علی اکبر ناطق
متَوَلّی

آغا نجف کی اچانک موت نے مہرالنساء خانم کومفلوج کرکے رکھ دیا۔یعنی جودس ہزار کا مشاہرہ حویلی سے آتا تھا۔ اب اس کی بھی کوئی صورت نہ تھی ۔اُدھر لاکھ سمجھانے پربھی شرف النساء کسی اورکی رکھیل بننے سے انکاری تھی۔ اور خود وہ اس عمر میں دھندہ کرنے سے رہی جب کہ ثمینہ کی عمر ابھی اس قابل نہیں تھی کہ اس کی نتھ کھلوائی جاتی ۔ پھر اُس نے پچھلے دس سال سے کسی اورسے واسطہ بھی تو نہ رکھا کہ کوئی اُس کی پرسش کوآتا۔ کہنے کوتو پینتیس سال سے اِسی ہیرا منڈی میں اُس کا کوٹھا تھا مگر ایرے غیرے کو منہ لگانا توایک طرف کسی دلال سے بھی تعلق نہ کیا۔یہاںتک کہ مجلس،ماتم داری اور منت ووظائف کی تمام رسوم بجائے محلے کے امام باڑے کے مرکزی امام بارگاہ میں جاکر اداکرتی۔دراصل مہروخانم کی نظر میں وہ تصویریں پھرتی تھیں جب وہ اپنی ماںکے ساتھ فیض آبادسے یہاں آئی تھی اورشاہی محلے میں اُن کا کوٹھا گویا ایک دربارتھاجہاںایک سے بڑھ کر ایک، بیسیوں رنڈیاں اُن کے ہاںپناہ لئے ہوئے تھیں۔ ہروقت رقص و آوازکا سامان اورآٹھ پہررونقیں تھیں۔ اگرچہ فیض آباد کی طرح یہاں نواب نہ تھے مگر مہروکی ماں خورشید آرا اب بھی اپنے ہاںکم نسب اور ذلیل کو پھٹکنے نہ دیتی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ اُس کے ہاں آنے والا نواب نہیں تو نہ سہی کم سے کم شرفاء میں تو ہو۔مگر خورشید آرا کے مرنے کے بعد تو اِیسی منحوس ہوا چلی کہ محلہ صرف لُچوںلفنگوں کا اڈا بن کے رہ گیا ۔ حکومت نے ایسے قانون بنائے کہ شرفاء نے آنا بند کردیا۔ البتہ آغا نجف،کہ پرانے ملنے والوں میں تھا جو ایک طرح سے مہروخانم کا داماد بھی تھا،اُس نے آخری دم تک ساتھ نبھایا۔ وہ خود تو نہ آتا تھامگر دس ہزار ماہانہ بھیجتا رہا۔ اب جب کہ آغا نجف کا سہارا بھی نہ رہا۔ تو اس کی نشانی خادم حسین کی کفالت کی فکردامن گیرہوئی۔کوئی چھ مہینے تو اِسی حالت میں گزرے لیکن کب تک ؟ جب جمع شدہ سرمایہ آخری سانسیں لینے لگاتو مہر النساء خانم نے کوٹھے کے باہر پان سگریٹ کا کھوکھا لگا لیا اورکتھا چونا بیچنے لگی ۔ چنددنوں میں کھوکھا چل نکلا اوردن میں دوچار سوآنے لگے یوں یہ فکر تو کسی حدتک کم ہوئی مگر وہ خادم حسین کے حال سے تشویش میں گھلنے لگی جو ابھی تین ہی سال کاتھا۔اسے ثمینہ کی تو کوئی ایسی فکر نہ تھی کہ وقت آنے پر جیسے وہ نقش نین بنا رہی تھی سو آدمی اس کے لئے تیارہوجاتے لیکن وہ سمجھتی تھی کہ خادم حسین نواب کالڑکا ہے اِسے محلے میںنہیں رہنا چاہئے۔ اسی شش وپنج میں ایک سال اور نکل گیا۔ ایک دن اُس نے خادم حسین کو شرف النساء کی گود میں کھیلتے دیکھا تو اُس کا جی بھر آیا اور وہ یہ سوچ کرکُڑھنے لگی کہ ایسا چاند کا ٹکڑا محلے کے شُہدوںاور لفنگوںمیں کیونکر زندگی کاٹے گا۔بالآخر اُس نے شرف النساء سے کہا جس قدر جلدہوسکے لڑکے کو رنڈیوں کی صحبت سے دُور کر  دو ۔آج چھوکرے کی عمر ہی کیا ہے۔ ہوش لینے سے پہلے محلے سے ہٹاؤگی تو پلٹ کر نہ آئے گا۔
لیکن کہاں بھیجوں؟ یہاںتو دُوردُور تک کسی شریف زادے سے تعلق نہیں ۔ البتہ آغا نجف زندہ ہوتے تو ضرور لے جاتے کہ خون کا کچھ توخیال ہوتا ہے،’شرف النساء نے فکر مندی سے جواب دیا‘۔
