ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی
منٹو ایک نفسیاتی مطالعہ

        ’’ بے مے کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی ‘‘ 
                                    غالب ؔ
جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ نے ایک بار کہا تھا ’’ میں جہاں بھی جاتا ہوں (یعنی اپنی نفسیاتی تحقیق میں جو کچھ دریافت کرتا ہوں) کوئی شاعر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے۔‘‘ اگر ہم فرائڈ کے اس قول میں شاعر کی جگہ ’’فنکار‘‘ کا لفظ استعمال کریں تو غلط نہ ہو گا۔ فنکار جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کی بینائی ، اس کی بصیرت اتنی ہی گہری ہوتی ہے ۔ ایک عظیم فنکار کو نفسیات ، سائنس اور تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس کا تخلیقی مشاہدہ اسے انسان اور وہ دنیا جس میں انسان بستے ہیں ، کی گہرائیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ مشاہدہ اور اس مشاہدے کی مدد سے حاصل کیے گئے بنیادی حقائق ہی ایک فنکار کی عظمت کی دلیل ہوتے ہیں ۔  فنکار کی آواز ، اس کی تخلیق قاری کے دل میں تب ہی اترے گی جب وہی چیز قاری بھی  محسوس کر رہا ہے۔
جیسا غالبؔ نے کہا:
؎ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دِل میں ہے۔
منٹو کی شخصیت کا مطالعہ کہاں سے شروع کیا جائے ؟ شا ید بہتر یہی ہو گا کہ ہم اس سوال کو دو زاو یوں سے دیکھیں : پہلا داخلی اوردوسرا خارجی زاویہ۔ انسانی شخصیت کے حوالے سے اسے  یوں بھی کہا جا سکتا ہے: ذاتی پہلو یعنی ایک انسان کی شخصیت اور اُس کے اندرونی محر کات اور اس کے ساتھ ساتھ ، وہی شخصیت ان رشتوں اور تعلقات کی رو سے جووہ  انسان سماج کے ایک فر د کی  حیثیت سے دوسروں سے قائم کرتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں پہلو ان نظر یاتی حدود کی بھی عکاسی کرتے ہیں جو اُس دور میں رائج تھیں جس میں منٹوؔنے لکھنا شروع کیا ۔ اس وقت فنکاروں (خاص کر مصنفوں اور شعرائ) کے دو گروہ موجود تھے۔ اکثر یت ان فنکاروں کی تھی جنہوں نے سید سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کی قائم شدہ ’’ کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ میں شمو لیت اختیار کرنے کے بعد اشتراکی نقطۂ نظر کو اپناتے ہوئے اپنے فن کو " حقیقت پسندی " اور انسان دوستی کی اقدار کا آئینہ بنایا ۔ دوسرا گروہ تھا جس کے سر براہ ن م راشدؔ اور ثناء اللہ ڈار ’’ میرؔ اجی‘‘ تھے ،  جنہوںنے اس ’’ بیرونی Dictation ‘‘ کو رد کرتے ہوئے اپنے فن میں " انسانی نفسیات کے پُر اسرار عوامل ، اس کے مختلف پہلو ئوں ، فرد کے افعال و اعمال کے مخفی محر کات اور اس معینہ صورت حال جو کسی انسان کو در پیش ہو ‘‘ کی عکاسی کی ۔ ’’ ان کی شاعری مخالف اور بد اند یش دنیا میں انسان کی المناک اجنبیت اور تنہائی کے شدید احساس کی آئینہ دار تھی۔ ‘‘
منٹو ؔ نے اپنے تخلیقی کام کی شرو عات اپنے بزرگ اور دوست عبد الباری علیگ کے زیر اثر ترقی پسند تصانیف سے ہی کی۔ان کا پہلا افسانہ ’’ تماشا ‘‘ سا نئحہ جلیا نوالا باغ کی عکاسی کرتا ہے اور ’’خالص‘‘ ترقی پسند نقطۂ نظر سے لکھا گیا۔ لیکن جلد ہی اس نظر یاتی حد کو پار کر کے انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں لکھنا شروع کر دیا   جو بہت سے ترقی پسند ادباء اور شعرا ء کو نا گوار گزرا۔ منٹو ؔ کے اس نئے اسلوب میں حلقۂ اربابِ ذوق کے فن کی بھی واضح جھلک موجود تھی۔ 
ترقی پسند مصنفین کی نظر میں منٹو ؔ کا جنسی معاملات پر دھیان اور درمیانے طبقے کے معاشی اور سماجی مسائل پر مبنی تحریریں نہ صرف’’ ترقی پسندی‘‘ کے زمرے سے خارج تھیں بلکہ ’’رجعت پسندی ‘‘ اور غیر اخلا قیت کی حدوں میں داخل ہوتی تھیں۔ اسی بنا پر چند ترقی پسند فنکاروں کے پر زور احتجاج کے با وجود ( جن میں فیض احمد فیض ؔسرِفہرست تھے) انہیں ترقی پسندوں کے دائرے سے خارج قرار دے دیا گیا۔ منٹوؔ کو ان نظر یاتی زنجیروں سے کوئی سروکار نہ تھا ۔ انہوں نے بد ستور اپنا کام جاری رکھا اور اردو افسانہ نگاری میں نئی بلند یوں کو چھوا ۔ لیکن اب اپنے موضو ع کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔
