منظوم تراجم کیے ہیں جن میں فیض احمد، ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، بہادر شاہ ظفر، قتیل شفائی، جوش ملیح آبادی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے برصغیر کی منتخب شاعرات کے کلام کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ زیر نظرکتاب میں انھوں نے برصغیر کے دو نابغہ شعراء اسد اﷲخان غالبؒ اور علامہ اقبال ؒ کے کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ غالب کے متعلق خود اُس کے دور کے ناقدین کی یہ رائے تھی کہ وہ بہت مشکل پسند شاعر ہیں۔ غالب کی غزلوں میں معانی کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتا ہے۔ خود غالب کو بڑے شاعر ہونے کا احساس تھا۔ اس لیے تو اُس نے کہا تھا :
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اسی غزل کا دوسرا شعر ہے۔ ’’اک کھیل ہے ، اورنگِ سلیماں، مر ے نزدیک، اک بات ہے، اعجاز مسیحا مرے آگے۔ اسی غزل میں آگے چل کر ایک بہت ہی خوبصورت شعر کہا :
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا، میرے آگے
ایسے شاعر کے کلام کا منظوم ترجمہ کرنا اور وہ بھی
انگریزی میں، ایک نہایت دقت طلب کام ہے مگر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) خواجہ طارق محمود نے یہ مرحلہ بھی بخوبی طے کیا ہے۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ جنہیں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا شاعر کہا جاتاہے کے کلام میں ایک جہان معانی پوشیدہ ہوتا ہے۔ آپ کی ایک نہایت خوبصورت رباعی ہے۔
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آیدکہ ناید
سرآمد روزگارے این فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
ایسے دانائے راز کے کلام کا منظوم انگریزی ترجمہ ایک بہت بڑی سعادت ہے اوربریگیڈیئر (ریٹائرڈ)خواجہ طارق محمود نے منظوم ترجمہ کا فریضہ بہت خوب صورتی سے نبھایا ہے۔ میں غالب کے ایک شعر اور علامہ اقبالؒ کی ایک رباعی اور ان کا منظوم ترجمہ دے کر یہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ بریگیڈیئر(ریٹائرڈ) خواجہ طارق رحیم اپنے منظوم ترجمہ میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں کہ
پہلے غالب کے ایک شعر اور اس کے ترجمے سے آغازکرتا ہوں۔
نقش فریادی ہے کِس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
Creation is a reflection of creator's miniature
Each picture is depicted in its paper pack inure
اب وہی رباعی جس کا اوپرذکر ہوا اور اس کا منظوم ترجمہ :
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
The melody of yore again may or may not com
Yonder Hedjaz' refreshing refrain may or maynot come
Time for the bard from the world to depart now has come
Another seer in his vein may or may not come
بریگیڈیئر(ریٹائرڈ) خواجہ طارق محمود کے غالب اور علامہ اقبال کے کلام کے منظوم ترجمہ کے بارے میں ناقدین کی جو رائے ہو سو ہو میرے نزدیک یہ ایک خاصے کی چیز ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
------
قاضی محمد عزیز الرحمن عاصم
فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ
مصنف : ڈاکٹر افضال احمد انور
ناشر : نعت ریسرچ سینٹر ، کراچی
ڈاکٹر افضال احمد انور کی کتاب ’’فنِ اداریہ نویسی اور نعت رنگ‘‘ نعت ریسرچ سینٹر، کراچی سے ۲۰۱۰ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ماہنامہ ’نعت رنگ‘ کے پہلے بیس شماروں میں شائع ہونے والے اداریوں کے تحقیقی و تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے جو ماہنامہ ’نعت رنگ‘ کے پڑھنے والے قارئین کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بھی ہے۔ اُردو نعت لکھنے ، پڑھنے اور سننے والوں کے لیے بھی یہ کتاب ایک اہم دستاویز ہے کیونکہ اِس میں اداریہ نویسی کے فن پر بھرپور اور جامع بحث کی گئی ہے۔ نعتیہ صحافت میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں اداریہ نویسی کے نظری اور عملی بحث کر کے نتائج مرتب کیے گئے ہیں اِسی لیے اِس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اِفضال احمد انور اِس وقت صدرنشین شعبہ اُردو اور بطور وائس پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج آف سائنس سمن آباد، فیصل آباد میں فرائضِ منصبی انجام دے رہے ہیں۔
------
وقار حیدر
اہلِ بیتِ نبوت ورسالتؐ
