غزل
اسیرِ لمحۂ تشکیک ہے اِدھر مت آ
ہر ایک دل ، یہاں تاریک ہے اِدھر مت آ

دھڑک رہا ہے ہر اک دل کسی اشارے پر
ہر ایک سانس یہاں بھیک ہے اِدھر مت آ

کِھلا نہ پُھول کسی شاخ پر ، ہوائے بہار!
کہ حالِ دل زدگاں ٹھیک ہے اِدھر مت آ

اب اُس کی زلفِ پریشاں کو کون سلجھائے
یہاں تو حرص کی تحریک ہے اِدھر مت آ

یہ شہرِ کم نگہاں ہے قدم قدم پہ یہاں
ہر اہلِ درد کی تضحیک ہے اِدھر مت آ

عطاؔ یہ لمحۂ پَرّاں تجھے خبر ہی نہیں
پھر اک سراب کے نزدیک ہے اِدھر مت آ
عطاء الرحمن قاضی
غزل
خواب تھے کاندھے پہ جتنے لا مکانی میں گئے
رنگ جتنے بچ گئے اشکوں کے پانی میں گئے

چھوڑ جائیں گے ہم اپنی آنکھیں اور دل اِس جگہ
پھر دوبارہ جو کبھی اُس دار فانی میں گئے

دل ہوا یا زخم دونوں منزلیں نہ پا سکے
اُس روانی سے ہی لوٹے جس روانی میں گئے

یہ محبت ارتقائی مرحلوں میں ہے ابھی
لوٹ کر آئے نہیں جو خوش گمانی میں گئے

یہ تو اب ملتا نہیں ہے واپسی کا راستہ
ہم وگرنہ اُس کی جانب تھے بے دھیانی میں گئے
حیدر فاروق
غزل
کہ جیسے کنج چمن سے صبا نکلتی ہے
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے

ضرور ہوتا ہے رنج سفر مسافت میں
کہ جیسے چلنے سے آواز پا نکلتی ہے

یہاں وہاں کسی چہرے میں ڈھونڈتے ہیں تمہیں
ہمارے ملنے کی صورت بھی کیا نکلتی ہے

ہر ایک آنکھ میں ہوتی ہے منتظر کوئی آنکھ
ہر ایک دل میں کہیں کچھ جگہ نکلتی ہے

جو ہو سکے تو سنو زخمہ خموشی کو
کہ اس سے کھوے ہوئوں کی صدا نکلتی ہے

ہم اپنی راہ پکڑتے ہیں، دیکھتے بھی نہیں
کہ کس ڈگر پہ یہ خلق خدا نکلتی ہے
ابرار احمد
غزل

پہن  کر  آئی   جو   صد    رنگ  قبا     یاد    تری
بن  گئی   وصل  کی  اس  دل  میں   دعا   یاد   تری

بڑھ گئی  تھی  مرے  رخسار  کی  سرخی  جس    سے
اب  ہے  ٹوٹا  ہوا    وہ    عہدِ    وفا    یاد     تری

دیکھ کر  دستِ  صبا   میں  کف ِ    گُل   کا   ریشم
 دل  میں  رکھ   جاتی  ہے  اک  درد  نیا   یاد   تری

کتنی  بے خواب شبیں  پوچھتی  ہیں  مجھ  سے   سوال
کیوں  نظر آتی   ہے   تعبیر    رسا    یاد    تری

نقشِ  آواز  میں  ڈھلتی  نہیں   ایسے    ہر   صوت 
جیسے   تنہائی    میں     بنتی  ہے  صدا   یاد   تری

اب  مجھے  جادہء   نو   کی  ہے  مسافت    درپیش
بارِ  ماضی  سے کرے  مجھ  کو   رہا    یاد   تری
عابدہ تقی
غزل
حریمِ دل، کہ سر بسر جو روشنی سے بھر گیا
کسے خبر ،مَیں کن دِیّوں کی راہ سے گزر گیا

غُبارِ شہر میں اسے نہ ڈھونڈ جو خزاں کی شب
ہوا کی راہ سے ملا، ہوا کی راہ پر گیا

ترے نوا ح میں رہا مگر میانِ دین و دل
گجر بجا تو جی اُٹھا، سُنی اذاں تو مر گیا

سفید پتھروں کے گھر، گھروں میں تیرگی کے غم
ہزار غم کا ایک یہ کہ تُو بھی بے خبر گیا

نگر ہیں آفتاب کے ، برہنہ گُنبدوں کے سر
سروں پہ نور کے کلس، میں نور میں اُتر گیا
علی اکبر ناطق
کمہار بابا
جانے کب سے ……؟
مٹی سے اک لمس کا رشتہ ہے تیرا
لکڑی کی تھاپی سے جب تو مٹی کوٹا کرتا تھا
میں سکول کا بستہ تھامے تم کو دیکھا کرتا تھا
میرے ساتھ مرے ہمجولی کھڑے کھڑے تھک جاتے تھے
لیکن تیرے ہاتھوں میں اک ڈوری کبھی نہ تھکتی تھی
آج بھی تیرے ہاتھ کے نیچے نرم نرم سا گارا ہے
آج بھی تیرے جسم کے اوپر اک میلا سا تہبند ہے
آج بھی تیرے سینے کے بالوں میں مٹی اٹکی ہے
آج بھی تیرے کاندھوں نے صدیوں کا بوجھ اٹھایا ہے
تو نے اپنی آنکھ میں اب بھی ازل کی رمز چھپائی ہے
آج بھی تیرے ہاتھ میں ڈوری چاقو بن کر چلتی ہے
آج بھی تیرے پائوں چک چک چاک کو خوب چلاتے ہیں
آج تو وقت کے چاک کا پہیا زر کے ہاتھ میں آیا ہے
آج تو تیرے گھگھڑے بابا بے قیمت ہی رکھے ہیں
کون اس سائبر ایج میں بابا دیئے جلانے جاتا ہے
آج تو چینل چینل بابا بات گلوبل ہوتی ہے
اشکرفاروقی
انتربھیتر لوبھ
سارا جیون لوبھ ہے سجنی
سارا جیون لوبھ
راس کا رسیا
گوپی چندر
ماکھن چور بھی لوبھ
لوبھ سمے ہے
لوبھ ہی مایا
لوبھ ہی ہے پر لوک
جیون کا ایک ایک لبھائو
نیل امبر بھی لوبھ
اپرم پار کی لوبھی نائو
لوبھن ہار کھوّیا
دکھ ایک ہے لوبھی جیون
مایا کا اک بوجھ
مایا کارن بھگون جپتا
مکت سورگ بھی لوبھ
نرک ہے سیتیہ
کیسے نکلیں اس میں گھمن گھیر
اشکر فاروقی
گزارش
میںاک الائو ہوں ادھ بجھا سا
کہ جس کی ہوائوں سے دوستی ہے
مجھے سوز بن اب سکون کہاں ہے
جل جل کے جینا ہی میری زندگی ہے

نہیں میںکسی کی راہ کا پتھر
بس اپنی منزل کا ہوں مسافر
یہ میری جسم و جاں کی ڈوری
خیال سے کسی کے بندھی ہوئی ہے

سنو غم کا بادل بھی چھٹ چکا ہے
کڑا تھا موسم جوبدل چکا ہے
میں اپنے آ نسو ہی پی رہا ہوں
کہ یہ زہر ہی اب میری زندگی ہے

                        ثمینہ ریاض