مگریہاں محلے میں ضرور خراب ہوگا۔ ’شرف النساء کی ماں نے دوبارہ زوردیتے ہوئے کہا ‘ ایک سے ایک بدمعاش رنڈی بیٹھی ہے۔ مَسیں بھیگنے سے پہلے ہی لونڈے کو چاٹ لیں گی۔ دیکھ تو کیسے ہاتھ پاؤں نکال رہا ہے اور پھر میں تو کسی طرح نہ چاہوں گی کہ لڑکا محلے کے رذیلوں میں اُٹھے بیٹھے۔
مگر کہاں بھیجوں؟ کوئی ٹھکانہ بھی تو ہو۔ ’شرف النساء اُکتائے ہوئے لہجے میں بولی‘۔
میں نے ایک جگہ سوچی ہے۔ مہرالنساء نزدیک ہوکرکہنے لگی ، سید صادق تقی ہے نا ،مرکزی حسینیہ امام بارگاہ کا متولّی ۔ لڑکے کو اُس کی کفالت میں دے دیتے ہیں۔ خرچہ چپکے سے بھیجتے رہیں گے ۔ وہیں سے مکتب میں جائے اور وہیں رہے۔ کانوں کان کسی کوخبر نہ ہوگی ۔خود ہم بھی کم ہی واسطہ رکھیںگی۔سیّدزادوں اور شریفوں میں رہے گا تو دنیا کی عزت اور دین کی دولت دونوںپائے گا۔
مگر اماں !شرف النساء بولنے لگی پھرگویا دل ہی دل میں اپنی ماںکی عقل کوداد دیتے ہوئے چپ کرگئی۔ پھراچانک تردّدسے بولی، مگراماںسیّد صادق کیونکر ایک رنڈی کے بیٹے کو لے گا ؟اس کے تو جنموںمیں بھی رنڈیوں سے واسطہ نہیں ۔ ایسا فرشتہ سیرت اور شب  بیدار کیسے ہمارے پاپ کا ذمہ اُٹھائے گا ؟ پھر خادم ابھی چارہی سال کاتو ہے۔وہ تو اِس کی ناک پونچھنے سے رہا۔
تُو فکر نہ کر’ مہرالنساء فیصلہ کن لہجے میں بولی ‘ سیّد تقی سے بات مَیں کروںگی۔ ہماری تو جو قسمت میں لکھا تھا بھوگ لیا پر مَیں  لڑکے کو ذلیل نہ ہونے دوںگی اور پھر اِسی عمر میں یہ یہاں سے نکلے تو اچھا ہے۔
٭                                              
گزشتہ سال اس کڑاکے کی سردی پڑی کہ ہرشے سُکڑ کے رہ گئی۔ مہروخانم جو رات گئے تک کھوکھے پر بیٹھتی تھی اسی سردی سے نمونیے میں گرفتار ہوگئی۔ لاکھ دوادارو کئے مگر افاقہ نہ ہوا ۔ اگرچہ وہ ساٹھ سے اوپر نہ تھی مگر عمر کے اس حصے میں تھی جہاںدواؤںکے ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ قبول نہ ہوئیں اورمہروخانم دس دن کے اندر ہی قضاہوگئی۔اِس اچانک موت نے شرف النساء کو ہلا کے رکھ دیامگراُس نے چند ہی دنوںمیں اپنے آپ کو بحال کیا اور کھوکھے کے کام کو سنبھال کرگھر چلانے کا بندوبست کرلیا۔ وہ خود تو کھوکھے پر بیٹھنے لگی جب کہ گھر کی دیکھ بھال ثمینہ کے حوالے کردی۔ کئی مہینے اِسی طرح معاملہ چلتا رہا اس کے ساتھ ساتھ ثمینہ کی دلچسپیاں بھی بڑھتی گئیں۔ حتٰی کہ مہروخانم کو مرے ابھی سال نہ ہواتھاکہ اُس نے پر نکالنے شروع کردیے ۔ شرف النساء کے لاکھ سمجھانے پر بھی تانک جھانک سے نہ رُکی بلکہ کچھ دنوںسے تو سرعام رنڈیوں کی صحبت پکڑلی۔ شرف النساء نے یہ حالت دیکھی تو فکر میں پڑی۔فوراََ کبیر دلال سے رابطہ کرکے سردار جہانگیر احمد کے ساتھ تین لاکھ کے عوض گانٹھ دی۔ سردار جہانگیر احمد ثمینہ کو اپنی زمینوںپر پتّوکی لے گیا جہاں اُس کے بے شمار باغات تھے۔ اول تین ماہ تک تو ثمینہ کو اپنا کوٹھا یاد آتا رہا لیکن اب آہستہ آہستہ جہانگیر کی ناز برداریوںسے وہ اس جگہ کی عادی ہو گئی پھر اُسے کچھ اور اُمید بھی بندھ گئی تھی کہ شاید جہانگیر اُس سے شادی کرلے اور یہ ہوبھی جاتا کہ قسمت نے ایک اور پلٹا کھایا ۔اُنہیِں دنوںجہانگیر احمد کی ماںکو کسی طرح خبر ہوگئی کہ لاڈلے میاں نے گھر سے بالا بالا رنڈی رکھی ہوئی ہے۔ وہ انہیں قدموں پتّو کی پہنچی اور ثمینہ کو میڈھیوں سے پکڑ کردروازے سے باہر کردیا۔جہانگیرنے اُف تک نہ کی۔ حالانکہ ثمینہ کے پیٹ میں اُس کا چار ماہ کا بچہ ہوچکا تھا۔ جسے اُس نے شادی کی اُمیدپر جننے کا سوچا تھا۔