راجہ سلطان اکبر علی خان پاکستان وآزاد کشمیر کے علمی، ادبی، سیاسی اورمذہبی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں جن کی زندگی تحریکِ آزادی اور سیاسی جدوجہد سے عبارت ہے ۔ زندگی کے نشیب وفراز اور عصری تقاضوں پہ گہری نگاہ نے ان کے قلب ونظر کو وسعت عطا کی ۔یہ کتاب راجہ صاحب کا بیت اللہ شریف میں خالقِ کائنات سے کیا ہواوعدہ ہے جس کی تکمیل میں راجہ سلطان اکبر علی خا ن کے شب وروز کی محنتِ شاقہ اور شوق ولگن کا حسین امتزاج آپ کی مذہبی اقدار سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اِنگلستان ویورپ کے سرکاری کتب خانوں میں محفوظ مذہبی ودینی کتب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ طریقت کے سرچشموں سے سیراب راجہ صاحب اہلِ بیتِ رسول اللہ کے ساتھ والہانہ عقیدت ومودت رکھتے تھے جو تین جلدوں پرمشتمل ’’اہلِ بیتِ نبوت ورسالت ‘‘کی سطر سطر میں نمایاں ہے ۔انھوں نے لفظ ’’اہلِ بیت‘‘ پر بحث کی ہے اور اس کا مصداق دکھلایا ہے ۔قرآن وحدیث سے اہلِ بیتِ اطہارؑ کے فضائل ومناقب اور اکابرینِ ملت کی ان سے وابستگی عیاں کی ہے۔ قرونِ اولیٰ کے خطی نسخوں سے لے کرعہدِ حاضر کی جدیدمطبوعات کے حسبِ ضرورت اقتباسات اور حوالہ جات نے ان کی تحقیق کو رعنائی عطا کی ہے ۔عربی ،فارسی ،اردو اور انگریزی زبان و ادب پہ نگاہ رکھنے والے راجہ سلطان اکبر علی خان صاحب اس کتاب کے علاوہ میزانِ توحید،ندائے حق،مجھے ہے حکمِ اذاں ، تحریکِ آزادی ء کشمیر اور حکمران ،علی اور اسلام ، شیعیانِ علی اور مودت فی القربیٰ اور مقامِ سیدہ جیسی شاہکار کتب کے مؤلف ومصنف ہیں ۔اس کتاب کے ناشر زینب فاؤنڈیشن مہمونپور، جاتلاں تحصیل و ضلع میر پور، آزاد جموں و کشمیر جبکہ اہتمام اشاعت کے فرائض راجہ انوار الثقلین ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے سر انجام دیے۔
-----
پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی
اندوہِ وفا
صابر بدر جعفری معروف افسانہ نگار ہیں، پیشے کے لحاظ سے وہ بینکار بھی ہیں اور معلم بھی۔ وہ شاعری بھی کرتے ہیں اور انگریزی ادب سے تراجم بھی ان کے علمی و ادبی مشاغل میں شامل ہیں۔ ان کی زیر نظر کتاب حال ہی میں بزم تخلیق کراچی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔ اہل قلم اکابرین نے ان کے فن اور شخصیت پر آرا ء کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
صابر بدر جعفری کے افسانے ہماری حقیقی زندگی کی سچی کہانیاں ہیں۔ ماحول و خیالات کی پاکیزگی و معصومیت کے سہارے ان کی کہانیاں ایک منطقی ربط و تسلسل کے ساتھ بے تکان خود بخود آگے چلتی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ زندگی اپنی جملہ لذتوں، مسرتوں، حسرتوں، اذیتوں اور المناکیوں کے ساتھ ان کے ہمراہ چلتی ہے اور یہی صابر بدر جعفری کے افسانوں کی کامیابی کا راز ہے۔ صابر بدر جعفری کے افسانوں میں آسمان کے تارے توڑ لانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ اپنے آس پاس کے کنکروں پتھروں کو نجوم و جواہربنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی
ضعفِ بصارت کے باوجود جعفری صاحب کے کچھ افسانے پڑھے اور یہ افسوس ہوا کہ بصارت کی توانائی کے دور میں دل اور ذہن کو جھنجھوڑنے والے افسانے نظر سے کیوں نہیں گزرے۔ یہ افسانے نہیں ہمارے عہد کی ہولناک روداد ہیں جو ادبی روپ اختیار کر چکی ہے۔
ڈاکٹر یونس حسنی
ان کے بیان میں وہ سادگی اور پرکاری ہے کہ ایک افسانہ پڑھیے تو دوسرا پڑھنے کی طلب ہوتی ہے اور یہی کسی فنکار کی بڑی کامیابی ہے۔ وہ بڑے فطری انداز سے اپنا پلاٹ تعمیر کرتے ہیں اور کردار خود بخود ان کے پلاٹ کے مطابق اپنا وجود اختیار کر لیتے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ جس طرح انھوں نے بنکاری اور شاعری میں اپنا مقام بنایا ہے اب وہ افسانے میں بھی اپنے لیے نمایاں جگہ بنا لیں گے۔کتاب کے لیے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ maerajami@yahoo.co.uk
----
احمد تمثال
صاف صاف ۔۔۔قابلِ تحسین
سید سردار احمد پیر زادہ کا شمار ملک کے ممتاز کالم نگاروں میں ہوتا ہے ۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے کالم نگاری، تعلقات عامہ اور ادارت کے شعبوں سے وابستہ ہیں اور اس حوالے سے گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ ’’صاف صاف‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں گزشتہ چار برسوں کے دوران اشاعت پذیر ہونے والے کالموں کا انتخاب شامل ہے۔
کالم نگاری کو اس اعتبار سے ایک منفرد صنف صحافت تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ کالم نگار کے طرز احساس، اسلوب اور نظریات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ تاریخی تناظر میں اس صنف کو بجا طور پر ایک آزمائش تصور کیا جاتا ہے اور (شاید ) اسی سبب عام طور پر اس صنف کو ان شخصیات نے اظہار خیال کا وسیلہ بنایا جن کو زبان و بیان پر عبور حاصل تھا اور جو علم و ادب کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے تھے۔ معاصر صحافت میں یہ روش اب عام طور پر عنقا مشاہدہ کی جاتی ہے لیکن سید سردار احمد پیر زادہ کے کالم کا مطالعہ اس حوصلہ افزا حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ابھی اس صنف کی حرمت اور معیار کو برقرار رکھنے والے اہل قلم موجود ہیں۔