جدید نفسیات انسانی شخصیت کا تجز یہ دو پہلوئوں سے کرتی ہے۔ ایک نظر یہ جو فرائڈ کی تحلیلِ نفسی Psychoanalysis )) کے زیرِ اثر ہے، یہ بتاتا ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر فعل ، اس کی ہر سوچ ، ہر جذبہ ایسی لا شعو ری طاقتوں کے زیرِ اثر ہوتا ہے جس کا انسان کو خود بھی بہت کم اندازہ ہوتا ہے۔ اس نظر یہ کے مطابق ، پیدائش سے لے کر ۴یا ۵سا ل تک انسانی ذہن میں وہ جذبات اور احساسات پیدا ہوتے ہیں جو اس کے لا شعو ر کا حصہ بنتے ہیں اوربعد کی زند گی میں یہی عوامل اس کے ہر خیال ، ہر احساس اور ہر عمل کا سر چشمہ بھی ہوتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق انسان کی شخصیت کا تجزیہ تبھی ممکن ہے جب ہم ان لا شعوری محر کات کو سمجھیں اور ان  محرکات کی روشنی میں ایک انسان کی زندگی کا مطا لعہ کریں۔ اس نظریے سے ظاہر ہے کہ یہ نقطۂ نظر انسان کی داخلی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے ۔
جدید نفسیات کے ایک اور اہم نظر یے کے تحت لا شعوری مظاہر کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں ۔ یہ نظر یہ جِسے کر داری (Behaviorist )  نظریہ  کہا گیا ہے، اُن اندرونی عوامل سے قطع نظر ، صرف انسان کے بیرونی افعال کے مطالعے سے غرض رکھتا ہے یعنی صرف وہ حرکات جن کا ہم معروضی طور پر مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ اس نظریے کے مطابق کسی انسان کے مطالعے میں ہمیں پوشید ہ لا شعوری عوامل سے کوئی سروکار نہیں ۔  اس مطا لعے کو ہم خارجی مطا لعہ بھی کہہ سکتے ہیں اور یہاں بیرونی عوامل یعنی زیرِ مطالعہ انسان کے خاندانی ، سماجی اور سیاسی حالات بھی کسی حد تک ہماری تفتیش کا حصہ بنتے ہیں ۔
اول الذکرنظر یہ ہمیں منٹو کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
ان کی بہن ناصرہ بتاتی ہیں۔ ’’ جان خطا تھی اس کی میاں جی کے ڈر سے ۔پتنگ اُڑا رہا تھا ایک روز ، میاں جی آگئے ۔ اتنے میں چھت سے کوُد پڑا۔ چوٹ آئی لیکن کیا مجال کے ’’ ِسی ‘‘ تک کی ہو۔‘‘   ان تاثرات سے ظاہر ہے کہ منٹوؔکا اپنے والد کے ساتھ رشتہ عزت اور خوف پر مبنی تھا ۔ منٹو ؔ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ پدرانہ شفقت کی یہ کمی اس کی والدہ  بی بی جان نے پوری کی۔
سعادت اور اس کے والد کا رشتہ  اس لیے دلچسپی کا حامل ہے کہ یہیں سے ہم فرائڈ کے نظر یات کے مطابق منٹوؔکی شخصیت کے پس ِپر دہ پہلو ئوں کا مطالعہ شر وع کر سکتے ہین ۔ فرائڈ کا ایڈ یپس کمپکس ‘‘ (Oedipus Complex )کا نظر یہ  بتاتا ہے کہ ایک لڑکا نو عمری میں ( یاد رہے کہ فرائڈ یہاں تین سے چھ سال کی عمر کے لڑکے کا ذکر کر رہے ہیں) اپنے باپ سے ڈرتا بھی ہے اور اس کی پیر وی بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بچے کا یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ یہ آدمی جو اس کا ’’ باپ‘‘ ہے ، وہ اُس شخصیت کا ساتھی  اور شریک کار ہے جو بچے کی خالق بھی ہے اور اس کی پہلی اور سب سے گہری محبت بھی ، جو اس کو کھلاتی پلاتی ہے، سلاتی جگاتی ہے ، تکلیف میں اس کی دلجوئی کرتی ہے، المختصر ، جو اس کی زندگی کا مرکز اور محور ہے یعنی اُس کی ماں۔ بقول فرائڈ ، اپنے باپ اور ماں کی  باہمی محبت دیکھ کر بچے میں غصہ اور حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے والدین کی خوشنودی کے لئے دبا دیتا ہے ۔ یہی جذبات اس کے لاشعورکی بنیاد بنتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا، ماضی کی روشنی  میں نفسیاتی تجزیے کرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ منٹوؔ کے افسانوں میں اکثر  مرد  کا کردار ثانوی  حیثیت کا  حامل ہے۔ منٹوؔ کی عورت، چاہے وہ ویشیا ہے یا گھر یلو لڑکی، مر دانہ کرداروں کے مقابلے میں زیادہ با حوصلہ اور پُر عزم ہے ۔ کیا عورتوں کو زیادہ طاقتور دکھا نا اسی لاشعوری عمل کا عکاس ہے جس میں ایک ننھا سعا دت باپ کے ڈر سے کانپ رہا ہے؟کیا منٹوؔ نے اسی خوف کو اپنے افسانوں میں تخلیقی رنگ دے کر پیش کیا ہے؟ ہو سکتا ہے مر دکے کر دار کو قدرے غیر اہم دکھا کر منٹوؔ اسی خوف کا مقابلہ کر رہے  ہوں ۔ جہاں مردوں کے کر دارنما یاں ہیں، وہاں ان کی وحشت اور بر بر یّت اُبل کر سامنے آتی ہے۔ ایشو ر سنگھ (’’ ٹھنڈا گوشت‘‘ ) ، عبدالکریم (’’پڑھیے کلمہ‘‘) وغیرہ ایسے کر دار ہیں جن کے بارے میں پڑھ کر قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ منٹوؔ کی عورتیں اس بر بریّت سے یکساں پاک ہیں۔ رکما بائی (’’ پڑھیے کلمہ‘‘) اور ہلاکت( ’’سر کنڈوں کے پیچھے‘‘) دو ایسے کر دار ہیں جن کو پڑھ کر قاری کا دل دہل جاتا ہے، اس لیے بھی کہ  ہم  ’’صنفِ نا زک ‘ ‘ سے ایسے وحشی سلوک کی تو قع نہیں کر تے لیکن منٹوؔ کے بہترین افسانوں میں مثلاً موذیل ، ہتک ، سو کینڈل پاور کا بلب ، شاداں ، کھول دو، میں عورت کے کر دار کو منٹوؔ نے زیادہ ہمدردی اور محبت سے  پیش کیا ہے۔ منٹوؔ اپنے نسوانی کرداروںکی ،چاہے وہ ویشیا یا قا تل ہی کیوں نہ ہو، ایسی تصو یر بناتے ہیں جو قاری کو اس سے محبت نہ سہی ہمدردی پر ضرور مجبور کر دیتی ہے۔ یہاں نفسیات کی رُو سے کہا جا سکتا ہے کہ منٹوؔ کی تحریر کی یہ خصوصیت اسی محبت اور عقیدت کا نتیجہ ہے جو ان کو اپنی ’’ پہلی محبت‘‘ یعنی اپنی والدہ سے تھی۔