دروازے سے باہر نکلتے ہوئے ثمینہ باربار جہانگیر احمد کا منہ دیکھتی رہی کہ شاید ماں کو کھری کھری سنا دے۔ مگر جہانگیر تو بھیگی بلی بنا کھڑا تھا۔ اپنی ماں کے آگے جیسے کل کا بچہ ہو۔ ثمینہ نے یہ حالت دیکھی تو دونوں کو کوسنے دینے لگی۔اِس نے ایسے مردکہاں دیکھے تھے۔ بالآخرتین حرف بھیج کر کوٹھے پر آگئی۔ ایک دومہینے تو اُسے یہ اُمید رہی کہ شاید جہانگیررابطہ کرے لیکن جب اُدھر سے کسی نے خبر نہ لی تو اِس نے دھندا کرنے کی ٹھان لی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ پیٹ کا بچہ اب چھ مہینے کا ہوچکا تھا لہٰذا مایوس ہوکر کھوکھے کے کام میں شرف النساء کا ہاتھ بٹانے لگی اور دن گزرتے گئے۔
لڑکا پیداہوا تو ثمینہ نے اپنے کام کا آغاز کردیا اگرچہ رکھیل بنانے کو سینکڑوں تیارتھے لیکن اب وہ مستقل کسی کی ہوکے رہنے کو راضی نہ تھی ۔ لہٰذا آلاتِ رباب سے گرد جھاڑ کر ایک سلیقے سے دھندہ شروع کردیا۔ پھرتو چند ہی ماہ میں دُوردُور بات نکل گئی اور محلے میں ایک قسم کی جان آگئی۔        
٭
ایسی عزاداری تو لوگوںنے اپنی ہوش میں دیکھی نہ تھی۔ خادم نے انتظامات کچھ ایسے ڈھب سے کئے کہ ہر آدمی واہ وا کر کے رہ گیا۔ عزاداروںکے لئے شامیانوں اور سبیلوں کا انتظام ، ماتمیوںاورزنجیرزنوںکے لئے فرسٹ ایڈ سے لے کر مکمل میڈیکل سنٹر کا قیام اور چاک چوبند حفاظتی دستے کی عمل داری، ہرکام میں ایک سلیقہ تھا۔ اس کے علاوہ پہلی دفعہ پولیس انتظامیہ سے مل کر مرکزی امام باڑے سے لے کر گول چوک تک کا تمام رستہ دوطرفہ زنجیروں سے باندھ دیا گیا تاکہ جلوس اور ماتمیوں کوکوئی بیرونی رکاوٹ پیش نہ آئے اور وہ خطرے سے دُور رہیں۔ اگرچہ آمدنی سابقہ سے زیادہ نہ تھی مگر حسنِ انتظام ایسا تھا کہ کسی کو شکایت کی گنجائش نہ ہوئی ۔ اُنِہیں پیسوں میں ملک کے نامور ذاکرین، سوز خواں اور نوحہ خواں بلوائے گئے۔ عوام الناس کے لئے دودھ کی سبیلوںکا اہتمام الگ تھا۔ خیر یہ سب تو ایک طرف، اس دفعہ لوگوں نے بھی وہ جوش و خروش دکھایاگویا پورا شہر اثنا عشری ہوگیاہو۔ عزاداروں کا ایسا جم غفیر پہلے کبھی دیکھنے میںنہ آیا تھا۔ دَسویں کو زنجیر زنی اور کوئلوں پہ ماتم تو ایساہوا کہ کسی نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔جس شخص نے پہلے کبھی بغلوں سے ہاتھ نہ نکالے تھے اب وہ بھی سینہ کوبی کرتے نظر آئے۔ ہرایک کا خیال تھا یہ سب اِسی وجہ سے ہوا کہ انتظام اب کے خادم کے ہاتھ میں تھا۔ یوں تو ہر شخص سیّد صادق کی وفات کے بعد خادم سے مشورے کے بغیر امام باڑے یا عزاداری کے متعلق کوئی کام نہ کرتا تھا مگر یہ اہمیت اعجاز رضوی کی شہادت پر اور بڑھ گئی ۔ جب خادم نے اپنی جان پر کھیل کرقاتلوں کا پیچھاکیا اورایک کو مارگرایا۔ اس عمل میں اس کی اپنی ٹانگ بھی زخمی ہوگئی جس کی وجہ سے مہینہ بھر ہسپتال میں رہا۔ اوراس دوران کوئی فرد ایسا نہیں تھاجو خادم کے لئے فکرمند نہ ہوا ہو۔        سادات وغیرسادات سب نے اس کی صحت یابی کے لئے دعا کی اورتیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ صحت مند ہوکر آیا تو ہرایک کو بے پناہ خوشی ہوئی اور اس صلے میں کوثر شاہ نے عزاداری کے انتظامات اُسے سونپ دیے ۔ جس کا نتیجہ توقع سے زیادہ اچھا نکلا۔ ذاکر جیسے ہی مصائب کی طرف پلٹتا سب سے پہلے اِسی کا بین اُٹھتا اور اِس قدر روتا کہ امام باڑے کے درودیوار لرزلرز اُٹھتے ۔ ہرنماز کے وقت رائفل لے کر دروازے پر بیٹھ جاتا اور جب تک ایک بھی فردنمازمیں ہوتا ، محافظت نہ چھوڑتا۔ امام باڑے سے ملحقہ کمرہ اُس کے جینے مرنے کا سامان تھا۔ چونکہ ہوش اِسی کمرے میں سنبھالے  تھے لہٰذا ایک قسم کا وہ اُس کا اپنا گھر تھا اورکبھی یہ گمان بھی نہ رہا کہ یہ جگہ امام باڑے کی ہے۔ کمیٹی نے خادم حسین کا ماہانہ آٹھ ہزارمشاہرہ مقررکردیا جو اس سے پہلے سیّد صادق تقی کو ملتا تھا۔ دوسرا کام کمیٹی نے یہ کیا کہ وہ خادم کی شادی کے بارے میں بھی صلاح مشورے کرنے لگے اور جب اس کی خبر شرف النساء کو ہوئی تو وہ سجدے میں گرپڑی۔ خادم حسین کو اگرچہ کئی سبب سے یہ معلوم تھا کہ اُس کا سلسلہ ہیرامنڈی سے ہے مگر اُس نے کبھی شرف النساء کے ساتھ اس طرح کی بات نہ کی تھی اور نہ ہی شرف النساء نے اس موضوع کو کبھی چھیڑا۔ ماںبیٹے کے درمیان گویا ایک خاموش سمجھوتا تھا۔ البتہ ہرماہ اپنی ماں کو اُن آٹھ میں سے چارہزار باقاعدگی سے دیتا تھا۔ خادم اپنی خالہ کی عزت بھی ویسے ہی کرتا جیسے شرف النساء خانم کی کرتا۔اُسے شاید اُن کے دھندوںسے کوئی غرض نہ تھی۔بلکہ ہرطرف سے بے نیازایک ہی دُھن تھی کہ امامِ مظلوم کی عزاداری اب کے کیسے زورشور سے کی جائے۔ وہ ہمیشہ اُنہیںذرائع پر غور کرتا جو عزاداری سے متعلق ہوتے۔خاص کر ذوالجناح کو سجانے اور زیور سے آراستہ کرنے میں تو ایسا جگرکوخون کرتا کہ عزاداروںکوبھی رشک آنے لگا تھا۔ اُس نے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ ذوالجناح کے زیورات کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا۔ اگرچہ عشرے کے روز ذوالجناح کی باگ پکڑ کر چلنے کی اُسے بہت حسرت تھی لیکن یہ کسی سیّدکا کام ہوتا تھاپھربھی ہر حالت میں ذوالجناح کے ساتھ ساتھ چلتا ۔ الغرض خادم کے بارے میں یہ طے تھا کہ اُسے سوائے عزاداری کے کسی سے کچھ غرض نہیں تھی۔      
٭
نعمان سے اُس کا تعلق پچھلے سولہ سال سے تھا۔ جب اُس کی خالہ امام بارگاہ کی زیارت کرنے آتی تو وہ اُس کی گود میں ہوتا۔عَلَم کو بوسہ دیتے وقت گود سے اُتارتی توسیدھا خادم کی طرف بھاگا چلا آتااور پھر خادم گھنٹوں اُسے کھیلاتا، کھلاتا اور چہلیں کرتا۔ نعمان کے خط و خال ایسے تھے کہ کوئی بھی دیکھ کر پیار کیے بنا نہ رہتا۔ تیکھے تیکھے نقوش ماں کی عین چغلی کھاتے۔ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ رنڈی کا بچہ ہے۔ لڑکپن میں داخل ہوا تو دن میں ایک مرتبہ ضرور امام باڑے کا چکر لگاتااور خادم کے پاس گھنٹوں وقت گزارتا۔امام باڑہ اس کے سکول کے رستے میں پڑتا تھا ۔ لہٰذا آتے جاتے امام بارگاہ دوسرا گھر ہوگیا ۔اب نعمان انتظامی معاملات میں خادم کا بہت کچھ ہاتھ بھی بٹانے لگاتھا۔ جس کا فائدہ تو بہرحال تمام کو یکساںتھا۔علاوہ ان باتوںکے سادات اور دیگر شیعہ حضرات کے لڑکے جو نعمان کے ہم عمر تھے اُس کے اس طرح سے دوست بن گئے کہ یہ بھی اُسی طبقے کا حصہ بن گیا جس کااٹھائیس سال پہلے خادم بناتھااور کسی کوخیال بھی نہ رہا کہ نعمان کی ماںدھندا کرنے والی ہے۔البتہ نعمان میں ایک بات خادم سے الگ تھی، وہ لڑکیوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی کوشش ضرورکرتا۔حتیٰ کی ایامِ عزا میں بھی اِدھر اُدھر تاکنے سے باز نہ آتا ۔ جس کی وجہ سے خادم نے اُسے بہت دفعہ ڈانٹا بھی۔ وہ اِس کی ان حرکات سے خوف زدہ تھا مگرنعمان کے اندرکچھ ایسا ضرورتھاکہ وہ کچھ نہ کچھ ظاہر کئے بغیر نہ رہتا۔اب میٹرک کے بعد نعمان کی ماںنے اسے کالج میں داخل کرایا تو اس نے یہ گُل کِھلایا۔     