میں نے ’’صاف صاف‘‘ کا گہری دلچسپی اور انہماک کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی ہے کہ سید سردار احمد پیرزادہ نے اپنے کالموں میں ملک و قوم کو درپیش مسائل اور امور کا نہایت سنجیدگی، حب الوطنی اور ذمہ داری کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ان کا طرز بیان نہایت سادہ مگر بے حد فکر انگیز ہے۔ وہ بات سے بات تو ضرور نکالتے ہیں لیکن بات کی کھال ہرگز نہیں اتارتے۔ اسی طرح ان کا رویہ کسی مبلغ یا خطیب کا ہرگز نہیں بلکہ وہ نہایت دوستانہ اور ہمدردانہ انداز میں اپنے موقف کو بیان کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب خود نمائی اور خودستائی نے کالم نگاروں کی اکثریت کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے، سید سردار احمد پیرزادہ کے کالم اور ان کا اسلوب، دونوں ہی قابل تحسین ہیں۔ اس کتاب کے لیے ای میل saafsaaf@live.comپر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
----
سحر صدیقی
قرآن و عترت
’’قران و عترت‘‘ محمد حسین بہشتی کی ایک بہت خوبصورت کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔محمد حسین بہشتی پاکستانی ہیں اور ایک عرصے سے ایران میں مقیم ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے علامہ اقبال کی اہلِ بیتِ رسولؐ سے مودت اور محبت کو موضوع بنایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال لاہوری کس طرح اہل بیت کی مودت کو قرآن کے نقطۂ نظر سے واجب جانتے تھے۔ کتاب میں مصنف نے اپنی تالیف دو زبانوں فارسی اور اردو میں کی ہے۔ جو پڑھنے والے پر خوشگوار تاثرات پیدا کرتی ہے۔ کتاب میں خیال رکھا گیا ہے کہ کوئی حدیث سند کے بغیر یا کمزور حدیث کا حوالہ نہ آنے پائے اور وہ روایات درج کی گئی ہیں جو تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول بھی ہیں۔ کتاب انتہائی خوبصورت اور پیپر بیک میں ہے ۔ جس کی عبارت ادب چاشنی لیے ہوئے ہے۔ یہ کتاب ایران سے چھپی ہے۔ رابطے کے لیے فون۲۲۳۹۵۔۰۵۱۱ ہے۔
-----
علی اکبر ناطق
بازیافت
پاکستانی کی جامعات کے شعبہ جات سے شائع ہونے والے علمی و تحقیقی جریدے اُردو کی اس طویل ادبی روایت کی توسیع ہیں جس کا آغازانیسویں صدی کے نصف آخر سے ہوا تھا۔ ان جرائد کے توسط سے ایک جانب کہنہ مشق محققین کی سنجیدہ علمی کاوشیں منظرِ عام پر آتی ہیں اور دوسری جانب نئے محققین کو اپنی علمی کاوشیں پیش کرنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ ایسے ہی جامعاتی جرائد میں شعبہ اُردو، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کا جریدہ ’’بازیافت‘‘ بھی ہے جس کا اٹھارواں شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کی ادارت میں شائع ہونے والے اس شمارے میں اردو کے دو نامور شعراء کے گوشے شامل کے گئے ہیں۔ ایک تو اردو غزل کے بے تاج بادشاہ بلکہ خدائے سخن میرتقی میرؔ کی یاد میں اور دوسرا گوشہ جدید اردو نظم کے ن۔ م۔ راشد سے موسوم ہے۔
بیسویں صدی اپنے جلو میں تعقل و تفکر کی جس غیر معمولی لہر کو لے کے چلی تھی اس نے گزرتے وقت کے ساتھ شعر و ادب میں بھی تعقل و تفکر کی جلوہ گری کو پسندیدہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی مقبولیت او رپھر غالب کی فلسفیانہ فکر کی کشش انگیزی شیدائیانِ شعر و سخن کا محور بنی رہیں لیکن اہلِ علم و ادب میرؔ کی سادہ کار سحر انگیزی کے اثبات سے بھی غافل نہیں رہے ۔ اسی ضمن میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبۂ اردو کے فروری ۲۰۱۱ء میں میرؔ سیمینار میں پڑھے گئے مقالے چند دیگر مقالوں کے اضافے کے ساتھ ’’بازیافت ‘‘ کے اس شمارے میں شامل ہیں۔ جب کہ دسمبر ۲۰۱۰ء میں شعبہ اُردو میں ن۔م۔راشد سیمینار منعقد کیا گیا اوراس سیمینار میں پڑھے گئے ۱۴ مقالات سمیت ۱۷ مقالے اور مکاتیب بنام ن۔م راشد کے علاوہ چھ نادر تحریریں بھی شامل ہیں۔
گوشۂ میرؔ کے مقالہ نگاروں اور عنوانات پر سرسری نگاہ ڈالنے ہی سے اس گوشے کی وقعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انتظار حسین؛ ’’میر۔۔۔ غم عشق سے غم روزگار تک‘‘ ۔ سلیم اختر؛’’میر کا تکیہ‘‘، عبدالعزیزساحر‘‘؛ میر تقی میر کی غزل کا مابعد الطبیعاتی آہنگ‘‘، سہیل عباس بلوچ؛ ’’شعرِ میر۔۔۔ تلازماتِ مذہب کے آئینے میں‘‘، بصیرہ عنبرین؛’’میر کا اژدرنامہ: ایک تمثیلی منظومہ‘‘، مرغوب حسین ظاہر؛ ’’میر کا مردِ عاشق‘‘ اور محمد کامران؛ ’’میر تقی میر۔۔۔ آن لائن تنقیدکی روشنی میں‘‘ جیسے عنوانات کے ساتھ اس گوشے کو مزین کرتے ہیں۔ تقریباً تمام ہی مقالے دلچسپ، پراز معلومات ہونے کے علاوہ اسلوب و فن میرؔ کی کسی منفرد جہت کا احاطہ کرتے ہیں یا معلومہ جہات کے تجزیے کے لیے عصرِ جدید کے عقلی زاویوں سے مدد لیتے ہیں۔ خصوصاً بصیرہ عنبرین کے مقالہ ’’میر کا اژ درنامہ: ایک تمثیلی منظومہ‘‘ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ انھوں نے میر کی اس معروف مثنوی کے تجزیہ و تفہیم کے لیے ایک نیا زوایہ اختیار کیا ہے۔ اب تک اس مثنوی کو میرؔ کے ذہنی رویے میں مریضانہ انانیت کی نشان زدگی کے لیے پیش کیا جاتا رہا ہے جب کہ بصیرہ نے تنقیدی تجزیے کا منفرد رخ پیش کرتے ہوئے اس مثنوی کی فنکارانہ وقعت کو نمایاں کیا ہے۔