            یہ تو ہوا منٹوؔ کے لا شعوری محرکات کا ایک سر سری سا تجز یہ ۔ اب دوبارہ ان کا حقیقی زندگی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ یہ بات تو     بالکل واضح تھی کہ سعادت میں ذہانت کی کوئی کمی نہ تھی ۔ ان کے بچپن کے حالات نیز اسکول کی تعلیم کے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں تاہم یہ بات درست لگتی ہے کہ سکول سے انہیں شروع سے ہی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور میٹرک تک پہنچتے تک جو تھوڑی بہت دلچسپی تھی وہ بھی ذائل ہو چکی ہے۔
میٹرک میں پہنچنے تک (یعنی ۱۶۔۱۵سال تک کی عمر میں ) روایتی سکول کی پڑھائی سے ان کا دھیان بالکل اٹھ چکا تھا۔ اس وقت بھی ان کو کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے آپ کو ہیڈ ماسٹر کا بیٹا ظاہر کرکے کتب فروشوں سے کتابیں ادھار لے لیا کرتے اور انہیں پڑھ کر سیکنڈ ہینڈ کتا بوں کی دکانوں میں بیچ دیتے اوران پیسوں سے سگریٹ خرید لیتے۔ یہ ان کے والد کی زندگی کے بھی آخری دن تھے۔ ۱۹۳۰ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ اس وقت تک منٹو ؔ دوبار  ایف اے میں فیل ہو چکے تھے اور پڑھائی ، سکول کالج وغیرہ سے نالاں تھے۔ اس کے علاوہ ان کی وہ فطری بے چینی بھی بڑھ رہی تھی جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سر چشمہ بھی تھی اور بعد کی بیماریوں کا سبب بھی ۔ لکھتے ہیں ’’آوارگی کے اس زمانے میں طبیعت ہر وقت اچاٹ اچاٹ سی رہتی ۔ ایک عجیب قسم کی کھدُ بدُ ہر وقت دل و دماغ میں ہوتی رہتی ۔ اس زمانے میں شعر کہنے کی بھی کوشش کی۔ دوستوں کے ساتھ مل کے چرس کے سگریٹ پیئے۔ کوکین کھائی۔ شراب پی مگر جی کی بے کلی دوُر نہ ہوئی"۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس اضطراب اور بے چینی پر کچھ غور کریں گے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست اس بیماری سے ہے جس نے جواں عمری میں ہی منٹو ؔکی جان لے لی یعنی شراب کی لتَ۔ نفسیاتی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ بیشتر لوگ جو نشے کے عادی ہوتے ہیں ، ان کو کسی قسم کی نفسیاتی الجھن یا بیماری کا سامنا بھی ہوتا ہے ۔ اس میں سب سے عام اداسی (Depression ) اور پریشانی (Anxiety )کی بیماریاں ہیں۔ Anxietyکی علامات میں گھبراہٹ ، بے چینی ، نیند کا نہ آنا ، بھوک نا لگنا، جسمانی بے چینی وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سی دوسری اشیاء کی طرح شراب بھی ایک سکون آور شے ہے۔ عام آدمی شراب کو پینے کے بعد زیادہ پر سکون اور روز مرّ ہ کی فکروں سے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اس کے زیادہ استعمال سے یہی کیفیت الٹ بھی ہو جاتی ہے ۔ ایک شراب کا عادی انسان صبح اٹھتے ہی شراب پینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے بہت سی سنگین اور تکلیف دہ جسمانی علامات شروع ہو جاتی ہیں مثلاً سر کا درد، پٹھوں کا کھچائو ، متلی یا قے آنا ، ہاتھ پائوں کا نپنا وغیرہ ۔ ان  شکایات سے بچنے کے لئے وہ شراب کا استعمال کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا جسم شراب کا عادی ہو تا جاتا ہے اور اسے شراب کا اثر حاصل کرنے کے لئے اِس کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ ایسا کرنے سے اس کے جگر، گردے ، دل اور سب عضورفتہ رفتہ فیل ہو نا شروع ہو جاتے ہیں اور اگر مناسب علاج نہ کیا جائے تو موت یقینی ہو تی ہے۔
لیکن منٹوؔ کی یہ بے چینی، جس کا ذکر انہوں نے بعد کی تصانیف میں بھی کیا، آخرکیونکر تھی؟ یہاں ہمیں نفسیات سے تھوڑا ہٹ کر فلسفے کی مدد لینی پڑے گی۔
انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کسی ایک شخص کی زندگی یا بنی نوع انسا ن کی مجموعی زندگی کے وجود کے بارے میںیہ بنیادی سوال اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا تھا جب انسان نے اپنے زمانہ ء طفلی میں خود شعوری حاصل کی تھی یعنی جب انسان نے اپنے دماغ اور ذہانت کی بنا پر اپنے آپ کو حیوانوں سے الگ کر لیا تھا۔ اس سوال کا سب سے قدیم جو اب تو مذہب نے تجویز کیا یعنی یہ کہ انسان کی مختصر دنیاوی زندگی کا مقصد ہے اپنے رب ، بھگوان، اللہ ، ایشور کی پیر وی کرنا ، اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا اور اپنی اگلی ، ابدی زندگی کی تیاری کرنا ۔            تقریباً ۴۰۰سال پہلے بر طانیہ اور مغربی ممالک میں صنعتی انقلاب آیا اورمشینی دور کی داغ بیل پڑی ۔ سائنسی علوم میں اضافے اور فطرت پر کسی حد تک قا بو پانے کے بعد انسان کا وہ بنیادی ڈر جو مذہب کا سر چشمہ ہے، یعنی نا معلوم فطری آفتوں کا ڈر، تھوڑا کم ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ اشتر کیت (Socialism )کے فلسفۂ  حیات نے بھی جنم لیا جس کے مطابق انسانی زندگی کا مقصد کسی فرضی جنت کا انتظار کرنا نہیں ہے۔ بلکہ جدو جہد اور عزم کے ساتھ اسی دنیا میں جنت کا نظارہ پیش کرنا ہے۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ منٹو ؔنے اسی فلسفہ کے تحت لکھنا شروع کیا تھا۔ لیکن یہ فلسفہ بھی انسانیت کی نجات کا پیغام نہیں دیتا ۔ جیسا کہ فیضؔ ،اقبالؔ کے حوالے سے کہتے ہیں ’’ انسانی زندگی مسلسل ارتقا ء کے عمل میں ہے اور بنی نوع انسا ن کے ارتقا ئی امکانات لا متناہی ہیں۔ انسان کی پہنچ  صرف اس دنیا تک نہیں ہے بلکہ کائنات میں مو جود ان گنت اور دنیا ئوں تک بھی ہے۔ جن کی کھوج باقی ہے۔ انسان کی کوئی آخری منزل  مقصود نہیں ہے۔ ارتقا ء کی ہر منزل اگلی منزل کا ایک زینہ ہے ۔ اسی لیے انسان کی ہر فتح ایک ناکامی بھی ہے‘‘  (۳) ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور نقطۂ نظر جو ہمارے موضوع پر پورا اترتا ہے وہ فلسفۂ وجودیت (Existentialism )  ہے ۔منٹوؔ کی بیشتر تصانیف میں اس کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
یہ فلسفہ اٹھا رویں صدی کے فلاسفہ کرک گارڈ (Kierkegaard )، انیسویں صدی میں نٹشے (Nietzsche )اور بیسو یں صدی میں سارٹر (Sartre )سے منسلک ہے ۔ انسان کا یہ فلسفۂ حیا ت زندگی میں کسی بھی ’’معنی‘‘ کو یکسر ٹھکرا کر اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کی زندگی اور اس کے اعمال ہی زندگی کا اصل ہیں ۔ اس میں اچھے برے ، نیک بد، اعلیٰ یا گھٹیا کا کوئی دخل نہیں۔ مزید براں انسانی ز ندگی کے کوئی روحانی یا آفاقی مقصد یا معنی نہیں ہیں۔ انسان دنیا میں آتے ہیں، جیتے ہیں، د نیا وی کاموں سے نپٹتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں، یہی حقیقت ہے۔ کسی انسان کی زندگی کے معنی وہی ہیں جو وہ خود  اسے دیتا ہے ، یعنی ہر انسان کو یہ آزادی ہے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی زند گی کا مقصد خو د تلاش کرے ۔ اس کے علاوہ فلسفۂ وجودیت یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی ہر خواہش ، ہر کاوش ، ہر جدو جہد ، با لآخر بے نتیجہ ہے۔ حیاتِ انسانی کی آخری منزل موت ہے۔ کوئی انسان کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، یہی اس کی حقیقت ہے۔
اس مختصر تحریر میں اس بحث میں جانا ممکن نہیں کہ فلسفۂ وجو دیت کہاں اور کیسے ابھرا ،البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ فلسفہ صنعتی دو ر کے حالات اور ماحول  کے خلاف ایک ردِ عمل تھا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ منٹوؔ کی بیشتر تصانیف اسی فلسفے پر پوری اترتی ہیں۔ اسی دور کے ایک اور عظیم افسانہ نگار پریم چند کے بر عکس منٹوؔ کی تصانیف میں کہیں ہمیں سماج کی برائیوں پر تنقید یا ان سماجی مسائل کے حل کی تجاویز نہیں نظر آئیں گی۔ منٹوؔ کو مسائل کے حل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، وہ صرف ان کی عکاسی کرتے ہیں۔ منٹوؔ اپنے کر داروں سے کوئی تقاریر نہیں کر وا تے ، زمانے کی سفا کی اور بے رخی کے بارے میں کوئی گلہ، دنیا کی بے رحمی کی کوئی شکایت یا ان مسائل کا کوئی حل تجو یز نہیں کرتے۔