اصل میںنزہت سے اس کی عشق بازی تو پچھلے چھ ماہ سے جاری تھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ لڑکا تھا بھی طرح دار ،کسی بھی لڑکی کا گرفتار ہوجانا دُور نہیں تھا۔ وہ کتابیں بغل میں دابے جیسے ہی ہیرا منڈی سے کالج کے لئے نکلتا اور ٹھنڈی سڑک پر آتاتودونوں کا آمناسامنا ہوجاتا۔ اوّل اشارے ہوئے ،پھر رقعے پھینکے جانے لگے اور اب بات ملاقاتوں تک آگئی تھی۔لیکن دوسری طرف زمانہ سویا تھوڑا ہی تھا۔ ارد گرد سے ہل چل ہونے لگی ۔ آوارہ اور تلنگوں نے کان کھڑے کرلئے اور جب تحقیق سے بات کھلی کہ لڑکا کنجروںکا ہے تو
اوربھی بھونچال آگیا۔ عزت نے پے درپے جوش کھائے۔ نعوذباللہ ، لاحول ولا کے آوازے بلند ہوئے۔ شرفا نے توبہ توبہ کی اور اس عذاب کو روکنے کے منصوبے ہونے لگے۔ نوجوان مرکزی اصلاحی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل عبد الصمد کے ہاں پہنچے اور معاملہ زیرِ بحث آگیا۔
ایک:      بھائی عبدالصمد غضب ہوگیا۔
دوسرا:     جی اب کے بھی اللہ عذاب نہ بھیجے تو پھر پتا نہیں کیا راز ہے ؟
تیسرا:      راز کیا ہوناہے ۔ اللہ ہماری غیرت کو آزما رہا ہے۔
چوتھا:      دیکھ تو سہی، حرام زادہ ایک تو کنجر ہے اور اُوپر سے شیعہ بھی۔ رفیق بھائی !میںنے اُسے ہمیشہ امام باڑے میں دیکھاہے۔    
تیسرا:      دیکھاہے سے کیا مطلب ؟ پورا کافر شیعہ ہے اور کنجر تو وہ ہے ہی۔
پہلا:       اور اس نزہت بے غیرت کو دیکھو ۔ اس کو یہی حرامی عشق لڑانے کو ملا تھا۔اللہ قسم، پورے شہر میں سنّی مسلمانوں کی ناک کٹوا دی۔میرا بس چلے تو تیزاب میں غوطے دوں۔
عبدالصمد:  بھائیویہ عورت ذات کی کوئی غیرت ویرت نہیں ہوتی۔ کہیں بھی پھسل گئی، پھسل گئی۔غیرت تو مردوں کا خاصاہے اور وہ اللہ کے فضل سے ہم میں ہے۔جبھی تو اس کا سدّباب کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔
دوسرا :    یہاں سنّی لڑکے ایک سے ایک پڑاہے۔ کمینی کو یہ کنجر اورشیعہ ملاتھا ؟
عبدالصمد:  بھائی اب ان باتوں کو جانے دو اورکوئی اقدام کرو۔ میراخیال ہے لڑکی کے والد کو خبردارکرتے ہیں۔
چوتھا:      اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ وہ بھی بے غیرت ہے۔ اور پھر دوسری بات تو یہ ہے کہ اس نومی کو سزا بھی تو دینی ہے۔ جو اب تک یہ جتنی عیاشیاں کرچکا ہے۔
دوسرا:     پھر اب کیا کیا جائے ؟ ناک تو کٹ گئی کوئی ایسا کام کریں جو پورا پورا بدلہ ہو جائے۔
عبدالصمد:  دیکھو بھائی ہم یہ لڑائی دومحاذوں پر لڑیںگے۔ ایک پرتم سب اور دوسری پرمیں ۔پہلی لڑائی تم لڑوگے۔ دوسری میں لڑوںگا۔
اورپھر عبدالصمد نے سب کو ہربات تفصیل سے سمجھا کر رخصت کردیا اور خود اہلسنت کے مرکز ی صدر مولانا عبدالباری کی طرف چل دیا۔دوسرے دن سب نے اپنے اپنے کام کو ذہن میں رکھا اور صبح ہی چمن زار چوک پر اکٹھے ہوگئے۔
دیکھ انعام، آج یہ بچ کے نہ نکلے،تُو شریف کو اپنے ساتھ لے کر بوائز کالج کے گیٹ نمبر دو پر کھڑا ہوجا۔ ہمایوں ،صابر کے ساتھ ٹھنڈی سڑک والی کنٹین پر رستہ داب لے۔میں اور نویدا یہیں آموں کے نیچے تھڑا لگاتے ہیں۔ بس یہ تین ہی راستے نومی کنجر کے بھاگ نکلنے کے ہیں۔ رفیق تالیے نے دوسرے ساتھیوں کوہدایات دیتے ہوئے کمرسے ہنٹر کھول لیا اور اسے ہلکے ہلکے گھمانے لگا۔