گوشۂ فکر میں سترہ مقالے شامل ہیں۔ فتح محمد ملک، ’’راشد ہمارا قومی مستقبل‘‘، خواجہ محمد زکریا’’راشد کی ایک نظم۔۔۔ ابولہب کی شادی‘‘، تبسم کاشمیری ’’راشد صدی: مسائل و افکار‘‘، رشید امجد’’راشد کا تصورِ خدا ‘‘ ، صدیق جاوید، ’’راشد کے انتقال کی خبر۔۔۔ ایک یادداشت‘‘، سعادت سعید ’’حسن کوزہ گر: ماورائے ہستی جانے کا چاؤ کہ فانی وجود کا نوحہ‘‘، انور محمود خالد، ’’ن۔م۔راشد۔۔۔ فیصل آباد میں‘‘، روبینہ ترین’’ن۔م۔راشدکی فکر کے چند پہلو‘‘، ظفر اقبال ’’راشد کی فکری اساس‘‘، محمد شفیق’’شعرِ راشد کی تفہیم کے تقاضے‘‘، نسرین راشد ’’کچھ ابی جان کے بارے میں‘‘، ابراہیم محمد ابراہیم’’عربی میں راشد شناسی‘‘، زیاد کا ؤسی نژاد و معصومہ غلامی ’’ایران میں راشد شناسی‘‘، ناصر عباس نیر ’’صارفی معاشرت کے تناظر میں ’’راشد کی شاعری معنویت‘‘، عارف شہزاد’’یہ اک فسانہ ہے کہ کردارِ داستان ہیں ہم ‘‘ ضیاالحسن ’’ن۔م۔راشد اور نئی ہیئت‘‘، محمد فخر الحق نوری ’’ن۔م۔راشد ایک زندہ فنکار‘‘۔ مقالات کے علاوہ مشاہیر ادب کے نواسی(۸۹) خطوط بنام ن۔م۔ راشد کی ترتیب محمد فخرالحق نوری نے کی ہے۔ اور نوادر کے عنوان سے چھ تحریریں بھی نوری صاحب ہی کی ترتیب شدہ شامل کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ راشد کے بڑے بیٹے شہریار راشد (مرحوم) اور بیٹیوں یاسمین راشد اور تمزین راشد کی انگریزی تحریروں پر مشتمل ایک آرٹیکل بھی اس گوشے کا حصہ ہے۔
’’
بازیافت‘‘ کے اس شمارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مدیران نے شعبۂ اُردو، پنجاب یونیورسٹی اورئنٹل کالج لاہور میں زیر تحقیق پی۔ایچ ۔ڈی اُردو کے مقالات کی فہرست بھی شائع کی ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے جسے شعبہ اُردو جامعہ سندھ کے جریدے’’تحقیق‘‘ میں بھی برتاگیا ہے۔ ا س طرح دیگر جامعات کے اساتذہ، طلبہ و محققین زیر تحقیق عنوانات سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں اور عنوانات میں تکرار کی علت سے بچنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
------
ڈاکٹر تنظیم الفردوس
سہ ماہی ’’عطا ‘‘
عطاء خالصتاً ادبی پرچہ ہے ۔ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہا ہے اورجو ادباء اور قارئین کے دل میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہے ۔ عطاء ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کا امتزاج لیے ہوئے ہے ۔’’عطا‘‘ کے مندرجات پڑھیں تو دل خوش ہوتا کہ نان اردو سپیکنگ علاقوں میں اردو زبان اور تفہیم ادب کی اتنی لاجواب کوشش ہے۔ جناب عنایت اﷲ گنڈہ پور اور انجینئر ذکاء خان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں جو اس ادبی شہ پارے کو جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ بابائے فارسی عطاء اﷲ خان عطا (مرحوم) کی فارسی زبان کی ملاوٹ اور چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔ عطاء اﷲ خان عطا کی فارسی حمدونعت دل و دماغ کے تاریک گوشوں کو منور کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فارسی کے ساتھ ساتھ حمدونعت کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے جس کے ذریعے فارسی زبان نہ جاننے والا بھی اس کو پڑھ کر وہی سرور حاصل کرسکتا ہے۔ جو فارسی جاننے والا۔ اس کے علاوہ عطاء اﷲ عطا کی فارسی نعت کا اردو منظوم ترجمہ عنایت اﷲ خان گنڈہ پور نے کیا ہے۔ فلسفہ روح و تن کے حوالے سے ’’مثنوی بیدل اور عطا‘‘ کا خوبصورت تقابلی جائزہ عنایت اﷲ گنڈہ پور کے مضمون میں ملتا ہے۔
بیدل پہلے انسان کے ’’بدن‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ انسان کی مکمل انا ٹومی بیان کرتا ہے اورجس میں تین اعضائے رئیسہ کا بطور خاص ذکر ہے یعنی دماغ، جگر اور دل۔ وہ ان تینوں میں سے دل کو پسند کرتا ہے۔ ان تمام کے بیدل اپنی مثنوی طلسم حیرت میں عقل پر بحث کرتے ہوئے وہم کی نیت لکھتا ہے کہ عقل تو اشیاء کی صورتوں اور حقائق جیسے کہ ہیں مشاہدہ کرتی ہے لیکن ’’وہم‘‘ محال اندیش ہے۔
دبستانِ کمالاتِ محالی
خطش بطلانِ احکام خیالی
حیالے را کہ درخاطر در آورد
محالے کرداز جیش پر آورد
عطاء اﷲ خان عطاء اپنی مثنوی حواس روح و حواس تن ’’عقل و وہم‘‘ میں سے پہلے ’’روح‘‘ کا ذکر کرتا ہے پھر تن کا ذکر کرتا ہے۔
بشنو ازمن اے ندیم ویارِمن
سرگذشت چشمِ روح و چشمِ تن