منٹوؔ کی آنکھ گویا ایک کیمرہ ہے جو ٹکٹکی باندھے ، بغیر پلک  جھپکے ان کر داروں پر گزرتے ہوئے واقعات کو دیکھ رہی ہے اور بعین ہی ریکارڈ کر رہی ہے۔ افسانہ چاہے کتنا ہی دل دہلا دینے والا کیوں نہ ہو ، منٹوؔ واقعات کو ایک ہموار لہجے میں بیا ن کرتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ کسی واقعے، کسی حادثے پر حیران یا خفا نہیں ہیں۔ ان کے کرد اروں پر گزرنے والا ہر تجربہ ، ہر واقعہ اُس کر دار کی زندگی اور اس کے وجود کاایک حصہ ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ منٹوؔ ، جنہوں نے تقسیم کے وقت ہونے والے ہولناک واقعات کو قریب سے دیکھا ان سے متاثر نہیں ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی بار اپنے اضطراب کا ذکر اپنی تصانیف میں کیا۔ " اِس وقت زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناوا قف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے ۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے یہ زمانہ ناقا بل بر داشت ہے ۔ میری تحریر میں کو نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجود ہ نظام کا نقص ہے ۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا ۔ میں تہذیب و تمدّن کی اور سو سائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ ‘‘
            منٹوؔ کے اس اسلوب ِ تحریر کی کچھ جھلکیاں ملاحضہ ہوں۔
’’ سوا سات بجے پولیس لاش اٹھا کر لے گئی ۔ برف اور خون وہیں سڑک پر پڑے رہے ۔ ایک تانگہ پاس سے گزرا ۔ بچے نے سڑک پر خون کے جمے ہوئے چمکیلے لوتھڑے کی طرف دیکھا ۔ اس کے منہ میں پانی بھی آیا۔ اپنی ماں کا بازو کھینچ کر بچے نے انگلی سے اس طرف اشارہ کیا ’’ دیکھو ممی جیلی‘‘۔  (’’ جیلی ‘‘ 
ــ"شاداں جب گھر پہنچی تو لہو لہان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی وہ بے ہو ش ہو گئی ۔ اس کے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے۔ شاداں کو وہاں ایک لحظے کے لئے ہوش آیا اور اس نے صرف ’’ خان بہادر‘‘ کہا اس کے بعد وہ ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو گئی ۔ جرم بہت سنگین تھا ۔ تفتیش ہوئی ، مقدمہ چلا، صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر ۔ خان بہادر محمد اسلم خان بری ہو گئے ۔ مقدمے میں انہیں بہت کوفت اٹھانی پڑی۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انہوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا۔(’’ شاداں ‘‘  (۷))
اس نے اندر جھانکا ۔ فر ش کا جو حصہ اسے نظر آیا اس پر ایک عورت چٹائی پر لیٹی تھی۔ اس نے اسے غور سے دیکھا۔ سو رہی تھی ۔ منہ پر دوپٹہ تھا ۔ اس کا سینہ سانس کے اتا ر چڑھائو سے ہل رہا تھا۔ وہ ذرا آگے بڑھا ۔ اس کی چیخ نکل گئی مگر اس نے فوراً ہی دبالی ۔ اس عورت سے کچھ دور ننگے فرش پر ایک آدمی پڑا تھا ۔ جس کا سر پاش پاش تھا ۔ پاس ہی خون آلود اینٹ پڑی تھی۔ یہ سب اس نے ایک دم میں دیکھا۔ ‘‘
(’’ سوکینڈل پاور کا بلب‘‘
انسان کا انسان کے ساتھ ظلم ، بے پنا ہ ایثار ، قربانی اور محبت کے ساتھ ساتھ سفا کانہ ظلم ، حیوانی بر تائو اور دوسروں پر مظالم ڈھانے  کی  لا متناہی بھوک ۔ یہ سب انسانی زندگی کا حصہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں ۔ ان حالات میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت لازمی ہے ۔ پھر اس اضطراب اور بے چینی کا کیا حل کیا جائے ؟ منٹوؔ نے ایک حل یہ تلاش کیا کہ اپنے اس آگہی کو شراب کی بوتل میں ڈبونے کی کوشش کی۔ غالبؔنے بھی یہ حل ڈھونڈا تھا لیکن جسمانی مدا فعت کی باعث ان کی صحت پر اس کا وہ اثر نہ پڑا جو منٹو ؔ پر ہوا ۔  منٹوؔ کی زندگی پر میسرمعلو مات سے یہ بات ظاہر ہے کہ زندگی کے آخری چند سالوں میں ان کی شراب نوشی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔ یہ کیفیت ان کے بمبئی سے لاہور منتقل ہو جانے کے بعد اور بھی شدِت اختیار کر گئی تھی۔ بمبئی میں ان کا نام تھا، اچھی آمدن تھی، دوست احباب تھے ۔ لاہور میں نہ تو کوئی ٹھوس آمدن کا ذریعہ تھا اور نہ بہتر ی کی امید ۔ آخری سالوں میں بے چینی اور پریشانی کے ساتھ معاشی بد حالی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ شراب نوشی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اخبار کے دفتر جاتے ، وہیں بیٹھ کر افسانہ لکھتے اور پیسے سے بوتل خرید لیتے ۔ اخبار والوں کو ان کی اس عادت کی خبر تھی اس لیے کئی دفعہ بجائے پیسے کے ، ان کو سستی شراب کی بوتل دے دیتے ۔ کئی بار ہسپتال جانا پڑا ۔ جگر برُی طرح متاثر ہو چکا تھا ۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر وں نے شراب کو ان کے لئے زہر قرار دے دیا تھا ۔