رفیق تالیے کی ہدایات پر انتہائی پھرتی سے عمل کیا گیااور سب اپنے اپنے ہنٹر بیلٹ اورچاقو نکال کر تیز آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔ دوسری طرف نومی اس تمام منصوبہ بندی سے بے خبر کمپنی باغ میں برگد تلے انتظار کاٹ رہا تھا۔ آج اس کی نزہت کے ساتھ تیسری ملاقات تھی۔ جواپنی جذباتی حدوں کی طرف راستہ نکال رہی تھی۔نزہت کے اِن دنوں پیپرز ہو رہے تھے لہٰذا اُس نے ساڑھے بارہ بجے پیپر سے فراغت کے فوراََ بعد کمپنی باغ میں ملنے کا وعدہ کیا تھااور یہ لمحے نعمان کے لئے الانتظارُاشدُّ ِمنَ الموت کے مصداق بہت بھاری تھی۔ تھوڑی دیر نزہت کے رومال کو سونگھنے اور چومنے کے بعد اس نے اسے پینٹ کی جیب میں دوبارہ ڈال لیا اور ناخن کٹر نکال کر برگد کے تنے پر حروف کھودنے میں مصروف ہوگیا مگر لمحہ لمحہ بعد اس کی نگاہیں کمپنی باغ کے مشرقی گیٹ کی طرف اُٹھ جاتیں۔  وقت جیسے جیسے قریب آ رہا تھا دل کی دھڑکن تیز ہوئی جاتی تھی۔ اسی بے دھیانی میں کٹرکی نوک اس کی انگلی میں چبھ گئی اور وہ ایک سی کی آواز کی آواز نکال کر رہ گیا۔اسی لمحے اس نے نیلا پیرہن گیٹ کے اندر داخل ہوتے دیکھاتو انگلی کا درد بھول گیا۔ پھر تھوڑے ہی وقت میں دونوں آم کے پیڑتلے باہم ہوگئے اوررومان کی لے چلنے لگی ۔ آہستہ آہستہ نعمان کا سرنزہت کی گود میں اس طرح جا پڑا گویا بے ہوشی کی دوا کھائی ہو۔ اور نزہت کی پتلی،لمبی اور نرم انگلیاں اُس کے بالوں میں ہلکے ہلکے چلنے لگیں ۔ چہارجانب سے بے خبر اسی سرور کے مزے لے رہے تھے کہ بلوہ ہوگیا اور ایک زورکا ہنٹر نعمان کی دائیں ٹانگ پر لگا۔ اسے ایک دم گویا بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ رفیق تالیے نے نزہت کا بازو پکڑ کر ایک طرف کھینچ لیا ۔ نعمان نے آٹھ سات غنڈوں کویوں چھری کانٹے سے لیس دیکھا تو چکراگیا۔ اس نے ایسی بلائیں پہلے کہاں دیکھی تھیںمگر پھر جلد ہی سنبھلا اوراچانک دائیں جانب کے مشرقی گیٹ کی طرف سر پٹ دوڑنے لگا ۔ لڑکوں کو اس سے ایسی توقع نہ تھی کہ یوں رنگے ہاتھوں بھی بھاگ اُٹھے گا ۔ آپا دھاپی میں سب پیچھے بھاگے اور پکڑوبھاگوکا شور بلند ہونے لگا۔ دوپہرایک بجے کا عالم تھا اور کمپنی باغ میں آگے پیچھے دوڑیں تھیں۔ ارد گرد کے لوگ تماشے کو رک رک پڑے ۔ مگرنعمان یہ جا وہ جا، گیٹ پارکرکے جنوبی سمت سے ٹھنڈی سڑک کو کاٹتاہواعطروالوں کی گلی میں جانکلالیکن وہ بھی کب پیچھا چھوڑنے والے تھے برابر چڑھتے گئے ادھر نعمان نے غوطہ کھایا کہ سیدھا کرسچن روڈسے ہوتا ہوا سیّدباقر شاہ کے مکان کو اُلٹے ہاتھ رکھ کر بھاگااورحسینیہ امام باڑے کی گلی میں آگیا ۔ ادھر سب لڑکے چاقوؤں سمیت پیچھے تھے اور خداجانے رستے میں کیسے کیسے نعرے لگاتے آئے کہ امام باڑے تک آتے آتے پیچھا کرنے والے پچاسوں میں ہو گئے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ،سیدھا امام باڑے میں آپناہ لی۔ خادم دروازے پر بیٹھا ظہرین ادا کرنے والے نمازیوں کا پہرہ دے رہا تھا ۔ فوراََ معاملے کی نزاکت کوبھانپ گیااور دروازے پر مزید مستعدہوگیا ۔ اُن میں سے کسی نے اندرآنے کی جرات تو نہ کی البتہ نعرے لگانے شروع کردیے اورنعروںمیں ایسے ایسے لفظ بولنے لگے کہ معاملہ کچھ سے کچھ ہوگیا۔ خادم نے جب بڑھتے ہوئے شور اور ہجوم کو دیکھا تو دروازہ بند کردیا اورنعمان کو زیارات کے کمرے میں بندکرکے تالا لگا دیا۔ باہر دروازے پر نعروں اور ہجوم کا مسلسل اضافہ ہوتا گیا ۔ نمازیوں کو اصل صورت حال کا تو فی الوقت ادراک نہ ہوا البتہ بڑھتے ہوئے شور اور ہنگامے سے بوکھلاگئے اور جلدی جلدی نماز سے فارغ ہوکر حقیقت کا پتہ لگانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں پولیس آگئی جب کہ مجمع سینکڑوں میں جمع ہوکر خداجانے کیا کیا نعرے لگا رہاتھا ۔ جس کی نمائندگی مولانا عبدالباری اورعبدالصمد کررہے تھے۔ معاملہ انتہائی نازک صورتِ حال اختیار کرتا جا رہا تھاجس کی وجہ سے شیعہ سنی فساد کا خدشہ پیداہو گیا ۔پولیس نے یہ صورت دیکھی تو فی الفور طاقت اور آنسوگیس کا استعمال کرتے ہوئے مجمعے کوایک گھنٹے میں منتشر کردیا اور معاملے پر کنٹرول حاصل کر کے اصل صورت کا جائزہ لینے لگے ۔حتیٰ کہ تین گھنٹے کی مسلسل کوششوں کے بعد ساری بات کھل کر سامنے آگئی البتہ اتنی سی تبدیلی کے ساتھ کہ نعمان کنجر ایک شریف گھرانے کی لڑکی کو کالج آتے جاتے تنگ کرتا تھا اور بیہودہ مذاق کرکے اسے دق کرتا تھا ۔ آج سرعام اس کے ساتھ زبردستی کرنے پرتلا ہواتھاکہ ُاسی لمحے چند لوگ پہنچ گئے ۔ وہ جب نعمان کو پکڑنے لگے تو اس نے آکر امام باڑے میں پناہ لے لی اور خادم نے اسے کمرہ زیارات میں چھپا دیا۔ خیر شام کے وقت ایس پی صاحب نے سرکردہ شیعہ سنی افراد پرمشتمل ایک امن کمیٹی قائم کی اور عشا ء تک غیرمشروطی طور پر معاملے کو رفع دفع کرواکے ایک دوسرے کے گلے ملوادیااس طرح یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوگیا اور بات آگے بڑھنے سے رُک گئی۔ مگر دوسرے ہی دن ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن یہ کمیٹی صر ف اورصرف معزز شیعہ افراد پر مشتمل تھی۔ جسے ہنگامی طورپر کوثرشاہ نے قائم کیا تاکہ اس بدنامی کا سدباب کیا جاسکے۔کمیٹی کا اجلاس امام باڑے سے ملحقہ عین اُسی کمرے میں ہوا جو امام باڑے کے متَوَلیّوں کے رہنے کے لئے مخصوص تھا۔سیّدتقی کے بعد جس میں اب خادم حسین رہتا تھا ۔ اجلاس میں موجود تمام افراد کا تعلق عمر کے اس حصے سے تھا جہاں قریب قریب جذبات کا گزر نہیں ہوتااور کسی بھی نوجوان کو شامل نہ کیا گیا تاکہ کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہ ہو ۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر سیّد نذیر حسین نے سکوت توڑااورکوثر شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، شاہ جی سانس تو پہلے ہی اوکھلی میں چلتی ہے ۔ اب یہ نیا قصہ ہماری ساکھ کو جو دھکا دے گیا اس کی کوئی تلافی نہیں ۔ سارے شہر میں گویا امام باڑا بدنام ہوگیا ۔
مرزاصاحب:   میںنے تو پہلے ہی کئی دفعہ کہا تھا کہ ان کنجروں سے رابطہ نہ رکھولیکن یہاں تو ہرآدمی بقراط بنتا  ہے اور ہرچھوٹا بڑاانسانیت کے نغمے گانے لگتا ہے۔
سید شمس الحسن:   مجھے تویہ سمجھ نہیں آتی کہ اس چھوکرے کوایسا کرتب کرکے امام باڑے  میں آنے کی کیا ضرورت تھی ۔ کیا اپنا رنڈی خانہ دُور تھا،اُدھر بھاگ جاتا ۔ اب ہرایک یہی بھونکے گا کہ امام باڑہ تو اصل میں لفنگوں کا اڈا ہے اور یہاں کنجر پناہ لیتے ہیں ۔