زندگی کا کوئی شعبہ ہو، سیاست، معاشرت یا ادب و صحافت ہر جگہ کچھ اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کرکے چلنا پڑتا ہے۔ بے اصول اور بے ضابطگی سے سوائے خلفشار اور افراتفری کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ادب و صحافت کا انحصار، لفظ و معنی کے رشتوں کو ملحوظ رکھنے پر ہے۔ ڈاکٹر محمداحسان الحق کا مضمون ’’لفظوں اور معنی کا رشتہ‘‘ اسی جانب اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر گل عباس اعوان کا مضمون ‘‘ ۱۱/۹ کے سرائیکی زبان و ادب پر اثرات ‘‘ کا جائزہ پیش کرتا ہے کہ کس طرح ۱۱/۹ کے حادثہ کے بعد امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح انسانی تہذیب، اخلاقیات کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا افغانستان کے نہتے انسانوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے چڑھ دوڑا۔ اس وقت کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ امریکہ کے عزائم کیا ہیں اور یہ آئندہ دنوں میں انسانی سوچ پر کیا ہوں گے۔ جہاں دوسری زبانوں میں لکھنے والے شعراء اورادباء کے نظریات، احساسات اس جنگ سے متاثر ہوئے، وہاں پر سرائیکی وسیب کے لکھاری بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے سرائیکی و سیب کے دانشور رفعت عباسی کہتے ہیں ۔
روز ڈیہاڑے کُیَ نہ کُیَ قصہ بنیاراہندے
شیردی گھور تو وستی تانی لہیا بنیاراہندے
ڈاکٹر سلمان علی کا مضمون ، ’’انگارے۔ تکنیکی تجربات کی روشنی‘‘ میں اور عامر سہیل کا مضمون ’’شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی۔ ایک تعارف‘‘ بھی اس پرچے میں شامل ہیں۔
شاعری پڑھنے کے شوقین لوگوں کے ذوق مطالعہ کے لیے گوشہ شاعری بھی اس پرچے کا حصہ ہے۔
-----
محمد انور سرور
قومی زبان، نومبر ۲۰۱۱ء
گو کہ اردو ابھی تک مکمل طور پر پاکستان کی قومی زبان نہیں بن سکی ہے تاہم انجمن ترقی اردو اور دوسرے ادارے، نیز علمی، ادبی، رسائل و اخبارات طویل عرصے سے اردو کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔’’قومی زبان‘‘ کے نومبر کے شمارے میں علامہ اقبال جیسے عظیم المرتبت مفکر، ادیب، شاعر پر مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ چونکہ نومبر کا مہینہ علامہ کی ولادت کا مہینہ ہے، اسی مناسبت سے انجمن نے اقبال کے حوالے سے خصوصی شمارہ شائع کیا ہے۔ علامہ کے کثیرالمعانی کلام نے ہر دور کے دانشوروں کو متاثر کیا ہے۔
اقبال نے اپنے فکروفن، تخلیق اور تعمیر میں جہاں دوسروں سے بہت کچھ لیا ہے وہاں دیا بھی بہت کچھ ہے۔ آپ نے خود کو صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ بیرونی دنیا پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔چنانچہ اسلامی دنیا سمیت یورپ، امریکہ، روس میں بھی ان کے فکروفن کے فلسفے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
باربراڈی مینکا ف کا نام براعظم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں بہت معروف ہے۔ وہ جنوبی ایشیا کی تاریخ بالخصوص انگریزی دور اور مسلم تاریخ و ثقافت کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب حسین احمد مدنی پر ہے جس کا عنوان Hussain Ahmed Madani: Jihad for Islam and India's Freedomکا ایک مضمون Reflections on Iqbal' Mosqueپر ہے۔
جس میں بال جبریل میں شامل اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔
علامہ اقبال لندن میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد چند دنوں کے لیے اسپین میں ٹھہر گئے اور ان آثار کو دیکھا جو اندلس کی عظمت رفتہ کے شاہد تھے ۔ خاص طور پر مسجد قرطبہ نے ان کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کے تمام خیالات و جذبات مسجدپر مرکوز ہوکر رہ گئے۔
نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں ان کی شاعری کی وہ خصوصیات موجود ہیں جنھوں نے اقبال کو شہرت و مقبولیت عطا کی۔ وہ لوگ اقبال کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں جو اسے صرف مسلمانوں کا شاعر قرار دیتے ہیں۔ ایسا کہنا اقبال کو محدود کردینے کے مترادف ہے۔ ہر شاعر استعاروں اور علامتوں کی بنیاد اپنے ماحول سے لیتا ہے۔ اقبال اسلامی حوالوں سے بات کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا بنی نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہو جا
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
علامہ اقبال کے نزدیک عورت کا اہم ترین اور مقدس ترین مقام ’’ ماں‘‘ ہے ۔ معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے ذمے نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اقبال کی نظر میں دنیا کی تمام سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے۔ دنیا کے انقلابات ’’ماؤں‘‘ کی گود میں ہی پرورش پاتے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ الزہراؓ کے کردار کو عورتوں کے لیے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے۔