اور وہ یہ زہر پیتے رہے ۔ جنون کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ (شراب کے استعمال سے دماغ بھی متاثر ہوتا ہے ) ، کانوں میں آوازیں آتی تھیں، خیالی شکلیں نظر آتی تھیں ، طرح طرح کے وہم ہوتے تھے اور بہکی بہکی باتیں کر تے تھے۔ ان کی بیوی صفیہ نے کئی بار علاج کر وانے کی کوشش کی، پاگل خانے میں بھی داخل کر وایا ( جس کے بعد انہوں نے اپنا عظیم افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ لکھا) لیکن بے سود۔ اسی حالت میں جگر کی سوزش سے ان کی موت واقع ہوئی۔
ا حمد ندیم قاسمیکے نام ایک خط میں لکھتے ہیں (جنوری ۱۹۳۹ئ) ’’ کچھ بھی ہو، مجھے اطمینان نصیب نہیں ہوا۔ میں کسی چیز سے مطمٔن نہیں ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے کبھی تسکین نہیں ہوئی ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں جو کچھ ہوں جو کچھ میرے اندر ہے، وہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے کچھ اور ہی ہونا چا ہیے ۔ ‘‘
اس مختصر سے جائزے کے بعد آئیے اب دیکھتے ہیں کہ خارجی عوامل نے منٹو کی زندگی اور ان کی شخصیت پر کیا اثر ڈالا۔
بہر حال منٹوؔ کی زندگی میں متواتر اتار چڑھائو آتے رہے جن کی وجہ سے ان کی فطری بے چینی بڑھتی گئی ۔ اس کیفیت کا علاج وہ شراب پی کر کرتے رہے اور اسی لت نے آخر ان کی جان لے لی۔ لاہور کے سالوں میں ان کو اچھی طرح پتا تھا کہ سستی شراب ان کے لئے زہر ہے لیکن پھر بھی باز نہ آئے۔ لکھتے ہیں ’’آپ کو یقین نہیں آئے گا چچا جان ، بیس بائیس کتابوں کا مصنف ہونے کے بعد بھی میرے پاس رہنے کیلئے اپنا مکان نہیں۔ اخبار میں اگر میرا کوئی مضمون چھپ جائے اور سات روپے فی کالم کے حساب سے مجھے بیس پچیس روپے مل جائیں تو میں تانگے پر بیٹھتا ہوںا ور اپنے یہاں کی کشید کر دہ شراب بھی پیتا ہوں۔ یہ ایسی شراب ہے کہ اگر آپ کے ملک میں کشیدکی جائے تو آپ اس ڈسٹلری کو ایٹم بم سے اڑا دیں۔ کیونکہ ایک بر س کے اندر اندر ہی یہ خانہ خراب انسان کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ ‘‘   ( ’’چچا سام کے نام ایک خط‘‘ )
یہ بات تو ہم نے دیکھ لی کہ خارجی حالات کی خرابی نے کس طرح منٹوؔ کو متاثر کیا۔ بچپن میں گھریلو ماحول ، لڑکپن میں سکول اور کالج کی مشکلات ، جوانی میں معاشی بد حالی پھر تقسیمِ ہندوستان اور ہجرت کی تکالیف اور آخری برسوں میںانتہائی معاشی تنگ دستی ، یہ تمام عوامل ان کے لیے بے حد پریشانی اور اضطراب کا باعث بنے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا اثر منٹوؔ پر اتنا منفی کیوں رہا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ہر روز ایسی مشکلوں سے گزرتے ہیں لیکن شراب کے ذریعے خود کشی نہیں کرتے۔
یہ بات یاد رہے کہ منٹوؔ کو آخری ایام میں اچھی طرح علم ہو چکا تھا کہ اگر انہوں نے شراب نہ چھوڑی تو یہ ان کی جان لے کر رہے گی۔ اس کے با وجود وہ پیتے رہے، گویا انہوں نے شعوری طور پر موت کو ترجیح دی ، اسی شخص کی طرح جو پستول لے کر اپنی کن پٹی پر گولی مار لیتا ہے یا چلتی ہوئی ریل گاڑی کے سامنے چھلا نگ لگا دیتا ہے ۔ نفسیاتی اصطلاح میں اس رویہ کو ’’موت کی رو‘‘ (Death Drive )کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ وہ کشش ہے (بقول فرائڈ ) جو ہر زندہ چیز میں کا ر فرما ہے اور اسے ہر لمحہ فنا کی طرف دھکیل رہی ہے۔ فرائڈ نے اس کشش کو تھانا ٹوس (Thanatos )کا نام دیا ہے یعنی یونانی اساطیر کی وہ روح جو موت کا عکس ہے۔ اس کے بر عکس ’’ ایروس‘‘ (Eros )زندگی کی کشش ہے جو زندگی کو پھلنے پھولنے اور قائم رہنے کی ترغیب دیتی ہے(۲۰)۔ اس کا ذکر ہم کچھ آگے چل کر دوبارہ کریں گے۔ فرائڈ کی نفسیات کے مطابق، منٹوؔ کے فطری اور پیدائشی نفسیاتی وجود پر مسلسل خارجی عوامل کے اثر نے بالآخر اس کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ موت کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ کچھ نفسیات دان یہ بھی کہیں گے کہ لاہور میں منٹوؔ کی غیر معمولی تخلیقی پیدا وار (باوجود معاشی بد حالی اور گرتی ہوئی صحت کے) اس بات کی نشانی تھی کہ لاشعوری طور پر وہ نہ صرف اپنی عنقریب آنے والی موت سے با خبر تھے بلکہ اس کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ ایک اور نقطۂ نگاہ فیضؔ نے بھی بیا ن کیا ہے(جو امر تسر میں مختصراًمنٹو کے استاد رہے تھے)۔