سید نذیرحسین:  مجھے تو پہلے دن سے ہی اس لونڈے کے اطوار ٹھیک نہیں لگتے تھے اور اگرسچ پوچھو تو اس پورے قضیے کا ذمہ دار نعمان نہیں خادم ہے۔ جو اول روز سے اسے چھوٹ دیتا رہا اور دن رات امام باڑے کو اس کاگھر بنا دیا۔
علی رضا: اس طرح تو پہلا قصور وار سید صادق تقی تھا جس نے خادم کو جگہ دی۔
سیّدشمس الحسن:  میاں علی آپ تو ہمیشہ اُلٹی ہانکتے ہیں یعنی اب یہاں سیّدتقی کہاں سے آگیا۔ کیا اُس کا یہ گناہ تھا کہ اُس نے ایک رنڈی کے بیٹے کو انسان بنانے کی کوشش کی۔
سید علی حسین:  شاہ صاحب، انسان پھر انسان ہے ۔غلطی ہر ایک سے ہو جاتی ہے ۔ اُس کی سابقہ خدمات کو بھی نظر میں رکھو۔اس معاملے میں خادم کا کیا قصور ہے ؟ بیچارہ تیس سال سے سب کی خدمت میں مصروف رہا۔
سید نذیر حسین:  میاںتم بیٹھے رہو ۔ تمہیں نہیں پتا ؟ یہ اُسی کا خالہ زاد ہے۔ کنجروںکی حمایت پہلے دن سے ہی تمہاری سرشت میں ہے۔ فرض کیا خادم اسے پناہ نہ دیتا تو کیا یہ بدنامی ہوتی۔ اورپھر غضب یہ کیا کہ کمرہء        زیارات میں چھپا دیا ۔ لاحول ولا یعنی پاک جگہ پر نطفہء حرام کو بند کردیا۔ رہی خدمت کی بات؟ تو ہم پر کیا احسان کیا؟ مولا حسین کی عزاداری کی ہے۔
اس اچانک یاد دہانی پرکہ،’نعمان کو دراصل کمرہء زیارات میں چھپایا گیا‘ نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایک دم سناٹا چھا گیا  سب کے چہرے سرخ ہوگئے اورغصے سے کانپنے لگے ۔ بعضوںکے چہروںپر سیاہی پھیل گئی گویا کسی عذاب کی نوید سنادی ہو۔کچھ دل ہی دل میں استغفار پڑھنے لگے اورمدافعت میں بولنے والی تمام زبانیں گنگ ہو گئیں۔
یعنی نعمان کو متبرکات کے درمیان چھپا دیا ؟حرامزادے کو ؟ تم سب پر غازی پاک کا غضب نازل ہو ۔ ابھی تک تم اسی فکر میں ہو کہ اب کرنا کیا ہے ؟ آغا فیروزالحسن غصے سے کانپنے لگا۔ اس حرافہ کے بچے کی تو بوٹیاں نوچ دینی چاہئیں۔ بس نکالو ابھی نکالو ۔ ان دونوں کو۔ اب میں ان کو ایک آنکھ نہیں دیکھنا چاہتا۔
سید کوثر شاہ  ( جو بڑی دیر سے خموش بیٹھا تھا ، تحمل سے پہلو بدل کے بولا)،دیکھو بھائی ، قصہ تو یہ ہے کہ یہ ایک بڑا نامناسب کام ہوا ہے اور پورے شہر میں شیعہ کی بدنامی ہوئی ہے۔ جس میں میراخیال ہے خادم اور نعمان برابر کے ذمہ دار ہیں یعنی غلطی توہر ایک سے ہوجاتی ہے مگر اس طرح امام باڑے کی عزت کو داؤ پر لگانا واقعی ہی گھناؤنا جرم ہے۔ لہٰذا اب آپ کوئی حتمی رائے دے کر فیصلہ کردیں تاکہ آئندہ کے لئے کوئی سد باب ہوسکے۔
حاجی نذیرحسین:  میری تو ایک رائے ہے کہ کوے کو دودھ سے سوسال نہلاؤ وہ کالا ہی رہے گا۔ اس لئے اپنی عزت بچاؤ۔
اس طرح چار گھنٹے کے مسلسل صلاح مشورے سے کمیٹی نے ایک فیصلہ کردیا ۔ جس پر تمام شیعہ معززین اور شرفاء کے دستخط ثبت ہوگئے۔ اور اسی وقت خادم حسین کو بلا کرفیصلہ سنا دیا گیا۔اُسے بتایا گیا کہ آئندہ اُسے مرکزی امام باڑے میںرہنے اورسادات و شرفاء سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں۔ واپس اپنی ماں کے کوٹھے پر چلا جائے۔
جب خادم حسین چابیاں کوثر شاہ کے حوالے کرکے امام باڑے سے نکلا تواُسے ایسے لگا جیسے اُس پر عذاب نازل ہوچکا ہے۔ شرف النساء کے کوٹھے پر پہنچا توایک بار یہ سوچ کر رُک گیا کہ اُسے تو ہیرامنڈی میں رہنے کے آداب ہی نہیں معلوم ۔ تھوڑی دیر خالی الذہن کھڑا رہاپھر بھاری قدموںسے آہستہ آہستہ کوٹھے میں داخل ہوگیا، اپنا سر شرف النساء خانم کی گود میں سر رکھ دیا داورھاڑیںمار کر رونے لگا۔       
٭٭٭