اردو میں جذب ہونے والے عربی کے اکثر الفاظ قرینے کے مطابق اپنے اصل معانی دیتے ہیں لیکن کچھ الفاظ ایسے مستعمل ہیں جو خلاف قرینہ اپنے معانی بدل لیتے ہیں۔ ایسے الفاظ کی فہرست بھی اس شمارے کا حصہ ہے جن کے معانی عربی زبان سے اردو زبان میں منتقل ہوکر بدل گئے ہیں۔
-----
محمد انور سرور
’’
سیپ‘‘ کا تازہ شمارہ
وطن عزیز میں جو ادبی رسائل اردو ادب کے فروغ کے لئے نامساعد حالات کے باوجود اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں کراچی سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’سیپ‘‘ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادبی رسالہ جناب نسیم درانی کی زیر ادارت گزشتہ 47 برسوں سے شائع ہو رہا ہے اور اس عرصے میں اس نے بلاشبہ ہزاروں ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات سے اہل علم و ادب کو متعارف کرایا ہے۔ حال ہی میں اس کا شمارہ نمبر ۷۹ (خاص نمبر) منظر عام پر آیا ہے جس میں ۵۰ سے زائد اہل قلم کے شعری اور نثری فن پارے شامل ہیں۔ان میں افسانے کے شعبے میں سلیم اختر، طاہرہ اقبال، سلمیٰ اعوان، علی تنہا، انور زیدی، مراق مرزا، نیلو فر علی، رشیدہ رضویہ، جتندر بلو اور محمود مرزا کے نام قابل ذکر ہیں۔ شاعری کے شعبے میں مرتضیٰ برلاس، شبی فاروقی، جان کاشمیری، کرامت اللہ غوری، مختار کریمی، ناصر زیدی، احمد رئیس، حسن اکبر کمال،شہاب صفدر، جلیل ہاشمی، شاہدہ تبسم، عین سلام، قیوم طاہر، سلیمان خماراور افضال عاجز کے نام نمایاں ہیں۔ نثر کے شعبے میں عامر سہیل، محسن احسان، سید سفیر حیدر، ڈاکٹر ریحانہ کوثر، ذوالفقار طابش اور خالدہ شفیع کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔
’’
سیپ‘‘ کی یہ نہایت قابل تحسین روایت رہی ہے کہ اس میں نئے اہل قلم کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سینئر ادیبوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تخلیقات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس تازہ شمارے میں بھی ’’سیپ‘‘ نے اپنی اس روایت کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا ہے جس کے لئے جناب نسیم درانی بجا طور پر ادب دوستوں کی تحسین اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
------
سحر صدیقی
اسرائیل میں چند روز
امریکہ میں مقیم معروف ادیب اور دانشور کیاشرف کا سفر نامہ ’’اسرائیل میں چند روز‘‘ کئی لحاظ سے منفرد اور بے مثال ہے۔ کے ۔ اشرف پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے اسرائیل کا سفر نامہ لکھا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے اسرائیل کا سفر ممکن ہی نہیں اور اگر کچھ پاکستانی وہاں گئے ہیں بھی ہیں تو وہ اہل قلم نہیں تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی جسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور بھی کہا جاتا ہے ، اس عہش میں بھی اسرائیل کے متلعق عام پاکستانی کی معلومات بہت ہی کم ہیں ۔ معلومات سے یہاں میری مراد ان کے رہن سہن اور روزمرہ زندگی کے متعلق باتیں ہے ں اور ان باتوں میں بھی چاشنی تبھی ہوتی ہے جب کوئی آپکا ہم وطن وہم زبان یہ بیان کر رہا ہو ۔ اسرائیل میں ایک پاکستانی کو جو تجربات ہوئے اس کا بیان بلاشبہ اردو زبان کے قارئین کے لیے ایک منفرد تحفہ ہے ۔ کتاب کا انتساب غریب فلسطینوں کے نام لیا گیا ہے جو اپنے وطن میں ہی غریب الدیار ہیں۔ اس سفر نامے کا ایک امتیاز اس میں شامل رنگین تصاویر ہیں جن سے کتاب کا ممہ دوآ تشہ ہو گیا ہے ۔ انتہائی اعلی طباعت اور خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ ’’اسرائیل میں چند روز ‘‘ کیلی فورنیا کے شہربرکلے سے شائع ہوئی ہے۔ کہ ۔ اشرف خود بھی گزشتہ تین دہائیوں سے بر کلے میں ہی مقیم ہیں ۔ امریکہ جلا وطن ہونے سے پہلے وہ پاکستان میں کالم پروفیسر تھے۔ ترقی پسند خیالات او ر تحریروں کی وجہ سے آمر جنرل ضیاء الحق کے عتاب کا شکار رہے اور جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیے گئے۔ کئی ناول تصنیف کیے، اس کے علاوہ افسانہ نگاری و شاعری تو ان کی پہچان پہلے سے تھی اب سفر نامہ نگاری میں بھی ان کا معتبر حوالہ بن گیا ہے۔ سادگی سلامت کے ساتھ ساتھ واقعات میں تسلسل اور تحریر کی روانی قاری کو ’’اسرائیل میں چند روز ‘‘ پڑھتے ہوئے اس طرح جکڑ لیتی ہے کہ کتاب ختم کرنے سے پہلے اسے رکھنے کو جی نہیں کرتا ۔ ایک خاص بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ یہ ہے کہ مصنف نے تاریخ کی بھول بھلیوں میں کھونے کی بجائے آج کے دور پرتوجہ مرکوز رکھی ہے اور تاریخ کے حوالے صرف وہیں دیے ہیں جہاں ناگزیر تھے حالانکہ یروشلم کے سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے یہ قرین قیاس تھا۔ کتاب کے نام پر ایک ممکنہ اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ اس کا نام ’’فلسطین میں چند روز ‘‘ کیوں نہیں ہے۔ مصنف نے اس کا بڑا تسلی بخش اور سادہ جواب دیا ہے کہ میرے پاسپورٹ پر ویزہ اور مہر اسرائیل کی لگی ہے اس لیے بہتر نام بھی یہی لگتا ہے ’’اسرائیل میں چند روز‘‘۔