’’ منٹو کی وفات کا سن کا بہت دکھ ہوا۔ ہمارے شرفاء جنہیں دور حاضر کے فنکار کی شکت ِدل کا نہ احساس ہے نہ اس سے کوئی ہمدردی غالباً یہی کہیں گے کہ منٹومر گیا تو اس کا اپنا قصور ہے ۔ بہت پیتا تھا، صحت کا ستیا ناس کر لیا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ اس نے ایساکیوں کیا؟  ایسے ہی کٹیس(Keats )نے بھی اپنے آپ کو مار رکھا تھا ۔
بر نز(Burns )نے بھی مو ز ارٹ (Mozart )نے بھی ، اور بھی کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب معاشرتی حالات کی وجہ سے فن اور زندگی ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہوں تو دونوں میں سے ایک کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ دوسری صورت سمجھو تہ بازی کی ہے جس میں دونوں کا کچھ حصہ قربان کرنا پڑتا ہے اور تیسری صورت ان دونوں کو یکجاکر کے جدو جہد کا مضمون پیدا کرنے کی ہے جو صرف عظیم فنکاروں کا حصّہ ہے‘‘۔(۲۱)
منٹوؔ اور جنسی مسائل :
منٹو کی شخصیت کے اس جائزے کے آخر میں اس چیز کا ذکر لازمی ہے جس کے بغیر منٹو ؔ منٹو ؔ نہیں ہے۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں شاید ہی کوئی فنکار ہو گا جس نے مرد اور عورت کے باہمی جنسی تعلق کو اس دلیری سے بیان کیا ہو۔ منٹو ؔ کو پہلی بار پڑھنے والا قاری اس بیباک طرزِ بیان سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ منٹوؔ کی ’’ جنسی ‘‘ تصانیف فن کے دائرے سے نکل کر فحش نگاری کی حدود میں داخل ہوتی ہیں یا نہیں اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ منٹوؔ نے انسانی زندگی کے اس اہم پہلو کی تحقیق اور تفتیش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
اس پہلو کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ منٹو کی شہرت (اور بدنامی) میں جنسی تعلقات کے بیان کی مرکزی حیثیت تھی۔ ان پر چلائے جانے والے تمام مقدمات اسی چیز پر مبنی تھے یعنی یہ تاثر یا الزام کہ منٹوؔ فنکار نہیں فحش نگار ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ منٹوؔ خود اپنے فن کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتے ہیں:  ’’ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ، یعنی تمام مسئلوں کا باپ اس وقت پیدا ہوا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اس وقت پردۂ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مر د کی دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔ ‘‘
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ منٹوؔ نے انسان کی دو فطری جبلتوں کو بڑے اختصار سے بیان کر دیا ہے ۔ یہ بات بہت عرصے سے زیر بحث ہے کہ آیا جنسی کشش بھوک یا پیاس کی طرح ایک بنیادی قوت ہے یا اس کا وجود ثانوی ہے۔ عام مشاہدے سے یہ بات ظاہر ہے کہ اپنے زیادہ تر قی یافتہ دماغ کی بدولت انسان حیوانوں کے مقابلے میں جنسی کشش پر   بہتر قابو پا سکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو لمبے عرصے کیلئے ( یا تاحیات) اسے دبا بھی سکتے ہیں ۔ لیکن اس قسم کی کوشش کا شخصیت یا صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جنسی کشش کو دبانے کے غیر فطری عمل سے شخصیت اور احساسات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ( گو کہ یہ اثرات اتنے مہلک نہیں  ہوتے جتنے کھانے یا پانی کے اجتناب سے)۔ اگر جنسی محرومی شدت اختیار کر جائے تو یہ جسمانی بیماریوں اور جرائم کا سر چشمہ بھی بن سکتی ہے۔ نفسیات دان یہ بھی جانتے ہیں کہ اکثر ذہنی مریض جنسی علامات میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں کے علاج کے لئے سائیکاٹرسٹ یا ماہر ِ نفسیات کے پاس آتے ہیں ۔ جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ بھی جنسی جبلّت کو انسان کی شخصیت اور اس شخصیت کے ارتقا ء کا محور گردانتے ہیں ۔ لطف یہ ہے کہ فرائڈ پر بھی بعین ہی وہی الزام عائد کیے گئے تھے جو منٹوؔ پر لگائے گئے یعنی فحش نگاری اور بد اخلاقی ۔ یہ الزام اس وقت لگے تھے جب فرائڈ نے جنسی قوت جسے انہوں نے لبیڈو(Libido )کا نام دیا ، اُس کو انسانی شخصیت کے ارتقاء کا بنیادی جُز قرار دیا۔
یہ Libidoاسی کشش کا ایک اور روپ ہے جسے فرائڈ نے یونانی اسا طیر کے محبت کے عکس  ’’ ایرو س‘‘Erosکا نام دیا تھا۔ یہ وہ قوت ہے جو زندگی کو فروغ دیتی ہے اور اس کے پھلنے پھولنے میں کار فرما ہوتی ہے۔ 
فرائڈ کے زمانے کے ’’وکٹورین سماج‘‘ (Victorian Society )میں اس کی شدید مذمت کی گئی کیونکہ وہ زمانہ آج کے زمانے کے کچھ معاشروں کی طرح مذہبی اور اخلاقی طور سے بے حد قدامت پسند (Conservative )زمانہ تھا جس میں جنسی کشش کی بات تو کجا، اس کا اعتراف بھی بے حیائی اور فحاشی سمجھا جاتا تھا۔ فرائڈ ایک عقلمند انسان تھے اور ان کو اچھی طرح علم تھا کہ ان کے نظریات خاص کر جنس سے متعلق نظریات اس سماج میں بم کی طرح پھٹیں گے ۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک تحقیقی سائنس دان بھی تھے اور انہیں یقین  تھا کہ تحقیق اور تفتیش انہیں جس نتیجے پر پہنچائے گی، وہ درست ہو گا۔ اس ضمن میں خاص کر ان کی شیر خوار بچوںکی جنسی جبلت (Infantile Sexuality ) پر تحقیق اور مقالوں سے بہت کہرام مچا۔ آج نفسیات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جنسی جبلت پیدائش کے دن سے ہر بچے میں پائی جاتی ہے ۔ والدین کا یہ عام مشاہدہ ہوتاہے کہ شیر خوار بچے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں گو کہ بچوں کی جنسی کشش بالغوں سے قطعی مختلف ہوتی ہے کہ اس کا مرکز کوئی دوسرا شخص یا خاتون نہیں ہوتی ۔ وقت(اور ماں باپ کی بار بار ہدایت) کے ساتھ ،بچوں کی فطری جنسی کشش دب کر ان کے لاشعور میں چلی جاتی ہے اور عنفوانِ شباب کے وقت دوبارہ نمو دار ہوتی ہے۔ یہ عمل کیمیائی اور ہارمونی(Hormonal )تبدیلیوں کے طابع ہوتا ہے اور بڑھتے ہوئے بچے کی شخصیت پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔
مختصراً یہ کہ جنسی جبلّت پیدائش سے موت تک انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ اس سچ کا اقرار کرنا اور پھر سماجی اور خاندانی رشتوں ناطوں میں اس کا صحیح مقام ڈھونڈنا ہر فرد اور ہر معاشرے کیلئے ایک چیلنج رہا ہے۔ اگر ہم اس معاشرے پر نظر ڈالیں جس میں منٹوؔ جوان ہوئے تو وہ یقینی طور پر اخلاقی اور مذہبی قدامت پسندی کا شکار تھا ( اور بہت سے پہلو ئوں سے اب بھی ہے )۔ یہ بھی یاد رہے کہ انہیں رویوں کے ردِّعمل میں 1932میں چار نوجوان مصنّفین نے ایک افسانوں کا مجموعہ ’’ انگارے ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا جو بعد میں ترقی پسند تحریک کی ایک مرکزی تحریر بنا۔          ان سب باتوں سے یہ بات ظاہر ہے کہ منٹوؔ کا اپنی تصانیف میں جنسی محرکات کو ایک مرکزی حیثیت دینا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ انسانی زندگی میں اس جذبے کی بنیادی حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ شعوری طور پر اپنے منجمدمعاشرے کو ہلانا چاہتے تھے اور ایک ایسی حقیقت جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی، کو دوبارہ سامنے لانا چاہتے تھے۔ ان کی اس سچی کوشش کی تصدیق اس وقت ہوئی جب تقسیمِ ہند کے زمانے میں زنا بالجبر اور جنسی تشدد کے ہزاروں دل سوز واقعات پیش آئے ۔ ۱۹۴۷ء کے واقعات نے کم از کم یہ بات تو ثابت کر دی کہ منٹوؔ جن جذبات کی تشریح اپنی تصانیف میں کرتے ہیں ، ان کا وجود ہر سماج کا بنیادی حصہ ہے۔
لیکن اب ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ منٹو خود اس بارے میں کیا کہتے ہیں ـ ـ:  ’’جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل کو پیدا کیا ہے، غلطی پر ہیں کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے اس نئے ادب کو پیدا کیا ہے۔ عورت اور مرد میں جو فاصلہ ہے۔ اس کو عبور کرنے کی کوشش ہر زمانے میں ہوتی رہے گی۔ جو اسے عریانی سمجھتے ہیں، انہیں اپنے احساس کے ننگ پر افسوس ہونا چاہیے۔ ‘‘
منٹو کی تصانیف چاہے کچھ روایتی ’’ ترقی پسند‘‘ فنکاروں کی نظریاتی کسوٹی پر پوری نہ اتری ہوں ، لیکن اپنے زمانے کی بوسیدہ ، زنگ آلود اقدار کو جھنجوڑ کر انہوں نے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں ۔ وہ اپنے آپ کو انقلابی نہ بھی مانیں، لیکن ان کی سوچ اور ان کا کام انقلابی تھا۔ آج اگر جنسی معاملات کا تذکرہ اور جنسی مسائل کی تشخیص کھل کر کی جاتی ہے تو اس کا سہرا منٹو ؔ کے سر بھی ہے۔
’’ انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں جو غلطی ایک مرد کرتا ہے ، دوسرا بھی کر سکتا ہے ۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں۔ لیکن غلط کار انسان نہیں ، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔‘‘
ترقی پسندی کا اس سے بہتر بیان مشکل ہے ۔ منٹو ہر عظیم فنکار کی طرح ہمارے سامنے سچ کے موتی پیش کرتے ہیں ۔ اگر حقیقت ہمیں کڑوی لگتی ہے تو اس کے ذمہ دار منٹو نہیں ہیں۔