------
عامر بن علی
’’
یونہی ‘‘
ادریس بابر اکیسویں صدی کے آغاز میں جدید حسیّت کے ایسے باوقار شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں کہ ان کے مصرعوں کا صوتی آہنگ سماعتوں کے پردوں کو ہلکی جنبش دے کر نکلتا ہے اور لفظوں کے رنگوں سے اٹھتی مہک صفحاتِ دل کو پرتالتی جاتی ہے۔ اس دور ملامت میں کہ شاعر جدّت کے نام پر لفظیات کا قتل برسرِ مشاعرہ کرتے ہیں۔ ادریس بابر نے اصل جدید غزل کی ہیئت مقرر کر کے شعر کے رموز اور کیفیات کے اسرار سے پردے اٹھائے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ کسی بھی دور میں بند نہیں ہے راہ سخن۔ کھلا ہوا ہے باب سخن، بس قدرت کی طرف سے اس کا شاعر ہونا ضروری ہے اور یہ عطا ادریس بابر پر خُدا کی طرف سے بے اندازہ ہوئی ہے۔ پوری کتاب میں جذب کی کیفیت اور تاثیر کا لطف ہے۔ ایک دھیمے سے درد کا احساس ہے جو شاعر کی ذات کا گواہ ہے۔ اسے افتخار عارف، اختر عثمان، شہاب صفدر اور بہت دوستوں نے سراہا ہے۔
’’
یونہی‘‘ ادریس بابر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جسے مکتبۂ کاروان نے لاہور سے حال ہی میں شائع کیا ہے۔ ایک سو ستائیس صفحے کی کتاب کی قیمت محض ۲۲۰ روپے ہے۔
-----
علی اکبر ناطق
منتشر مضامین
مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے مصنفین رہے ہیں جو صاحبان قلم کے ساتھ صاحبان سیف بھی تھے۔ ان میں سرفہرست علامہ ابن تیمہ ؒ تھے جو دن کو تاتاریوں کے ساتھ جنگ کرتے اور رات کو کتابیں تصنیف کرتے۔ عسکری حلقوں میں بھی صاحبان قلم رہے ہیں مگر ان میں زیادہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے تھا۔ ان میں فیض احمدفیض، چراغ حسن حسرت ، ضمیر جعفری وغیرہ تھے۔ میجر جنرل شفیق الرحمن جو معروف ترین مزاح نگار ہیں، پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ تاہم عسکری حلقو ں میں کرنل محمد خاں اور لیفٹیننٹ جنرل آغا ابراہیم اکرم کا تعلق اُن عسکری حلقوں سے تھا جو صاحبان قلم و سیف تھے۔ بریگیڈیئر خواجہ طارق محمود کا تعلق اس دوسرے حلقے سے ہے۔ آپ کا تعلق اُن عسکری حلقوں سے ہے جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ آپ نے تحریک پاکستان کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ جب قائد اعظم کی وفات حسرت آیات ہوئی تو آپ فوج کے کراچی کے ٹرانزٹ کیمپ میں موجود تھے ۔ آپ اپنے ایک دوست کے ساتھ سب سے پہلے گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔ تاریخی اعتبار سے آپ کی یہ تصنیف 1857ء کی جنگ آزادی اور اس کے بعد کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ آپ نے آغاز ’’خالد کے نام ایک خط‘‘ سے کیا ہے، خالد کے نام خط میں جو دراصل ایک مضمون کا عنوان ہے، میں تحریک پاکستان کا پس منظر بیان کیا ہے۔ ایک اور مضمون ’’میر سپاہِ ناسزا‘‘ ہے جس میں مشرقی پاکستان کے ۱۹۷۱ء کے المیے کے تاریخی، جغرافیائی ، سیاسی اور نفسیاتی عوامل بیان کیے گئے ہیں۔ ’’آہ وہ تیرنیم کش‘‘ میں پس منظر ، محرکات اور وجوہات کی ناکامی سمیت جنگ آزادی۱۸۵۷ء کے ہر پہلو کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ کون ہے جسے ان دو مضامین کے عنوانات اور نفسِ مضمون سے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد نہ آ رہا ہو :
میرِ سپاہ،ناسزا،لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
’’
عذران کے قتل کرنے میں‘‘۔۔۔۔۔۔ المیہ جلیانوالہ باغ میں کیے گئے قتل عام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ کامیاب خارجہ حکمت عملی کے لوازمات کا ’’جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی‘‘ میں احاطہ کیا گیا ہے، آخر میں ’’بیابہ مجلس اقبال‘‘کے عنوان کے تحت جدید تقاضوں کی روشنی میں علامہ اقبال کی دعوتِ عمل اور فلسفۂ غلبہ کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
بریگیڈیئر خواجہ طارق محمود کا انداز بیان بہت شستہ اور دلکش ہے۔ ان کا تاریخی اور تنقیدی شعور بھی قابلِ توجہ ہے۔ عبارت کو جابجا موزوں اشعار سے مزین کیا گیا۔ ان اشعار میں علامہ اقبال کے اشعار کا پلڑا بھاری ہے۔ پیرایہ اتنا دلچسپ ہے کہ قاری ایک نشست میں کتاب کو ختم کیے بغیر نہیں رہتا۔اس کتاب کو ہر لائبریری میں موجود ہونا چاہیے ۔۔
قاضی محمد عزیز الرحمن عاصم
جرنل آف ریسرچ(اردو (
جرنل آف ریسرچ (اردو) شعبہ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا ایچ۔ای۔سی سے منظور شدہ جرنل ہے۔ اس جرنل کا اجراء سابق ڈین فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ اسلامک سٹڈیز محترم ڈاکٹر انواراحمد اور موجودہ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر روبینہ ترین کی مساعی سے ۲۰۰۱ء میں ہوا۔ اس وقت اس کا نام جرنل آف ریسرچ تھا۔ ۲۰۰۵ء میں جب ہائرایجوکیشن کمیشن نے پہلی مرتبہ اپنے منظور شدہ جرنلز کی فہرست ترتیب دی تو اس کا نام بھی اس فہرست میں موجود تھا۔ اس وقت کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹرانواراحمد کی کوششوں سے اس کو ISBN نمبر بھی الاٹ ہوگیا۔ چونکہ اس جرنل میں اردو ادبیات اور اس سے متعلقہ مباحث کو بنیادی حیثیت دی جاتی ہے اس لیے ۲۰۰۸ء میں ہائرایجوکیشن کمیشن سے اس کا نام جرنل آف ریسرچ(اردو) کے نام سے منظور کرالیا گیا۔ یہ جرنل ۲۰۰۵ء سے ہائرایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ جرنل کے طور پر باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اب تک اس کے ۱۹ شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ ۲۰ واں شمارہ تکمیلی مراحل میں ہے۔ یہ جرنل روشن خیالی اور ترقی پسند اقدار کو فروغ دینے کے لیے تحقیق، تنقید، تدوین، کلاسیکی ادب، جدید ادب، شاعری، نثر، تہذیب، تاریخ، حال اور مستقبل سب کو اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے۔ چنانچہ وہ علمی امانت جسے شعبے کے سابق صدر اور ڈین فیکلٹی آف لینگوویجز اینڈ اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر انواراحمد نے موجودہ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر روبینہ ترین کے سپرد کیا تھا اب وہ اسے اپنی ٹیم ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر محمد آصف اور حماد رسول کے ساتھ بڑے تواتر اور حسن و خوبی کے ساتھ نباہ رہی ہیں۔ ہمارے پیش نظر اس وقت اس جرنل کا ۱۹ واں شمارہ ہے۔ یہ جرنل ۱۴ مقالات اور دو تبصرۂ کتب پر مشتمل ہے۔ اس میں چار مقالات ایسے ہیں جو مقالہ نگاروں نے اپنے نگرانوں کے اشتراک سے لکھے ہیں۔ یہ امر ایچ۔ای۔سی کی ایک تحقیقی شرط کو پورا کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دو مقالات پاکستان سے باہر لکھنے والے محققین کے ہیں(ان میں ایک مضمون انگریزی میں ہے) جس کی بدولت اس جرنل کی حیثیت ایک بین الاقوامی جریدے کی ہو گئی ہے۔ اس میں مغربی استعمار اور اقبال، انجمن پنجاب اور نو آبادیاتی تناظر، اردو شاعری کے انگریزی تراجم ، اٹھارہویں صدی میں اردو شاعری اور تہذیبی وسماجی زوال، وزیر آغاکی انشائیہ نگاری، تاریخ گوئی، حافظ شیرانی کا لسانی نظریہ، ملتان کے ادبی منظرنامے میں کالم محفلیں کا کردار، تاریخ ادب کیسے لکھی جائے؟ تدوین متن، ایرانی شاعرہ قرۃالعین طاہرہ اور نیاز فتح پوری جیسے موضوعات پر نئے تناظر میں تحقیق وتنقید کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ ان موضوعات سے اس کی وسعت اور تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں شاعری، نثر، تہذیب، تاریخ، حال، مستقبل اور معاشرے کی ہمہ ہمی تحقیق وتنقید کے روپ میں ڈھل کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ یوں اس مجلے کا ایک متوازن پیٹرن ابھرتا ہے۔ اس مجلے کا آغاز جن ترقی پسند اور روشن خیال اقدارکی ترویج کے جذبے سے ہوا تھا۔ یہ مجلہ اس کا پورے طور پر مظہر ہے یہ نہ صرف تاریخی سچائیوں کی دریافتِ نو کرتا ہے بلکہ عصری سچائیوں کی بھی نئی دریافت اور چھان پھٹک کرتا ہے۔ آج جبکہ ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کا اعلان کر کے ’’تہذیبی تصادم‘‘ کو ہوا دی جا رہی ہے اور آفاقی تہذیب کے روپ میں نئے نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں عوام الناس کو جکڑا جا رہا ہے تو ایسے میں اسی قسم کے لٹریچر اور نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جو ایک طرف استحصالی طبقوں کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کرے تو دوسری طرف روشن خیال قوتوں اور اقدار کو رائج کرے۔ یہ جرنل اپنے نقطہ نظر اور مواد کے اعتبار سے اسی قسم کی ایک کامیاب کوشش ہے جس کے لیے اس کے کارپردازان مبارکباد کے مستحق ہیں۔
-----
ڈاکٹر محمد آصف
سول سروس لاء ان پاکستان
شہزاد ولنگا ہ کی یہ کتاب وفاقی ،صوبائی خود مختار، نیم خود مختار ،کارپوریشن اور اتھارٹی کے ملازمین کے لیے کارآمد ہے۔ اس کتاب میں ۱۹۷۴ سے لے کر ۲۰۰۸ء تک لاہور ہائی کورٹ ،پشاور ہائی کورٹ ،سندھ ہائی کورٹ ،بلوچستان ہائی کورٹ فیڈرل سروس ٹریبونل کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ۵۰۰۰ کیسز موجود ہیں۔ یہ کتاب لاء کالجوں ،یونیورسٹیوں لائبریریوں کے حوالے سے خاص طور پر قانون کے طالب علموں ،وکلا حضرات اور انتظامی امور پر کام کرنے والوں کے حوالے کے طور پر کام آسکتی ہے ۔ اس کتاب کو ہائر ایجو کیشن کمیشن نے ایل ایل بی کے نصاب میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کتا ب کا اگر اردو زبان میں ترجمہ شائع کر دیا جائے تو اس سے عام قاری بھی استفادہ کر سکے گا۔اس کتاب کو نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے ۔
------
جاوید اختر ملک